Saturday 25 March 2017

علم وتحقیق کے میدان میں حرفِ آخر یہی ہے کہ یہاں کسی کی بات حرفِ آخر نہیں

1 comments
علم وتحقیق کے میدان میں حرفِ آخر یہی ہے کہ یہاں کسی کی بات حرفِ آخر نہیں
نوجوان عالمِ دین مولانا امام الدین سعیدی سے خصوصی گفتگو
---------------------------------------------------------------------------------
خوش گفتاری، خوش رفتاری، خوش فکری، خوش علمی، خوش اخلاقی جیسے خوش نما عناصر کے ذریعے چند ہی برسوں میں شخص سے شخصیت، فرد سے فردیت کے میدان میں قدم رکھنے والے مولانا امام الدین سعیدی دورِ حاضر میں علم وفضل کے حوالے سے نسلِ نو کے نمائندہ علما میں شمار کیے جاتے ہیں۔آپ کی ولادت ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء میں نیپال کے ایک دین دار اور روحانی خانوادے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم جد محترم حضرت صوفی شاہ یار محمد قادری علیہ الرحمہ (خانقاہ قادریہ رضوانیہ، روضہ شریف) سے حاصل کرنے کے بعد بر صغیر کی عظیم درس گاہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کا رخ کیا اور وہاں سے فضیلت تک کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا آزاد یونیورسٹی سے بی اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کی تکمیل کی۔ ۲۰۰۵ء سے خانقاہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں مقیم ہیں اور جامعہ عارفیہ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ ہی کے توسط سے خانقاہ میں صاحبانِ علم ومعرفت کی آمد ورفت بڑھی اور اس وقت یہاں اربابِ علم وفن کا ایک کارواں آباد ہے۔۲۰۱۳ء میں نیپال کی سرزمین پر ’’الاحسان آرگنائزیشن‘‘ نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جو ملکی سطح پر عظیم خدمات انجام دے رہی ہے۔ لوح وقلم سے زمانۂ طلب علمی ہی سے کافی مضبوط رشتہ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب تک آپ کے زر نگار قلم سے سیکڑوں مقالات ومضامین نکل کر ملک کے متعدد اخبار ورسائل میں شائع ہوکر خراجِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔جب بھی لکھتے ہیں دلوں پر ایک روشن اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ کا عظیم کارنامہ ’’القمر المنیر فی علوم التفسیر‘‘  کی تصنیف اور ’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ایک باوقار کہنہ مشق شاعر بھی ہیں، درجنوں نعت ومناقب اور غزلیں لکھ چکے ہیں۔مقالات ومضامین میں ’’شطحات صوفیہ: شبہات وازالہ، وحدۃ الوجود: ایک علمی مطالعہ، تفسیر اشاری: ایک تحقیقی مطالعہ، علم لدنی: ایک مطالعہ، التاویلات النجمیۃ: ایک تعارف‘‘ کافی نمایاں اور اہم تصور کیے جاتے ہیں۔______ شاہد رضا نجمیؔ
 

شاہد رضا نجمی:-
چند برس قبل آپ نے نیپال کی سرزمین پر ’’الاحسان آرگنائزیشن‘‘ نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ ’’جمیعۃ علمائے نیپال‘‘ جیسی دوسری تنظیموں کے ہوتے ہوئے آخر اس نئی تنظیم کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں اور یہ ان میں کس حد تک کامیاب ہے؟ 
مولانا امام الدین سعیدی:-
 پہلی بات تو یہ واضح کردوں کہ عمومی طورپر مملکت نیپال میںاعلی سطح کے منظم ادارے وتحریکات کی واضح کمی ہے ،خصوصی طور سےمسلم کمیونٹی میں تنظیمی یا تحریکی شعور ہی کا فقدان نظر آتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ ابھی تک جو بھی تنظیم قائم ہوئی وہ یا تو کالعدم ہو گئی یا معطل و جامد صورت میں موجود ہے ،ان کی سرگرمیاں بہت نمایاں نہیں ہیں، اس کےکئی وجوہات تھےجس میں ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ اس کی قیادت و سرپرستی ایسے افراد کے ہاتھوں میں رہی جن کا رویہ قوم وملت کے حق میں انتہائی افسوناک رہا ہے۔
’’الاحسان آرگنائزیشن، نیپال‘‘ ابھی تک اپنی نوعیت کا پہلا آرگنائزیشن ہے، یہ نوجوان علما کا قائم کردہ ایک ملی و رفاہی ادارہ ہے۔ تقریبا ۶؍سالوں سے سرگرم عمل ہے اورالحمد للہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی نمایاں خدمات کی وجہ سےاچھے اثرات مرتب کررہاہے ۔یہ ایک قومی سطح کا غیر سرکا ری رجسٹرڈ ادارہ ہے ۔اس کے تین بنیادی نکات ہیں:تعلیم ،رفاہ عامہ،اصلاح معاشرہ ۔جو بھی منصوبے بنتے ہیں انہیں نکات میں سے کسی ایک پر مرتکز ہو تے ہیں ۔سردست تعلیم کے حوالہ سے زیادہ فعال ہے،جیسے مختلف اداروں کی تعلیمی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کا مالی تعاون کرنا ،تعلیم و تدریس کے لیے ضروری وسائل مہیاکرانا اور وقتا فوقتا دورافتادہ علاقوں میں تعلیمی بیداری کی مہم چلانا ، الگ الگ مقامات پر اجلاس و کیمپ کا نعقاد کرنا ۔نادار و معذور طلبہ کے لیےاسکالر شپ کا اہتمام وغیرہ۔رفاہی وسماجی خدمات کے حوالہ سے جو بھی پروجیکٹ ہے وہ بلا تفریق مذہب و ملت سب کے لیے مفید ہوتا ہے ،جیسے صحت و حفظان صحت کے لیے مفت علاج و دوا کی سہولت فراہم کرنا ،یتیم و غریب بچیوں کی اجتماعی شادی کا اہتمام۔مختلف مواقع سے محتاج و معذور افرادمیں کپڑے و غذائی اجناس تقسیم کرنا،ناگہانی آفتوں میں متاثرین کی امدادکرنا۔ دعوتی و اصلاحی پروگرامز کے ذریعہ مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے لو گوںمیں معاشرتی و سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا، ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے اسلام کے پیغامِ امن ومحبت کو دوسروں تک پہنچانا وغیرہ۔ الحمد للہ تنظیم اپنے منصوبے میں بہت حد تک کامیاب ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی ٹیم مخلص اور پرجوش ہے ۔قومی سطح پر مسلم نمائندگی کے معاملہ میں یہ پہلا متحرک ادارہ ثابت ہو رہا ہے ۔
شاہد رضا نجمی:- 
ہندوستانی مدارس میں تفسیر کی جو تعلیم دی جاتی ہے اسے آپ کس حد تک قابلِ اطمینان سمجھتے ہیں؟ وہ کون سے تفسیری مناہج ہیں جن پر ہمارے یہاں بہت کم یا بالکل ہی توجہ نہیں دی جاتی ہے؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
بات صرف فن تفسیر ہی کی نہیں بلکہ میں مجموعی طورپر پورےنصاب سے مطمئن نہیں ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ نصاب میں غیر ضروری مواد کی شمولیت اور ضروری مضامین میں داخل اجزا کی ناقصیت ہے۔ حد تو یہ ہےکہ بعض مدارس میں ابھی تک اسی فرسودہ نصاب کا التزام ہے جس کادو تہائی مواد قدیم فلسفہ و منطق کے بھول بھلیوںوالے مباحث پر مشتمل ہے۔
  تفسیر کی تعلیم وتدریس کے تعلق سے ہمارے یہاں سب سے پہلی کمی یہی ہے کہ اس کے لیے کوئی مستحکم نظم نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی غیر معمولی اقدام کیا جاتا ہے، الا ماشاء اللہ۔ یہ بڑاالمیہ ہے کہ جو فن سارے اسلامی علوم وفنون کو محیط ہے اس پر بحیثیت فن ہمارے یہاں بہت کم توجہ ہے ۔ واضح رہے کہ تفسیر الگ شیٔ ہے اور اس کی فنی حیثیت الگ موضوع ہے۔ بلاشبہ مدارس میں تفسیرتو کئی سالوں تک پڑھائی جاتی ہے مگر اس کے فنی مباحث سے حد درجہ صرف نظر کیا جاتا ہے ۔میرے خیال سے تفسیر کی تدریس کا جو ایک جامع منہج ممکن ہے وہ یہ ہے کہ اولاً تفسیر و علوم قرآن کے ضمن میں کم ازکم ان مبادیات واصول سے واقف کرایا جائے جو تفسیر کی ضرورت وحیثیت اورمناہج واسالیب کی معرفت میں معاون ہوں، پھر منقول تفاسیر کی طرف توجہ دلائی جائے، اس کے بعد علمی و اشاری تفسیر میں جتنے رجحانات ابھی تک پیدا ہو ئےہیں ان سب سے واقف کرایا جائے، نیز ان کی علمی حیثیت ومعنویت سے آگاہ کیا جائے، تفسیری ذخائر میں منہج کا بھی ادراک ضروری ہے۔ طالبِ علم پانچ سالوں تک مختلف تفاسیر کی کتابیں پڑھتا ہے مگر ان کے فنی منہج ومعیار سے ناآشنا ہی رہتا ہے۔ نیز اس فن کے تحقیقی مباحث و جزئیات کی معرفت کے لیے ایک مستقل تخصص کا شعبہ لازمی ہے جیساکہ بعض جامعات میں قائم ہے ۔محض چند سالوں میں اس فن کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ علومِ قرآن کے صرف کسی ایک گوشے کی تحقیق و توضیح میں پوری  پوری عمر ناکافی ثابت ہورہی ہو، گفتنی کے چند سال کیا معنیٰ رکھتے ہیں۔ 
شاہد رضا نجمی:- 
مسلمانوں میں موجودہ علمی انحطاط کے پیچھے آپ کن اسباب کو کارفرما مانتے ہیں؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
مسلمانوں کا علمی انحطاط اسی عہد سے شروع ہو چکا تھا جب اس نے اپنے قیمتی اوقات کو بے کا ر قسم کے مباحث میں لگانا شروع کر دیا تھا اور جو ان کی علمی روش تھی وہ بھو ل گیے اس لیے پچھلے کئی سالوں میں کو ئی عبقری علمی شخصیت دیکھنے کو نہیں ملی ۔روایت پسندی و فکری جمود پر قانع ہو گئے اور جو بھی علمی تحقیق کا مزاج تھا اس سے صرف نظر کر لیا ۔بے بصیرت و کو تاہ بین افراد کو علمی قیادت سونپ دی گئی اور نا اہلوں کی قدر و عزت ہو نے لگی۔ ہماری علمی پسماندگی کے بہت سارے وجوہات ہیں۔ دو اہم ترین سبب کا ذکر مناسب سمجھتا ہو ں ۔(۱) جدید عصری علوم کے تعلق سے منفی رویہ: ہمارے یہاں ان علوم کی طرف کوئی توجہ نہیں جن کے بل بوتے پر آج مغرب نے ہمیں غلام بنالیا ہے ۔جب کہ عصری تقاضے شدت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ کررہے ہیں ،اور مطلع صاف ہے کہ آج کے زمانہ میں علمی تفوق وبرتری کا حصول عصری علوم میں کمال و مہار ت کےبغیر ممکن نہیں ۔اگر اس منفی روش کو ختم نہیں کیا گیا توہمارے لیے زندگی کے رواں دواں قافلہ سے بچھڑنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔خصوصی طور سے علوم طبعیہ میں جو سائنس کے علمی انقلابات ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ہم ابھی بھی زمین پر بیٹھ کر فلکیات و عنصریات کی تحقیق میں سقراط وفیثا وغورث کے فرسودہ نظریات میں محصور ہیں جب کہ دنیاکہکشائوں میں سیر کر کے سیاروں کے حجم و وسعت  ناپ رہی ہے۔ آخرہم کواس طرز فکر سے کیوں چڑ ہے جوہمارے لیے ترقی کی شاہراہیں کھو لتی ہے؟ہاں ہم ٰیہ ضرور کہتے ہیں کسی بھی علمی سفر کےلیےدین وایمان کی سرپرستی ناگزیرہے۔
(۲) جمود وکاہلی: علم بے زاری کی وبا عام ہے اگر چہ مدارس و مکاتب کی تعدادروز افزوں بڑھ رہی ہے کیونکہ عمومی طورسے لو گ ڈگریاں اور اسناد حاصل کرنے کے لیے تعلیم گاہوں کا رخ کرتے ہیں انہیں شوق علم بہت کم کھینچ کر یہاں لاتاہے ۔نہ وہ طلب علم کے لیے آبلہ پائی کا شوق ہے نہ ہی صحرا پیمائی کی آرزو۔مزید یہ کہ علم ودانش کے نام پر جو درسگاہیں قائم ہیں وہاں مقلدانہ روش کا بول بالا ہے، وہاں علم کے نام پر ذہنوں کو مقفل کردیا جاتا ہے، علمی مسائل ومباحث میں شخصی رائے کی اجارہ داری چل رہی ہے، اس سےیک سر مو انحراف گمرہی و گستاخی پر محمول کی جاتی ہے، میرے خیال سے علمی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے،کیا وجہ ہے کہ سائنسی علوم حیرت انگیز طور پر بلندیوں کو چھورہے ہیں اور ساری دنیا کو مرعوب کررہے ہیں؟ در اصل علمی دنیا میں سائنس کی اس ترقی کے پیچھے یہی راز  ہے کہ اس کے کسی بھی نظریہ میں جمود نہیں، وہ کسی بھی شخصی انکشاف و دریافت کو حرف آخر نہیں کہتا اور حقیقت واقعہ بھی یہی ہے کہ صدیوں تک ایک دریافت کو بطور حقیقت تسلیم کی جاتی رہی مگر جیسے ہی اس کے بالمقابل کسی نے نئی دریافت پیش کی تو عرصۂ دراز تک تسلیم کی جانے والی وہ حقیقت محض فسانہ ثابت ہوئی ۔ یہ جان لیں کہ علم وتحقیق کے میدان میں حرف آخر یہی ہے کہ یہاں کسی بھی صاحبِ علم وتحقیق کی بات حرف آخر نہیں ۔
شاہد رضا نجمی:-
تصوف کی مستند ومقبول کتاب ’’اسر التوحید فی مقامات ابی سعید‘‘  کا اردو ترجمہ آپ کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اور معنویت کے تعلق سے کچھ بتانا پسند کریں گے؟ 
مولانا امام الدین سعیدی:-
تصوف شروع ہی سے میرا سب سے محبوب ترین موضوع رہا ہے۔ میں ان کتابوں کے مطالعہ میں بڑی دلچسپی رکھتا ہو ں جو تصوف یا صوفیہ کے احوال و مقامات سے معنون ہیں ۔’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید‘‘ تصوف کی چند مستند کتابوں میں سے ایک ہے ۔یہ چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، زبان فارسی ہے،اسلوب قدیم ادبی فارسی کا ہے، اس کے مؤلف خواجہ ابوسعید ابوالخیر کے پڑپوتے محمد بن منور میہنی ہیں ۔ یہ کتاب دوباب پر مشتمل ہے اور ہر باب کئی فصلوں پر مشتمل ہے ۔باب اول میں شیخ ابو سعید کے ابتدائی احوال واسفار کا بیان ہے۔ باب دوم شیخ کے درمیانی و آخری زندگی کے مراحل و واقعات پر مشتمل ہے ۔مجموعی طور سے یہ کتاب سلطان طریقت ،برہان حقیقت خواجہ ابوسعید ابو الخیر (متوفی۴۴۰) کی سوانح ہے، مگر ضمنی طور سے بہت سارے اکابرین مشایخ وعلما کا ذکر ہے، مثلا شیخ بو علی دقاق ،شیخ ابوالقاسم گرگانی ،خواجہ ابوالحسن خرقانی ،امام ابوالقام قشیری ،مشہور محدث امام الحرمین ابوالمعالی جوینی ،امام صابونی،مشہور فلسفی بو علی سینا وغیرہم ۔اپنے شیخ حضور داعی اسلام دام ظلہ کے حسب اشارہ جب میں نے اس کا ترجمہ کرنا شروع کیا تو بعض مقامات پر دشواری ضرور آئی مگر وہ زیادہ پریشان کن نہیں تھی ،مشائخ کی مد د بہر حال شامل رہی اور بہت ہی کم عرصہ میں حیرت انگریز طور پر اس کا ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ۔اس دوران میں عجیب وغریب سوز وساز سے محظوظ بھی ہو تا رہا ۔بعض مقامات اس قدر رقت خیز ہیں کہ توجہ سے پڑھنے والا کچھ دیر ہی سہی دنیا و مافیہا سےبے خبر ہو جاتا ہے اور حضور و شہود کی وجدانی کیفیت پاتا ہے ۔یہ کتاب چونکہ احوال ومقامات ،واردات وحکایات پر مشتمل ہے اس لیے اس میںبعض غلبۂ حال کی مستثنیٰ کیفیات بھی ملتی ہیں ۔مجموعی طور سے اس میں سالکین و طالبین کے لیے جذب و شوق ،درس وعبرت ،ارشاد وموعظت کے خوبصورت جواہر پارے ہیں ۔فارسی و عربی اشعار بھی بھر پور ہیں ۔لطائف و امثال کا بھی ایک حصہ ہے ۔یہ اپنے آپ میں تصوف کا معجون ہے ۔
شاہد رضا نجمی:- 
خانقاہ عارفیہ کے حوالے سے آپ کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ ہی کے توسط سے خانقاہ میں صاحبانِ علم وفن اور اربابِ لوح وقلم کی آمد ورفت بڑھی۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اس پر کچھ تاریخی روشنی ڈالیں گے؟ 
مولانا امام الدین سعیدی:-
  یہ ۲۰۰۵ کی بات ہے جب مرشدی و آقائی حضور داعی اسلام نے مجھ جیسے بے مایہ و کمتر کو قبلۂ اصفیاخانقاہ عالیہ عارفیہ کی مقدس آغوش میں تدریسی خدمت کے لیے مامور فرمایا اور تعلیمی سرگرمیوں کی ذمہ داری عطافرمائی۔ ۲۰۰۶ء میں دہلی جانا ہوا وہاں دیرینہ احباب خصوصا مولانا ذیشان احمد مصباحی، مولانا ضیاءالرحمان علیمی، مولانا ارشاد نعمانی اور مولانا رفعت رضا نوری صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ دہلی سے واپسی کے بعد میں اس کشمکش کا شکار رہا کہ احباب کو کس طرح اس وادیِ علم وعرفان کی سیر کرائی جائے جہاں ہر لمحہ 
   ع-- نیا طور نئی برق تجلی۔
کا احساس قلب ونظر کو جلا بخشتا رہتا ہے۔ احباب کے مزاج ومذاق سے بخوبی واقف تھا۔ بڑے غور وفکر کے بعد خیال آیاکہ کیوں نہ کسی تقریب کے بہانے مدعو کیا جائے۔ حضور مرشد گرامی قبلہ کی منظوری واجازت کے بعد میں نے اس خاص تقریب کو ’’جشنِ یومِ غزالی‘‘ کا نام دیا اور اس میں طلبہ کے درمیان تقریری وتحریری مسابقہ بھی رکھ دیا۔ اسی میں طلبہ کی تنظیم ’’جمعیۃ الطلبہ‘‘ کا بھی قیام عمل میں آیا۔ اس پورے کام میں حضرت مخدوم گرامی صاحب زادہ حسن سعید صفوی صاحب میرے سب سے بڑے معاون رہے ۔ بس اس کے بعد ہی سے احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ رفتہ رفتہ احباب کی تعداد بھی بڑھتی رہی اور جامعہ کا تعلیمی معیار بھی بلند ہوتا گیا۔ گویا وہ اک لاگ کی آگ تھی جو ایک سینہ سے دوسرے سینہ میں پہنچتی رہی اوردیکھتے دیکھتے جامعہ عارفیہ کی علمی وعرفانی تحریک کے لیے یاران سینہ صاف کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی، جس کا ہر کارنامہ تاریخی انقلاب ثابت ہورہا ہے۔ 
شاہد رضا نجمی:- 
طلبۂ مدارس کے لیے کوئی اہم پیغام؟
مولانا امام الدین سعیدی:- 
طلبہ کے لیے سب سے اہم بات یہی ہے کہ وہ جس کام میں لگے ہیں اس میں پوری جاں فشانی اور شوق ولگن کے ساتھ مشغول رہیں۔عہد طالب علمی کے اوقات کیریئرکی تشکیل میں بہت اہم ہوتے ہیں، لہذا اپنے ایک ایک لمحہ کی بھی قدر کریں ۔اللہ نے جو فطری استعداد ان کے اندر ودیعت کی ہے اس کو نکھارنے اور سنوارنے میں لگے رہیں ۔کسی بھی شعبہ میںکمال ومہارت پیدا کرنے کے لیے جنون کی حد تک لگنا پڑتا ہے۔ لہذا جتنا بھی حاصل کریں اسے اپنے لیے کم جانیں، مزید سے مزید کی جستجو کو برقرار رکھیں ۔دوسری بات یہ کہ علم کا جو مقصود ہے اسے ہر لمحہ ملحوظ رکھیں۔ کبھی بھی علم کاا ستعمال حصولِ جاہ ومنصب ودنیاوی مفادکے لیے نہ کریں بلکہ جو بھی سرمایۂ علم ہو اسے خدمت دین متین میں لگائیں،جس قدر علم میں اضافہ ہو اسی قدر اپنے رب سے ہدایت پر استقامت کی دعابھی مانگتے رہیں؛ بہت سے صاحبان علم اپنے علم کی وجہ سے مفتون ہوئے اور گمرہی کے شکار ہوگئے۔ایک آخری اور اہم بات یہ ہے کہ صوفیہ کرام سے گہری وابستگی پیدا کریں اور ان کے منہج وطریق پر عملی طور سے گامزن رہیں؛ کیوں کہ یہی وہ جماعت ہے 
جس نے احیائے دین وعلومِ دین دونوں کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ان کی صحبت میں وہ علوم ومعارف حاصل ہوتے ہیں جو درسگاہوں اور کتابوں سے نہیں حاصل ہوسکتے ،ان کے فیضانِ نظر سے وہ سعادتیں نصیب ہو تی ہیں جو بڑی بڑی ریاضتوں ومجاہدات سےنہیں ملتیں ۔
گر ہو تیرے پاس علمِ موسوی 
جستجو کر پھر بھی خضرِ وقت کی

