Monday 4 February 2019

کیا امام حسین کا سر مبارک قاہرہ میں مدفون ہے؟

0 comments
کیا امام حسین کا سر مبارک قاہرہ میں مدفون ہے؟

تحریر: مفتی علی جمعہ (سابق مفتی اعظم مصر)
ترجمہ: شاہد رضا نجمی

سوال: کیا امام حسین کا سر مبارک قاہرہ ، مصر میں مدفون ہے؟
جواب: اولا یہ جان لیں کہ امام حسین کے سر مبارک کا قاہرہ، مصر میں مدفون ہونا ایک تاریخی معاملہ ہے۔شرعی معاملہ نہیں ہے کہ لوگوں پر اس کا اعتقاد رکھنا واجب وضروری ہوجائے۔ اس کے تسلیم وانکار پر ایمان وکفر کا مدار نہیں ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ ’’اہرامات‘‘ مصر میں نہیں ہیں، بلکہ کسی دوسرے ملک میں ہیں، تو کیا اس کی تکفیر کی جائے گی؟ ہرگز نہیں۔ وہ تو محض حقیقت سے ناواقف وناآشنا کہلائے گا۔ 
مؤرخین اور سیرت کی کتابوں کا اس پر اتفاق ہے کہ امام حسین کا جسد اطہر کربلا شریف میں مدفون ہے۔ سر مبارک کو اولا مختلف مقامات پر لے جایا گیا، پھر شہر عسقلان (فلسطین) میں محفوظ رکھا گیا۔ اخیر میں مصر منتقل کردیا گیا۔ مؤرخین کی ایک بڑی جماعت کا یہی موقف ہے۔ جن میں ابن میسر، قلقشندی، علی بن ابوبکر المعروف سائح ہروی، ابن ایاس، شیخ یوسف بن عبداللہ ، المعروف سبط جوزی(م:۶۵۴ھ) اور حافظ شمس الدین سخاوی (م:۹۰۳ھ) بھی ہیں۔ 
مؤرخ مقریزی لکھتے ہیں:
بروز یک شنبہ ۸؍جمادی الآخر ۵۴۸ھ /۳۱؍ اگست ۱۱۵۳ء میں امام حسین کا سر مبارک عسقلان سے قاہرہ منتقل کیا گیا۔ اور یہ منتقلی عسقلان کے والی امیر سیف الممکۃ تمیم کے زیر نگرانی ہوئی۔ ۱۳؍ جمادی الآخر ۵۴۸ھ/ ۲؍ ستمبر ۱۱۵۳ء کو امیر سیف المملکۃ سر مبارک لے کر اپنے محل حاضر ہوئے۔ پھر استاذ مکنون بذریعۂ کشتی باغ ’’کافوری‘‘ لے کر آئے۔ جس کے بعد سرنگ کے راستے سےاسے’’قصر زمرد‘‘ تک لے جایا گیا اور پھر ’’دہلیز خدمت‘‘ نامی مقبرے کے دروازے پر ’’دیلم‘‘ (قاہرہ قدیمہ کا ایک علاقہ) کے گنبد میں سر مبارک کو دفن کردیا گیا۔ شیخ طلائع نے (دولت فاطمیہ کا ایک زیرک وفقیہ وزیر) ’’درب احمر‘‘ کے نزدیک ’’باب زویلہ‘‘ کے باہر سر مبارک سے منسوب ایک مسجد تعمیر کی، جو ’’جامع الصالح طلائع‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔(اور اب ’’مسجد امام حسین‘‘ کے نام سے مشہور ہے) اسی مسجد میں لکڑی کے تختوں پر سر مبارک کو غسل دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سرمبارک اب بھی اسی مسجد میں موجود ہے۔ (تاریخ المقریزی، ۲؍۱۷۱)
آثار قدیمہ کے محققین بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ معروف محققہ سیدہ عطیات شطوی کہتی ہیں کہ امام حسین کا سر مبارک ۸؍ جمادی الآخر ۵۴۸ھ ؍۳۱؍ اگست ۱۱۵۳ء، بروز یک شنبہ امیر سیف المملکۃ تمیم کی نگرانی میں عسقلان سے قاہرہ منتقل کیا گیا اور امیر سیف المملکۃ ۱۳؍ جمادی الآخر ۵۴۸ھ ؍۲؍ستمبر ۱۱۵۳ء کو اپنے محل لے کر حاضر ہوئے۔ جیسا کہ مؤرخ مقریزی کا موقف ہے۔ 
محققین نے لندن میں واقع برطانوی میوزیم سے ابن اورق (م:۵۷۲ھ) کی کتاب ’’تاریخ آمد‘‘ کے ایک قلمی مخطوطے کی بازیافت کی ہے۔یہ مخطوطہ ۵۶۰ھ کا ہے اور برطانوی میوزیم میں’’ نمبر :۵۸۰۳ شرقیات ‘‘کے تحت محفوظ ہے۔ ابن اورق نے اس مخطوطے میں مستند دلائل کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ امام حسین کا سر مبارک ۵۴۹ھ میں مصر منتقل کیا گیا۔ یہ زمانہ خود ابن اورق کا تھا اور سرمبارک کا استقبال کرنے والی جماعت میں ابن اورق بذات خود شریک تھے۔
سابق شیخ ازہر علامہ شبراوی نے ’’الاتحاف‘‘ نامی ایک کتاب تالیف کی ہے، جس میں انھوں نے دلائل کے ذریعے سرمبارک کا قاہرہ میں موجود ہونا ثابت کیا ہے اور اپنی ہم نوائی میں کثیر ائمہ کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں، جن میں امام محدث منذری، حافظ ابن دحیہ، حافظ نجم الدین غیطی، امام مجد الدین بن عثمان، امام محمد بن بشیر، قاضی محی الدین ابن عبد الظاہر، قاضی عبدالرحیم ، عبداللہ رفاعی مخزومی، ابن نحوی، شیخ قرشی، شیخ شبلنجی، شیخ حسن عدوی، شیخ عبدالوہاب شعرانی (م:۹۷۳ھ)، امام عبدالرؤف مناوی (م:۱۰۳۱ھ)، شیخ اجھوری، ابوالمواہب تونسی وغیرہ کے اسما نمایاں ہیں۔ 
فضیلۃ الشیخ محمد زکی الدین ابراہیم نے اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے، جس کا نام ’’رأس الامام الحسین بمشھدہ بالقاھرۃ تحقیقا مؤکدا حاسما‘‘ ہے۔ یہ رسالہ دلائل وبراہین سے بھر پور ہے، جسے پڑھنے کے بعد اطمینان قلبی ضرور حاصل ہوجاتا ہے۔ 
اس مختصر وضاحت سے جمہور مؤرخین کے اختیار کردہ موقف پردل مطمئن ہوجاتا ہے کہ امام حسین کا سر مبارک قاہرہ میں ہی موجود ہے اور پورا قاہرہ اس کے انواروتجلیات سے روشن ومنور ہے۔ والحمد للہ رب العالمین۔ 
واللہ تعالیٰ اعلیٰ واعلم۔
(یہ مضمون سابق مفتی اعظم مصر مفتی علی جمعہ زید مجدہٗ کی کتاب ’’البیان القویم لتصحیح بعض المفاہیم‘‘ سے ماخوذ ہے۔)




Wednesday 12 September 2018

مسئلہ اجتہاد وتقلید امام شعرانی کی نظر میں (المیزان الکبری الشعرانیۃ کے حوالے سے)

0 comments
مسئلہ اجتہاد وتقلید امام شعرانی کی نظر میں
المیزان الکبری  الشعرانیۃ  کے حوالے سے
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-----------------------------------------------------------------------------
عارف باللہ قطب ربانی امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ العزیز(۸۹۸۔۹۷۳ھ)کا شمار دسویں صدی ہجری کے اکابر علماے شریعت اورارباب طریقت میں ہوتا ہے۔آپ کی زندگی ایک ایسے عالم شریعت کی حیثیت سے شروع ہوتی ہے ،جسے ہمہ وقت علم وفکر ،لوح وقلم اورقیل و قال سے واسطہ رہتاہے۔پھرقسمت یاوری کرتی ہے، امام طریقت عارف کامل شیخ علی الخواص رحمۃاللہ علیہ سے شرف نیاز حاصل ہوتاہے اورازخود آپ کاقبلہ قال سے حال کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ ایک لمبا عرصہ مجاہدہ وریاضت میں بسرکرتے ہیںاورپھر شریعت وطریقت کاامام بن کر سامنے آتے ہیںاورزبان قلم سے وہ گہر ہائے آبدار اورگلہائے رنگارنگ یادگارچھوڑجاتے ہیں، جوارباب علم ودانش اوراصحاب ذوق وشوق کے لیے آج بھی گنجہائے گراںمایہ اورلالہ ہائے سدا بہار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایمان کی گہرائی ،علم کارسوخ ،فکر کی بلندی ،ذوق کی پاکیزگی اور اس پر طرفہ قلم کی آبداری امام شعرانی کوتاریخ اسلام کےان چندممتاز معماروںکی صف میں شامل کرتی ہے جن کے یہاں شریعت و طریقت، قال و حال، علم و عمل، فکرو روحانیت اور ظاہر و باطن کاحسن امتزاج نظرآتاہے۔حجۃ الاسلام امام محمد بن محمدالغزالی قدس سرہ العزیزکے بعد امام شعرانی غالبا وہ پہلے عالم ہیں جنھوں نے اپنی گراں قدرعلمی وفکری تصنیفات کے ذریعے شریعت کے تحفظ کے ساتھ اخلاق واحسان کی اہمیت کوعلمی بنیادوں پراستوار کیا۔بے ذوق علماکی طوطا چشمی اوربے علم صوفیہ کی سیاہ باطنی نے دین کے معاملے میںجوافراط وتفریط کی فضاپیداکی تھی اس کے بیچ سے امام غزالی کے بعد جس دوسرے شخص نے خالص علمی،فکری اورمنطقی طریقے سے اعتدال واقتصاد کی راہ نکالی وہ امام شعرانی ہیں۔دسویں صدی ہجری میںامام شعرانی کی غیرمعمولی علمی خدمات یقینا تجدیدی نوعیت کی ہیں۔آپ کاشمار کثیرالتصانیف صوفی علمامیں ہوتاہے۔آپ کی تصنیفات کی فہرست پرنظرڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کارخش خامہ بالعموم احسان وتزکیہ کی پرنور وادیوں میں دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ موصوف کی جوکتابیں براہ راست احسان وسلوک سے تعلق نہیں رکھتیں وہ بھی ذوق تصوف اورلذت عرفان سے مالامال ہیں۔ممکن ہے اس کی وجہ یہ بھی رہی ہوکہ آپ کےعہد میں ذوق وحال کے بجائے قیل وقال کادور دوراہوگیاتھااوراس مرض ایماں سوز کامداوا آپ کی نظر میںتزکیہ واحسان کے علاوہ کہیں اورموجودنہیںتھا۔شیخ علی الخواص رحمۃاللہ علیہ کابیان ہے:
’’ماوراء النہرکے بعض شافعی اورحنفی علما رمضان کے دنوں میںصرف اس وجہ سے روزہ نہیںرکھتے تھے تا کہ وہ پوری قوت سے ایک دوسرے سےمناظرہ کرسکیں اور فریق مخالف کے دلائل کوپادرہواثابت کرسکیں‘‘
شیخ علی الخواص امام شعرانی کے شیخ ارادت اورمرشد طریقت ہیں اوریہ اقتباس خود امام شعرانی نے اپنی مشہور کتاب المیزان الکبریٰ الشعرانیہ میں نقل کیا ہے،جسے میزان الشریعۃ الکبریٰ سے بھی علما یادکرتے ہیں ۔ شیخ مذکورکامذکورہ بالابیان امام شعرانی کے عہد میں اندھی اور متعصبانہ تقلید کے طوفان کی حکایت کرتاہے۔ امام موصوف کی یہ کتاب در اصل اسی طوفان کی زد میں چراغ جلانے کی ایک مسعود کوشش ہے۔ اس زوایے سے دیکھاجائے توامام موصوف کی یہ تصنیف ان کی تجدیدی بصیرت اوراصلاحی وتاریخی خدمات کاروشن ثبوت ہے۔اندھی مقلدیت، جاہلانہ عصبیت، ائمہ مجتہدین سے سوئے ظن ،جہالت کے عروج اورکورباطنی اوربے ذوقی کے شباب نے جو سوالات جنم دیے تھے امام موصوف نے اپنی اس کتاب میںنہایت علمیت، بصیرت،فکری جولانیت اورقلبی طمانیت وروحانیت سے لبریز عبارت واسلوب میںان کے جوابات دیے، جو بیک وقت قلب ونظر کواپیل کرتے ہیں اورمتعصبانہ تقلید اورجاہلانہ اجتہاد کے بلائوں سے محفوظ کرتے ہیں۔تقلید واجتہاد کے مسئلے میں افراط وتفریط کابازار آج بھی گرم ہے۔ ایک طرف تقلید در تقلید کی زنجیر اتنی مضبوط ہے کہ جیسے علم وفکر کوسزاے عمرقید سنادی گئی ہو اور دوسری طرف جوش اجتہاد کایہ عالم کہ بقول شخصے ابھی بچے کی ناف کازخم بھی خشک نہیںہوتاکہ وہ باپ کا قد ناپتا ہوا نظر آتا ہے۔اسی اجتہاد بے بصیرت کے بارے میں شاعرمشرق علامہ اقبال نے یہ ریمارک دیا ہے:
زاجتہاد عالمان کم نظر
اقتدا بررفتگاں محفوظ تر 
اس اعتبار سے دیکھیے توامام شعرانی کی یہ مایۂ ناز تصنیف دسویں صدی کی نہیں آج کی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے بجاطورپریہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریباًپانچ سوسال کاطویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی میزان الشریعۃ الکبری کی اہمیت کم نہیںہوئی ہے بلکہ بڑھ گئی ہے۔اپنی اس زندہ جاوید تصنیف میں امام موصوف نے جن حقائق کوطشت از بام کیاہے ان کی چند جھلکیاں آنے والی سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔میرے سامنے میزان الکبری الشعرانیہ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت، ۱۹۹۸ء والا نسخہ ہے جس کی تصحیح وتحقیق شیخ عبدالوارث محمدعلی نے کی ہے ۔ مقالے کے جملہ حوالے اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
شریعت عزیمت ورخصت پرمبنی ہے:ـ
’’برادرم !شریعت؛ امرونہی ہردو جہت سے دومرتبے تخفیف وتشدید پر وارد ہے۔ شریعت میںصرف ایک پہلوہی نہیںہے،اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ہرزمانے میں تمام مکلفین ایمانی اور جسمانی اعتبارسے دوہی طرح کے ہوسکتے ہیں ؛قوی یاضعیف۔ان میںجو قوی ہے وہ تشدید سے مخاطب ہے اوراسے عزیمت پرعمل کرنے کاحکم ہے اورجوضعیف ہے وہ تخفیف سے مخاطب ہے اوراسے رخصت پرعمل کرنے کاحکم ہے۔ایسے میںان دونوں میںسے ہرایک اپنے رب کی طرف سے شریعت اوربرہان پرقائم ہیں،لہٰذا قوی کو رخصت کے لیے نیچے آنے کاحکم نہیں دیا جاسکتا اورنہ ضعیف کوعزیمت کے لیے اوپرجانے کامکلف کیاجاسکتا ہے۔(ص:۶)
حضرت امام شعرانی نے تمام احکام شریعت میں مجتہدین کے اختلافات کودورکرنے کایہ نادر اصول پیش کیاہے۔اس اصول کوسمجھ لینے کے بعد علما کے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیںرہ جاتی۔ یہ اختلافات صحت وخطایاراجح اورمرجوح پرمبنی نہیںرہتے،بلکہ دوالگ الگ حالات کے لیے دو الگ الگ حکم کے طور پر نظرآتے ہیں۔جولوگ ا س حقیقت کوسمجھ لیںانہیں یہ جائز نہیںکہ وہ عزیمت پر عمل کی قدرت رکھتے ہوئے اپنے امام کی تقلیدکی وجہ سے رخصت پرعمل کرنے لگیں،یاعزیمت پر قدرت نہ ہونے کے باوجود اپنے امام کی تقلید کوبنیاد بناکر رخصت پرعمل نہ کریں۔یعنی وہ یہ نہ دیکھیں کہ ان کی حالت اصحاب عزیمت کی ہے یااصحاب رخصت کی اوربہرصورت اپنے امام کے فتوے پر عمل کریں اوردوسرے امام کے ارشادکوبہرکیف اپنے لیے شجرممنوعہ سمجھیں۔ ایسا کرنا روا نہیں۔ ایسا کرنا دوسرے امام کی صداقت کوخاموشی کے ساتھ چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ المیزان الکبریٰ کے ذریعے امام شعرانی نے رفع اختلاف کایہی وہ پیمانہ دیاہے جس کے بارے میں خودان کااپنا دعویٰ ہے کہ ان سے پیشترکسی نے یہ بات نہیںکہی۔وہ میزان شریعت کےاس پیمانۂ عظیم کی دریافت پر اللہ کا باربارشکراداکرتے ہیں اوراسے خاص فیضان الٰہی تصورکرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’شریعت امرونہی ہردواعتبار سے دومرتبے تخفیف وتشدید پرواردہے۔قوی تشدید سے مخاطب ہےاوراسے عزیمت پرعمل کرنے کاحکم دیاگیاہے اورضعیف تخفیف سے مخاطب ہے اوراسے رخصت پرعمل کرنے کاحکم دیاگیاہے۔‘‘(ص:۶)
آگے فرماتے ہیں:
’’یہ گراں قدر پیمانہ ہے۔میںنے اس کے ذریعے بظاہرمتضاد دلائل میں موافقت پیدا کرنے اورابتداسے قیامت تک ہونے والے مجتہدین ومقلدین کے اقوال میں تطبیق کی راہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔میرے علم کی حدتک اس معاملے میں ماضی میں کسی نے مجھ پر سبقت نہیں کی ہے۔ بحمداللہ میں اتفاق چاہتا ہوں اوراختلاف کوناپسند کرتاہوں ۔(ص:۷)
اس پیمانے (میزان )کے مطابق جوحضرت امام شعرانی کی دریافت ہے، شریعت کےہر حکم میں دو پہلو ہیں تشدید اور تخفیف، اور دونوں پہلو دو الگ الگ افرادکے لیے ہیں، قوی کے لیے تشدیدی پہلو ہے جب کہ ضعیف کے لیے تخفیفی پہلو۔ ایسانہیں کہ دونوں پہلو سب کے لیے اختیاری ہوں،بلکہ ہرشخص کے حق میں الگ الگ طورپر خواہ تشدیدی حکم واجب ہوگا خواہ تخفیفی حکم، اگروہ عزیمت کی حالت میںہے تواس کے لیےحکم شدیدپرعمل واجب ہے اوراگر وہ رخصت کی حالت میں ہے تواس کے لیےحکم خفیف پرعمل واجب ہے۔امام شعرانی اس معاملے میںاتنا دوٹوک ہیں کہ ان کے بقول عزیمت میں رہنے والے کوعزیمت پرہی عمل واجب ہے،اگرچہ اسے اپنے امام کے خلاف جاناپڑے اوررخصت کی حالت میں رہنے والے کے لیے رخصت پرہی عمل واجب ہے ، اگرچہ اسے اپنے امام کے خلاف جاناپڑے۔فرماتے ہیں:
