Friday 8 December 2017

امت پر رسول رحمت ﷺ کے دس بنیادی حقوق ----------- ضیاء الرحمٰن علیمی

0 comments
امت پر رسول رحمت ﷺ کے دس بنیادی حقوق
ضیاء الرحمٰن علیمی
ماہ ربیع النور کی آمد کے ساتھ ہی ساری دنیاکے لوگ سیدنا محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے اپنے ڈھنگ سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔اس ماہ میں خصوصاًمحبت و عقیدت کے جذبات  کاسیل رواں ہوتاہے۔آپ کےظاہری وباطنی کمالات پر گفتگو ہوتی ہے۔ لیکن عموماً ان حقوق پر گفتگو نہیں ہوپاتی جواُمت پر عائد ہوتے ہیں اور جن کی ادائیگی کے لیے اُمت کوہمیشہ کمر بستہ رہنا چاہیے۔
امت پرعائد ہونے والے حقوق میں سے یہ دس حقوق ہیں جو اصول وکلیات کی حیثیت رکھتے ہیں اور دوسرے تمام جزوی حقوق کو اپنے اندر شامل کیے ہوئے ہیں۔ان کو ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان حقوق کو پڑھ کر ہم غوروفکر کریں کہ بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان ہم ان حقوق کی ادائیگی اور اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں یا نہیں۔ اگر کررہے  ہیں تو یہ ہمارے لیے بڑی سعادت ومسرت کی بات ہے اور اگر نہیں کررہے ہیں تو یقیناً ہر محاذ پرہماری  ناکامی کا راز یہی ہے؛ اس لیے ان حقوق کی ادائیگی کے لیے خود بھی جدوجہد کریں  اور دوسروں کو بھی اس کے لیے تیارکریں۔ماہ ربیع النور میں حقوق مصطفیٰ کی ادائیگی اور اس کے لیے جد وجہد کی روح اگر ہمارے  اندر بیدار ہوگئی تورسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ میں اس سے بڑھ کر ہمارا کوئی اور خراج عقیدت نہیں ہوگا۔  ذیل میں ہم ’’الشفا‘‘اور دوسری کتب سے استفادہ کرکے اختصارکے ساتھ بعض ان حقوق کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی ادائیگی اور جس کے لیے جدو جہد  کو اپنا نصب العین بنالینا اُمت کے لیے ضروری ہے۔
۱۔  معرفت رسول:
جب تک انسان کو کسی کی پہچان نہیں ہوجاتی اس وقت تک وہ اس کی حقیقی قدر ومنزلت کے عرفان سے محروم ہوتاہے اوراسی وجہ سے اس کے حقوق کی ادائیگی بھی نہیںکرپاتا،اس لیے محسن علیہ السلام کی عملی تصویر سمجھنےکے لیے ایسے نیک بندوں کی صحبت میں بیٹھیں جن کی شام وسحر میں رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ کتب سیرت میںبھی جومقامات سمجھ میں نہ آئیں ایسے ہی نیک سیرت لوگوں کی صحبت میں ان کو سمجھنے کی کوشش کریں ؛کیوںکہ یہ علماآقا علیہ الصلاۃ والسلام کے وارث اور اُن کے نقوش کے سچے امین ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:  اے رسول! آپ کہہ دیں کہ یہ میری راہ ہے، جس  کی دعوت میں اور میرے نقش قدم پر چلنے والے دیتے ہیں ۔ (یوسف:108)اس لیےپوری انسانیت پرلازم ہے کہ وہ سب سے پہلے پیغمبراسلام کی ذات وصفات اور سیرت وشمائل کا مطالعہ کرے،تاکہ اُسے یہ معلوم ہوکہ آپ ہی انسانیت کے سب سے بڑے مسیحا اور محسن ہیں،خصوصاً اُمت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اپنے رسول کی حقیقی عظمت کی معرفت حاصل کرے ۔ اس معرفت کے فقدان کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل الجھے ہوئے ہیں۔ 
۲۔ محبت رسول:
جب انسان کسی شخصیت کی معرفت حاصل کرلیتاہےاوراسے اس کے اندرپنہاں فضائل وکمالات اور محاسن کا علم ہوجاتاہے تو فطری طورپر اُسے اس سے محبت ہوجاتی ہے۔چنانچہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے فضل وکمال،حسن وجمال،جودوسخاکا علم جب انسان کو ہوجائےگااور اسے یہ بھی معلوم ہوجائےگا کہ آپ نے انسانیت پر کیسے عظیم احسانات فرمائے ہیں تو وہ فطری  طورپر ان سے محبت کرنا شروع کردےگا اور اس طرح آپ کی شخصیت سے متعارف ہونے والے انسان پر یہ ذمہ داری  عائد ہوگی کہ وہ آپ سے محبت رکھے اور چوں کہ انسانیت پر آپ کا احسان سب سے بڑاہے اور حسن وخوبی میں آپ اولین  سے لےکر آخرین تک ساری دنیاکے انسانوں پر فائق ہیں، اس لیے یہ ذمہ داری بھی آئےگی کہ وہ سب سے زیادہ آپ سے محبت والفت کا مظاہرہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات ماںباپ، آل اولاد،بھائی بہن، مال وتجارت اور دکان ومکان اور دوسری  دنیوی چیزوں سے زیادہ محبوب ہونی چاہیے۔( سورۂ توبہ: ۲۴) 
۳۔ تصدیق رسول:
اللہ تعالیٰ کاارشادہے: یقیناً ہم نے آپ کوشہادت دینے والا، خوشخبری دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجاہےتاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لاؤ۔(فتح:۸-۹)محبت والفت کا تیسرا حق یہی ہے کہ زبان سے محبوب کی شخصیت،رسالت کااقرارکیاجائے اور قلب سے اس کی تصدیق  کی جائے۔
۴۔ اطاعت رسول:
کسی شخصیت کی عظمت پر ایمان اور اس کے مشن پر غیر مشروط یقین کالازمی تقاضا اطاعت ہے،جس پر ایمان لایاگیا ہے اگر اس کی اطاعت نہیں کی جارہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ایمان وتصدیق میں ہی کوئی نہ کوئی عیب اور نقص ہے۔ ایمان واطاعت کے درمیان لازم وملزوم کی نسبت ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتاکہ کامل تصدیق پائی جائے اور عمل نہ پایاجائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو،اللہ تم کو اپنا محبوب بنالےگااور تمہارے گناہوں کی مغفرت فرمادےگا۔(آل عمران:۳۱)محبت کی نشانی یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے محبوب سے جنون کی حد تک لگاؤ ہو کہ جس کو کسی سے محبت ہوتی ہے وہ ہمیشہ اس کے نام کی مالا جپتا ہے اور محبت واطاعت کا انعام معیت محبوب اور رفاقت حبیب کی شکل میں ملتاہے۔ارشادنبوی ہے:انسان جس سے محبت کرتا ہےاسی کے ساتھ ہوگا۔محبت ،ایمان اور اطاعت کی نشانی یہ ہے کہ انسان رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ کے احکام کے بالمقابل کسی طرح سےکسی بھی چیز کو فوقیت نہ دے۔ 
۵۔ توقیر رسول:
انسان پر واجب ہے کہ وہ جس ذات کی عظمتوں سے آشنا ہے،وہ جس پر ایمان رکھتاہے اور جس کی وہ اطاعت کرتا ہے اس کی تعظیم وتوقیربجالانے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔اس کی تعظیم وتوقیر کا انکاردراصل معرفت،محبت ،ایمان اور اطاعت  میں خلل کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اے ایمان والو! اپنی آواز رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی آوازسے بلندنہ کرو،ان کی بارگاہ میں اس طرح بلندآواز سے نہ بولو جس طرح آپس میں بولتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہارے اعمال بےکارکردیے جائیں اور تم کو احساس بھی نہ ہو۔(حجرات:۲)’’شفاشریف ‘‘میںہے کہ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کی تعظیم وتوقیر کا وہی حکم ہے جوزندگی کاہے۔حضرت ابوابراہیم تجیبی مالکی فرماتے ہیں کہ جب بھی مردمومن محبوب کائنات علیہ الصلاۃ والسلام کا تذکرہ کرےیا اس کے پاس آپ کا ذکرخیر ہوتو اس پر واجب ہے کہ اس کے اندر خشوع وخضوع پیدا ہواوراس وقت اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری والی ہیبت وعظمت کا اثر طاری ہو۔یہی سلف صالحین کا طریقہ اور ائمہ متقدمین کا شیوہ رہا ہے۔
۶۔ نصرت رسول:
جب انسان کی نظرمیں کوئی شخصیت معظم ہوگی تو لازمی طورپر وہ اس کی نصرت وحمایت میں اپنا سب کچھ نثارکرنے کا جذبہ رکھنے والا ہوگا۔گویا تعظیم کا لازمی نتیجہ محبوب ومعظم ذات اور اس کے مشن کی نصرت وحمایت  ہے۔ قرآن کریم میں اس کو تعزیرسے تعبیر کیاگیاہے۔(سورۂ فتح:۹) رسول کریم علیہ السلام کا ارشادہے:اپنے مال،اپنی ذات اور اپنی زبان سے مشرکوں  سے جہادکرو۔(ابوداؤد، حدیث: ۲۵۰۶)یعنی جان ومال،زبان اورہر ممکن طریقے سےرسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی نصرت وحمایت ان سے محبت رکھنے والے ہر فردبشرپر واجب ہے،اور آپ کی نصرت وحمایت کی نشانی یہ ہے کہ انسان آپ کی شریعت وسنت کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہے۔ہرممکن طریقے سے اس کی تفہیم اور اشاعت  کی کوشش کرے اور پھر آپ کی شان میں ہر قسم کی گستاخی کا راسخ علم اورداعیانہ حکمت کے ذریعے جواب دے۔
آج شریعت وسیرت کی غلط تعبیر وپیش کش ہورہی ہے، ایسے میںآج نصرت رسول کی بڑی اہمیت ہے اوراُمت پر محبت رسول کا یہ حق ہے کہ دنیا والوں تک آپ کی روشن شریعت وسیرت کو داعیانہ حکمت اور بہترسے بہتر اسلوب اور ذرائع کااستعمال کرتے  ہوئے پہنچایاجائے۔
۷۔ صلاۃ وسلام:
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:بےشک اللہ اور اُس کے فرشتے رسول پر صلاۃ بھیجتے ہیں،اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلاۃ وسلام بھیجو۔(احزاب:۵۶)
حضرت ابوالعالیہ(متوفی:۹۳ھ)کے مطابق اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍکا معنی یہ ہے کہ یااللہ!تومقام بالا اور فرشتوں کے درمیان محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا کراور اُن کا ذکرخیرفرما۔’’السلام‘‘ اللہ تعالیٰ کےاسمائے حسنیٰ میں سےہے ۔اس طرح ’’ السلام علیک یا رسول اللہ‘‘ کا معنی یہ ہوگاکہ اللہ تعالیٰ آپ کا اور آپ کی شریعت وسیرت کا نگہبان ہو۔(الشفاء،الباب الرابع،الفصل الاول)علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر صلاۃ وسلام پڑھنا مستحب ہے۔امام ابن عطیہ فرماتے ہیںکہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر صلاۃ وسلام بھیجنا سنت مؤکدہ ہے  اور اس مبارک عمل کو وہی شخص ترک کرےگا اور اس سے وہی غافل ہوگاجس کے اندر کوئی خیرنہ ہو۔(تفسیر المحررالوجیز،ابن عطیہ،زیرآیت صلواعلیہ وسلموا تسلیماً)صلاۃ بھیجتے وقت مستحب یہ ہے کہ آپ کی آل کو بھی شامل رکھے؛کیوں کہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام سے جب صحابہ کرام نے پوچھاکہ یارسول اللہ! ہم صلاۃ کیسے بھیجیں تو آپ نے فرمایایہ کہو: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔(صحیح بخاری،باب الصلاۃ علی النبیﷺ)
۸۔ تأسی بالرسول:
انسانوںپر یہ بھی لازم ہے کہ وہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنامرشد وہادی اعظم اور مقتدائے اکمل سمجھیں ۔ باقی جوبھی ہادی ومقتدا ہوںگے،سب ان کے درکی چاکری اور ان کے نقوش قدم کی پیروی کرکے مرشد وہادی اور مقتدا ہوںگے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یقیناً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ان لوگوں کے لیے اسوۂ حسنہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یادکرتے ہیں۔(احزاب:۲۱)اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت پیکرقرآن اورقرآنی تعلیمات وربانی ہدایات کی ایک مجسم تصویر ہے۔جو بھی آئڈیل بنتاہے کسی بڑی شخصیت کے زیرنگرانی سجنے اورسنورنےکے بعدبنتاہے اور آپ کی ذات کوتو اس ذات نے سجایااور سنوارا تھاجو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: رحمٰن  نے آپ کو قرآن سکھایا۔  (رحمٰن) اور خود آپ کا ارشاد ہے: مجھے میرے رب نے اچھا ادب سکھایا ہے۔
 (کنزالعمال /۷، حدیث: ۱۸۶۷۳)
۹۔ محبت اہل بیت رسول:
انسانوں پر رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابہ کرام سے عمومی اور اہل بیت اطہار سے خصوصی طورپر محبت رکھی جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔  آپ فرمادیں کہ میں تم سے اپنے قرابت داروں کی محبت کے علاوہ کسی بھی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا۔(شوریٰ:۲۳)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ  جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے پوچھاکہ یارسول اللہ! آپ کے وہ قرابت دارجن کی محبت ہم پر واجب ہے،کون ہیں؟آپ نے فرمایاکہ علی،فاطمہ اور حسن وحسین۔ (معجم کبیر ازطبرانی،حدیث:۲۶۴۱)حضرت سعید بن جبیر نے فرمایاکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت مودت کے بارےمیں پوچھاگیاتو اُنھوں نے  فرمایاکہ مرادآل محمد کی قرابت ہے۔(بخاری،حدیث:۳۴۹۷)
۱۰۔معرفت سیرت واحوال صحابہ و اہل بیت :
 رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیاجائے،سمجھاجائے اور اُسے اپنی زندگی میں اتاراجائے۔ آپ کے نسب اور اہم واقعات زندگی کو زبانی یادرکھاجائے۔ یوں ہی صحابہ کرام اور اہل بیت کی زندگی سے آگاہی رکھی جائےتاکہ ہمیں ان سے ہدایت کی روشنی ملتی رہے۔مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ اس تعلق سے امت مسلمہ میں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے،کیوںکہ لوگوں کو دنیاکے مختلف میدان میں مشہورلوگوں کے نام اور واقعات زندگی تومعلوم ہوتے ہیں لیکن رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت، اور صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے نقوش حیات سے کوئی واقفیت  نہیں ہوتی۔اس جانب کوتاہی کی وجہ سے ہمارا رشتہ اپنے رسول، ان کے صحابہ اور اہل بیت سے کمزور ہوتا جارہا ہے اور اسی وجہ سے ہماری زندگیاں ایمانی احوال سے بےنور ہوتی جارہی ہیں۔

Wednesday 29 November 2017

تو ارادے کا ہمالہ ہے، عمل کا آبشار ---- داعی کبیر مولانا شاکر نوری کی داعیانہ زندگی کے چند ابتدائی اوراق

