Thursday 31 August 2017

تصوف، صوفیہ اور دہشت گردی

0 comments
تصوف، صوفیہ اور دہشت گردی
از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی                                         
------------------------------
میں ایک بات قارئین سے شیئر(Share ) کرنا چاہوں گا کہ دہشت کردی کے حوالے سے جماعت اہل سنت کے بعض افراد کا نظریہ منفی ہے- ان کا یہ ماننا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں گمراہ اسلامی فرقے ہی ملوث ہیں اور وہی اسلام اور نظریہ جہاد کی پر تشدد تعبیر و تشریح کے ذریعہ دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کررہے ہیں، اس لیے ہمیں کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ ابن تیمیہ اور ابن عبد الوہاب کی ہم نوا جماعتیں دہشت گرد ہیں اور سنی صوفی اسلام کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جب کہ در حقیقت ایسا نہیں ہے- اب سے کچھ دنوں قبل تک میڈیا بھی اسی لیے صوفی اسلام کی مدح سرائی کرتا رہا ہے لیکن کیرالا کے عبد الجبار کی گرفتاری کے بعد اب میڈیا کوبھی یہ احساس ہو چلا ہے کہ ایک صوفی بھی وقت آنے پر اپنے ہاتھ میںمشین گن لے سکتا ہے- انگریزی روز نامہ ’’ دی ہندو‘‘ مورخہ ۱۶؍ فروری ۲۰۰۹ کے ادارتی صفحے پر ٹیررزم ایکسپرٹ پروین سوامی کا ایک مضمون بعنوانthe Sufi with Kalashnikov شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے تجزیاتی انداز میں لکھا ہے کہ کیسے اور کن اسباب کی بنا پر ایک صوفی بھی دہشت گردی پر آمادہ ہوجاتاہے- عبد الجبار کی سرگزشت میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ایک صوفی مسلمان ا ور حضرت شیخ ابن العربی کی تحریروں کا دل دادہ تھا- چشتی قادری سلسلے کی ایک شاخ نوریشہ سلسلے سے تعلق رکھتا تھا- آگے انہوں نے لکھا ہے کہ اسلامی تاریخ میں صوفیہ پہلے بھی تشدد ( خواہ وہ اسلامی نظریے سے جہادرہا ہو یا کچھ اور) میں ملوث رہے ہیں- مغلیہ حکومت کے زمانے میں مشہور صوفی شاہ ولی اللہ (علیہ الرحمہ) نے احمد شاہ ابدالی کو جاٹ اور مراٹھوں کے خلاف جنگ کی دعوت دی اور یہ دلیل دی کہ کافروں کا مقدر ذلت ہی ہے- ایسے ہی مشہور صوفی امام غزالی سے جہادی تحریک الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا بے حد متاثر تھے- اگر چہ حسن البنا نے امام غزالی کے صوفیانہ خیالات کو رد کیا ہے لیکن محققین کے مطابق الاخوان کے صوفیانہ اعمال جیسے شیخ کی قسم کھانا، ان کی بیعت کرنا اور ان جیسے دوسرے اعمال القاعدہ جیسی تنظیموں میں بھی رائج ہیں- اسی طرح سید احمد رائے بریلوی نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے خلاف جہاد کیا جب کہ وہ خود ایک صوفی تھے اور آج بھی جہادی جماعتیں ان سے انسپائریشن(Inspiration ) لیتی ہیں- اخیر میں مضمون نگار نے مثبت انداز میں اپنے مضمون کو یہ لکھتے ہوئے ختم کیا ہے کہ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہوتے ہیں اور وہ اسباب جب بھی پائے جائیں گے دہشت گردی جنم لے لے گی ، کوئی بھی انسان، کسی بھی مذہب کا ہو، کسی بھی سلسلے سے تعلق رکھتا ہو، دہشت گردی پر آمادہ ہوجائے گا-
مذکورہ بالا تحریر کے خلاصہ سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اسلام، تصوف اور گمراہ جماعتوں کامطالعہ ان افراد کا کیسا ہے اور کس نوعیت کا ہے- اس میں بہت سے مغالطے ہیں لیکن اس سلسلے میں میرا اپنا ایک تجربہ ہے اور اسی بنا پر عبد الجبار جیسے صوفی افراد کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے وابستگی پر مجھے کوئی حیرانی نہیں ہے- ا ولاً تو شمالی ہندوستان اور جنوبی ہندوستان کے صوفیہ بہت سے معاملات میں مختلف ہیں، جنوبی ہندوستان کے صوفیہ ہمیشہ سے صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریہ جہاد کو اپنے سینے سے لگائے رہے جب کہ تبلیغی ، دعوتی حکمتوں کی وجہ سے اور دوسرے اسباب کی وجہ سے شمالی ہندوستان کے صوفیہ نے عام طور پر دعوت جہاد کے بجائے انسانی رواداری کو عام کیا لیکن دونوں اپنی اپنی جگہ پر مکمل طور پر صحیح تھے اور کسی کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایاجاسکتا- دوسری بات یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کیرالا ہمیشہ سے صوفیۂ کرام کا مرکز رہا ہے اور انہی کی شبانہ روز کوششوں سے وہاں اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہوئی، گزشتہ دہائیوں میں جب جماعت اسلامی نے اپنے قدم وہاں جمانے کی کوشش کی تو انہو ںنے اپنا پروفائل شمالی ہندوستان کے طرز کا متشددانہ نہیں رکھا،بلکہ بہت سے صوفیانہ رسوم ورواج کو جو ںکا توں رہنے دیا، تاکہ اجنبیت حائل نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ وہاں کے جماعت اسلامی سے وابستہ افراد موسیقی فلم اور اس جیسی دوسری سوسائٹیوں کی سرپرستی کرتے ہیں- خود سال بھر قبل میرے ایک روم میٹ تھے، وہ جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، جے این یو میں شعبہ ادب اور جمالیات (Arts&Aesthetic )میں ریسرچ کر رہے تھے، ابن العربی کی فصوص الحکم کا انگریزی ترجمہ Pearls of wisdom اور فتوحات مکیہ کا انگریزی ترجمہMekken Revelations کثرت سے مطالعہ کرتے تھے، مولانا روم کی مثنوی کا انگریزی ترجمہ رکھے ہوئے تھے اور دنوں شخصیات سے بے حد متاثر تھے، لیکن نظریاتی اعتبار سے جماعت اسلامی کے ہارڈ کور تھے، اب اگر بالغرض کبھی وہ کسی قسم کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں گرفتار ہوتے ہیں تو یہ کہا جائے گا کہ ایک صوفی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے، جب کہ درحقیقت ایسا نہیں، اس لیے اس سلسلے میں ہمارا نظریہ واضح رہنا چاہیے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ ہم دہشت گردی کے معاملات کو کسی مذہب ، جماعت اور سلسلے سے جوڑ کر نہ دیکھیں، کیوں کہ یہ ہماری بہت بڑی غلطی ہوگی اور اس کے نتائج سنگین ہوں گے بلکہ ہم جب بھی اس موضوع پر گفتگو کریں تو اسباب و وجوہ کے تناظر میں کریں، یہی ہمارے لیے سود مند ہوگا-

نفرت کی تجارت

0 comments
نفرت کی تجارت 
                                            از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی
 ------------------------------
نفرت کے دو سودا گر:- 
۱۴مئی ۲۰۰۸ کو اسرائیلی ریاست کے قیام کے ساٹھ سال مکمل ہوگئے ہیں، سنگھ پریوار کے محبوب ترین ملک اسرائیل میں اس وقت جشن کا سلسلہ جاری ہے، اس جشن کو ’’جشن جنگ آزادی‘‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان ساٹھ سالوں کو کس نام سے یاد کیا جائے، گناہ کے ساٹھ سال کہیں یا نسل کشی کے ساٹھ سال، بربریت کے ساٹھ برس قرار دیں یا حقوق انسانی کی پامالی کے ساٹھ برس، میرا خیال یہ ہے جو بھی کہہ لیا جائے بالکل درست اور عین مناسب ہے-یہ وہی ’’جنگ آزادی‘‘ تھی جس میں ہونے والی نسل کشی کے متعلق اسرائیلی مورخ ’’بینی مورس‘‘ نے نہایت بے شرمی کے ساتھ لکھا ہے کہ اس میں سات لاکھ فلسطینیوں کا قتل عام ضروری تھا، کیوںکہ تاریخ میں بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے نسل کشی کا جواز فراہم ہوجاتا ہے اور ایسی ہی دہشت گرد ریاست کے جشن آزادی کے ’’سنہری موقع‘‘ پر اسرائیل حاضری کے دوران امریکہ کے ’’صدر ذی وقار‘‘ ’’حقوق انسانی کے علمبردار‘‘ جارج واکر بش نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کی خوب ثنا خوانی کی اور فر مایا کہ اسرائیل کا قیام در اصل بائبل کی پیش گوئی کی تکمیل اور ابراہیم و موسی اور داؤد (علیھم السلام ) سے کئے گئے رب تعالیٰ کے ایک وعدے- یعنی اولاد اسرائیل کے وطن کا تحفظ ہے-
اس وقت ہمیں قضیۂ اسرائیل اور فلسطین سے کوئی سرو کار نہیں ہے، اسرائیل کا تذکرہ صرف اس مناسبت سے آگیا کہ اسرائیل اور سنگھ پریوار میں چند باتیں مشترک ہیں، دونوں ہی نفرت کے سوداگر ہیں، وہاں صہیونی نظریہ سرگرم عمل ہے تو یہاں ہندو ازم کے احیا کا، وہ فلسطینیوں کے دشمن ہیں تو یہ ہندوستانی مسلمانوں کے، اور یہ دونوں ہی اسلام اور مسلمانوں کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں-
خمیر میں نفرت: -
 ہندو مت کے احیا کی نمائندہ سب سے قدیم تنظیم آر ایس ایس ہے جو اکثر ی طور پر اعلیٰ طبقات کے ان ہندوؤں پر مشتمل ہے جن کا تعلق ہندوستان کے شہروں میں رہنے والے متوسط گھرانے سے ہے، اس تنظیم نے اپنے روز اول سے ہی نفرت کی کاشت کی ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ماحول کو بگاڑا ہے اور اس ملک کی جمہوری فضا کو زہرآلود کرنے کی کوشش کی ہے، ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا، ہمیشہ مسلمانوں کو مشکوک نظر سے دیکھتی ہے گویا یہ کہہ لیا جائے کہ اس کی پوری تاریخ ہی نفرت کی داستان سے بھری ہوئی ہے-
نفرت سے بھری اس تاریخ سے اگر کوئی مسلمان پردہ ہٹانے کی کوشش کرے تو شاید مشتبہ قرار دے دیاجائے، لیکن ہم یہاں ایسے ملک کے مورخ کی شہادت پیش کریںگے جو آر ایس ایس کا فیوریٹ ملک ہے اور جس ملک کے مورخ کی شہادت ناقابل تردید ہوگی، آرنٹ شانی (Ornit Shani) حیفہ یونیورسٹی اسرائیل کے ڈپارٹمنٹ آف ایشین اسٹڈیز میں لکچرار ہیں، فرقہ وارانہ فسادات اور قتل عام کے واقعات میں سنگھ پریوار کے رول سے متعلق ۲۱۵ صفحات پر مشتمل ان کی ایک کتاب کیمبرج یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے Communalism, caste and Hindu Nationalism the voilence in Gujrat اس کتاب میں انھوںنے ہندوستان میں ہوئے مسلم کش فسادات، اس کے در پردہ عوامل اور پھر اس میں سنگھ پریوار کے رول کا علمی انداز میں بڑی گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ ہندوستان میں ذات پات کی سیاست سے ہندو قومیت کے جذبات کو فروغ ملا ہے (کتاب پر مکمل تبصرہ ملاحظہ کرنے کے لیے دیکھئے اے جی نورانی کا مقالہ Origins of hatred ، فرنٹ لائن شمارہ ۲۳ مئی ۲۰۰۸) اور ان کے اس موقف کی تائید اس واقعے سے ہوتی ہے کہ ۱۹۹۰ میں جب وی پی سنگھ نے منڈل کمیشن کی رپورٹ کو عملی جامہ پہنانے کی بات کہی تو اس کے رد عمل میں اڈوانی نے رتھ یاترا شروع کی اور مسلم مخالف ایجنڈوں اور ہندو قومیت کی اساس پر ہندوؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی ، یوں ہی گجرات میں ہونے والا ۱۹۸۵ کا حادثہ جو در حقیقت ذات برادری کا تنازعہ تھا حیرت انگیز انداز میں فرقہ وارانہ تشدد میں اسی لیے بدل گیا تھا کہ اس وقت ہندو قومیت کا سہارا لے کر بھڑکتے ہوئے ذات پات کے جذبات کو مسلم مخالف جذبات میں تبدیل کردیا گیا اور اسی لیے ماہرین کا ماننا ہے کہ ہندو قومیت کانعرہ دراصل اس بے چینی اور اضطراب کو چھپانے کی کوشش تھی جو نچلی ذاتوں پر ان کی کمزور پڑتی گرفت کی بنا پر پیدا ہوا تھا-
کمیونلزم اور ہندو شناخت جسے ہم ایتھنو ہند وازم کا نام بھی دے سکتے ہیں ایک ایسا فینو منا ہے جس نے ۱۹۸۰ کی دہائی سے زور پکڑنا شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ پورا ملک اس کی گرفت میں چلا گیا، اسی مسئلے کو اچھال کر ۹۳-۱۹۹۲ میں ممبئی کے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور ۲۰۰۲ میں گجرات کے مسلمانوں کا نسلی صفایا کرنے کی کوشش کی گئی، ان کے علاوہ اور دوسرے صوبوں میں بھی انہی جذبات کا سہارا لے کر مسلم کشی کے واقعات انجام دیے گئے، ایسے حالات میں ریاستی حکومتوں کا یہ فرض تھاکہ وہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کرتیں اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مضبوط منصوبے بناتیں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ کبھی تو اس طرح کے حادثات کو روکنے میں دل چسپی نہ دکھا کر اور کبھی ان واقعات کی انجام دہی میں سرگرم حصہ داری کے ذریعہ اس بات کا ثبوت فراہم کیا گیا کہ سخت گیر ہندو ذہنیت اعلیٰ حکومتی طبقے پر بھی اثر انداز ہے- بسا اوقات فرقہ وارانہ فساد پھیلانے والے ہندوؤں کی قیادت خود پولس نے کی، پولٹیکل وائے لینس اینڈ دی پولس ان انڈیا کے مصنف کے ایس سوبرامنیم نے اترپردیش پولس آفیسر وی بھوتی نارائن رائے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ۱۹۳۱ سے لے کر ۱۹۹۳ تک دس ہندو مسلم فسادات میں پولس نے غیر جانب دار قانون نافذ کرنے والی جماعت کے طور پر کام نہیں کیا بلکہ ایک ہندو فوج کے طور پر کام کیا اور آج کل تو صورت حال بہت زیادہ بگڑ چکی ہے، آئے دن ہونے والے فیک پولس انکاؤنٹر کے واقعات اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور پولس اسکنڈل کی دوسری خبروں نے پولس کے حوالے سے لوگوں کے اعتبار کو ہی متزلزل کردیا ہے اور اب یہ حقیقت طشت از بام ہوچکی ہے کہ ہندو تو کا دائرہ ٔ اثر صرف اعلیٰ حکومتی طبقے تک ہی محدود نہیں بلکہ قانون کے محافظوں تک پھیلا ہوا ہے اور مسلم کش فسادات میں وہ وہی رول ادا کرتے ہیں جو سنگھ پریوار انہیں ڈکٹیٹ کرتا ہے-