مغرب پر اسلامی خوف ووحشت کے منڈلاتے بادل

0 comments
مغرب پر اسلامی خوف ووحشت کے منڈلاتے بادل
تحریر: ڈاکٹر عبدالرحیم ہلالی ۔۔۔۔ ترجمہ: محمد شاہد رضا نجمیؔ
  -----------------------------------------------------------------------------------------------------------
  زیر نظر مضمون جامعۃ الازہر، مصر کے علمی وفکری ترجمان ماہنامہ ’’الازہر‘‘(مئی ؍۲۰۱۶ء)سے ماخوذ ہے۔
مضمون نگار ڈاکٹر عبدالرحیم سعد الدین ہلالی ’’الکلیۃ الشرعیۃ، جامعۃ الازہر‘‘ کے استاذ ہیں۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------
    آخر وہ کون سی چیز ہے جو مغرب کو اسلام سے خوف زدہ کیے ہوئے ہے؟ ذہن کے کینوس پر ابھر نے والا یہ ایک منطقی سوال ہے کہ آیا مغربی حکومتوںنے اسلامی اقدار کے نظام کا معروضی مطالعہ کرلیا ہے اور یہ ان کے نزدیک واضح ہوگیا ہے کہ مغربی تہذیب کے لیے اسلامی نظام ایک خطرہ ثابت ہورہا ہے؟ انسانیت کی خیر خواہی اور فلاح وبہبود کی خاطر ہم مغرب کی ساری حکومتوںکو اس بات کی دعوت دیتے ہیںکہ وہ اسلامی اقدار کا مطالعہ کریں، تاکہ اسلامی اور غیر اسلامی حکومتوں کے مابین ثقافتی سلسلے برقرار رہ سکیں، نیز  باہمی بد گمانی اور غلط احساسات سے احتراز ممکن ہوسکے۔ 
    اس تعلق سے اسلام اور یورپ کے عنوان پر سویڈن میںمنعقد حالیہ کانفرنس میں مغربی اتحاد کے مبصر کا تبصرہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جس میںانھوں نے یورپ کو تین بڑی خطائوں کے ارتکاب سے بچنے کا مشورہ دیا ہے۔  
    پہلی خطا:-اسلامی اقدار وروایات کی پابندی کو انتہا پسندی سے جوڑ نا۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات واتہامات کے پیچھے یہی سبب کار فرما ہے۔ جب کہ اس طرح کے الزامات واتہامات کو جنم دینے والے کردار واعمال ایسی محدود جماعت اور افراد کے عکاس ہیں جو نہ اسلام کے قائد ورہنما ہیں اور نہ ان میںکوئی اسلامی شناخت پائی جاتی ہے۔
    دوسری خطا:-اسلامی حکومتوں پر مغربی روایات کا جبری نفاذ، حالاں کہ اسلامی حکومتوں کا خود اپنا عمدہ، قابلِ احترام اور مستقل نظام وروایت ہے۔
    تیسری خطا:- یورپ کے تیس ملین مسلمان باشندگان پر یہ الزام لگانا کہ وہ یورپین نہیںہیں۔ جب کہ در حقیقت خود یورپین ہی اسلامی تعلیمات کو بلا پس وپیش قبول کررہے ہیں۔  اسی سیاق میں سویڈن کے سفیر ’’انجمار کارلسون‘‘ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلم عناصر سے ملے بغیر یورپی اتحاد کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ اگر ہم یہ مان لیںکہ اسلام اور مغرب کے درمیان موجودہ خلا کی بھرپائی ممکن نہیں ہے، توہم یورپین مسلم نسلوں کو ساتھ لے کر چلنے میںناکام ہوجائیں گے جن کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی ہے۔
    آنے والی سطروں میںہم اسلام کی بعض تہذیبی روایات کا ذکر کرتے ہیں جو مسلمانوں کے لیے باعثِ فخر اور غیر مسلموں کی جانب سے احترام کی مستحق ہیں؛ کیوںکہ وہ روایات ساری انسانیت کے درمیان امن وسکون عام کرنے والی ہیں۔ 
    اسلام میں عورت کا مقام:-
 بلاشبہ اسلام عورت کو مرد کے برابر درجہ دیتا ہے؛ کیوں کہ انسانی رشتے کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ مرد وعورت دونوں کو شادی کا حق اور ہر ایک کو دوسرے کی جانب سے متساوی حقوق حاصل ہیں۔ مرد وعورت کے مابین اقتصادی وضع میںفرق غالبا اس وجہ سے ہے کہ عورت کے فرائض وحقوق مرد کی بہ نسبت بہت کم ہیں۔ قرآن کریم نے اس کی جانب اشارہ فرمایا ہے کہ مرد پر عورت کی کفالت واجب ہے اور کفالت کا وجوب مرد وعورت کے طبعی اختلا ف کی وجہ سے ہے۔چناں چہ ارشادِربانی ہے:   اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء ِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوٰلِہِمْ  فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ۔(النساء:۳۴ )مرد عورتوں کے مربی ونگراں ہیں؛ اس لیے کہ اللہ رب العزت نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس لیے بھی کہ مردوں نے ان پر اپنے اموال خرچ کیے ،تو نیک بخت عورتیں ادب والیاں ہیں، خاوند کی عدم موجودگی میں گھر کا تحفظ کرتی ہیں، جس طرح اللہ نے تحفظ کا حکم دیا ۔
    مذہب حنفی کے مطابق عورت کو بذات ِخود نکاح کا حق حاصل ہے، اسی طرح وہ زوجیت کے عمل میںمکمل شریک ہے۔یوں ہی شوہر سے اختلاف کی صورت میں اسے مال دے کر فسخِ نکاح کا بھی حق رکھتی ہے۔ فسخ نکاح کی یہ صورت’’ خلع‘‘ کہلاتی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت زیادہ اہم ہے کہ علاحدگی کے خواہاں مرد وعورت کے لیے اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ روا نہیںکہ وہ ایک دوسرے کے تعلق سے کوئی برا رویہ اختیار کریں، بلکہ ان پر واجب ہے کہ سابقہ رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی سے پیش آئیں۔ یہی حکم دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجعت کرنے والے مرد کے لیے بھی ہے کہ وہ عورت سے سختی اور شدت کے ساتھ معاملہ نہ کرے، نہ ہی حقوق سے دست برداری کے لیے اس پر دبائو ڈالے۔ بلکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وہ برتاؤکریں،جس سے شرافت و کرامت اور باہمی احترام ومحبت کی عکاسی ہوتی ہو۔ اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:  ’’وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء َ- فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ- فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ -سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ۔‘‘ یہی وہ بلند اور با عظمت طریقہ ہے جسے دین اسلام عورت سے مرد کے معاملات میںاپنانے کا حکم دیتا ہے، یہاں تک کہ شدید اختلافات کی جگہوں میںبھی اسی طرح کردار پیش کرنے کا حکم دیتا ہے۔البتہ مرد وعورت کے درمیان جواحکام میں تفاوت نظر آتے ہیں وہ دونوں کے فرائض وحقوق مختلف ہونے کی وجہ سے ہیں۔
    اسلام میں آزادی کا تصور:-
 اسلامی میںآزادی کا مکمل احترام ہے، جب کہ اس سے انسانی اقدار کی پامالی لازم نہ آئے۔
    (آزادی کی مختلف مختلف نوعیں ہیں:)
    اعتقادی آزادی:سب سے پہلی آزادی اعتقادی آزادی ہے۔ قرآن کریم نے ’’لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ  قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔(البقرۃ: ۲۵۶)‘‘ فرما کر اسے تحفظ فراہم کردیا ہے۔ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جس نے انسانیت کو اعتقادی آزادی کا تصور دیا اور دوسرے مذاہب کے متبعین کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے کا درس بھی۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ضعیف وناتواں اور ترش مزاج یہودی کے ساتھ رفق ونرمی فرمایا کرتے تھے؛ کیوں کہ وہ کسب ِمعاش پر قادر نہیںتھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ناپسند کیا کہ آدمی بوڑھا ہونے کے بعد بھی تکلیف ومشقت برداشت کرے۔ آپ نے اس کے لیے بیت المال سے وظیفہ جاری فرمادیا۔
     بلاشبہ دین اسلام دلوں میںرقت ونرمی کے پودے اگاتا ہے اور دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کا حکم دیتا ہے، جب تک وہ خوش دلی اور امن وسلامتی کے ساتھ رہیں۔ اسی حوالے سے اللہ رب العزت کا یہ ارشاد ہے: ’’ لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقٰتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیٰرِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَ تُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ  اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۔(الممتحنۃ:۸)‘‘ جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالااللہ رب العزت ان کے ساتھ احسان کرنے اور انصاف برتنے سے منع نہیں فرماتا ہے۔ بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں ۔
    علمی آزادی:-
اسلام نے علمی آزادی کی وہ وسیع فضا قائم کی ہے جس کے مطابق ایک مجتہد ومحقق خاطی ہونے کی صورت میں بھی ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔
    سیاسی آزادی:-
 سیاسی آزادی کی ضمانت اس طرح دی گئی ہے کہ عامۃالناس اپنے معاملات میں حاکم سے رجوع کرسکتے ہیں، بشرطے کہ مقصود امت کی بھلائی ہو۔ اسلام میںشورائی نظام سیاسی آزادی کی اساس ہے، جس کی بنا پر لوگوں کو اپنا حاکم منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ جب لوگ کسی شخص کو اپنا حاکم منتخب کرلیں اور وہ اللہ رب العزت کی اطاعت وفرماں برداری کو لازم پکڑلے تو لوگوںپر اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے۔
    حاکم مصالح شخصی کی تحصیل کے لیے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال نہیںکرسکتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی نے اس پر روشن دلیلوں سے حجت قائم فرمادی ہے۔ اسلامی تاریخ سے واقف سبھی لوگ جانتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔ اس سے محض یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وصالِ ظاہری کے وقت کسی دنیوی مال ومتاع کے مالک نہ تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم چیز یہ ہے کہ آپ نے وہ سیاسی نظام قائم فرمایا جس میں غیر مسلم بھی آزادی کی سانسیں لے رہا ہے۔ چناں چہ کوئی یہودی رہن رکھے بغیر اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی قرض نہیں دے سکتا، اسے سلطانِ وقت سے خوف کھانے کی ضرورت نہیںہے۔
     کیاانسانی روایات میںاللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس فعل سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ کردار موجود ہے جس کا مظاہرہ آپ نے خطبہ وداع سے قبل فرمایا تھا۔ لوگوں سے ارشاد فرمایا:’’فَمَنْ کُنْتُ جَلَدْتُ لَہ ظَھْرًا فَھٰذَا ظَھْرِیْ فَلْیَسْتَقِدْ مِنْہ، وَمَنْ کُنْتُ شَتَمْتُ لَہ عِرْضًا فَھٰذَا عِرْضِیْ فَلْیَسْتَقِدْ مِنْہ۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی:باب من اسمہ ابراھیم)اگر میںنے کسی کو کوڑے لگائے ہیں تو یہ میری پیٹھ حاضر ہے وہ اپنا بدلہ لے لے اور اگرمیری ذات سے کسی کی حرمت وتوقیر پامال ہوئی ہو تو وہ بھی اپنا بدلہ لے لے۔ بلاشبہ آپ کی ذات وہ نورانی ذات ہے جو احساسات کو نرم کردیتی ہے، انسان اپنا نفس گناہوںسے پاک وصاف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ اپنے رب سے ملاقات کے وقت اس کے عفو وکرم کا امید وار ہوجاتا ہے۔
    اسلام میں مال کا تصور:-
 اسلام ذاتی ملکیت کا احترام کرتا ہے اور لوگوں کو شرعی طریقے سے کسبِ رزق اور بلا مکر وفریب شرف وامانت کے ساتھ سرمایہ کاری پر ابھارتا ہے۔ چناں چہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا۔‘‘جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (صحیح مسلم) اسلام رضائے مولا کی خاطر درست طریقے پرانفاقِ مال کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے کسب معاش کی فی حد ذاتہ کوئی انتہا نہیں، لہذا حصولِ مال کے لیے بغض وعداوت اور غلط طریقوں کا سہارا لینا غیر درست ہے۔ جب کسی حرام چیز کا حلال چیز سے اختلاط ہوجائے تو وہ اس کی حیثیتِ شرعی بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اصحابِ ثروت کے لیے غیر نفع بخش اشیا میں اموال صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ قرآن کریم اور سنت نبوی نے ظلم وزیادتی اور جبر وتشدد کے ذریعے کسبِ معاش کو سخت حرام قرار دیا اور زکاۃفرض کیا تاکہ لوگوں کے دل انانیت وخود نمائی سے پاک ہوجائیںاور فقرا ومحتاجین کے ساتھ انھیںانسیت حاصل ہوجائے۔
    اسلام میں باہمی تعاون، خستہ حال اور مضطرب لوگوں کے درمیان اطمینان وسکون کا ماحول قائم کرنے اور اخلاقی اقدار کی اشاعت پر درج ذیل حدیث سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی!اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  ’’اَیُّمَا اَھْلُ مَحَلَّۃٍ (مَدِیْنَۃٍ اَوْ قَرْیَۃٍ) ھَلَکَ فِیْھِمْ اِمْرَوٌ ضِیَاعًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْھُمْ ذِمَّۃُاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ۔‘‘ (معجم ابن الاعرابی)اگر کسی شہر یا علاقے میں کوئی شخص مجبور ولاچار ہلاک ہوجائے تو وہاں کے افراد سے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بری الذمہ ہیں۔
     ابن حزم نے اپنی کتاب’’المحلیٰ‘‘ میں اس حدیث پاک سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگرکسی شہر یا علاقے کے لوگ کسی غریب مرد یا عورت کو بھوکا چھوڑ دیں اور وہ بھوک کی شدت سے ہلاک ہوجائے تو سارے شہر کے لوگ کے قتل کے ذمہ دار ہوںگے اور ان پر قصاص واجب ہوگا۔
    یہ وہ بعض اسلامی اقدار وروایات ہیں جو معروضی مطالعہ کے لائق ہیں۔ اگر انسانیت انھیںاپنالے تو اطمینان وسکون کی نعمت سے سرفراز ہوجائے۔