1 comments
تو ارادے کا ہمالہ ہے، عمل کا آبشار 
--------------------------------------------------------
داعی کبیر مولانا شاکر نوری کی داعیانہ زندگی کے چند ابتدائی اوراق
ازقلم: شاہد رضا نجمیؔ
------------------------------------------------------
اس خاکدانِ گیتی پر ہر روز ہزاروں افراد جنم لیتے ہیں اور اپنا عرصۂ حیات گزار کر لوگوں کی نگاہوں سے ’’آفتابِ سما‘‘ کی مانند روپوش ہوجاتے ہیں۔ ان کی موت کے بعد اقربا واحبا کی ایک کثیر تعداد چند دنوں تک آہ وفغاں کرتی ہے، پھر خاموش ہوجاتی ہے۔ کاروانِ عصر جتنا بڑھتا چلا جاتا ہے ان کی حیات کے گوشے رفتہ رفتہ الواحِ دہر سے مٹتے چلے جاتے ہیں، پھر کوئی زبان ان کا ذکر کرنے والی، کوئی دل انھیں یاد کرنے والا اور کوئی محفل ان کے لیے آہ وفغاں کرنے والی نہیں رہ جاتی۔ البتہ ایک طبقہ ایسا ہے جس کی روپوشی اکنافِ عالم میں بسنے والوں کو خون کے آنسو رلاتی ہے، جس کے جانے سے زندگی کے باغ وبہار مکدر ہونے لگتے ہیں، انوار وتجلیات کی انجمنیں ویران ہونے لگتی ہیں، جادۂ علم وفن پر تاریکی چھاجاتی ہے، فیض وکرم اور الطاف وعنایات کے سوتے سوکھنے لگتے ہیں، آنکھیں اشک بار اور دل نالہ کناں ہوتے ہیں۔ 
یہ طبقہ علماے ربانیین کا ہے، جو اس دارِ مِحن پر سکونت اختیار کرنے والے سیکڑوں مسلمانوں میں نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہیں۔ یہی وہ پاک باز ہستیاں ہیں جن کے مقدس وجود سے نخلِ ہستی کی بہاریں قائم ہیں، ایمانی کشکول باوزن ہے، جسدِ عرفانی میں حرارت ہے، چشم وخم کی عادتوں سے دور یہی وہ شخصیات ہیں جن کے طوالت بھرے سجدے شبِ دیجور کی مسافتیں سمیٹ دیا کرتے ہیں، شبِ یلدا کے اندھیروں کو مار بھگاتے ہیں اور شبِ تیرہ کی تاریکیاں تابانیوں میں تبدیل کرتے ہیں، جن کے ایمانی قدم جس دشت، جبل یا بنجر زمین میں پڑتے ہیں اسے لالہ زار بنادیتے ہیں، وہ جس راہ سے گزرتے ہیں اسے شاہراہِ حیات میں بدل دیتے ہیں، جن کی زیست کا مقصد ہفت اقلیم کے تاجور کی حقیقی معرفت ہوتی ہے، جن کی زندگی کا سارا دقیقہ امیرِ کشورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ فرمودات وارشادات کی تبلیغ وتنشیر میں صرف ہوتا ہے، ان کا رب ان سے راضی اور وہ اپنے رب سے، سورج ان کو سلام کرتا ہے، ان سے یزداں کلام کرتا ہے، جن کی رہبری اور رہ نمائی ہمیں جادۂ مستقیم کا عرفان بخشتی ہے اور جن کی روحانی نسبتیں ہمارے ایمانی رشتے کو حجازِ مقدس کی پاکیزہ دہلیز سے جوڑتی ہیں، جن کے دامانِ کرم سے وابستگی زندگی کی فیروز مندی اور ارجمندی کی علامتِ آگیں ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو قلزمِ عشق کے سالارِ موجِ رواں کے حضور آدابِ نیاز سکھاکر ہماری سوختہ جانوں کو ہم دوشِ ثریا کردیتے ہیں، جن کی حیاتِ مستعار کے انمٹ نقوش ہمیں سلیقۂ زندگی کا درس دیتے ہیں۔   ؎  
کچھ ایسے نقش بھی راہِ وفا میں چھوڑ آئے ہو
کہ دنیا دیکھتی ہے اور تم کو یاد کرتی ہے
سطوتِ رسالت کے سلطانِ عظیم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ظاہری طور پر دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام مخالفین کے واویلے سرچڑھ کر بولنے لگے، عارضی عشرتوں کے دلدادوں نے اپنے آزادانہ خیالات اور بے مہار آرزئوں سے مجبور ہوکر دنیوی جاہ وحشم کے حصول کی خاطر اسلامی اقدار روایات کی پامالی کی بے ہودہ کوششیں کی۔ امت مسلمہ کے متفقہ عقائد پر شب خون مارا، یزیدی ظلم کی داستانیں، مامونی شرارتیں اور اکبری ہفوات تاریخی اوراق پر ابھی تک مُرتَسِم ہیں۔ فرہنگی متوالوں کا وہ دور بھی بڑا خوں آشام ہے جب انھوں نے اسلامی افکار ونظریات مٹانے کی خاطر مذہب اسلام ہی کے مصنوعی شیدائیوں اور خود ساختہ رہنمائوں کو اپنے زیر اثر لینا شروع کیا تھا، ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ دیا، جس کا فرسودہ اثر یہ ظاہر ہو اکہ اسلامی شعور کا زوال شروع ہوگیا، مساجد میں ہندو پنڈتوں سے تقریریں کرائی گئیں، کلیسا وکعبہ کے خط امتیاز کو مٹایا گیا، قرآن جیسی مسعود اور گیتا جیسی مردود کتابوں کو میزانِ مساوات میں تولا گیا۔ کائناتِ گیتی پر بسنے والے مسلمانوں کے چودہ سو سالہ قدیم عقائد ومعمولات خلافِ شرع ٹھہرائی گئیں، ملت اسلامیہ کی پاسبانی کے دعوے دار ہی نخلِ ہستی کی جان، سرورِ سروراں، رحمتِ عالمیاں، مالکِ اکرمیاں ، سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وفکر پر انگشت نمائی کرنے لگے تو اس محشر طراز خستہ حالات میں علماے ربانین کی ہی وہ پُر نور جماعت تھی جو سارے باطل عقائد ونظریات کے انسداد میں جان ودل سے منہمک ہوگئی، عرش کی وسعتوں میں جلالتِ کبریائی کا غلغلہ بلند کیا، علمِ نورِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارضِ تیرہ کو درخشاں کیا۔کرب کے اندر سے سکوں، اضطراب کے اندر سے قرار، ظلمت کے اندر سے نور، یاس کے اندر سے رجا اور نفرت کے اندر سے محبت پیدا کیا، سیم وزر، لعل وگہر سے عصمتوں کو خرید کر ذوقِ گنہ گاری کی تکمیل کرنے والوں کے سامنے بندھ باندھا، بد مزاج آوارہ افراد کا اپنی شاہین صفت موعظت سے بھر پور تعاقب کیا،سیماب کی طرح موجِ گرداب، وقت کے سانچوں اور طلسمات کے بساطوں کی طرح باطل کدۂ دہر کی حالت لاشوں کی بستی جیسی بنادی اور انھیں درد کے جنگل، خوابوں کے ویرانے، کشتِ بے رنگ، سنسان زندان جیسی ابتر حالتوں سے دوچار کرکے رکھ دیا۔ 
یہ بات حقیقت ہے کہ اگر ان علماے ربانیین نے اساسِ دینی کے تحفظ وبقا کی خاطر یوں جہد مسلسل اور سعیِ پیہم نہ کی ہوتی تو معرفت وتجلیات کا جو عرفان وفیضان آج سے چودہ سو سال پہلے مدینے کی گلیوں میں جاری ہوا تھا وہ جزیرۂ عرب کے پُرپیچ اور خار زار دشت وجبل میں دم توڑ چکا ہوتا، اسلامی تہذیب وثقافت کا درخشاں خورشید غروب ہوجاتا، منبعِ انوار وحق کی نہریں سوکھنے لگتیں اور معرفت خداوندی کی راہ چلانے والی تعلیمات عام انسانوں کی طرح دنیا سے نابود ہوجاتیں۔ سید الشہدا امام حسین، امام احمد بن حنبل ، مجددِ الفِ ثانی، امامِ ربانی شیخ احمد سرہندی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ذرّیں کارناموں سے واقف ہر عادل ودانش ہماری ذکر کردہ باتوں پر ضرور غیر مشروط ایمان لائے گا۔
تعارفِ اسلاف میں ہماری فِروگزاشتیں:-
ان ساری صداقتوں کے ساتھ ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی کسی نہ کسی طرح اپنے حلق کے نیچے اتار لینی چاہیے کہ ہم اپنے ان بزرگوں اور آقائوں کی عظمت وتقدس کی بقا ودوام کے لیے وہ کام نہ کرسکے جس کا ہم پر موجود ان کے احسانات وعنایات کا بارِ گراں مطالبہ کرتا تھا۔ہمارے وہ علما وصوفیا جنھوں نے ہمیں عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا جامِ فرجام بخشا تھا نہ ہم ان کی تابناک زندگی کے حسین اوراق محفوظ رکھ سکے اور نہ ہی ان کی دینی، ملی اور فکری خدمات سے دنیا کو روشناس کراسکے۔جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری وہ مقدس اور عبقری شخصیتیں یا تو پردۂ گمنامی میں چلی گئیں یا پھر دوسرے مکاتبِ فکر کی جھولی میں۔ ہمیں ہوش اس وقت آیا جب دوسرے مکاتب فکر کے نمائندوں نے ہمارے اپنے بزرگوں کی تعلیمات، افکار ونظریات کو اپنے گرو گھنٹالوں کی جانب منسوب کرنا شروع کیا، خوش عقیدگی اور خوش عملی کی وہ کتابیں جن کو ہمارے علما نے شب وروز ایک کرکے بڑی کدّ وکاوش کے ساتھ لکھا تھا انھیں انھوں نے اپنے اکابرین کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ اس پر جب ہم نے آہ وفغاں بلند کی تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہمیں پر یہ سوال دائر کیا گیا کہ اگر وہ آپ کے بزرگوں کی کتابیں تھیں تو آپ لوگ اب تک ان کی طباعت واشاعت سے دریغ کیوں کررہے تھے؟ لیلاے نجد کے ان مجنوئوں کو اب جاکر یہ کون سمجھائے کہ یہ تو ہماری تساہلی اور غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خود اپنی علمی اور فکری وراثت سے محروم ہیں ورنہ تمھارے پاس وہ ایمانی وروحانی قوتیں کہاں جو اس طرح کے افعال انجام دے سکیں۔ 
اسلاف شناسی جیسے اہم عنصر کے ساتھ بے اعتدالی اور عدم توجہی برتنے کا دوسرا خسارہ یہ ہوا کہ ہماری وہ قوم جو انھی بزرگوں کی انتھک محنتوں کے نتیجے میں حسن اسلا می کی زندگی گزار رہی ہے ان کے ہی کارناموں سے لاعلم رہی جس کا شاخسانہ یہ ہوا کہ شیواجی اور سر سید احمد کے مصنوعی کارناموں کو ایک سانس میں سنا ڈالنے والی ہماری نئی نسل جب جنگ آزادی کے عظیم قائد علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہٗ کا نام سنتی ہے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔ 
         ہم نے کوششیں کیں، تعارفِ اسلاف پر مشتمل سیکڑوں کتابیں لکھیں، سیکڑوں رسائل وکتابچے مفت تقسیم کروائے، ’’تذکرۂ خانودۂ قادریہ، تذکرۂ مشائخِ رشیدیہ، تذکرۂ مشائخِ رضویہ وبرکاتیہ، تذکرۂ علماے ہند، تذکرۂ علماے اہل سنت، تذکرۂ مخدوم علی مہائمی، رجال الغیب، نقوشِ رئیس القلم، حیاتِ اعلیٰ حضرت، جہانِ مفتیِ اعظم ہند،مفتیِ اعظمِ ہند کے تابندہ نقوش، جہانِ ملک العلما، شہرِ خموشاں کے چراغ‘‘ جیسی تذکروں کی بسیار کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی ان عبقری اور قد آور شخصیتوں کی تعداد کی ایک طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے جن کی تعلیمات وخدمات، افکار ونظریات، تصنیفات وتالیفات اور سوانحی تفصیلات سے کتب خانے خالی پڑے ہیں۔’’ماہنامہ جام نور دہلی‘‘ نے بہت پہلے ’’سوادِ اعظم نمبر‘‘ کی اشاعت کا منصوبہ تیار کیا تھا اور اس کا ایک خاکہ بھی پیش کیا تھا، مگر ابھی تک وہ منصوبہ دیارِ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ تعارفِ اسلاف کی اس روایت کو ہمیں مزید فروغ دینا چاہیے کیوں کہ زندہ قوموں کی علامت ہی یہی بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے اقدار وروایات کو زندہ رکھتی ہیں۔ اگر ہم نے اس میں تساہلی برتی اور غفلت سے کام لیا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ 
دورِ حاضر کے ایک عالم ربانی:-
سطورِ بالا میں ہم نے جن اوصاف وخصائص کا ذکر کیا ان سے لیس دورِ حاضر کی سطح سے ایک اور شخصیت ابھرتی ہے، وہ نمونۂ سلف، داعیِ کبیر، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند حضرت حافظ وقاری مولانا محمد شاکر علی نوری نوّراللہ حیاتہٗ کی ذات بابرکت ہے۔ جس کی علمی، فکری، دینی، مذہبی، فلاحی ورفاہی خدمات کسی پر مخفی نہیں ہیں۔ عالمی تحریک ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے چند فعّال افراد کی طرف سے جب اس بات کا اعلان کیا گیا کہ آنے والے پچیسویں سالانہ سنی اجتماع کے موقع پر ایک ایسی ضخیم کتاب کی رونمائی ہوگی جو حضور داعیِ کبیر کے بیکراں دینی، ملی، علمی، فکری کارناموں کو محیط ہوگی تو میری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، کیوں کہ میں خود بھی اس داعی وقائد، رہبر ورہنما کی داستانِ شوقِ رہِ نَوَردِی کو جاننے کے لیے بے چین تھا جس نے اتنے مختصر عرصے میں دعوت وتبلیغ کا اعلیٰ معیار قائم کردیا، ہزاروں گم گشتگانِ راہ کو جادۂ مستقیم کا راہی بنادیا، ان کے ایمانی قدم کو سنبھالا، انھیں کفر وضلالت کی تاریک وادی میں گرنے سے بچایا، شکستہ دلوں اور آشفتہ سروں کے لیے صبحِ امید کی کرنیں پیدا کیں، خود آہنگوں کو نرم دل، رعونت پسندوں کو صاف دل، دُرمُتانہ چال والوں کو خوش دل، چشم پوشی کے متوالوں کو حقائق نگار اور قنوطیت کے شیدائیوں کو حقائق شناس بنایا، مملکتِ رسالت کے عظیم سلطان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عشق ووارفتگی کا جام پلاکر انھیں کوثر وتسنیم کا حق دار بنادیا، قوم کی شکستہ دلی اور آشفتہ حالی کو یکسر ختم کرنے کے لیے تصنیفات وتالیفات کی شکل میں نسخہاے کیمیا پیش کیا۔ ایسی ذات کی حیات وخدمات پر مشتمل انسائکلوپیڈیا کی اشاعت کا کام تو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا مگر بہر حال دیر آید، درست آید۔
دعوت کا شرعی مفہوم:-
دعوت وتبلیغ اسلام کی جانب سے عطا کردہ ایک اہم فریضہ ہے۔ قرآن مقدس ارشاد فرماتا ہے: {وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ } [آلِ عمران، ۱۰۴] تم میں ایک ایس قوم ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دے، بھلائیوں کا حکم دے، برائیوں سے منع کرے اور وہی لوگ حقیقہً کامیاب ہیں۔
{وَمَنْ اَحْسَنَ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ} [فصّلت:۳۳] اس سے زیادہ کس کی بات اچھی، جو اللہ کی طرف بلائے، نیکی کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں۔
{ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} [توبہ: ۷۱] مسلمان مرد اور مسلمان عورت ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
{اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} [النحل: ۱۲۵] اپنے رب کی طرف بلائو سچی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقے پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} [آلِ عمران: ۱۱۰] تم ان سب امتوں میں ایک بہترین امت ہو جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں، بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ 
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً۔ میری طرف سے طرف تبلیغ کرو خواہ ایک آیت کی ہو۔ 
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: وَاللّٰہِ لَاَن یَّھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَّاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ اَن یَّکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ۔ خدا کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے سے کسی کو ہدایت عطا فرما دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں کا مالک ہونے سے بہتر ہے۔
دیکھ رہے ہیں آپ ! دعوت وتبلیغ کی عظمت واہمیت کو آیاتِ قرآنیہ اور ارشاداتِ مصطفویہ کس طرح اجاگر فرمارہے ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کا مفہوم وتصور اسلام کے سوا کسی دیگر مذہب میں نہیں۔ دعوت وتبلیغ کی یہ عظیم ذمے داری کوئی اجنبی، غیر مانوس اور نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا رشتہ عہدِ موسوی، دورِ عیسوی، زمانۂ ابراہیمی اور قرونِ محمدی سے ملا ہوا ہے۔ ابتدا میں یہ ذمے داری انبیا ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حصے میں آئی، انھوں نے اسے بخوبی نبھایا اور پیغاماتِ الٰہیہ کے انوار وتجلیات کے ذریعے عالمِ تار کو منور کرنے کی سعی کی۔ ان کے بعد ان کے نائبین یعنی علماے اسلام کو یہ ذمے داری سپرد کی گئی، انھوں نے بھی تلواروں کے سائے میں، نیزوں کی اَنیوں میں، محشر طراز ہنگام میں رہ کر اس فریضے کو بخوبی انجام دیا اور اور اپنی ذمے داری سے سبک دوشی کی بھرپور کوشش کی۔ 
دعوت کے چند ابتدائی پہلو:-
دعوت وتبلیغ کے لیے جو چیزیں لازمی عناصر قرار دی جاتی ہیں، وہ یہ ہیں: (۱) اخلاص (۲) اسلامی فکر (۳) دولتِ علم (۴) ایثار (۵) خوش طبعی (۶)فکرِ آخرت۔ یہ وہ عناصر ہیں جو دعوت وتبلیغ کے میدا ن میںحد اوسط کا درجہ رکھتے ہیں، انھیں پسِ پشت ڈال کر خود کو داعیِ دین اور قائدِ مذہب سمجھنا کچھ اور نہیں جِنانِ احمقاں میں رہنے کے متراد ف ہے۔ علماے ربانیین جنھوں نے خدمت اسلام اور دعوت وتبلیغ کے تعلق سے اپنی حیات کا کوئی دقیقہ فِروگزاشت نہیں کیا ان میں یہ ساری چیزیں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھیں۔ لیکن جب سے ہم ان سے دور ہوئے، ہمارے مدارس، مساجد اور دیگر مذہبی اداروں سے دعوت وتبلیغ کا مفہوم یکسر ختم ہونے لگا ہے۔ نہ واعظِ قوم کے پاس پختہ خیالی رہی، نہ ہی برقِ طبعی اور شعلہ مقالی، صرف فلسفہ ہی فلسفہ رہ گیا۔ دعوت وتبلیغ کا مفہوم ومعنٰی ہماری لغت میں تبدیل ہوگیا، پہلے جو قدم کلیسا ودیر وحرم کے اسیروں کو خانۂ یزداں کی طرف بلانے کے لیے اٹھتے تھے وہی اب ربِّ کعبہ کے شیدائیوں کے ایمان وعقائد بچانے کے لیے بھی بڑھنے سے انکار کرنے لگے۔ نتیجے میں تباہی، تاریکی، ظلمت، جہالت، غفلت، بیہودہ گوئی، بد خیالی، ظلم، جبر، تساہلی اور چشم پوشی امت مسلمہ کا مقدر بن کر رہ گئی۔ اللہ رب العزت کا یہ بڑا فضل ہے کہ اس نے ایسے پُر آشوب ماحول میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بازیابی، شوکتِ کہنہ کی جستجو، حقائق کی تلاش اور دعوت دین کی تبلیغ وتنشیر کے لیے داعیِ کبیر، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند، حضور امیر سنی دعوتِ اسلامی مد ظلہ کا انتخاب فرمایا اور آپ کو دینِ حق کا ایک عظیم داعی بنایا۔
داعیِ کبیر کی داعیانہ خصوصیات:-
داعیِ کبیر میں مذکورہ محاسن بڑی خوبی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ اسلامی فکر کے حامل ہیں، امت مسلمہ کے زخموں کی کسک رکھتے ہیں، دین مصطفوی کے لیے جذبۂ ایثار والے ہیں، دولتِ علم سے مزین ہیں، فکرِ آخرت میں نالاں وگریاں رہتے ہیں، دینِ آگہی پر استقامت کے حامل ہیں، عجز واخلاص کا بڑا وافر حصہ آپ کے پاس ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔
-:خدمات کا سرسری جائزہ
داعیِ کبیر ، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند کی داعیانہ زندگی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو چند نمایاں چیزیں اور روشن کارنامے سامنے آتے ہ
٭       دورانِ تعلیم ہی آپ دعوت وتبلیغ کے عظیم منصب سے وابستہ ہوگئے تھے، قریبی اجتماعات میں شریک ہوکر لوگوں کو قرآنی تعلیمات وارشادات سے روشنا س کرانا آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ 
٭ وقت کے جلیل القدر اساتذہ سے اکتساب فیض کے علاوہ آپ نے وقتًا فوقتًا اشرف العما سید حامد اشرف جیلانی علیہ الرحمہ سے بھی استفادہ کیا۔
٭ تعلیم سے فراغت کے بعد ایک داعی کی حیثیت سے آپ دعوت وتبلیغ کے میدان میں آگئے اور اپنی روشن فراست اور عمدہ ظرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو دور دورتک عام کیا۔ 
٭ ۱۹۸۵ء میں آپ نے ایک بیوہ سے نکاح کیا جن کے پاس تین یتیم بچیاں بھی تھیں، بچیوں کی بڑی شفقت وعنایت سے پرورش کی، حسنِ ادب سے نوازا، پھر سب کی دین دار گھرانے میں شادی بھی کردی۔ اس طرح آپ نے ایک ایسی سنت کا احیا فرمایا جو برسوں سے پردۂ عدم میں تھی۔ 
٭ ۲۳؍ سال پہلے آپ نے ’’سنی دعوتِ اسلامی‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا بنیادی مقصد دنیا کو قرآن وحدیث سے قریب کرنا، جہالت وبے دینی دور کرنا، انوارِ علم وعمل کے حسین زیور سے لوگوں کو مزین کرنا، فکری اور عملی طور پر مسلک اعلیٰ حضرت یعنی مسلک اہل سنت وجماعت کی نگہبانی کرنا، اسلام دشمنوں کی دشمنی سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھنا اور ان کی جانب سے کیے جانے والے رکیک حملوں کا جواب دینا تھا۔
٭ ہندوستان، برطانیہ، کناڈا، امریکہ، افریقہ وغیرہ میں اس کے توسل سے کافی اچھا کام ہو رہا ہے، آپ نے اس کے ذریعے معاشرے میں پھیلی برائیوں سے کافی حد تک اہل معاشرہ کو بچایا، ایمان وایقان کا درس دیا اور لوگوںکو حبِ توحید کا جام پلایا، نتیجے میں ہزاروں غیر مسلم افراد اسلام کی طرف مائل ہوئے، گنہگاروں نے گناہوں سے توبہ کی، برائیوں کی دعوت دینے والے نیکیوں کے داعی بن گئے۔
٭ ہرسال حج وعمرہ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں، کئی بار کعبۂ مقدسہ کے اندر داخل ہوکر عبادت کرنے کا شرف بھی حاصل کرچکے ہیں۔
٭ دینِ اسلام کی تعلیمات عام کرنے کی خاطر مختلف مقامات پر ۱۱۱؍ دینی ادارے اور ان کے علاوہ متعدد عصری ادارے قائم کرنے کا آپ نے منصوبہ بنایا اور اب تک ۵۰؍ سے زائد مدارس واسکولس قائم بھی کرچکے ہیں، جن میں سے جامعہ غوثیہ نجم العلوم، جامعہ حرا نجم العلوم، دارالعلوم انوارِ مدینہ نجم العلوم، جامعہ حلیمہ سعدیہ نجم العلوم، حرا انگلش اسکول کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد دس ہزار سے متجاوز ہے۔
٭ اس تحریک کے تحت ہر سال وادیِ نور آزاد میدان میں تین روزہ سنی اجتماع منعقد ہوتا ہے، جس میں دنیا بھر کے علما ومشائخ شریک ہوتے ہیں اور ان سے لاکھوں افراد کو استفادہ کو موقع ملتا ہے۔ 
٭ ہر تین سال پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ، یوپی کا ایک سہ روزہ فقہی سیمینار اور اخیر میں اجلاس عام بھی منعقد کراتے ہیں۔ 
٭ ۲۰۰۵ء کے اواخر میں ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک علمی اور دعوتی سہ ماہی رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا، یہ رسالہ علما ومشائخ کے مابین کافی مقبول ہوا، یہاں تک کہ ۲۰۱۱ء کے اوائل سے ’’سہ ماہی‘‘ سے نکل کر ’’ماہنامہ‘‘ کی صورت میں آگیا۔ 
٭ ہم شبیہِ غوثِ اعظم، حضور مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی مصطفی رضا خان قادری نوری قدس سرہٗ سے آپ کو شرف بیعت حاصل ہے، جب کہ خلافت کا شرف جانشینِ حضور مفتیِ اعظمِ ہند، تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری دام ظلہٗ اورشہزادۂ سید العلما، سید ملت سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی نوّراللہ مرقدہٗ سے ملاہے۔
٭ تقریر وتحریر کا آپ کا خاص فن ہے۔ اب تک سیکڑوں مقامات پر مختلف مسائل کے حوالے سے سیکڑوں خطابات کرچکے ہیں اور تین درجن کے قریب کتابیں اپنے رَشحاتِ قلم سے پیدا کرچکے ہیں۔ علمی، فکری، اصلاحی، دینی، مذہبی موضوعات آپ کی تقریر وتحریر کا خاص حصہ ہوا کرتے ہیں۔
٭ ایک کہنہ مشق اور باوقار شاعر بھی ہیں، شاعری کی تعداد گرچہ بہت مختصر ہے مگر ہزاروں زیادات پر فائق ہے۔ 
٭ آپ کی مذکورہ دینی، مذہبی، سماجی، علمی، فکری حسین خدمات دیکھ کرملت کے دانش وران نے آپ کو ’’نمونۂ سلف، مصلحِ ملت‘‘ ، جب کہ مفکر اسلام وترجمانِ اسلام علامہ قمرالزماں خان اعظمی نوّراللہ حیاتہٗ نے ’’داعیِ کبیر‘‘ جیسے بلند خطاب سے نوازا۔ 
سطورِ بالا میں ابھی ہم نے یہ بیان کیا کہ داعیِ دین برحق کا کن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے اور یہ بھی بیان کیا کہ داعیِ کبیر، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند میں وہ اوصاف بہ حسنِ خوبی پائے جاتے ہیں۔ اب درج ذیل سطور میں ہم ان اوصاف میں سے صرف بعض کا ذکر کرکے داعیِ کبیر کی داعیانہ زیست کو ان میں پرکھنے کی کوشش کریں گے۔ جن اوصاف کا ابھی ذکر ہوگا وہ یہ ہیں: (۱)عشقِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (۲)استقامت (۳)توقیرِ اکابر (۴)اصاغر 
نوازی۔ 
-:عشقِ مصطفی
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عظمیٰ جانِ ایمان، عینِ ایمان، زندگی کا نصب العین، زیست کا عنوان ہے، ہزاروں ارجمندی اور فیروز مندی کی آماجگاہ ہے، ترقی اور کامیابی کی علامت آگیں ہے۔ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جام کی لذتوں سے جو کوئی سرشار ہوجاتا ہے وہ کسی دوسرے عشق کے جام کی تمنا نہیں کرتا۔ دنیوی عشق کے بے کیف مزے میں گرفتار ہوکر زندگی کتنی آوارہ اور ناکارہ ہوجاتی ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے۔
ٍٍ مگر سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق وہ نہیں جو ناکارہ بنادے، یہ تو وہ ہے جو دنیا وآخرت ہر جگہ سرخرو کرتا ہے، تاجِ شاہی عطا کرتا ہے، اسی سے زمانے کے خرد، برد سے بچنے کا نسخۂ کیمیا ملتا ہے، عاشقِ سلطانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ وقت معراجِ زندگی کے زینے چڑھتا ہے، تکالیف ومصائب کے سمندروں کی تلاطم خیز موجیں بھی اس کے پاے ثبات میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی ہیں، وہ درد والم میں بس مسکرانا جانتا ہے اور رنج وکلفت میں خنداں ہونا۔ 
میں مصطفیٰ کے جامِ محبت کا مست ہوں
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
:دنیوی محبوبوں کے لب وکاکل کی اسیری کا حال یہ ہوتا ہے کہ
 زلف کی اسیری سے خدا سب کو بچائے 
سنتے ہیں کہ اس قید کی مدت نہیں ہوتی
:مگر یہاں کا یہ عالم ہے کہ
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم 
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
:دنیوی الفتوں کے بادہ خانے کی مے گساری کس قدر تباہ کن ہوتی ہے
تباہ کردیا مجھ کو بھی تیرے مینا نے
کدھر سے لاؤں میں ہوش وحواس اے ساقی
مگربادہ خانۂ عشقِ رسالت کی مے گساری زندگی تباہ نہیں کرتی، اسے عروج بخشتی ہے، تشنہ لب یہاں آکر پیتے ہیں، خوب پیتے ہیں مگر دل نہیں بھرتا، روح کی تشنگی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، مزید پہ مزید کی تمنا زبانِ حال سے یہ  کہلواتی ہے 
مجھے پینے دے، پینے دے کہ تیرے جامِ لعلیں میں
ابھی کچھ اور ہے، کچھ اور ہے، کچھ اور ہے ساقی
یہی وہ عشق ہے جو کسی کو رازی اور غزالی، کسی کو رومی اور جامی، تو کسی کو سعدی اور عینی بناتا ہے۔ قرآنِ مقدس اسی عشق ومحبت کے بارے میں فرماتا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اس آیت سے مستفاد ہوا کہ اللہ کی محبت، رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیے بغیر نہیں مل سکتی اور محبت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی پیروی کی جائے، ان کے نشانِ قدم کو چراغِ رہِ منزل سمجھ کر اپنایا جائے۔ داعیِ کبیر میں یہ وصف بڑے ہی کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی عشقِ رسول اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عبارت ہے۔ چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، بولنا، سننا ہر ایک ادا، ہر ایک طرز سے اتباعِ مصطفی اور محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چھلکا کرتا ہے۔ تقریرہو کہ تحریر ہر جگہ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کی عملی زندگی میں جا بجا ملتا ہے۔
-:استقامت