ہندوستانی سماج کو خطرہ: -
 اس وقت آر ایس ایس کی ایک سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک میں فتح کے نشے میں چور ہے اور سنگھ پریوار کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں نے ایک بار پھر سے نفرت کا بازار گرم کر رکھا ہے، ہندو قومیت کو اچھالا جارہا ہے، اشتعال انگیزی کی کوشش کی جارہی ہے، مسلمانوں کو آمادہ تشدد ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے لیکن انداز اس بار مختلف ہے، اس مرتبہ تکنالوجی کا سہارا لیا گیا ہے- ریڈف میسج ڈاٹ کام، یوٹیوب اور اس جیسے دوسرے میسیج بورڈ پر ایسے میسیج بھیجے جارہے ہیں جو مذہبی منافرت پھیلانے والے اور مسلمانوں کے خلاف ہندو جذبات بھڑکانے والے ہیں اور جو پیغمبر انسانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی والے کلمات پر مشتمل ہیں- ریڈف ڈاٹ کام کو بھیجے گئے ایک میسیج میں لکھا ہے ’’ہم متحد ہو کر دنیا پر حکومت کرسکتے ہیں، اگر ہندوستان کے سارے ہندو متحد ہوجائیں تو ہم ۲۰۱۲تک آسانی کے ساتھ دنیا کے سپر پاور اور حاکم بن سکتے ہیں‘‘ ایک دوسرے میسیج میں لکھا ہے ’’ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے اس لیے ہندوستانی جھنڈے کا رنگ صرف زعفرانی اور سفید ہونا چاہیے‘‘ گجرات میں کامیابی کے بعد نریندر مودی کے خطاب سے متعلق یوٹیوب کو ۵۲ ہزار پیغامات موصول ہوئے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے - اس کے ایک پیغام میں لکھا ہے ’’مسلمان کیوں دہشت گرد ہیں؟ وہ کیوں مجرمانہ کردار کے حامل ہیں؟ وہ ہر جگہ اپنے سماج پر بوجھ ہیں، ہمیں ان کو ہندوستان سے بھگا دینا چاہیے‘‘، دوسرے میسیج میں لکھا ہے ’’ہندوستان میں غربت اور جرائم کے بنیادی طور پر ذمہ دار اسلام اور مسلمان ہیں‘‘، یو ٹیوب کے ایک میسیج میں تو سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسی ہرزہ سرائی کی گئی ہے کہ ان کو قید تحریر میں لانا دشوار ہے- (دیکھیے تہلکہ ، شمارہ ۷ جون ۲۰۰۸)
دعوت فکر:- آخر کون ہیں جو اس طرح کے میسیج لکھتے اور ان کو عام کرتے ہیں، ذہن و فکر پر ذرا زور ڈالیں تو واضح ہوجائے گا کہ یہ ہندوؤں کا انگریزی داں متوسط طبقہ ہے جو ہندو تو کا دلدادہ اور پوری دنیا میں ہندوتو کے غلبے کا خواہاں ہے، انہیں ہندوستانی قومیت سے کوئی سرو کار نہیں ہے بلکہ ہندو قومیت ان کے ماتھے کا جھومر اور ہندو شناخت ان کا تمغۂ امتیاز ہے، ان کے کچھ بیہودہ میسیج کو ہم باتھ روم کی بکواس کہہ کر خارج کرسکتے ہیں لیکن وہ میسیج جن میں استدلال، عقلیت اور تاریخ کا سہارا لیا گیا ہے انہیں ہم یکسر نظر انداز نہیں کرسکتے بلکہ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہندوستان میں عقلیت پسندوں کا بھی ایک طبقہ فاسشٹ ہے اور یہ طبقہ ہندوستان میں اتنا ہی سرگرم عمل ہے جتنا کہ صہیونی طبقہ اسرائیل میں-
اب اس طرح کے میسیج پر اطلاع پانے کے بعد اگر مسلمان بھڑک جائیں اور پر تشدد و اقعات رونما ہوجائیں تو فورا مسلمانوں پر یہ الزام لگا دیا جائے گا کہ ان کے یہاں رواداری نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے- یہ ہمیشہ دہشت پھیلانے کے لیے تیار بیٹھے رہتے ہیں اور یہ کہا جائے گا کہ مذہب اسلام میں ہی کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی بنا پر مسلمان فورا اشتعال انگیزی پر اتر آتے ہیں- اس کے علاوہ اور بھی نہ جانے کیسی کیسی دل آزار باتیں کہی جائیںگی ، لیکن اس حقیقت کو مد نظر رکھنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہوگاکہ رد عمل میں ہونے والے تشدد سے زیادہ وہ دانستہ عمل قابل مذمت ہے جس نے تشدد بھڑکانے کا کام کیا ہے، ویسے بھی تشدد کے لیے صرف اسلحے کا ہی استعمال ضروری نہیں ہے بلکہ سافٹ ویر کے اس دور میں سافٹ وائے لینس بھی اپنے عروج پر ہے- کھلے ذہن کے ساتھ اگر اس مسئلے پر غور و فکر کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ مسلمان نہ تو نفرت کی تجارت کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو اس کی اجازت دیتے ہیں، ان کا مذہب انہیں اس بات کی اجازت نہیں د یتا کہ وہ دوسرے مذاہب کے ’’ مذہبی رہنماؤں‘‘ کے تعلق سے دشنام طرازی کریں یا ان کے رسوم و روایات کا مذاق اڑائیں اور نہ ہی اس کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی مقدس ہستیوں کے تعلق سے گستاخانہ تحریر و تقریر چپ چاپ پڑھتے اور سنتے رہیں-
اسلام وہ مقدس مذہب ہے جس نے قبیلوں میں بٹی عرب قوم کو اخوت کی لڑی میں پرو دیا ، مسلمان جہاں گئے انھوںنے اخوت و رواداری کا پیغام عام کیا، اسلام کا پیغام جہاں بھی پہنچا اس نے دلوں کو مسخر کرلیا، لوگ بلا کسی مزاحمت کے اس کے دامن کرم سے وابستہ ہوتے چلے گئے، خصوصیت کے ساتھ ہندوستان کے ہندو مسلمانوں پر عدم رواداری کا الزام کسی بھی طرح نہیں لگا سکتے کیوں کہ صوفیہ کرام کے دامن عاطفت میں اتنی پنہائی تھی کہ لوگ بلا تفریق مذہب و ملت ان کے دامن میں آکر پناہ لیا کرتے تھے- اس مقدس جماعت سے لوگوں کی گرویدگی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض امرا اور علماکے رویے سے دل برداشتہ ہو کر دہلی چھوڑنے کا ارادہ فرمالیا، خبر ملنے پر عوام کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوگیا اور آپ کی جدائی کے صدمے سے بلک بلک کر رونے لگا، آخر کار حضرت خواجہ کو ان کے حال زار پر رحم آگیا اور آپ نے اپنا ارادہ ترک فرمادیا اور پھر ہمیشہ کے لیے دہلی کے ہی ہو کر رہ گئے، لوگوں کی عقیدت کا یہی حال ہندوستان کے دوسرے صوفیہ کرام کے ساتھ بھی رہا اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان ان نفوس قدسیہ کے عہد عروج میں محبت و الفت کا لالہ زار بنا رہا-
آخری بات: - 
گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں نفرت کی سوداگری کا کوئی مستقبل نہیں ہے لیکن ایسے وقت میں جب کہ ساری دنیا دہشت گردی اور دہشت گرد طاقتوں کے خلاف صف آراہے، ہندو مذہب کے علمبردار ان دہشت گردوں سے ہندوستان کے سیکولر ڈھانچے کو سخت خطرہ لاحق ہے ان کا حلقہ اثر روز بروز بڑھتا جارہا ہے، نوجوان ہندوؤں کو فکری طور پر یرغمال بنایا جارہا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہندوستانی دانشور، سیکولرزم کے علمبرداران اور تمام محبان وطن آگے آئیں اور نفرت کے ان تاجروں، افتراق و انتشار کے ان سوداگروں سے ہندوستانی عوام کو بچانے کی کوشش کریں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ ملک میں رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں اکثریتی طبقے کے بعض افراد کی دہشت گردانہ سر گرمیوں سے ہوش کے ناخن لے اور ایسی طاقتوں کی پیش قدمی روکنے میں اتنی ہی دل چسپی دکھائے جتنی سیمی کے سلسلے میں دکھائی ہے تاکہ بقائے باہم کی فضا قائم ہو، محبت و الفت کی باد بہاری چلے اور سارے ہندوستانی باہم مل جل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں رول ادا کریں اور پھر چڑھتے سورج کی طرح فرقہ پرستوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ مسلمانوں کو علیٰحدہ کر کے دیکھا جانے والا ہندوستان کے درخشندہ مستقبل کا ہر خواب محض خواب پریشاں ہے- سماج کا ہر طبقہ سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارے اور پھر ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع فراہم ہوں دوریاں سمٹیں اور لوگ مذہب اسلام کے غیر جانب دار مطالعے کی جانب مائل ہوں اور مجھے امید ہے کہ اگر ایسا ہوا اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے تعصب کی عینک اتار کر، ذہن و فکر کے دریچے وا کر کے اسلام کے مطالعے کی کوشش کی تو انہیں اسلامی تعلیمات میں زندگی گزارنے کے ایسے ابدی اور آفاقی اصول نظر آئیںگے کہ وہ اپنے آپ کو اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ کرنے میں فرحت و انبساط محسوس کریںگے اور پھر وہ خود مذہب اسلام کی نصرت و حمایت میں اٹھ کھڑے ہوںگے-

برطانیہ کا فریب

0 comments
برطانیہ کا فریب
از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی                                                 
------------------------------
 زیر نظر تحریر دراصل جناب اے- جی نورانی صاحب نے ایک انگریزی مقالے کا تلخیص ترجمہ ہے جو فرنٹ لائن کے شمارہ ۱۵ ؍فروری و ۲۹ فروری میں د وقسطوں میں شائع ہوا ہے-موصوف سپریم کورٹ آف انڈیا کے وکیل ہیں، ان کا شمار ہندوستان کے ممتاز کانسٹی ٹیوشنل ایکسپرٹ میں ہوتا ہے، ہندوستان ٹائمز، دی ہندو، فرنٹ لائن اور دوسرے اقتصادی سیاسی ہفت روزوں کے کالم نگار ہیں، مسلم مسائل سے گہری دل چسپی ہے اور ہندوستانی سیاست ان کا پسندیدہ موضوع، انہوں نے متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں، ان کی تازہ ترین کتابوں میں (1)The Muslim of India: A Documentry Record, (2) Islam and Jihadقابل ذکر ہیں، موصوف کی تحریر اپنے اندر بیان کی خوبی ،زبان کی عمدگی اور اسلوب کی روانی لیے ہوتی ہے-زیر مطالعہ تحریر در حقیقت ان چند انگریزی کتابوں پر ان کا تبصرہ ہے جو اپنے موضوع کے اعتبار سے متحد ہیں اور سب قضیہ فلسطین سے متعلق ہیں، اس تحریر کا عنوان اور ذیلی عناوین سب میرے قائم کردہ ہیں، تحریر اپنے موضوع پر میری ناقص رائے کے مطابق جامع ہے، امید کہ جام نور میں اشاعت کے قابل ہوگی اور قارئین کو پسند آئے گی———————————ضیا ء الرحمن علیمی
خمیرمیں گناہ:- 
حیفہ یونیورسٹی میں پالٹیکل سائنس کے استاذ ایلن پیپ(Ilan Pappe)سے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے ڈین پیری(Dan Perry)نے پوچھا کیا اسرائیل کی ولادت ناجائز طریقے پر ہوتی ہے؟ اس پر انہوں نے نہایت دیانت داری کے ساتھ واضح لفظوں میں جواب دیا ہاں! یہودیوں نے عربوں کو جلاوطن کر کے ان کی سرزمین پر قبضہ کر لیا، یہودیوں کی خواہش تھی کہ وہ استعمار پسندوں کی طرح عربوں کی زمین پر اپنا قبضہ بھی جما لیں اور اخلاقیات کا دامن بھی نہ چھوٹے، انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے مظلوم دکھایا تاکہ ان کی کھلی جارحیت پر پردہ پڑ جائے (APرپورٹ، تل ابیب،۲۴ دسمبر ۱۹۸۵ء)
ایلن پیپ اس وقت یونیورسٹی آف اکسٹیر میں شعبۂ تاریخ کے چیر مین ہیں، انہوں نے ’’فارن پالیسی‘‘ کے شمارہ مارچ، اپریل ۲۰۰۵ء میں مذکورہ فکر کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے اور ایسے ناقابل تردید حقائق ذکر کیے ہیں جو یہاں مفصلاً ذکر کیے جانے کے لائق ہیں ، وہ لکھتے ہیں:ہمیں ان دونوں سوالوں کے مابین کہ اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو کیا ہوتا اور یہ کہ اس کے مسائل سے بھرے ماضی کے پیش نظر اسرائیلی اسٹیٹ کا کیا جواز ہے؟ فرق کرنا ہوگا، پہلے سوال کو بنیادی طور پر اسرائیل کے ظلم و ستم کے شکار فلسطینیوں کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے، اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو۰۰۰،۷۵۰ ہزار فلسطینی بے گھر نہیں ہوتے، پانچ سو فلسطینی قریے، ۱۱ فلسطینی شہر اور ۹۴ فی صد فلسطین کی زراعتی زمین، ہزاروں فلسطینیوں کی تجارت، ان کاکاروبار اور بے شمار لوگوں کا کیریر محفوظ ہوتا، حقیقی فلسطین میں اسرائیل کے علاوہ کوئی بھی سیاسی ڈھانچہ وجود میں آتا تو ۱۹۴۸ء میں فلسطینیوں کو اس آفت سے نبرد آزمانہ ہونا پڑتا جسے یہودی ریاست نے نسلی صفایا کی غرض سے ان کے اوپر ڈھایا تھا، اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو میرے اندازے کے مطابق ۵۰ سال کے عرصے میں پچاس ہزار فلسطینیوں کی جانیں بچ جاتیں، ڈھائی ملین فلسطینی بیس ویں صدی کے دوسرے نصف میں نہایت ظالمانہ فوجی قبضے سے محفوظ رہتے، ایک ملین فلسطینی شہری لونی و نسلی امتیاز کے نظام کی مار نہ جھیلتے-