Tuesday 14 March 2017

عربی زبان وادب کی تعلیم نہایت ہی ناگزیر ہے

0 comments
عربی زبان وادب کی تعلیم نہایت ہی ناگزیر ہے
معروف ادیب وقلم کار مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی سے خصوصی بات چیت
---------------------------------------------------------------------------------
اردو، عربی، فارسی، انگلش، ہندی جیسی زبانوں پر بیک وقت دسترس رکھنے والےصوفیانہ نظریات کے حامل معروف ادیب وقلم کار مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی کی ولادت ۱۹۸۲ء دربھنگہ، بہار کے ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔ قریب کے مکتب میں ابتدائی تعلیم اور حفظِ قرآن کے بعد درسِ نظامی کی تعلیم کے لیے ممبئی عظمیٰ کی مشہور درس گاہ ’’دارالعلوم محمدیہ‘‘ میں داخلہ لیا۔ دوسال کے بعد ’’دارالعلوم علیمیہ، جمدا شاہی‘‘ تشریف لے گئے اور وہیں سے درسِ نظامی کی تکمیل کی۔ پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہاں سے عربی ادب میں ایم اے کیا۔ ۲۰۰۹ء میں جواہر لال یونیورسٹی، دہلی سے حضرت امیر خسرو کی عربی شاعری پر ’’دراسۃ تحلیلیۃ لشعر امیر خسرو العربی‘‘ کےعنوان سے ایم فل کے بعد وہیں حضرت مخدوم فقیہ مہائمی کی حیات وخدمات پر پی-ایچ-ڈی کرنے میں مشغول ہوگئے۔ ۲۰۱۳ء میں خانقاہِ عارفیہ، الہ آباد حاضر ہوئے۔ اس وقت سے آج تک جامعہ عارفیہ کے طلبہ کا مستقبل سنوارنے اورتقریر وتحریر کی صورت میں اسلام وسنیت کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں۔ لوح وقلم سے رشتہ زمانۂ طالبِ علمی سے ہی استوار ہے۔ آپ کا ایک عظیم کارنامہ علامہ شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ کی شرحِ رسالۂ مکیہ ’’مجمع السلوک‘‘ اور شیخ ابونجیب سہروردی قدس سرہٗ کی ’’آداب المریدین‘‘ کا سلیس وبامحاورہ اردو ترجمہ ہے۔ تقریبا تین سالوں سے ماہنامہ خضرِ راہ میںعقائد ومعمولاتِ اہلِ سنت پر مستقل تحریریں بھی لکھ رہے ہیں، جو عن قریب ’’نورِ اعتقاد‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی ہیں۔ دیگر تحقیقی مقالات ومضامین کی ایک طویل قطار ہے۔ جن میں سے ’’شیخ ابنِ تیمیہ کا نقدِ تصوف، ابن جوزی: ناقدِ تصوف یا محدث صوفی؟، حافظ ابنِ قیم جوزی اور ان کا ذوقِ تصوف، تصوف اور صوفیہ: قاضی شوکانی کی نظر میں، مطالعۂ تصوف کے چند رہنما اصول، حضرت نجم الدین کبریٰ: افکار ونظریات، رسالۂ مکیہ: ایک تعارف، شدت پسند تنظیموں کی فکری بنیادیں ‘‘ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں-----------------  شاہد رضا نجمیؔ
---------------------------------------------------------------------------------
شاہد رضا نجمی:-
علامہ شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ کی شرحِ رسالۂ مکیہ ’’مجمع السلوک‘‘ کا اردو ترجمہ یقینا آپ کا عظیم کارنامہ ہے۔ کیا یہ بتانا پسند کریں گے کہ مجمع السلوک کی تاریخی حیثیت اور معنویت کیا ہے؟ 
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی:-
’’مجمع السلوک ‘‘کا ترجمہ در اصل میرا کارنامہ نہیں بلکہ اس میں ہماری پوری اکیڈمک ٹیم کا کردار ہے اور یہ سب حضور داعیِ اسلام کی نگاہِ فیض کا تصرف اور حضرت مؤلف قد س سرہٗ کی روحانیت ہے۔ 
رہی بات ’’مجمع السلوک‘‘ کی تاریخی حیثیت کی تو یہ مشہور متن تصوف ’’رسالۂ مکیہ‘‘ کی واحد موجود شرح ہے اور میں یہ بات بلاتأمل کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستانی صوفی لیٹریچر کی تاریخ میں یہ کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اگر آپ ہندوستان میں تصوف اور صوفیہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہاں صوفی لیٹریچر کے نام پر مکتوبات وملفوظات کے علاوہ خاطر خواہ سرمایہ موجود نہیں، اگر کتابیں ہیں تو ان کا حجم مختصر ہونے کے ساتھ وہ معنوی طور پر بھی ایسی نہیں کہ انھیں سلوک واحسان کی نصابی کتاب کہا جاسکے اور اسے سالکین کے لیے’’ احیاء العلوم، عوراف المعارف‘‘ کی طرح ایک Compact Gaid  کی صورت میں پیش کیا جاسکے۔ جو کتابیں ہیں بھی وہ عموما یا تو کسی خاص مسئلے یا مسائل سے متعلق ہیں ان میں ایسے دقیق علوم ومعارف ہیں جن میں تمام طالبین وسالکین کا حصہ نہیں۔ مجمع السلوک اگر چہ رسالۂ مکیہ کی شرح ہے، مگر میرے علم کے مطابق کسی ہندوستانی صوفی کی جانب سے ’’احیاء العلوم‘‘ اور ’’عوارف المعارف‘‘ کے طرز پر لکھی جانے والی پہلی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ در اصل رسالہ مکیہ کا درس دیا کرتے تھے، بعد میں آپ کے بعض شاگردوں کے اصرار سے یہ کتاب منصہ شہود پر آئی اور پھر ہر زمانے میں علما اس کتاب سے مستفیض ہوتے رہے اور اس کے حوالے بھی دیتے رہے۔ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی جو سلسلۂ چشتیہ صفویہ کے عظیم مشائخ میں ہیں اور سادات مارہرہ وبلگرام کے جد اعلیٰ ہیں، انھوں نے اس کتاب سے خوب استفادہ کیا، جیسا کہ سبع سنابل شریف کا مطالعہ کرنے والے پر ظاہر ہے۔ اسلامی علوم وفنون کی اصطلاحات پر مشتمل ڈکشنری ’’کشاف اصطلاحات الفنون‘‘ کے مؤلف شیخ محمد علی تھانوی نے بھی اس کتاب سے بہت استفادہ کیا ہے۔ کشاف اصطلاحات الفنون میں اصطلاحاتِ تصوف کی جو شرح کی گئی ہے وہ عموما مجمع السلوک سے ہی ما خوذ ہے۔ ’’کذا فی مجمع السلوک‘‘  کہہ کر انھوں نے جگہ جگہ اس کا اظہار کیا ہے۔ سندیلہ اور گوپا مئو جو ہندوستانی علمی تاریخ کا گہوارہ رہا ہے اور جہاں کے علما حضرت شاہ قدرت اللہ غوث الدہر چشتی صفوی صفی پوری کے واسطے سے چشتی صفوی فیضان سے مالا مال رہے ہیں، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہاں کے علما نے مجمع السلوک سے خوب فیض اٹھایا ہے خصوصیت کے ساتھ حضرت ارتضا گوپا موی قاضی مدراس نے تو ’’فوائدِ سعدیہ‘‘ کی صورت میں قوم کے سامنے مجمع السلوک کا حاصلِ مطالعہ بھی پیش کیا۔ حضرت شاہ منشی عزیز اللہ صفوی جو اپنے عہد کے عظیم عالم صوفی گزرے ہیں انھوں نے بھی گہر ہائے مجمع السلوک چنے اور ان میں سے بعض جواہر اپنی کتاب عقائد العزیز کے صفحات پر بھی بکھیردیے تاکہ جن کی رسائی مجمع السلوک تک نہ ہوسکے وہ بالکلیہ محروم نہ ہوں۔ 
کہتے ہیں کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے، چناں چہ یہ کتاب ہر زمانے میں مخطوطے کی شکل میں موجود رہی، لوگ اس کی نقلیں استفادے کے لیے لیتے رہے، حوالے دیتے رہے، لیکن نہ تو کسی نے اس کا متن شائع کیا، یہاں تک کہ منشی نول کشور کو بھی یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کا کوئی اردو ترجمہ ہوسکا، بالاخر یہ سعاد ت شاہ صفی اکیڈمی خانقاہ عارفیہ کو حاصل ہوئی اور اس کا سارا کریڈٹ داعیِ اسلام مرشدی الی طریق الحق والیقین شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی کو جاتا ہے۔ یہ تو کتاب کی تاریخی حیثیت پر گفتگو رہی۔ جہاں تک اس کی معنوی حیثیت کی بات ہے تو یہ صاحبانِ معنیٰ ہی بتاسکتے ہیں۔ حضور داعیِ اسلام عارفِ رموز اور صاحبِ معنیٰ ہیں وہ اسے طالبین وسالکین کا دستور العمل قرار دیتے ہیں۔ رہی بات میرے اپنے ناقص مطالعے کی تو یہ کتاب ’’ناقصان را پیر کامل، کاملاں را رہنما‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ مرید مبتدی، متوسط اور واصل کے لیے یکساں طور پر نعمت غیر مترقبہ ہے، باقی آپ خود بھی عالم ہیں اور صاحبانِ دل کی صحبت میں رہنے والے ہیں، کتاب کے مطالعے کے بعد آپ خود بھی میری ان باتوں کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ ع---ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ ساتھ ہی اس میں فقیہ، اصولی، متکلم، بلاغی، نحوی، مواعظ وقصص کے متلاشی سب کے لیے دل چسپی کا سامان ہے۔ مجمع السلوک کے سمندر میں غوطہ زنی کیجیے اور خود ہی بتائیے کہ یہ کیسی کتاب ہے۔ 
شاہد رضا نجمی:-
مجمع السلوک کے ترجمے کےدوران آپ کو کن حالات کا سامنا ہوا؟
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی:-
یہ کوئی ۲۰۱۰ء کی بات ہے جب میں جواہر لال یونیورسٹی میں ریسرچ کررہا تھا۔ داعیِ اسلام نے خیرآباد مئو کے سفر سے لوٹتے ہوئے مجھے فون کیا اور فرمایا کہ مجمع السلوک جس کے دو نسخے مل چکے ہیں آپ اس کا ترجمہ کردیں، ان شاء اللہ آپ کے لیے توشۂ آخرت ہوگا، آپ نے آخری جملے کو تین بار فرمایا، فون کٹ گیا، لیکن میں بڑی دیر تک دم بخود رہا کہ میں نے اپنے گائوں کے استاذ مولانا صابر حسین رضوی سے محنت سے فارسی پڑھی تھی اور پھر اس کے بعد تو درسِ نظامی کی تحصیل کے دوران اس سے صرف رسمی تعلق رہا، اتنا بڑا کام حضرت نے میرے سپرد کردیا ہے، کیسے کروں گا، کچھ دنوں تک اس حوالے سے اضطرابی کیفیت رہی، ایک دن شرحِ صدر ہوا اور دل میں یہ اعتماد مستحکم ہوا کہ جس نے یہ کام دیا ہے وہ خود کروائیں گے، میں تو محض ایک آلہ ہوں، وہ چاہتے تو اس کام کے لیے کسی اور کو آلہ بنالیتے، جب میں محض آلہ ہوں تو اپنی اہلیت وعدم اہلیت کی جانب کیا نظر کرنا اور پھر ایک صبح میں نے اس کے ترجمے کا آغاز کردیا اور پھر ایسا لگا کہ واقعی میں صرف آلہ تھا، کام تو کوئی اور کر رہا تھا اور سال بھر کے عرصے میں اور اگر چار مہینہ کا مکمل وقفہ جو یونیورسٹی کی بعض مصروفیات کی بنا پر تھا اسے خارج کردیا جائے تو آٹھ ماہ میں ترجمہ مکمل ہوگیا اور کیسے ہوگیا اس کا مجھے خود اندازہ نہیں ہوا۔ ترجمے کے دوران داعیِ اسلام کی روحانیت کے علاوہ میں کتاب کی ایسی روحانی گرفت میں رہتا کہ آٹھ آٹھ گھنٹے لگاتار ترجمہ کرتا رہ جاتا، کوئی تکان محسوس نہیں ہوتی بلکہ اٹھنے کا بھی دل نہیں کرتا۔ صرف نماز اور کھانے کے لیے وقفہ کرتا۔ حضور داعیِ اسلام کے صدقے صاحب مجمع السلوک مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہٗ کے جمال جہاں آرا کی دو بار زیارت بھی ہوئی، پہلی زیارت میں آپ نے کسی فارسی کتاب کو دکھا کر یہ افادہ بھی فرمایا کہ صوفیہ کے قوال بھی معمولی نہیں ہوتے۔ جب کہ دوسری زیارت میں حضور داعی کی عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا۔ اس سے پہلے حضور داعیِ اسلام کی نعلین کے صدقے صاحبِ رسالہ مکیہ شیخ قطب الدین دمشقی کی زیارت اور عالمِ خواب میں ہی ان سے طالبین کے ایک جم غفیر کے ساتھ رسالۂ مکیہ کا درس لینے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔ میں اپنے مرشد کا کم ترین خادم ہوں، کہاں تھا میں ان نعمتوں کے قابل۔ یہ سب حضور کی بندہ پروری ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے شیخ کے مشن پر قائم رہ کر خود اپنی اصلاح اور اسلام وتصوف کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ اور تمام قارئین سے گذارش ہے کہ وہ میرے حق میں دعا فرمائیں۔ 
شاہد رضا نجمی:- 
مجمع السلوک کے ترجمے کے بعد اب کس کام کا ارادہ ہے؟
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی:-
خود سے میں کوئی کام نہیں کرتا، جو حضور داعیِ اسلام کا حکم یا اشارہ ہوتا ہے وہی کام کرتا ہوں۔ آپ نے ایک مجلس میں خزانۂ جلالی پر کام کرنے کے حوالے سے اشارہ دیا تھا۔ ویسے میں ایک بات یہاں واضح کردوں کہ ہمارے شیخ انفرادی کام میں نہیں ٹیم ورک میں یقین رکھتے ہیں۔ اس خانقاہ سے جو بھی کام ہوتا ہے ہماری پوری اکیڈمک ٹیم اس میں شریک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ صفی اکیڈمی کے ذریعے ہونے والا کام بہت نمایاں ہوتا ہے۔ 
شاہد رضا نجمی:-
عربی زبان وادب کی کیا اہمیت ہے اور ہماری موجودہ نسل اس میں کس حد تک کامیاب ہے؟ 
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی:-
عربی زبان وادب کی دینی اور دنیاوی دونوں اہمیت ہے۔ قرآن کریم، احادیث وآثار اور تمام اسلامی مصادر عربی زبان میں موجو دہیں۔ سید عالم ﷺ کی زبان عربی تھی، اس لحاظ سے اس کی دینی اہمیت ہے۔ کوئی شخص اسلامی علوم وفنون میں سے کسی کا بھی صحیح معنوں میں ماہر اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ اسے عربی زبان اچھی طرح آتی ہو۔ دنیوی لحاظ سے اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ رزق حلال کا بھی ذریعہ ہے۔ ۲۲ ممالک میں باضابطہ عربی سرکاری زبان ہے اور اس کے علاوہ دنیا کی عالمی زبانوں کی فہرست میں ٹاپ پرہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی موجودگی نے اس زبان کی اہمیت اور بڑھادی ہے۔ ان کمپنیوں کو اچھے مترجمین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے وہ اعلیٰ تنخواہیں دیتے ہیں گویا اس زبان کو سیکھ کر ہم اپنی دنیا بھی اچھی بناسکتے ہیں اور رزق حلال بھی حاصل کرسکتے ہیں، آج کے دور میں عربی کے ساتھ انگریزی زبان کا سیکھنا بھی دینی اور دنیوی دونوں حیثیت سے بہت ضروری ہے۔ انگریزی آج بین الاقوامی ترسیلی زبان ہے، اس لیے دین کو اس کے اصل مصادر سے حاصل کرنے کے لیے عربی زبان کا سیکھنا ضروری ہے اور جو حاصل کیا ہے اس کی ترسیل کے لیے انگریزی زبان کا سیکھنا ضروری ہے۔ یہی حال دنیوی معاملات میں ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی ان ہی مترجمین کوہائر Hire  کرتی ہیں جو انگریزی سے بخوبی واقف ہوں تاکہ عالمی سطح پر وہ ـInteract کرسکیں۔ 
ہماری موجودہ نسل اس کے حصول میں لگی ہوئی ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کی اہمیت واضح نہ ہونے کی وجہ سے اس میں مہارت حاصل کرنے کے لیے جس محنت کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے۔ اور ساتھ ہی عام مدارس اسلامیہ میں اس کی تدریس کا اسلوب بھی درست نہیں ہے۔ بعض مدارس میں اس کی اعلیٰ تعلیم بھی ہورہی ہے، جامعہ اشرفیہ، جامعہ علیمیہ اور خود جامعہ عارفیہ میں بھی اس کی اعلیٰ تعلیم ہورہی ہے، لیکن ان سب کے باوجود عمومی طور پر عربی زبان وادب میں مہارت کا فقدان ہے۔ مہارت سے میری مراد اس زبان کی کتابوں کا بے تکلف پڑھنا، بولنا اور لکھنا ہے۔ مدارس کے فارغین عموما آج بھی عربی کتابوں کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں اور متعلقہ موضوع پر اردو کتابوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ دشواری ہو لیکن اپنا رشتہ عربی کتابوں سے ضرور مستحکم رکھیں اور عربی کتابوں کے مطالعے کو ترجیح دیں، آہستہ آہستہ ان شاء اللہArabic Lingo Phobia عربی زبان کا خوف ختم ہوجائے گا۔ 
شاہد رضا نجمی:-
ہمارے یہاں رائج عربی ادب کے نصاب میں آپ کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں یا نہیں؟
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی:-
 ہمارے مدارس کے عربی ادب کے نصاب میں بہت کچھ تبدیلی ہوئی ہے، مزید کی گنجائش ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اسلوبِ درس وتدریس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ طلبہ ترجمے کے لیے عربی ادب کی کتابوں کو پڑھتے ہیں اور اساتذہ اسی لیے اسے پڑھاتے ہیں جب کہ اس سے عربی زبان نہیں آتی۔ اس کے لیے عربی ادب کے شہ پاروں کے اس طرح مطالعے اور تدریس کی ضرورت ہے کہ ان شہ پارے کے عمدہ جملے اور تعبیرات یاد ہوجائیں اور اس کے لیے اساتذہ کی جانب سے ضروری ہے کہ اچھے جملوں اور تعبیرات کی نشان دہی کریں اور طلبہ کے
 لیے ضروری ہے کہ وہ ان کو محفوظ کریں اور اس شہ پارے کو بار بار ٹھہر ٹھہر کر اس طرح پڑھیں کہ وہ قلب میں محفوظ ہوجائے، بعد میں یہی چیزیں جمع ہوکر ان کے اندر عربی زبان کا سلیقہ اور اس کا شستہ ذوق پیدا کریں گی اور پھر آپ جب کچھ لکھنے یا بولنے کے لیے آمادہ ہوں گے وہ تعبیرات آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں گی۔ 
شاہد رضا نجمی:-
طلبۂ مدارس کے لیے کوئی خاص پیغام؟
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی:-
میں خود بھی طالب علم ہی ہوں اور پوری زندگی طالب علم بن کر رہنا چاہتا ہوں،  اس لیے طلبہ کے لیے یہی پیغام ہے کہ مدارس سے فارغ ہوکر بھی ہمیشہ اپنے اندر ایک طالب علم کو زندہ رکھیں، خصوصا عربی زبان  وادب میں مہارت حاصل کریں کہ یہ اسلامی علوم وفنون کی کنجی ہے اور علم وایمان کا جامع بننے کی کوشش کریں۔ علم شریعت آپ مدرسے میں حاصل کررہے ہیں لیکن انوارِ علومِ شریعت کی تحصیل کے لیے کسی شیخ کامل کی تلاش میں ضرور لگےرہیں کہ یہی علم شریعت کی تحصیل کا مقصود ہے۔ اور طلبِ علم کے عہد کو کوئی معمولی عہد نہ سمجھیں بلکہ اسے مکمل طور سے حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی رضا جوئی کا عہد سمجھیں اور طالبِ علم کے ان مقامات ومراتب کو یاد رکھیں جن کا تذکرہ قرآن وحدیث میں کیا گیا ہے، لیکن اسے صرف اپنے لیے Title Of Honour نہ سمجھیں بلکہ اسے Title Of Duty جان کر ہمیشہ اس کی ذمے داریوں کوپوری کوشش سے انجام دیں اور یہ یاد رکھیں کہ آپ سے عہدِ طالبِ علمی کے ایک ایک پل کا بھی حساب ہوگا۔