بات واضح ہے کہ جب ٹھہرے ہوئے پانی پر پتھر پھینکا جائے گا تو اس سے اِرتِعاش کا پیدا ہونا فطرت کا لازمہ ہے، تاریکیوں کے متوالوں سے جب روشنی کی بات کی جائے گی تو وہ چراغ پاہی ہوں گے۔ یہی حال ایک داعی کا بھی ہوتا ہے کہ جب وہ میدانِ دعوت وتبلیغ میں قدم رکھتا ہے تو ہر طرف سے فتنوں اور شورشوں کے غوغے آنے لگتے ہیں، اس کے قریب ہرزہ سرائیوں کے دائرے کھینچ دیے جاتے ہیں، اس کی اچھائیوں کو برائیوں، محبتوں کو نفرتوں، شفقتوں کو کدورتوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ داعیِ کبیر کی حالت اس سے کچھ جدا گانہ نہ تھی۔ جب سے آپ نے سنی دعوتِ اسلامی کے ذریعے دعوت وتبلیغ کا عظیم کام انجام دینا شروع کیا آپ کے لیے بھی نفرتوں کے بیج بو دیے گئے، اپنے بے گانے ہوگئے، رفاقتیں عداوتوں میں بدل گئیں، عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا، جسمانی وذہنی ایذائیں دی جانے لگیں، کبھی رفیقوں نے کنارہ کشی کی، کبھی بظاہر خیر خواہ نظر آنے والوں نے آستین کے سانپ کا رول ادا کیا، جن سے مروتوں اور تائیدوں کی امید تھی انھوں نے منجدھار میں لے جا کر ڈبانے کی کوشش کی، ان کے مشن کو روکنے کے لیے ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگایا گیا، اس میں ناکامی میسر آئی تو ذات کو مطعون ومجروح کرنے کی کوشش کی گئی، دشنام دہی سے بھی احتراز نہ کیا گیا، فحش جملے بھی استعمال کرنے میں لوگوں نے عار نہیں محسوس کی، بینر لگائے گئے، پوسٹر چسپاں کیے گئے، کتابیں چھاپی گئیں، افراد کو توڑنے کی کوشش کی گئی، غرض کہ وہ سب کچھ کیا گیا جو ایک داعی کے ساتھ کیا جانا قدیم تاریخ ہے۔ مگر دین کا یہ کبیر داعی اپنی جا اٹل رہا، استقامت کا جو درس اس نے احد کی وادی اور کربلا کے میدان سے لیا تھا اس پر برابر جما رہا، پاے ثبات میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی۔ اپنوں کی ہرزہ سرائیوں سے تنگ آکر سلطانِ کونین کا یہ بے نوا عاشق، محبوبِ داور کے کوچۂ جاناں میں جاتا ہے اور دست بستہ عرض کرتا ہے، آنکھیں سوگوار ہیں، پلکیں اشک بار ہیں، لب پژمردہ ہیں، دل افگار ہے، روح شرارہ ہے اور زبانِ قال یوں عرض کناں:
حالِ دل اپنا سناؤں تو سناؤں کیسے
داغ سینے کے دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے
نہ زمانے کے ستم گروں کی ستم کوشیوں کا شکوہ ہے، نہ ہی اپنوں کی ہرزہ سرائیوں کا گلہ، بلکہ محبوب کے مرقد انور اور ربِّ کعبہ کے بیت اطہر کی دید کی مسرت میں فضلِ ربی اور احسانِ مصطفوی کا برملا اظہار ہے: 
آج آغوش میں کعبے نے لیا صدقے ترے
شکر مولیٰ کا بجالاؤں تو لاؤں کیسے
احسان پسندی اور احسان شناسی کا یہ منظر بھی بڑا دل دوز ہے: 
تھام لیتے ہو مصیبت میں ہمیشہ سرکار
اتنے احسان گناؤں تو گناؤں کیسے
حق وصداقت کا وہ داعی سراپا عزم بنا ہوا اور فضلِ خدا وکرمِ رسول پر تکیہ کیے ہوئے اپنے مشن کو لے کر آگے بڑھتا رہا، منزل منزل قدم بڑھاتا رہا، راہ میں بچھے ہوئے کانٹوں کی کوئی پروا نہیں ہے، نظر بس منزلِ مقصود پر ہے اور حال یہ ہے کہ روٹھوں کو مناتا ہے، نو آموزوں کو سکھاتا ہے، برائیاں کرنے والوں کے ساتھ بھلائیاں کرتا ہے، صبر وتحمل، عفو ودرگزر، رحمت ومودت، نرمی وشفقت کا مجسمہ بنا ہوا ہے، دعوت کے کاموں کی نئی نئی راہیں ہموار کرتا ہے، ان راہوں پر گرد وپیش موجود افراد کو چلاتا ہے، چلنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، گرتوں کو اٹھاتا ہے، حوصلہ دیتا ہے، تربیت کرتا ہے، اصلاح کرتا ہے، رہنمائی کرتا ہے، اصول مہیا کرتا ہے، مدد کرتا ہے، خبر گیری کرتا ہے، جمود توڑتا ہے، ضرورتیں پوری کرتا ہے، اسباب مہیا کرتا ہے اور ایک دن یہ اسلام کا عظیم داعی اپنے مشن کو لے کر عروج وارتقا کی منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے جسے دیکھ کر زمانہ عش عش کرنے پر مجبور ہے۔
توقیرِ اکابر:-
اللہ کے رسول، داناے غیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا فَلَیْسَ مِنَّا ۔ جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم وتوقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ ایک داعی کے لیے جہاں دعوت کی دوسری چیزوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ویسے ہی اکابر کی تعظیم وتکریم اور چھوٹوں پر شفقت ورحمت بھی اس کی دعوت کے اصول میں سے ہیں۔
داعیِ کبیر کے اوصاف میں یہ وصف بھی کافی نمایاں ہے۔ علم وعمل کے صاحبان، منبر ومحراب کے وارثین جب آپ کی بارگاہ میں آتے ہیں تو آپ ان کی تعظیم وتکریم کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، خنداں پیشانی سے ملتے ہیں اور اپنی پاکیزہ باتوں کے ذریعے ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلافِ کرام میں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں مگر دورِ حاضر میں نابود ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ بقولِ رئیس القلم علامہ ارشدا لقادری قدس سرہٗ: شہرستانِ جہالت کا ہر خاک روب آج رازی اور غزالی کی مسند سے بات کرتا ہے۔
آج تو حال یہ ہے کہ عامی سے عامی شخص ان پاکیزہ طینت ہستیوں پر اعتراضات کرتا ہے جن کے عظمت وتقدس کی قسم قدسیانِ فلک کھایا کرتے ہیں، ایسی برگزیدہ شخصیتوں کو برسرِ عام رسوا کرنے کی، ان کی دستارِ فضیلت کے تہوں کو کھولنے کی اور ان کی قبائوں کے ٹانکیں ادھیڑنے کی ناپاک کوشش کرتا ہے، اس جیسے محشر طراز ماحول میں اگر کوئی اس عظیم صفت کا حامل ہو اور اسے اس کی بنا پر نمونۂ سلف کہاجائے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
اصاغر نوازی:-
چھوٹوں کے ساتھ محبت، مودت، شفقت، عنایت داعیِ کبیر کی زندگی کا لازمہ ہے۔ جو کوئی قریب آتا ہے وہ آپ کے اس وصف عظیم کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ بات اس وقت کی ہے جب میں نے پہلی بار آپ کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل کیا تھا، جب قریب گیا، قریب سے قریب ہوتا چلا گیا، ایک نحیف سی آواز پر جو کہ بیٹھنے کے لیے کہہ رہی تھی بیٹھ گیا، مگر میری نظریں روے زیبا کے جلووں کا نظارہ کرنے لگیں۔ سر پر سنتوں بھرا عمامہ انوار وتجلیات کی تابشیں بکھیر رہا تھا، خنداں لب فیض وکرم کے ہزاروں ابواب وَا کر رہے تھے، جھیل جیسی آنکھیں ساون کی گھٹا کانمونہ پیش کر رہی تھیں، گہر بار تکلم، دل نواز تبسم، جمال شارہ رخ، قد رعنا اس پر مستزاد۔ میں آپ کی شخصیت کی مقناطیسیت میں کھوگیا، بہت چاہا کہ کچھ عرض کروں، ہمت نہ ہوئی، زبان خاموش رہی مگر دل یوں گویا ہوا: 
تم مخاطب بھی قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
تھوڑی دیر کی گفتگو میں آپ کا گرویدہ ہوگیا، اس کے بعد جب کبھی حاضری کا موقع ملتا بڑے شوق سے حاضری دیتا، مستقبل کی تابناکی کے لوازمات پوچھتا، دعائیں لیتا، پھر بوجھل قدموں سے یہ کہہ کر واپس ہوجاتا:
اک پل کو تری بزم میں ہم بیٹھ کے واعظ
برسوں نہ رہے بزمِ خرافات کے قابل
آپ کے پاس سے چلا آتا مگر دل واپس آنے پر کوستاتا رہتا، شکوے کرتا، فریاد کرتا اور حال یہ ہوتا: 
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
یہ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
یہ میرا ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کا حال ہے جو آپ کے قریب گیا، آپ کی نشستوں میںجسے بیٹھنے کا موقع ملا، جو آپ سے محوِ گفتگو ہوا۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ بقولِ داغ ؔ دہلوی یہ ہے:
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
اس پر طرّہ یہ کہ آپ سے ملاقات میں اصاغر واکابر کی کوئی تفریق نہیں ہے، جو چاہے آپ کو دیکھ سکتا ہے، جو چاہے آپ سے مل سکتا ہے، جو چاہے فون پر گفتگو کر سکتا ہے، سب کو ملاقات کا موقع دیتے ہیں، سب کی سنتے ہیں، سب کو فیضیاب کرتے ہیں۔ ہم نے ملاقاتیوں کو سلسلہ گھنٹوں تک دراز ہوتے دیکھا ہے، فون کرنے والوں کو بھی ایک لمبا سلسلہ ہوتا ہے، مگر کبھی آپ نے بیزاری کا اظہار نہیں فرمایا۔ عام سے عام مبلغین اور طلبہ بھی براہِ راست مل سکتے ہیں، اپنے مسائل پیش کر سکتے ہیں، اپنی الجھنیں بیان کر سکتے ہیں۔ سب کی باتیں سنتے ہیں، مفید مشوروں سے نوازتے ہیں، حسبِ ضرورت مدد بھی کرتے ہیں۔ سمجھاتے ہیں، رہنمائی کرتے ہیں۔
نعتیہ شاعری:-
حضور داعیِ کبیر ایک کہنہ مشق اور باوقار شاعر ہیں، آپ کی شاعری مقدار وکمیت کے لحاظ سے کچھ زیادہ نہیں، مگر معانی خیزی اور جلوۂ عشق کے اعتبار سے ہزاروں صفحات پر مشتمل بھاری بھرکم دیوانوں پر بھاری ہے۔ روشن خیالی، علوِ فکر، وارفتگیِ شوق، محبت وشیفتگی جیسے سارے عناصر آپ کے کلام میں جا بجا پائے جاتے ہیں۔ 
شہزادۂ احسن العلما، شرف ملت سید اشرف مارہروی مدظلہ العالی داعیِ کبیر کے مجموعۂ کلام ’’مژدۂ بخشش‘‘ پر اظہارِ خیالات کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: 
’’امیر سنی دعوتِ اسلامی مولانا حافظ وقاری محمد شاکر نوری رضوی کی ادبی شخصیت اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں، لیکن ان کے ادبی اظہار سے میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِّ عمل بہت دل خوش کن اور روح کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔ نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑا ہی سخت میدان ہے، اس راہ میں قلم کی ایک معمولی لغزش بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عمر بھر کے لیے معتوب بناسکتی ہے۔ اس مجموعے میں شامل نعتوں میں بفضلہ تعالیٰ نعتیہ شاعری کے مضامین سے متعلق وہ دونوں بڑی مشہور لغزشیں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں گی، یعنی شرک کا شائبہ اور اہانتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سمجھوتہ۔ شاعری، شاعر کے دل کی ترجمانی کرتی ہے۔ جناب شاکرؔ نوری کو اپنے پیرانِ سلسلہ اور تحریک سنی دعوتِ اسلامی سے والہانہ عقیدت ومحبت ہے، ان دونوں جذبوں کا اظہار بخوبی ہوا۔ نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر علی نوری کی سعیِ مشکور کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ لفظوں کا تناسب، معنٰی کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیاز مندی، طالب کا عجز اور اشعار میں جاری وساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلووں سے آنکھیں خوب ٹھنڈی ہوں گی۔‘‘       (مژدۂ بخشش، ص:۵-۶) 
یہ حقیقت افروز اقتباس پڑھنے کے بعد چند نمونے بھی دیکھ لیجیے تاکہ مذکورہ کلمات بلا دلیل نہ رہ جائیں:
سرکارِ دوعالم کی نظر مجھ پہ پڑی ہے
پہنچا ہوں وہاں، خلدِ بریں کی جو گلی ہے
آیا جو مدینے میں تو قسمت نے پکارا
بگڑی ہوئی تقدیر یہاں آکے بنی ہے
قدموں کو ذرا ہوش سے اس خاک پہ رکھنا
یہ کوے نبی ہے، ارے یہ کوے نبی ہے
للہ مجھے اپنا رخِ زیبا دکھا دو
پلکوں میں مری دید کی خاطر یہ نمی ہے
دے ڈالیے مجھ کو بھی غلامی کی سند اب
بخشش کو مرے شاہ یہ خیرات بڑی ہے
اللہ کو محبوب سے کتنی ہے محبت
ہاں ’’طٰہٰ و یٰسٓ‘‘ میں اسرارِ جلی ہے
ایک عاشق زار کو اپنے محبوب کے گلیاروں سے کتنی محبت ہے، کوچۂ جاناں کی دید کی کتنی تڑپ ہے، محبوب کی شفقت وعنایات کی کتنی تمنا ہے۔ ذرا ملاحظہ کریں: 
میرے سرکار مدینے میں بلاتے رہنا
غمِ دنیا، غمِ عقبیٰ سے بچاتے رہنا
حشر کی پیاس مجھے جب کہ پریشاں کردے
جام کوثر کا مجھے آپ پلاتے رہنا 
فکرِ امت کا یہ جذبۂ سوزِ دروں بھی بڑا لطیف ہے:
ظلمِ ظالم سے اسے آپ بچاتے رہنا
وحشتِ قبر سے گھبرائے جو شاکر آقا
تھپکیاں دے کے اسے آپ سلاتے رہنا 
ذرا علوِّ فکر اور نزہت خیالی کا یہ رنگ ہم آہنگ دیکھیںاور وارداتِ قلب پر مبنی وجدانی کیفیات کا انوکھا نمونہ بھی ملاحظہ کریں:
میں نے رخ کرلیا مدینے کا
کیا بگاڑے کوئی سفینے کا 
اپنی الفت کا جام دو مجھ کو
مست کردو مجھے مدینے کا 
جانبِ نار میں نہ جائوں گا
میں نے رخ کر لیا مدینے کا 
کیسے کہہ دوں کہ بے سہارا ہوں
مجھ کو آقا ملا مدینے کا 
ہے یہی وردِ شاکرِؔ نوری
میں نے رخ کر لیا مدینے کا 
آپ کے بعض اشعار تو ایسے ہیں جن سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بوندیں ٹپکا کرتی ہیں، لگتا ہے کہ آپ نے انھیں آنسوئوں سے وضو کرکے لکھا ہے۔ انھیں پڑھ کر آدمی تصورات کے حسین دبستان میں پہنچ جاتا ہے جہاں ہر طرف اسے محبت ومودت کے لہلہاتے ہوئے رنگ برنگے پھول نظر آتے ہیں، جن کی پاکیزہ خوشبووں سے وجود کا گوشہ گوشہ معطر ہوجاتا ہے۔ 
آپ کے کلام کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ریا کاری اور تصنع آمیزی کا دور دور تک کوئی اثر نہیں ملتا۔ اس میں کسی ایسے عشق کا وجود نہیں جو محض دکھاوے کا ہو، وہ تمنا اور تڑپ نہیں جو دل کہ اتھاہ گہرائی سے نہ نکلی ہو۔ 
لوح وقلم سے رشتہ:-
اپنی علمی، فکری، دینی، ملی مصروفیات کے باوجو د آپ کے تصانیف کی تعداد تین درجن کے قریب ہے اور تقریبًا ساری تصنیفات کا مصدر ومحور عقائد واعمال کی اصلاح ہے۔ 
(۱) برکاتِ شریعت:
۳؍ حصوں اور ۱۱۲۰؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب آپ کے علم وفن کی روشن دلیل ہے۔ علما، خطبا، واعظین اور مبلغین سب کے لیے یکساں مفید ہے۔ کتاب بڑی قابلِ قدر ہے، یقینا اس کے مطالعے سے معاشرے میں ظلمت کا خاتمہ ہوگا، تاریکیاں دور ہوںگی، ایمان وایقان کا نور پھیلے گا۔ 
(۲) ماہِ رمضان کیسے گزاریں؟:
یہ کتاب ماہِ رمضان کی عظمت، روزے اور زکوٰۃ کے فضائل، ان کے تر ک پر وعیدیں، اعتکاف کی حیثیت، ماہِ رمضان المبارک کی کچھ اہم تاریخوں پر مشتمل ہے۔
(۳) گلدستۂ سیرت النبی:
یہ کتاب ۱۶۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ کے ورودِ مسعود سے پہلے کے حالات ، آپ کی آمد پر دوجہاں کی تابناکی، آپ کے فضائل وشمائل اور آپ کی زندگی کے احوال اختصارًا مگر جامعیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ 
(۴) قوموں کی تباہی کا اصلی سبب:
یہ کتاب دورِ حاضر میں امت مسلمہ کے خستہ احوال کے تناظر میں لکھی گئی ہے اور قوموں کی تباہی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔قومِ ہود، قومِ نوح، قومِ صالح، قومِ لوط، قومِ شعیب، قومِ موسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام کی تباہی اور بربادی کی داستانیں درج کی گئی ہیں جو بڑے سے بڑے شقی القلب پر بھی رقت طاری کردیتی ہیں۔
بقیہ تصانیف: آپ کی دوسری تصانیف یہ ہیں: (۵) تحفۂ نکاح (۶) خواتین کے واقعات (۷) خواتین کا عشقِ رسول (۹) داعیانِ دین کے اوصاف (۱۰) بے نمازی کا انجام (۱۱) قربانی کیا ہے؟ (۱۱) مسلم کے چھ حقوق (۱۲) امام احمد رضا اور اہتمامِ نماز (۱۳) حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ (۱۴) عذاب قبر سے نجات کا ذریعہ (۱۵)عظمت ماہِ محرم اور امام حسین رضی اللہ عنہ (۱۶)برکات شریعت براے خواتین (۱۷)حیاتِ مفتیِ اعظم ہند کے تابندہ نقوش (۱۸)موبائل کا استعمال قرآن کی روشنی میں (۱۹) مژدۂ بخشش (مجموعۂ کلام) (۲۰)ذکرِ الٰہی کی برکتیں (۲۱)بچوں کو نصیحتیں (۲۲)معمولاتِ حرمین (۲۳)نوری اوراد ووظائف (۲۴) طریقۂ عمرہ وآدابِ مدینہ
اقوالِ زریں:-
آپ کی زبان اطہر سے نکلنے والے کلمات عالیہ اور ارشاداتِ غالیہ یقینا امت مسلمہ کے اس فرسوہ ماحول میں مشعلِ راہ اور نشانِ منزل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم نے انھیں آپ کی مختلف تقریر وتحریر سے یکجا کیا ہے۔ ذرا آپ بھی دیکھیں:   ع… کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
٭ دنیا کی طمع دل میں آنے نہ پائے، کیوں کہ دنیا کی طمع علم کی برکتیں اٹھادیتی ہے اور نورِ علم سینے سے نکال دیتی ہے۔ 
٭ جب تم دعوت کے لیے میدان میں نکلو تو عوام کو یقین دلائو کہ ہمیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہیے، ہمیں اجر تو صرف اللہ رب العزت سے چاہیے۔ 
٭ دنیا کی طمع جس کے دل میں بس جاتی ہے اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ہر کس وناکس کے سامنے گڑگڑاتا ہے، ہر دروازے پر دستک دیتا ہے اور پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ وہ کسی بازار میں بک جاتا ہے۔ 
٭ آپ جب دینی خدمات پر مامور ہوں تو چند دن قناعت کے ساتھ گزاریں، پھر اللہ تعالیٰ آپ کے لیے نعمتوں کے اتنے دروازے کھول دے گا کہ آپ خود تعجب میں پڑجائیں گے۔ 
٭ جب تم نے نائب رسول کا تاج پہن لیا تو تمھارے وجود کے اندر خشیتِ ربانی کا اثر ہونا چاہیے اور تمھیں خلوت وجلوت ہر حال میں اللہ عزوجل سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 
٭ خشیت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو اس کے مخصوص بندوں کو ملتی ہے، خدا کی قسم! یہ نعمت جسے مل گئی وہ بہت بڑا عالم ہے۔
٭ ایک داعیِ دین کا جن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں: اخلاص، ایثار، دولتِ علم، استقامت، اچھی صحبت، محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، باہمی اخوت، خوش طبعی، فکرِ آخرت۔ 
یہی وہ اوصاف ومحاسن ہیں جو آپ کو بزم ومحافل میں ’’میر وحکم‘‘ کا درجہ دیتے ہیں، مگر ان سارے فضائل وخصائص کے باوجود کبر ورعونت، خود آہنگی، درشتی نام کی کوئی شے آپ میں نہیں، بلکہ آپ اپنے سارے کمالات کو اپنے آقا حضور مفتیِ اعظمِ ہند رحمۃ اللہ علیہ کا فیض وکرم بتاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے، جیساکہ محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین قادری اپنے ایک تأثر میں فرماتے ہیں: ایک ایسا شخص جس کی کل تعلیم درجۂ خامسہ تک ہو اور وہ ایسے کارہاے نمایاں انجام دے، قابل رشک وقابلِ تقلید ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مرشد برحق حضور سیدی ومولائی وملاذی مفتیِ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا قادری نوری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کا نوری فیضان ہے جو مولانا موصوف پر برس رہا ہے۔
داعیِ کبیر کی داعیانہ زیست کے یہ چند ابتدائی اوراق تھے جو نہ آپ کی حیات کے سارے گوشوں کا احاطہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے سارے فضائل ومناقب کا بیان۔ یہ تو استاذ گرامی حضرت مولانا عبداللہ سرورؔ اعظمی نجمی صاحب کی ثمر آور محبتیں اور عنایتیں تھیں جنھوں نے مجھ بے بضاعت سے یہ کام کروالیا، اس امید پر کہ داعیِ کبیر کے بحرِ فیوض وبرکات کے کچھ قطرے میرے بھی نصیب میں آجائیں، ورنہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘، لیکن اتنا سب کچھ لکھنے کے بعد بھی اب تک یہی سوچتا ہوں:
جمالِ یار کی رعنائیاں ادا نہ ہوئیں
ہزار کام لیا میں نے خوش بیانی سے 