اس غیر اخلاقی واقعے سے دوسرے دو بھیانک نتائج بر آمد ہوئے،پہلا یہ کہ کرپٹ اور آمر عرب حکومتوں نے اپنے سماجی و اقتصادی مسائل سے صرف نظر کرنے کے لیے بہانے تلاش کر لیے، فلسطینیوں سے ہمدردی رکھنے کے باوجود اسرائیل کے حامی امریکہ سے اتحاد کر لیا تاکہ اپنے ہی عوام پر ان کی گرفت بنی رہی-دی ٹائمز(لندن) نے ۱۱؍فروری ۱۹۸۰ء کی اشاعت میں اسکالر پیٹر ہین ایسی(Peter Hennessy)کا ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس کا عنوان تھاLawrence's Secrat Arabin Slushیہ مضمون پبلک ریکارڈ آفس برطانیہ میں رکھے پچاس سال کے ٹرینرری فائل پر مبنی تھا، اس میں خلاصہ کیا گیا تھا کہ فلسطین کے پڑوسی ممالک کے کچھ ممتاز ترین لیڈروں نے رشوت لی تھی، ۲؍ مارچ ۱۹۲۲ء کو کولونیل سکریٹری ونسٹن چرچل(Winston Churchil)نے ہائوس آف کامن میں ادا کی گئی رقوم کی تفصیلات پیش کی تھی، اس رقم کا بھاری حصہ شریف حسین کے دو بیٹوں فیصل اور عبد اللہ کو ملا جو اس وقت بالترتیب عراق اور ٹرانس چارڈن کے بادشاہ تھے-
دوسرا خوفناک نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ عرب دنیا اور مسلم دنیا سے مغرب کے تعلقات بے حد کشیدہ ہو گئے اور تیسری دنیا میں اس کی امیج بے حد متاثر ہوئی-
اسرائیل کے باشندے تاریخی حقائق کے قبول کرنے میں اپنے مغربی حامیوں یا ہندوستانی ہمدردوں سے زیادہ ایمان دار ہیں، ٹام سیگیو(Tom Segeve)کی کتابOne Palestine Completeاسی کی شاہد ہے، کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر سچائی قبول کر لی جائے تو اسرائیل کا وجود ہی ختم ہو جائے گا لیکن پیپ کے خیال میں سچائی کے اعتراف پر مبنی گفت و شنید میں وجود کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اسرائیل نے فلسطینیوں کے جسم پر جو کاری زخم لگایا ہے وہ مند مل نہیں ہو سکتا لیکن بہت حد تک زخم پر مرہم رکھا جا سکتا ہے- تاریخی فلسطین میں متحدہ سیکولر ڈیموکریٹک اسٹیٹ کی سفارش حقیقت سے پرے ہو سکتی ہے لیکن کچھ حقیقت پسندوں نے چند ایسی متبادل تجویزیں پیش کی ہیں جو منصفانہ معلوم ہوتی ہیں-
اسرائیل کے مؤقر اخبارHaretzنے ۲۸نومبر ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی کیبنٹ سے متعلق اکیوا ایلڈر (Akiva Eldar)کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کار گزار وزیر خارجہ شلومو بین آمی(Shlomo Ben-Ami)کا وزیر اعظم کے آفس سے تیار کردہ رپورٹ پر جس میں فلسطینیوں کے ذریعہ کی جانے والی قانونی پامالیوں کی تفصیلات درج تھیں ایک چونکا دینے والا یہ ریمارک شائع ہوا تھا’’ اگر ناجائز قبضے کی مار جھیلنے والی قوم قابض قوم سے کیے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے تو اس پر مغربی دنیا کو کسی طرح کی حیرانی نہیں ہونی چاہیے، ایک مستحکم سماج کا یہ الزام کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ظلم و بربریت کے شکار لوگ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے قانون شکنی کر رہے ہیں‘‘(’’اسرائیل :اے ہسٹورک اسٹیٹمنٹ‘‘: ہنری سیگمن، نیویارک بک ریویو، ۸ فروری، ۲۰۰۱ء)
ہنری کسنجر نے لکھا ہے کہ عرب دنیا کو اسرائیل اور امریکہ کے ذریعہ لکھی گئی تاریخ پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کیا اسرائیل کو تسلیم کرلینے سے میڈیا اور عرب ممالک میں جاری حکومتی اور تعلیمی مہم کا خاتمہ ہو جائے گا جو اسرائیل کو ناجائز، استعماریت پسند اور خطے کا’’ تقریبا‘‘ سب سے بڑا مجرم مانتے ہیں-(انٹر نیشنل ہیرالڈ ٹری بیون،۲۴ ؍اکتوبر۲۰۰۱ء)
اگر تقریبا کی قید ہٹا دی جائے تو یہ اسرائیل کی ایک مکمل اور صحیح لفظی شبیہہ ہے، ناجائز، استعماریت پسند، مجرم، مشرق میں مغرب کی جاسوسی فوج، ۱۹۸۵ء میں ایلن پیپ نے کہا تھا کہ اسرائیل کی خمیر میں ہی گناہ شامل ہے لیکن ان کی تازہ ترین تحقیقات نے اس بات کو شکوک و شبہات سے بالا تر بنا دیا ہے کہ اسرائیل کا جنم ایک بدترین تاریخی اور سنگین بین الاقوامی جرم کی کوکھ سے ہوا ہے، یوں تو اسرائیل کا قیام ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء میں ہوا لیکن اس کے تانے بانے دہائیوں پہلے بنے جا چکے تھے-
انسانیت کے خلاف جرم:- 
پیپ کی تاریخ اسرائیل کے قیام سے پہلے کے دستاویزات پر مبنی ہے، ان کی حالیہ کتابThe ethnic cleasing at Palestineجو زیادہ تر اسرائیل کے سرکاری معلوماتی ذرائع پر مبنی ہے فلسطینیو ں کے نسلی صفایا کی خوفناک حقیقت کو ثابت کرتی ہے، نسلی صفایا کے اس بلو پرنٹ کا نامPlan Daletتھا، اس منصوبے کو حتمی صورت دینے کے لیے۱۰ مارچ ۱۹۴۸ء کو ۱۱؍ افراد ریاست کے قیام سے قبل کی اسرائیلی فوج ہگانا(Hagana)کے ہیڈ کواٹر ریڈ ہائوس میں جمع ہوئے تھے، اس مشاورتی ملاقات کی سربراہی ڈیوڈ بین جورین(David Ben Gurion)نے کی تھی جو بعد میں اسرائیلی ریاست کے پہلے وزیر اعظم بنے، اسی شام کو فلسطینیوں کی جلاوطنی سے متعلق تمام احکامات مختلف فوجی یونٹ کو پہنچا دئیے گئے، چھ ماہ بعد جب یہ ظالمانہ عمل اپنی انتہا کو پہنچا تو اس وقت تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے تھے، نصف آبادی اپنی مصیبتوں پر نوحہ کناں تھی، اس وقت ان بے وطنوں کی مجموعی تعداد ۴۰۵ ملین ہے اور یہی لوگ اپنی واپسی کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں، مصنف کے مطابق یہ واقعہ نسلی خاتمے کے منصوبے کا واضح نمونہ ہے جو آج بین الاقوامی قانون کی نظر میں پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، اسرائیل کے وجود کے ساتھ جڑا یہ واقعہ محض حادثاتی نہیں تھا بلکہ یہ اس منصوبے کا اٹوٹ حصہ تھا جس کے تحت سات سو سال سے فلسطینیوں کی ملکیت میں رہی سر زمین پر قبضہ کرکے اسے یہودی ریاست میں تبدیل کیا جانا اس بنا پر طے پا چکاتھا کہ یہ اٹھارہ سو سال پہلے یہودیوں کی ملکیت میں تھی-
۱۸۵۳ء میں عثمانی حکومت جس کے زیر اقتدار ممالک میں عراق،شام،لبنان،فلسطین میں نصف ملین آبادی عربی بولنے والی تھی جس میں اکثر یت مسلمانوں کی تھی، ۶۰ ہزار عیسائی اور ۲۰ ہزار یہودی تھے، فلسطین دراصل ۱۵۱۷ء سے لے کر ۱۹۱۸ء تک شام کے ایک صوبے کا حصہ تھا اور یہ خود بیروت کا صوبہ بھی تھا، ۱۸۶۴ء میں صوبوں سے متعلق لائے گئے ایک قانون کی رو سے کچھ ذیلی صوبوں کو بلاواسطہ استنبول حکومت کے تحت کر دیا گیا، انہی ذیلی صوبوں میں یروشلم بھی تھا، عصر حاضر کا فلسطین ذیلی صوبہ یروشلم اور بیروت کے سابق صوبہ کے متصل حصوں پر مشتمل ہے،اور اسی لیے اس زمانے کی تحریروں میں فلسطین کا تذکرہ آج کے سیاق میں نہیں ملتا -
فریب کا جال:-
 نومبر ۱۹۱۴ء کی پہلی عالمی جنگ میں عثمانی حکومت نے جرمنی اور ایسٹرو ہنگرین امپائر کا ساتھ دیا، ۱۹۱۸ء میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جما لیا اور جب ۱۹۴۸ء میں انگریزوں نے فلسطین چھوڑا تو اس وقت یہودی مہاجرین کی بدولت یہودیوں کی آبادی دس گنا بڑھ چکی تھی، برطانیہ میں شائع ’’سروے آف فلسطین‘‘اور’’ اسٹیٹس ٹی کل ایبس ٹرے کٹ آف فلسطین‘‘ اور فلسطین سے متعلق اقوام متحدہ کی ایڈہاک کمیٹی کی رپورٹ پر مبنی اس ٹیبل کو ذرا ملاحظہ کریں:
دراصل برطانیہ نے متضاد وعدے کیے، عثمانی حکومت کے تابع عربوں کو آزادی کا جھانسہ دے کر عثمانی حکومت کے خلاف آمادۂ بغاوت کیا اور فرانس سے حدود ی توسیع کا وعدہ کیا تاکہ اتحاد برقرار رہ سکے، پانچ دستاویزات سے اس شیطانی عمل کا پتہ چلتا ہے-
۱-مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہنری مک ماہن(Hennry Mc Mahon)(جو ہندوستان کے خارجہ سکریٹری بھی رہ چکے ہیں) اور ہاشمی حکومت کے سربراہ شریف حسین کے مابین ۱۶-۱۹۱۵ میں مراسلت ہوئی جس میں حمایت کے بدلے عربوں کی آزادی کا وعدہ کیا گیا، ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء کے ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ شریف مکہ کے ذریعہ پیش کردہ نقشے کے اندر آنے والے پورے خطے کو آزادی دی جائے گی، یہ وعدہ اگرچہ’’ اصلاح و ترمیم‘‘ کی قید کے ساتھ مشروط تھا ،جس کے مطابق خاص طور سے مرسین(Mersin)الگزینڈر یتا(Alexandretta) اور شام کے وہ حصے جو دمشق، حامس، اور حاما کے مغرب میں آتے ہیں اور جنہیں خالص عرب قرار نہیں دیا جا سکتا مجوزہ آزادی کے نقشے سے خارج ہوں گے، اس مکتوب سے برطانیہ کی خفیہ مراد یہ تھی کہ اس نقشے سے فلسطین بھی خارج ہوگا، حالانکہ مکتوب کی عبارت اس کی تائید نہیں کرتی، مکتوب کا تجزیہ کرتے ہوئے بار ایلین یونیورسٹی اسرائیل کے پروفیسر مائیکل جے، کو ہین لکھتے ہیں کہ خط کے سر سری جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کا مطلب نہیں نکالا جا سکتا جیسا کہ برطانیہ نے نکالا ہے کیوں کہ اس میں جن علاقوں کا استثنا ہے وہ آج کے لبنان پر صادق آتا ہے نہ کہ فلسطین پر، بلکہ فلسطین تو ان علاقوں کے اندر آتا ہے جن کومک ماہن عرب قرار دیا ہے (The evaluation of Arab— Zionist Conflict. P:20 to 23)اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مکتوب بد نیتی پر مبنی تھا ،جیسا کہ ایک ماہ بعد ہی ہندوستان کے وائسرائے کے نام ان کے ایک مکتوب سے واضح ہوتا ہے، ان کے مطابق یہ صرف لفظوی کی بازیگری تھی اور اس کا مقصد عربوں کو سبز باغ دکھا کر برطانیہ کی حمایت کے لیے آمادہ کرنا تھا، بیس صفحات پر مشتمل ایک میمورنڈم میں بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ برطانیہ سے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ فلسطین کو عربوں کی آزادی والے علاقوں میں شامل کیا جائے، دوسرے دستاویز سے پتا چلتا ہے کہ پورا فلسطین ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۱۵ء کے مکتوب میں شامل ہے-
۲-مئی ۱۹۱۶ء میں خارجہ آفس کے سر Mark Sykesاور ان کے فرانسیسی ہم منصب George Picotنے اس علاقے کو زیر اثر علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا ، گفت و شنید کا آغاز ۱۹۱۴ء کی عالمی جنگ کے آغاز سے قبل ۱۹۱۲ء میں ہی ہو چکا تھا ،ایک وہ علاقہ ہوگا جو زیر اثر ہوگا اور دوسرا بلا واسطہ ماتحت، فلسطین کا نظم و نسق برطانیہ فرانس اور روس کے بین الاقوامی اشتراک سے چلایا جائے گا-
۳-۲؍ نومبر ۱۹۱۷ء میں’’ بلفرڈ کلیریشن‘‘ پاس ہوا جس میں یہودیوں کے لیے ایک’’ نیشنل ہوم‘‘ کے قیام کا وعدہ کیا گیا، یہودی ریاست کی جانب دراصل یہ پہلا قدم تھا، اسی ماہ روس کی زمام حکومت بلوشویکس(Bloshevikes)کے ہاتھ آئی اور پھر اس خفیہ حلف نامے کی اشاعت ہوئی-
۴-اس خفیہ سازش کو جان کر جب عربوں کو بڑی پشیمانی ہوئی تو ان کی پشیمانی کم کرنے کے لیے ۱۷؍ نومبر ۱۹۱۸ء کو برطانیہ اور فرانس نے ایک اعلامیہ جاری کیا-
۵-لیگ آف نیشن (۱۹۱۹ء) کے کاویننٹ کے تحت فرانس نے شام اور لبنان کے تعلق سے اور برطانیہ نے عراق، ٹرانس جارڈن اور فلسطین کے تعلق سے ایک مینڈیٹ حاصل کر لیا اور پھر ِSykesاورPicotکے معاہدے پر پوری طرح عمل کیا گیا اور عربوں کو امید و بیم کی حالت میں چھوڑ دیا گیا ، مقصد چوں کہ فریب دینا تھا اس لیے یہ وعدے بھی باہم سر بگریباں تھے، ایک طرف اگر میک ماہن کا یہ وعدہ تھا کہ شام، فلسطین، عراق اور عرب کے دوسرے علاقوں میں آزاد ہاشمی سلطنت قائم کی جائے گی تو دوسرے طرف SykesاورPicotکے معاہدے کے مطابق وسط ایشیا کی ایک استعماری تقسیم ہونی تھی، بلفر کو معلوم تھا کہ’’ نیشنل ہوم‘‘ کی آڑ میں ایک یہودی ریاست کا منصوبہ ہے ،گویا ایک قوم( برطانیہ) نے دوسری قوم(یہودی) سے یہ وعدہ کیا کہ انہیں ایک تیسری قوم(عرب) کی سرزمین دی جائے گی-
اعلامیہ کے آتھر آرتھر جیمس بلفر سابق وزیر اعظم اور خارجہ سکریٹری تھے، ۱۱؍ اگست ۱۹۱۱ء کے نظر انداز شدہ ایک میمورنڈم میں انہوں نے وعدوں کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دستاویزات باہم مربوط نہیں ہیں، ان میں آزادی کی بات بھی کی گئی ہے اور استعماری کنٹرول کی بھی، در حقیقت دنیا کی چار عظیم طاقتیں صہیونیت کے تئیں مخلص تھیں کیوں کہ ان کے مطابق صہیونیت بذات خود خیر ہو یا شر لیکن اس کا وجود عرصہ دراز پرانی روایات میں ہے ، موجودہ ضرورتوں میں ہے اور مستقبل کی امید میں ہے، اس کے وجود کی قوت سات لاکھ فلسطین عرب کی خواہشات سے زیادہ ہے جو آج اس قدیم سر زمین پر رہ رہے ہیں، فلسطین کا مستقبل جو بھی ہو لیکن یہ نہ ابھی آزاد ہے اور نہ آزاد ریاست بننے کی راہ پر گامزن ہے، چوںکہ مختلف گروپ سے کیے گئے وعدوں کی لفظی تنفیذ ہی ممکن ہے، اس لیے ان وعدوں کے اعلامیہ کو مختصر کر دیا گیا تاکہ وہ فرانس، برطانیہ اور یہودیوں کی خواہشات کے مطابق ہو جائیں اور رہے عربوں سے کیے گئے وعدے جو اس سرزمیں کے حقیقی مالک تھے تو ان کو جان بوجھ کر طاق نسیاں میں ڈال دیا گیا(۱۹۱۹ تا ۱۹۵۹ء برطانوی خارجہ پالیسی کے دستاویزات، سلسلہ نمبر۱،جلد۴، ۱۹۵۲ء ہز مجیسٹی اسٹیشنری آفس،صفحہ ۳۴۲ تا ۳۴۵)