دورِ حاضر میں علمِ حدیث کی بہت زیادہ ضرورت ہے

0 comments
دورِ حاضر میں علمِ حدیث کی بہت زیادہ ضرورت ہے
عظیم محقق مولانا غلام مصطفیٰ ازہری سے خصوصی گفتگو
---------------------------------------------------------------------------------
حدیث کے نام پر غیر مقلدین کی شدت و بربریت دیکھنے کے بعد جب ہم اپنی جماعت کی طرف نظریں اٹھاکر دیکھتے ہیں تو وہاں پیدا شدہ علمی وفکری قحط رجالی سےبڑے اضطراب و کلفت کا شکار ہوتے ہیں کہ ہماری جماعت میں فقہ وفتاوی سے شغف رکھنے والے تو کثیر ہیں، لیکن حدیث وعلوم حدیث کے آشنا بہت کم ہیں، ایسے ماحول میں ان کی شر انگیزیوں اور ہرزہ سرائیوں کا جواب کون دے گا، لیکن دوسرے ہی لمحے جب مولانا غلام مصطفیٰ ازہری جیسی علمی شخصیات پر نظر پڑتی ہے تو اطمینان ویقین کی ایک سحر نمودار ہونے لگتی ہے اور بے ساختہ کہنا پڑتا ہے:  ع---ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ جی ہاں!’’ابنِ اعجاز القادری، انعام القادری، انعام صفی‘‘ جیسے پردے میں رہنے والے مولانا غلام مصطفیٰ ازہری ان نایاب لوگوں میں سے ہیں جو فقہ و فتاوی سے دلچسپی کے ساتھ ساتھ علم ِ حدیث پر بھی خاص گرفت رکھتے ہیں۔ آپ کی پیدائش ۱۳؍ستمبر ۱۹۸۱ء کو آبائی وطن چھپرہ، بہار میں ہوئی۔ اصل نام ’’غلام مصطفیٰ‘‘ اور عرفی نام ’’انعام‘‘ ہے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ اشرفیہ، مبارک پور تشریف لے گئے اور وہاں جماعتِ سابعہ تک تعلیم حاصل کی۔ پھر جامعۃ الازہر، قاہرہ کا رخ کیا اور چار سالوں تک وہاں کلیۃ اصول الدین، قسم الحدیث کے تحت علمِ حدیث میں تخصص کا کورس کیا۔ آپ کا اہم کارنامہ علامہ فضل رسول بدایونی کی ’’المعتقد المنتقد‘‘، امام احمدرضا فاضل بریلوی کی ’’المعتمد المستند‘‘، علامہ شیخ قطب الدین دمشقی کی ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ اور علامہ شیخ سعدا لدین خیرآبادی کی شرحِ رسالۂ مکیہ ’’مجمع السلوک‘‘ کی تخریج وتحقیق ہے۔ فی الحال آپ جامعہ عارفیہ کے ایک اہم استاذ ہیں۔تحقیقی مقالات ومضامین کی ایک طویل قطار ہے، البتہ چند اہم مضامین میں ’’عالمِ اسلام پر یہودیوں کا کستا ہوا شکنجہ، نورانیتِ مصطفیٰ ﷺ: ایک تحقیقی مطالعہ، کیا حضور اکرم ﷺ کا سایہ تھا؟، احادیث موضوعہ: ایک تفصیلی تجزیاتی مطالعہ، قبولِ حدیث میں صوفیہ کا منہج‘‘ خاص طور سے ذکر کیے جاسکتے ہیں۔ آپ سے کی گئی گفتگو کے چند اہم اقتباسات حاضر ہیں -----------شاہد رضا نجمیؔ
---------------------------------------------------------------------------------
شاہد رضا نجمی:-
چیچینیاکانفرنس میں اہلِ سنت وجماعت کی تعریف کی گئی اوراہلِ سنت وجماعت کو اشاعرہ، ماتریدیہ، فقہا، محدثین اور صوفیہ میں منحصر کردیا گیا۔ اس پر ہمارے مذہبی حلقوںمیں یہ سوال کافی گردش کرتا رہا کہ اہلِ سنت کی مذکورہ  تعریف کافی ووافی ہے یا پھر اس میں کسی حذف واضافہ کی ضرورت ہے؟ مختلف لوگوں نے مختلف جوابات دیے، لیکن اگر یہی سوال مَیں آپ سے کروں تو آپ کا جواب کیا ہوگا؟ 
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:-
چیچینیا میں اہلِ سنت وجماعت کی جو تعریف کی گئی تھی اور جس پر کانفرنس میں موجود لوگوں کا اتفاق ہوا تھا وہ موجودہ شیخ ازہر کی جانب سے پیش کردہ تعریف تھی۔ تعریف کافی حد تک درست ہے۔ لیکن ابھی بھی اس میں جامعیت کے اعتبار سے بہت سی گنجائشیں موجود ہیں، جن میں سے بعض کی طرف مولانا ذیشان مصباحی نےجام نور کے اپنےحالیہ مقالے [اہلِ سنت کی تفہیم جدید] میں اشارہ کیا ہے۔
 شاہد رضا نجمی:-
لیکن یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو گروہ اہلِ سنت کے نام سے جانے جاتے ہیں یا جن جماعتوں کو اہل سنت میں شامل کیا گیا ہے، صرف وہی فرقہ ناجی ہےیا اس کے علاوہ دوسرے فرقے بھی ناجی ہیں؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:-
معذرت کے ساتھ!یہ سوال خود کئی سوالوں کا مجموعہ ہے۔اس لیے اس کا جواب تھوڑا تفصیل طلب ہے ۔ اس سوال کا جواب اسی وقت مکمل ہو سکتا ہے جب ہم پر یہ واضح ہوجائے کہ’’ فرقۂ ناجیہ‘‘ میں لفظ نجات سے کیا مراد ہے ؟ اس کا جواب شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی کی زبان میںسماعت کریں،لیجئے یہ آپ کے سامنے مرج البحرین ہے اس کے دیباچہ میںخطبے کے بعد شیخ محقق نے حدیث افتراق امت بیان کیا ہے ، پھر اپنی زبان میں شیخ نے خودہی اس حدیث کی ترجمانی فرمائی ہے، یہ متن فارسی ہے آپ فارسی جانتے ہیں اس لیے ہم اس کی تلاوت کردیتے ہیں ۔ ( قارئین کی آسانی کے لیےمیں یہاںاس فارسی  کاترجمہ اردومیں پیش کر رہا ہوں۔ نجمی) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سید الانبیا ، سند الاصفیا حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری امت میں وہ لوگ جومجھ پر ایمان لائے ، دین اسلام میں داخل ہوئے،جو نماز میں اپنا رخ قبلہ کی طرف کرتے ہیں (یعنی امت اجابت) تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائیں گے، ہر فرقہ کا عقیدہ الگ اور راستہ جداگانہ ہوگا ، ان میں بہتر (۷۲) فرقے گمرہی ، عقیدہ کی خرابی اور بدعت کی نحوست کے سبب دوزخ میں جائیں گے۔جب تک قادر مطلق چاہے گاعذاب نار میں گرفتار رہیں گے اور جب وہ چاہے گا ان کو ان آلائشوں اور کثافتوں سے پاک کرکے جنت میں داخل کردے گا ۔ ان تہتر فرقوں میں ایک فرقہ وہ ہوگا جو دوزخ میں داخل ہی نہیں ہوگا اور درست عقیدہ و اعمال کی وجہ سے عذاب کا مستحق نہیں ہوگا ۔ صحابۂ کرام نے دریافت کیا : یا رسول اللہ اس فرقے میں جو مکمل ہدایت پر قائم رہنے کی وجہ سے دوزخ میں نہیں جائے گا کون لوگ ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے اصحاب کے مذہب و اعتقاد پر رہیں گے۔ (فارسی متن کی تلاوت کے بعد ازہری صاحب فرماتے ہیں) شیخ محقق کی اتنی ہی عبارت سے آپ کے سوال کا جواب ہو گیا لیکن وضاحت کے لیے چند باتیں اور عرض کردیتے ہیں : شیخ محقق کی اس عبارت سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مکمل ہدایت یافتہ وہی ہے جو مکمل طور سے عمل و اعتقاد دونوں میں نبی کریم اور ان کے اصحاب کے نقش قدم پر ہو ، صحیح معنوں میںوہی شخص اہل سنت وجماعت سے ہوگا جس کا ظاہر و باطن عیوب سے خالی اور محاسن سے مزین ہو۔اسی لیے حاجی وارث علی شاہ سے ایک موقع پر دریافت کیا گیا کہ نجات پانے والے کون لوگ ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا : جو حسد سے پاک ہو۔ علم اعداد کے اعتبار سے حسد کا نمبر بھی ۷۲ ہی ہوتا ہے، یعنی ظاہر کے ساتھ ساتھ جس کاباطن رزائل سے پاک و صاف نہیں ہے وہ بہتر (۷۲) میں شامل ہے، اسی لیے میرے پیر و مرشد داعی اسلام شیخ ابو سعید اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں: ؎
جو حسد سے پاک ہووہ آدمی
جنتی ہے، جنتی ہے، جنتی
اس حوالے سے ایک بڑا مسئلہ ہندوستان کی دیوبندی جماعت کا ہے۔ یہ لوگ اپنے دعوے کے مطابق تصوف میں چشتیہ صابریہ سلسلے سے اپنے آپ کو منسلک کرتے ہیں اور عملی طور پر خود کو حنفی کہتےہیں۔ ان ہی دو اصلوں کی بنیاد پر عرب کے علمائے اہل سنت ان کو اہل سنت سے خارج نہیں مانتے ۔رہی بعض عبارتیں جو ان کے بعض علما سے صادر ہوئی ہیں،تو ان کے تعلق سے ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیااس جماعت کے ہر فرد کاوہی عقیدہ ہے؟ ان عبارتوں کے جو معانی اور مفاہیم بیان کیے گئے ہیں پوری جماعت ان ہی معانی کفریہ کی قائل ہے؟ اس کا فیصلہ ہندوستان کے علمائے اہل سنت کے لیے بھی بہت ہی مشکل رہا ہے، اس لیے اجمالی طور پر یہی بتایا جاتا رہا ہے کہ یہ جماعت گستاخ رسول ہے، کافرہے، مگر ان چار کے علاوہ کسی اور کی تکفیر کا انفرادی طور پر کسی بھی محتاط عالم دین نے فتویٰ نہیں دیا۔ فتویٰ یہ دیا جاتا ہے کہ ان عبارتوں سے جو معانی ومفاہیم نکلتے ہیں اگروہ ان کو مانیں گے تب کافر ہوں گے ورنہ نہیں۔جب کہ عوام اہل سنت کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ یہ جماعت گستاخ ہے، لیکن آج تک کسی مستندعالم نے دیوبندی مکتبہ فکر کے ہرہر فرد کو کافر نہیں کہا۔ ایسے میں اس جماعت سے متعلق صحیح فیصلہ کیاجانا چاہیے، جس سے ملکی اور عالمی سطح پر ان کی حیثیت واقعی کا تعین کیا جاسکے۔اسی طرح ہم جسے جماعت اہل سنت کا ایک فرد شمار کرتے ہیں، اگر ان کے عقائد و معمولات سلف صالحین کے عقائد ومعمولات کے مطابق نہیں ہیں، کیا وہ صرف عرس و قوالی اور میلاد وفاتحہ کرکے عذاب دوزخ سے خود کو کلی طور پر بچالیںگے، یہ سوال بھی زیر غور آناچاہیے۔
شاہد رضا نجمی:- 
پھر ’’من شک فی کفرہٖ وعذابہٖ فقد کفر‘‘ کا کیا مطلب ہوگا؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:- 
مفتی مطیع الرحمٰن صاحب سے میں نے بھی اس کا مطلب دریافت کیا تھا، ان کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جن مفاہیم ومعانی کے اعتبار سے ان کی تکفیر کی گئی ہے، اگر کوئی شخص انھی مفاہیم ومعانی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تکفیر نہ کرے یا تکفیر میں شک کرے تو کافر ہے۔ اگر ان عبارتوں کے وہ معانی جن کی بنیاد پر تکفیر کی گئی ہے اس کے سامنے واضح نہ ہوں یا اس کے پاس ان کی کوئی تاویل موجود ہو ،جس کی وجہ سے وہ کافر نہ کہتا ہو تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔
شاہد رضا نجمی:-
آپ نے ایک طویل عرصے تک جامعہ ازہر میں تعلیم حاصل کی ہے۔ کیا یہ بتانا پسند کریں گےکہ وہاںاور ہمارے ہندوستانی مدارس کے نظامِ تعلیم اور تعلیمی نصاب میں مساوات ہے یا پھر کچھ کمی؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ دس بارہ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی تشنہ رہتے ہیں اور اسی تشنگی کو ختم کرنے کے لیے جامعہ ازہر کا رخ کرتے ہیں؟ 
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:-
سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ ازہر کا نظام بہت اچھا نظام نہیں کہا جاسکتا۔ دنیا کی ان بڑی یونیورسٹیوں میں ازہر کا نام نہیں ہےجوعالمی سطح پر نظامِ تعلیم کے حوالے سے اچھی(International Ranked) مانی جاتی ہیں۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی بھی کوئی یونیورسٹی دنیا کی ۲۰۰ بڑی یونی ورسٹیوں میں شامل نہیں ہے۔
  ہاں!ازہر کے نصابِ تعلیم کی عمدگی ہے، علما کی ذہانت اور ان کی پُر خلوص محنتیں ہیں جو تشنگان علم کواپنی طرف مائل کرلیتی ہیں۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں تقریباً ہر اسلامی فن میں تخصص کا نظام قائم ہے۔ہمارے یہاں تخصص کا نظام نہ کے برابر ہےاور ہے بھی تو عصبیت کا دبیز پردہ اس پر پڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے طلبہ ایک گھٹن سی محسوس کرتے ہیں۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ طلبہ کو مکمل طور پر پڑھنے کی آزادی ہو ، پڑھانے والا اس طرح پڑھائے کہ ہر ہر گوشے پر تفصیلی گفتگو کرے، اپنی تحقیق پیش کرے اور طلبہ کو اپنی رائے قائم کرنے کا موقع دے، جس کے نتیجے میں طلبہ کے اندر ایک زبر دست قوت ارادی اور تحقیق کا عنصر پیدا ہوگا۔ دوسری چیز یہ کہ عام طور سے ہمارے طلبہ اردو خواں ہوتے ہیں اور عربی ٹیکس پڑھنے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اردو ترجمہ و شرح سے کام چلا لیا جائے، جس کا نقصان یہ ہے کہ اصل ماخد یعنی قرآن وحدیث تک ان کی رسائی نہیں ہوپاتی ۔ ساتھ ہی ساتھ بحث وتحقیق کےباب میں مفلوج ہو جاتے ہیں۔ جب طلبہ از ہر جاتے ہیں تو وہاں عربی ماحول میں عربی تعلیم میں پختگی حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے اصل ماٰخذاور دوسری بڑی کتابوں کا خود مطالعہ کرتے ہیں۔ اصل چیز مطالعہ ہےجو علمی پختگی عطا کرتا ہے۔ رہی بات بنیادی تعلیم کی تو وہ ہمارے یہاں بھی موجود ہے، اگر طلبہ محنت کریں،مطالعے کا ذوق رکھیں اور فراغت کے بعد بھی مطالعہ کرتے رہیں تو ضرور کامیاب ہوں گے۔ صرف نصاب کی مقدار پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔
  ازہرمیں اصل تعلیم’’ ایم اے‘‘ کی ہے۔ اس میں مطالعے کی ترغیب زیادہ دی جاتی ہے اور ایک ایک موضوع پر کثرت سے مطالعہ کروایا جاتا ہے۔ مطالعہ ہی اصل ہے، خواہ خود سے ہو یا کسی استاذ کی نگرانی میں ۔ استاذ کی حیثیت صرف ایک رہ نما کی ہوتی ہے، اصل خود کی محنت ہوتی ہے۔ وہاں زیادہ سابقہ عربی سے ہوتا ہے اور ہرفن کی کتابیں کثرت سے دست یاب ہوتی ہیں۔ جن طلبہ کے اندرمطالعے کا ذوق پیدا ہوجاتا ہے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، ورنہ ازہر میں بھی تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستانی طلبہ میں سے پچاس فیصد سے زائدکوئی خاص فائدہ حاصل نہیں کرپاتے۔
شاہد رضا نجمی:- 
دورِ حاضر میں علمِ حدیث کی ضرورت واہمیت کیا ہےا ور ہمارے یہاںاس کے لیے کس قدر خدمتیں انجام دی گئی ہیں اور دی جارہی ہیں؟ 
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:-
اہلِ سنت وجماعت کے نام پر جنھیں ہم جانتے ہیںماضی قریب میں علم حدیث کے اندر ان کی خدمات بہت زیادہ نہیں رہی ہیں، ورنہ دوسری جماعت مثلا دیوبندی مکتبہ فکر کے علما نے اس حوالے سے بڑی خدمتیں کیں ہیں۔ انفرادی طور پر ہند و پاک کے بعض علما ئے اہل سنت کی خدمات کو ضرور یاد کیا جا ناچاہےانھیں فراموش کرنا صحیح نہیں ہے، لیکن ہندوستان کی فکر پہ جوچھایا رہا وہ فقہ و فتاوی تھا؛ کیوں کہ فقہ کا تعلق عمل سے ہے، بات سیدھی سی مل جاتی ہے۔ علم حدیث حاصل کرنے کا  فائدہ لوگوں کونظر نہیں آتاتھا۔ عوام صرف مسئلہ پوچھتی ہے ، اس لیے طالبان علوم اسلامیہ فقہ و فتاوی ہی میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور حدیث کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے۔ لیکن آج کے دور میں قرآن وحدیث کا مطالعہ بہت ہی ضروری ہے، نئی نسل کو اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے؛ کیوں کہ فقہا کی بے شمار وہ باتیں جو ان کی ظن و تخمین پر مبنی تھیں، ایسی ہیں جو سائنسی دلائل سےبدیہی طور پر اب باطل ہوچکی ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے زمانے کے نوپید مسائل کو شرعی اصولوں کے مطابق حل کریں۔  ہم اصالۃً قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں اور فقہا کی تحقیقات کا بھی مطالعہ کریں تا کہ کتاب و سنت کی رہ نمائی بھی ہمارے ساتھ رہے اور فقہاے اسلام کے تجربات وتحقیقات سے بھی ہم استفادہ کریں، نیز عرف کی معرفت اور زمانے کی بصیرت بھی ہم رکاب رہے۔اس کے ساتھ پیش کش میں معاصر عقلی اور سائنسی استدلال سے خود کو محروم رکھنا بھی قرین مصلحت نہیں ہے۔معاصر فقہی مسائل کی تحقیق میںنہ صرف مطالعہ حدیث سے کام چلے گا اور نہ صرف قدیم فقہا کی تحقیقات ہی کافی ہوں گی۔
  قرآن وحدیث کے مطالعے اور فقہائے کرام کے تفقہ سے استفادہ کرکے ہمیں آج کے مسائل حل کرنےہیں۔ جیسے چاند کا مسئلہ اور دوسرے جدید مسائل۔ آپ کو فقہا کے نظریات کے ساتھ ساتھ مطالعہ حدیث کرنا ہےاور یہ بھی دیکھنا ہے کہ جس زمانے میں یہ بات کہی گئی ہے اس کے کیا احوال تھے، کیا نتیجہ نکلا تھا، پس منظر وپیش منظر کیا تھا؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک ہزار سال سے یہ فقہ چل رہی ہے تو اسے بدلنے کی کیا ضرورت ہے؟ ٹکنالوجی اور کمیونیکشن کے وسیع تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زمانہ رسول سے ۱۲ویں صدی ہجری تک کے حالات لگ بھگ ایک سےتھے،سفر کے لیے لوگ گھوڑے، خچر اور بیل گاڑی ہی کا سہارا لیتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔لوگ ٹرین کے ذریعے چلنے لگے، پھر جہاز کے ذریعے ، پھر اور ترقی ہوئی تو اور دوسرے ذرائع کا سہارا لینے لگے۔ زندگی بدل رہی ہے، احوال بدل رہے ہیں ، ایک آدمی سفر کررہا ہے، ایک ایک ہفتہ اس کے لیے سورج غروب ہی نہیں ہورہا ہے۔ وہ نماز کس طرح ادا کرے گا،روزہ کیسے رکھے گا، اس کے لیے کیا صورتِ حال ہوگی؟ آج ان سب پر غور کرنے کی بہت ہی زیادہ ضرورت ہے۔ 
شاہد رضا نجمی:-
علم حدیث کے حوالے سے ہماری نئی نسل میں بیداری آرہی ہے یا وہ بھی وہی پرانی روش کا شکار ہیں؟ 
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:-
علم حدیث اورعربی زبان میں نئی نسل کے اندر کافی بیداری آئی ہے۔ نئے طلبہ اور نئے علما میں جمودٹوٹ رہا ہے۔ اس کا رزلٹ فورا تونہیں مل سکتا، لیکن مستقبل قریب میں اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
شاہد رضا نجمی:- 
طلبۂ مدارس کے لیے کوئی خاص پیغام؟
مولانا غلام مصطفیٰ ازہری:-
طلبۂ مدارس کے لیے ضروری ہے کہ وہ توکل اختیار کریں اور کفایت کے ساتھ عمل پیہم کریں۔ اور تحصیلِ علم میں اپنا وقت زیادہ سے زیادہ صرف کریں۔ کیوں کہ کم ہمتی اور مختصر سے وقت میں حسرت و یاس کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ثالثہ اور رابعہ تک درسِ نظامی کے طلبہ زبان پر زیادہ توجہ دیں۔ اس کے بعد عالمیت تک اصولِ حدیث واصولِ فقہ پر خصوصی محنت کریں۔ پھر متونِ حدیث وفقہ اور شروحات کا کثرت سے مطالعہ کریں۔ کسی بھی فن کی چند مکمل کتاب ضرور پڑھیں۔ صرف درس گاہی نصاب پر اکتفا نہ کریں۔