’’بل اقول ان من الواجب علی کل مقلدمن طریق الانصاف ان لایعمل برخصۃ قال بھاامام مذھبہ الاان کان من اھلھا،وانہ یجب علیہ العمل بالعزیمۃ التی قال بھا غیرامامہ حیث قد رعلیھا۔‘‘(ص:۵۱)
اپنے امام کے فتوے سے قطع نظر،انفرادی طور پرعزیمت یارخصت میںسے کسی ایک کے واجب ہونے کے نظریے پرفطری طورپریہ سوال پیداہوتاہے کہ عزیمت ورخصت تومکلف کے لیے اختیاری ہوتے ہیں، پھران میں ایک کوواجب کرنے کے کیامعنی ہیں؟اس کے جواب میںامام شعرانی نے جوکچھ کہاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ ہم نے عزیمت ورخصت کی اس اصطلاح کے ذریعے جواصول پیش کیاہے وہ شریعت کے عام بظاہر متضاد احکام کے درمیان تطبیق کے لیے ہے اوررہے شریعت کے وہ احکام جن میں بظاہر تضادنہیں ہے بلکہ شریعت نے واضح انداز میںدوآپشن رکھ دیے ہیں ایک عزیمت کاآپشن اوردوسرا رخصت کا،توایسے مسائل ہمارے عام اصول سے مستثنیٰ ہیں۔ ان مسائل میںعزیمت ورخصت میںسے کوئی ایک بھی کسی کے حق میں واجب نہیں ہوگابلکہ دونوں اختیاری ہوںگے۔ان کے لفظوں میں:’’شریعت کے وہ احکام جن میں شریعت نے دو آپشن دیے ہیں ،ان کااس عام اصول سے استثناضروری ہے؛کیوں کہ اس صورت میں قوی کے لیے جائز ہے کہ وہ حکم شدیدپرعمل کی طاقت رکھتے ہوئے بھی رخصت اورتخفیف کے مرتبے پرآکر عمل کرے۔یہ دونوں مرتبے وجوب کے لیے نہیں ہوںگے اختیار کے لیے ہوں گے۔ اوراس کی مثال یہ ہے کہ جیسے خف پہنے شخص جب وضو کررہاہوتواسے اختیار ہے کہ وہ خف اتاردے اورپیروں کودھلے اوریہ بھی اختیار ہے کہ خف نہ اتارے اورمسح کرلے۔ باوجود اس کے کہ ان میںسے ایک اعلیٰ مرتبہ ہے اوردوسرا ادنیٰ ۔‘‘(ص:۱۸،۱۹)
امام شعرانی نے رخصت وعزیمت میں سے کسی ایک کے واجب ہونے کا جوعام اصول پیش کیاہے اس سے ایک دوسری صورت کوبھی مستثنیٰ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں :
’’اس طرح میزان کے دونوں مرتبے میں سے ایک کے حکم وجوبی سے اس صورت کااستثنا بھی کیاجانا چاہیے جس میںشارع سے دو وقتوں میں دو امرکا ثبوت ہواوران میں سے کسی ایک کے لیے نسخ کاثبوت نہ ہو، جیسے کسی وقت میںپورے سرکے مسح کاثبوت ہے اوردوسرے وقت میںبعض سرکے مسح کا ثبوت، اورجیسے کسی وقت وضومیں موالات (پے درپے دھونے)کاثبوت ہے اورکسی وقت عدم موالات کاثبوت ہے۔‘‘دوسطروں کے بعد فرماتے ہیں:’’رہاسیدنا ومولانا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کایہ ارشاد کہ رسول کریم ﷺکے افعال میں آخری فعل ناسخ محکم ہے، تویہ اکثری حکم ہے،کلی نہیں۔‘‘(ص:۱۹)
آگے چل کر اپنی بات واضح کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں:’’عزیمت ورخصت سے ہماری مراد مطلق تشدید وتخفیف ہے۔ وہ عزیمت ورخصت مراد نہیں جن کی تعریف علماے اصول نے اپنی کتابوں میں لکھی ہے۔‘‘(ص:۱۹)
تمام ائمہ برحق ہیں:
خطبۃ الکتاب کے اندر حضرت امام شعرانی رقم طراز ہیں:
’’اللہ نے جنھیں شریعت کے چشمۂ اول پرمطلع فرمایاوہ تمام مجتہدین اورمقلدین کے تمام اقوال کو درست سمجھتے ہیں،کیوںکہ وہ از راہ کشف ومشاہدہ یہ دیکھتے ہیں کہ سارے اقوال شریعت کے چشمے سے ہی پھوٹ رہے ہیں۔‘‘
امام شعرانی نے وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ ہمارامقصدیہی ہے کہ لوگ فقہی معاملے میںمسلکی افتراق وانتشار سے بچیں ۔علمی اختلاف کودینی افتراق کی شکل نہ دیںاورزبانی طورپرجوتمام ائمہ کے برحق ہونے کے قائل ہیں اوریہ بات ان کے گلے سے نیچے نہیںاترتی ،وہ اترجائے اورنفاق خفی کے عذاب سے بچ جائیں ۔ان کے الفاظ ہیں:
’’اس کتاب کی تالیف کے اہم محرکات میں یہ بات بھی تھی کہ میں اپنے بھائیوں کے لیے اس آیت کریمہ کے مقتضاپرعمل کی راہ ہموار کرسکوں:’’تمہارے لیے ہم نے وہ دین مشروع کیاہے جس کاحکم ہم نے نوح کودیاتھا،جس کی وحی تمہاری طرف نازل کی اورجس کاحکم ابراہیم، موسیٰ اورعیسیٰ کودیاکہ دین قائم کرواوراس میں اختلاف پیدانہ کرو۔‘‘(الشوریٰ:۱۳)
اس تصنیف کے پیچھے یہ مقصد بھی تھاکہ مقلدین کاقول کہ تمام ائمہ برحق ہیںان کے دلی اعتقاد کے موافق ہوجائے،تاکہ وہ اپنے ائمہ کے حق ادب کاپاس رکھیںاورآخرت میںاس پر مرتب ہونے والے ثواب سے لطف انداز ہوں اورجوشخص زبانی طورپر تویہ کہتاہے کہ مسلمانوں کے تمام ائمہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پرہیں اوراپنے دل میں اس کااعتقاد نہیں رکھتا،وہ نفاق اصغر سے محفوظ ہوجائے، جس کی مذمت اللہ کے رسولﷺنے فرمائی ہے۔‘‘(ص:۷)
تمام ائمہ کے برحق ہونے کے اعتقاد کاایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ تمام ائمہ مصیب ہوں۔اس لیے کہ اگرسب مصیب نہ ہوں توبعض خاطی ہوںگے پھریہ بات پورے طورپردرست نہ ہوگی کہ تمام ائمہ برحق ہیں۔چنانچہ امام شعرانی نے پوری کتاب میں اس بات پرزور دیا ہے کہ تمام ائمہ مصیب ہیں نہ کہ بعض ۔امام شعرانی کے مطابق’’ جولوگ صرف ایک امام کوبرحق کہتے ہیں وہ ابھی ناقص ہیں،ان کاسلوک مکمل نہیں ہوا ہے۔‘‘(ص:۲۹)
یہاںایک سوال پیداہوتاہے کہ اختلاف شدید کے باوجود یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہرقول مصیب ہو؟اس کاجواب یہ دیاہے کہ ’’چوںکہ ائمہ کے تمام اقوال چشمۂ نبوت سے نکلے ہیں، اس لیے کسی کے خطا ہونے کاکوئی احتمال ہی نہیں ہے۔‘‘اس کاایک جواب یہ بھی دیتے ہیں:’’مسائل شرع میں ہرمجتہدکے حق میںاللہ کاحکم وہی ہے جواس پرواضح ہوا۔ جوبات اس پرظاہر نہیں ہوئی اس کامطالبہ اس سے نہیں ہوگا۔‘‘(ص:۳۴)
داؤدظاہری اوردوسرے ائمۂ مجتہدین کی صداقت:
امام شعرانی نے ائمۂ اربعہ کابطور خاص ذکرکیاہے۔آپ نے بارہا یہ لکھا ہے کہ باقی رہنے والے انہی کے مذاہب ہیں ،مگراس کے باوجودوہ دیگر ائمہ مذاہب کابھی احترام کرتے ہیں،ان کا نام عزت سے لیتے ہیں،سب کوامام ہدیٰ مانتے ہیں اورمذاہب موجودہ اورمذاہب معدومہ سب کی تصدیق وتوثیق کرتے ہیں۔ہمارے یہاں بعض افراد امام دائودظاہری کاذکرکرتے ہوئے صبروتحمل کادامن چھوڑدیتے ہیںجب کہ امام شعرانی ان کا بھی بڑے ادب کے ساتھ ذکر کرتے ہیں ۔ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے بطریق الہام امام دائود ظاہری رضی اللہ عنہ کے ایک قول کی دلیل پرمطلع فرمایا۔ان کاقول ہے کہ چھوٹی بچی جولائق شہوت نہ ہواس کوچھونے سے بھی وضوٹوٹ جاتاہے۔وہ دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قصۂ فرعون میں چھوٹی بچیوں پربھی’’نساء‘‘کے لفظ کااطلاق کیاہے۔’’یذبح ابناء ھم ویستحی نساء ھم(القصص:۴)چوں کہ یہ بات معلوم ہے کہ فرعون ولادت کے بعدہی بچیوں کوزندہ چھوڑ دیتاتھا۔توجس طرح اس آیت میں بچیوں پر’’نساء‘‘کااطلاق ہواہے اسی طرح ’’اولا مستم النساء۔‘‘ (النساء:۴۳)میں بھی اسی پرقیاس کرتے ہوئے بچیوںپر بھی حکم ہوگا۔یہ عمدہ استنباط ہے۔اسے اپنے سواکسی اورکے یہاں میںنے نہیں دیکھا۔‘‘(ص:۱۵)
امام شعرانی نے مختلف نقشوں کے ذریعے محسوس طریقےپر یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تمام ائمہ مجتہدین اورتمام مسالک فقہ برحق ہیں۔ ایک گول نقشہ اس طور پربنایا ہے کہ اس کے بیچ میں ایک گول دائرے کے اندر’’عین شریعت مطہرہ‘‘ لکھاہے اور اس گول دائرے سے مختلف سمتوں میں اٹھارہ جدول نکالے ہیں،ہرجدول میںایک امام کانام ہے۔اس طرح اس مثال سے واضح ہوتاہے کہ مذکورہ ۱۸؍ائمہ میں سے ہرایک کی بنیاد وہی ’’عین شریعت مطہرہ‘‘ہے؛ کیوںکہ اس سے سب کارشتہ براہ راست جڑاہواہے۔اس مثال میں عین شریعت مطہرہ سے جواٹھارہ جدول نکلے ہیں،وہ یہ ہیں:
(۱)مذہب عائشہ (۲)مذہب عبداللہ بن عمر (۳)مذہب عبداللہ بن مسعود (۴)مذہب عطا(۵)مذہب مجاہد(۶)مذہب امام ابواللیث(۷)مذہب دائود(۸)مذہب امام ابوحنیفہ(۹) مذہب امام مالک (۱۰)مذہب امام شافعی (۱۱)مذہب امام احمد(۱۲)مذہب سفیان ثوری (۱۳) مذہب سفیان بن عیینہ (۱۴)مذہب محمدبن جریر(۱۵)مذہب عمر بن عبدالعزیز (۱۶)مذہب اعمش (۱۷) مذہب شعبی (۱۸)مذہب اسحاق۔
ایک دوسرانقشہ بنایا ہے جس میں جنت کے آٹھ دروازے ہیں اوران دروازں پریہ نام ہیں:(۱)امام ابوحنیفہ(۲)امام مالک(۳)امام شافعی(۴)امام احمد(۵)امام دائود(۶)امام ابواللیث (۷)امام اسحق(۸)امام اوزاعی۔
یہ نقشے اپنے آپ میں بہت سے سوالات جنم دیتے ہیں اوربہت سے سوالوں کاخود ہی جواب بھی فراہم کرتے ہیں۔
خاص بندے عین شریعت پر ہوتے ہیں:
میزان الشریعۃ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:
’’حمداللہ کے لیے ہے جس نے شریعت مطہرہ کوایسا سمندربنایاہے کہ علوم نافع کی تمام ندیاں اوروادیاں اسی سے نکلتی ہیں۔پھراس سے دلوں کی زمین پرنالے نکالے اوران سے قریب اوربراہ تقلید دورکے علماکوسیراب کیا،اپنے خاص بندوں میںسے جسے چاہااسے چشمۂ شریعت پر مطلع فرمادیا،مختلف بلادوامصار میں پھیلے احادیث وآثار سے آگاہ کیا اورکشف کے توسط سے شریعت کے چشمۂ اول سے آشناکیاجس سے مختلف ادوار واحوال میں ہرطرح کے اقوال متفرع ہوتے ہیں۔یہ خاص بندے شریعت عظمی کے چشمۂ اول سے براہ راست سیرابی کے معاملے میں مجتہدین امت کے شریک ہوتے ہیں،اگرچہ ان کی نظران مجتہدین کے بہ نسبت محدود ہوتی ہے اورزمانی اعتبارسے یہ موخرہوتے ہیں۔
ایک دوسرے مقام پرلکھتے ہیں:
’’ شیخ محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ اوردوسری کتابوں میںاہل کشف سے روایت کرتے ہوئے لکھاہے کہ جب بندہ کسی ایک مسلک فقہ سے وابستہ رہتے ہوئے اصفیا کے مقامات سے گزرتاہے تولازمی طورپر وہ مسلک اسے اس چشمے تک لے جاتاہے جس سے اس کے امام نے اپنے اقوال اخذکیے تھے۔ اس مقام پروہ دیکھتاہے کہ تمام ائمہ کے اقوال ایک ہی سمندرسے سیراب ہورہے ہیں۔اب یقینی طورپر اس سے اس کے مسلک کی زنجیر ٹوٹ جاتی ہے اور پھر برخلاف اس اعتقاد کے جس پروہ اب تک جماہواتھا،تمام مسالک کی صحت ومساوات کاقائل ہوجاتاہے ۔‘‘
عین شریعت پرپہنچ کرتقلید ساقط ہوجاتی ہے:
امام شعرانی رقم طراز ہیں :
سوال:اگرکوئی کہے کہ جو مقلد ذوق و شوق کے ذریعے آپ کے اس پیمانے تک نہیں پہنچا ہے آپ کے نزدیک اس پراپنے مذہب کے دواقوال یادو صورتوں میںسے راجح پرعمل کرناواجب ہے یا نہیں؟
جواب:ہاں!جب تک وہ اس میزان کے مقام ذوق تک نہیں پہنچاہے اس پرواجب ہے،جیساکہ ہرزمانے میںاسی پرلوگوں کاعمل ہے۔ برخلاف اس کے کہ جب وہ اس پیمانے کے ذوق کوپالے اوراسے علماکے تمام اقوال اوران کے علوم کے تمام سمندر،شریعت کے اولین چشمے سے پھوٹتے ہوئے، اسی سے نکلتے ہوئے اوراسی کی طرف عودکرتے ہوئے نظرآئیں،جیساکہ محسوس مثالوںکے بیان میں اس کاذکر آئے گا؛کیوںکہ اس مقام پرپہنچ کر علماکے تمام اقوال عین شریعت کبریٰ سے متصل نظرآتے ہیں۔ازراہ کشف جوشخص بھی اس پرمطلع ہوگا،وہ دیکھے گاکہ تمام مسالک اورعلماکے تمام اقوال چشمۂ شریعت سے متصل ہیںاوراس سے ایسے ہی جڑے ہیںجیسے سایہ آدمی کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ایسے شخص کوکسی ایک مذہب معین کی پیروی کاحکم نہیں دیاجائے گا؛ کیوںکہ وہ دیکھ رہاہے کہ چشمۂ شریعت سے اخذکرنے کے معاملے میںتمام مسالک مساوی ہیں اورکوئی مسلک فقہ دوسرے سے شرعی لحاظ سے اولیٰ نہیں ہے؛کیوںکہ اس کے نزدیک ہرمسلک عین شریعت سے متفرع ہے،جیساکہ شکاری کے جال کاہرخانہ ،ہرسطح پر،خانۂ اول سے متفرع ہوتاہے۔اگرایسے شخص کوکوئی تقلیدشخصی پرمجبورکرتا ہے تو وہ مجبور نہیںہوگا،جیسا کہ اس کی وضاحت آئندہ ابواب میںہوگی،ان شاء اللہ تعالیٰ۔اس کشف کاحامل یقین کے معاملے میں مجتہدین کے برابر ہوتاہےاوربسااوقات بعض پرفوقیت بھی رکھتاہے؛کیوںکہ وہ اپناعلم براہ راست عین شریعت سے اخذکرتاہے ۔ ایسا شخص اجتہاد کے ان ذرائع کے حصول کامحتاج بھی نہیںہوتا جنھیں علمانے مجتہدکے حق میں مشروط کیاہے۔اس کامعاملہ اس شخص جیساہے جوسمندر کی راہ سے ناواقف ہو،کسی واقف شخص کے ساتھ سمندر چلاجائے اورپھراپنے برتن کواس کے پانی سے بھرلے تواب ان دونوں کے پانی میں کوئی فرق نہیں رہا۔‘‘(ص:۱۶)
امام شعرانی نے اس مقام پر کشف کے دلیل وبرہان ہونے کے سلسلے میںگفتگوکرتے ہوئے لکھاہے کہ:
 کشف میںایک گونہ احتمال ہے کہ اس میں ابلیس کی تلبیس شامل ہوگئی ہو،اس لیے علمانے واجب کیا ہے کہ صاحب کشف،اپنے کشف کوکتاب وسنت پرپیش کرے،اگرشریعت اس کی موافقت کرے توعمل کرے ورنہ اسے چھوڑدے؛کیوںکہ کشف صحیح ہمیشہ شریعت کے موافق ہوتاہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم (ص:۱۷)
اولیاحنفی یا شافعی نہیں ہوتے:
امام شعرانی نے جگہ جگہ لکھاہے کہ تقلید اس وقت تک رہتی ہے جب تک انسان کی عین شریعت کبریٰ تک رسائی نہ ہوجائے ۔جب بندہ اس مقام پرپہنچتاہے جہاں سارے مسالک فقہ چشمۂ نبوت سے پھوٹتے ہوئے نظرآتے ہیںاورسارے ائمہ مصیب وبرحق نظرآتے ہیں تو پھر بندہ تقلید کی زنجیرسے آزادہوجاتاہے۔اس وقت اسے یہ دیکھنا ہوتاہے کہ وہ حالت عزیمت میں ہے یارخصت میں،اورپھراپنے موافق حال فتوے پرعمل کرتاہے،وہ یہ نہیں دیکھتا کہ وہ فتویٰ کس امام کاہے۔
یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ جب اس کشف ویقین کے بعد کہ تمام ائمہ برحق ہیں اورسب کی باتیں چشمۂ نبوت سے ماخوذہیں تقلید کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی توپھرکیاوجہ ہے کہ حضرت غوث اعظم جیلانی اورحضرت سیداحمدرفاعی جیسے بزرگ بھی کسی نہ کسی مسلک فقہ سے منسوب ہوتے ہیں۔کیاان اکابر اولیاکوبھی مشاہدۂ عین شریعت حاصل نہیںتھا؟اس کے جواب میں حضرت شعرانی فرماتے ہیں:
’’جس کوبھی ولایت محمدی کاکوئی درجہ ملتاہے وہ احکام شریعت کووہاں سے لینا شروع کردیتاہے جہاں سے مجتہدین نے لیاہے اوراس سے تقلیدکی گرہ کھل جاتی ہے۔وہ صرف اللہ کے رسول ﷺکامقلدرہ جاتاہےاور بعض اولیا کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ وہ مثلا شافعی یا حنفی تھے توایسامقام کمال تک پہنچنے سے پہلے تھا۔‘‘(ص:۲۸،۲۹)
ایک دوسرے مقام پرلکھتے ہیں:
’’میں نے سیدی علی الخواص رضی اللہ عنہ سے ایک باردریافت کیاکہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کاامام احمد بن حنبل کی تقلیدکرنا یاشیخ محمدشاذلی حنفی قدس سرہ کاامام ابوحنیفہ کی تقلید کرناکیسے درست ہوگا جب کہ یہ دونوں بزرگ قطبیت کبریٰ کے حوالے سے مشہورہیںاوراس مقام کاحامل سوائے شارع علیہ السلام کے کسی اورکا مقلد نہیں ہوتا؟حضرت سیدی علی الخواص رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:ممکن ہے کہ یہ بزرگ مقام کمال تک پہنچنے سے پہلے مقلدرہے ہوں،بعدمیں جب وہ اس مقام پرپہنچ گئے ہوں تواس کے بعد بھی لوگ حنبلی اورحنفی کہتے رہے ہوں جب کہ وہ حقیقت میں تقلید سے باہر آچکے تھے۔‘‘(ص:۳۱)
عالم کے لیے تمام مذاہب ایک مذہب کی طرح ہیں:
امام شعرانی کی کتاب کامرکزی نقطہ اسی حقیقت کوواشگاف کرناہے کہ تمام مذاہب برحق ہیں۔سب بالآخرایک چشمۂ صافی سے سیراب ہوتے ہیں۔ اس لیے ان میں سے کسی کوکسی پر ترجیح نہیںدی جاسکتی۔اس کے ساتھ امام موصوف نے یہ بھی بتایاہے کہ ائمہ کے یہاں جواختلافات نظرآتے ہیںاس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شریعت میں ہرمعاملے میں عزیمت و رخصت دوپہلو ہیں۔ مختلف ائمہ نے اپنے اعتبار سےکسی ایک پہلو کو ترجیح دی ہے، اس لیے حقیقت کے اعتبارسے ان کااختلاف ایساہی ہے جیسے کوئی اختلاف ہی نہ ہو۔سب کاقول درحقیقت چشمۂ شریعت سے مستفاد ہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب تمام اختلافات عزیمت ورخصت کے ہیںتب توہرشخص کے لیے یہ گنجائش نکل آئی کہ چاہے وہ جس قول پرعمل کرے،چاہے توعزیمت پرعمل کرے اورچاہے تورخصت پر،اور اس طرح تمام مقلدین آزادہوجائیں۔
المیزان الکبری الشعرانیہ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ معاملہ ایسانہیں ہے، جولوگ دلائل سے واقف نہیں ہیں انھیں بہرحال کسی امام کی پیروی کرنی چاہیے۔بصیرت اورعلم کے بغیر اس پیروی سے آزاد ی ممکن نہیں۔اس لیے کہ اس آزادی کے معنی یہ ہوںگے کہ ایک عام شخص ائمہ کی تقلید کرنے کے بجائے اپنی خواہشات کاپجاری بن جائے اورواتبع ہواہ (الکہف: ۲۸) کا مصداق ٹھہرجائے۔البتہ وہ عالم،جوائمہ کے دلائل سے واقف ہے، اس کے لیے تمام مذاہب ایک مذہب جیسے ہیں،کسی بھی مسئلے میں وہ یہ دیکھے کہ وہ ارباب عزیمت میںسے ہے یااصحاب رخصت میںسے،اگروہ عزیمت پرعمل کرنے کی اہلیت وصلاحیت کاحامل ہے تواسے عزیمت پرہی عمل کرنا چاہیے،اگرچہ وہ قول اس کے امام کے بجائے دوسرے امام کاہو،اسی طرح اگروہ اصحاب رخصت سےہے کہ اسے عزیمت پرعمل کرنامشکل ہے تووہ پھررخصت پرعمل کرے،اگرچہ وہ قول اس کے امام کے بجائے دوسرے امام کاہو۔فرماتے ہیں:
’’میں یہ نہیں کہتاکہ عزیمت پر عمل کرنے کی قدرت ہوتے ہوئے بھی مکلف کورخصت و عزیمت میںسے کسی پربھی عمل کرنے کااختیار ہے،کیوں کہ اس صورت میںاس کے لیےعزیمت پر عمل کرناہی متعین ہے۔معاذاللہ !میں یہ کیسے کہہ سکتا،یہ تودین کو بازیچۂ اطفال بنانا ہوا،جیساکہ اس کا ذکر ماسبق میں شرح میزان کے ذیل میں ہوچکا۔ رخصت اس شخص کے لیے ہے جوعزیمت پرعمل کرنے سے قطعا عاجزہے،کیوںکہ ایسی صورت میںیہی رخصت اس کے حق میں عزیمت ہے،بلکہ میںتویہ کہتاہوںکہ ازراہ انصاف ہرمقلدپرواجب ہے کہ وہ اپنے امام کے بتائے ہوئے رخصت پرعمل نہ کرے الایہ کہ وہ اصحاب رخصت سے ہو،اوریہ کہ اس پر دوسرے امام کے بتائے ہوئے عزیمت پرعمل کرناواجب ہے،اگروہ عزیمت پرقدرت رکھتاہے؛کیوںکہ بنیادی اصل کے لحاظ سے حکم شارع کی طرف منسوب ہے کسی اورکی طرف نہیں،بطورخاص اس صورت میں جب کہ دوسرے امام کی دلیل زیادہ قوی ہو۔‘‘(ص:۱۵)
امام شعرانی کی یہ بات اوربطور خاص اس کے بعد جوبات کہی ہے وہ ہم میں سے بہتوں کے گلے میں لذیذ مچھلی کےباریک کانٹے کی طرح الجھ جائے گی،فرماتے ہیں:
’’برخلاف اس کے جس پرآج بعض مقلدین قائم ہیں،یہاںتک کہ ان میں سےبعض نے مجھ سے یہاں تک کہاکہ اگرمیں بخاری ومسلم میں بھی کوئی حدیث پالوں جس کومیرے امام نے نہ لیا ہو تو میں اس پرعمل نہیں کروںگا۔یہ اس شخص کی شریعت سے جہالت ہے۔سب سے پہلے خود اس کے امام اس سے اپنی براءت کااظہار کریںگے۔ اس پرواجب یہ ہے کہ وہ اسے اس طور پرلے کہ اس کے امام کووہ حدیث نہ ملی ہوگی یااس حدیث کی صحت اس کے امام کے نزدیک ثابت نہیں ہوئی ہوگی .......کیوںکہ مجھے کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس پر امام بخاری ومسلم نے اتفاق کیاہواورقابل اعتبار ناقدین میں سے کسی نے اس کی تضعیف کی ہو۔علمانے کہاہے کہ کسی کوبھی قول مرجوح پرعمل نہیں کرنا چاہیے الایہ کہ دینی اعتبار سے اس میں زیادہ احتیاط ہو۔‘‘ (ص:۱۵)
حضرت امام شعرانی کی مختلف دوٹوک عبارتوں سے صاف اشارہ ملتاہے کہ حضرت موصوف عوام کے لیے تقلید کو واجب قرار دینے کے باوجود وہ یہ چاہتے ہیںکہ خواص علم وتحقیق کے ذریعے اوربطورخاص سلوک وتربیت اورکشف وشہودکے ذریعے عین شریعت تک پہنچیں اوراس چشمۂ شیریں سے براہ راست سیراب ہوںجس سے ائمۂ مجتہدین سیراب ہوئے۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’حضرت امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے:’’کثرت تقلید بے بصیرتی ہے‘‘ گویا حضرت امام علما کواس بات پر آمادہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے دین کے احکام عین شریعت سے اخذ کریں ،کسی مجتہد کے حجاب کے پیچھے رہ کر تقلید پرقناعت نہ کرلیں۔‘‘(ص:۳۸)
بے ضرورت دوسرے مسلک پرعمل نہ کرے:
امام شعرانی کامیزان کبریٰ اورپیمانۂ عظیم یہ ہے کہ شریعت کے تمام احکام میں شدت اور تخفیف دونوں پہلوہیں۔جوجس کااہل ہووہ اس پرعمل کرے۔سوال یہ ہے کہ ایک شخص شافعی مسلک فقہ سے تعلق رکھتاہے جن کافتویٰ ہے کہ شرم گاہ کوچھونے سے وضوٹوٹ جاتاہے،اس نے اگر شرم گاہ کومس کرلیاتوکیا اسے جائز ہے کہ اس مسئلے میںامام اعظم کے فتوے پرعمل کرلے،جوحکم تخفیف یارخصت پرمبنی ہے،کیوںکہ ان کے فتویٰ کے مطابق شرم گاہ چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ شخص مذکور اگردوبارہ وضوکرنے پر قادر ہے توامام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہوئے بے تجدید وضونماز پڑھنا اس کے لیے روانہیں ہے۔اسی طرح اگرکوئی شافعی المسلک فاتحہ کی تلاوت پرقادرہے تواسے جائز نہیں کے بغیرتلاوت فاتحہ کے نماز پڑھ لے، یا تلاوت قرآن پرقدرت ہوتے ہوئے ذکر الٰہی کرتے ہوئے نماز پڑھے،یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں۔ (ص:۲۳)
امام شعرانی نے یہ بات لکھ کر اندھی غیرمقلدیت کی رگ کاٹ دی ہے،کیوںکہ امام شعرانی کی تحقیق کے مطابق جس طرح تقلیدبے بصارت جائزنہیں،اسی طرح اجتہادبے بصیرت بھی ممنوع وحرام ہے۔
ائمہ کے فتاوی شخصی تھے نہ کہ عمومی:
امام شعرانی نے اس حقیقت کوسمجھانے پرپورا زورصرف کیاہے کہ تمام ائمہ برحق ہیں۔ ان کے تمام اقوال وافعال برحق ہیں۔جوشخص ان کے دلائل کوسمجھ لے اوریہ دیکھ لے کہ کون ساحکم عزیمت اورشدت کاہے اورکون ساحکم رخصت اورخفت کاہے اوروہ پھر اپنی حالت کاجائزہ لے لے کہ وہ عزیمت پرعمل کرنے کی قدرت رکھتاہے یانہیں ،اس کے حق میں حضرت امام فرماتے ہیں کہ اگرعزیمت پرعمل کی قدرت رکھتاہے تووہ عزیمت پرہی عمل کرے، اگرچہ اپنے امام کے خلاف جاناپڑےاوررخصت پرعمل کرنااس کی مجبوری ہوتورخصت پرہی عمل کرے اگرچہ اپنے امام کے خلاف جانا پڑےاوربہرطوروہ حق وہدایت پرہے نہ کہ فسق وضلالت پر۔
یااخی ان کل من فعل الرخصۃ بشرطھااوالمفضول بشرطہ فھوعلی ھدی من ربہ فی ذالک ،ولولم یقل بہ امامہ۔ (ص:۲۰)
’’اے بھائی!جوشخص رخصت کی شرط کوملحوظ رکھتے ہوئےرخصت پرعمل کرے یامفضول کی شرط کی رعایت کرتے ہوئے مفضول پر عمل کرے تووہ اپنے رب کی طرف سے اس معاملے میںہدایت پرہے،اگرچہ وہ اس کے امام کاقول نہ ہو۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر تویہاں تک کہہ دیا:
’’ہرمقلد پریہ اعتقادرکھنا واجب ہے کہ اگراس کے امام کے سامنے اس کی حالت رکھی جاتی جوعزیمت پرعمل کرنے سے قاصرہے تواگرچہ ان کافتویٰ عزیمت کاہے اب وہ رخصت کافتویٰ دیتے جودوسرے امام کاقول ہے۔اورایساوہ دوسرے امام کی تقلید کی بنیاد پرنہیں کرتے بلکہ اس عاجز کے حق میں اپنے اجتہادکی بنیاد پرکرتے۔‘‘(ص:۳۳)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’ ائمہ کے بارے میں ایک واجب الاعتقاد امر یہ ہے کہ وہ حضرات عبادات ومعاملات تمام ابواب فقہ میں ہرشخص کو اس کے مناسب حال تخفیف یا تشدید کافتوی دیتے تھے۔جس کوبھی اس معاملے میںہم سے اختلاف ہو اس پرلازم ہے کہ ائمہ سے اس سلسلے میں کوئی صحیح روایت پیش کرے جس سے معلوم ہوکہ وہ لوگوں کوجوفتویٰ دیاکرتے تھے اسے ہر قوی وضعیف کے حق میںحکم عام سمجھتے تھے۔‘‘(ص:۳۴)
یعنی کسی امام کا فتویٰ اگرعزیمت پرمبنی ہے تواسے صرف اہل عزیمت کے حق میں سمجھا جائے اوراگر رخصت پرمبنی ہے تو اہل رخصت کے حق میں،ائمہ کے فتاویٰ کوحکم کلی کادرجہ نہیں دیا جاسکتا۔ ان کے فتاویٰ سائل کی شخصی حالت کے حالت کے لیےہیں نہ کہ عمومی حالات کے لیے۔
فتویٰ برمذاہب اربعہ:
’’برادرم! یقین جانوکہ شریعت کامطلوب ممکنہ حد تک اتفاق اوررفع اختلاف ہے، جیسا کہ صاحبان زہدوتقویٰ ائمہ مثلاً امام ابومحمدجوینی اوران جیسے علما کا اسی پرعمل رہاہے۔امام ابو محمد جوینی نے المحیط لکھی اوراس میں کسی خاص مسلک فقہ کی پیروی کا التزام نہیں کیا۔‘‘(ص:۲۱)
’’ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ شیخ امام ،عظیم فقیہ ،محدث،مفسر،اصولی شیخ عبدالعزیز دیرینی، شیخ الاسلام عزالدین بن جماعہ مقدسی،علامہ شہاب الدین برلسی المعروف بہ ابن اقیطع رحمہم اللہ تعالیٰ اورشیخ علی بنتیتی مذاہب اربعہ پرفتویٰ دیتے تھے۔شیخ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ایسے علما کی ایک بڑی جماعت کاذکر کیاہے جولوگوں کومذاہب اربعہ پرفتویٰ دیاکرتے تھے،خصوصا عوام کے حق میں جونہ کسی مسلک فقہ سے بندھے ہوتے ہیں،نہ اس کے قواعد ونصوص سے آشنا ہوتے ہیں۔وہ علما فرماتے کہ عوام کاعمل کسی بھی عالم کے قول کے مطابق ہوجائے توپھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگرکوئی یہ کہے کہ ان علماکے لیے یہ کیوںکرصحیح ہواکہ انھوںنے لوگوں کوہر مسلک فقہ کے مطابق فتوی دیاجب کہ وہ مقلد تھے اورمقلدکی شان یہ ہے کہ اپنے امام کے قول سے باہرنہ نکلے تواس کاجواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ وہ اجتہاد مطلق منتسب کے مقام پرفائز ہوں،جواپنے امام کے اصول سے باہرنہیں جاتا،جیسے امام ابویوسف،محمد بن حسن،ابن القاسم،اشہب،مزنی،ابن المنذراورابن سریج۔ان تمام علمانے اگرچہ لوگوںکوایسے فتوے دیے جن کی صراحت ان کے امام نے نہیں کی تھی،لیکن اس کے باوجود یہ اپنے امام کے اصول سے نہیں نکلے۔امام جلال الدین سیوطی نے لکھاہے کہ اجتہاد مطلق کی دوقسمیں ہیں:مطلق غیر منتسب،جس پرائمہ اربعہ فائزہیں اورمطلق منتسب،جس پران کے اکثر اصحاب فائز ہیں،جن کاہم نے ذکرکیا۔‘‘
’’یہ بھی ممکن ہے کہ جو علمامذاہب اربعہ پرفتویٰ دیاکرتے تھے،اللہ نے انھیں شریعت کے اولین سرچشمے پر مطلع کردیا ہواورانھوںنے یہ مشاہدہ کیاہوکہ ائمہ مجتہدین کے جملہ اقوال اسی سرچشمے سے متصل ہیں اوروہ بطور حکم عام کے فتوی نہ دیتے ہوں بلکہ’’میزان‘‘کے دونوں مرتبوں کالحاظ کرتے ہوئے لوگوں کے مناسب حال فتویٰ دیتے ہوں۔چنانچہ نہ وہ قوی کورخصت کاحکم دیتے ہوں اورنہ ضعیف کوعزیمت کاحکم۔‘‘(ص:۲۱؍۲۲)
تمام اقوال ائمہ پرعمل ہوناچاہیے:
’’ہمارے بیان کردہ پیمانے پرجوعمل نہ کرے اورتمام مرجوح اقوال پرعمل کرناترک کردے وہ لازمی طورپر بہت سارے ثواب سے محروم ہوگا اوران علماکے ساتھ سوئے ادب کامرتکب ٹھہرے گا جن کے وہ اقوال ہیں،برخلاف اس کے جواس پیمانے پرعمل کرے گا؛ کیوںکہ وہ قول مرجوح جسے یہ شخص ترک کررہاہے ممکن ہے دینی لحاظ سے زیادہ احتیاط پرمبنی ہو۔ ایسے میںاسے متروک کرنا مناسب نھیں،یازیادہ احتیاط پر مبنی تونہ ہوالبتہ وہ رخصت ہو اوراللہ کوپسند ہے کہ اس کی رخصتوں پربھی عمل کیاجائے،جب کہ اس کی شرائط ملحوظ رہیں،جیساکہ اس بات کی صراحت حدیث پاک میں بھی موجودہے۔
میرے ایمانی بھائیوں کویہ بھی معلوم رہے کہ ہروہ عمل جس کی ایجاد مجتہدین نے فرمائی اس کے  لیے جنت کا کوئی درجہ اور ہر وہ بدعت جسے مجتہدین نے حرام ٹھہرایااس کے لیے جہنم کا کوئی گڈھاہے، اگرچہ ان مجتہدین کامقام ومرتبہ حضرت شارع علیہ السلام سے مختلف اورکم ترہے اوران کی پسند وناپسند شارع علیہ السلام کی پسند وناپسندسے کم درجہ رکھتی ہے،جیساکہ اس کی صراحت اصحاب کشف نے فرمائی ہے۔اس بات کوسمجھواورتمہارے لیے مجتہدین نے جوکچھ فرمایاہے ان پرعمل کرواوران تمام باتوں سے احتراز کروجنھیں انھوںنے ناپسندفرمایاہے اورمجتہدین سے اس سلسلے میں دلیل کا مطالبہ نہ کرو؛ کیوںکہ تم ان کے دائرے کے اندر محبوس ہوجب تک تم ان کے مقام کونہ پہنچ جائو، تمہارے لیے ممکن نہیںکہ تم ان سے آگے بڑھ کرکتاب وسنت تک پہنچواورجہاں سے انھوںنے احکام لیے ہیں وہاں سے تم بھی احکام لو۔
میںنے حضرت علی الخواص رحمہ اللہ کوفرماتے سناہے کہ ائمہ کے ان تمام اقوال پرعمل کروجوبظاہرایک دوسرے کے مخالف ہیں بشرطے کہ ان پرعمل کے شرائط تم میں موجودہوں،تاکہ تم پورا ثواب اٹھاسکو۔وہ شخص جوپوری شریعت پرعمل کرتاہے اس کے مقام سے اسے کیا نسبت جو شریعت کی اکثرباتوں کوترک کردیتا ہے اوراس پرعمل نہیں کرتا؛ کیوںکہ ایک مسلک فقہ کبھی بھی تمام دلائل کومحیط نہیں ہوسکتا، اگرچہ صاحب مذہب نے فی الجملہ یہ بات کہی ہے کہ صحیح حدیث ہی میرامذہب ہے اذاصح الحدیث فھومذہبی بلکہ بسااوقات ایک امام کے مقلدین ان کثیراحادیث کوترک کردیتے ہیںجن کی صحت ان کے امام کے بعد ثابت ہوئی اوریہ بات ان کے امام کی مراد کے خلاف ہے۔اس بات کوسمجھو۔‘‘(ص:۲۵،۲۶)
کوئی حدیث یا اجتہاد قابل رد نہیں:
’’ہر مومن کو چاہیے کہ شرط عمل ملحوظ رکھتے ہوئے تمام احادیث اور مستنبط اقوال پر عمل کرے؛کیوںکہ کوئی حدیث یااجتہاد کبھی بھی میزان کے ان دونوں مراتب (تخفیف وتشدید) سے باہر نہیں ہوسکتا۔میں نے سیدی علی الخواص رحمہ اللہ کو فرماتے سناہے کہ شارع کے کلام میں یا ائمہ کے کلام میں بظاہر جو کچھ تضاد تمہیں نظرآتاہے وہ دراصل مختلف احوال پر محمول ہے؛ کیوںکہ شارع کا کلام اس سے بلند ہے کہ اس میں کوئی تضادہو۔اسی طرح جو شخص جہالت و تعصب کے بجائے علم وانصاف کی نگاہ سے دیکھے گا اسے ائمہ کاکلام بھی تضاد سے پاک نظرآئے گا۔‘‘ (ص:۲۶)
جو کسی ایک امام کو مصیب سمجھے!