ان دستاویزات میں SykesاورPicotکے دستاویزی نصوص اور بہت سی چیزیں شامل ہیں جن سے فیصلے کے سارے عمل میں بدنیتی کی حقیقت آشکار ہوتی ہے لیکن اس میں ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۱۷ء کا وہ بے حد سنسنی خیز دستاویز نہیں ہے جسے کیبنٹ ممبر لارڈ کرزن نے لکھا تھا اور جو ۱۹۳۸ء میں شائع بھی ہوا تھا ،لیکن کرزن کی رائے سے اس زمانے کے وزیر اعظم ڈیوڈ-لائیڈ جار(Davi Loid George) اتفاق نہیں رکھتے تھے، اس کی وجہ تو یہ تھی کہ کرزن کی تحریر اپنے اندر بے حد علمیت اور ناقابل تردید عقلیت سمیٹے ہوئی تھی وہ اصل معاملے کی گہرائی تک پہنچ چکے تھے ، دوسری بات یہ کہ بلفر، جار ج اور ونسٹن چرچل ان برطانوی قائدین میں تھے جن کے اندر ایک صہیونی اور یہودی حامی دل دھڑکتا تھا، کرزن خلاصہ کرتے ہیں کہ آخر نیشنل ہوم کا کیا مفہوم ہے؟ وہاں نصف ملین شامی عرب بستے ہیں، جن کے آبا و اجداد اس سرزمین پر تقریبا پندرہ سو سال سے رہتے آئے ہیں وہ اس سرزمین کے مالک ہیں، وہ مسلمان ہیں، وہ یہودی مہاجرین کے لیے اپنی آراضی سے دست بردار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ ان کے لیے لکڑیاں کاٹ کر لانے والے یا مشکیزہ اٹھانے والے بن کر رہ سکتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ مکے اور مدینے کے بعد یروشلم مسلمانوں کے نزدیک سب سے مقدس شہر ہے، اس لیے یہ ناممکن سی بات ہے کہ مستقبل کا ایسا نقشہ تیار کیا جائے جس میں یروشلم سے مسلمانوں کو خارج کر دیا جائے-
کیبنٹ نے ۳۱؍ اکتوبر کو بدنام زمانہ بلفر اعلامیہ کی منظوری دے دی جسے ۲؍ نومبر ۱۹۱۷ء کو جاری کیا گیا اس کے مسودے میں لکھا تھا"Palestine should be reconstituted as the national home of the Jewish people" (یہودیوں کے نیشنل ہوم کے طور پر فلسطین کا از سر نو نقشہ تیار کیا جانا چاہیے)
لیکن احتجاج کیے جانے پر اسے ترمیم کر کے اس طرح کر دیا گیا "Palestine should be reconstituted as the extablishment of a national home for the Jewish people"(یہودیوں کے لیے ایک نیشنل ہوم قائم کرنے کی غرض سے فلسطین کا از سر نو نقشہ تیار کیا جانا چاہیے)
اس تبدیلی کے باوجود اصل مقصد واضح تھا، کرزن کے مطابق ایک سال بعد صہیونیوں کے مطالبے اور بھی بڑھ چکے تھے، اب وہ ایک یہودی ریاست ہی کی بات نہیں کر رہے تھے، ان کا دعوی صرف قدیم فلسطین تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اردن ندی کے مشرقی حصے کی زمین پر بھی قبضہ جمانے کی سوچنے لگے تھے، اور اسی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ڈبلیو، زیڈ، او(World Zionist Organization)نے پیرس کی پیس کانفرنس میں ایک نقشہ بھی تیار کر کے پیش کیا تھا، کرزن کے اعتراض کرنے پر بلفر نے جواب دیا کہ برطانیہ کے صہیونی رہنما چیم ویزمن(Chaim Weizmann)نے فلسطین میں یہودی حکومت کے لیے کبھی کوئی دعوی پیش نہیں کیا ہے لیکن کرزن کو معلوم تھا کہ اس نقشے کی تیاری کا مقصد کیا ہے؟ چنانچہ انہوں نے ویز مین کا بیان نقل کیا اور کہا کہ وہ یہودی ریاست کا خواہاں ہے، ایک ایسے یہودی ملک کا جہاں عربوں کی آبادی اقلیت میں ہو اور وہ ان کی محکوم ہو-(کرزن اینڈ برٹش امپیر یلزم ان دی مڈل ایسٹ ۱۹۱۶ء تا ۱۹۱۹ء جان فیشر، صفحہ ۲۱۲ تا ۲۱۴)
ویزمین کی اسی دوہری گفتگو اور مادی منفعت کے پیش نظر شہزادہ فیصل نے ۳؍ جنوری ۱۹۱۹ء کو برطانیہ کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیا جس میں فیصل نے عرب ریاستوں اور فلسطین کے نمائندے کے طور پر اس بات پر رضا مندی ظاہر کی کہ بڑے پیمانے پر یہودیوں کی فلسطین ہجرت روکی نہیں جائے گی لیکن اس شرط کے ساتھ عربوں کو آزادی دی جائے گی، انہوں نے اس راز کو دوسرے عرب ساتھیوں سے چھپائے رکھا اور پھر بعد میں سودے بازی سے صاف مکر گئے، اور جب فرانس نے شام سے فیصل کو برطرف کر دیا تو وفاداری کے عوض برطانیہ نے انہیں عراق کا شاہ مقرر کر دیا اور آر، جے، کیو ایڈس نے بلفر کی سوانح میں تجزیہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ کنگ کو دیے گئے بلفر کے مشورے کی بنا پر ہی کرزن وزارت عظمی کی کرسی سے محروم ہو گئے-
دستاویزات پر مشتمل میکو سکی کی کتابChurchil's Promised Land: Zionism and State craftسے بہت سے انکشافات ہوتے ہیں- اگر جارج نے آن بان کے لیے ۱۹۱۵ء میں فلسطین پر قبضے کی بات کی تھی تو چرچل نے ۱۹۰۶ء میں ہی یہودیوں کے لیے ’’ہوم لینڈ‘‘ کی بات کی تھی، میکوسکی کی تحقیقات سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ بلفر نے دھوکے کی غرض سے’’ نیشنل ہوم‘‘ کی مبہم تعبیر استعمال کی تھی اور اسی لیے ریاست کے قیام کے سلسلے میں وہ متضاد بیانات دیتے رہے کیوں کہ ریاست کا قیام تو ایک تدریجی منصوبہ تھا جس کے ذریعہ یہودی اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا جانا تھا، اعلامیہ کے جاری ہونے کے وقت ۱۷؍ لاکھ کی مجموعی آبادی میں یہودی باشندوں کی تعداد پچاس سے ساٹھ ہزار تک تھی، بلفر نے یوں تو’’ نیشنل ہوم‘‘ کی توضیح نہیں کی تھی لیکن ۱۹۱۸ء میں انہوں نے اپنی مراد خفیہ طور پر بتا دی تھی، ان کو توقع تھی کہ یہودی فلسطین میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لیں گے اور بالآخر ایک یہودی ریاست بھی حاصل کر لیں گے، اس کے علاوہ برطانوی پریس کو بھی پتا تھا کہ اعلامیہ کا مقصد یہودی ریاست کا قیام ہے-(دستاویزات صفحہ:۳۳)
اور دوسرے دستاویزوں سے بھی فریب کا پردہ چاک ہونا ہے، فلسطین میں برطانوی فوجی ایڈمنسٹریشن کے پالٹیکل آفیسر کرنل رچرڈ میٹرٹ زیگن نے کرزن کو آگاہ کرتے ہوئے ۶؍ستمبر ۱۹۱۹ء کو کہا تھا کہ’’ فی الحال فلسطینیوں کو یہ بتانا صحیح نہیں ہے کہ ایچ، ایم ، بی، امریکہ اور برطانیہ فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام چاہتے ہیں‘‘(دستاویزات صفحہ:۴۷۲) بلفر نے بھی ۲۴؍ جون ۱۹۱۹ کی پریس میٹنگ میں کنگ کرین انکوائری کمیشن—پر بحث کرتے ہوئے اپنا یہ ریمارک دیا تھا کہ ہمیں موجودہ برادری کی خواہشات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ ہم ایک ایسی برادری تیار کر رہے ہیں جو کچھ زمانے بعد اکثریت میں ہوگی- (دستاویزات صفحہ: ۱۲۷۷ تا ۱۲۷۸)
صہیونی پروگرام کو جھٹکا:-
 کنگ کرین کمیشن نے جو فلسطینیوں کی رائے معلوم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اپنی تحقیقات کا آغاز صہیونی حامی ذہن کے ساتھ کیا تھا لیکن فلسطینیوں کی رائے معلوم کرنے کے بعد اور دوسرے عوامل کی وجہ سے اس نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ سفارش کی تھی کہ یہودیوں کی لا محدود، ہجرت کے انتہا پسندانہ صہیونی پروگرام میں اہم اصلاحات کی جانی چاہیے کیونکہ یہودی دراصل فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور فلسطین کی غیر یہودی برادری کے دس میں سے نو افراد اس بات پر متحد ہیں کہ وہ کسی بھی شرط پر صیہونی پروگرام کو قبول نہیں کریں گے، اور صہیونیوں کی یہ دلیل کہ فلسطین پر ان کا حق اس لیے ہے کہ دو ہزار سال پہلے یہ سرزمین ان کی تھی، قابل اعتنا نہیں ہے، لیکن ان سب کے باوجود کمیشن کی رپورٹ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا کیوں کہ انہیں یہودی ریاست بہرحال قائم کرنی تھی، ٹام سیگیو کے مطابق یہ خیال بالکل درست نہیں ہے کہ یہودی ریاست اس لیے قائم کی جانی تھی کہ نازیوں نے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا ہاں اتنی بات صحیح ہے کہ ہمدردی کی لہر یہودی ریاست کے قیام میں معاون ثابت ہوتی، ’’ دی لاسٹ تھائوزینڈ ڈیز آف برٹس امپائر ‘‘ کے مصنف نے بھی لکھا ہے کہ چرچل نے پیل کمیشن کے سامنے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ یہودی ریاست کا قیام برطانیہ کے قدیم منصوبے میں شامل تھا-
عربوں کی ضمیر فروشی:- 
برطانیہ سے متعلق دستاویزات کے قاری کو اس وقت عربوں کے باہمی اتحاد پر حیرت ہوتی ہے، ۲؍ جولائی ۱۹۱۹ء میں شام کی جنرل کانگریس نے ایک اعلامیہ میں صاف کہا تھا کہ ہم فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے صہیونی دعوے کو مسترد کرتے ہیں اور فلسطین کے کسی بھی حصے میں یہودیوں کی ہجرت کے بھی مخالف ہیں، برطانیہ بھی اس باہمی اتحاد سے خوب واقف تھا اور اسے معلوم تھا کہ اسرائیل کی حیثیت مغرب کے جاسوس کی ہوگی جو ہر وقت عربوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے گا، چنانچہ عربوں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے سودے بازی ہوئی، کہنے والوں میں دو نمایاں نام شریف حسین کے دونوں بیٹے فیصل اور عبد اللہ کا تھا، عبد اللہ نے برطانوی معاہدے کو قبول کرنے کے لیے پانچ ہزار امریکی ڈالر لیے اور پھر ٹرانس جارڈن کا علاقہ بھی عطا کیا گیا، یہودیوں سے اپنی زمینیں بیچنے والوں میں عرب نیشنل موومنٹ کے لیڈران بھی شامل تھے، ٹاٹ سیگیو کے مطابق ان میں یروشلم کے سابق میئر موسی کاظم الحسینی کے ساتھ دوسرے عرب میئر شامل تھے، جب عربوں نے اپنی زمینیں یہودیوں سے فروخت کرنی شروع کر دی تو صہیونیوں کو اندازہ ہو گیا کہ عرب نیشنل موومنٹ میں خلوص کار فرما نہیں ہے چناںچہ و یزمن نے کہا کہ عرب تو خود اپنی زمینیں زیادہ سے زیادہ بولی لگانے والوں کو دینے کے لیے تیار ہیں، اے مرتبہ فیصل کے ایک معاون کو ایک ہزار ڈالر کی کم رقم ملی تو فوراً ہی اس نے مزید کا مطالبہ کیا، اس سے بھی صہیونیوں نے سمجھ لیا کہ ان عربوں کے یہاں دولت کی اہمیت زیادہ ہے اور ان کے ضمیر کا سودا کیا جا سکتا ہے- حاصل یہ کہ سیاست دان ، چور، با عزت افراد، جرائم پیشہ جماعت سب نے صہیونیوں کو اپنی خدمات پیش کیں بلکہ بسا اوقات ڈیمانڈ سے زیادہ سپلائی کے لیے بھی بہت سے افراد حاضر خدمت رہے-
دہشت گردانہ منصوبے:- 
لیکن ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ صرف زمین کی خرید و فروخت کے ذریعہ ہی صہیونی اہداف کی تکمیل ممکن نہیں تھی، اس کے لیے عربوں کو جلا وطن کرنا بھی ضروری تھا چنانچہ روسیولیٹ(Roosevelet)کے خصوصی ایلچی کرنل ہیرالڈ ہاسن(Harald Hoskin)نے ۱۹۴۳ء میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ صرف فوجی طاقت کے ذریعہ ہی عربوں کے اوپر یہودی ریاست تھوپی جا سکتی ہے، اس فوجی طاقت کی تفصیلات سی، آئی، اے کے ایک دستاویز میں ملتی ہے، جنگ کرنے والوں میں ۷۰ ہزار سے لے کر ۹۰ ہزار تک صہیونی فوج ہگانا کے افراد اور چھ ہزار سے لے کر ۸ ہزار تک Irqun Zvai Ceumiنامی زیر زمین دہشت گرد تنظیم کے افراد اور اسٹرن گینگ نامی انتہا پسند جماعت اور پانچ سو وہ افراد شامل ہوں گے جو حکومت کے ذمہ داران ، پولیس آفیسروں کو جان سے مار ڈالنے یا تشدد کے ذریعہ دولت و ثروت اکٹھا کرنے میں نہیں ہچکچاتے ،جب کہ عربوں کے پاس عرب لیجن(Arab Legion)کے علاوہ کوئی اور قابل ذکر فوج نہیں تھی جس کے متعلق شاہ عبد اللہ نے خفیہ طور پر پہلے ہی معاہدہ کر لیا تھا کہ وہ ویسٹ بینک کے آگے نہیں جائے گی-
بہر حال ۱۴؍ مئی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل دنیا کے نقشے میں آ گیا ،۱۰؍ مارچ ۱۹۴۸ء کی شام میں ہی تمام فوجی یونٹ کو یہ حکم بھیج دیا گیا کہ وہ منظم انداز میں فلسطینیوں کو جلا وطن کرنے کے لیے تیار رہیں اور اس کے لیے ہر ممکن طریقہ اپنایا جائے، ان کے علاقوں کا محاصرہ کیا جائے، دیہاتی آبادی پر بمباری کی جائے، ان کی املاک کو نذر آتش کر دیا جائے، جائے اور ایسی خندقیں کھودی جائیں کہ جلا وطنوں کے اوپر واپسی  کا دروازہ بند ہو جائے، ہر فوجی یونٹ کو ان علاقوں کی فہرست دی گئی جہاں انہیں یہ سرگرمیاں انجام دینی تھیں اور ایک وقت وہ آیا جب فلسطینیوں پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ ان کی ہی سرزمین اب ان کے لیے اجنبی ہو چکی ہے، ایلن پیپ نے یہ ساری گفتگو ایک میٹنگ ریکارڈ کی روشنی میں کی ہے جس میںMoshe DayanاورYigal Alonشریک تھے -
صہیونیوں نے چار طرح کے پلان بنائے تھےA,B,C,D D-پلان آخری تھا جس کی تکمیل ریاست کے قیامت کے بعد ہوئی، پلانCکے چند پروگرام ملاحظہ کریں:
فلسطین کے سیاسی قائدین ،ان سے ہمدردی رکھنے والے، یہودی مخالف رویہ رکھنے والوںکو قتل کر دیا جائے، فلسطینی ٹرانسپورٹ روز مرہ کی زندگی کے وسائل تباہ کردئیے جائیں اور ان تمام فلسطینی علاقوں کو برباد کر دیا جائے جہاں سے مستقبل میں حملے کا اندیشہ ہو-