اہلِ سنت کا علمی مستقبل روشن وتابناک ہے

0 comments
اہلِ سنت کا علمی مستقبل روشن وتابناک ہے
معروف قلم کار مولانا ذیشان احمد مصباحی سے خصوصی گفتگو
-------------------------------------------------------------------------------
اکیسوں صدی میں جن افراد نے مذہبی صحافت کو زندہ اورتابندہ کیا، مذہبی ادب کے خشک جزیروں کی سیاحی کرتے ہوئے انھیں اپنی وسعتِ نظر، عمیق فکر، اعلیٰ تحقیقی وتنقیدی شعور اور بے باک قلم کے ذریعے دوبارہ آباد کیا ان میں ایک نمایاں نام مولانا ذیشان احمد مصباحی دام ظلہ العالی کا ہے۔ آپ کی پیدائش۵ ۲؍مئی ؍۱۹۸۴ء کو مغربی چمپارن، بہار کے ایک دین دار گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۹۹ء میں جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کا رخ کیا اور ۲۰۰۴ء میں وہاں سے فضیلت کی تعلیم مکمل کی۔ فراغت کے بعد ماہنامہ جامِ نور، دہلی سے وابستہ رہے اور ۲۰۱۲ء تک اس کے منصبِ ادارت پر فائز رہے۔۲۰۱۲ء سے تاحال جامعہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں رہ کر اس کی علمی اور فکری فضا کو مزید ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ساتھ ہی جامعہ ملیہ، دہلی سے ’’شیخ سعد الدین خیرآبادی اور فقہ و تصوف میں ان کی خدمات‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی بھی کررہے ہیں جو  ابھی تکمیل کے مرحلے میں ہے۔شعر وشاعری سے بھی شغف ہے۔ ۲۰۱۱ء میں داعیِ اسلام شاہ احسان اللہ محمدی صفوی کی مثنوی ’’نغمات الاسرار فی مقامات الابرار‘‘ پر ’’رموزِ نغمات‘‘ کے نام سے آپ نے ایک وقیع حاشیہ لکھا جس سے آپ کے دقیق فہم تصوف کا اندازہ ہوتا ہے۔ مقالات ومضامین کی تعداد ڈیڑھ سو سے متجاوز ہے۔ جن میں تحقیق وطوالت کے اعتبار سے ’’دعوت وتبلیغ کی راہیں مسدود کیوں؟، مسئلۂ اجتہاد وتقلید امام عبدالوہاب شعرانی کی نظر میں، عقیدۂ شفاعت کا اسلامی مفہوم، عقیدۂ علمِ غیب کا اسلامی مفہوم، جدید ذرائعِ ابلاغ سے رویتِ ہلال کا ثبوت، تکفیر کے اصول واحکام: فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے‘‘ نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔چند ملی مسائل پر موصوف سے لیے گئے انٹرویو کے خاص اقتباسات نذرِ قارئین  ہیں۔-------- شاہد رضا نجمیؔ
-------------------------------------------------------------------------------
شاہد رضا نجمی:- 
حالیہ دو قسطوں میں آپ کا لکھا گیا مقالہ ’’تکفیر کے اصول واحکام: فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے‘‘ علمی حلقوں میں کافی سراہا گیا۔ آخر کون سی چیز اس مقالے کی محرک بنی؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:-
 اس مضمون کا بڑا محرک یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی قدس سرہٗ پر ان کے مخالفین کی طرف سے ’’تعجیل فی التکفیر‘‘ کا ایک بڑا الزام ہے، لیکن خود اعلیٰ حضرت کے ماننے والوں کاموجودہ رویہ ان کے مخالفین کے الزام کو ثابت کرتا ہے۔ بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اہلِ سنت سے خارج کرنے اور دین سے باہر کرنے کی جو روش بڑھی ہوئی ہے اس کا سدِّباب ضروری ہے۔ اس کا سدِّ باب محبان اعلیٰ حضرت کے حلقےمیں کیسے ہوگا؟یہ ایک سوال تھا، تو چوں کہ اس حلقے میں اعلیٰ حضرت ہی کا حوالہ معتبر مانا جاتا ہے، کوئی دوسرا حوالہ سنا نہیں جاتا۔ ایسے میں جہاں پر جیسی طبیعت ہو اسی کے مطابق علاج ہونا چاہیے، اسی لیے ہم نے سوچا کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے اصول تکفیر بیان کردیے جائیں تاکہ ’’تعجیل فی التکفیر‘‘ کی جو روش ہمارے یہاں بڑھ گئی ہے اس پر بندباندھا جاسکے یا کم از کم جو نئی نسل ہے اس کو معلوم ہوجائے کہ تکفیر کے حوالے سے اعلیٰ حضرت کے اصول کس قدر محکم ہیں۔ سب سے محتاط موقف متکلمین کا ہے اور اعلیٰ حضرت نے جب بھی اصولی طور پر بات کی ہے تو انھی کے رویے پرکی ہے اور وہ یہ ہے کہ حتی الامکانتاویل کی جائے، اگر تاویل کا ضعیف پہلو بھی نکل جائے اور تکفیر سے عدمِ تکفیر کی طرف یا سکوت کی طرف کوئی پہلو نکلے تو اسی پہلو کو اختیار کیا جائے۔ بس اسی مقصد کے لیے میں نے یہ مضمون لکھا تھا تاکہ موجودہ زمانے میں جو تکفیری رویے سامنے آئے ہیں ان کا ازالہ ہوسکے۔ 
شاہد رضا نجمی:-
ظاہر سی بات ہے کہ آپ نے اس مضمون کے لیے فتاویٰ رضویہ اور اعلیٰ حضرت کی دوسری کتابوں کا بڑی عمیق نظری سے مطالعہ کیا ہوگا۔ اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی پر غیروں کی جانب سے جو تعجیل فی التکفیر کا الزام ہے۔ اس حوالے  سے ان کی کتابوں سے کیا عیاں ہوا؟ اس الزام کی تصحیح یا تردید؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:-
 میں نے جو مطالعہ کیا تھا وہ اصول کا تھا۔ دو باتیں ہیں: ایک اصول کی بات ہے اور دوسری انطباقات کی۔ فاضلِ بریلوی نے جو تکفیرات کی ہیں ان میں وہ عجلت پر ہیں یا نہیں، یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ ہم نے فتاویٰ رضویہ میں موجود اصولِ تکفیر پر بات کی ہے۔ دوسرے موضوع کا اب تک مطالعہ نہیں کیا ہے۔ یہ موضوع باقی ہے اور اس پر بہت تفصیلی مطالعے کی ضرورت ہے جس پر اب تک لوگوں نے لکھا تو ہے مگر کم لکھا ہے۔ مزید لکھنے کی ضرورت ہے۔ 
شاہد رضا نجمی:- 
صحابۂ کرام، تابعینِ عظام اور ائمۂ دین کے مابین کافی علمی اختلافات پائے گئے مگر کبھی بھی ان کے آپسی رویوں میں تبدیلی نہیں آئی۔ یہ سب پڑھنے پڑھانے کے باوجود آج مسائل میں اختلاف گردن زدنی جرم کیوں تصور کیا جاتا ہے؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:-
 اس کاایک نفسیاتی پس منظرہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت اپنے زمانے کے ایک عبقری فقیہ، متکلم شخص ہیں۔ مختلف لوگوں کے ساتھ ان کے اختلافات اور معارک بھی رہے۔ اس کے بعد ایک طبقہ ایسا ہوا جو اعلیٰ حضرت کے مخالف ہوا، ایک طبقہ ایسا ہوا جو ان کے شاگردوںاور شاگردوں کے شاگردوں سے آگے بڑھا۔یہ معتقدین کا طبقہ تھا۔  ایک تیسراطبقہ ہے جو نیوٹرل ہے۔نہ اسے اعلیٰ حضرت سے مخاصمت ہے اور نہ اس کے اندر وہ گہری عقیدت ہے جو دوسرے طبقے میں ہے۔  تیسرا فریق تو خیر ابھی پردے میں ہے۔ دو فریق نمایاں ہیں۔ ان کے مخالفین اور محبین۔ ان کے محبین کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اعلیٰ حضرت کی عظمت ان کے دل ودماغ میں ایسی بیٹھی کہ انھوں نے کسی بھی مسئلے پر یا کہیں بھی سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اپنی عقل کو مقفل کرلیا۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ اعلیٰ حضرت سے جو سلسلہ نیچے کی طرف چلا ہے اس میں علمی زوال انتہا پر ہے۔ چوں کہ علم کا تعلق عقل سے ہے، جب آپ نے عقل کو بند کرلیا تو پھر علمی ارتقا کا کوئی تصور پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ حدیث، سیرت، تاریخ یہ سارے موضوعات ہمارے یہاں ممنوعات میں سے ہیں۔ کل ملاکر جو کام ہوا وہ فقہ پر ہوا، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ فتاویٰ رضویہ کے بعد شاید ہی کوئی فقہ کی کتاب لکھی گئی، جتنے بھی فتاویٰ لکھے گئے وہ سب فتاویٰ رضویہ کی نقل ، توضیح یا تسہیل ہیں، از سرِ نو لوگوں نے خودتحقیق و تفکیرکی کوشش نہیں کی۔ یہاں ایک بات کی تاکیدی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ ایسا بھی نہیں کہ سارے علما خوابِ غفلت ، بے علمی اور بے فکری کے شکار رہے۔ مختلف مراحل میں بعض صاحبانِ علم ایسے آئے جنھوں نے نئے مسائل پر تحقیق وتفتیش کی یا پرانے مسائل میں از سرِ نو غور کرنے کی کوشش کی، لیکن اگر ان کی کوئی رائے کسی بھی طرح، دور سے بھی اعلیٰ حضرت یا مفتیِ اعظمِ ہند کے قول سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوئی تو ان لوگوں کو پوری شدت سےمطعون کیا گیا۔ اس علمی اختلاف کو اعلیٰ حضرت کی مخالفت کا عنوان دے دیا گیا اور پھر یہ فلسفہ وجود میں لایا گیا کہ اعلیٰ حضرت کی مخالفت سنیت کی مخالفت ہے اور پھر صغریٰ کبریٰ فٹ کرکے اسے اسلام کی مخالفت پر محمول کردیا گیا۔ کسی نے بھی کوئی تحقیق پیش کرنے کی کوشش کی تو انتہائی حد تک اس کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ یہ ساری تفصیلات موجود ہیں کہ لوگوں کو باضابطہ گالیاں دی گئیں، تھپڑ لگائے گئے، اس طرح کرکے علم کا گلا گھونٹا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ٹھیک ہے آپ اعلیٰ حضرت پر غیر مشروط اعتماد رکھتے ہیں تو چلیے یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن اس کے لیے کم از کم اعلیٰ حضرت کوتو پڑھیے۔عجیب حیرت ہوتی ہے کہ جو جتنا گلا پھاڑ کر مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگاتا ہے، بالعموم وہ اسی قدر فتاویٰ رضویہ کے مطالعے سے محروم ہے۔پوری جماعت اسٹیجوں پر آگئی۔علم وتحقیق کی راہ پر جو رہے ان کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ تصنیفی اور تالیفی کام ثانوی یا ثالثی درجے کے لحاظ سے جو کچھ ہوبھی رہا ہے وہ پورا کا پورا نقل در نقل ہے، تحقیق نہیں ہے۔  اسٹیج کےجاہل مولوی اس جماعت کے نمائندے بن گئے۔ انھوں نے ہی اس جماعت کا بیڑا اٹھالیا۔اس حلقے کا معمولی خطیب جماعت کے قد آور علما سے ان کے ایمان اور سنیت کا سرٹیفکٹ مانگتا نظر آتا ہے۔اس سے بھی آگے بڑھ کراسلام و سنیت اور فقہی اختلافات کے فیصلےجلسے کے عوام کرنے لگےاور یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ کسی بھی جماعت کا بیڑا اگر جاہل اٹھالیں تو اس پوری جماعت کو غرق ہونا ہی ہے۔ ایسی جماعت میں علمی تحقیق اور صالح فقہی اختلاف کا خواب خود فریبی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔یہی وہ نفسیاتی اور سماجی پس منظر ہے جس کے سبب ہمارے یہاں علمی تحقیق کے حوالے سے جب بھی کوئی بات کرتا ہے تو اس کو تفسیق وتضلیل وتکفیر تک پہنچانے میں ذرّہ برابر لوگ دریغ نہیں کرتے اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ تفسیق وتضلیل وتکفیر کے اصول وشرائط کیا ہیں۔ 
 شاہد رضا نجمی:- 
اہلِ سنت وجماعت جس انتشار وافتراق کی شکار ہے، عالمی سطح پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:-