Sunday 24 September 2017

۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر

1 comments
           نام کتاب: ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر
           مولف : مولانا یٰسین اختر مصباحی ، 

           صفحات: ۳۰۴، قیمت ۱۰۰؍ روپے ، 
           سن اشاعت ۲۰۰۷ء /۱۴۲۸ھ
          طابع و ناشر: دارالقلم ۹۲/۶۶ قادری مسجد روڈ ، ذاکر نگر، نئی دہلی-۲۵


مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب کی تازہ ترین کتاب ’’۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ پیش نظر ہے- یہ ادارہ تصنیف و تحقیق ’’دارالقلم دہلی‘‘ کے سلسلہ مطبوعات کی بیسویں کڑی ہے جبکہ انقلاب ۱۸۵۷ء سے متعلق مباحث پر مشتمل مولانا موصوف کی چھٹی کتاب ہے، سال ۲۰۰۷ء کو ملک بھر میں انقلاب ۱۸۵۷ء کی ۱۵۰؍ سالہ برسی کے طور پر منایا گیا -حضرت مولانا نے بھی نہ صرف اس سال کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام کر دیا بلکہ اپنی فکر کو، اپنے قلم کو، اپنے وقت کو اور خود اپنے آپ کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام وقف کر دیا ، جس کے نتیجے میں پے در پے ۶؍ کتابیں منصہ شہود پر آئیں ، جن کا وصف مشترک پچھلے ۱۵۰؍ سالوں میں تاریخ گری کی مذموم روایت کا پردہ چاک کر کے انقلاب ۱۸۵۷ء کی حقیقی تصویر پیش کرنا ہے -حریفوں نے تاریخ نویسی کے نام پر انقلاب ۱۸۵۷ء کے وقت ،اس سے پہلے اور اس کے بعد کے اپنے پرکھوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی جو کوشش تھی مولانا مصباحی موصوف نے اپنی بے لاگ تنقید، معروضی مطالعہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے وقت میں یا تو ’’زیرو‘‘ تھے یا پھر ان کا کردار ایک ’’ویلن‘‘ کا تھا- ایسے میں انہیں’’ ہیرو‘‘ کہنا تاریخ کے ساتھ بھونڈا مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں-
زیر تبصرہ کتاب ’’ ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ کو مولف محترم نے ۱۸؍ عناوین /مضامین پر مشتمل رکھا ہے- ’’ شعاع نور‘‘ اور’’ مشعل راہ‘‘ کے عنوان سے دین و سیاست کے تعلق سے ایک ایک صفحہ پر قرآن اور حدیث کے متن و ترجمہ کے ساتھ اقتباسات نقل کیے ہیں- صفحہ ۷-۱۶ ؍ دس صفحات پر ایک گراں قدر، فکر انگیز اور معلوماتی ’’ تقدیم ‘‘ بعنوان’’ گذارش احوال واقعی‘‘ سپرد قلم کی ہے- صفحہ ۱۷-۲۵ ؍ پر ’’ پہلی اور آخری جنگ آزادی(۱۸۵۷ء)‘‘ کے عنوان سے انقلاب ۱۸۵۷ء کی روداد، معتبر تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کی ہے، ساتھ ہی اس کے اسباب ووجوہ پر بھی فاضلانہ تبصرہ کیا ہے- وہ اپنی آخری سطور میں لکھتے ہیں:
’’ انگریز مجموعی طور پر ہندو اور مسلمانوں دنوں کا مشترکہ دشمن تھا، کیوں کہ ہندواور مسلمان ہی کی اس ملک کی غالب اکثریت تھی اور کئی جگہوں پر ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ کی- تاہم ۱۸۵۷ء کے جتنے بھی انقلابی تھے وہ سب کے سب بہادر شاہ ظفر کو ہی اپنا بادشاہ سمجھتے تھے- اسی لیے رانی لکشمی بائی، نانا پیشوا، تانتیہ ٹوپے وغیرہ نے سبز پرچم لہرایا تھا-‘‘(ص: ۲۵)
اس سے پہلے والے پیراگراف میں رقم طراز ہیں:
’’ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر جوش و خروش اور جذبۂ جہاد علما کے فتاویٰ کی بنیاد پر ہی تھا اور ان کا جذبہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں نے مکر وفریب اور ظلم و جارحیت کے ذریعے یہ ملک ہم سے چھینا ہے، اس لیے ہمیں بڑھ کر ان انگریزوں سے بزور قوت و طاقت دوبارہ اپنی اس میراث کا وارث بننا ہے اور اس ملک پر ہمیں اپنی حکومت قائم کرنی ہے‘‘- (ایضاً)
تاریخ اسلامیان ہند میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (وفات ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲ء) کی ذات وہ نقطہ ارتکاز ہے جہاں مسلمانان ہند کے موجود تمام مکاتب فکر کا سلسلہ اپنے کمال و انتہا پر پہنچتا ہے- ایک دلچسپ بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ شاہ صاحب کی وفات ۱۷۶۲ء کے ۶۲؍ سال بعد بھی سواد اعظم کی ایک ہی لکیر تھی جو سیدھی اور مستقیم تھی، شاہ صاحب کے پوتے اسماعیل دہلوی (وفات ۱۸۳۱) کی تقویۃ الایمان آنے کے بعد اختلاف و انتشار کا دور شروع ہوا- سواد اعظم اہل سنت کے سوا آج جتنی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں سب اسی تقویۃ الایمان کے راستے شاہ صاحب تک پہنچتی ہیں، جبکہ سواد اعظم کا عظیم طبقہ اسے کراس کر کے شاہ صاحب تک پہنچتا ہے- اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب کی ذات جو اسلامیان ہند کے لیے نقطہ اتحاد ہے اور جناب اسماعیل دہلوی کی ذات جو نقطۂ اختلاف ہے، ایک ہندوستانی مسلم مورخ کے لیے کتنی توجہ اور اہمیت کی حامل ہیں- مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب نے زیر تبصرہ کتاب میں اسی اہمیت کے پیش نظر شاہ صاحب پر دو مضامین (۱) فکر ولی اللہی کے وارث وامین، اور (۲) کتب شاہ ولی اللہ میں تحریف و الحاق، شامل کیے ہیں- جبکہ تین مضامین جناب اسماعیل دہلوی، ان کی کتاب تقویۃ الایمان اور ان کے اور ان کے شیخ سید احمد رائے بریلوی کے فسانہ جہاد کی بابت شامل کیے ہیں- پہلا مضمون’’ تقویۃ الایمان اور مباحثہ جامع مسجد دہلی‘‘ کے عنوان سے ہے جو اپنے مشمولات کو بخوبی ظاہر کرتا ہے- دوسرا مضمون ’’ رائے بریلی سے بالا کوٹ کا ایک سفر‘‘ اور تیسرا مضمون’’ فتح و نصرت کے الہامات اور بشارتوں کا انجام‘‘ کے عنوان سے ہے-ان میں تاریخی حقائق اور دہلوی و رائے بریلوی صاحبان کے عقیدت مندوں کے مستند حوالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ یہ دونوں حضرات نہ صرف انگریزوں کے مخالف نہ تھے بلکہ شدید موافق و معاون بھی تھے- بین السطور سے یہ بات بھی اجاگر ہوتی ہے کہ انقلاب ۱۸۵۷ء کو اسماعیلی یا وہابی علماء سے جوڑنا تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہے یا تاریخی فراڈ کا نتیجہ ہے-
شاہ اسماعیل کے حامی غیر مقلد علماء میں دو نام بہت نمایاں ہیں، ایک شیخ الکل میا ںجی نذیر حسین دہلوی کا اور دوسرا جناب حسین احمد بٹالوی کا واضح رہے کہ بٹالوی صاحب ایک زمانے میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے رفیق و ہمراز بھی تھے- یہ دونوں صاحبان نہ صرف انقلاب ۱۸۵۷ء کے مخالف تھے، بلکہ انگریزوں کے حامی اور ان کا ریزہ خوارہ بھی تھے- اس تاریخی حقیقت کو مصباحی صاحب نے ایک مضمون بعنوان ’’ علماے صادق پور (پٹنہ) اور میاں جی نذیر حسین دہلوی‘‘ میں اجاگر کیا ہے-
حالات کے ساتھ خیالات کا بدل جانا کوئی حیرت کی بات نہیں، لیکن حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ حالات بدلنے کے ساتھ حقائق کو بھی بدلنے لگتے ہیں- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کے انتقال (۱۹۰۵ء) کے ۳؍ سال بعد مولوی عاشق الٰہی میرٹھی نے تذکرۃ الرشید لکھی اور شد و مد کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ اکابر دیوبند، مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی صاحبان انگریزوں کے وفادار تھے اور انہوں نے انقلاب ۱۸۵۷ء میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں لیا تھا لیکن آزادی ہند ( ۱۹۴۷ء) کے بعد جب حالات انگریز مخالف ہوئے تو علماے دیو بند نے اپنے ساتھ اپنے اسلاف و اکابر کو بھی کانگریسی اور انگریز مخالف ثابت کرنا شروع کر دیا- مولانا مصباحی صاحب نے زیر نظر کتاب میں شامل اپنے مضمون ’’قصبہ شاملی کی جھڑپ کا اصل واقعہ‘‘ میں اسی جھوٹ کو اس کے گھر کی راہ دکھائی ہے- ۳۱ ؍صفحات پر پھیلے ہوئے اس مبسوط تحقیقی مقالے کا اختتام مصباحی صاحب نے اس سوال پر کیا ہے:
اس دور کی ایسی کوئی تحریری روایت نہیں ملتی ، جس میں مولانا میرٹھی کے بیان کی کوئی تردید و تکذیب کی گئی ہو، پھر بعد کے عام انگریز مخالف ماحول میں مذکورہ قدیم تاریخ کو بدل کر نئی تاریخ بنانے کا جواز کہاں سے اور کس طرح پیدا ہو گیا؟ (ص: ۱۸۹)
’’ تاریخ نویسی سے تاریخ سازی تک‘‘ کے زیر عنوان ۸؍ صفحات پر تاریخ سازی کی بوالعجبیاں پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ سلطان ٹیپو کا انگریزوں کے خلاف جہاد شاہ عبد العزیز کے ہندوستان سے متعلق دارالحرب ہونے کے فتوی سے متاثر ہوکر تھا جب کہ سلطان ٹیپو شاہ صاحب کے فتوی (۱۸۰۳ء) سے ۴؍ سال پہلے نومبر ۱۷۹۹ء میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے- اس طرح کی اور بو العجبیوں سے قارئین کے ذوق ظرافت کی ضیافت فرمائی گئی ہے-
اب ذیل میں کتاب کی چند نمایاں خصوصیات اور کچھ معروضات پیش کی جاتی ہیں :
(۱) کتاب کے عنوان سے اندازہ تھا کہ اس میں انقلاب ۱۸۵۷ء سے پہلے اور بعد کے حالات کا مربوط ذکر ہوگا اور نقد و تجزیہ کے ذریعہ ماضی کی ۲۰۰ سالہ سیاسی، سماجی اور مذہبی تاریخ پیش کی گئی ہوگی-لیکن مطالعہ کے بعد اندازہ غلط ثابت ہوا، اس میں ۱۸۵۷ء کے پس منظر پیش منظر کے حوالے سے مختلف موضوعات پر مضامین ہیں، یہ کوئی مربوط تاریخ نہیں ہے-
(۲) اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ’’سردلبراں در حدیث دیگراں‘‘ نہیں، بلکہ ’’ سرد لبراں درحدیث دلبراں‘‘ کے انداز میں لکھی گئی ہے- جو بات جس گروپ کے خلاف کہی گئی ہے اسی گروپ کے مستند اور معتبر حوالے نقل کر دیے گئے ہیں، اپنی طرف سے بہت کم کہا گیا ہے بلکہ بیشتر مقامات پر تو صرف مخالف کی عبارتیں نقل کرنے پر اکتفا کر لیا گیا ہے-
(۳) یہ کتاب چوں کہ’’ سردلبراں در حدیث دلبراں‘‘ ہے، اس لیے بیشتر مقامات میں وضاحت پر سرّیت غالب ہے- مثلاً مصباحی صاحب نے اپنا ایک مضمون’’ ہندوستان!دارالاسلام یا دارالحرب؟‘‘ اس کتاب میں کیوں شامل کیا ہے؟ بغیر عمیق تفکر کے نہیں سمجھا جا سکتا- اسی طرح’’ علماے صادق پور اور میاں نذیر حسین دہلوی‘‘ کے زیر عنوان مقالہ کو پورے طور پر وہ نہیں سمجھ سکتا جو پہلے سے’’ علماے صادق پور‘‘ کے تعلق سے قابل قدر معلومات نہیں رکھتا-ویسے کتاب کی یہ خصوصیت (سریت) حریف ومتعصب مورخین کے لیے نہایت کاٹ دار اور موثر ہے- شاید یہ بات وضاحت میں نہیں آ پاتی- لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سریت کتاب کی عام فہمیت کو زک پہنچارہی ہے-
(۴) مصباحی صاحب نے بعض مقامات پربہت ہی طویل اقتباسات نقل کر دیے ہیں،ان اقتباسات میں مزید دوسروں کے اقتباسات نقل ہیں، ایسی جگہوں پر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کہاں سے کہاں تک کی عبارت کس کی ہے، اس کا سابقہ خود میرے ساتھ اس کتاب کے دو مضامین میں ہوا اور مجھے کافی غور و خوض کرنا پڑا- ایک ’’ کتب شاہ ولی اللہ میں تحریف والحاق‘‘ میں اور دوسرے’’ تاریخ نویسی سے تاریخ سازی تک‘‘ میں-اسی لیے طویل عبارتیں نقل کرنا جدید طرز تحقیق میں پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا-
(۵)’’مدرسہ دیوبند کے بانی اور مقصد قیام‘‘ کے زیر عنوان مضمون بھی کافی وقیع اور عالمانہ ہے- اس میں فضلاے دیوبند اور محققین دیوبند کے حوالے سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مدرسہ دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی نہیں،سید عابد حسین چشتی ہیں اور یہ بھی محقَق کیا گیا ہے کہ سید عابد صاحب نے جن مقاصد کے لیے ادارہ کی بنیاد رکھی تھی نانوتوی صاحب کے زمام سنبھالنے کے بعد وہ یکسر بدلتے چلے گئے-’’ مقصد قیام‘‘ کے تبدیل ہونے سے متعلق تو مصباحی صاحب کے پیش کردہ حقائق کی روشنی میں کسی اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی البتہ ’’دارالعلوم کے بانی‘‘ کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سخن گستری کی کسی قدر گنجائش نکل سکتی ہے-ہاں! مضمون کا بین السطور جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیام دارالعلوم دیوبند اور انگریز مخالفت میں کوئی رشتہ نہیں، تاریخ گروں کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے-
(۶) کتاب کا عنوان’’ ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ اپنے اندر بہت ہی وسعت اور عمومیت رکھتا ہے جب کہ اس کے مندرجات صرف مخصوص پس منظر و پیش منظر کو محیط ہیں- اور وہ ہے وہابی ، دیوبندی، غیر مقلد مورخین کی انقلاب ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر کی غلط تصویر کشی کا تصفیہ-مصباحی صاحب نے ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر میں مسلکی حقائق کو پہلی بار ان کی حقیقی صورت میں پیش کیا ہے ، ورنہ اس سے پہلے تو ’’ تھے کواکب کچھ نظر آتے تھے کچھ‘‘—تاہم ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر کے حوالے سے کم از کم ایک کتاب مزید لکھی جا سکتی ہے، جس میں متعصب ہندو، قوم پرست مورخین اور کمیونسٹ مورخین کی پھیلائی ہوئی تاریخی گمراہیوں کا ازالہ ہو اور ہندی اور انگریزی میں من مانی جو تاریخ سازیاں ہو رہی ہیں، انہیں بے نقاب کیا جائے- اے کاش حضرت مصباحی صاحب اس عظیم کام کے لیے بھی کمر ہمت کس لیں تو جس طرح انہوں نے عوام و خواص اہل سنت کاسر اپنی ان تازہ کتابوں سے اونچا کر دیا ہے، ہندوستان کے عام مسلمانوں کا سر بھی اس کی وجہ سے آبرو مندانہ اٹھ سکے گا-ورنہ وہ اپنے آپ کو تو بس تاریخی مجرم ہی سمجھا کرتے ہیں-
عرض آخر:-انقلاب ۱۸۵۷ء سے متعلقہ مباحث کی پہلی کڑی’’ انگریز نوازی کی حقیقت‘‘ جب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئی تو جام نور نے اس وقت اس پر ایک شاندار اور بے لاگ تبصرہ شائع کیا،اس کے بعدپے درپے کتابیں آتی رہیںجب مصباحی صاحب کی یہ چھٹی اور غالباً آخری کتاب شائع ہوئی تو پھر ہم نے اس پر تبصرہ کرنا واجب اور ضروری سمجھا-
جب میں تبصرہ کرنے کے لیے بیٹھا تو دیر تک سوچتا رہا کہ میں مصباحی صاحب کی اس کتاب پر نقد و تبصرہ لکھوں، ان کی کتابوں کا تعارف لکھوں یا خود مصباحی صاحب کے اس عظیم کارنامے کے اعتراف میں ان کا نثری قصیدہ لکھوں-بلاشبہ انہوں نے جماعت کا ایک فرض کفایہ ادا کر دیا ہے، تاریخ سے انصاف کیا ہے، حقائق کو ناحق ذبح ہونے سے بچایا ہے اور تنہا وہ کام کیا ہے جسے کرنے کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے- اس لیے میں آخر میں زیر تبصرہ کتاب کی مقبولیت کی توقع ظاہر کرنے کی بجائے جماعت کے ارباب حل و عقد سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ مصباحی صاحب جیسے سر فروش مجاہد اہل قلم کی بھر پور پذیرائی کریں- وہ یقینی طور پر پوری جماعت کی جانب سے بے پناہ شکریے اور اعزاز کے مستحق ہیں-خدا ان کی عمر دراز فرمائے انہیں مزید خدمات کی توفیق بخشے اور ہم نو آموزوں کو ان سے خوب خوب مستفید فرمائے-(آمین)