پیپ نے لکھا ہے کہ جس فکر کی بنا پر فلسطینیوں کو۱۹۴۸ء میں ان کی سر زمین سے نکالا گیا وہ اب بھی موجود ہے، سیگیو اور پیپ نےBiblical Zionistیعنی ان عیسائیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن کا یہ اعتقاد ہے کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی مسیح موعود کی آمد ثانی سے قبل ہوگی-
خاتمہ:-
  یہ اس اسرائیل کی تاریخ ہے جس کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین صدر جارج ڈبلو بش نے اپنے مڈل ایسٹ کے دورے میں کی ہے، لیکن انہوں نے ناجائز اسرائیلی تعمیرات روکنے اور حقوق انسانی کی پامالی پر لگام کسنے کے لیے کوئی بیان نہیں دیا، اسرائیلی پالیسیوں میں صہیونی محلول شامل ہے، اگر اس کی تہوں میں نہیں اترا گیا تو کل نہ یہودی محفوظ ہوں گے اور نہ فلسطینی، کیوں کہ اضطراب و کشمکش کی بنیاد یہودیت نہیں ہے بلکہ صہیونیت ہے، یہودیت اپنے تمام مسالک کے ساتھ اپنے اندر امن و آشتی کے اصول رکھتی ہے، البتہ صہیونی فکر تکثیری سماج کو قبول نہیں کر سکتی بالخصوص فلسطینیوں سے اس کو خدا واسطے کی بیر ہے، فلسطینی کسی بھی قیمت پر صہیونی ریاست کو قبول نہیں کریں گے، وہ جدوجہد کرتے رہیں گے،یہاں تک کہ ان کے مسئلے کا کوئی منصفانہ حل نکل جائے اور بد قسمتی سے اگر ایسا نہیں ہوا تو صرف عرب اور مسلم دنیا میں ہی نہیں بلکہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی ایسا طوفان آئے گا جس کی زد میں وہاں کے سارے لوگ ہوں گے-حقیقت یہ ہے کہ استعمار کا اخلاقیات سے دور کا بھی کوئی واسطہ کبھی بھی نہیں رہا ہے اور آج اسرائیل کے وجود کا بھی کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے، وہ دہشت کی پیداوار ہے، اگر فلسطینی اسلحہ اٹھاتے ہیں تو انہیں شکایت کا بھی کوئی حق نہیں ہے، اب رہی یہ بات آخر خون ریزی کا کیا حاصل ہے؟ ویسے بھی خون ریزی اور تشدد سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے تو خوش آئند بات یہ ہے کہ اسرائیل کے اندر اور اس کے باہر لوگوں میں تاریخی حقائق کو قبول کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے، ہم فلسطینیوں سے صرف اتنی گزارش کر سکتے ہیں کہ وہ عدم تشدد کا راستہ اختیار کرکے تاریخی حقائق کی روشنی میں اپنے انصاف کی آواز بلند کریں-

دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر

0 comments
دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر
                                                         از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی
------------------------------
دہشت گردی عصر حاضر کا فینومنا ہے، پوری دنیا پر تشدد واقعات کی لپیٹ ہے، گزرتے شب و روز کے ساتھ دہشت کے سائے دراز ہوتے چلے جا رہے ہیں، عالمی برادری خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہی ہے، ہر طرف عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے، اس کے خاتمے کے لیے پوری دنیا نے دہشت گردی کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردوں کے دست و بازو کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں- اسباب و عوامل کیا ہیں؟ دہشت گردی کے پنجے مروڑنے کے لیے میدان میں اتری طاقتیں کس حد تک خود دہشت گردی کی مجرم نہیں ہیں؟ ان کے عزائم میں کس قد سچائی ہے؟ یہ دہشت گردی کی مہم سے جڑے چند سوالات ہیں جن کا جواب ہم آئندہ صفحات میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، سردست ہم دہشت گردی کے مفہوم کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’’ٹیررزم‘‘ (Terrorism) کو ڈیفائن کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
ایڈوانس لرنر ڈکشنری آف کرنٹ انگلش میں ٹیررزم کی توضیح میں لکھا ہے ’’the use of voilent action in order to achieve political aims‘‘ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پر تشدد عمل کو بروئے کار لانے کا نام دہشت گردی ہے-
نیت میں کھوٹ:-  
میرے خیال میں دہشت گردی کی یہ تعریف مبہم اور غیر واضح ہے، اس تعریف کی رو سے ہر پر تشدد عمل جس میں سیاسی مقاصد و عوامل کارفرما ہوں دہشت گردی  قرار پائے گااور پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت دہشت گردی کے الزام سے اپنے آپ کو بچا نہیں پائے گی، کیوں کہ عموما متشددانہ عمل میں خواہ وہ حق و صداقت کی بالا دستی ہی کے لیے کیوں نہ ہو سیاسی عوامل در انداز ہوتے ہیں، اور دنیا کا کوئی بھی ہوشمند انسان تسلیم نہیں کر سکتا کہ حق و صداقت پر مبنی سیاسی اہداف کے حصول کے لیے کی جانے والی مسلح جد وجہد دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے- مجھے ایسا لگتا ہے کہ انگریزی دنیا نے شاید کسی سیاسی مجبوری کی وجہ سے دانستہ طورپر دہشت گردی کے حقیقی خد وخال واضح کرنے سے گریز کیا ہے، انہیں معلوم ہے کہ دہشت گردی کی صحیح توضیح کر دی گئی تو برطانیہ کی پوری تاریخ ہی دہشت گردی کی داستان ہوگی، اسرائیل کا وجود ہی سراپا دہشت گردی قرار پائے گا اور دہشت گردی  کے خلاف امریکہ کی ’’مقدس مہم‘‘ کی قلعی کھل جائے گی- اس لیے جان بوجھ کر دہشت گردی کی ایسی تشریح کی گئی ہے کہ اگر اس کی رو سے برطانیہ امریکہ اور اسرائیل اور دوسری جارح مغربی طاقتیںدہشت گردی  کے الزام سے نہ بچ سکیں تو کم از کم ان کے مظالم کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے پر تشدد واقعات اور ظلم و جبر کے خلاف مسلح کوششوں کی اہمیت کم ہو جائے اور عام انسان یہ باور کرلے کہ پر تشدد عمل بہر حال دہشت گردی  ہی ہے-
غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گردی کے مختلف پیمانے ہیں- ایک ہی عمل ایک قوم کی نظر میں دہشت گردی ہے تو دوسری قوم کی نگاہ میں حق و صداقت کی جنگ، فلسطینیوں کی مسلح جد و جہد صیہونی نقطۂ نظر سے دہشت گردی ہے اور فلسطینیوں اور انصاف پسندوں کے زاویہ نظر سے جان و مال ، عزت و آبرو کا دفاع جو ایک مقد س عمل ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم اس حقیقت پر عالمی اتفاق کے باوجود کہ دہشت گردی انسانیت کا ناسور ہے، افتراق و انتشار کا شکار ہے-
دہشت گردی کا محرک: - 
موجودہ دور میں دہشت گردی کے لفظ کو پوری دنیا میں عموما اور مغربی دنیا میں خصوصا جن لوگوں سے جوڑا جا رہا ہے یا جن علاقوں کو دہشت گردی کا محور و مرکز کہا گیا ہے ان کے پیچھے مظالم کی ایک مکمل تاریخ ہے- پروفیسر رابرٹ، اے، پیپ، نے لکھا ہے کہ خود کش دہشت گردی کی بنیاد وطن پرستی ہے، یہ غیر ملکی طاقتوں کے چنگل سے ملک کو آزاد کرانے کی ایک اسٹریٹیجی ہے- (دیکھیے اے، جی، نورانی کا مقالہ’’ ٹیررزم اینڈ راج‘‘ فرنٹ لائن ، شمارہ۱۴؍مارچ، ۲۰۰۸ء)
آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال قبل ہندوستان میں ہوئی پہلی جنگ آزادی جسے عموماً ’’غدر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے پر تشدد پس منظر کے نتیجے میں ہوئی تھی، مغربی ایشیا میں جاری مسلح کشمکش سنگین بین الاقوامی جرم کا ہی نتیجہ ہے-
حاصل یہ کہ عموما پر تشددواقعات مظالم کی کوکھ سے جنم سے لیتے ہیں، اگر حق و انصاف کی بالادستی قائم ہو جائے، طاقتور قومیں کمزور قوموں کو اپنے زیر اثر کرنے کی کوشش چھوڑدیں تو دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن ایسی کوئی امید نظرنہیں آتی کیوں کہ ہوا مخالف سمت میں بہہ رہی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انسانی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے، انسانیت کے دامن عزت کو تار تار کیا جا رہا ہے، یہ سارے ’’کارنامے‘‘ وہ ممالک انجام دے رہے ہیں جو اپنے آپ کو حقوق انسانی کا علمبردار سمجھتے ہیں اور اس کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں، ان طاقتوں اور ان ممالک کی سربراہی عصر حاضر میں امریکہ کر رہا ہے، آئیے ذیل میں امریکہ کے کچھ ’’کارناموں‘‘ کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں-
بربریت کی تاریخ:- 
 امریکہ نے ظلم و بربریت کی تاریخ میں مظلوموں کے خون رنگین سے نئے ابواب لکھ دیے ہیں، غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کے سارے پیمانے توڑدیے ہیں، پہلے اس نے ناگا ساکی پر بمباری کی، ویتنام کو برباد کیا اور بعد میں عراق اور افغانستان میں دہشت گردی کے نام پروہ ننگا ناچ کھیلا کہ پوری انسانیت شرمسار ہے لیکن امریکہ اس کے اتحادی پشیمان نہیں ہیں- امریکہ دہشت گردوں پر لگام کسے جانے کی بات کہتا رہا لیکن جب جنگ ختم ہوئی تو مغرب کے سیاسی مبصرین نے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اس جنگ کو ’’ناکامی سے بھی آگے منزل‘‘ قرار دیا، اور پروفیسر پال راجرس (Paul Rogers)ڈپارٹمنٹ آف پیس اسٹڈیز، یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ نے تو اپنی ایک رپورٹ میں جس کا عنوان تھا’’Towards Sustainable Security: Alternative approches to the war on terror‘‘اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کے خلاف جاری مسلح جدوجہد ایسی ہے جیسی کہ سویت یونین کے قبضے کے خلاف افغانستان کے مجاہدین کی تھی، (دیکھئے حوالۂ سابق)
امریکہ کی جارحیت کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے، گوانتانامو کے قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کی خبریں انتہائی پابندی کے باوجود اخباروں میں آتی رہی ہیں، ابھی ۲۹؍مئی ۲۰۰۸ کو اخباروں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوتی ہے جس میں ایمنسٹی انٹرنیشل نے مغرب کو اور خصوصیت کے ساتھ امریکہ کو حقوق انسانی کی پامالی پر لتاڑا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کو گوانتانامو اور حراست کے دوسرے خفیہ مراکز بند کر دینے چاہیے اور زیر حراست افراد کو منصفانہ جانچ کے بعد رہا کر دینا چاہیے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سکریٹری جنرل Irena Khanنے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ دنیا کے قائدین حقوق انسانی کے پامال کیے جانے کا انکار کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق اور افغانستان میں حقوق انسانی کی پامالی نے حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے اور یہ واقعات درحقیقت وائرس کی مانند ہیں جو نہایت تیزی کے ساتھ پھیلتے جا رہے ہیں-
اب گوانتانامو کے ایک قیدی سامی الحاج کی داستان سنیئے-یہ الجزیرہ کے کیمرہ مین اور صحافی ہیں جن کو ۱۵؍دسمبر ۲۰۰۱ء کو صرف اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن سے انٹرویو لیا ہے اور بعد میں مختلف لرزہ بر اندام کر دینے والی اذیتوں کے ذریعہ ان سے زبردستی یہ اقرار کروایا گیا کہ القاعدہ سے ان کے روابط ہیں، یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے ان ساری اذیتوں کے باوجود باہری دنیا کو گوانتا نامو میں قیدیوں پر ہوئے مظالم سے آگاہ کرایا اور انہیں کی بدولت قرآن کریم کی بے حرمتی کی خبر دنیا کو لگی، گوانتا نامو میں وہ پانچ سال سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں لیکن اب تک ٹرائل نہیں ہو پایا ہے- جنوری ۲۰۰۷ء سے یہ بھوک ہڑتال پر ہیں، ان کی صحت روز بروز گرتی چلی جا رہی ہے ، یادداشت کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے لیکن پھر بھی امریکی ظلم و بربریت کے خلاف انہوں نے جنگ کا بگل بجا رکھا ہے-
سامی کہتے ہیں کہ جبری غذا خورانی کے وقت ان کی ناک میں نہایت سختی کے ساتھ ٹیوب لگا دیا جاتا ہے، زبردستی ’’ریسٹرینٹ چیر‘‘ میں ان کو بٹھا کر منہ پر اس طرح ماسک لگا دیا جاتا ہے کہ بولنا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں، اس حالت کو دیکھ کر مسلط شحص بولتا ہے میں تمہارے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں گا ،ان کے پیشاب میں خون آرہا ہے انہیں کینسر کا خطرہ ہے، شکایت درج کرائے جانے پر ایسے ڈاکٹر کو بھیجا گیا جس کے پاس چیک اپ کے ضروری آلات ہی نہیں تھے، وہ چیک اپ کے بعد کہتا ہے مجھے تمہاری تکلیف کی کوئی پروا نہیں، کینسر کی ہی وجہ سے فیلو پرزنر عبد الرزاق حکمتی کی دردناک موت ہو چکی ہے، سخت سردی کے موسم میں ۱۰ بجے رات میں ایک پلاسٹک کا کمبل دیا جاتا ہے،عبادت و ریاضت ، تسبیح و تہلیل کی مہلت نہیں دی جاتی ہے ، قرآن کریم کے سوا کسی دوسری دینی کتاب کے رکھنے کی اجازت نہیں ہے، اورینج کلاتھ، قرآن کریم، ایک جوڑا سلیپر، ایک بوتل پانی ہی کل متاع کائنات ہے، کچھ قیدی ایسے بھی ہیں جنہیں پانی رکھنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے-(دیکھیے اینڈی وارتھنگٹن کا مقالہ: سامی الحاج اے جرنلست آن دی فرنٹ لائن ان گوانتانامو، دی ہندو،۳۰؍اپریل۲۰۰۸ء)