 عالمی سطح کی آپ بات کریں تو عالمی سطح پر ایک طبقہ وہابیہ کا ہے اور ایک اہلِ سنت کا۔ ظاہر سی بات ہے کہ پیسے وغیرہ کی بدولت وہابیوں کے اثرات زیادہ ہیںگو وہ تعداد میں کم ہیں۔ آپ ہندوستانی تناظر میں بات کریں تو جو عام دانش کدے اور معاشرے ہیں، وہاں پر علمی اور عملی سطح پر وہ لوگ کام کررہے ہیں جو وہابیت سے متأثر ہیں اور جو متأثر نہیں ہیں وہ نیوٹرل ہیں، بریلوی نہیں ہیں، یا وہ روایتی قدیم سنی نہیں ہیں، آزاد فکر ہیں۔ ان لوگوں کی نظر میں اس وقت اعلیٰ حضرت کے متبعین کی شبیہ انتہائی بری ہے، ان کو ایک طرح سے وہ جاہلوں کے زمرے میں شمار کرتے ہیںجن کے یہاں نہ علم ہے اور نہ عمل ہے اور علمی اختلاف کا معنیٰ جہاں پر لڑنا جھگڑنا ہے۔ یہ لوگ لڑتے جھگڑتے ہی رہتے ہیں، سیاست، سماج، خدمت خلق میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔ اسی طرح عام علمی حلقے میں بھی یہ جماعت انتہائی بدنام ہے۔ بس ایک نیک فال یہ ہے کہ علامہ ارشد القادی علیہ الرحمہ نے دہلی میںجامعہ حضرت نظام الدین اولیا قائم کیا جس کا ایک دروازہ جامعۃ الازہرکی طرف کھلتا ہے تو دوسرا ہندوستان کے بڑے عصری دانش کدوں کی طرف۔ اس دروازے سے بریلویت سے متعلق جو نئے علما ہیں وہ نئ دنیا میں جارہے ہیں اور ان کو سوچنے، سمجھنے،پڑھنے، لکھنے اور تحقیق وتفکیر کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے ایک اچھی صورتِ حال بنی ہے۔ خود بعض شدت پسند وہابیوں سے یہ سنا گیا ہےکہ علامہ ارشد القادری نے کہاں سے یہ دروازہ کھول دیا اور بریلوی یونیورسٹی میں آگئے، ورنہ اچھا تھا کہ یہ لوگ فاتحہ ، چادر وگاگر اور دوسری جہالتوں میں گم تھے۔ 
شاہد رضا نجمی:- 
ہماری نئ نسل میں علمی اور فکری شعور کس قدر پروان چڑھ رہا ہے؟ پہلے کی بہ نسبت کچھ تیزی آئی ہے یا وہی پرانی رفتار ہے؟ 
مولانا ذیشان احمد مصباحی:-
 ہمارے پاس ٹھیک ٹھاک مدرسے بہت کم ہیں۔ جو ٹھیک مدرسے ہیں ان میں سے بعض کے طلبہ باذوق اور باشعور ہیں اور ان میںمزید شعور پروان چڑھ رہا ہے اور بیداری آرہی ہے۔ خاص طور سے جامعۃ الازہر اور ہندوستانی یونیورسٹی کے جو راستے کھل گئے ہیں اور تیزی سے ہمارے طلبہ وہاں جارہے ہیں، اس سے ان کا ذہن کافی کھل رہا ہےاور علم وتحقیق کے میدان میں وہ اپنے آپ کو کافی وسیع کررہے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ آنے والے پندرہ بیس سالوں میں اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ 
شاہد رضا نجمی:- 
طلبۂ مدارس کے لیےکوئی خاص پیغام؟
مولانا ذیشان احمد مصباحی:- 
طلبہ کے لیےہمارا پیغام یا تصوریہی ہے کہ وہ طالبِ علم بنیں ۔ طالبِ علم وہ ہے جس کا وقت طلبِ علم، کتابوں کی تلاش وجستجو اور موضوعات کی تحقیق میں گزرے۔ طلبہ کو دلائل تلاش کرنا چاہیے، اپنا وقت لائبریریوں میں گزارنا چاہیے، بغیر تحقیق ومطالعہ کے صرف گپیں ہانکنا اور اپنا وقت ضائع کرنا طالب علم کے شایانِ شان نہیں۔مطالعہ زیادہ کیجیے اور گفتگو کم کیجیے۔اسی طرح طالب علم کے لیے ادب انتہائی ناگزیر ہے اس بات کو طلبہ ہمیشہ مد نظر رکھیں۔

صوفی حقیقۃً وہی ہوتا ہے جو مقامِ مشاہدہ پر فائز ہو

0 comments
صوفی حقیقۃً وہی ہوتا ہے جو مقامِ مشاہدہ پر فائز ہو
صاحب زادہ حضرت مولانا حسن سعید صفوی ازہری سے خصوصی گفتگو
------------------------------------------------------------------------------
دورِ حاضر کے خانقاہی شہزادگان میں علم وفضل، فکر وتدبر، لطف وعنایت، خدمتِ خلق اور حسنِ عمل کے حوالے سے ہمارے ’’حسن بھیا‘‘ایک بڑا مقام رکھتے ہیں، جس کا اظہار ان کے کردار وعمل سے ہوتا رہتا ہے۔آپ خانقاہِ عالیہ عارفیہ کے زیب سجادہ حضرت داعیِ اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی مد ظلہٗ کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ نام ’’حسن‘‘ اور کنیت ’’ابو سعد‘‘ ہے۔ ولادت۶؍رجب المرجب ۱۴۱۲ھ کو آبائی وطن سید سراواں شریف میں ہوئی ۔ آپ کا سلسلۂ نسب تین واسطوں (۱) پیر ومرشد گرامی عارف باللہ حضرت مخدوم شاہ احسان اللہ محمدی صفوی معروف شیخ ابوسعید حفظہ اللہ تعالیٰ (۲) جد محترم حضرت حکیم آفاق احمد نور اللہ مرقدہٗ (۳) محتسب العارفین بندگی مخدوم شاہ صفی اللہ محمدی رحمہ اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہوا سلطان العارفین حضرت خواجہ شاہ عارف صفی محمدی قدس اللہ سرہٗ سے جا کے ملتا ہے۔ ابتدائی تعلیم خانقاہ ہی میں ہوئی۔ جامعہ عارفیہ سےعالمیت کی سند لینے کے بعد۲۰۰۸ء میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا، دہلی تشریف لے گئے اور ۲۰۱۰ء تک حصولِ تعلیم کی خاطر وہاں مقیم رہے۔ ۲۰۱۱ء کے اوائل سے ۲۰۱۵ء کے اواخر تک عالمِ اسلام کی عظٰیم الشان درسگاہ جامعہ ازہر ، قاہرہ مصر میں ’’کلیۃ الدراسات الاسلامیۃوالعربیۃ‘‘ کے تحت پانچ سالہ تعلیم مکمل کی۔ اس وقت جامعہ عارفیہ کے ایک مؤقر استاذ، سالنامہ ’’الاحسان‘‘ کے مدیر اعلیٰ اور شاہ صفی اکیڈمی کے نگراں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لوح وقلم سے بھی رشتہ استوار رہتا ہے۔ آپ کے مضامین میں ’’آیاتِ جہاد کی صوفیانہ تفسیر‘‘ اور’’حضرت مخدوم شیخ سارنگ: حیات وتعلیمات‘‘ خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ - شاہد رضا نجمیؔ
------------------------------------------------------------------------------
شاہد رضا نجمی: 
تصوف کسے کہتے ہیں اور حقیقۃً صوفی کون ہوتا ہے؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
تصوف کی تعریف کے سلسلے میں بتاتا چلوں کہ اس بارے میں مختلف آرا ہیں، اس کو الگ الگ زاویے سے دیکھ کر مختلف تعبیر وتشریح کا جامہ پہنایا گیا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ ثمرۂ اسلام جسے حدیثِ نبوی میں ’’الاحسان‘‘ سے روشناس کرایا گیا ہے اسی کی تعبیر تصوف ہے۔ رہ گیا سوال کہ حقیقۃً صوفی کون ہوتا ہے اس کا بھی جواب اسی حدیث میں پوشیدہ ہے کہ جو مقامِ مشاہد ہ پر فائز ہے یابلفظِ دیگر جس پر اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ کی کیفیت طاری ہے وہ محسن ہے اور صوفی ہے اور جو اس کی طلب میں سرگرداں ہے اسے متصوف کہتے ہیں اورجسے ان سب سے کچھ واسطہ نہیں صرف اپنا بازار چمکانا مقصود ہے وہ مستصوف ہے۔ 
شاہد رضا نجمی: 
عام طور سے کہا جاتا ہے کہ خانقاہیں اب صرف عرس ونمائش کا مرکز بنی ہوئی ہیں، مسلمانوں کے عمومی مسائل، ملی ودینی مفادات کی طرف عدمِ توجہی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر اقبال نے بھی کہا تھا:  ع---- خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن۔ اس سے آپ کس حد تک متفق ہیں؟ 
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
عام طور سے جو کہا جاتا ہے اس سے موجودہ صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تو مکمل طور سےانکار نہیں کیا جاسکتا البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ع---- ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ علامہ اقبال نے خانقاہوں اور مدارس دونوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ ـ’’خانقاہوں میں مجاور رہ گئےیا گور کن‘‘ یا ’’گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا‘‘۔ ان کو ہمیں مثبت انداز میں لینا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں واقعی دینی مراکز خانقاہیں ہوں یا مدارس تعطل کا شکار تو نہیں۔ بحمدہٖ تعالیٰ آج بہت سی خانقاہیں اور بہت سے مدارس دینی شعور رکھنے والے افراد کو جنم دے رہے ہیں، جو دینی اور ملی مفاد کی بہتری میں سرگرم ہیں۔ علامہ مرحوم کے اشعار میں ہمیں استہزا کا پہلو نہ تلاش کرنا چاہیے بلکہ انھوں نے ہمیں ایک افسوس ناک صورتِ حال کی طرف توجہ دلائی ہے۔ خانقاہوں میں رسم پرست اور مجاور اور مدارس میں تکفیری ذہن رکھنے والے آج بھی موجود ہیں جن پر آج بھی ویسے ہی ان اشعار کا انطباق ہورہا ہے جیسے پہلے ہورہا تھا۔ 
شاہد رضا نجمی: 
جامعہ ازہر کی روانگی کن حالات میں ہوئی اور کس شعبے کے تحت آپ نے وہاں تعلیم حاصل کی؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
از ہر شریف جانے کی دیرینہ خواہش تھی۔ والدین مد ظلہما کی دعائوں کی برکت سےوہاں کےخوانِ علم ومعرفت سے بقدرِ ظرف خوشہ چینی نصیب ہوئی۔ جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ ’’کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ والعربیۃ ‘‘سے وابستہ ہوا اور سچ یہ ہے کہ اپنی محنت وکاوش سے کچھ بھی نہ حاصل ہوا، جو شد بد حاصل ہوئی وہ صرف اورصرف پیر ومرشدِ گرامی مدظلہٗ اور اساتذہ کرام کی دعائوں کا ثمرہ ہے۔ 
شاہد رضا نجمی: 
ہمارے یہاں ایک عمومی تصور یہ ہے کہ وہاں کے علما واساتذہ مسائلِ اسلامیہ میں آزاد روی اور جدت پسندی کے قائل ہیں۔ وہاں زیر تعلیم طلبہ بھی اس کے حامل ہوجاتے ہیں۔ پھر ہر اسلامی مسئلے میں آزادی اور متقدمین علما پر تنقید ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ یہ تصور کہاں تک درست ہے؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
ہمارے یہاں کا یہ تصور کہ علمائے عرب آزاد روی کے شکار ہیں بالکل غلط ہے۔ وہ حضرات اُس اعتدال ومیانہ روی کے علم بردار ہیں، دینِ حنیف نے جس کی دعوت دی ہے۔ تشدد، تعصب اور مسلکی منافرت سے بہت گریز کرتے ہیں۔ اپنے موقف پر دلائل کی روشنی میں قائم رہتے ہیں لیکن دوسروں کے مواقف کوہدفِ طعن وتشنیع نہیں بناتے۔ باشعور طلبہ بھی اسی روش پر گامزن ہوتے ہیں۔ 
شاہد رضا نجمی: 
خانقاہِ عارفیہ اور جامعہ عارفیہ کو آپ کس سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے حوالے سے مستقبل کے کیا عزائم ہیں؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
خانقاہِ عالیہ عارفیہ اور جامعہ عارفیہ کو اس مقام پر دیکھنا چاہتا ہوں جس پر پہنچانے کا پیر ومرشد گرامی حفظہ اللہ تعالیٰ کا خواب ہے۔ حق تبارک وتعالیٰ آپ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر فرمائے اور اس گنہ گار کو ہر طرح کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ مستقبل کے عزائم کیا کیا بتائیں؎
 ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
 بس دعا کیجیے مالکِ کریم خلوص وللہیت کے ساتھ سارے منصوبوں اور عزائم کو کامیاب وبامراد فرمائے۔
شاہد رضا نجمی: 
طلبۂ مدارس کے لیے کوئی خاص پیغام؟
صاحبزادہ مولانا حسن سعید صفوی:
طلبۂ مدارس کے لیے یہی پیغام ہے کہ وہ تحصیلِ علم میں ایسے لگیں جیسا کہ ہم سے دینِ متین نے مطالبہ کیا ہے۔ وَجَاھِدُوْا فِیْ  اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ (الحج،۷۸) کا مفہوم نظروں کے سامنے رہے۔ ہمارے اپنے کردار وعمل سے دین داری کا اظہار ہو، نہ کہ صرف لفظوں اور کتابوں میں محدود کرکے دین کو دیکھا اور سمجھا جائے۔ 