Wednesday 13 September 2017

ایک ضروری وضاحت ---- سماع اور وجد ورقص کے حوالے سے مشائخ کے معمولات کا جائزہ

1 comments

ایک ضروری وضاحت
سماع اور وجد ورقص کے حوالے سے مشائخ کے معمولات کا جائزہ
                                            از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
                             استاذ: جامعہ عارفیہ، سید سراوں، الہ آباد
    -----------------------------------------------------------
    خانقاہِ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد اور اس کے شیخ داعیِ اسلامی شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی سے شناسائی اور وابستگی کے کل دس سال پورے ہوگئے۔ ۲۰۰۷ء میں پہلی بار پہلے یوم غزالی کے موقع پر بطور مہمان خصوصی میری شرکت ہوئی تھی۔ اس سے پہلے میرے کان سید سراواں سے آشنا نہیں تھے۔ اسی سال اپنے تیسرے یا چوتھے سفر میں شیخ سے میں نے بیعت بھی کرلی تھی۔ بیعت سے قبل اور آشنائی کے بعد کی درمیانی مدت میں اپنے احباب کے بیچ بڑے ذوق وشوق اور وارفتگی کے ساتھ اس خانقاہ اور شیخ خانقاہ کا ذکر کیا کرتا تھا، جس کا سلسلہ بیعت کے بعد تقریباً ختم سا ہوگیا؛ کیوں کہ اب میںمرید ہوچکا تھااور موجودہ زمانے میں مرید جب پیر کی تعریف وتوصیف کرتا ہے تواسے ’’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند‘‘ کے باب سے سمجھا جاتا ہے۔ ۲۰۱۲ء سے مستقل اس خانقاہ میں قیام پذیر اور اس کے تعلیمی اور تصنیفی اداروں جامعہ عارفیہ اور شاہ صفی اکیڈمی کا حصہ ہوں۔ اس طرح خانقاہ میں میری مستقل اقامت کے بھی پانچ سال مکمل ہوگئے۔
    خانقاہِ عارفیہ اور شیخ عارفیہ کی دس سالہ صحبت،خدمت، مشاہدے اور تجربے کے بعد بھی کبھی کبھی جب میں خالی الذہن ہوکر اور خانقاہ سے اپنے رشتوں اور مشاہدوں کو بھلاکرباہر کی دنیا سے خانقاہ کے احوال وواقعات کو دیکھتا ہوں تویہاں کی بہت سی باتیںمجھے بھی افسانہ، قصۂ پارینہ، جھوٹ اور ناقابل یقین سی لگتی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ایسا شخص جس نے خانقاہ اور صاحبِ خانقاہ کو قریب سے نہیں دیکھا ہے، اگر یہاں کی کسی بات یا روایت پر معترض ہوتا ہےیا اسے جھوٹ، مبالغہ اور افسانہ سازی کہتا ہے تو کیا عجب !! ایسے لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے، یہ خود میرے لیےبھی  ایک بڑا چیلنج ہے۔ جی چاہتا ہے کہ کچھ کہنے اور لکھنے کے بجائے ابوفراس ہمدانی کے اس شعر کے ساتھ ایسے لوگوں سے معذرت کرلوں:
ومن مذھبی حب الدیار لاھلھا
وللناس فیما یعشقون مذاھب
    اور میں ہی کیا ، خسرو جیسے شہنشاہ سخن نے بھی تو یہی کیا تھا:
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آری آری می کنم با خلق ما را کار نیست
    اور یہ کہ
ہمہ شہر پر ز خوبان منم و خیال ماہی
چہ کنم کہ چشم بدخو نہ کند بہ کس نگاہی
    آمدم برسرِ مطلب:-  خانقاہ عارفیہ کی محفل سماع کی ایک تصویر گذشتہ تقریبا ًدو سالوں سے Facebook پر گردش کررہی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو لوگ شیخ کے قدموں میں پڑے ہوئے ہیں اور شیخ کھڑے ہیں۔ اس تصویر پر اندازوں، قیاس آرائیوں، پھبتیوںاور تنقیدات بلکہ مغلظات کاایک سلسلہ ہے، جو ختم ہونے کو نہیں آتا اور جسے دیکھ کر جرأت کا یہ شعر یاد آتا ہے:
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
    فسق ومعصیت کے اس بازار میں اپنی زہد وپارسائی کی قسمیں کھانے والوں اور دوسروں کی کھلیاں اڑانے والوں، بلکہ دوسروں کی تفسیق اورتضلیل وتکفیر تک میں جوش وعجلت کا مظاہرہ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اہلِ نظر خوب واقف ہیں کہ اس رویے نے اہل سنت کےپورے وجود کو زخموں سے چھلنی کردیا ہے۔ ایسے میں اگر اس قسم کا کوئی نیا واقعہ سامنے آتا ہے تو ہمیں ذرہ برابر حیرت نہیں ہوتی اور نہ ہی وضاحت وصفائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؛ کیوں کہ اس قسم کا طوفانِ بدتمیزی اٹھانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو وضاحت سننا ہی نہیںچاہتے۔اس حوالے سے مثالوں کی ایک قطار ہے جس سے تقریباً ہر شخص آشنا ہے۔ اس کے باوجود حضرت داعی اسلام کی اس تصویر پر ہونے والی بدتمیزیوں کے پیش نظر وضاحت لکھنے کا خیال اس لیے پیدا ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جھنڈا برداروں کی ہنگامہ آرائیوں کےسبب بعض مخلصین بھی بدگمانیوں میں مبتلا ہوجائیں اور اس لیے بھی کہ داعی اسلام ایک حکیم صوفی ہیں۔ موجودہ تناظر میں امت ان کی حکمتوں اور بصیرتوں سے استفادے کی ضرورت مند بھی ہے اور حق دار بھی ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت کی حکمت وبصیرت اور عرفان وتربیت نقار خانے کی ہنگامہ خیزیوں کی نذر ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں حضرت کا اپنا ذاتی نقصان کچھ نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وہ تو حسبِ قضا ہر شخص کی طرح ایک دن اللہ کے حضور حاضر ہوجائیں گےاور سرخروہوجائیںگے۔ اس میں نقصان امت مسلمہ اور بالخصوص افرادِ اہلِ سنت کا ہے، جو بالعموم زندہ مشائخ کی فیض بخشیوں سے محروم اور قبروں پر چادروں کا انبار لگانے کے خوگر ہوچکے ہیں۔ حضرت داعیِ اسلام کی شخصیت کو زمانے کی روحانیت، بصیرت، حکمت، مشن اور ضرورت کہوں تو دور بیٹھے احباب یقیناً مجھے مبالغہ آرائی اور طومار بیانی کا طعنہ دیں گے، جو ان کا حق ہے، لیکن میرا اپنا وجدان یہ ہے کہ کل یہی لوگ شیخ ابوسعید کو یاد کرکے غالب کا یہ شعر پڑھیں گے:
ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا!
    اقبال اکیڈمی لاہور کے سابق چیرمین جناب احمد جاوید نے شیخ کی شخصیت کے بارے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ
آن مجری قلوب و مصفا گر نفوس
آن وارث روایت خرقانی و فرید
این جا ست سر غیب کہ از دل بہ دل رود
بی حرف و بی حکایت وبی گفت و بی شنید
این مجمع الصفات چو کبریت احمر است
ظاہر شود بہ سلسلہ در مدت مدید
    اب مسئلہ زیر بحث کو بالترتیب مقدمات کی شکل میں ملاحظہ کیجیے:
    [۱] ’’سماع بالمزامیر‘‘ ہمیشہ سے ایک متنازع مسئلہ رہا ہے۔ مشائخ کی ایک بڑی تعداد نے اسے سنا ہے، جب کہ بہت سے مشائخ نے اس سے احتیاط برتا ہے۔ محدثین وفقہا میں بیشتر عدم جواز کی طرف گئے ہیں، جب کہ ان کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو اس کی اباحت کی قائل ہے۔ خانقاہ عارفیہ اور اس کے شیخ کا تعلق تصوف کے اس خانوادے سے ہے جس میں ’’سماع بالمزامیر‘‘ صدیوں سے متوارث ہے۔ تفصیل کے لیے قارئین اس موضوع پر راقم کی کتاب کا انتظار کریں۔
    [۲]  نفس سماع اہل اسلام کے یہاں بالاتفاق جائز، معمول بہ ومتوارث رہا ہے۔ الاماشاء اللہ! اور شاذ آرا قابلِ التفات نہیں۔ اس کے ساتھ دل چسپ بات یہ ہے کہ اہل تصوف کے یہاں جب سماع بولا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وجد ورقص کا خیال بھی لازمًا آتا ہے۔ چوں کہ صوفیہ کے یہاں سماع کی روایت وجد ورقص کی روایت کے ساتھ مربوط رہی ہے۔ موجودہ زمانے میں جب کہ مجالسِ وعظ اور محافلِ نعت ومنقبت کا رنگ بدل چکا ہے، قدیم محافلِ سماع کا ہم صحیح تصور بھی نہیں کرسکتے، بلکہ ہمارے بعض تقویٰ شعار وہ ہیں جو اس تصور کو ہی معصیت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس لیے یہاں چند اقتباسات ملاحظہ کریں:
    الف: علم تصوف کی پہلی جامع کتاب ’’قوت القلوب‘‘ میں شیخ ابوطالب مکی (۳۸۶ھ)لکھتے ہیں:
’’احمد بن عیسیٰ خراز سماع سننے میں بہت مشہور تھے۔ سماع کے وقت وہ تڑپ تڑپ جاتے اور بے ہوش ہوجاتے۔ (ج:۲، ص:۱۰۰) ----- حضرت جنید فرمایا کرتے تھے: اس گروہ پر تین مواقع پر رحمت نازل ہوتی ہے۔ ایک کھانے کے وقت ؛ اس لیے کہ یہ حضرات فاقہ اٹھانے کے بعد ہی کھاتے ہیں۔ دوسرا مذاکرہ کے وقت؛ اس لیے کہ یہ انبیائے کرام علیہم السلام کے احوال اور صدیقین کے مقامات کا ہی ذکر کرتے ہیں۔ تیسرا سماع کے وقت؛ اس لیے کہ ان کا سماع وجد کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ اس وقت حق کے مشاہدے میں مصروف ہوتے ہیں -----  ہم نے اس کا ذکر اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ بھی بعض اہل محبت کا طریق اور بعض اہل عشق کا مشرب رہا ہے۔ اگرکلی طور پر اس کا  انکار کردیں تو گویا ہم نے امت کے نوّے بلند پایہ صادقین کا انکار کردیا۔‘‘
 (ج:۲، ص:۱۰۱، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۵ء)
    ب: شیخ ابو نصر سراج (۳۷۸ھ)تصوف کی معروف اور انتہائی معتبر کتاب ’’کتاب اللمع‘‘ میں لکھتے ہیں:
    ’’ جب ذوالنون بغداد میں داخل ہوئے تو صوفیہ کی ایک جماعت ان سے ملنے آئی، جن کے ہم راہ ایک قوال بھی تھا۔ انھوں نے ذوالنون سے درخواست کی کہ قوال کو کچھ کہنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ انھوں نے اجازت دی اور قوال نے یہ اشعار گائے۔----- ----- یہ اشعار سنتے ہی ذوالنون اٹھے اور منھ کے بل ایسے گرپڑے کہ پیشانی سے خون ٹپکنے لگا۔‘‘ (ص:۲۴۶، دارالکتب الحدیثیہ، مصر، ۱۹۶۰ء)
    ج: ہندوستان کی پہلی کتاب تصوف ’’کشف المحجوب‘‘ میں حضرت داتا علی ہجویری(۴۶۵ھ) رقم طراز ہیں:
    ’’مشہور ہے کہ حضرت جنید بغدادی کا ایک مرید تھا جو سماع میں بہت زیادہ بے قرار ومضطرب رہتا، جس سے دوسرے درویشوں کو خلل لاحق ہوجاتا۔ چناں چہ درویشوں نے شیخ کی خدمت میں اس کی شکایت کی۔ حضرت جنید نے فرمایا: اگر اس کے بعد تم نے سماع میں مضطرب ہوئے تو میں تمھیں اپنی صحبت سے نکال دوں گا۔ ابومحمد جریری کہتے ہیں کہ سماع کے وقت میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنا لب بند کیے خاموش ہے اور اس کے ہر بن مو سے سے چشمہ ابل رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگیا اور پورے ایک دن اسی طرح بے ہوش رہا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کا یہ حال سماع میں لذت بڑھنے کے سبب تھا یا اس کے دل میں عظمتِ شیخ میں اضافے کے سبب تھا--- ایک شخص نے حالتِ سماع میں نعرہ مارا۔ اس کے شیخ نے کہا: خاموش رہو۔ اس نے سر زانو پہ رکھا۔ لوگوں نے جب اسے دیکھا اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی --- شیخ ابومسلم فارس بن غالب فارسی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک درویش سماع میں تڑپ رہا تھا۔ کسی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا کہ بیٹھ جائو۔ وہ بیٹھا اور اسی لمحے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ (ص:۴۶۵،۴۶۶) واضح رہے کہ شریعت وطریقت میں رقص کی کوئی اصل نہیں ہے--البتہ دل میں جب لطافت پیدا ہوتی ہے اور دماغ میں خروش غالب آجاتا ہے تو غلبۂ حال کے سبب اضطراب پیدا ہوجاتا ہے اور یہ ترتیب اور ضوابط وقواعد سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ اضطراب رقص نہیں ہے، نہ کھیل تماشا ہے، نہ ہویٰ پرستی۔ یہ تو جاں گدازی کا لمحہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اسے رقص کہتے ہیں وہ سخت خطا پر ہیں۔ یہ ایک حال ہے جسے زباں سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ من لم یذق لایدری۔ ذوقِ ایں مے نہ شناسی بخدا ،تا نہ چشی۔ 
(۴۷۶، باب الرقص ومایتلق بہٖ، دارالنور، لاہور،۲۰۱۳ء)
    د: سید محمد مبارک کرمانی مشائخِ چشت کے احوال پر پہلی مستند تصنیف ’’سیر الاولیا‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ الاسلام شیخ قطب الدین قدس سرہ العزیز چار شبانہ روز عالم تحیر میں تھے۔ آپ کی وفات کا واقعہ اس طرح ہے کہ شیخ علی سہزی کی خانقاہ میں محفلِ سماع تھی۔ شیخ قطب الدین نوراللہ مرقدہٗ بھی اس محفل میں حاضر تھے۔ قوال نے یہ شعر گایا:
کشت گانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زمان از غیب جانی دیگر است