اس سوال کے جواب میں کہ جو شریعت کے اولین سرچشمے سے محجوب ہوگیا،کیااس پر تقلید شخصی واجب ہے؟حضرت امام شعرانی رقم طراز ہیں:
جی ہاں!اس پر مسلک معین کی تقلید واجب ہے تاکہ نہ وہ خود گمراہ ہو اور نہ دوسروں کو گمراہ کرے۔اس لیے اے برادر!جب تمہارا حجاب اٹھ جائے تو ان مقلدین کو معذور سمجھو جو ابھی محجوب ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہر مختلف فیہ مسئلے میں مصیب ایک ہی ہے اور شایدوہ میرا امام ہو۔باقی خطا پر ہیں جو نفس الامر کے اعتبارسے درست ہونے کا احتمال رکھتے ہیں۔
اے برادر!جو یہ کہتاہے کہ:’’ہر مجتہد مصیب ہے۔‘‘اس کے قول کو اس پر محمول کروکہ اس کا سلوک مکمل ہوچکاہے،وہ تقلیدسے باہر آچکاہے اور وہ تمام علما کو عین شریعت سے سیراب ہونے کا مشاہدہ کررہاہے اور ہر وہ شخص جو یہ کہتا ہوکہ:’’مصیب غیر متعین طورپر فقط ایک ہے اور باقی خطا پر ہیں، اگرچہ صواب کا احتمال رکھتے ہیں۔‘‘اس کے قول کو اس طورپر لوکہ ابھی اس کا سلوک مکمل نہیں ہواہے۔‘‘(ص:۲۹)
وسعت نہ کہ اختلاف:
امام شعرانی نے تشدید وتخفیف کا جو تاریخی اعتبارسے پہلا اور نادراصول پیش کیا ہے ،اس کے دلائل پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس میزان کے دلائل میں سے یہ دلیل بھی ہے کہ شارع کو ہم سے اختلاف کے بجائے اتفاق مطلوب ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
اللہ نے دین میں ان باتوں کو مشروع قراردیاہے جن کا حکم نوح کو دیا،جس کی وحی ہم نے تم پر نازل کی اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا،وہ یہ کہ دین قائم کرواور اس میں اختلاف نہ کرو۔‘‘(الشوریٰ:۱۳)
یعنی ایسی آراپیش نہ کرو جوکتاب وسنت کے موافق نہ ہوں۔رہے وہ اقوال جن کی تائید کتاب وسنت سے حاصل ہے وہ نفس دین سے ہیں تفرقہ نہیں۔
اس میزان پر ایک دلیل اللہ کے یہ ارشادات بھی ہیں:
’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے تنگی نہیں چاہتا۔‘‘(البقرۃ:۱۸۵)’’تمہارے اوپر دین کے معاملے میں اللہ نے تنگی نہیں رکھی ہے۔‘‘ (الحج:۷۸)’’اللہ سے ڈرو جہاں تک ہو سکے۔‘‘ (التغابن:۱۶)’’اللہ کسی جان کو اس کی برداشت سے زیادہ کا مکلف نہیںکرتا۔‘‘ (البقرۃ: ۲۸۶) ’’اللہ لوگوں کے ساتھ بے حد مہربان اور کریم ہے۔‘‘(الحج:۶۵)
رہیں اس باب میں احادیث تو وہ بہت سی ہیں۔مثلا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ’’دین آسان ہے اور جوکوئی اس دین سے مقابلہ کرتاہے وہ مغلوب ہوجاتاہے۔‘‘آپ نے سمع وطاعت پر بیعت لیتے ہوئے فرمایاتھا:’’آسانی اور مشکل میں ساتھ دینا جہاں تک تم سے ہوسکے۔‘‘اور آپ کا یہ فرمان کہ: ’’جب میں تمہیں کسی بات کاحکم دوں تو جہاںتک تم سے ہوسکے اسے بجالاؤ۔‘‘اور آپ کا یہ ارشادبھی کہ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔‘‘
یعنی شریعت کے فروعی احکام میں مختلف حالات میں ائمہ اور ان کے متبعین کے لیے وسعت ہے۔اختلاف سے مراد یہاںعقیدہ ٔتوحیدوغیرہ کے اصولی اختلاف نہیں ہیں۔بعض علما نے یہ کہاہے کہ یہاں اختلاف سے مراد امورمعاش کا اختلاف ہے۔اس کا بیان آئندہ آئے گا کہ اسلاف لفظ اختلاف کے استعمال کو ناپسندفرماتے تھے،اسے وہ ’’وسعت‘‘کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے تاکہ کہیں عوام غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے:’’یہ نہ کہو کہ علما نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے بلکہ یہ کہوکہ علمانے امت کے لیے اس مسئلے میں وسعت پیداکی ہے۔‘‘ (ص:۳۳) 
تبدیلی مسلک جائز ہے:
امام شعرانی نے لکھا ہے کہ تبدیلی مسلک کی روایت ماضی میں ہمیشہ قائم رہی ہے اور اس کے باوجود علمانے اس پرکسی طرح کی ناگواری کا اظہارنہیںکیاہے بلکہ اسے تسلیم کیاہے۔امام شعرانی اس امرکو اپنے میزان تخفیف وتشدید کی تائید میں پیش کرتے ہیں ،کیونکہ علما کے مذکورہ رویے سے یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ وہ تمام مذاہب کو برحق اور تمام اقوال کو صحیح تسلیم کرتے تھے۔
امام شعرانی نے تبدیلی مسلک کے جوازپربحث کرتے ہوئے امام زناتی مالکی کے حوالے سے تبدیلی مذہب کی درج ذیل تین شرائط لکھی ہیں:
۱۔ دومسالک کے بیچ ایسی راہ نہ نکالے کہ اجماع کی خلاف ورزی لازم آئے،مثلا:کوئی شخص بغیر مہر،بغیر ولی اور بغیر گواہ کے نکاح کرے؛کیوںکہ یہ صورت کسی امام کے نزدیک درست نہیں۔
۲۔ جس کی تقلیدکرے اس کی فضیلت کا اعتقادرکھے۔
۳۔ اندھی تقلیدنہ کرے،مثلا:اپنےامام کی تقلیدکرکے رخصت پر عمل کرے جب کہ اس کے اندر رخصت پر عمل کرنے کی شرائط ہی نہ ہوں۔
اس کے بعد امام جلال الدین سیوطی کے حوالے سے تبدیلی مسلک کرنے والے علماکی فہرست پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شیخ عبدالعزیز بن عمران الخزاعی جو فقہ مالکی کے اکابرعلمامیںتھے،جب امام شافعی بغداد تشریف لائے تو ان کا اتباع کرنے لگے،ان کی درس گاہ میں پڑھا اور ان کے علم کی اشاعت کی۔ محمد بن عبداللہ بن عبداکحکم بھی امام مالک کے مسلک پر تھے ،جب امام شافعی مصر تشریف لائے تو ان کے مسلک سے وابستہ ہوگئے اور دوسروںکو بھی امام شافعی کے اتباع پر ابھارنے لگے۔ کہتے، بھائیو!یہ مسلک نہیں ہے مکمل شریعت ہے، جب کہ امام شافعی فرماتے کہ تم عنقریب اپنے باپ کے مسلک کی طرف لوٹ جائو گے۔چنانچہ جب امام شافعی کی وفات ہوگئی تو وہ حضرت امام  کے فرمان کے مطابق ان کےمسلک سے پھر گئے۔دراصل ان کا خیال یہ تھا کہ امام شافعی اپنے بعدانہیں اپنے حلقۂ درس کا جانشیں بنائیںگے لیکن انھوںنے امام بویطی کو اپناجانشین مقرر کردیا تو ابن عبدالحکم مسلک امام شافعی سے پھرگئے اوراس طرح امام شافعی کی فراست مومنانہ صادق آگئی۔‘‘ (ص: ۴۹،۵۰)
اس ضمن میں جن دوسرے علما کاذکر کیاہے ان میںابراہیم بن خالد بغدادی، ابوثور، ابوجعفر بن نصر ترمذی،ابوجعفر طحاوی،خطیب بغدادی،ابن فارس، سیف آمدی صولی،شیخ نجم الدین بن خلف مقدسی،شیخ محمدبن دہان نحوی،شیخ تقی الدین بن دقیق العید،شیخ الاسلام کمال الدین بن یوسف دمشقی اور امام ابوحیان کے نام شامل ہیں۔
حضرت امام شعرانی نے علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کے حوالے سے تبدیلی مسلک کی چھ صورتیں لکھی ہیں۔ان میں بعض جائز ہیں ،بعض مذموم، بعض حرام اور بعض ایسی بھی ہیں جو واجب ہیں۔یہ چھ صورتیں یہ ہیں:
(۱) تبدیلی کا محرک دنیوی راحت وآسائش ہو،یہ مذموم ہے۔
(۲) تبدیلی کا محرک دنیوی راحت وآسائش ہی ہو،لیکن تبدیلی کرنے والا ایک عام آدمی ہو جو فقہ سے آشنا نہیں ہوتا، برائے نام مقلد ہوتاہے، جیسے عوام الناس،ارکان حکومت،سلطنت کے ملازمین اور مدارس کے خدام۔ان کا حکم خفیف ہے۔اس لیے ان کے اس عمل پر حرمت کا فتوی نہیں دیاجائے گا۔
(۳) تبدیلی کا محرک اسی طرح دنیوی آسائش ہو۔لیکن متعلق شخص کسی مسلک فقہ کا فقیہ عالم ہو۔ وہ صرف دنیوی اغراض ومناصب کے لیے تبدیلی مسلک کررہاہو۔یہ عمل حرام ہے کیوںکہ اس میں دنیوی غرض کے لیے شریعت سے کھلواڑکرنا لازم آرہا ہے ،نیز اس سےیہ بھی لازم آرہا ہے کہ مذکورہ شخص امام سابق کے محاسن کا قائل نہیں ہے۔
(۴) تبدیلی کا محرک دینی غرض ہو۔متعلق شخص فقیہ مسلک ہو،لیکن اس پر دوسرے کی ترجیح واضح ہوگئی ہو،یہ تبدیلی جائز ہے بلکہ واجب ہے۔
(۵) تبدیلی کا محرک دینی غرض ہو،لیکن متعلق شخص فقہ سے عاری ہو،اس نے کسی ایک مسلک کے اعتبار سے تحصیل فقہ کی کوشش کی ہولیکن کامیاب نہ ہواہو اور اسےایسالگتاہوکہ دوسرے مسلک کے اعتبارسے بہ آسانی تحصیل فقہ کرسکتاہے اور اس لیے اسے تبدیلی مسلک کرنی ہو۔ ایسے شخص کے لیے قطعی طورپر تبدیلی مسلک کرنا واجب ہے تاکہ کسی بھی ایک امام کے سایے میں آکر عالم ہوجائے اور جہالت کی تاریکی سے بچ جائے۔امام طحاوی کے ساتھ یہی ہوا۔وہ اپنے ماموں امام مزنی کی درس گاہ میں تھے۔ایک دن کوئی بات سمجھ نہیں پارہے تھے۔شیخ نے جھنجھلاکرحلفیہ یہ کہہ دیاکہ تم کچھ نہیں سیکھ پائوگے۔اس کے بعد امام طحاوی حنفی فقہ سیکھنے لگے اور امام وقت بنے۔آپ فرماتے تھے کہ اگر ہمارے ماموں زندہ ہوتے تو انھیں اپنی قسم کا کفارہ دینا پڑتا۔
(۶) تبدیلی کا محرک کچھ بھی نہ ہو،نہ کوئی غرض دنیااورنہ کوئی فکر دین۔ایسا کرناایک عامی کے لیے جائز ہے اور فقیہ کے لیے مکروہ یاناجائز۔(ملخصاً، ص:۵۲-۵۳)
تبدیلی مسلک کے حوالے سے اس عہد میں ایک غلط فہمی یہ رائج تھی کہ دوسرے مسلک کو ترک کرکے کوئی حنفی تو بن سکتا ہے لیکن کوئی حنفی دوسرا مسلک اختیار نہیں کرسکتا۔یہ سوال جب امام سیوطی کے پاس پیش ہوا تو آپ نے فرمایا:
’’قائل کا یہ تحکمانہ فرمان ہے۔ کتاب وسنت سے اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔کسی حدیث صحیح یا ضعیف میں تعین کے ساتھ کسی امام کی فضیلت واردنہیں ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تقدم زمانی سے ان کی افضلیت پر اگر کوئی استدلال کرے اوراس استدلال کو درست مانا جائے تو لازم آئے گاکہ جو بھی اجتہاد کی اہلیت نہیں رکھتاوہ امام ابوحنیفہ کی تقلیدکرے اور یہ خلاف اجماع ہے۔ (ص:۵۱)
’’اذاصح الحدیث فہومذہبی‘‘ کا مفہوم:
اجتہاد وتقلید کے باب میں ائمہ مجتہدین کے اس قسم کے ارشادات:اذا صح الحدیث فہومذہبی۔’’جب حدیث کی صحت ثابت ہوجائے تو وہی میرا مذہب ہے۔‘‘اہل علم کے درمیان کافی زیربحث رہے ہیں۔بعض علما نے اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ جن علما کا یہ ارشادہے ان کے اقوال احادیث صحیحہ پر ہی مبنی ہیں۔ان کا کوئی قول حدیث صحیح کے خلاف نہیں ہے۔بعض نے اس کامطلب یہ بتایا کہ قائل کی مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی صحیح حدیث مل جائے میں اپنے قول سے اس صحیح حدیث کی طرف رجوع کرلیتاہوں۔بعض علما نے اس ارشاد کے یہ معنی لیے ہیں کہ ائمہ نے یہ بات اپنے متبعین کے حق میں کہی ہے کہ اگر میرے بعد کوئی حدیث صحیح مل جائے تو اس پر عمل کرنا،میرے قول کو ترک کردینا؛کیوںکہ حدیث صحیح کے بالمقابل میرے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔
پھر اسی قول سے متعلق ایک دوسرا مسئلہ اہل علم کے یہاں موضوع بحث رہاہے کہ ائمہ مجتہدین تک تمام حدیثیں پہنچ گئی تھیں یانہیں؟اس بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو احادیث ہم تک پہنچی ہیں یہ من جملہ تمام احادیث ہیں یا ان میںسے بعض مفقود بھی ہوگئی ہیں۔اسی سلسلۂ بحث کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ کہیں ایساتونہیں کہ بعضـ احادیث ائمۂ مجتہدین تک صحت کے ساتھ پہنچی تھیں اور وہ بعد میں آکر ضعیف ہوگئیں۔بہرکیف!ائمہ مجتہدین کا یہ ارشاد: اذاصح الحدیث فہو مذہبی  کی تفہیم میں بہت سے سوالات پیداہوتے ہیں جن کی اجتہاد وتقلید کے حوالے سے بڑی اہمیت ہے۔امام شعرانی نے بھی اس پر کلام فرمایاہے۔ان کے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جاتے ہیں:
’’میں نے سیدی علی الخواص رحمہ اللہ کو فرماتے سناکہ جو شخص ایک مسلک کا مقلد ہو وہ کبھی بھی پوری شریعت پر عمل نہیں کرسکتا۔اگرچہ اس کے امام نے یہ بات کہی ہے کہ:اذاصح الحدیث فہومذہبی’’حدیث صحیح ہی میرامسلک ہے‘‘اس کے باوجودوہ مقلد ان بہت ساری احادیث کو ترک کردیتا ہے جن کی صحت دوسرے ائمہ کے نزدیک ثابت رہی ہے۔اس میزان کے تناظرمیں یہ رویہ اس مقلدکی بے بصیرتی ہے اور اپنے امام کے فرمان کو غلط طورپر سمجھنا ہے۔ گویا اس کے امام نے اپنی طرف سے شریعت گڑھ دی ہو۔اس کے امام جو یہ فرماتے ہیں:اذاصح الحدیث ای بعدی فہومذہبی’’یعنی جب میرے بعد صحیح حدیث ملے تو وہی میرا مسلک ہے‘‘ وہ دوسرے کے بالمقابل پیغمبراسلام علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشادات کی اہمیت کو زیادہ سمجھنے والے ہیں۔واللہ اعلم
یہ بڑا نفیس کلام ہے،کیوںکہ احکام شریعت کی تکمیل اسی وقت ہوگی جب احادیث و مسالک کوایک دوسرے کے ساتھ ملاکر اس طرح کردیاجائے جیسے کہ دومرتبے(تشدید و تخفیف) کا حامل ایک مسلک بن جائے۔‘‘(ص:۳۵)
اس کے بعد خودہی یہ سوال قائم کرتے ہیں کہ اگر تم کہوکہ وہ حدیث جن کی صحت میرے امام کی وفات کے بعد ثابت ہوئی،میرے امام نے ان سے استفادہ نہیں کیا،ان کا کیا کروں؟اور پھر خودہی اس کا جواب دیتے ہیں:
’’بہتر یہی ہے کہ ان احادیث پر عمل کرو؛ کیوںکہ اگر تمہارے امام کو وہ حدیثیں مل جاتیں اور ان کی صحت ان پر واضح ہوجاتی تو عین ممکن ہے کہ وہ تمہیں اس کا حکم دیتے؛ کیوںکہ تمام ائمہ شریعت کے اسیرہیں.......جو ایسا عمل کرتاہے وہ دونوں ہاتھوںسے خیرلوٹتاہے اور جو یہ کہتاہے کہ میں صرف اسی حدیث پر عمل کروںگا جس کو میرے امام نے لیاہے وہ بھی خیرکثیرکا حامل ہے۔جیساکہ اسی موقف پر کثیر مقلدین قائم ہیں۔جب کہ ان کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ ہر اس حدیث پر عمل کریں جس کی صحت ان کے امام کے بعد ثابت ہوئی تاکہ ائمہ کی وصیتوں کا نفاذ ہوسکے؛کیوںکہ ہمارااعتقاد یہی ہے کہ اگروہ زندہ رہتے اور انہیںوہ حدیثیں مل جاتیں جن کی صحت ان کے بعد ثابت ہوئی تو وہ ضرور ان سے استفادہ کرتے،ان پر عمل کرتے اور ان کے بالمقابل اپنے قیاس کو ترک فرمادیتے۔‘‘(ص:۳۶)
’’اذا اخطأ المجتہد‘‘ کے معنی:
امام شعرانی پورے شدومدسے اس بات پر اصرارکرتے ہیں کہ تمام ائمہ برحق اور مصیب ہیں، ان میں کوئی خاطی نہیں،جب کہ حدیث میں واضح طورپر یہ بات آئی ہے کہ مجتہدسے خطا ہوتی ہے،ارشادہے:اذا اجتہد الحاکم وأخطأ فلہ اجروان اصاب فلہ اجران۔اگر حاکم اجتہاد کرے اور خطاکرجائے تو اسے ایک اجرملے گا اوراگر وہ صواب پر پہنچ جائے تو دواجر۔اس حدیث سے امام شعرانی کے نظریے پر جواعتراض ہوتاہے،اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہاں خطا سے مراد مجتہد کا اس مسئلہ میں دلیل نہ پاناہے۔یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کی وجہ سے شریعت سے باہر چلاجائے گا،کیوںکہ مجتہداگر شریعت سے خارج ہوتواسے کوئی اجر نہیں ملتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:’’کل امر لیس علیہ امرنا فہو رد‘‘ہر وہ بات جو میرے دین سے باہر کی ہو وہ مردودہے۔چوںکہ شارع نے خطا کے بعد بھی مجتہدکے لیے اجر ثابت رکھا ہے،اس لیے لامحالہ حدیث کے معنی یہی ہوںگے کہ جب مجتہد اجتہادکرے اورشارع سے منقول اس بات کی دلیل کو پالے تو اس کے لیے دواجرہیں۔ ایک تلاش کرنے کا اجر اور دوسرا پالینے کا۔اور اگروہ دلیل نہ پاسکے صرف حکم پائے تو اس کے لیے ایک اجرہے اوروہ تلاش کرنے کا اجرہے۔اس لیے مذکورہ حدیث میں خطا سے مراداضافی خطاہے خطائے مطلق نہیں۔‘‘ (ص:۲۶)
تقلید شخصی کے معنی:
تقلید شخصی کا مفہوم جو عام ذہنوں میں موجودہے،وہ یہ ہے کہ کسی بھی حال میں اپنے امام کے قول سے انحراف جائز نہیں،جب کہ امام شعرانی کے پیمانے کے مطابق ائمہ کے تمام اختلافات عزیمت اور رخصت یا تشدیداورتخفیف پر مبنی ہیں۔ایسے میں ہرشخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ عزیمت کی حالت میں ہے یا رخصت کی حالت میں،اگر عزیمت کی حالت میںہے توعزیمت پر عمل کرے،خواہ وہ دوسرے امام کا قول ہو، اسی طرح اگروہ رخصت کی حالت میں ہو تورخصت پر عمل کرے خواہ وہ دوسرے امام کا قول ہی کیوںنہ ہو.......امام شعرانی کے اس اصول سے بظاہر ایسا لگتاہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف ہیں جو تقلید شخصی کو واجب سمجھتے ہیں،کیوںکہ ان کے یہاں تو مقلدین پر تنگی پائی جاتی ہے کہ کسی کو امام سے انحراف روانہیںہوتا جب کہ امام شعرانی اس قسم کی سختی کے قائل نہیں۔
امام شعرانی نے اس شبہے کا جو جواب دیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شبہ پیدا ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ امام موصوف تقلید شخصی کے خلاف ہیں۔شبہے کی وجہ یہ ہے کہ تقلیدشخصی کا یہ مفہوم غلط ہے کہ مقلد ہر حالت میں ایک امام سے چمٹارہے اور ضرورت وحاجت کے وقت بھی اپنے امام کے مذہب سے عدول نہ کرے۔وہ عزیمت پر عمل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوجب بھی قول امام ہونے کی وجہ سے مجبوراً عزیمت پر عمل کرے اور دوسرے امام کے قول رخصت پر عمل نہ کرے۔ فرماتے ہیں:
’’کسی خاص مسلک فقہ کے اتباع میں درحقیقت کوئی مشقت ہے ہی نہیں،کیوںکہ اس مسلک کے بانی نے ضعیف کے لیے عزیمت کو واجب نہیںکیاہے بلکہ اس کے لیے یہ جواز رکھاہے کہ وہ اپنے مسلک سے خروج کرتے ہوئے دوسرے امام کے قول رخصت پر عمل کرے۔اس طرح اس امام کا مسلک بھی شریعت کے دونوں مرتبوں(تشدید وتخفیف)پر مبنی ہوا۔اس لیے جو مسلک معین کے التزام کو واجب سمجھتے ہیں ان کے یہاں بھی درحقیقت کوئی تنگی یا مشقت نہیں ہے۔اگر اس اندازمیں شریعت کو نہیں سمجھاگیا تو گویاشریعت کو سمجھاہی نہیں گیااوراس طورپر مجتہدین کے مسلک کو پیش نہیںکیاگیا تو گویادرحقیقت پیش ہی نہیںکیاگیااورنہ مقلد کا یہ اعتقاد درست ہواکہ مسلمانوں کے تمام ائمہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں بلکہ اس کا قلب،اس کی زبان کے خلاف ہے اور یہ نفاق کی ایک صفت ہے۔(ص:۴۲)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’ہر وہ مقلد جو مشکل حالات میں بھی دوسرے امام کے قول پر عمل کرنے سے گریزاں ہے اس کا گریز،ہٹ دھرمی ہے نہ کہ تقویٰ۔‘‘(ص:۴۶)
ترجیح مسلک پر تنقید:
علمائے فقہ کی عام روش یہ ہے کہ وہ فقہی معاملات میں کسی مسلک فقہ سے وابستہ ہوتے ہیں اور ہمیشہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دلائل وشو اہدسے اپنے مسلک کی ترجیح کو واضح کریں۔ حضرت امام شعرانی کویہ روش سخت ناگوارہے۔انہوںنے جابجا لکھا ہے کہ جب سارے مسالک عین شریعت کبریٰ سے پھوٹ کر نکلے ہیں تو پھران میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کے کیا معنی؟ انہوں نے کئی مقام پر یہ بھی لکھاہے کہ جو لوگ ترجیح مسلک کا کام کرتے ہیں وہ دراصل عین شریعت سے محجوب ہیں۔ان کا یہ اعتقاد کمزورہے کہ سارے ائمہ برحق ہیں۔انہوںنے مختلف مقامات پر بہت صاف گوئی کے ساتھ کہاہے کہ جو واصل عین شریعت ہوگا وہ اس طرح کی باتیں ہرگز نہیںکرسکتا۔ اس ضمن میں انہوں نےامام بیہقی اور امام زیلعی جیسے محدثین پر بھی نقدکیاہے جنہوںنے ترجیح مسلک کا کام اپنے طورپرپورے طمطراق سے کیا ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’امام بیہقی اورحافظ زیلعی نے اپنی کتابوں میں اپنے مسلک کے دلائل جمع کیے ہیں، اپنے مسلک کا دفاع کیاہے اور اپنے دلائل کو راویوں کی کثرت یا سند کی صحت کی بنیادپر ترجیح دی ہے،وہ بسااوقات یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ دلیل اگر چہ صحیح ہے لیکن ہمارے مسلک کی احادیث سند کے لحاظ سے زیادہ صحیح ہیں اور اس کے راوی بھی زیادہ ہیں۔یہ حضرات اس طرح کی باتیں اس وقت کرتے ہیں جب مخالف کی دلیل کی بالکلیہ تضعیف وتردید سے عاجز ہوتے ہیں۔اس طرح کی باتیں کرنے والے امام بیہقی اور دوسرے علما اگر اس حقیقت سے آشناہوجاتے جس سے ہم آشنا ہوئے کہ شریعت تشدیدوتخفیف دودرجوںپر نازل ہوئی ہے تو انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ہماری حدیث زیادہ صحیح ہے یا اس کے راوی زیادہ ہیں بلکہ ہر حدیث کو اوراپنے مخالف ہر قول کو شریعت کے دومرتبوں میں سے کسی ایک مرتبے میں تسلیم کرتے۔یہی بات ائمہ کے ان مقلد ین کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو ترجیح مسلک کا کام کرتے ہوئے یہ کہتے ہیںکہ یہ قول اصح ہے اور یہ صحیح ہے۔ اس طرح کی باتیں انہوںنے صرف اس لیے کہی کہ وہ میزان کے ان دونوں مرتبوںسے واقف نہیں تھے۔اگر وہ اس پر مطلع ہوتے تو اپنے مسلک کے اقوال میں اصح اورصحیح اوراظہر اورظاہر نہیں کہتے،بلکہ تمام اقوال کی صحت کا قول کرتے اور انہیں تخفیف وتشدید میں سے کسی ایک مرتبے میں رکھتے اور سائل کو اس کے مناسب حال فتویٰ دیتے،قوی کو عزیمت کا حکم دیتے اور ضعیف کو رخصت کا حکم دیتےاوراس طرح چاروں مسالک فقہ پر فتویٰ دیتے۔‘‘ (ص:۴۵)
علما اپنے عہد کے نمائندے ہوتے ہیں:
علمامختلف احوال میں مختلف فتاویٰ صادرکرتے ہیں۔ایک عہد میں ایک قول راجح قرار دیتے ہوئے اس پر فتوی دیتے ہیں جب کہ دوسرے عہدمیں بعض دوسرے علمااسے مرجوح قرار دیتے ہیں اور اپنے عہدکے لحاظ سے فتوی دیتے ہیں۔ تقلید محضیت میں ڈوبے ہوئے اذہان وافکار پر یہ روش بہت گراں گزرتی ہے اور بسااوقات لوگ طنزوتعریض بلکہ صریح دشنام طرازی پر اترجاتے ہیں۔امام شعرانی نے المیزان الکبریٰ کے اندر ایک مقام پر ایسے افراد کی تفہیم کی بڑی اچھی کوشش کی ہے۔فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کی جب یہ مشیت ہوتی ہے کہ اس کے بندے جن احکام پر پہلے کاربند تھے ان کے بجائے مخصوص اندازسےاب دوسرے احکام پر عمل کریں تو ان کے علماکے سامنے ان اقوال کے برخلاف جن کی ترجیح کے وہ اب تک قائل تھے دوسرے اقوال کی ترجیح کو واضح فرمادیتا ہے۔ وہ علما فوراًان جدید اقوال پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں جن کا راجح ہونااب ان پر واضح ہواہے اور ان کے مقلدین بھی پورے شرح صدر کے ساتھ ان جدیداقوال کی ترجیح کرنے لگتے ہیں۔ یہ معاملہ یوںہی چلتارہے گا حتی کہ یہ مسالک ختم ہوجائیں گے۔اس کی تائید حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے:
’’اللہ تعالیٰ احوال زمانہ کے اعتبارسے مسائل پیدا فرماتا ہے۔‘‘
حضرت عطا ،مجاہد اورامام مالک کا طرز فکر بھی یہی تھا۔ چناں چہ ان حضرات سے جب مسائل پوچھے جاتے توان میں سے صرف درپیش مسائل کےہی جواب عنایت فرماتے اور غیرواقع مسائل کے بارے میں وہ یہ کہتے کہ جب یہ مسائل پیداہوں گے تو ان کے بارے میں اس عہد کے علمافتویٰ دیں گے۔
ممکن ہے اس کے پس پردہ بھی امت مسلمہ پر اللہ کو رحم فرمانامقصودہو۔کیوںکہ ایسا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ حکم سابق پرعمل کرنے میں اس عہدکے لوگوں کے اندر تکلف وملول پاکر ان کے لیے ایسے علما پیدا فرمادیتا ہوجو حکم سابق پر عمل کو باطل قراردیتے ہوں اور ایسے ہی علما اپنے زمانے کے مقتداہوں؛ کیوںکہ وحی کا سلسلہ بندہوچکا ہے اوراللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ان پر اس طورپر رحم فرماناچاہتاہوکہ ہر زمانے میں ان کے لیے شریعت کے ایسے احکام مشروع فرمادیتاہو جن کی طرف وہ قلبی میلان پاتے ہیں ، انہیں قبول کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے میں فی الجملہ کوئی تکلف محسوس نہیں کرتے۔
یہ بات بھی کہی جاتی ہے، واللہ اعلم، کہ ایسا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لیے ہوتاہے تاکہ اس امت کے علماکو بھی وہ مقام حاصل ہوجائے جو ان انبیاکو حاصل تھا جن کے یہ وارث ہیں،اس طورپر کہ گویا ہر زمانے میں ایک طرح سے نئی شریعت لے کر آتے ہیں جو شریعت سابقہ کے لیے ناسخ نظرآتی ہے۔ واضح رہے کہ یہاں نسخ اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہے۔‘‘(ص:۴۲-۴۳)
اجمال کی تفصیل جاری رہے گی:
اس میں کسی کو کوئی بحث نہیں کہ قیامت تک علما پیداہوتے رہیں گے۔ بحث اس میں ہے کہ علماکا رول کیا ہے؟امام شعرانی کے نقطۂ نظر سے ہر دورکے علماکا کام صرف یہ نہیں ہے کہ ماضی کے علوم وفنون اور اقوال وفتاویٰ کو نقل کرتے رہیں بلکہ ہر عہد کے علما کو اپنے عہدمیں بعض فیصلے خودلینے پڑتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دن نئےحالات اورنئے مسائل پیداہوتے ہیںاور اس لحاظ سے ماضی کے علما کے فتاویٰ پورے طورپر ان کا احاطہ نہیں کرپاتے۔ ایسے میں ہر عہدمیں موجود علماکا رول یہ ہے کہ پیش روعلماکے اقوال وفتاویٰ میں جو اجمال رہ گیاہے اس کی تفصیل کریں تو حال کے مسائل بہ آسانی حل ہوجائیں گے۔
امام شعرانی کا خیال ہے کہ اجمال ہر دورمیں جاری وساری ہے۔ اس لیے ہردور کے علما اپنے طورپر ماضی کے اجمال کی تفصیل کرتے ہیں۔پھر ان کی تفصیل کے بعد بعض دوسرے پہلووں سے جو اجمال رہ جاتاہے اس کی تفصیل ان کے بعد والے علما کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔فرماتے ہیں:’’باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے حق میںفرمایاہے کہ :’’ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو ترک نہیں کیاہے: مافرطنا فی الکتاب من شیء۔ (الانعام:۲۸)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجمال کی تفصیل بیان فرمائی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے طہارت ،نماز اورحج وغیرہ کے طریقے بیان نہیں فرمائے ہوتے توامت کا کوئی شخص ان امور کو قرآن سے نہیں نکال پاتا۔ نہ ہم فرائض ونوافل کی رکعتوں کی تعداد اور ان دوسرے امور سے واقف ہوپاتے جن کا ذکر آئندہ آئے گا۔تو جس طرح شارع علیہ السلام نے اپنی سنتوںکے ذریعے قرآن کے مجمل احکام کو واضح فرمایا اسی طرح ائمۂ مجتہدین نے احادیث کریمہ میں موجود اجمال کی ہمارے لیے تفصیل فرمائی۔اگر ائمہ مجتہدین نے ہمارے لیے اجمال شریعت کی تفصیل نہیں فرمائی ہوتی توشریعت مجمل ہی رہ جاتی۔یہی بات قیامت تک پچھلے دورکے بالمقابل ہر دورکے حق میں کہی جاسکتی ہے؛ کیوںکہ علمائے امت کے کلام میں قیامت تک اجمال کا سلسلہ جاری ہے۔اگرایسا نہ ہوتاتو نہ کتابوں کی شروحات لکھی جاتیں اور نہ ہی شروحات پر حواشی لکھے جاتے۔‘‘(ص:۵۸)
عین شریعت تک رسائی کا راستہ اورامام شعرانی کا  تجربہ:
’’عین شریعت تک پہنچنے کا راستہ یہ ہے کہ کسی شیخ کے ہاتھ پر بیعت ہو کر سلوک طے کیاجائے۔ایسا شیخ جو ہر حرکت وسکون کے پیمانے سے واقف ہو،یہ بیعت اس طورپرہو کہ مرید کلی طور پر اپنے کوشیخ کے حوالے کردے ، شیخ جیسے چاہے اس کی ذات اوراس کے مال وعیال میں تصرف کرے اور اس پر مرید کو مکمل انشراح صدر رہے۔ وہ مرید جس کا شیخ یہ حکم دے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو یا اپنے حق مال سے دست بردار ہو جاؤ یا ملازمت چھوڑ دو اور اس پر مریدتوقف کرے تو ایسا مرید عین شریعت کبریٰ تک رسائی کی راہ کی بو بھی نہیں پاسکتا،اگرچہ وہ ہزار سال تک مسلسل عبادت کرتارہے۔اکثری حکم یہی ہے۔‘‘
’’اس کی شرائط میں یہ بھی ہے کہ رات اور دن میں لمحہ بھر بے وضونہ رہے۔دوران سلوک سوائے ضرورت کے کبھی بے روزہ نہ رہےاور نہ کوئی ایسی چیز کھائے جو اصلا ذی روح ہو۔ اضطرارکے آثارظاہر ہونے کے بعد ہی کھائے۔کسی ایسے شخص کاکھانا نہ کھائے جو حصول معاش میں زہدوورع کا حامل نہ ہو،جیسے ایسا شخص جو اپنا زہدوورع دکھانے کے لیے دوسروں کو کھلاتا ہے یا جیسے وہ شخص جو غیر متقی زمین داروں اور حکومتی افرادسے خریدوفروخت کرتاہے۔لمحہ بھر کے لیے اللہ کی یادسے غافل نہ رہے۔شب وروزمراقبے میں مصروف رہے۔‘‘
’’میں نے یہ دولت سب سے پہلے حضرت خضرعلیہ السلام سے بطورعلم وایمان اور تسلیم و رضاحاصل کی۔پھر سیدی علی الخواص کے ہاتھ پر سلوک کے منازل طے کیے یہاں تک کہ بطور ذوق وکشف اور یقین واذعان ،عین شریعت پر مطلع ہوگیا۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں رہا۔ میں نے مختلف مجاہدے کیے۔ میں خلوت کدے کی چھت سے رسی باندھ دیتا اور اسے اپنی گردن میں باندھ لیتا تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آرام کے لیے لیٹ جاؤں۔میں نے زہدوتقویٰ میں بڑی شدت برتی، یہاں تک کہ جب مجھے کھانے کے قابل کوئی چیز نہیں ملتی تو مٹی چاٹ لیا کرتا اور مٹی سے گوشت،گھی یا دودھ کی چکناہٹ پاتا۔اس معاملے میں مجھ پر حضرت ابراہیم بن ادہم سبقت لے گئے کہ جب ان کے مقام کے لائق حلال رزق میسر نہیںہواتو انہوںنے بیس دنوںتک مٹی چاٹ کر گزارا کیا۔اسی طرح کبھی کسی حکمراں کے سایے سے نہیں گزرتا۔ بغیرتحقیق وتفتیش کے کچھ بھی نہ کھاتا۔شریعت کی رخصتوں پر عمل نہیں کرتا اور بحمداللہ میں ابھی بھی اسی پر قائم ہوں۔ البتہ قوت بینائی میں فرق پڑا ہے۔ اس سے پہلے میں کسی سامان کے مالک کا ہاتھ دیکھتااوراب اس سامان کے رنگ ،بواور ذائقے کو دیکھتاہوں۔ حلال سامان میں خوش بو پاتاہوںاورحرام میں بدبو ........ جب میرا سلوک اس مقام تک پہنچاتو میں دل کی نگاہوںسے عین شریعت کا نظارہ کرنے لگا،جس سے ہر عالم کا قول مستفاد ومتفرع ہوتاہے۔میں نے دیکھاکہ ہر عالم کانالہ اسی چشمے سے پھوٹ کر نکل رہا ہے اور میں نے ان تمام نالوںکو محض شریعت پایا۔اور اس بات کاظن نہیں از راہ کشف مکمل علم یقینی حاصل ہوگیا کہ ہر مجتہد مصیب ہے اور یہ کہ کوئی مسلک فقہ کسی دوسرے کے بالمقابل شریعت سے زیادہ قریب نہیں ہے۔میں نے دیکھاکہ ان مجتہدین  کے نالے خشک ہو کر پتھربن چکے ہیں جن کے مسالک ختم ہوچکے ہیں۔میں نے جو نالے جاری دیکھے وہ فقط ائمہ اربعہ کے چاروں نالے تھے۔میں نے اس کا مطلب یہ لیاکہ یہ چاروں مسالک قیامت کے قریبی آثار کے ظہور تک قائم رہیںگے۔میں نےاپنے پچھلے اعتقادسے رجوع کرلیاجو یہ سمجھاکرتاتھاکہ میرا مسلک فقہ دوسروں کے فقہی مسلک پر فوقیت رکھتاہے اور یہ کہ ائمہ میں غیر متعین طورپر کوئی ایک ہی مصیب ہوتا ہے۔
چندسطروں کے بعد لکھتے ہیں:
مقامات عالیہ تک رسائی دومیںسے کسی ایک ہی طریقے سے حاصل ہوسکتی ہے۔یاتو اللہ جذب کے ذریعےکسی کو اس راہ تک پہنچادے یا شیخ صادق کے ہاتھ پر سلوک مکمل کرکے اس مقام تک پہنچ جائے؛کیوںکہ بندوں کے اپنے اعمال میں بہت سی خامیاں باقی رہتی ہیں،بلکہ اگروہ ان خامیوں کے ازالے پر قادر بھی ہو،جب بھی اسے عین شریعت تک رسائی کی راہ نہیں مل سکتی، کیوںکہ وہ اپنے امام کی تقلید کے دائرے میں محبوس ہے۔ اس کا امام جو عین شریعت کا مشاہدہ کرنے والا ہے،اس کے اور اس چشمے کے بیچ حجاب بنتاہے۔اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے امام سے آگے بڑھ کر اس چشمے کا نظارہ کرے الایہ کہ کسی ایسے شیخ  عارف وکامل کے ہاتھ پر منازل سلوک طے کرے جو مقام ومرتبے میں اس سے بلندہو۔اس لیے کہ مقلد کے لیےمحال ہے کہ وہ یہ اعتبار کرنے لگے کہ ہر مجتہد مصیب ہے مگر صرف اسی سلوک کے توسط سے ،حتی کہ وہ مقام شہودتک رسائی پانے میں اپنے شیخ کے مساوی ہوجاتاہے۔
علم متقدمین اورعلم متأخرین:
امام شعرانی نے ’’المیزان الکبریٰ‘‘ میں جو اصول پیش کیا کہ کشف کے ذریعے عارف عین شریعت پر پہنچ جاتاہے اوراس مقام پر پہنچ کر تقلید کی زنجیرسے آزاد ہوجاتاہے اور اس مقام بلندکا دعوی خوداپنے لیے بھی کیا ہے،تاریخی اعتبارسے یہ بات بالکل نئی تھی۔امام شعرانی نے تاریخ میں پہلی بار المیزان کے ذریعے یہ نظریات پیش کیے۔اس پر کئی طرح کے اعتراضات وارد ہوتے ہیں، مثلاً:یہ کہ جو بات متقدمین نے نہیں کہی اسے کسی متأخر کو کہنے کا کیا حق ہے؟کیا بعدوالے کا علم پیش روعلماکے علم سے زیادہ ہوگیاہے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص ائمہ اربعہ کے دلائل کا احاطہ کرلے،وغیرہ۔ان اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے امام شعرانی لکھتے ہیں:
’’تمہاری اس طرح کی باتیں جہالت اوردین میں جرأت وجسارت پر مبنی ہیں۔تم المیزان الکبریٰ کے مصنف سے ملاقات کرلو اور اس سے بحث کرلو۔اگر وہ تم کو دلیل سے قائل کردے تو تم پر واجب ہے کہ تم اس نظریے کی طرف رجوع کرلو۔اگرچہ اس سے پہلے یہ بات کسی اور نے نہیں کہی۔اوریہ کہہ کرکہ میزان کا مصنف شریعت سے جاہل ہے،دروغ وبہتان کے مرتکب نہ بنو۔اگرایسے شخص کو جاہل کہاجائے جو تمام مسالک کے تمام اقوال کے احکام کی توجیہ کرسکتاہے،تو پھرتو روئے زمین پراس وقت کوئی عالم ہےہی نہیں۔امام محمدبن مالک کا ارشادہے:
’’جب علوم،ربانی عطیات اورلدنی خصوصیات ہیں تواس میں کوئی تعجب نہیںکہ اللہ تعالیٰ بعض متأخرین کو اس ذخیرۂ علم سے نوازدے جس پر متقدمین میں کوئی بھی مطلع نہیں ہوسکا۔‘‘
برادرم!تمہیں خداکا واسطہ !حق کی طرف رجوع کرو اور اعتقاد لسانی اوراعتقادقلبی میں یکسانیت لاؤ۔اس بات سے تمہیں یہ خیال نہ روکے کہ علمائے سابقین میں سے کسی نے بھی ایسا میزان مدون نہیں کیا،کیوںکہ فیض ربانی ہر زمانے میںعلماکے قلوب پر برستا رہتاہے۔اگرچہ تمہاری طبیعت حقیقی کشفی علوم سے مانوس نہیںہےتاہم اپنے سائنسی اور عقلی علوم سے نکل کراس طرف آئوتو سہی۔‘‘(ص:۱۸)
حرف اختتام:
اہل سنت وجماعت اور بطورخاص صاحبان ذوق تصوف کے درمیان حضرت امام عبدالوہاب شعرانی کی شخصیت مسلم اور ہر قیل وقال سے بالاتر ہے۔گذشتہ صدی کے ممتاز فقیہ اعلی حضرت امام احمدرضاقادری بریلوی نے اپنے فتاویٰ میں سیکڑوں مقامات پرانھیں کوٹ (Quote) کیاہے۔اور عارف باللہ اور قطب ربانی جیسے القابات سے یادکیاہے۔ان کی کتاب المیزان الکبریٰ اپنی نوعیت کی بالکل منفردکتاب ہے۔آیات واحادیث اور اقوال وآـثار میں جو بظاہر تضاد نظرآتا ہے،جن کی بنیادپر مجتہدین امت کے مختلف نقطۂ نظراوراختلافات سامنے آئے،ان اختلافات کی مختلف علمانے اپنے اپنے طورپر توجیہ وتشریح کی ہے۔امام شعرانی کی اس کتاب کا موضوع بھی یہی ہے۔لیکن انہوںنے ان اختلافات کی پہلی بارسب سے جداگانہ اور منفرد توجیہ کی ہے۔ اس توجیہ کے مطابق علماکے اختلافات کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں ایک ہی مسئلے میں ایک سخت حکم آیا ہے اور دوسرا نرم حکم آیاہے۔سخت حکم جسمانی وروحانی اعتبارسے قوی لوگوںکے لیے اورنرم حکم ضعیف اورکمزورلوگوںکے لیے ہے۔اس لیے جو قوی ہوںسخت حکم(عزیمت)پر عمل کریں اور جو ضعیف ہوں وہ نرم حکم(رخصت) پر عمل کریں۔اس طرح شریعت کے احکام میں کوئی اختلاف وتضادنہیں رہ جائے گا۔
اس توجیہ کے بعد دوسرا سوال یہ پیداہوتاہے کہ پھرتقلیدشخصی کے کیا معنی ہیں جس کے مطابق ایک شخص کو لازمی طورپر اپنے امام کے قول کا اتباع کرنا پڑتاہے۔اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایاہے کہ دراصل تقلید کا مطلب یہ ہے ہی نہیں کہ ضرورت وحاجت ہر حالت میں اپنے امام کے قول پر جمارہاجائے، نہ ائمہ مجتہدین کا یہ مقصدرہا ہے ۔ائمہ مجتہدین نے لوگوں کے حالات دیکھ کر احکام صادرفرمائے۔مثال کے طورپر جس امام کا قول عزیمت پر مبنی ہے اگر خوداس امام سے کوئی ضعیف اپنے لیے حکم دریافت کرتاتو اس کے لیے وہ رخصت کا حکم دیتے نہ کہ عزیمت کا۔
اب تیسرا سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا اس سے یہ مطلب لیاجائے کہ تقلید امام کسی پر واجب ہی نہیں؟اس کا جواب امام موصوف نے یہ دیا ہے کہ جو عین شریعت پر پہنچ چکے ہیںاوراحکام کی بنیادوں سے واقف ہیں ان پر تقلید واجب نہیں۔وہ اپنی حالت دیکھیں اگران کی حالت عزیمت کی ہے تو عزیمت پر عمل کریں اوررخصت کی ہے تو رخصت پر عمل کریں۔البتہ جو لوگ اس مقام پر نہیں پہنچے ہیں ان پر تقلید امام واجب ہے۔اس کے علاوہ تمام مسالک فقہ کی صداقت ،تمام ائمہ مجتہدین کے درمیان مساوات اور عدم تفضیل،تبدیلی مسلک کا جواز، وقت ضرورت وحاجت دوسرے مسلک پر فتویٰ ،اہل علم کے لیے سائل کی حالت دیکھتے ہوئے مسالک اربعہ پر فتوے کا جواز، حدیث صحیح ملنے کے بعد قول امام کے بجائے حدیث صحیح پر عمل کا حکم اور اس طرح کے جودوسرے نظریات پیش کیے ہیں وہ ہم سب کے لیے قابل غور اور باعث احتساب ہیں۔ بھی عین ممکن ہے کہ ان حقائق کی نقاب کشائی سے بہت سے لوگ الجھن اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجائیں،جب کہ ہونایہ چاہیے کہ ہم رضائے مولیٰ کو اپنامقصدبناتے ہوئے دین خالص پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور یہ یقین کریں کہ یہ عہدنہ بے بصارت تقلیدکاہے اور نہ بے بصیرت اجتہادکا۔ خیر الاموراوساطہا۔اللہم اہدناالصراط المستقیم،صراط الذین انعمت علیہم غیرالمغصوب علیہم ولاالضالین!۔












فقہی روایات واقوال میں عارفانہ تطبیق (المیزان الکبری الشعرانیۃ کی روشنی میں)

0 comments
فقہی روایات واقوال میں عارفانہ تطبیق
المیزان الکبری الشعرانیۃ کی روشنی میں
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
----------------------------------------------------------------
عارف باللہ امام عبد الوہاب شعرانی (۸۹۸ھ۔ ۹۷۳ھ) نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف المیزان الکبریٰ الشعرانیۃ میں بظاہر مختلف احادیث و اقوال میں تطبیق کی ایک نئی راہ نکالی ہے، جو تمام مجتہدین و مقلدین کے تعلق سے احترام و توقیر ، اولیاے کاملین کی عظمت بلند کے اعتراف اور اجتہاد و تقلید کے حوالے سے ایک معتدل نقطۂ نظر پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے امام شعرانی نے المیزان الکبریٰ کے ابتدائی صفحات میں جو اصولی باتیںکی ہیں ان کا خلاصہ راقم کے ہی قلم سے مجلہ الاحسان کےگزشتہ شمارے میں’’مسئلۂ اجتہاد و تقلید امام شعرانی کی نظر میں‘‘ کے زیر عنوان آچکا ہے۔ اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں امام شعرانی نے بظاہر مختلف احادیث واقوال میں جو بے شمار تطبیقات فرمائی ہیں ان میں سے بعض مثالیں نذر قارئین کی جارہی ہیں۔
امام شعرانی کا اصول تطبیق جو بقول ان کے خود ان کی دریافت ہے، ان سے پہلے کسی دوسرے عالم کی عروس فکر اس تک نہیں پہنچ سکی تھی، وہ یہ ہے:
’’برادرم !شریعت؛ امرونہی ہردو جہت سے دومرتبے تخفیف وتشدید پر وارد ہے۔ شریعت میںصرف ایک پہلوہی نہیںہے،اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں تمام مکلفین ایمانی اور جسمانی اعتبارسے دوہی طرح کے ہوسکتے ہیں ؛قوی یاضعیف۔ان میں جو قوی ہے وہ تشدید سے مخاطب ہے اوراسے عزیمت پرعمل کرنے کاحکم ہے اورجوضعیف ہے وہ تخفیف سے مخاطب ہے اوراسے رخصت پرعمل کرنے کاحکم ہے۔ایسے میںان دونوں میںسے ہر ایک اپنے رب کی طرف سے شریعت اوربرہان پر قائم ہیں،لہٰذا قوی کو رخصت کے لیے نیچے آنے کاحکم نہیں دیا جاسکتا اورنہ ضعیف کو عزیمت کے لیے اوپر جانے کامکلف کیاجاسکتا ہے۔‘‘
(المیزان الکبریٰ الشعرانیۃ،ص:۶، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۹۸ء)
تاریخ اسلام کے اس پہلے اور منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں یہ حقائق منکشف ہوتے ہیں کہ ائمہ میں جو اختلافات ہیں ، ان اختلافات کی وجہ سے ان میں کوئی صحیح و درست اور کوئی خاطی و گمراہ نہیں ہے ، بلکہ تمام ائمۂ ہدیٰ برحق ہیں اور ان میں سے ہر ایک صحیح و مصیب ہے۔ نیز صرف وہ ائمہ ہی برحق نہیں ہیں جن کے مسالک بعد میں جاری رہے، بلکہ ان کے علاوہ وہ ائمۂ مجتہدین بھی برحق اور مصیب تھے، جن کے مسالک بعد کے ادوار میں کسی بھی وجہ سے جاری نہ رہ سکے، مثلاً حضرت داؤد ظاہری، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، محمد بن جریر، عمربن عبد العزیز، اعمش، شعبی اور اسحاق وغیرہ۔ رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ اسی طرح امام شعرانی نے اپنے اصول تطبیق سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ ایسا شخص جو صرف اپنے امام کو مصیب اور دوسرے ائمہ کو خاطی سمجھتا ہے، ابھی اس کا فہم ناقص اور اس کا سلوک ناتمام ہے، بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث اور ائمہ کے تمام اقوال حق و درست ہیں، ان میں سے کوئی حدیث یا اجتہاد قابل رد نہیں ہے، بلکہ عالم کے لیے جو سچ مچ کتاب و سنت اور اقوال ائمہ کا عالم ہو، تمام مسالک فقہ ایک مسلک کی طرح سے ہیں، ایسا عالم حسب ضرورت و صورت مسالک اربعہ پر فتویٰ دے سکتا ہے، البتہ بے ضرورت ایک مسلک فقہ کو چھوڑ کر دوسرے پر فتویٰ دینا یا عمل کرنا درست نہیں، کہ اس میں اتباع ہویٰ کا پہلو ہے۔
 اب ہم امام شعرانی کی تطبیقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ان تطبیقات میں امام شعرانی کا اسلوب سادہ ، یکساں اور عام فہم ہے، وہ پہلے کسی بھی مسئلے سے متعلق ایک دو یا اس سے زائد ایسی احادیث پیش کرتے ہیں جن میں تشدید ہوتی ہے پھر ان کے بالمقابل دوسری احادیث پیش کرتے ہیں جن میں تخفیف ہوتی ہے، پھر امام شعرانی فرماتے ہیں کہ ان میں پہلی قسم کی احادیث میں شدت ہے لہٰذا وہ اکابر اور خواص کے لیے ہیں اور دوسری قسم کی احادیث میں تخفیف ہے، وہ عوام اور ضعفا کے لیے ہیں۔ یہ ترتیب کبھی اس کے برعکس بھی ہوتی ہے۔ 
(۱) کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا  مسئلہ:
امام شعرانی نے اس حوالے سے سب سے پہلے بخاری سےیہ حدیث نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا۔ ( صحيح البخاري،کتاب الوضو، باب البول قائما وقاعدا/صحيح مسلم،کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفين)
 پھر اس کے بالمقابل وہ حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر پیشاب فرمایا۔ ( ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب النھي عن البول قائما/ ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب في البول قاعدا)
اوراسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سےیہ فرمایا کہ کھڑے ہوکر پیشاب مت کرو، جس کے بعد تا دم آخر حضرت عمر نے کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
 ( ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب النھي عن البول قائما/ ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب في البول قاعدا)
ان احادیث میںمختلف علما نے مختلف انداز سے تطبیقات دی ہیں اورکھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ مثلاً قاضی عیاض مالکی فرماتے ہیں:
’’کھڑے ہوکر پیشاب فرمانے کی مختلف توضیحات کی گئی ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اس لیے پیشاب فرمایا کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں خروج حدث کا خطرہ بہت کم رہتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کی اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ غالباً اس کوڑے میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایاتھا، ترنجاستیں تھیں اور وہ جگہ نرم تھی، وہاں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں پیشاب کے چھینٹے پڑنے کا خطرہ نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر پیشاب کے لیے آپ بیٹھیںگے تو آپ کا لباس مبارک نجاست آلود ہوجائے گا۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا۔(اکمال المعلم شرح صحيح مسلم ،۲/۴۶)
امام شعرانی نے ان احادیث میں جو تطبیق دی ہے، وہ گزشتہ تطبیقات سے یکسر مختلف ہے۔ آپ اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’پہلی حدیث میں تخفیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کے لیے ایسا فرمایا، جب کہ آخر کی دونوں حدیثوں میں تشدید ہے، گویاادب و حیا میں کاملین اور غیر کاملین دونوں کے احوال کی رعایت کرلی گئی ہے۔ ‘‘(ص:۹۷)
(۲) بیٹھے بیٹھے سونے سے وضو ٹوٹنے کامسئلہ:
اس حوالے سے سب سے پہلے یہ حدیث نقل کی ہے:
 العینان وکاء السہ، فمن نام فلیتوضا۔ دونوں آنکھیں بندھن ہیں۔ لہٰذا جو سوجائے وہ وضو کرے۔
(سنن ابن ماجہ ،کتاب الطہارۃ، باب الوضوء من النوم/ مسند احمد ابن حنبل،مسند علي بن ابي طالب رضي الله عنہ)
اس کے بعد اس کے بالمقابل یہ حدیث نقل کی:
 حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سوکر جھپکیاں لینے لگے تھے کہ اتنے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے پیچھے سے انہیں پکڑلیا۔ حضرت حذیفہ نے عرض کی:حضور! کیا میرا وضو ٹوٹ گیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! اس وقت تک وضو نہیں ٹوٹے گا جب تک کہ تمہارے پہلو زمین سے نہ لگ جائیں۔ (سنن بیہقی، کتاب الطہارۃ، باب ترک الوضوء من النوم قاعدا)
امام شعرانی اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں مذکورہ دونوں احادیث میں تطبیق دیتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’ پہلی حدیث سونے کی وجہ سے وضو کےٹوٹنے کے سلسلے میں عام ہے ، اگرچہ سونے والا جم کر بیٹھا ہوا ہو،اور دوسری حدیث میں یہ ہے کہ جو بیٹھ کر سوئے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔ اور ان دونوں کو دیکھتے ہوئے دونوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ پہلی حدیث کو متدین اور متقی اکابر کے حال پر محمول کیا جائے اور دوسری حدیث کو ان کے علاوہ دوسروں کے حال پر محمول کیا جائے ، اس طرح معاملہ میزان کے دونوں پہلو؛ تشدید اور تخفیف کی طرف راجع ہوگیا۔‘‘ (ص:۹۷)
واضح رہے کہ اس باب کی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے علما نے مختلف قول کیے ہیں۔ امام ابوزکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’علما کے اس میں مختلف مذاہب ہیں: (۱) نیند کسی بھی حال میں ناقض وضو نہیں۔یہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ، سعید ابن مسیب، ابو مجلز، حمید الاعرج اور شعبہ کی طرف منسوب ہے۔ (۲) نیند ہر حال میں ناقض وضو ہے۔ یہ حضرت حسن بصری، مزنی، ابوعبید القاسم بن سلام اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ امام شافعی کا ایک غریب قول بھی یہی ہے۔ ابن منذر نے کہا کہ میرا موقف بھی یہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہی معنی حضرت ابن عباس، حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔(۳) زیادہ سونا ہر حال میں ناقض ہے اور سونے کی معمولی مقدار کسی بھی حال میں ناقض نہیں۔ یہ امام زہری، ربیعہ، اوزاعی، مالک اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا مذہب ہے۔ (۴)  نمازی کی نماز میں جو حالتیں ہوتی ہیں، اگر ان میں سے کسی حالت میں سویا ، مثلاً رکوع، سجدے، قیام اور قعود کی حالت میں سویا تو وضو نہیں ٹوٹے گا ،خواہ حالت نماز میں ہو یا نہ ہو، اور اگر پہلو کے بل سویا، یاچت سویا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ یہ امام ابو حنیفہ اور امام داؤدکا مذہب ہے اور امام شافعی کا ایک غریب قول بھی یہی ہے۔ (۵) صرف حالت رکوع اور حالت سجود والی نیند ناقض ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل سے مروی ہے۔ (۶) صرف حالت سجدہ کی نیند ناقض ہے۔ یہ بھی حضرت امام احمد ابن حنبل سے ہی مروی ہے۔ (۷) حالت نماز کی نیند بہر حال ناقض نہیں جب کہ خارج نماز والی نیند ناقض وضو ہے۔ یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ضعیف ہے۔ (۸) اگر کوئی بیٹھ کر اس طرح سوتا ہے کہ اس کی سرین زمین سے مضبوطی سے لگی ہوئی ہے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا بصورت دیگر اس کا وضو ٹوٹ جائے گا ، عام ازیں کہ اس کی نیند تھوڑی ہو کہ زیادہ، نماز میں ہو کہ خارج نمازمیں، یہ امام شافعی کا مذہب ہے۔‘‘ (شرح النووی علی صحیح مسلم،کتاب الحیض، باب الدليل علی ان نوم الجالس لا ينقض الوضوء)
(۳) لمس اور بوسہ سے وضو ٹوٹنے کا مسئلہ:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا(نساء:۴۳) اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مریض، مسافر، قضاے حاجت سے فارغ ہونے والے اور عورتوں سےملامست کرنے والے پر لازم ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کرے۔ 
اس کا مفاد یہ ہے کہ عورتوں سےملامست کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ مفسرین کی ایک جماعت ادھر گئی ہے کہ اس آیت میں ملامست ( لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ) کے معنی مباشرت اور جماع کے ہیں جب کہ ایک طبقےکا کہنا ہےکہ یہاں  ملامست کے معنی مطلقاً چھونے اور لمس کرنے کے ہیں۔اس صورت میں عورتوں کو چھونے اور بوسہ لینے سے بھی وضو ٹوٹ جانا چاہیے۔ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ اس معنی کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت ماعز نے اعتراف زنا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغالباً تم نے ملامست کی ہوگی یا بوسہ لیا ہوگا؟ (مسند احمد ابن حنبل، مسند عبد الله بن العباس/ مستدرک،کتاب معرفۃ الصحابہ،کتاب الحدود )کیوں کہ اس حدیث میں ملامست مباشرت کے لیے نہیں،بلکہ اس کے بالمقابل یعنی چھونےکے لیےاستعمال ہوا ہے۔بہر کیف! اس معنی کے اعتبار سے مطلقاً عورت کو چھونے یا بوسہ لینے سے بھی وضو ٹوٹ جانا چاہیے۔ چنانچہ علما کے ایک طبقے کا یہی مذہب ہے۔
اس کے بر خلاف حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ اللہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعض امہات المومنین کو بوسہ لیتے اور پھربغیر وضو کیے نماز پڑھ لیتے۔(سنن الدارقطنی،کتاب الطہارۃ،باب صفۃ ما ينقض الوضوء وما روي في الملامسۃ والقبلۃ/ المعجم الاوسط،من اسمہ عبد الرحمن،حدیث:۴۶۸۶) جس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کو بوسہ لینے یا چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔اس طرح کی احادیث میں مختلف علما نے اپنے اپنے طور پر تطبیق و ترجیح کا عمل فرمایا ہے، لیکن اس مقام پر امام شعرانی کی تطبیق سب سے الگ ہے ۔ آپ فرماتے ہیں:
’’پہلی حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ چھونے اور بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جائے گا جب کہ دوسری حدیث وضو نہ ٹوٹنے کےسلسلے میں صریح ہے۔ لہٰذا نقض وضو کی بات اس شخص کے حال پر محمول ہوگی جسے اپنی شہوت پرکنٹرول نہ ہو اور عدم نقض کو اس شخص کے حال پر محمول کیا جائے گا جسے اپنی شہوت پر مکمل کنٹرول ہو۔‘‘(ص:۹۸)
(۴) بلی کے جوٹھے کا حکم:
بلی کے جوٹھے سے متعلق بھی دو قسم کی روایات وارد ہیں۔ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جوٹھا پاک ہے جب کہ بعض سے اس کے ناپاک ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
(۱) الف۔ إنها ليست بنجس۔ بلی ناپاک نہیں ہے۔
(الموطا ،روايۃ يحیی الليثي،کتاب الطہارۃ، باب الطہور للوضوء؍ سنن ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب ما جاء في سؤر الھرۃ)
ب۔ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتوضا بفضلہا۔  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کوبلی کے پینے کے بعد بچے ہوئے پانی سے وضو فرماتے ہوئے دیکھاہے۔ 
(السنن الکبریٰ ،کتاب الطہارۃ،  باب سور الھرۃ؍ سنن ابی داؤد،الطہارۃ، باب سؤر الھرۃ)
(۲) الف۔ عن ابی ھریرۃ یغسل الاناء من الہر کما یغسل من الکلب۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ بلی کے جوٹھے برتن کو اسی طرح دھویا جائے جس طرح کتے کے جوٹھے برتن کو دھویا جاتا ہے۔(السنن للدارقطنی ،کتاب الطہارۃ، باب سور الھرۃ؍ معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی،باب سؤر ما لا يؤکل لحمہ سوی الکلب والخنزير)
ب۔ عن ابی ھریرۃ اذا ولغ الھر فی الاناء غسل مرۃ او مرتین بعد ان یہراق ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگربلی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کا پانی بہانے کے بعد اسے ایک یا دو بار دھو دیا جائے۔ 
(سنن الدارقطني،کتاب الطہارۃ، باب سؤر الھرۃ، میں ہے: إذا ولغ الهر في الإناء فاهرقه واغسله مرة)
 امام شعرانی فرماتے ہیں:
 پہلی قسم کی احادیث میں تخفیف ہے اور ان کے بالمقابل جو حضرت ابو ہریرہ کے اقوال ہیں اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد پر مبنی ہیں تو یہی سمجھا جائے کہ اس میں تشدید ہے۔ لہٰذا یہاں بھی میزان کے دونوں پلے تشدید و تخفیف صادق آئے۔ (ص: ۹۹، ۱۰۰)
واضح رہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ بلی کے جوٹھے کو مکروہ کہتے ہیں جب کہ آپ کے علاوہ دیگر ائمہ کا اس کی طہارت پر اتفاق ہے۔(اختلاف الائمۃ العلماء، کتاب الطہارۃ، باب الاوانی)
(۵)عظمت نماز اور اہمیت طہارت:
۶؍ ہجری میں مدینے میں خبر آئی کہ قبیلۂ بنی مصطلق کے لوگ مدینے پر حملے کی تیاری میں ہیں۔ یہ سن کر پیش بندی کے طور پر پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃ والسلام اپنے صحابہ کو لے کر نکلے۔ اس سفر میں امہات المومنین میںقرعۂ فال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے نام نکلا۔مقام مریسیع پر جنگ ہوئی اورمسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ واپسی میں ایک مقام پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہوگیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نےبعض صحابہ کوہار کی تلاش میں بھیجا۔اسی اثنا میں نماز کا وقت آگیا، ان حضرات نے بغیر وضوکے نماز پڑھ لی۔ جب وہ بارگاہ رسالت میں آئے تو اس کا ذکر کیا لیکن بقول امام شعرانی سرکار علیہ السلام نے ان سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا۔ اس پر آیت تیمم نازل ہوئی جس میں یہ حکم ہوا کہ پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھ لی جائے۔
ایک طرف بخاری و مسلم کی یہ روایت ہے اوردوسری طرف اللہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان کہ اللہ طہارت کے بغیر نمازقبول نہیں فرماتا۔ لایقبل اللہ صلاۃ الا بطہور(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ وسننہا،باب لا يقبل الله صلاۃ بغير طہور؍السنن الکبریٰ،کتاب الزکاۃ،جماع ابواب صدقۃ التطوع)
امام شعرانی علیہ الرحمہ نے دونوں کے بیچ یہ تطبیق فرمائی:
 پہلی حدیث میں طہارت کے معاملے میں نرمی اور اہتمام نماز کےمعاملے میں سختی ہے، جب کہ دوسری حدیث میں طہارت کے معاملے میںسختی ہے، گویا یہاں بھی حکم شریعت تشدید و تخفیف کی طرف راجع ہے۔(ص:۹۹)
واضح رہے کہ جب پانی اور مٹی دونوں مفقود ہوتو ایسی صورت میں امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک پانی یا مٹی نہ مل جائے نماز نہیں پڑھی جائے گی ، امام مالک کے یہاں اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں، ایک تو یہی، دوسرا یہ ہے کہ جیسے ممکن ہو نماز پڑھ لے پھر جب پانی ملے تونماز دوہرالے، امام احمد ابن حنبل کی ایک روایت اور امام شافعی کا قول جدید بھی یہی ہے، اور امام شافعی کا قول قدیم امام اعظم کے موافق ہے، جب کہ امام احمد ابن حنبل کی دوسری روایت کے مطابق وہ نماز پڑھ لے گا اور اعادے کی حاجت نہ ہوگی، اور امام مالک کا قول ثالث بھی اسی کے موافق ہے۔ (اختلاف الائمۃ العلماء ،کتاب الطہارۃ، باب التیمم)
اس مسئلے میں شیخ ابن حزم ظاہری کا موقف امام احمد ابن حنبل کی دوسری روایت کے مطابق ہے، موصوف رقم طراز ہیں:
ومن كان محبوسا في حضر أو سفر بحيث لا يجد ترابا ولا ماء أو كان مصلوبا وجاءت الصلاة فليصل كما هو، وصلاته تامة ولا يعيدها، سواء وجد الماء  في الوقت أو لم يجده الا بعد الوقت ، برهان ذلك قول الله تعالى: (فاتقوا الله ما استطعتم) وقوله تعالى: (لا يكلف الله نفسا الا وسعها) وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم) جو مقام اقامت میںقید ہو یا سفر میں ہواور ایسی جگہ پر ہو جہاں پر نہ پانی ہو اور نہ ہی مٹی ہو، یا اسے صلیب پر لٹکا دیاگیا ہو اور اسی اثنا میں نماز کا وقت ہوجائے تو وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لےاور اس نماز کے اعادے کی ضرورت نہیں، خواہ اسے اس کے بعد وقت کے اندر پانی مل جائے یا وقت کے بعد ملے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے: فاتقوا الله ما استطعتم جہاں تک ممکن ہو اللہ سے ڈرو۔نیز یہ ارشاد:لا يكلف الله نفسا الا وسعها اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ گراں بار نہیں کرتا۔اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد:إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اسے بجا لاؤ۔(المحلی:۲/۱۳۸)
(۶) مسح علی الخفین کی مدت:
اس حوالے سے امام شعرانی نے پہلے صحیح مسلم کی وہ حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے مدت مسح تین دن اور تین رات مقرر فرمائی جب کہ مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات۔
جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم ۔(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب التوقيت في المسح علی الخفين)
اس کے بعد سنن بیہقی سے درج ذیل احادیث نقل کی ہیں:
(ا) عن خزيمة بن ثابت قال : جعل لنا رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثا ولو استزدته لزادنا يعني المسح على الخفين للمسافر (السنن لکبریٰ للبیہقی،کتاب الطہارۃ، باب ما ورد في ترک التوقيت) حضرت خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے مسح علی الخفین کی مدت تین دن مقرر فرمائی ، لیکن اگر ہم اور زیادہ چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور اضافہ فرمادیتے۔
(ب) عن خزيمة بن ثابت قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم أن نمسح على الخفين يوما وليلة إذا أقمنا وثلاثا إذا سافرنا وأيم الله لو مضى السائل في مسئلته لجعلها خمسا(السنن لکبریٰ للبیہقی،کتاب الطہارۃ، باب ما ورد في ترک التوقيت)
حضرت خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیں حکم دیا کہ ہم حالت اقامت میں اپنے موزوں پر ایک دن اور ایک رات مسح کریں اور حالت سفر میں تین دن اور تین رات۔ اور قسم خدا کی اگر سائل مدت مسح میں مزید توسیع چاہتا تو اللہ کے رسول اسے پانچ دن فرمادیتے۔
(ج)  عن أبي عمارة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى في بيته قال: فقلت : يا رسول الله أمسح على الخفين قال فقال نعم قلت يوما قال ويومين قلت ويومين قال وثلاثة قلت وثلاثة يا رسول الله قال نعم ما بدا لك ۔  (السنن لکبریٰ للبیہقی،کتاب الطہارۃ، باب ما ورد في ترک التوقيت) حضرت ابو عمارہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باران کے گھر میں نماز پڑھی۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: حضور! کیا میں موزوں پر مسح کرسکتا ہوں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:ہاں! میں نے عرض کی: ایک دن؟ آپ نے فرمایا : دو دن۔ میں نے کہا:دو دن؟ فرمایا: تین دن۔ میں نے کہاحضور! تین دن؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں! جب تک تم چاہو۔  
امام شرف نووی صحیح مسلم والی حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’اس میں مذہب جمہور کی تائید پر واضح دلیل اور قاطع برہان ہے۔جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسح علی الخفین کی مدت مقرر ہے۔ یہ سفر میں تین دن اور تین رات ہے جب کہ حضر میں ایک دن اور ایک رات۔ یہی امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور جمہور صحابہ و تابعین کا مذہب ہے جب کہ امام مالک کے مذہب مشہور اور امام شافعی کے قول قدیم کے مطابق مسح کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔‘‘ (شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب التوقيت في المسح علی الخفين)
ائمہ و علما کے اس اختلاف وتشریح کے بر خلاف امام شعرانی اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث میں تشدید ہے جب کہ بیہقی کی جملہ حدیثوں میں تخفیف ہے۔ ایسے میں اول کو اکابر کے حال پر اور دوم کواصاغر کے حال پر محمول کیا جانا چاہیے۔ اور کبھی طاعت و معصیت کے حوالے سے جسمانی قوت وضعف کا لحاظ کرتے ہوئےاس کے بر عکس بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ (ص:۱۰۰)
(۷)عشا کا وقت:
(۱)حضرت جبریل علیہ السلام نے نماز عشا میں آپ ﷺ کی پہلی بار اس وقت امامت فرمائی جب شفق غائب ہوچکا تھا اور دوسری بار اس وقت جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر چکا تھا، اور اس کے بعد بتایا کہ عشا کا وقت ان دونوں کے بیچ ہے۔ یعنی شفق کے ڈوبنے سے لے کر رات کے پہلے تہائی حصہ تک۔(المستدرک، کتاب الصلاۃ، باب : في مواقيت الصلاۃ ؍السنن الکبریٰ، کتاب الصلاۃ، جماع اباب المواقیت،باب آخر وقت الظہر وأول وقت العصر)
اس کے برخلاف حضرت عبد اللہ ابن عباس کا فرمان ہے کہ عشا کا وقت فجر تک ہے۔ (السنن الکبریٰ، کتاب الصلاۃ، جماع ابواب المواقیت، باب آخر وقت الجواز لصلاۃ العشاء)
ان دونوں باتوں کو نقل کرنے کے بعدامام شعرانی فرماتے ہیں :
 پہلی حدیث میں شدت ہے، اس لیے کہ اس میں رات کے پہلے تہائی حصہ گزرنے کے ساتھ عشاکے وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہے جب کہ دوسری روایت میں تخفیف ہے کہ اس میں طلوع فجر تک وقت میں وسعت ہے۔ لہٰذا یہاں بھی وہی تخفیف و تشدید کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔(ص:۱۰۱)
(۸)امام کے پیچھےسورۂ فاتحہ کی تلاوت:
فقہاے امت کے درمیان مختلف فیہ فقہی مسائل میں ایک اہم مسئلہ قراءت خلف الامام کا بھی ہے۔ شوافع کے یہاں قراءت، امام کے ساتھ مقتدی پر بھی پر واجب ہے، مالکی علما کے نزدیک سری نمازوں میں مقتدی کا قراءت کرنا مستحب ہےاور جہری میں مکروہ ہے اور حنبلی علما کے یہاں سری اور جہری دونوں نمازوں میں مقتدی کا قراءت کرنا مستحب ہے، البتہ جہری نمازوںمیں امام کی قراءت کے دوران مکروہ ہے،اس لیے کہ تلاوت قرآن کے دوران خاموش رہنے اور غور سے سننے کا حکم ہے (الاعراف:۲۰۴)،اس لیے جہری نمازوں میںمقتدی کو امام کے سکتے اور خاموشی کے دوران قراءت کرنی چاہیے، جب کہ عام ائمۂ احناف کے یہاں قراءت خلف الامام بہر صورت مکروہ ہے ۔ البتہ صاحب ہدایہ علامہ ابوالحسن مرغینانی حنفی نے ائمۂ احناف میں امام محمد کا ایک قول نقل کیا ہے جس کے مطابق قراءت خلف الامام احتیاطاً مستحسن ہے ۔(ہدایۃ، کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ) اس پر امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعدآخر میں لکھا ہے کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے میں ہی احتیاط ہے؛کیوں کہ احتیاط،قوی تر دلیل پر عمل کرنے میں ہوتا ہے اور اس مقام پر قوی تر دلیل قراءت کے حق میں نہیں، عدم قراءت کے حق میں ہے۔
فقہا کے یہ اختلافات اس مسئلے میں دو طرح کی احادیث مروی ہونے کی وجہ سے ہیں، مثلاً:
(۱) الف۔ لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب سورۂ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں۔
(القراءۃخلف الامام للبخاري،باب وجوب القراءۃ للامام والماموم ؍السنن الصغریٰ للبیہقی،کتاب الصلاۃ، باب فرض الصلاۃ وسننھا)
ب۔ انی أراکم تقرؤون وراء امامکم، قالو ا:اجل یارسول اللہ! قال: لاتفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب، فانہ لا قراءۃ لمن لم یقرابھا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو، صحابہ نے عرض کی :جی سرکار ہم قراءت کرتے ہیں۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا سورۂ فاتحہ کے علاوہ میں ایسا نہ کرو، کیوں کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (مسند احمد، تتمۃ مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن صامت؍ سنن ابو داؤد،  الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ فی صلاتہٖ بفاتحۃ الکتاب، الفاظ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ)
(۲)الف۔ من صلی خلف امام فان قراءۃ الامام لہ قراءۃ۔ جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کے لیے قراءت ہے۔ 
(کتاب الآثار،باب القراءۃ خلف الامام وتلقينہ؍المعجم الاوسط، باب من اسمہ محمود)
ب۔ من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔ جس کی نماز کا کوئی امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔ (القراءۃ خلف الامام للبخاري،باب وجوب القراءۃ للامام والماموم ا؍سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرا الامام فانصتوا)
ان احادیث میں تطبیق دیتے وقت شوافع نے دوسری قسم کی احادیث کو مرجوح قرار دیااور صرف پہلی قسم کی احادیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے سورۂ فاتحہ کی قراءت کو امام و مقتدی دونوں پر فرض قرار دیا۔ شوافع کےعلاوہ دیگر علما نے دونوں طرح کی احادیث پر عمل کی صورت نکالی ہے، بہ ایں طور کہ مالکی علما نے کہا کہ پہلی قسم کی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے ہرنماز میںسورۂ فاتحہ کی تلاوت تو ضروری ہے البتہ جماعت والی نماز اگر سری ہوتو پہلی قسم کی احادیث کے پیش نظر اگر امام کے ساتھ ہر مقتدی پڑھے تو یہ مستحب ہے ، واجب نہیں ہے، کیوں کہ دوسری قسم کی احادیث کی وجہ سے مقتدی کے لیے امام کی قراءت کافی ہےاور اگر جہری نمازوں میں بھی وہ پڑھتا ہے تو دوسری قسم کی احادیث کو دیکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ قرآن میں تلات قرآن کے دوران غور سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے (الاعراف:۲۰۴)، اس کا یہ عمل مکروہ ٹھہرے گا۔
 حنابلہ نے اس میں اور تفصیل کی اور کہا کہ امام کے ساتھ اگر مقتدی بھی قراءت کرتے ہیں تو پہلی احادیث کی طرف نظر کرتے ہوئے یہ عمل بلا شبہ مستحب ہوگا، البتہ واجب اس لیے نہیں ہوگا کہ دوسری قسم کی احادیث کی وجہ سے مقتدی کے لیے امام کی قراءت کافی ہے، البتہ امام جب بلند آواز سے قراءت کررہاہو تو اس کی قراءت کے دوران ہی مقتدی نہ پڑھیں، یہ مکروہ ہے، کیوں کہ قرآنی حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو، تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔(الاعراف:۲۰۴)
 احناف نے کہا کہ پہلی حدیث پر اس طرح عمل ہوگا کہ ہر نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی، انفرادی نمازوں میں ہر شخص پڑھے گا اور جماعتی نمازوں میں امام پڑھے گا اور مقتدی سنیں گے، امام کے پڑھنے سے پہلی قسم کی احادیث پہ عمل ہوگیا اور مقتدی کے سننے سے قرآنی حکم ’جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو‘پر،دوسری قسم کی احادیث پراور اکابر صحابہ کی سنت پر عمل ہوگیا۔
صاحب ہدایہ نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے پرصحابہ کا اجماع ہے۔(ہدایۃ، کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ)  اس پر شرح کرتے ہوئے علامہ شمس الدين بابرتي نے لکھا ہے کہ یہ بات قابل غور ہے، اس لیے کہ جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابہ قراءت خلف الامام کے وجوب کے قائل تھے۔ پھر صاحب ہدایہ کی بات کی تاویل و توضیح کرتے ہوئے خود ہی لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ صاحب ہدایہ کی اس سے مراد اکثر صحابہ کا اجماع یا اکابر اور مجتہدین صحابہ کا اجماع ہو، یا ممکن ہے کہ جو صحابہ اس موقف کے خلاف تھے وہ بعد میں اس کے حامی ہوگئے ہوں، یا یہ مراد ہے کہ جیسا کہ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ دس اکابر صحابہ قراء ت خلف الامام سے منع کرتے تھے اور جب ان کے منع پر کسی کا رد منقول نہیں ہوا تو گویا صحابہ کا اجماع سکوتی ہوگیا۔ (العنایہ، ہدایۃ، کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ) 
اس باب کی مذکورہ احادیث کو سامنے رکھتے ہوئےامام شعرانی اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’دوسری قسم کی احادیث(جس میں امام کی قراءت کو مقتدی کی قراءت بتایا گیا ہے) اکابر کے حال پر محمول ہیں،جن کا دل قراءت امام کی سماعت کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں حاضر رہتا ہے، اسی طرح جو امام کی قراءت کے ساتھ خود بھی قراءت کرتے ہیں ،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے، ان کا حال ان لوگوں کا ہے جن کا دل قراءت امام کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں حاضر نہیں رہتا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن مسعود، عبد اللہ ابن عمر اور صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے پہلا والا موقف اختیار کیا۔۔۔۔حضرت عطا کا بیان ہے کہ صحابہ سری نمازوں میں قراءت خلف الامام کے قائل تھے، جہری نمازوں میں اس کے قائل نہیں تھے۔ یہاں بھی معاملہ میزان کے دونوں پہلو، تخفیف اور تشدید کی طرف راجع ہوا۔‘‘(یعنی اصاغر کے لیےقراءت خلف الامام اوراکابر کے لیے عدم قراءت)(ص:۱۰۴)
(۹) دیہات میں جمعہ کی نماز:
امام شعرانی فرماتے ہیں:
’’امام شافعی کا ارشاد ہے :جمعہ صرف ایسی آبادی میں ہوگی جہاں گھربنے ہوئے ہوں اور ان کے اندرایسے لوگ رہتے ہوں جن پر جمعہ واجب ہوتا ہے، وہ آبادی خواہ شہر ہو یا گاؤں۔ 
اس کے بالمقابل بعض علما اس طرف گئے ہیں کہ جمعہ کی نماز ہر گاؤں میں نہیں ہوسکتی، صرف اسی گاؤں میں ہوسکتی ہے جس میں گھنی آبادی ہو، اس کے ساتھ اس میں ایک مسجد اور ایک بازار بھی ہو۔
 جب کہ امام ابوحنیفہ کا ارشاد ہے کہ جمعہ کی نماز صرف اس شہر کی مسجد میں ہوگی، جہاں سلطان اسلام بھی ہو۔
پہلے قول میں تشدید ہے، اس اعتبار سے کہ اس میں عمارتوں کی شرط ہے۔دوسرے قول میں اس سے زیادہ سختی ہے، اس اعتبار سے کہ اس میں آبادی کے گھنی ہونے اور ایک بازار ہونے کی شرط ہےاور تیسرا قول ان دونوں سے بھی سخت ہے۔
لہٰذا یہاں بھی معاملہ میزان کے دونوں پہلو تخفیف اور تشدید کی طرف راجع ہوا۔
پھر قول اول اور اسی طرح قول ثانی کی دلیل اتباع صحابہ ہے۔اس لیے کہ ہمیںکوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ صحابہ نے شہر اور گاؤں سے باہرصحرا اور سفر میں جمعہ قائم کیا ہو۔ 
اسی طرح ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے اس کے لیے مسجد، بازار، آبادی اور سلطان کی جو شرط لگائی ہے وہ کسی دلیل کی بنیاد پر لگائی ہے، اس کے لیے ان کے پاس دلیل ہوگی۔اہل علم کا کہنا ہے کہ واقعۂ ارتداد کے بعد(مسجد نبوی میں قیام جمعہ کے بعد، مضمون نگار کو کتب حدیث میں یہی ملا۔) بحرین کے جس گاؤں میں سب سے پہلے جمعہ قائم کیا گیا اس کا نام جؤاثی تھا، اس میں ایک مسجد بھی تھی اور ایک بازار بھی تھا۔ 
اور قول ثالث کی دلیل بھی واضح ہے کہ جہاں پر حاکم نہیں ہوگا، وہاں بد نظمی اور لاقانونیت ہوگی۔ 
ایک عارف کا قول ہے کہ ائمہ نے یہ شرائط صرف لوگوں کی آسانی کے لیے رکھی ہیں، ورنہ حقیقت میں یہ صحت کی شرط نہیں ہے،لہٰذا اگر مسلمانوں نے بغیر آبادی کے اور بغیر حاکم کے جمعہ کی نماز پڑھی تو بھی یہ ان کے لیے جائز ہوگا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جمعہ فرض کیا ہے اور ائمہ نے جوشرطیں لگائی ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔‘‘(ص:۲۴۱)
(۱۰) لاپتہ شوہر کی بیوی کا نکاح  ثانی:
وہ عورت جس کا شوہر غائب ہو اور یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ؟ اس سلسلے میں علما کے اختلافات ہیں۔ امام شعرانی نے مختلف آثار نقل کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں اصحاب رسول ﷺکا موقف مختلف تھا۔فرماتے ہیں:
ــ’’امام شافعی اور امام بیہقی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ لاپتہ شوہر کی بیوی دوسری شادی نہیں کرے گی، اگر اس نے دوسری شادی کر لی اور اس کے بعد اس کا لاپتہ شوہر آگیا تو وہ اسی کی بیوی رہے گی، اسے اختیار ہوگا ، چاہے تو اسے رکھے چاہے تو طلاق دے دے۔
اس کے بالمقابل امام مالک ، امام شافعی اور امام بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ جس عورت کا شوہر غائب ہوجائےاور اسے معلوم نہ ہوکہ وہ زندہ ہے یا مرگیا، تو وہ چار سال تک انتظار کرے گی، پھر اس کے بعد چار مہینے دس دن گزار کر عدت سے باہر آجائے گی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زمانے میں اسی پر فیصلہ کیا۔
لہٰذا پہلا حکم سخت ہے اور دوسرانرم، اس طرح یہاں بھی معاملہ وہی تشدید و تخفیف کا ہے۔‘‘  (ص:۱۲۱، ۱۲۲) 
واضح رہے کہ امام مالک کے علاوہ ائمۂ ثلاثہ نے حضرت علی کا ہی مذہب اختیار کیا ہے جب کہ حضرت امام مالک نےسیدنا عمر ابن الخطاب کا موقف اختیار کیا ہے، البتہ ماضی قریب میں شہزادۂ اعلی حضرت علامہ مصطفی رضا خاں بریلوی، علامہ ظفرالدین بہاری اور علامہ ارشدالقادری نے عام ائمہ اور علماے احناف کے برخلاف امام مالک کے فتوی کو ہی مفتی بہ قرار دیا۔(تفصیل کے لیے دیکھیےاستاذگرامی حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب کی کتاب:’فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت، فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے،ص: ۵۹ تا ۶۱)
تلک عشرۃ کاملۃ:
یہ دس مثالیں بطور مشتے نمونہ ازخروارے ہیں۔’’ میزان الشریعۃ الکبریٰ‘‘ اس قسم کی سیکڑوں بلکہ ہزاروں مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔حضرت امام شعرانی نے’’کتاب الطہارۃ‘‘ سے لے کر ’’کتاب الشہادات‘‘ تک جمیع ابواب فقہ سے متعلق احادیث و آثاراور اقوال و روایات کے درمیان اسی طرح عارفانہ تطبیق فرمائی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اہل حق کے جتنے فقہی اختلافات ہیں ان میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر مسئلے میں دو حکم ہے ، ایک سخت اور دوسرا نرم، اس طرح جملہ اختلافات انہی دو پہلو میں راجع ہیں، جو حضرات تفصیل دیکھنا چاہیں اصل کتاب سے رجوع کریں بلکہ موجودہ شدت پسندی کے ماحول میں جب کہ ہر مفتی نہ صرف یہ کہ صرف اپنے ہی موقف کودرست سمجھنے پر مصر ہے بلکہ اپنی رائے کو غیر شعوری طور پر وحی کا درجہ دیے ہوئے ہے،اعتدال پسند علما پر لازم ہے کہ اپنے اکابر کی اس قسم کی کتابوں کا مطالعہ کریں جس سے نہ صرف معلومات میں اضافہ اور فکر میں وسعت پیدا ہوگی بلکہ یہ بھی واضح ہوگا کہ تمام ائمہ و علماے مجتہدین کے اقوال برحق ہیں اور سب کی بنیاد کتاب وسنت ہے۔ اس کے ساتھ انہیں اختلاف کا سلیقہ بھی آئےگا اور انہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہوگی کہ علماے حق کے اختلافات زحمت نہیں رحمت ہیں۔
یہاں پہنچ کر بعض حضرات کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے مضامین کی اشاعت کا کیا حاصل ہے جس سے ایک عام آدمی کو یہ لگنے لگے کہ حنفیت اور شافعیت کا اختلاف کوئی چیز نہیں اور ہمارے لیےیہ جائز ہے کہ جب چاہیں جس موقف پرعمل کریں؟