اہلِ سنت کی تفہیمِ جدید

0 comments
اہلِ سنت کی تفہیمِ جدید
چیچینیا کانفرنس میں اہل سنت کی تشریح و تعبیر کا پس منظر و پیش منظر
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
عصرحاضر میں اہل سنت کی تعریف و توضیح ملکی اور عالمی تناظر میں کس قدرضروری ہوگئی ہے ،اس کا ثبوت درج ذیل دو واقعات ہیں:
(۱)مجلس شرعی مبارک پور کے ۲۲؍ویں سیمینار منعقدہ ۹-۱۱؍دسمبر۲۰۱۴ء میں ایک موضوع ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت کی تنقیح وتوضیح بھی تھا-
(۲)۲۵؍اگست ۲۰۱۶ء کو چیچینیا کے صدر رمضان قدیر وف کی دعوت پر ایک عالمی اجلاس منعقد ہوا ،جس کا واحد مقصد اہل سنت کی تشریح و تعبیر کرنا تھا،اس کے شرکا میں شیخ الازہر احمدطیب،شیخ حبیب علی جفری ، جمہوریہ مصر کے سابق مفتی اعظم شیخ علی جمعہ اور موجودہ مفتی اعظم شیخ ابراہیم شوقی علام کے ساتھ مسلم دنیا کے درجنوں مشاہیر علما،فقہا اور مشائخ شامل تھے-
پہلا واقعہ اگر ملکی تناظر میں ہے تو دوسرا عالمی تناظر میں-یہ مسئلہ کس قدر اہم ہے ،اس کی تعبیر و تشریح کس قدرضروری اور دقت طلب ہے ،اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ’’ مجلس شرعی‘‘ مبارک پورمیں جو علما شریک ہوئے ،ان میں بعض وہ بھی تھے،جنھوں نے ضروریات دین کی فہرست  میں اس عقیدے کو بھی شامل کیا تھا کہ رسول پاک ﷺ کو اس طرح تسلیم کرنا کہ آپ عالم ماکان ومایکون ہیں-اسی طرح ضروریات اہل سنت  کے تحت درج ذیل امور کو بھی شامل کیا تھا: 
(الف): سرکارغوث اعظم کو کل اولیا کا سردارماننا۔ (۱)
(ب): جمعہ کی اذان ثانی کو مسجدسے باہر کہے جانے کو مستحب کہنا۔ (۲)
(ج):اقامت میں حی علی الفلاح پر کھڑاہونا۔ (۳)
(د):نماز میں آمین بالجہرنہ کرنا۔ (۴) 
(ہ): علما ومشائخ اہل سنت سے عموماً اور اعلیٰ حضرت سے خصوصاً محبت و عقیدت کا اظہار کرنا۔ (۵) 
ملکی اور عالمی پیمانے پر اہل سنت کی تعبیر و تشریح اور توضیح کس قدر ضروری ہے،اس سلسلے میں چند باتیں مزید قابل ذکر ہیں:
(۱) مصر اور دیگر بلاد عالم میں اہل سنت و جماعت خود کو صوفی کہنے لگے ،نتیجہ یہ نکلا کہ جدید افکار وخیالات کے حاملین ،متشدد جماعتیں ،ائمہ مجتہدین اور اولیائے صالحین پر تبرا کرنے والے،بات بات پر کفرو شرک کا فتویٰ لگانے والے،حتی کہ اہل قبلہ کو مباح الدم سمجھنے والے اور خون کی ندیاں بہانے والے اہل سنت بن گئے-اب ایسے میں شیوخ ازہراور عالم اسلام کے دیگر اکابر اہل سنت کواپنی خطا کا شدت سے احساس ہورہا ہے اور وہ اہل سنت و جماعت کے لقب کو پھر سے حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں،جو ان سے دوسروں نے غصب کررکھا تھا-
(۲)کچھ یہی حال ہندوستان میں ہوا-سید سلیمان ندوی کے بقول ہندوستان کے قدیم مسلک پر سختی سے جمے رہنے والے بدایونی علما تھے ، اسی روایت کو بریلوی علما نے آگے بڑھایا -ظاہر ہے ،یہی مسلک اہل سنت اور مسلک اہل تصوف تھا،لیکن بیس ویں صدی میں یہ مسلک ’’بریلوی‘‘ کے نام سے متعارف ہوا-پروفیسر مسعود احمد نقش بندی کے بقول یہ کام اعلیٰ حضرت مولانا احمدرضا خاں فاضل بریلوی کے مخالف علما نے کیا-لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ خود ان کے موافق علما کو یہ لقب اتنا پسند آیا کہ وہ خود کو فخریہ بریلوی کہنے لگے اور اسی پر بس نہیں ہوا،بلکہ بعض علما کو اس پر اصرا ر بھی ہوگیا-یہ بات اس لیے بھی درست ہے کہ ۲۰۰۷ء میں جب راقم نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’بریلوی ‘‘غیروں کا دیا ہوا لقب ہے ،ہمیں خود کو اہل سنت ہی کہنا چاہیے تو اس پر بریلوی حلقے سے شدیداحتجاج ہوااورآج جب میں ’’سنی بریلوی علما ‘‘لکھتا ہوں تو بعض (بریلوی )احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ آپ اس طرح کی تعبیر استعمال نہ کریں-بہرحال اس میں شک نہیں کہ قدیم مسلک اہل سنت کو جس طرح عالم عرب میں مسلک صوفیہ کا عنوان دے دیا گیا،اسی طرح برصغیر ہندوپاک میں اسے بریلویت یا مسلک اعلیٰ حضرت کا عنوان دے دیا گیا-ظاہرہے ،جب یہ عنوان سازی ہورہی تھی اس وقت احباب اہل سنت کی نگاہوں میں اس کے منفی اثرات نہیں تھے،جو مستقبل میں پیش آنے والے تھے-اب اس کا احساس شدید ہونے لگا ہے،اب برصغیر میں بھی یہ اصطلاح غیر واضح ہوکر رہ گئی ہے-بریلویت اہل سنت کی نمائندگی کرنے کے بجائے عام نگاہوں میں ایک مخصوص فرقے کی علامت بن گئی ہے-برصغیر میں بھی اب اس بات کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ اہل سنت کی قدیم تعبیر کی بازیابی ہواور اسے اس کا صحیح مقام دیا جائے-
(۳)اہل سنت کے اپنے عقائد و امتیازات ہیں،جن کا توارث صدیوں پر محیط ہے-اہل سنت کی تعبیر و تشکیل انہی بنیادوں پر کی جانی چاہیے- اہل سنت کو انہی افکارو عقائد کی روشنی میں پیش کیا جاسکتا ہے-مسلمانوں کے سواد اعظم نے جن عقائد پر اتفاق کیا،وہی اہل سنت کے عقائد ہیں- جن عقائد میں خود علمائے اہل سنت مختلف ہوگئے،وہ سنیت کے عقائد نہیں ہیں،وہ ثانوی درجے کے فروعی عقائد ہیں،جو کبھی سنیت کی بنیاد نہیں بن سکتے - مثال کے طور پر اعلیٰ حـضرت فاضل بریلوی ،پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے لیے علم ماکان ومایکون ثابت مانتے تھے،لیکن جب ایک عرب عالم کی کتاب ان کے موقف کے خلاف آئی ،جو اتفاق سے ’’حسام الحرمین‘‘کے مصدقین میں تھے ،اس پر فاضل بریلوی کے مخالفین نے واویلا مچایااورکہا کہ فاضل بریلوی کہتے ہیں کہ یہ ان کے فتویٰ’’حسام الحرمین‘‘کے مصدق ہیں،جب کہ یہ فاضل بریلوی کے علم غیب کے موقف کو تسلیم نہیں کرتے- اس پرفاضل بریلوی نے واضح کیا کہ اگرمذکورہ عالم دین علم ماکان و مایکون کا انکارکرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے،کیوں کہ اہل سنت خود اس مسئلے میں مختلف ہیں-اکثر فقہا اور محدثین اس کے مخالف ہیں،جب کہ صوفیہ اس کے قائل ہیں اور میں یہاں صوفیہ کے مسلک پر ہوں-فاضل بریلوی نے یہ بھی واضح کیا کہ عقائد کا پہلا درجہ ضروریات دین کا ہے،جس پر اسلام کی بنیاد ہے-دوسرا درجہ ضروریات اہل سنت کا ہے،جن پر تمام اہل سنت متفق ہیںاور ان سے اختلاف رکھنے والا گمراہ ہے،تاہم دین سے خارج نہیں ہے اورتیسرا درجہ وہ ہے،جس میں خود اہل سنت مختلف ہیں، ان کا ماننایا نہ ماننا،مدارسنیت نہیں ہے- تفصیل کے لیے دیکھئے فاضل بریلوی کارسالہ’’خالص الاعتقاد‘‘-
فاضل بریلوی کے اس واضح موقف سے اہل سنت اور سنیت کو سمجھنا کس قدر آسان ہے-لیکن افسوس کہ خو دان کے محبین کے بڑے حلقے میں یہ فکر جمی ہوئی ہے کہ فاضل بریلوی کے ہرہرموقف اور نظریے کوتسلیم کرناعین سنیت ہےاور ان کے کسی بھی نظریے سے علمی اختلاف کرناان سے اور سنیت سےبغاو ت ہےاور اعلیٰ حضرت کی محبت عین سنیت اور ان سے محبت نہ کرنا گمرہی ہے-بعض حضرات بہت نیچے آئے تو یہ کہنے لگے کہ اعلیٰ حضرت سے مسائل میں تو اختلاف کیا جاسکتا ہے،عقائد میں کسی طرح اختلاف روانہیں ہے- 
  (۴)ابھی کچھ دنوں قبل’’امین شریعت‘‘(بریلی)نامی ایک رسالے پر نظر پڑی -مضمون نگار کوئی مفتی خالد علی رضوی شمسی ہیں-مضمون کا مہمل اور بے معنی عنوان یہ تھا’’فتنوں سے خبرادرمیری بے خبری ہے‘‘-یہاں اسی مضمون کا ابتدائی حصہ حاضر خدمت ہے:     
’’ایک سازش کے تحت ضروریات دین کے مقابل ضروریات مذہب اہل سنت کی اصطلاح پڑھنے کو مل رہی ہے،اس پر بعض احباب نے عام فہم تبصرہ کی درخواست کیا (کی)ہے-وہابیوں ،دیوبندیوں اور دیگر مرتدین کو حکم کفر سے بچانے اور حسام الحرمین شریف جس میں ایسوں کی علمائے عرب و عجم نے تکفیرکیا(کی)(۶)،اس کوبے اثرکرنے کے لیے ضروریات دین کے مقابل ضروریات اہل سنت کی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے - جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے بائیسواں (بائیس ویں)فقہی سیمینار میں پہلی مرتبہ یہ اصطلاح سامنے آئی، جس پر سیمینار کے ایک مندوب مولوی(مفتی) رضاء الحق اشرفی نے یوں اظہار خیال فرمایا کہ اب سے پہلےقدیم و جدید کتابوں میں میرے مطالعہ کی حد تک یہ اصطلاح یعنی ضروریات دین کے مقابل ضروریات اہل سنت دیکھنے کو نہیں ملی،مولوی رضاء الحق صاحب کو حیرت اس لیے ہوئی کہ انھوں نے اب تک ضروریات دین کی تعبیر سنیت اور سنیت کی تعبیر ضروریات دین ہی پڑھا تھا(پڑھی تھی) اور دونوں اصطلاحوں میں وہ نسبت تساوی جانتے تھے،مگر ضروریات دین کے مقابل ضروریات اہل سنت کو لایا گیا تو انھیں کہنا پڑا ، جو سطور گزشتہ میں مسطور ہوا،مگر سوال ہے کہ ایسی صریح باطل بات پر بھی مولوی رضاء الحق کے علاوہ اور کسی نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟‘‘   
مفتی صاحب قبلہ سے میں صرف اتنا عرض کروں گا کہ ’’ضروریات دین‘‘ کے مقابل ’’ضروریات اہل سنت‘‘نئی ایجا د یا نئی اصطلاح نہیں ہے اور نہ کوئی سازش ہے،اس پر خود سے غور فرمالیں تو بہتر ہوگا،ورنہ ایں طعن منجرمی شود بہ اکابر دین-سردست آپ فاضل بریلوی کی کتاب ’’خالص الاعتقاد ‘‘ضرورپڑھ لیں،مجھے یقین ہے کہ آپ جامعہ اشرفیہ،مبارک پور کے سیمینار کے خلاف احتجاج کے بجائے تائیدکرناپسندفرمائیں گے-
 قارئین سے عرض ہے کہ یہ طویل اقتباس نذرکرنے کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ موجودہ زمانے میں سنیت کی تعبیر و تشریح کس قدر ضروری ہوگئی ہے،کیسے کیسے لوگ دین اور سنیت کی حقیقت سے بے خبررہ کر بھی خود کو باخبر سمجھ رہے ہیں-علما کا یہ حال ہے تو عوام کا کیا ہوگا،اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے-
  چیچنیااعلامیہ پرچندسوالات:-
کہاوت ہے کہ بیل پکے تو کوے کوکیا؟یہ کہاوت مجھے اس وقت زیادہ یاد آئی ،جب گزشتہ دنوں چیچینیا کی راجدھانی گروزنی میں منعقد کانفرنس ’’اہل سنت کون ہیں؟‘‘پر ہندوپاک کے سنی بریلوی حلقے میں ضرورت سے زیادہ شادیانۂ مسرت کی گونج سنائی دی-ایک صاحب نے اس کی اردو رپورٹ میرے واٹس ایپ پر بھیجی ،جس میں اس بات کی صراحت تھی کہ وہابیوں کو سنیت سے خارج کردیا گیاہے-اس کے نیچے آں موصوف نے مجھے کلمات تبریک پیش کرتے ہوئے لکھا کہ مبارک ہو کہ وہابیوں کو اسلام سے خارج کردیا گیاہے-میں نے قبلہ موصوف سے پوچھاکہ کہاں اور کس نے خارج کیا ؟جواب آیا ،چیچینیا کانفرنس میں-میں نے عرض کیا :لیکن آپ کی رپورٹ میں تو اس کا ذکر نہیں ہے،کہیں ایسا تو نہیں کہ سنیت سے اخراج کو آپ اسلام سے اخراج سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں؟بے چارے خاموش ہوگئے-آں موصوف کے علاوہ بھی بہت سے بریلوی حضرات اس بات پر سوشل میڈیا میں بغلیں بجارہے تھے کہ چیچینیا کانفرنس میں وہابیوں کو سنیت سے خارج کرکے اسلام سے خارج کردیا گیا ہے اور علمائے عرب اور شیوخ ازہر کا فیصلہ ہمارے بریلویانہ موقف کو مستحکم کرتا ہے،حالاں کہ چیچینیا کانفرنس میں اہل سنت کی تعبیر و تشریح ان کی محدود فکر وخیال پر کسی تازیانے سے کم نہیں-یہ سب دیکھتے ہوئے فیس بک کی وال پر ہم نے درج ذیل سوالات قائم کیے:    
 ’’خبروں کے مطابق چیچنیا کانفرنس میں اشعریت اور ماتریدیت کے ساتھ تصوف اور تقلید کو بھی سنیت کا لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے، اس پر یہ سوال اپنی جگہ کہ اس وقت اس کانفرنس کے سیاسی اور سماجی پس منظر کیا ہے،ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سنیت کی مذکورہ بالا تعریف ہندوپاک کے سنی بریلوی حلقے کے لیے قابل قبول ہے؟ یا یہ کہ سنیت کی عالمی یا مقامی صورت حال کے پیش نظر ابھی اس میں مزید شرطوں کا اضافہ لازمی ہے؟ اگر اضافہ لازمی ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ اضافی شرطیں کیا ہیں؟ اور کیا ہندوپاک کے نمائندگان اہل سنت ان شرطوں کے اضافے کے لیے مذکورہ بالا کانفرنس کے ذمہ داروں سے یا شیوخ ازہر سے جو اس کانفرنس میں پیش پیش تھے، رابطہ کرنے کی زحمت کریں گے؟
کانفرنس کی مذکورہ بالا قرار داد سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ وہابیہ اہل سنت سے نھیں ہیں، اس پر ہندوپاک کے سنی بریلوی حلقے میں بڑی مسرت ہے، لیکن اب یہاں یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا ہندوپاک کا بریلوی طبقہ وہابیوں کے سنیت سے اخراج پر قانع ہے یا مزید آگے بڑھ کر وہ ان کو دین سے بھی خارج کریں گے؟