    شیخ قطب الدین قدس سرہٗ پر اس شعر نے اس قدر اثر کیا کہ آپ خانقاہ سے گھر تک مدہوش ومتحیر لائے گئے۔ بار بار قوالوں سے فرماتے کہ یہی شعر پڑھو۔ قوال یہی شعر پڑھتے۔ وہ اسی عالم تحیر اور مدہوشی میں تھے، لیکن جب نماز کا وقت آتا تو نماز پڑھتے۔ پھر یہی شعر پڑھواتے اور یہی شعر خود بھی پڑھتے۔ وہ اسی عالم تحیر ومدہوشی میں رہے ، یہاں تک کہ چار شبانہ روز اسی عالم میں گزرے۔ پانچویں شب آپ نے رحلت فرمائی۔ (ص:۱۴۲)-----  ایک دن سلطان المشائخ (حضرت نظام الدین اولیا) اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے تھے اور صامت نامی قوال آپ کے سامنے گارہا تھا۔ سلطان المشائخ پر اثر ہوا اور آپ پر گریہ وحال غالب آئے۔ اس موقع پر کوئی مرید وہاں موجود نہ تھا جو رقص میں آئے۔ حاضرین مجلس متفکر ہوئے۔ اسی اثنا میں ایک شخص باہر سے آیا اور قدم بوس ہوکر رقص کرنے لگا۔ سلطان المشائخ بھی اس کی موافقت میں رقص کرنے لگے۔ (ص:۷۷۹، مترجم: خواجہ حسن ثانی نظامی، درگاہ نظام الدین اولیا، دہلی)
    ہ:  ’’احیاء العلوم‘‘ جسےادبیات تصوف میں ’’ام الکتب‘‘ کا درجہ حاصل ہے اور جسے زاہدانہ اور فلسفیانہ اسلوب کا جامع کہا جاتا ہے، اس کی دوسری جلد میں حجۃ الاسلام امام محمد غزالی(۵۰۵ھ) نےمسئلہ سماع پر تفصیلی بحث کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ سماعِ قرآن سے ظہورِ وجد کے واقعات بےشمار ہیں۔ اہل وجد کے حوالے سے قرآن کریم کا ارشاد ہے: جب وہ رسول پر نازل شدہ وحی کو سنتے ہیں تو عرفانِ حق کے سبب ان کی آنکھیں آنسوئوں میں ڈوب جاتی ہیں۔ (المائدۃ: ۸۳) اور نبی کریم ﷺ کا حال یہ تھا کہ جب آپ نماز پڑھتے تو آپ کا سینۂ مبارک اس طرح جوش مارتا جس طرح ہانڈی میں پانی جوش مارتا ہے۔ اس قسم کے واقعات صحابہ وتابعین سے بھی بہ کثرت مروی ہیں۔ قرآن سن کر بعض کی چیخیں نکل جاتیں، بعض روپڑتے، بعض بے ہوش ہوکر گرپڑتے اور بعض کی روح پرواز کرجاتی۔ زرارہ بن عوفہ، امام شافعی اور علی بن فضیل وغیرہ سے ایسے واقعات مروی ہیں۔ امام غزالی نے اس حوالے سے صوفیہ کے بھی متعدد واقعات نقل کیے ہیں،جس کے بعد انہوں نے یہ سوال قائم کیا ہے کہ سماعِ قرآن یقیناً وجد کے لیے مفید ہے، لیکن صوفیہ سماعِ قرآن کے بجائے سماعِ نغمہ کے لیے کیوں جمع ہوتے ہیں اور قاری کے بجائے قوال کو کیوں بلاتے ہیں؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ وجد وشوق پیدا کرنے کے حوالے سے سماعِ قرآن کے بالمقابل سماعِ نغمہ میں سات درجے زیادہ قوت وشدت پائی جاتی ہے۔ پھر امام غزالی نے تفصیل کے ساتھ ان سات وجوہ کا ذکر کیاہے۔ یہ پوری بحث پڑھنے سےتعلق رکھتی ہے۔
    و: گذشتہ صدی میں ہندوستان کے اندر فقہیات کے سب سے بڑے عالم اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی (۱۳۴۰ھ) جنھیں عام طور پر سماع اور وجد ورقص کا مخالف مطلق باور کرلیا گیا ہے، ان کی تحریریں بھی اس باب میں بڑی دل چسپ ہیں، جن کا بالاستیعاب منصفانہ مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔ سماع بالمزامیر کے حوالے سے اپنے اس ایک جملے میںہی ختم سخن کردیا ہے کہ ’’مزامیر یعنی آلات لہو ولعب بروجہ لہو ولعب بلاشبہ حرام ہیں‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ:۲۴/۷۸، پوربندر ،گجرات)
    وجد ورقص کے حوالےسے سوال ہوا کہ مجلس وعظ یا میلا دشریف میں لوگوں کو وجد آجاتے ہیں، اس میں پاگل کی طرح ہاتھ اور پائوں ہلاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ بعض آدمی سر ہلاتے، نہ بے ہوش ہوتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ یہ کیا معاملاتِ عشق ہیں یا کیا ہیں؟ فاضلِ بریلوی اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’اس کی تین صورتیں ہیں: وجد کہ حقیقۃً دل بے اختیار ہوجائے۔ اس پر تو مطالبہ کے کوئی معنی نہیں۔ دوسرے تواجد یعنی باختیارِخودوجد کی سی حالت بنانا۔ یہ اگرلوگوں کے دکھاوے کوہوتوحرام ہے اور ریا اور شرک خفی ہے اور اگرلوگوں کی طرف نظراصلاً نہ ہو،بلکہ اہل اﷲ سے تشبّہ اور بہ تکلف ان کی حالت بنانا کہ امام حجۃ الاسلام وغیرہ اکابر نے فرمایا ہے کہ اچھی نیت سے حالت بناتے بناتے حقیقت مل جاتی ہے اور تکلیف دفع ہوکر تواجد سے وجد ہوجاتاہے، تو یہ ضرور محمودہے۔ مگراس کے لئے خلوت مناسب ہے۔ مجمع میں ہونا اور ریاسے بچنابہت دشوارہے۔ پھربھی دیکھنے والوں کو بدگمانی حرام ہے۔اﷲ عزوجل فرماتاہے:یایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن انّ بعض الظن اثم۔اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو کہ کچھ گمان گناہ ہیں۔نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔گمان سے بچو کہ گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔
جسے وجد میں دیکھو یہی سمجھو کہ اس کی حالت حقیقی ہے اور اگرتم پرظاہرہوجائے کہ وہ ہوش میں ہے اور باختیار خود ایسی حرکات کررہاہے تو اسے صورتِ دوم پرمحمول کرو جومحمودہے یعنی محض اﷲ کے لئے نیکوں سے تشبہ کرتاہے، نہ کہ لوگوں کے دکھاوے کو، ان دونوں صورتوں میں نیت ہی کاتوفرق ہے اور نیت امرباطن[ہے] جس پر اطلاع اﷲ ورسول کوہے۔ جل وعلاوصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم، تو اپنی طرف سے بری نیت قراردے لینا برے ہی دل کاکام ہے۔ائمہ دین فرماتے ہیں:الظن الخبیث انما ینشأ من القلب الخبیث۔خبیث گمان خبیث ہی دل سے پیدا ہوتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ:۲۳/۷۴۵)
    [۳]   مذکورہ بالا تفصیلات میں قارئین کا وقت مصروف کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سماع اور وجد ورقص کی حقیقت اور اکابر تصوف کے یہاں اس کی متوارث روایت سے کسی قدر آشنائی ہوجائے۔ اب خانقاہِ عارفیہ کی محفلِ سماع اور شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہٗ کی مجلس وعظ کی حکایت سنیے۔شیخ کی مثنوی ’’نغمات الاسرار فی مقامات الابرار‘‘ کے پیشِ لفظ میں شیخ کی مجلس وعظ کے حوالے سے راقم نے یہ باتیں تحریر کی ہیں:
’’حضرت کے دست حق پرست پر اب تک سیکڑوں افراد ایمان کی دولت سے سرفراز ہوچکے ہیں اور ہزاروں بد عمل تائب ہوکر صراط مستقیم سے لگ چکے ہیں -آپ کے دربار سادہ ورنگین کی یہ کرامت ہے کہ اس میں ہر مغرور کی پیشانی جھکتی نظر آتی ہے- ان سے مل کر بچوں کو ایک دوست، بڑوں کو ایک سرپرست ، بوڑھوں کو ایک دست گیر، عالموں کو ایک مربی اور اہل نظر کو ایک دور اندیش مفکر ومدبر کی ملاقات محسوس ہوتی ہے-آپ کی دعوت کا رنگ دل کش اور اصلاح کا طریقہ انوکھا ہے-آپ جس سے گفتگو کرتے ہیں اس کی زبان، اصطلاح، نفسیات اور مزاج کا بھرپور خیال رکھتے ہیں-سکھوں سے بات کرتے ہوئے گروبانیوں کا استعمال، ہندؤں سے گفتگو کے دوران دیومالائی قصوں اور ہندی اصطلاحوں سے استفادہ ،مخاطب کو حد سے زیادہ قریب کردیتا ہے- حضرت کی دعوتی اور اصلاحی انداز میں ،حکمت و موعظت، ترتیب و تدریج ، انفاق و بے لوثی، انذاروتبشیراور دل جوئی و خیر خواہی کے عناصر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں-گفتگو میں تعلی اور ادعائیت بالکل ہی نہیں ہوتی، مگر وہ شک و ریب سے بھی مکمل پاک ہوتی ہے- وہ مقام ایمان سے گفتگو فرماتے ہیں اور وہ بھی اس دل نشیں انداز میں کہ’’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کی پوری مثال صادق آتی ہے-بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دلوں پر شیخ کی گرفت ہے۔ وہ جیسے چاہتے ہیں انہیں الٹتے پلٹتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ چند لمحے میں بے ایمانوں، گم راہوں اور بد کاروں کو سپر انداز ہوتے اور اپنے پچھلے کرتوتوں پر احساس ندامت میں آہ وزاری کرتے دیکھ کر خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا- ایسی آنکھیں جو کبھی رونا نہیں جانتیں، جب موسلادھار برسنے لگتی ہیں، اور ایسے دل جنہیں پتھر سمجھا جاتا ہے، جب وہ موم کی طرح پگھلتے نظر آتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی دست مسیحائی کو چوم لینے کو دل بے قرار ہوجاتا ہے-
ان کی محفل میں دل کو سکون ، عقل کو روشنی، قلب کو اخلاص، ذہن کو پختگی ، فکر کو سمت اور علم کو توانائی ملتی ہے - کج کلاہان عصر اپنا تاج ان کے قدمو ںمیں ڈالتے ہیں ، ارباب فقہ و فتاویٰ باب اجتہاد کے سامنے خود کو سجدہ ریز پاتے ہیں ، اہل علم ودانش کو اپنی تنگ دامانی کا احساس ہوتاہے اورمسند نشینان خانقاہ اس جناب میں پہنچ کر تصوف اور طریقت کی بھیک لیتے ہیں -بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ جو لوگ مغرور پیشانی کے ساتھ حاضر دربار ہوئے پہلی اور دوسری ملاقات کے بعد ایسے جھکے کہ کبھی گردن سیدھی نہ کرسکے، ان کی انا کے بت ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئے -وہ لوگ بھی ہمارے سامنے ہیں جو علم وآگہی کے غر ور سے چور تھے اور اب ان کے سر سے دستار علم ہمیشہ کے لیے اتر گئی ہے-اب وہ صرف خاموش طالب اور سوالی بن کر رہ گئے ہیں - ہم ا ن سے بھی واقف ہیں جو مولانا روم کی طرح علمی اسناد و شہادات کو درنار کرچکے ہیں اور اب ہاتھوں میں کشکول لیے روئے جاناںکو تکے جارہے ہیں- وہاں ہر منگتا کی مرادیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں، وہ منگتا کسی بھی سطح کا اور اس کا سوال کسی بھی نوعیت کا کیوںنہ ہو- آپ کی محفل کأنّ علٰی رؤسہم الطیور کا نمونہ معلوم ہوتی ہے اور خاص بات یہ کہ گفتگو جہاں سے بھی شروع ہو ،بات مطلوب ومقصود حقیقی تک ہی پہنچتی ہے- محفل پر کبھی انذار کا غلبہ ہوتا ہے تو کبھی تبشیر کا- اس میں غم دنیا کا رونا نہیں ہوتا، فکر آخرت میں ہی آنکھیں برستی نظر آتی ہیں اور کبھی دنیا کی بات بھی ہوئی تو اس میں دین کا پہلوتلاش کرلیا گیا اور اس طرح دنیا دین بن گئی - ‘‘(نغمات الاسرار فی مقامات الابرار، پیش لفظ، ص:۱۲،۱۳)
     رہی شیخ کی محفلِ سماع تو شاید میں اپنے اس دعویٰ میں حق بجانب ہوں کہ بر صغیر میں اس ذوق وشوق، کیف ومستی اور آداب کےساتھ کہیں اور محفلِ سماع منعقد نہ ہوتی ہوگی۔ شیخ کے قوال باریش اور پابندِ صوم وصلاۃ ہیں۔ بالعموم محفلِ سماع سے قبل محفلِ وعظ ہوتی ہے جس کا خود بھی اپنا رنگ وآہنگ ہوتا ہے۔ شیخ کی خواہش ہوتی ہے کہ جو لوگ سماع کا ذوق نہیں رکھتے وہ وعظ سن کر رخصت ہوجائیں۔ شیخ کے مریدین ومتوسلین میں بیشتر باوضو بیٹھتے ہیں۔ پہلی صف میں بیٹھنے والے دو زانو بیٹھتے ہیں۔ خود شیخ بھی از ابتدا تا انتہا دو زانو ہی بیٹھتے ہیں۔ عموماً پہلی صف میں انھیں بٹھایا جاتا ہے جو عالم یا بظاہر دین دار ہوں۔ آیاتِ قرآنیہ سےمحفلِ سماع کا آغاز ہوتا ہے اور آیات پر ہی اختتام ہوتا ہے۔ شیخ کا قوال ان کا پروردہ اور شاگرد بھی ہے اور خوش الحان قاری بھی۔ محفل میں اکابر اور اساتذہ کا فارسی اور اردو کلام پڑھا جاتا ہے۔ وہاں بازاری شاعری کا گزر نہیں ہوتا۔ شیخ کی شاید وباید ہی کوئی ایسی محفل ہو جس میں اہلِ دل وفورِ شوق ومستی میں کھڑے نہ ہوگئے ہوں ۔ جب کوئی اہل دل ، جذب و شوق میں سرشاررقصیدہ کھڑا ہوتا ہے تو آدابِ محافلِ سماع کی روایت کی پاس داری میں پورا مجمع کھڑا ہوجاتا ہے۔ ادھر قوال اس شعر کی تکرار کرتا جاتا ہے جس پر کسی کو وجد آیا ہوا ہوتا ہے۔کبھی کبھی شمع محفل پر نثار ہونے والے پروانوںکے کیف ومستی کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور کبھی دس دس، بارہ بارہ سوختہ جاں، شوریدہ سر میدان میں اتر آتے ہیں۔ سرمستی وسرشاری، گریہ وزاری، آہ وفغاں، نعرۂ مستانہ، رقص وضرب اور جنون و بے خودی کا عجب عالم ہوتا ہے۔ کوئی رو رو کر نیم جاں ہوجاتا ہے، کوئی مرغِ بسمل کی طرح تڑپتا ہے، کبھی کوئی گریباں چاک کرلیتا ہے، کوئی آہیں بھرتا اور کوئی زمین پر لیٹا ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے، کوئی شیخ کا ہاتھ چومتا ہے تو کوئی پائوں، کوئی شیخ کے قدموں پر سر رکھ کر دیر تک روتا بلکتا رہتا ہے، کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو قدم بوسی کے لیےبڑھے اور غش کھاکر گرپڑے، پھر جس کروٹ میں رہے دیر تک بے حس وحرکت پڑے رہے۔ شیخ کی حالت بھی عجیب ہوتی ہے، کبھی ان کی آنکھیں بھی ساون بھادوں بن کے برسنے لگتی ہیں، کبھی وہ اپنی جگہ پر ہی آنکھ بند کیے ہوئے جھومتے نظر آتے ہیں۔ عشق کے بیماروں کی حال پرسی کا انداز بھی نرالا ہوتا ہے۔ کسی کو سینے سے لگارہے ہیں، کسی کے سر پر دست شفقت پھیر رہے ہیں، تو کبھی زمین پر پڑےکسی بےحس و حرکت دیوانے کو تھپکیاں دے کر ہوش میں لارہے ہیں۔ ایک کو سنبھالا تو دوسرا بے حال ہوا، دوسرے کو گلے لگایا تو تیسرا چیخا، تیسرے کو تھپکی دی تو چوتھا قدم بوس ہوا، اسے اٹھایا تو پانچویں کے سینے پر ہاتھ رکھا اور اس کے جوش مارتے سینے کو ٹھنڈا کیا۔ ایسے روحانی، پرکیف، اشک بار مناظر کی عکاسی سے قلم عاجز اور زبان گنگ ہے۔