 میں جواباً کہوں گا کہ یہ سوال مجھ سے نہیں ، مجھ سے پہلے امام شعرانی سے ہونا چاہیے کہ انہوں نےتقلید ائمہ پر اتفاق علما کے زمانے میں آج سے تقریباً چار سو سال پہلےدسویں صدی ہجری میں اس قسم کی کتاب کیوںلکھی، پھر ایسی کتاب لکھنے پر ہمارے اکابر علماے اسلام ، اہل تصوف اور فقہاے احناف نے ان پر نقد و جرح کرنے کے بجائے ان کی مدح و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے کیوں ملائے؟
بات در اصل یہ ہے کہ امام شعرانی کے زمانے میں تقلید ائمہ ان کے معاصر علما کے مابین تحقیق و اتباع سے آگے نکل کر عصبیت کی وادی میں داخل ہوگئی تھی۔ بعض علما اس قدر جری ہوگئے تھے کہ زبانی طور پر سارے ائمہ کو برحق کہنے کے باوجود،ان کے طرز عمل سے یہی ظاہر تھا کہ صرف انہی کا مسلک فقہ برحق ہے باقی دیگر مسالک ہفوات وخرافات کا پلندہ ہیں ،ان کی جرات کا یہ عالم تھا کہ دوسرے مسلک فقہ کا ردو ابطال ہی ان کی زندگی کا شیوہ بن چکا تھا۔میزان الشریعہ کے شروع میں ہی امام شعرانی نے اپنے شیخ حضرت علی الخواص رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھاہےکہ ماوراء النہر کے بعض حنفی اور شافعی علما رمضان کے دنوںمیں بھر پیٹ کھاکھا کر مناظرے کیا کرتے تھے اور اپنے مسلک فقہ کی حقانیت کو بیان کرنے کے لیے پریشان رہاکرتے تھے۔ انہی حالات میں امام شعرانی نےاپنی یہ کتاب لکھی ، چناں چہ فرماتے ہیں:
ــ’’اس تصنیف کا مقصد یہ بھی ہے کہ مقلدین کا قول کہ تمام ائمہ برحق ہیں، ان کے دلی اعتقاد کے موافق ہوجائے، تاکہ وہ اپنے ائمہ کے حق ادب کا پاس رکھیں اور آخرت میں اس پر مرتب ہونے والے ثواب سے لطف اندوز ہوں اور جو شخص زبانی طور پر تو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے تمام ائمہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور اپنے دل میں اس کا اعتقاد نہیں رکھتا، وہ نفاق اصغر سے محفوظ ہوجائے جس کی مذمت اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی ہے۔ ؃ ‘‘(ص: ۷)
ہمارے زمانے کے حالات اس سے بھی ابتر ہو چکے ہیں ، موجودہ ہندوستانی فقہی معاشرے میںبعض علما حنفیت و شافعیت سے بھی نیچے اتر کر حنفیت اور حنفیت کے درمیان ہی  برسر پیکار ہیں،بعض غلو پسند علما نے غیر اعلانیہ طور پر اپنے محبوب نظر فقہا کو مقام عصمت پر بٹھا رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا فقیہ ان سے یا ان کے محبوب نظر فقہا سے علمی و فقہی اختلاف کرتا ہے یافقہ حنفی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے حالات زمانہ کی تبدیلی سے حکم شرعی میں تبدیلی کا فتوی دیتا ہے تو یہ لوگ چراغ پا ہوجاتے ہیں، سب و شتم شروع کردیتے ہیں اور اس سے بڑھ کر بد دعائیں دینا شروع کردیتے ہیں اور رحمت حق کو اپنے محدود پیمانوں سے ناپتے ہوئے ایسے بے گناہ فقہا پرباب توبہ و مغفرت کو بھی بند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس لیے ہمیںامام شعرانی کی عارفانہ تطبیقات کی ضرورت کل کے بہ نسبت آج زیادہ محسوس ہورہی ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام شعرانی کی یہ گفتگو عوام کے لیے نہیں خواص علما کے لیے ہے، اس لیے امام شعرانی کے ان عارفانہ نکات تک اگر بعض ذہن نہ پہنچ سکیں تو وہ عارف باللہ امام عبد الوہاب شعرانی پریا ان کے افکار کو پیش کرنے والے اس سیہ کار پر انکار و اعتراض کرنے کے بجائےموجودہ عہد کے معتبر اور متوسط علما سے رجوع کریں، وہ صحیح طور پر ان کی تفہیم کرسکیں گے۔  
کیا اب تقلید کی ضرورت نہیں ہے؟
امام شعرانی کی ان تطبیقات اور نکات آفرینیوں کو پڑھنے کے بعد عامۃ الناس بلکہ بہت سے اوساط الناس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب تمام مسالک برحق ہیں اور سارے آثار و اقوال تشدید و تخفیف پر مبنی ہیں، پھر تو تقلید ائمہ کی ضرورت ہی نہ رہی، جس کے جی میں آئے جب جیسے اور جس موقف پر عمل کرے، کیوں کہ سب برحق ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام شعرانی کی تطبیقات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے؛ کیوں کہ خود امام شعرانی تقلید کے مخالف نہیں، موافق و موید ہیں،ان کا مقصد تقلید محضیت، اندھی تقلیداور متعصبانہ تقلید کی مخالفت ہے جس کا اسیر ہوکرایک مسلمان اکابر ائمہ و علما کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردیتاہےیا اپنے ان معاصر علما کے خلاف آمادۂ پیکار ہوجاتاہے جو اس کے نقطۂ نظر کے مخالف ہیں ۔امام شعرانی کا مقصود اہل علم تک اس پیغام کو پہنچانا ہے کہ وہ تمام ائمہ و علما کو دل سے برحق جانیں اور سب کا احترام کریں، ایسا نہ ہو کہ ان کی زبان تو سب کو برحق کہے اور ان کا ضمیر اس کی نفی کرتا رہے اور اس طرح وہ نفاق خفی کے مرض میں مبتلا رہیں، اسی طرح ان کا مقصد مقلد علما کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ تقلید محضیت اور فقہی و علمی جمود کا شکار نہ ہوںبلکہ تمام ائمۂ مجتہدین کو برحق سمجھتے ہوئے زمانی تقاضوں کے تحت اگر دوسرے مسلک فقہ پر فتوی دینے کی ضرورت محسوس کریں تو اس پر فتوی دیںاور بہر صورت کسی ایک امام سے چمٹے رہنے کی قسمیں توڑدیں۔ 
اس مقام پر اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اتباع شریعت کے حوالے سے مسلمانوں کو تین خانوں میں رکھا جاسکتا ہے:
(۱) مجتہدین مطلق (۲) مجتہدین مقید/ عام محققین (۳) عامۃ المسلمین بشمول عام علما۔
مجتہدین مطلق تو آج کوہ قاف کے باشی بن چکے ہیں، موجودہ عہد میں ایسے علما نظر نہیں آتے ، جواجتہاد و استنباط میں مطلقاً آزاد ہوں، رہے عام محققین تو ایسے علما سے زمانہ کبھی خالی نہیں ہوگا ، بقول علامہ علاؤ الدین حصکفی زمانہ اہل تمیز سے کبھی خالی نہیں رہے گااور جو صاحب تمیز نہ ہو وہ صاحب تمیز سے رجوع کرے، کہ اس کی فقط اتنی ہی ذمہ داری ہے۔ 
ولا يخلو الوجود عمن يميز هذا حقيقة لا ظنا، وعلى من لم يميز أن يرجع لمن يميز لبراءة ذمته (الدر المختار،۱؍۸۴)
اس تقسیم پر نظر کرتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ تقلید سے مطلق آزادی موجودہ عہد میں عملاً ناممکن ہے، کیوں کہ یہ حصہ مجتہدین مطلق کا ہے جو آج موجود نہیں،رہے عام مسلمان توان کے مقلد ہونے میں کس کافر کو شک ہوگا، ہاں!عام محققین کا حال یہ ہے کہ وہ اصول و فروع میں کسی ایک مکتب فقہ سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ ابن الوقت نہیں ابو الوقت ہوتے ہیں کہ تبدیلی زمانہ اور تغیر حالات کے تحت حسب ضرورت و حاجت تبدیلی فتوی کے لیے تیار رہتے ہیںاور ضرورت پڑنے پر دوسرے امام کے قول پر فتوی دینے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔
امام شعرانی کا مقصد اسی روح علمی کو بیدار کرنا ہے، نہ کہ تقلید کے خلاف آواز اٹھانا ۔ وہ اہل علم کے ذہن و دماغ میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ تمام مسالک فقہ برحق اور مبنی بر کتاب و سنت ہیںتاکہ وہ ضرورت پڑنے پر تبدیلی فتوی کے لیےیا دوسرے مسلک فقہ پر فتوی دینے کے لیے تیار رہیں، ان کا مقصد عوام کو تقلید سے آزادی کی دعوت دینانہیں ہے،وہ تو صرف اس کے قائل ہیں کہ سارے مکاتب فقہ برحق ہیں، اس کے قائل نہیں کہ جو جب چاہے جس مکتب فقہ پر عمل کرے،کون سا حکم کس صورت میں نافذ العمل ہوگا اس کا فیصلہ ہر ایرے غیرے کا نہیں، یہ اپنے زمانے کے ممتاز علما کا ہے جو صاحب تمیز کے مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ عام مسلمان کو نہ یہ جائز ہے کہ جب چاہے جس موقف پر عمل کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ اپنے عہد کے ان علما پر زبان طعن دراز کرے جواسے پسند نہ ہوں، عام مسلمان بلکہ عام علما کو جو صاحب تمیز نہیں ہیں ، ان کی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ اپنے طور پر جن علما کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور جو ان کے نزدیک صاحب تمیز ہیں، ان سے رجوع کریں اور ان کے فتوے پر عمل کریں۔
امام شعرانی کے نزدیک عام مسلمانوں پر تقلیدامام واجب ہے اور بلا ضرورت دوسرے مکتب فقہ پر عمل کرنا جائز نہیں، اس کا ثبوت ان کا یہ ارشاد ہے:
’’کوئی شافعی المسلک ہے اور اس نے شرم گاہ کو چھولیا ،اگر وہ دوبارہ وضوکرنے پر قادر ہے توامام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہوئے بے تجدید وضونماز پڑھنا اس کے لیے روانہیں ہے۔ اسی طرح اگرکوئی شافعی المسلک فاتحہ کی تلاوت پرقادرہے تواسے جائز نہیں کے بغیر تلاوت فاتحہ کے نماز پڑھ لے، یا تلاوت قرآن پرقدرت ہوتے ہوئے ذکر الٰہی کرتے ہوئے نماز پڑھے،یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں۔‘‘ (ص:۲۳)
ہاں! اہل علم میں جو صاحبان تمیز ہیں، وہ اپنا کام جاری رکھیں۔بقول امام موصوف کے:
’’’باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے حق میںفرمایاہے کہ :’’ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو ترک نہیں کیاہے۔:مافرطنا فی الکتاب من شیء۔ (الانعام:۲۸)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجمال کی تفصیل بیان فرمائی۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے طہارت ،نماز اورحج وغیرہ کے طریقے بیان نہیں فرمائے ہوتے توامت کا کوئی شخص ان امور کو قرآن سے نہیں نکال پاتا۔نہ ہم فرائض ونوافل کی رکعتوں کی تعداد اور ان دوسرے امور سے واقف ہوپاتے جن کا ذکر آئندہ آئے گا۔تو جس طرح شارع علیہ السلام نے اپنی سنتوںکے ذریعے قرآن کے مجمل احکام کو واضح فرمایا اسی طرح ائمۂ مجتہدین نے احادیث کریمہ میں موجود اجمال کی ہمارے لیے تفصیل فرمائی۔اگر ائمہ مجتہدین نے ہمارے لیے اجمال شریعت کی تفصیل نہیں فرمائی ہوتی توشریعت مجمل ہی رہ جاتی۔یہی بات قیامت تک پچھلے دورکے بالمقابل ہر دورکے حق میں کہی جاسکتی ہے؛ کیوںکہ علمائے امت کے کلام میں قیامت تک اجمال کا سلسلہ جاری ہے۔اگرایسا نہ ہوتاتو نہ کتابوں کی شروحات لکھی جاتیں اور نہ ہی شروحات پر حواشی لکھے جاتے۔‘‘(ص:۵۸)
چوتھا گروہ:
واضح رہے کہ یہاں مسلمانوں کا ایک چوتھا طبقہ بھی ہے، جو نادر و کمیاب ہونے کے باجودصوفیہ کی تصریحات کے مطابق ہر زمانےمیں موجود رہا ہے، جسے امام شعرانی عارفین باللہ کے لقب سے ملقب کرتے ہیں اور جن کے بارے میں امام موصوف کا دعوی ہے کہ یہ عین شریعت پر فائز ہوتے ہیں، ایسے نفوس قدسیہ بسا اوقات فنی اعتبار سے مقام اجتہادمطلق پر نہ ہوتے ہوئے بھی،حقیقت کے لحاظ سے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں،امام شعرانی کے لفظوں میں:
’’اس کشف کاحامل یقین کے معاملے میں مجتہدین کے برابر ہوتاہےاوربسااوقات بعض پرفوقیت بھی رکھتاہے؛کیوںکہ وہ اپناعلم براہ راست عین شریعت سے اخذکرتاہے ۔ ایسا شخص اجتہاد کے ان ذرائع کے حصول کامحتاج بھی نہیںہوتا جنھیں علمانے مجتہدکے حق میں مشروط کیاہے۔اس کامعاملہ اس شخص جیساہے جوسمندر کی راہ سے ناواقف ہو،کسی واقف شخص کے ساتھ سمندر چلاجائے اورپھراپنے برتن کواس کے پانی سے بھرلے تواب ان دونوں کے پانی میں کوئی فرق نہیں رہا۔‘‘(ص:۱۶) 
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’جس کوبھی ولایت محمدی کاکوئی درجہ ملتاہے وہ احکام شریعت کووہاں سے لینا شروع کردیتا ہے جہاں سے مجتہدین نے لیاہے اوراس سے تقلیدکی گرہ کھل جاتی ہے۔وہ صرف اللہ کے رسول ﷺکامقلدرہ جاتاہےاور بعض اولیا کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ وہ مثلا شافعی یا حنفی تھے توایسامقام کمال تک پہنچنے سے پہلے تھا۔‘‘ (ص:۲۸،۲۹)
اور اہل تصوف کے یہاں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایسے صاحبان کمال اولیا سے زمانہ کبھی خالی نہیں رہا، امام احمد رضا قادری بریلوی کے لفظوں میں ’’بغیر غوث کے زمین و آسمان قائم نہیں رہ سکتے۔‘‘ (الملفوظ،ج:۱،ص۱۲۰، قادری کتاب گھر، بریلی،۱۹۹۵ء)
یہ اولیا تقلید کی زنجیر سے آزاد ہوتے ہیں مگراس کے باوجود عویٔ اجتہاد کرنے سے ادباً اور احتیاطاً گریز کرتے ہیں ،کیوں کہ موجودہ زمانے میں عام مسلمان بلکہ عام محبین صوفیہ نے بھی یہ اعتقاد کر رکھا ہے کہ اب اولیاے کاملین اور مقام غوثیت پر فائز نفوس قدسیہ نہ رہے۔
کیا غیر مقلدین زمانہ عارفین باللّٰہ کے مسلک پر ہیں؟
امام شعرانی نے میزان الشریعہ میں اس بات کو بار بار لکھا ہے کہ عارفین باللہ عین شریعت پر فائز ہیں، انہیں کسی امام مجتہد کی تقلید کی حاجت نہیں، وہ براہ راست سر چشمۂ نبوت سے سیرابی حاصل کرتے ہیں،انہیں سارے مسالک فقہ چشمۂ نبوت سے پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں اوروہ حسب حال خود کو جس پن گھٹ سے سیراب کرنا چاہتے ہیں سیراب کرتے رہتے ہیں۔
امام شعرانی کی اس بات سے ممکن ہے کہ بعض حضرات یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کریں کہ غیر مقلدین زمانہ(یہ ایک اصطلاح ہے، ورنہ یہ حضرات بھی حقیقتاً اپنے چند مخصوص علما کے مقلد ہیں ، غیر مقلد نہیں ہیں)بھی عارفین باللہ کے مسلک پر ہیں، کیوں کہ جس طرح عارفین باللہ امام معین کی تقلیدکو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے، غیر مقلدین بھی تقلید شخصی کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں؟
اس شبہے کا جواب ایک جملے میں تو صرف یہ ہے ـ:
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
اور بقول عارف ربانی حضرت شیخ ابوسعید صفوی دامت فیوضہم:
کہاں ناسوت کی دنیا کہاں ملکوت کی دنیا
کہاں آفتاب اور کہاں ایک ذرہ
کہاں دل کی دنیا کہاں گل کی دنیا
اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ عارفین کے لیے جائز ہے کہ وہ جب چاہیں، جس پنگھٹ سے پانی پییں، جاہلین کے لیےنہیں،جو اس سرچشمے سے ہی ناواقف ہیں، شمشیر زنی کی اجازت مجاہدین کو ہے نہ کہ بچوں کو ، جو خود اپنی ہی ٹانگیں کاٹ لیں گے۔ جہلا کو یہ اجازت دے دی جائے تو شریعت اور اسراردین سے یہ ناواقف اپنی خواہشات اور طبیعت کو ہی دین و شریعت بنا لیںگے اور أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ (الجاثيۃ: ۲۳)کے بمصداق اتباع شریعت کے بجاے خواہشات پرستی میں مبتلا ہوجائیںگے۔
غیر مقلدین زمانہ اور عارفین باللہ کے موقف میں ایک دوسرا نمایاں فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ عرفا یہ دیکھتے ہیں کہ تمام مجتہدین امت کے اجتہادات و اقوال سرچشمۂ نبوت سے پھوٹ رہے ہیں، لہٰذا وہ سب کو برحق سمجھتے ہیں اور سب کا احترام کرتے ہیں، اس کے برخلاف غیر مقلدین زمانہ کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے فہم و ادراک کو کتاب و سنت کا درجہ دے دیتے ہیں اور اپنے فہم کے مخالف تمام اجتہادات و اقوال کو مخالف قرآن و سنت قرار دیتے ہوئے ائمۂ اعلام کواربابا من دون اللہ بتاتےہوئے انہیں سب و شتم کرنے کو اپنے لیے جائز بلکہ باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر یوسف القرضاوی:
’’ان غیرمقلدین کا معاملہ بھی بڑا عجیب و غریب ہے، دوسروں کو تقلید سے روکتے ہیںاور خود مقلد محض ہیں، قدیم ائمہ کی تقلید سے انکار کرتے ہیں اور بعض موجودہ علما کی تقلید کرتے ہیں، مسالک اربعہ کا انکار کرتے ہیں جب کہ خود ان کی آراپر مبنی ایک پانچواں مسلک ایجاد کر رکھا ہے جس کے پیچھے آمادۂ جنگ نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ یہ لوگ کسی اختلافی مسئلہ میں کسی حدیث پاک کو پالیتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ اب انہوں نے اختلاف کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے اور اب اس مسئلہ میں ان کی رائے کا مخالف در اصل حدیث اور سنت کا معارض ہے۔‘‘(الصحوۃ الاسلامیۃ بین الاختلاف المشروع والتفرق المذموم، ص:۷۷۔۸۰،دار الشروق،قاہرہ)
اللہ تعالی ہمیں اسرار شریعت کو سمجھنے اور ائمۂ مجتہدین کی عزت واحترام کرنے کی توفیق بخشے اور موجودہ مسائل میں علما کوامانت و تقوی کےساتھ تحقیق و تدقیق کرنے اور علمی اختلاف میں علمی وفقہی آداب ملحوظ رکھنے، ایک دوسرے کا احترام کرنے اور اختلاف کے ساتھ زندہ رہنے کا سلیقہ بخشے اور عوام کے اندر اتباع شریعت کا جذبہ عطا فرمائے اور انہیں علما کے اختلافات میں پڑنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
---------------------------------------------------------------
مصادر و مراجع:
(۱) القرآن الکریم ------------------------------
(۲) اختلاف الائمۃ العلماء وزيرابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیرہ شيبانی
(۳) اکمال المعلم شرح صحيح مسلم علامہ قاضي ابو الفضل عياض يحصبی
(۴) الدر المختار علامہ محمد علاء الدين حصکفی
(۵) السنن الصغریٰ         امام احمد بن الحسين ابوبکر بیہقی
(۶) السنن الکبریٰ امام احمد بن الحسين ابوبکر بیہقی
(۷) الصحوۃ الاسلامیۃ بین الاختلاف المشروع والتفرق المذموم۔۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی
(۸) العنایہ    علامہ شمس الدين بابرتی
(۹) القراءۃ خلف الامام للبخاري  امام محمد بن اسماعيل البخاری
(۱۰) المحلی شیخ ابو محمد بن حزم اندلسي ظاہری
(۱۱) المستدرک امام محمد بن عبدالله حاکم نيساپوری
(۱۲) المعجم الاوسط امام ابو القاسم سليمان بن احمدطبرانی
(۱۳) المنہاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج امام ابو زکريا یحییٰ بن شرف بن نووی
(۱۴) موطاامام مالک امام مالک بن انس اصبحی
(۱۵) المیزان الکبری الشعرانیۃ امام عبد الواہاب شعرانی، دار الکتب العلمیۃ،بیروت ۱۹۹۸ء
(۱۶)سنن ابن ماجہ امام ابو عبدالله محمد بن يزيد قزوينی
(۱۷) سنن ابی داؤد امام سليمان سجستاني ازدی
(۱۸) سنن الترمذی امام ابو عیسیٰ محمد ترمذی
(۱۹) سنن الدارقطنی امام ابو الحسن علي بغدادي دارقطنی
(۲۰) صحيح مسلم امام مسلم بن الحجاج قشيري نيساپوری
(۲۱) صحيح البخاري امام ابو عبدالله محمد بن اسماعيل بخاری
(۲۲) فتح القدیر امام كمال الدين محمد بن عبد الواحدسيواسی
(۲۳)کتاب الآثار امام ابو يو سف يعقوب بن إبراہيم انصاری
(۲۴) مسند احمد ابن حنبل امام احمد بن حنبل ابو عبداللہ شيبانی
(۲۵)   معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی امام احمد بن الحسين ابو بکر بیہقی
(۲۶)ہدایۃ علامہ ابو الحسن علي بن ابوبکر مرغينانی
(۲۷) الملفوظ امام احمد رضا قادری، قادری کتاب گھر، بریلی،۱۹۹۵ء
(۲۸) فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت مفتی محمد نظام الدین رضوی،مجلس شرعی مبارک پور۲۰۱۳ء
نوٹ: اکثر حوالے المکتبۃ الشاملہ اور دیگر برقی ذرائع سے لیے گئے ہیں۔

٭٭٭