امریکہ کی انسانیت سوز داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، اسلام اور مسلم دشمنی امریکہ کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے، بے گناہ اور بے قصور افراد کو صرف شبہے کی بنا پر گرفتار کر کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے، ابھی حال میں ایسے چھ نوجوانوں کی داستان پر مبنی ایک کتاب نیویارک سے شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے- The Jihad next door: the lackawanna six and rough justice in the age of  ’’ terror وجے پرشاد کا فرنٹ لائن شمارہ ۹؍ مئی ۲۰۰۸ء میں اس کتاب پر شاندار تبصرہ شائع ہوا ہے، ان چھ نوجوانوں کی کہانی اسی تبصرے کے حوالے سے مختصراً سنئے:
۱۹۴۰ء کی دہائی میں لیکاوانا میں دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل فیکٹری تھی جس میں تقریباً ۲۰؍ہزار ملازمین کام کرتے تھے ان میں اکثر آئرلینڈ، پولینڈ اور یمن کے باشندے تھے،۱۹۸۰ کی دہائی میں یہ کمپنی تباہی کا شکار ہو گئی اور نوجوان نسلیں بے روزگار ہو گئیں-  کچھ یمنی نژاد امریکی نوجوان کامل درویش کی جانب مائل ہو گئے جو ۱۹۹۰ میں جاری جہاد سے لوٹا تھا، یہ نوجوان اس کے پاس جا کر بوسینیا کی کہانی بڑی دل چسپی کے ساتھ سنا کرتے، آخر ایک دن کامل نے ان سے بھی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی درخواست کی، وہ نوجوان لاشعوری طور پر تیار ہو گئے اور القاعدہ کے کیمپ الفاروق جو قندھار میں تھا پہنچ گئے، تھوڑی مدت کے بعد ان کی طبیعت اکتا گئی، انہیں وہاں کی دنیا عجیب لگی اور کیمپ چھوڑ کر واپس امریکہ اپنے وطن لوٹ آئے، ایف، بی ، آئی ان نوجوانوں کی تاک میں تھی،۹؍ستمبر ۲۰۰۲ء کو ان چھ نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، انٹلی جنس نے اس حقیقت کی کوئی پروا نہیں کی کہ یہ نوجوان غلطی سے وہاں پہنچے تھے اور امریکہ کے خلاف ان کے کوئی خطرناک عزائم نہیں تھے-
تشنوبہ حیدر ایک سولہ سالہ بنگلہ دیشی دوشیزہ کو صرف اس شبہے کی بنا پر جلا وطن کیا گیا کہ وہ امریکہ کی پہلی خود کش حملہ آور لڑکی ہو سکتی تھی، اور اس شبہے کی تائید میں لفظ ’’Suicide‘‘ کے گرد ایک صفحہ پر بنائے گئے ایک خاکے کو پیش کیا گیا جس کے متعلق ان کے والد حیدر کا کہنا ہے کہ وہ خاکہ ’’مذہب خود کشی کا مخالف‘‘کے موضوع سے متعلق اس کے کلاس نوٹ کا حصہ تھا-
احساس برتری:- 
درحقیقت اس سلسلے میں راز پنہاں یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پا لیسی میں ہی جارجیت ہے اور کسی بھی ملک کی خارجہ پا لیسی در اصل اس ملک کے سیاسی کلچر کی پیداوار ہوتی ہے ، اس کی خارجہ پا لیسی میںجارحیت اس احساس بر تری اور شعور با لا دستی کی بنا پر ہے کہ امریکہ کو ثقا فتی نسلی اور مختلف قسم کا تفوق حا صل ہے -  اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا میں جہاں چا ہے جیسے چاہے اپنی طا قت کا استعمال کرے- اب ذرا مریکہ کی دہشت گردانہ سر گرمیوں سے ہٹ کر دہشت گردی سے ہی جڑے ایک دوسرے اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں، دہشت گردی کے روزبر وز اضافہ سے علم کی ایک نئی شاخ نکل آئی ہے جسے ’’Terrorology ‘‘یعنی علم دہشت گردی کا نام دیا گیا ہے- بر طا نیہ اور امریکہ میں اس سے متعلق خصوصی مطالعہ کرانے والے شعبے قائم ہوگئے ہیں-
۱۱؍۹ سے پہلے تک حالات ایسے نہیں تھے ، امریکہ میں دہشت گردی سے متعلق ۲۰۰۱ء میں صرف ایک سو مقالے شائع ہوئے تھے لیکن ۲۰۰۷ء میںیہ تعداد ۲۳۰۰ ریکارڈ کی گئی -  اب اس موضوع پر مختلف پروجیکٹ کرائے جارہے ہیں اور آہستہ آہستہ مارکیٹ میں ایسے افراد کی بہتات ہورہی ہے جو اپنے آپ کو ٹیر رزم ایکسپرٹ کا نام دے رہے ہیں ، مختلف ممالک نے دہشت گردی کے امور میں تعاون اور ایکسپرٹ ایویڈنس کے لئے ان کی خدمات حاصل کرنی شروع کردی ہے یہ اپنے ماہرانہ مطالعے کی روشنی میں دہشت گردوں کی تشخیص کرتے ہیں اور شہادتیں دیتے ہیں-
اس کا باضا بطہ آغاز امریکہ میں اس وقت ہوا جب ڈاکٹر ریووین پا ز (Reuven Paz)ڈائریکٹر آف پروجیکٹ فار ریسرچ آف اسلامسٹ موومنٹ اینڈ دی انٹر ڈسپلنری سینٹر ،ہر زلیا ،اسرائیل ، اور ڈاکٹر میتھو لیوٹ (Matthew Levit)ممبر آف انٹر نیشنل سینٹر فار پالٹیکل وائے لینس اینڈ ٹیر رزم ریسرچ نے بطور ما ہر امور دہشت گردی اپنی گواہی پیشے کے طور پیش کرنا شروع کیا ، سال گزشتہ ایک بر طانوی مسلمان محمد عاطف صدیق کو انٹرنیٹ سے جڑی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں ماہرین کی شہادت کے ذریعہ ہی مجرم قرار دیا گیا تھا-
اسلوب میں خامی:- 
لیکن جنہیں ایکسپرٹ کہا جارہا ہے ان کے ایکسپرٹا ئز پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ، مختلف قسم کے سوالات کے گھیرے میں ہے ان کی مہارت ، صرف ایک انڈر گریجویٹ قانون کی ڈگری اور انٹرن شپ لے چکا شخص امریکہ کے شعبہ دفاع اور شعبہ انصاف کا مشیر ہے،یہی نہیں بلکہ نا قدین تو ان ما ہرین کے غیر جانب دارانہ کردار کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ماہرین عموماً رائٹ ونگ سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر صہیونی حامی تنظیموں سے اور ایسے میں یہ توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے کہ یہ عام طریقے سے ہٹ کر غیر متعصبانہ انداز میں اپنی ذمہ داری نبھائیں گے ، دہشت گردوں کی شناخت کے سلسلے میں ماہرین کی شہادت ، اس کے معیار اور طریقہ کار پر اپنے شبہے کا اظہار کرتے ہوئے انتھونی گلیز (Anthony Glees)پروفیسر آف انٹلی جنس اینڈ سیکوریٹی سروسز برونیل یونیور سٹی لکھتے ہیں:
''by its very nature terrorism is shrouded in secrecy .... the only way academics can get inside information is if they have extremely close links either to intelligence services or to terror groups , and even then there have to be doubts about its accuracy as intelligence reports are often contradictoty, any work academic does must inevitably be then regarded as researched opinion which I am not all sure meets the standard of evidence and cross-examination required in a court of law "
دہشت گردی اپنی طبیعت کے اعتبار سے ہی راز سر بستہ ہے، امور دہشت گردی کے ماہرین کو اندرونی اطلاع ملنے کی صرف ایک صورت یہ ہے کہ ان کے انٹلی جنس سروسز سے یا دہشت گرد گروپ سے انتہائی قریبی روابط ہوں، اس کے باوجود اس کی صحت سے متعلق شبہ ضرور باقی رہتا ہے کیونکہ بسا اوقات انٹلی جنس کی خبریں با ہم بگریباں ہوتی ہیں-  ماہرین کا کوئی بھی علمی کام یقینا تحقیق سے حاصل شدہ رائے ہی کے زمرے میں آئے گا اور میں اس با بت یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ کورٹ آف لا میں مطلوب ’’شہادت‘‘ اور ’’تفتیش‘‘ کے معیار کے مطا بق ہے-
(جان کریس کا مقالہ:- Just how expert the terror expert witnessesدی ہندو،مئی۲۰۰۸ء)
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو مہم چھیڑ رکھی ہے اس میں کہیں بھی انصاف ، غیر جانب داری اور شفافیت کا دور دور تک کوئی پتا نہیں ہے بلکہ اس کی یہ مہم عالمی دہشت گردی کی مہم بن چکی ہے ، وہ دہشت گردی کو اور فروغ پانے کا موقع فراہم کررہا ہے، وہ خود مسلسل جرائم پر جرائم کا ارتکاب کرتا جارہا ہے ، پہلے اس نے دہشت گردی کو مذہب اسلام سے جوڑا پھر عراق اور افغانستان کو تاراج کیا ، قیدیوں کو فئر ٹرائل کا حق نہیں مل پا رہا ہے ان کو غیر انسانی طریقے پر زد وکوب کیا جارہا ہے، اور ستم بالا ئے ستم یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کی شناخت میں ان افراد کی مدد لی جارہی ہے جو نہ تو ماہرہیں اور نہ غیر جانب دار ، دہشت گردی کی مہم کے ان سارے کمزور پہلوئو ں نے امریکہ کو شاہرہ عام پر ننگا کردیا ہے، دوسری طرف امریکہ ان ریا ستوں کی غیر مشروط حمایت میں ہمہ وقت لگا رہتا ہے جو دہشت گردی کے کا ر خانے چلا رہی ہیں، وہ اب تک سنگین بین الا قوامی جرم کے بطن سے پیدا ہونے والی خون آشام ریاست اسرائیل جس کے پاس وسیع پیمانے پر تبا ہی کے ہتھیا ر موجود ہیں کے تحفظ کے لئے یو این سیکور ٹی کو نسل میں ۳۹ بار اپنے ویٹو پا ور کا استعمال کرچکا ہے اوراب ایتھوپا کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے کہ وہ صومالی مسلمانوں کو کچل دے-  ایسے میں اگر امریکہ کی خون ریزیوں کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ ہی دنیا کا سب سے بڑا مجرم اور بین الا قوامی دہشت گرد ملک قرار پائے گا لیکن ہے کوئی جو امریکہ کی دہشت گرد ی کو لگام دینے کی جرات کرسکے؟
عرض آخر:-
امریکہ اگر واقعی اپنی اس مہم میں مخلص ہے اور وہ اس مہم میں حقیقی کامیابی دیکھنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے خود اسے معصوموں کی خون ریزی ، بے گناہ افراد کی گرفتاری اور دوسرے صہیونی حامی عزائم سے باز آنا ہوگا، صہیونی طاقتوں کا آلۂ کار بننے سے گریز کرنا ہوگا، اسلامی دہشت گردی کی رٹ لگانا چھوڑنا ہوگا، کیوں کہ اسلام میں ناحق خون ریزی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسے القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے پس منظر کا مطالعہ کرنا ہوگا، اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، وہ اسباب و علل تلاش کرنے ہوںگے جنہوں نے انہیں مسلح جد و جہد پر مجبور کردیا ہے، کہیں وہ خود اس کے اور دوسرے مغربی استعمار پسند ممالک کے مظالم کا رد عمل تو نہیں-
اگر ان حقائق پر غور و فکر کیا گیا تو پھر پوری دنیا اس کی اس مہم میں شانہ بشانہ شریک ہوگی اور مہم کامیاب ہو کر رہے گی اور اگر ان حقائق کو نظر انداز کردیا گیا تو دہشت گردی کے طوفان کے تھمنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی بلکہ حالات تو اس بات کے غماز ہیں کہ صورت حال بد سے بدتر ہوگی اور پوری دنیا قتل و غارت گری کے جہنم میں جھلس کر خاکستر ہوجائے گی-

اسلام اور دہشت گردی

0 comments
اسلام اور دہشت گردی
  ازقلم: ضیاء الرحمٰن علیمی 
------------------------------------------
دہشت گردی اور اسلام دو ایسے لفظ ہیں جن کا آپس میں دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود کئی دہائیوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں اور اس ذیل میں اسلام پر میڈیا کی بڑی مہربانیاں رہی ہیں، میڈیا ہمیشہ سے یہ محسوس کرتا رہا ہے کہ اسلام اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اب اس غلط فہمی کے لیے ہم اپنی کوتاہیوں کو مورد الزام قرار دیں یا پھر میڈیا کے افراد کی تن آسانی اور ان کے اندر تفتیش و تحقیق کی مجرمانہ حد تک کمی کو، یا پھر ہم یہ مان لیں کہ میڈیا خاص نقطہ نظر کے ساتھ تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے ان الفاظ کو باہم جوڑ کر پیش کر رہا ہے اور اس کے پس پردہ جو فکر کام کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرا دیا جائے کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب نہیں بلکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مصدر و منبع ہے اور اسلامی تعلیمات کے اندر ہی کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس کے پیروکاروں کو دہشت گردانہ اعمال کی انجام دہی پر اکساتی ہیں، حقیقت حال جو بھی ہو لیکن اتنا تو مسلّم ہے کہ اس حوالے سے مختلف تحریکوں ، تنظیموں اور جہادی آوٹ فٹ کی سرگرمیاں اخباروں کی شہ سرخی بنتی رہی ہیں- انہی تنظیموں میں ایک مشہور و معروف نام اسٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف انڈیا(SIMI) کا بھی ہے-