     میرے جو احباب دور بیٹھے ہوئے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ وہ ان مناظر کا صحیح تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ ہاں! جن کی نگاہیں دنیا و مافیہا میں الجھی ہوئی ہیں اور جن کا شبستان تعیش،دین و آخرت کے تفکرات سے آزاد اور جدیدوسائل ابلاغ کی فیض بخشیوں سے آباد ہےاورجن کے زہد و تقویٰ کا کل سرمایہ فیس بک اور واٹس ایپ پرخدائی فوج دار بنے اپنے مشرب مخالف علما و مشائخ کے ایمان و تقویٰ کا احتساب ہے، ایسے حضرات یقیناًفیس بک کی ایک تصویر پر فسق وفجور، سجدۂ تعظیمی، بت پرستی وہوا پرستی اور ریا وسمعہ کی پوری روداد لکھ سکتے ہیں، اگرچہ ان کے نزدیک رویت ہلال کے بارے میں جدید ذرائع ابلاغ کی تمام شکلیں یکلخت ناقابل اعتبار ہی کیوں نہ ہوں۔اورمجھے ایسے ٹھیکداروں سے غرض بھی نہیں۔ ہاں! اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ حضرات دوسروں کا حساب لیتے رہنے کے ساتھ کبھی قیامت میں اپنا حساب بھی دینے کی فکر کریں۔ہاں! جو مخلصین وطالبین ہیں، ان سے گزارش کروں گا کہ شیخ ابوسعید کی صحبت بافیض سے خود کوفیض یاب کریں۔ جو حق کے متلاشی اور تحقیق کے طالب ہیں ان سے التماس کروں گا کہ ایک بار خانقاہ عارفیہ میں پہنچیں اور انتہائی تنقیدی نظر سےشیخ ابوسعید کے شب وروز کا مطالعہ کریں، پھر جو رائے بنے آزادانہ قائم کریں۔کیوں کہ دروغ بے فروغ، کردار کشی اور تفسیق وتضلیل کے اس بازار میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینا دن کے اجالے میںاصولِ روایت ودرایت کا خون کرنا ہے۔
    [۴] ہندوستانی ملفوظاتی ادب میں سب سے زیادہ معتبر ومستند ملفوظ ’’فوائد الفواد‘‘ میں خواجہ قطب، بابا فرید اور حضرت نظام الدین اولیا کے یہاں سجدۂ تعظیمی کی روایت کا ذکر ملتا ہے۔چناں چہ امیر حسن علی سجزی نے حضرت نظام الدین اولیا کا یہ قول نقل کیا ہے: 
    ’’برمن خلق می آید وروئ بر زمین می آرد، چون پیش شیخ الاسلام فرید الدین وشیخ قطب الدین قدس اللہ روحہما العزیز منع نبود، من ہم منع نمی کنم‘‘۔(فوائد الفواد، ج:۴، مجلس نمبر:۳۰، درگاہ حضرت نظام الدین اولیا، دہلی، ۲۰۰۷ء)
ترجمہ: میرے پاس لوگ آتے ہیں اور اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں، چوں کہ شیخ الاسلام بابا فریداور حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی محفل میں یہ منع نہیں تھا، اس لیے میں بھی منع نہیں کرتا۔
     یقیناً یہی وہ نکتہ ہے جس کے پیش نظر مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان بریلوی نے یہ رقم فرمایا ہے:
’’قوالی مع مزامیر ہمارے نزدیک ضرور حرام وناجائز وگناہ ہے اور سجدۂ تعظیمی بھی ایسا ہی۔ ان دونوں مسئلوں میں بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے، اگر چہ وہ لائقِ التفات نہیں۔ مگر اس نے ان مبتلائوں کو حکم فسق سے بچادیا ہے جو ان مخالفین کے قول پر اعتماد کرتے اور جائز سمجھ کر مرتکب ہوتے ہیں۔‘‘ (فتاویٰ مصطفویہ، ص:۴۵۶)
    یہی نکتہ حضرت داعیِ اسلام کے پیش نظر بھی ہے اور وہ بھی مجوزین سجدۂ تعظیمی کی تفسیق وتضلیل درست نہیں سمجھتے ۔ البتہ! نصوصِ فقہا اور احوالِ زمانہ کے پیشِ نظر اسے ناجائز ہی باور کرتے ہیں۔ ہاں! خانقاہِ عارفیہ میں قدم بوسی کی روایت موجود ہے جو خود سنت نبوی، آثارِ صحابہ اور علما وصوفیہ کے تعامل سے ثابت ومتحقق ہے۔ لیکن شیخ کی طرف سے قدم بوسی ہی نہیں دست بوسی پر بھی کوئی اصرار نہیں ہے۔ نہ وہ اصرار کو روا سمجھتے ہیں۔ بلکہ وہ تو یہ فرماتے ہیں کہ جس کی دست بوسی یا قدم بوسی ہو اسے خود کو حجر اسود سمجھنا چاہیے، جسے گرچہ سید البشر نے بھی چوما ہے، مگر وہ مقامِ بشر تک بھی نہ پہنچ سکا، چہ جائے کہ مقام سید البشر تک پہنچے۔ جو لوگ دست بوسی یا قدم بوسی کرتے ہیںوہ خود کو حقیر سمجھتے ہیں اور سامنے والے کو بڑا تصور کرتے ہیں۔ یہ تواضع اور حسن ظن ان کی بلندیِ درجات کا سبب ہے، لیکن چوموانے والا اگر کبر ونخوت میں مبتلا ہوا تو اس نے اپنی عاقبت برباد کرلی۔
    واضح رہے کہ قدم بوسی اور سجدہ دونوں کیمرے کی نظر میں ہی نہیں عام نظر میں بھی بظاہرایک ہی جیسے ہیں۔ ان میں بڑا لطیف فرق ہے۔ اعلیٰ حضرت بریلوی فرماتے ہیں:
’’ قدم بوسی کو سجدہ سے کیا تعلق! قدم بوسی ’’سربرپانہادن‘‘ (سر پاؤںپر رکھنا ۔ ت) اور سجدہ ’’پیشانی بر زمین نہادن‘‘ (پیشانی زمین پر رکھنا۔ ت) ہے۔ مسلمان پر بدگمانی حرام ہے۔قال اﷲ تعالٰی: یایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۔وقال رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم  : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔ (اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچتے رہواس لئے کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو کہ بدگمانی سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے(ت) ‘‘(ج: ۲۲، ص:۵۶۶)
      شیخ کے یہاں قدم بوسی ہی ہوتی ہے، سجدۂ تحیت نہیں ہوتا۔ ہاں! محفلِ سماع کی کیف ومستی میں ڈوبے ہوئے وہ بے خود وسرشار مستانے کہاں گررہے ہیں اور کیسے گر رہے ہیں، سر رکھ رہے ہیں یا پٹک رہے ہیں، جو بے خود، مدہوش اور کبھی بے ہوش بھی ہوجاتے ہیں۔ یقیناً وہ ’’رفع القلم عن الثلاثۃ‘‘ کے درجے میںہوتے ہیں۔سوختہ پر اور گداختہ جان تڑپتے پروانے کو کیا خبر کہ گردِ شمع وہ زمین پرکس کروٹ گرا۔
    فقہ وفتاویٰ کی اپنی دنیا ہے اور عشق و وفا کا اپنا جہان ہے۔ فقیہ پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کو حرام اور ارتکابِ حرام سے دور رکھے۔ وہ بسا اوقات عام مسلمانوں کو سد ذرائع کی خاطر محرمات کے قریب پھٹکنے سے بھی روکتا ہے،کہ مبادا ایک عام مسلمان اس سے آگے بڑھ کر حدودِ شریعت کو پامال کردے۔ فقہا کے یہاں یہ مسلم ہے کہ سجدۂ عبادت شرک اور سجدۂ تحیت ناجائز ہے۔ لیکن اب آئیے! عاشقوں کی واردا ت دیکھیے کہ وہ محبت والفت، عشق وارادت، کیف ومستی، جذب وشوق اور اضطرار وبےخودی کے عالم میں زبانِ حال سے کس طرح گویا ہوتے ہیں:
ہزار سجدے کریں ان کی ذات کو کم ہے
ہمیں تو باندھ دیا ان کی ہی شریعت نے
(سید نظمی مارہروی)
نہ ہو آقا کو سجدہ، آدم و یوسف کو سجدہ ہو!
مگر سدِ ذرائع داب ہے اپنی شریعت کا
(اعلیٰ حضرت بریلوی)
سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا
(مفتی اعظم ہند)
اے شوق دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں
اچھا وہ سجدہ کیجے کہ سر کو خبر نہ ہو
    (اعلیٰ حضرت بریلوی)
اس میں روضے کا سجدہ ہو کہ طواف
    ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے
    (اعلیٰ حضرت بریلوی)
    بے خودی میں سجدۂ در یا طواف
    جو کیا اچھا کیا، پھر تجھ کو کیا!
    (اعلیٰ حضرت بریلوی)
سنگِ درِ جاناں پر کرتا ہوں جبیں سائی
سجدہ نہ سمجھ نجدی! سر دیتا ہوں نذرانہ
(مفتی اعظم ہند)
موسیا! آدابِ دانان دیگرند
سوختہ جان و روانان دیگرند
عاشقان را ہر نفس سوزید نیست
بر دہِ ویران خراج و عشر نیست
ملت عشق از ہمہ دینہا جداست
عاشقان را ملت و مذہب خداست
(مولانا روم)
    [۵]  مذکورہ تصویرجو گذشتہ دو سالوں سے سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہے، وہ یقینا سجدے کی تصویر نہیں ہے۔ ہاں! قدم بوسی کے بعد غشی میں ڈوبے ہوئے دو دیوانے ہیں جو دنیا ومافیہا سے بے خبر ہیں۔ خانقاہِ عارفیہ کی محافلِ سماع میں شرکت کرنے والے اس قسم کے واقعات کے شاہد ہیں کہ ایک شخص شیخ کا ہاتھ یا پائوں پکڑے آدھے آدھے گھنٹے تک زار وقطار روتا چلا جارہا ہے۔ ایک شخص رقص کرتے کرتے پورے قد کے ساتھ زمین پر گرا ہے اور پھر دیر تک تڑپتے رہنے کے بعد ساکت وجامد پڑاہوا ہے۔ ایک شخص طویل وجد وکیف کے بعد قدم بوس ہوا ہے اور اسی حال میں جامد وساکت رہ گیا ہے یا پلٹ کر کروٹ کے بل گرپڑا ہے اور گھنٹہ نصف گھنٹہ اسی طرح بے حس وحرکت پڑا ہوا ہے، یہاں تک کہ شیخ اسے چھوڑ کر وجد واضطراب میں ڈوبے ہوئے دوسرے دیوانوں تک پہنچ گئے ہیں، لیکن یہ شخص اپنی جگہ پر یونہی بے خبر اور بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ اگر ہم انصاف کا دامن تھامیں تو اس صورت کو سجدۂ تعظیمی ہرگز نہیں کہہ سکتے، بلکہ قدموں پر منھ کے بل یا کروٹ کے بل دیر تلک بے ہوش اور بے حس وحرکت پڑے رہنے کو قدم بوسی کہنا بھی صحیح معنوں میں درست نہیں ہے۔ ہاں! اس کی ابتدا وجد وکیف، بےخودی وسرشاری کے جذبات سے لبریز قدم بوسی سے ضرور ہوئی ہے۔
    آخری بات:-
    یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے، خاص طور پر ہمارے ان احباب کے دلوں میں جو خانقاہ عارفیہ سے دورسیکڑوں اور ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ یہ کہ یہ کیفیات پورے بر صغیر میں صرف خانقاہ عارفیہ ہی میں ہوتی ہیں، کہیں اور کیوں نہیں ہوتیں؟ اور وہاں ہوتی ہیں تو کیوں ہوتی ہیں؟ یقیناً یہ سوال اپنی جگہ فطری ہے۔ اگر ان احباب کی جگہ میں ہوتا تو شاید میں بھی یہی سوال کرتا، مگر فیض بخشیِ قدرت کو کیا کہیےگا! جو جب اور جسے چاہے سرشار و فیض یاب کرے۔ ہم اور آپ اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتے۔ نوادرات ہوتے بھی تو ایسے ہی ہیں۔ اکابر کی کتب تصوف سے وجد وسماع کے جتنے احوال اوپر نقل ہوئے اللہ کے فضل واحسان سے ان تمام مناظر کا مشاہدہ میری آنکھوں نے خانقاہِ عارفیہ کی چہار دیواری میں کرلیا ہے۔ سر پٹکنے والے، پوری شدت کے ساتھ فرش پر ہاتھ پیر مارنےوالے، گریباں چاک کرلینے والے، بلکہ خود کو زخمی کرلینے والے، بلکہ خود کو کنویں میں ڈال دینے والے سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ، اِلا یہ کہ اب تک کسی کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں ہوئی ہے۔ تاہم ایک دو مواقع پر ایسا ضرور ہوا کہ کوئی عاشق جاں سوختہ روتے روتے بے حال ہوا اور پھر ایک زور کا نعرہ مارا اور اس کے ساتھ ہی جامد وساکت ہوگیا۔ اس وقت راقم الحروف کو ایسا محسوس ہوا کہ دیوانہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا ہے۔ عہد زوال کی زرپرست خانقاہوں اور دنیا پرست علما کو دیکھ دیکھ کر ماضی کی شاندار روایات کے مشاہدے سے مایوس نگاہوں اور شک گزیدہ سماعتوں کو اگر ہماری باتوں پر یقین نہ آئے تو میں اس کے علاوہ اور کربھی کیاسکتا ہوں کہ انھیں اخلاص ومحبت کےساتھ خانقاہ آنےکی دعوت دوں۔ شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ بصورت دیگر یا تو وہ میری زبانِ قلم کو مشکوک سمجھیں یا میں اپنے مشاہدات کو جھٹلادوں؟؟؟
-------------------------------------------
    نوٹ: - (۱) یہ تحریر خانقاہِ عارفیہ میں انعقاد پذیر محافلِ وجد وسماع کی ایک اجمالی تصویر پیش کرتی ہے۔ حضرت داعیِ اسلام کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں پر قارئین راقم کی مستقل کتاب کا انتظار کریں۔(۲) یہ مضمون تصوف سے وابستہ اہلِ سنت کے لیے لکھا گیا ہے؛اس لیے یقینا سلفی منہجِ فکر واستدلال کے حامل افراد کے لیے ناکافی ہے۔مستقبل قریب میں تصوف اور مراسمِ تصوف پر اس جہت سے شاہ صفی اکیڈمی سے کتابیں / مقالات شائع کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ!!
***





 







https://drive.google.com/file/d/0B7PawD8kIlKua1VKOFFkVzQ2RWs/view?usp=sharing

https://docs.google.com/uc?export=download&id=0B7PawD8kIlKua1VKOFFkVzQ2RWs