اگر یہ حضرات صرف سنیت سے اخراج پر قانع ہیں تب تو انھیں حج کے ایام میں وہابی امام کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی تکلف نھیں کرنا چاہیے کیوں کہ اہل سنت کا موقف یہی ہے کہ اگر امام بدعتی ہے اور اس کے عزل پر قدرت نھیں اور دوسرا آپشن نھیں تو جماعت اور جمعہ اس امام کے پیچھے ادا کی جائے گی اور اس کا اعادہ بھی نھیں کیا جائے گا، جو لوگ اہل بدعت کے پیچھے نماز کو مطلقا ناجائز کہتے ہیں وہ اہل سنت کے نزدیک اہل سنت نھیں، اہل بدعت ہیں- اسی اصول کے پیش نظر شیوخ ازہر وہابیہ کو سنیت سے خارج بھی کرتے ہیں اور ان کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے ہیں-
اور اگر ہندوپاک کے سنی بریلوی وہابیوں کے سنیت سے اخراج پر قانع نھیں ہیں تو پھر انھیں چاہیے کہ چیچنیا کانفرنس کی قرار داد پر جلسۂ مسرت کرنے کے بجائے جلسۂ احتجاج کریں اور شیوخ ازہر سے وہابیہ کی تکفیر کا مطالبہ کریں، بصورت دیگر خود شیوخ ازہر کے حوالے سے اپنی رائے قائم کریں اور یہ بتائیں کہ وہابیہ کو مسلمان سمجھنے والے کا کیا حکم ہے؟ وہابیوں کو مسلمان سمجھنے والے کافر ہیں، خارج از اہل سنت ہیں یا خود بھی وہابی ہیں؟
چیچنیا کانفرنس کی قرار داد کی رو سے ہندوپاک میں بڑی تعداد میں موجود دیوبندیت کا کیا حکم ہے؟ اس پر بھی گفتگو کی جانی چاہیے، یہ جماعت اشعریت و ماتریدیت کے ساتھ تصوف اور تقلید کی بھی قائل ہےـ، بعض حلقے سے اس قسم کی آواز آئی ہے کہ اس کانفرنس میں دیوبند کا کوئی نمائندہ شریک نھیں ہوا، جس کے معنی یہ ہیں کہ دیوبند بھی سنیت سے خارج ہے، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ استدلال درست ہو تو اس کی رو سے صرف دیوبندیت ہی نھیں، بریلویت بھی سنیت سے خارج ٹھہرے گی ،کیوں کہ اس کانفرنس میں بریلی سے بھی کوئی نمائندہ شریک نھیں تھا- ہاں یہاں یہ بات ضرور کہی جائے گی کہ دیوبندیت تقلید و تصوف اور اشعریت و ماتریدیت کے ماننے کے باوجود سنیت بلکہ دین سے خارج ہے، کیوں کہ اساطین دیوبند پر گستاخی رسالت اور انکار ضروریات دین کی پاداش میں حسام الحرمین میں کفر کا فتوی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ تشریح اپنی جگہ مطلوب ہے کہ دیوبند کے چار اساطین کی تکفیر کا انطباق عصر حاضر میں کن کن پر ہوتا ہے؟ یہ مرحلہ اگر فخر ازہر کہے جانے والے مفتی اختر رضاخان ازہری اور دیگر بریلوی علما کے اتفاق سے طے ہوجاتا ہے تو اس کے بعد ان کو چاہیے کہ اس پر شیوخ ازہر کی تصدیقات بھی حاصل کریں، کیوں کہ اس وقت عالمی سطح پر ازہر اسلام اور سنیت کی نمائند گی کررہا ہے، ایسے میں آج حسام الحرمین سے کہیں زیادہ حسام الازہر کی ضرورت ہے-
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه، اللهم اهدنا الصراط المستقیم واجمع الأمة المسلمة علیہ، واحفظ قلوبنا من أمراض النفاق، والتحزب والتفرق، لک الحمد، و منک البدایۃ والیک النھایۃ- ‘‘
جوابات: فیس بک پر پوسٹ ہونے والے مذکورہ سوالات پر درجنوں احباب نے کمنٹس کیے-بعض تائیدی تھے تو بعض میں جزوی یا کلی طور پر اختلا ف و احتجاج بھی تھا،لیکن کسی بندۂ خدا نے ان سوالات کے جوابات نہیں دیے-اب ذیل میں چند اہم جوابی نکات رقم کیے جاتے ہیں-
کانفرنس کا پس منظر:-
خوارج عصر جواس وقت عالم اسلام اور عالم انسانیت میں خون کی ندیاں بہا رہے ہیں،یہ لوگ خود کو مسلمان اور اہل سنت و جماعت ہونے کے مدعی ہیں-گروزنی کانفرنس کے مختلف رپورٹس اور تبصروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل نشانہ انہی خوارج کو سنیت اور اسلام کی نمائندگی سے خارج کرنا تھا-یہ قابل ستائش قدم تھا- دلچسپ بات یہ ہے کہ چیچینیا کانفرنس کا جو اعلامیہ جاری ہوا ہے ،اس میں نامزد طور پر سعودی اور وہابی علما کو بھی سنیت سے خارج نہیں کیا گیا ہے بلکہ اہل سنت کے طبقات میں اشاعرہ اور ماتریدیہ کے علاوہ ان محدثین کو بھی شامل کیا گیا ہے،جو اشاعرہ اور ماتریدیہ کی طرح صفات باری میں تاویل کے قائل نہیں ہیں بلکہ تفویض کے قائل ہیں-ظاہر ہے ،یہی امام احمد ابن حنبل اور حنابلہ کا مذہب ہے-سعودی علما بالعموم اپنے آپ کو حنبلی مکتب فقہ سے جوڑتے ہیں،شیخ ابن تیمیہ اور شیخ ابن عبدالوہاب کو بھی یہ حضرات حنابلہ میں شمار کرتے ہیں،ایسے میں وہابی علما کو گروزنی کانفرنس سے خوش ہونا چاہیے تھا،لیکن انٹرنیشنل میڈیا اور انٹرنیٹ پر ہونے والے ان کے تبصروں سے ان کے شدید ردعمل کا اندازہ ہوا- یہ احتجاج ان کی طرف سے گویا اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کا تعلق امام احمد ابن حنبل کے مسلک تفویض سے نہیں ہے اور شاید وہ تفویض پر راضی نہ رہ کر تشبیہ اور تجسیم کے مدعی ہیں-نعوذ باللہ من ذالک وھدانا اللہ و ایاھم- 
کانفرنس کے پس منظر کے تعلق سے درج بالا وضاحت کے باوجود محب گرامی مولانا منظرالاسلام ازہری کے وہ سوالات اپنی جگہ ہیں ،جو انھوں نے ’’جام نور‘‘کے سوالات کے جواب میں فیس بک پر لکھا ہے:   
’’اس وقت میری دلچسپی صرف یہ جاننے کی ہے کہ کیا مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت سنیت کی تعریف ہے یا عالم اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عذاب سے نکالنے کی فکر ؟یہ مشائخ یقیناً ہمارے لیے قابل احترام ہیں، مگر کیا سعودی، چین، برما، سوڈان، ہندوستان، عراق، یمن، شام، لیبیااور ان جیسی دوسری حکومتوں سے کھلے عام یہ مطالبہ نہیں کرسکتے کہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکا جاے؟ کیا یہ وقت اس بات کا نہیں ہے کہ مشائخ عالم عرب کی حکومتوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ یورپ اور امریکا جیسی بڑ ی طاقتوں سے اپنی شرط منوانے کی کوشش کریں؟ اس وقت سنیت کی تعریف کرنا اور کسی کو مسلمان رکھنے اور نہ رکھنے پر اتفاق کرنا امت کا مسئلہ نہیں ہے- علماے ہند کی ذمہ داری ہے کہ وہ بہ حیثیت امت سامنے آئیں اور امت کی فکر کریں-‘‘
سنی بریلوی علما کااتفاق؟
ہندوپاک کے معاصرسنی بریلوی علما کو جہاں تک میں جانتا ہوں ،وہ چیچینیا کانفرنس میںسنیت کی مذکورہ بالاتعریف سے اتفاق نہیں کرسکتے، کیوں کہ وہ ’’حسام الحرمین‘‘کی تصدیق سے دست بردار نہیں ہوسکتے،اس کے بعد یہ بڑا اور اہم سوال قائم ہوجاتا ہے کہ سنیت کسی متعین فکر یا عقیدے کی تصدیق کا نام ہے یاکسی کتاب یا فتوے کی تصدیق کا نام؟موجودہ گلوبلائزیشن کے عہد میں مذکورہ علما کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ ان کی یہ شرط ملکی تناظر میں ہے یا عالمی تناظر میں؟بہردوصورت اپنی بات اہل سنت کے عالمی نمائندگان ،بالخصوص علمائے ازہر کے روبرو رکھنا ہوگاتاکہ اہل سنت کی تفہیم عالمی تناظرمیں ہوسکے،سنیت کی آفاقیت قائم رہے اور مستقبل میں ہماری شناخت اور تعلق اہل سنت و جماعت کے عالمی دھارے سے جڑا رہے-کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا پرسکون جذبۂ حقانیت ہمیں ہی سواد اعظم سے کاٹ دے اور ہم عالمی سطح پر خودایک فرقہ بن کر رہ جائیں ،جس کے لیے اپنوں کی طرف سے غیرشعوری سرگرمیاں اور دوسروں کی طرف سے شعوری کوششیں جاری ہیں-
وہابیہ کی تکفیر کا مسئلہ:-
گزشتہ دنوں اپنے ایک استاذ،جوجامعہ اشرفیہ مبارک پور کے مفتی بھی ہیں،سے میں نے دریافت کیا کہ حضور!وہابیہ کی تکفیر کے سلسلے میں کیا موقف ہے؟’’فتاویٰ رضویہ‘‘میں دونوں طرح کی عبارتیں ملتی ہیں،حتی کہ بعض مقامات پر اساطین وہابیت شیخ ابن تیمیہ ،شیخ ابن عبدالوہاب اور شاہ اسماعیل دہلوی کی تکفیر سے بھی خود کو روکا ہے اور اپنے آپ کو متکلمین کے مذہب پر رکھتے ہوئے عدم تکفیر کو مسلک محتاط قراردیا ہے-
استاذگرامی نے ارشادفرمایا:ہاں!یہ اشکال بہت سے لوگوں کو ہوا ہے-میں نے اس میں تطبیق کی یہ راہ نکالی ہے کہ جب تک علمائے دیوبند کی صریح کفریات سامنے نہیں آئی تھیں،اس وقت تک وہ کف لسان اور تاویل کرتے رہے اور جب یہ کفریات سامنے آگئیں تو اس کے بعد انھوں نے ان کی تکفیر کردی-
میں نے عرض کیا:لیکن موجودہ سعودی علما کو علمائے دیوبند کی کفریات کی کیا خبر؟اب تو معاملہ الٹا ہوگیا ہے اور بعض متشدد وہابیہ جس طرح بریلو یت کی تردید کرتے ہیں،اسی نہج پر دیوبندیت کی بھی تردید کرتے ہیں-تصوف کی وجہ سے اکابر پرستی اور قبر پرستی کا الزام ان پر بھی ہے-
استاذ گرامی نے کہا کہ ہاں! یہ مسئلہ تو ہے،اس پر غورکرنے کی ضرورت ہے-
دوسری طرف علمائے ازہر کو لے لیجیے کہ وہ ایک طرف وہابیت کی شدیدترید بھی کرتے ہیں،لیکن اس کے باوجود حرمین میں اقتداکے بھی قائل و عامل ہیں-اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انھیں اہل قبلہ اور اہل اسلام سمجھتے ہیں،ورنہ وہ ان کے پیچھے نماز کیوں پڑھتے،کیوں کہ اس پر تو اہل سنت کا اتفاق ہے کہ جہاں ترک اقتدا میں ترک جمعہ و جماعت لازم ہو ،وہاں اہل ہویٰ اوراہل ضلالت کی اقتدا کی جائے گی-مزید یہ کہ ابھی گزشتہ دنوں سعود ی نیشنل ڈے کے موقع پر ۲۲؍ستمبر ۲۰۱۶ء کو مفتی اعظم مصرشیخ ابراہیم شوقی علام نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو مبارک باد دی اور مصر و سعودی کے تحفظ کے لیے دعائیں کرتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات استوار کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا-واضح رہے کہ یہی مفتی اعظم اپنی دینی و علمی خدمات کے اعزاز میں امام حرم شیخ السدیس کے ہاتھوں اوائل ستمبر میں تقدیری شیلڈ سے بھی نوازے جاچکے ہیں،جس کی تفصیل برقی ذرائع پر موجود ہے-المختصر!ہندوپاک کے سنی بریلوی علما پرلازم ہے کہ وہ وہابیت کے تعلق سے اپنا موقف انتہائی واضح انداز میں پیش کریں اور اس کو اہل سنت کے عالمی دھارے سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کریں-بطورخاص علمائے ازہر-’’اگروہ اہل سنت ہیں‘‘- سے رابطے استوار کریں اور اپنی بات ان کے سامنے رکھیں تاکہ متفقہ طورپر کسی ایک نتیجے پر پہنچنا آسان ہوجائے-
اس کے علاوہ دیگر سوالات پر بھی ہمارے بڑے علما اور ذمہ داران کو غورکرنے کی ضرورت ہے،تاکہ موجودہ گلوبلائزیشن کے عہد میں ہم خود کواسلام اور سنیت کے عالمی دھارے سے جوڑکررکھ سکیں،بصورت دیگر مین اسٹریم سے فکری و عملی طورپرالگ ہونا مستقبل میں ہمارے لیے کس قدر نقصان دہ ہوسکتا ہے،اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا-                       
-----------------------------------------------------------------
 حواشی:
(۱) گویا سلسلۂ رفاعیہ،سلسلۂ مداریہ اور سلسلۂ مجددیہ کے وہ حضرات ،جوتمام اولیا پر بلا استثنا غوث پاک کو فضیلت نہیں دیتے،وہ سنیت سے خارج ہیں-
(۲) یعنی عرب و عجم کے تمام صاحب سلاسل شیوخ اورعلما،جوفاضل بریلوی کے فتوے سے پہلے یا بعد میں داخل مسجد جمعہ کی اذان ثانی کے قائل اور عامل رہے یا اب بھی ہیں، وہ سب سنیت سے خارج ہیں-
(۳) یعنی وہ تمام علما و مشائخ جو حی علی الفلاح پر کھڑے نہیں ہوتے،بیک جنبش قلم سنیت سے باہر ہیں،جب کہ بالعموم عالم عرب میں سنی علما و مشائخ کے یہاں اقامت کے شروع میں ہی کھڑا ہونا مروج ہے-
(۴) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سنی ہونے کے لیے ’’حنفی‘‘ہونا شرط ہے،کیوں کہ احناف کے علاوہ دیگر فقہی مکتب میں’’آمین بالجہر‘‘پر عمل ہے-گویا شوافع وغیرہ سنی نہیں رہے-  
(۵) یعنی اب وہ علما و مشائخ اہل سنت ،جن سے فاضل بریلوی کےعلمی اختلافات رہے اوردونوں طرف سے تردید وابطال کا سلسلہ رہا،اگر ان کےیا ان کی اولادوں یا ان کے وابستگان کے اندر اعلیٰ حضرت سے عقیدت نہ رہی تو وہ بھی سنیت سے محروم رہے- 
(۶) مفتی صاحب کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ’’حسام الحرمین‘‘میں صرف پانچ مخصوص اشخاص کی تکفیر کی گئی ہے،حسام الحرمین کا موضوع وہابیہ کی تکفیر نہیں ہے-
https://drive.google.com/file/d/0B7PawD8kIlKuRHdpQ21vdVBiemM/view?usp=sharing

https://docs.google.com/uc?export=download&id=0B7PawD8kIlKuRHdpQ21vdVBiemM