۲۰۰۱ء میں پابندی کے بعد یہ تنظیم منظر نامے سے بالکل ہی غائب ہو گئی تھی اور پھر گاہے بگاہے اس کی سرگرمیوں کے تعلق سے بعض معمولی قسم کی خبریں آتی رہیں- لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب میں نے ملاحظہ کیا کہ انگریزی میگزین فرنٹ لائن کے ۲۱؍ دسمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں کور اسٹوری (Cover Story)کا کالم سیمی(SIMI)کی نشو و نما اور ہندوستان میں اسلام پسندوں کی بنیاد پرستی کے ارتقائی جائزہ کی نذر ہے-یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ میگزین ’’ کور اسٹوری‘‘ کے تحت نہایت اہم موضوعات کا مختلف زاویوں سے جائزہ پیش کرتی ہے، بہر حال ۱۶؍ صفحات پر مشتمل اس کالم میں تین مضامین شائع ہوئے ہیں-Terror Links(دہشت کے رشتے) کے عنوان سے شائع مضمون میں مضمون نگار پروین سوامی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اگرچہ اس تنظیم پر پابندی عائد کی جا چکی ہے لیکن اب بھی یہ ہندوستان کے ریڈیکل اسلام پسندوں کے لئے سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور اب تک ملنے والی شہادتوں سے یہی پتا چلا ہے کہ ۲۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو وارانسی، فیض آباد اور لکھنو میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں اور آندھرا پردیش ،گجرات اور اتر پردیش میں ہوئے کم از کم ایک درجن بم دھماکوں میں اس کا ہاتھ ہے، تنظیم اسلام پسندوں کے تشدد کے لیے ایک بنیادی پلیٹ فارم کے طور پر معرض وجود میں آئی تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی تاریخ بم کے ساتھ اس کے لوافیر کاراز ہنوز غیر واضح ہے-
جنوبی ایشیا کی دوسری تنظیموں کی طرح یہ تنظیم بھی فکری طور پر ابو الاعلی مودودی صاحب کی خوشہ چین ہے جنہوں نے۱۹۴۱ء شریعت اسلامیہ پر مبنی نظام حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کی غرض سے جماعت اسلامی کی بنا ڈالی تھی-لیکن جماعت اسلامی گزرتے ایام کے ساتھ ایک ایسی ثقافتی تنظیم میں تحلیل ہو گئی جس کا مطمح نظر مسلمانوں کے مابین Neo Coservativeاسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے، پورے ملک میں اس نے ایسے اسکولوں اور اسٹڈی سرکل کا جال بچھا رکھا ہے جس کا ہدف آزادی کے بعد کمیونزم اور شو شلزم کے مسلمانوں کے مابین بڑھتے اثرات پر بند باندھنا ہے-۱۹۵۶ء میں اس کی ایک طلبہ ونگ SIO کے نام سے قائم ہوئی جس کا ہیڈ کواٹر علی گڑھ تھا-لیکن چوںکہ شمالی ہندوستان کے مسلمان فرقہ وارانہ فسادات کے ستائے ہوئے تھے اس لیے جماعت کے متشددانہ نظریات کو قبولیت عام کا درجہ نصیب نہیں ہوا اور منطقی نتیجے کے طور پر جماعت نے آہستہ آہستہ مودودی صاحب کے پرتشدد نقطہ نظر سے بریک اَپ کرکے سیکولرزم کو اپنی نئی معشوقہ بنا لیا، جماعت اسلامی کے اصلاح پسند طبقے اور سخت گیر نظریہ کے حاملین کے مابین فکری ٹکرائو کے نتیجے میں اپریل ۱۹۷۷ء میںSIOکے ملبے پر سیمی کی داغ بیل پڑی اور پھر آندھرا پردیش، مغربی بنگال، بہار اور کیرالا کی ان طلبہ تنظیموں سے رابطے قائم کیے گئے جو جماعت کے ہم نوا تھیں، اسی دوران دوسری بہت سی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں منظر عام آئیں لیکن ان کا دائرہ بہت محدود رہا جب کہ سیمی کا حلقہ اثر پورے ہندوستان میں وسیع ہو گیا، مغرب سے چلنے والا اسلام مخالف تند و تیز استعماری چھونکوں نے اسے اور مضبوط بنانے کا کام کیا، سوویت یونین میں لڑنے والے امریکہ سے شہ یافتہ مجاہدین کی تنظیم نے حمایت کرنی شروع کر دی او رکھلے بندوں یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسلام ہی کے دامن میں ساری دنیا کے مسائل کا حل ہے، ان حالات سے خوف زدہ ہو کر جماعت اسلامی قیادت نے اپنے آپ کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن اندرون خانہ دوستانہ تعلقات میں کوئی کمی نہیں آئی - ۱۹۸۲ء کے بعد اس کے حامیوں کا حلقہ اور بھی وسیع ہو گیا ، مغربی ایشیا کی مختلف تنظیموں مثلا کویت کی ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم یوتھ ، سعودی عرب کی اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے داد و تحسین ملی اور ان ممالک سے بے اندازہ رقم کی آمدنی کے نتیجے میں اس نے انگریزی، اردو، ہندی میں ’’ اسلامک مومنٹ ‘‘گجراتی میں ’’ اقرا‘‘ بنگالی میں روپن تار(Rupantar)تمل میں سیدی مالار(Seidi Malar) اور ملیالم زبان میں ویویکم(Vivekam)نامی میگزینیں نکالنی شروع کیں، سیمی نے تحریک طلبہ عربیہ کے نام سے مدارس کے طلبہ کی ایک خاص ونگ اور شاہین فورس کے نام سے ۷؍ سال سے لے کر ۱۱؍ سال کی عمر کے لڑکوں کی بھی ایک ونگ قائم کی-
مڈل کلاس کے مسلمانوں کے درمیان اس تنظیم کی مقبولیت کی وجہ یہ رہی کہ مسلمانوں کے بچے ان کے ہند و بھائیوں کی ہی طرح الکحل، ڈرگ اور جرائم کے عادی ہو چکے تھے، اسلامی رجحان کی آمد کے نتیجے میں یہ بچے بری عادتوں سے دور ہوتے چلے گئے ،اس لیے تنظیم کو مسیحا کے طور پر دیکھا گیا، ایک دوسری وجہ یہ بھی رہی کہ اس طبقے کے مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والی اقتصادی ترقی کے مواقع کے سلسلے میں ان کے ساتھ دھوکے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ حقوق کی بازیابی کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے اور اسی تناظر میں سیمی کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مافیا سے جڑے بہت سے مسلم نوجوانوں نے سیمی میں شرکت اختیار کر لی جس سے تنظیم کا مالی فائدہ تو ہوا ہی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ وہ جرائم پیشہ افراد نہیں بلکہ مظلوم مسلم امت کا دفاع کرنے والے ہیں-
۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سیمی نقطۂ نظر(Viwe  Point)میں زبردست تبدیلی آئی،بابری مسجدشہادت کی پہلی برسی کے موقع پر سیمی سے مربوط لشکر طیبہ کے افراد جلیس انصاری ،محمد اعظم غوری، عبد الکریم تونڈا نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملے انجام دیے، یوں ہی سیمی کے ممبران کی ایک بڑی تعداد نے جیش محمد، حرکت الجہادالاسلامی جیسی تنظیمیں جوائن کر لیں-۱۹۹۶ء میں سیمی نے یہ بیان دیا کہ جب ڈیمو کریسی اور سیکولرزم مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے تو اب واحد راستہ یہ ہے کہ خلافت کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں اور محمود غزنوی کا طریقہ اختیار کیا جائے، اس کے علاوہ مسلسل دو قومی نظریہ کا نعرہ ،۱۱؍ ستمبر کے بعد القاعدہ کی حمایت میں مظاہرے، بامیان میں بودھ کے مجسمہ کے انہدام پر جشن جیسے اعمال نے تو اس کی جدل و قتال پسند ی کو اور برہنہ کر دیا-
گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ سیاسی اسلام کے ارتقا کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ حکومتیں مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسلامی کمیونلزم کی جانب سے صرف نظر کرتی رہی ہیں اور کمیو نسٹ لیڈر پرکاش کرت کے مطابق ہندو کمیونلزم ہندوستان میں اس لیے مضبوط ہوا ہے کہ سیکولر طبقہ نے مسلم فرقہ واریت کے لیے رسی ڈھیل کر رکھی ہے لہٰذا اس کی بات کی ضرورت ہے کہ ایسی سیاسی پالیسی کی جس کی کوکھ سے اس قسم کی تنظیمیں جنم لیتی ہیں بیخ کنی کے لیے محکم اور مضبوط اسٹریٹیجی وضع کی جائے اور یقینا یہ سیکولر ہندوستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے-
نئے اڈوں کی تعمیر(Building new bases)کے عنوان سے لکھی گئی دوسری تحریر دراصل چنئی سے ٹی، ایس سوبرامنیم ، تروننتپورم سے آر کرشنا کمار، کولکاتا سے سوہرید شنکر چتوپادھیائے کا رپورٹوں کی مجموعہ ہے جس میں انہوں نے بالترتیب تامل ناڈو، کیرالا اور بنگال کے تعلق سے یہ ذہن دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ صوبے اسلامی دہشت گردی کی مکمل گرفت میں ہیں، دہشت گردی کے حوالے سے چیریٹیبل ٹرسٹ فارمائی نارٹیز(C.T.M)نیشنل ڈیویلپمنٹ فرنٹ آف کیرالا(N.D.F)کرناٹکا فورم آف ڈگنٹی(K.F.D)جیسے خیراتی اداروں پر بھی ان کے جارحانہ تیور کی وجہ سے کڑی نظر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام اداروں کے چیر مین سیمی کے سابق علاقائی صدور اور اس کے ممبران سیمی کے سابق انصار ہیں-
پولیس کا ماننا ہے کہ تامل ناڈو میں لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی تنظیموں کے سلیپر سیل کی موجودگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، ویسے تامل ناڈو میں سیمی اس وقت لوگوں کی نظر میں آئی جب ۱۹۹۹ء میں ان کے دعوتی آرگن Seithi Madd(خبر نامے) میں جموں کشمیر کی سرگرمیوں کو کوسوو اور چیچنیا کی آزادی تحریک کے مماثل قرار دیا گیا تھا اور اسی بنا پر اس پر پابندی بھی عائد کر دی گئی تھی، ان دنوں سیمی کے سابق ممبران لائبریریوں ، خیراتی اداروں اور دعوتی کاموں میں مصروف ہیں، پولیس افسران کے مطابق سعودی عرب کی زیر حمایت مختلف غیر ملکی ایجنسیاں نہ صرف انتہا پسند تنظیموں کو بلکہ انفرادی طور پر بھی مالی تعاون فراہم کر رہی ہیں،مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگرچہ ذمہ داران کی جانب سے حالات کنٹرول میں ہونے کی بات کہی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے دہشت گردی کے حوالے سے طاری اس سکوں کو پرفریب سکون سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے-
کیرالا کی صورت حال تو بالکل ہی مختلف ہے، یہ بڑی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنتا جا رہا ہے، یہاں سے مالدیپ کی دہشت گرد تنظیموں کو اسلحے، آتش گیر مادے سپلائی کیے جا رہے ہیں، ایم ،ڈی، ایف ، این ڈی ایف، جیسی سیمی سے مربوط تنظیمیں سر گرم عمل ہیں، ان ساری تنظیموں کا پروفائل حالات کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے، کبھی وہ ہندوتو کے بالمقابل اسلامی آئیڈ یالوجی کو نمایاں کرتے ہیں تو کبھی کیرالا کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل کو، تو کبھی استعماریت مخالف، گلوبلائزیشن مخالف ایجنڈوں کو، سیمی کے دفتر پر پولس کے چھاپے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ حوالہ چینل کے ذریعہ مغربی ایشیا سے ہر ہفتہ ایک لاکھ سعودی ریال کی رقم تعاون فنڈ کے طور پر آتی ہے، مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہیں کہ اس وقت کیرالا میں سب بڑی دہشت گردانہ سرگرمی یہ جاری ہے کہ نوجوانوں اور کم سنوں کی برین واشنگ ہو رہی ہے اور انہیں فکری طور پر یر غمال بنایا جا رہا ہے-
مغربی بنگال کو عام طور سے دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پاک مانا جاتا رہا ہے، لیکن ۲۱ ؍ نومبر کو کولکاتا میں ایک مظاہرے کے دوران جس تیزی سے حالات خراب ہوئے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں بھی فکری بمباری شروع ہو چکی ہے ،پولیس کو شبہ ہے کہ سیمی سے مربوط کچھ بنگلہ دیشی اور اتر پردش کی تشدد پسند تنظیموں نے حالات خراب کرنے میں رول ادا کیا ہے- اگست ۲۰۰۶ء اور اپریل ۲۰۰۷ء کے درمیان لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کے افراد بنگال میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے، جون ۲۰۰۷ء میں کولکاتا پولس نے تین تشدد پسندوں کو گرفتار کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ حزب الجہاد الاسلامی بنگلہ دیش سے ان کے رابطے ہیں، خلاصہ یہ کہ حالات یہاں بھی اچھے نہیں ہیں اور مغربی بنگال بھی اب دہشت گردوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے-
تیسرے مضمونUneasy in Paradise(جنت میں اضطراب) میں مضمون نگار پروین سوامی نے ذکر کیا ہے کہ اسلام پسندوں کی سرگرمیاں ان آئس لینڈ میں بھی فروغ پا رہی ہیں، جو ان سماجی، سیاسی تنائو سے آزاد ہیں جن کی بنا پر یہ سرگرمیاں فلورش ہوا کرتی ہیں، چنانچہ فصیحو اور واحد نامی مالدیپ کے دو طالب علم جامعہ سلفیہ اسلامیہ فیصل آباد گئے جہاں کے پروڈکٹ میں مختلف القاعدہ اور لشکر طیبہ کے قائدین شامل ہیں، اسی مدرسہ سے ابراہیم شیخ نامی شخص نیوکنزرویٹو روایات سے آراستہ ہو کر مالدیپ لوٹا اور صدر ماموں عبد القیوم کی حکومت کے خلاف جو کہ سنی شافعی مسلک کی نمائندگی کرتی ہے آواز اٹھائی، سلطان پارک بم دھماکہ ہو یا کوئی اور پر دہشت حادثہ ان سب میں جماعت اہل حدیث کے افراد ملوث نظر آتے ہیں، Fiyesمیگزین کے رپورٹر احمد عبد اللہ کے مطابق ابو عیسی اور اس جیسے لوگوں نے سنامی سے متاثرین کی مدد میں بھی بھید بھائو روا رکھا اور ان کی یہ کوشش رہی کہ ریلیف فنڈ ان لوگوں کو دیا جائے جو ان کی مرضی کے اسلام (سلفیت) کی پیروی کے لیے تیار ہوں -
مالدیپ حکومت نے سلفی حضرات کی سرگرمیوں سے پریشان ہو کر ان کے تمام نیٹ ورک پر پابندی عائد کرنا شروع کر دیا ہے کیوں کہ اسے پتا ہے کہ جنت سے جہنم کا راستہ بہت دور نہیں ہے-
کور اسٹوری کی تلخیص سے چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں (۱) میڈیا سیاسی اسلام سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے(۲) شعوری یا لا شعوری طور پر پوری دنیا میں سلفی اسلام کے ذریعہ اسلام کی رسوائی اور بدنامی ہو رہی ہے اور اس پورے منظر نامے میں ابن تیمیہ کی حیثیت ایک ہیرو یا ویلن کی ہے(۳) سرکاری ذرائع سے فراہم سلفی حضرات (میری مراد ہندوستانی سیاق میں ہے جس میں دیو بندی ،جماعت اسلامی اور اہل حدیث حضرا ت سب کسی نہ کسی طرح ابن تیمیہ کے فکری خوشہ چین ہیں) کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے کی خبر پر اگر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا تو اس کی صحت کے امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا (۴) جماعت اسلامی ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے خدو خال علاقائی اعتبار سے متعین کرتی ہے، شمالی ہندوستان میں اگر وہ ایک طرف صوفیہ اور ان کے رسوم و روایات کے خلاف سخت گیر نظر آتی ہے تو دوسری طرف جنوبی ہندوستان میں وہ میوزک، فلم اور دوسری ثقافتی سوسائٹیوں کی سر پرستی بھی کرتی ہے، شمالی ہندوستان میں ان کا ایجنڈا اگر عموما مذہبی ہوتا ہے تو جنوبی ہندوستان میں تعمیری، تربیتی  اور کمیونسٹ و استعماریت مخالف، اور یہ علاقائی اثر ہی کا نتیجہ ہے کہ مودودی صاحب کی کتاب ’’ پردہ‘‘ کی اشاعت اب تک ملیالم زبان میں نہیں ہو سکی ہے-
کور اسٹوری سے متعلق میں چند سوالات قائم کرتے ہوئے گزر جانا چاہتا ہوں (۱) کیوں میڈیا دہشت گردی کے ساتھ اسلام کے مقدس لفظ کو جوڑتا ہے جب کہ خود اس کا ہی ماننا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا؟ (۲) اور اگر وہ دہشت گردی کے ساتھ اسلام کا اضافہ امتیاز کے لیے کرتا ہے تو پھر وہ ہندو دہشت گردی یا یہودی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کیوں نہیں کرتا؟ (۳) اسلامی دہشت گردی اور اسلام پسندی کے ارتقائی جائزے کے لیے میگزین کا اہم ترین کالم وقف کر دیا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں آر ایس ایس، بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے نشو ونما اور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر سیمی جیسی تنظیمیں سیکولر ہندوستان کے لیے چیلنج ہیں تو کیا ہندو دہشت گرد تنظیمیں ہندوستان کے ماتھے کا جھومر ہیں؟ میرے خیال میں سیکولر ہندوستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج میڈیا کا دوہرا معیار ہے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سکے کے دونوں رخ دکھائے جائیں - درحقیقت اس سلسلے میں راز پنہاں یہ ہے کہ دہشت گردی کی تو صرف دہائی دی جا رہی ہے ، امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رامسی کلارک کے مطابق اصل نشانہ پر اسلام ہے ،امریکہ اسلام سے خوف زدہ ہے کیوں کہ اسلام نے افریقی ، امریکی نسل کے لوگوں کو امن، سکون ، عظمت کیوں وقار اور ایمان عطا کیا ہے جس کی وجہ امریکہ کا مادّی مفاد دائوں پر ہے (دیکھیے رامسی کلارک کا انٹرویو، دی ہندو ۱۷؍ دسمبر ۲۰۰۷ء) اور اسی بنا پر اسلام اور دہشت گردی کی افواہ پھیلائی جا رہی ہے-
دوہرا رویہ:- 
ایسا عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جب کبھی دہشت گردی کے حوالے سے ان جماعتوں کے ملوث ہونے کی خبر آتی ہے جو سواد اعظم اہل سنت و جماعت اور مسلک صوفیہ سے الگ ہیں تو فوراً ہی اس طرح کی خبروں کو بے بنیاد ٹھہرا دیا جاتا ہے اور پھر تصوف و صوفیا کی دہائی دی جاتی ہے، ابھی کچھ دنوں قبل اجمیر بم دھماکے میں کچھ سلفی حضرات کے ملوث ہونے کی خبر آئی تو فوراً ہی جماعت کی جانب سے تردیدی بیان شائع ہوا اور کہا گیا کہ حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ہم سب کے آقا اور سرتاج ہیں، لیکن دوسری طرف جب کبھی موقع ملتا ہے تو یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ صوفیہ کی ان تمام جماعتوں نے عالم اسلام کو کھوکھلا کر دیا ہے(دیکھیے اداریہ مجلہ الفرقان، عربی : جون ، جولائی ۲۰۰۶ء) اور کبھی کویت سے شائع ہونے والے سلفی مجلہ المجتمع میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ صوفیا کے تمام گروہ گمراہ اور گمراہ گر ہیں ، بلکہ کچھ لوگوں کی قبائے حیا یہ کہنے میں بھی تار تار نہیں ہوتی کہ خواجہ غریب نواز تو (معاذ اللہ) ایک سَنْت تھے مسلمان نہیں،ایسے حضرات سے میں صرف ایک ہی گزارش کروں گا  ؎
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سرا سر موم ہو جایا سراسر سنگ ہو جا
ویسے یہ حضرات اگر اپنے رول ماڈل شیخ ابن تیمیہ ہی کی بات پر کان دھر لیں تو معامل حل ہو جائے لیکن اصل پریشانی ان کے ساتھ یہ ہے کہ جب یہ پھنستے نظر آتے ہیں تو امام مالک سے استعانت کرتے ہوئے ان کا یہ قول کل یوخذ من قولہ و یردالا صاحب ہذا القبر (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کچھ بات مقبول اور کچھ مردو ہے) پیش کر کے راہ فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں، شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’صوفیہ کبھی اپنے زمانے کے صدیقین میں ہوتے ہیں اس بنا پر کہ ان میں بہتوں سے اجتہاد واقع ہوتا ہے اور اس سے نزاع و اختلاف واقع ہوتا ہے، لوگوں کا ان کے طریقہ کے بارے میں اختلاف ہے، ایک جماعت صوفیا اور تصوف کی مذمت کرتی ہے اور ایک جماعت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے افضل و کامل ہیں ، یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرات اللہ کی اطاعت میں کوشش کرنے والے ہیں…تو ان میں اپنی کوشش کے لحاظ سے سبقت کرنے والے اور مقرب ہیں اور ان میں درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہیں جو اہل یمن سے ہیں اور دونوں قسموں میں کچھ لوگ کبھی اجتہاد کرتے ہیں اور ان سے کبھی غلطی ہوتی ہے‘‘-(التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃسید یوسف ہاشم رفاعی کویت، اردو ترجمہ: شاہ قادری سید مصطفی رفاعی جیلانی، ص: ۹۱ ،مطبع الاصلاح بنگلور، سن اشاعت ۱۴۲۵ھ/۲۰۰۴ء)
صوفی اسلام سے میڈیا کی محبت کا راز:- 
اس وقت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ صوفی اسلام کی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں اور یہ آواز بلند کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ صوفی اسلام لوگوں تک پہنچایا جائے، آخر راز کیا ہے؟ کیا واقعی میڈیا صوفی اسلام کے تعلق سے سنجیدہ ہے؟ اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا ہم یہ مان لیں حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ اور شیخ ابن عربی علیہ الرحمہ کی شخصیتوں اور ان کی تحریروں سے مغربی دنیا کا شغف کسی نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے؟ میرا اس سلسلے میں اپنا خیال یہ ہے کہ اس بابت بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا خام خیالی کے مترادف ہے،ایسا یقینا ہے کہ ان حضرات کے پیغام محبت و انسانیت سے متاثر ہو کر لوگ اسلام کے مطالعہ میں مصروف ہیں اور ان کی تحریروں کی مانگ مغربی مارکیٹ میں بہت بڑھ گئی ہے- لیکن یہ بھی ناقابل انکار سچائی ہے کہ ان حضرات کی تحریروں کے جو ترجمے شائع ہوئے ہیں اور ان کی شخصیتوں پر جو کام ہوئے ہیں وہ اس نوعیت کے ہیں کہ ہم جماعت صوفیہ سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اسے مکمل طور پر اپنا نہیں سکتے، کیوں کہ ان کی شخصیت کو وحدت ادیان کے نمائندے اور ان کے افکار کو اس نظریے کے ناطق کے طور پیش کرنے کی بھر پور کوشش ہو رہی ہے، ان کے حوالے سے آئی تحریروں کو پڑھنے کے بعد ایک سادہ لوح مسلمان اس نتیجے تک پہنچنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتا کہ واقعی سارے مذاہب کی روحانیت برحق ہے اور سب کا سر چشمہ دراصل ایک ہی ہے - درحقیقت پوری دنیا کی یہ خواہش ہے کہ اسلام کے تعلق سے مسلمانوں کا جنون ختم یا کم ہو یا کم از کم وہ یہ باور کر لیں کہ دنیا کے سارے مذاہب سچے ہو سکتے ہیں- ابھی چند ماہ قبل پونے کے ایک اسکالر نے مشہور انگریزی اخبارThe Hinduمیں لکھا تھا ’’ بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں اپنی پوری کوشش کے باوجود اپنے مسلمان دوستوں کو یہ یقین کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں‘‘ اور اسی طرح کی کوشوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان شعوری یا لاشعوری طور پر وحدت ادیان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں-
آخری بات:- 
اب ایسے میں ہم اہل سنت و جماعت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نہ تو اسلام کے نام پر سلفی نظریہ جہاد کی حمایت کریں اور نہ ہی صوفیہ اور تصوف کی وہ صورت قبول کریں جسے پیش کیا جا رہا ہے بلکہ سواد اعظم سے منحرف جماعتوں کی فکر ی کمزوریوں کو اجاگر کر کے تصوف کے رخ روشن کو دیدار عام کے لیے واکر دیا جائے، دہشت گردی کے مفاہیم و معانی واضح کیے جائیں اور بتایا جائے کہ جہاد ( بمعنی قتال) ایک مقدس فریضہ ہے جو عدل و مساوات، امن و امان کی حکمرانی، ظلم و ستم کی بیخ کنی کے لیے بوقت ضرورت ہتھیار کے استعمال سے عبارت ہے اور اس قدر تشدد سے جو بظاہر تشدد ہے اور در حقیقت امن کا پیام بر ، بوقت ضرورت گریز ایک مجرمانہ قدم ہی کہا جا سکتا ہے- ابھی کچھ دنوں قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ستیہ گرھ تحریک کی بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاحی خطبہ پیش کرنے کے بعد تبّت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ صاحب نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر کوئی انسان کسی انسان کے خلاف سازشوں کا جال بنتا ہے اور وہ اسی انسان سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتا ہے تو یہ تشدد ہے یا عدم تشدد، انہوں نے کہا کہ یہ بھی تشدد ہی کے زمرے میں آئے گا لیکن اگر والدین یا استاذ اپنے بچوں کے ساتھ کسی حکمت کی وجہ سے تشدد کو بروئے کار لاتے ہیں تو اسے عدم تشدد ہی مانا جائے گا ، کیوں کہ اعتبار مآل اور نتیجے کا ہوتا ہے، گاندھیائی فلسفہ عدم تشدد کا مداح اگر تشدد اور عدم تشد د کی یہ تعبیر و تشریح کر سکتا ہے تو ہم دنیا کے سامنے یہ واضح کیوں نہیں کر سکتے کہ اسلام کے نظریہ قتال میں فلسفہ امن مخفی ہے-
حاصل یہ کہ اسلام سے وابستگی میں تصلب چاہیے، نہ تساہل اور نہ ہی تشدد کیوں، کہ بڑی ہی خوبصورت بات خوشتر نورانی صاحب نے اپنے اداریے ’’اعتراف حقیقت‘‘ میں لکھی ہے کہ تصلب سے وابستہ شخص اور نظریے دونوں کی نشو و نما ہوتی ہے، صلح کلیت سے شخصیت کا نقصان ہوتا اور وہ شکوک کے دائرے میں گھر جاتی ہے اور تشدد سے متعلقہ نظریے کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے اور وابستہ افراد کو برے انجام بھگتنے پڑتے ہیں-

عریانیت کا سیلاب

0 comments
عریانیت کا سیلاب
                                                            ازقلم: ضیاء الرحمٰن علیمی        
------------------------------------------
پس منظر: - زندگی کی تصویر کتنی تغیر پذیر ہے، رفتار زمانہ کس قدر تیز ہے ، ہمارا ملک، ہمارا صوبہ، ہماری سوسائٹی، ہمارا گرد و پیش کتنی تیزی کے ساتھ بدلتا جا رہا ہے، تہذیب و ثقافت میں کتنی سرعت کے ساتھ تبدیلی آرہی ہے، رہن سہن نشست و برخاست ، بول چال، سلوک و برتاؤ میں بدلاؤ کا عنصر کتنی تیز رفتاری کے ساتھ اپنا رنگ دکھا رہا ہے، ایک زمانہ تھا مشرقی تہذیب و ثقافت کی دنیا میں دھوم تھی، خاتون مشرق کے تئیں لوگوں کے دلوں میں احترام تھا، مشرقی آنچل کے تقدس کی قسمیں کھائی جاتی تھیں، ہماری مائیں پردہ نشیں، ہماری بہنوں میں حجاب کا رجحان اور ہماری بیٹیوں میں ردائے عفت کا چلن تھا، انہیں عریانیت کے نام سے کڑھن ہوتی تھی، بے حجابی کے نام پر ہزاروں لعنتیں بھیجا کرتی تھیں-
پیش منظر: - لیکن حا لات نے انگڑائی لی ،زمانے نے کروٹ بدلی، عالمی منظر نے چولا بدلا، دنیا میں ہونے والے نت نئے ایجادات نے انسانی زندگی کا رخ موڑ دیا ،ہیو مین لائف کی اسکرپٹ ہی بدل گئی، زندگی میں سہولتوں کی فراوانی ہوئی، اسباب عیش ونشاط کی بہتات ہوئی اور انسان لذت کو شیوں میں مصروف ہوگیا، شعوری اور لاشعوری طور پر فحاشی وعریانیت ہماری زندگی کا حصہ بن گئی، کچھ دنوں تک ہماری طبیعت کو نا گوار ی کا احساس رہا اور پھر آہستہ آہستہ گزرے شام وسحر کے ساتھ ہم نے جوازکے راستے تلاش کرنے شروع کردیئے فحاشی وعریانیت کے مفہوم ، اور اس کی تفہیم کے لئے علمی مجلسیں منعقد کرنے لگے، ہمارے مذا کرے کی محفلوں میں یہ بات آنے لگی کہ فحاشی وعریانیت کی کتنی قسمیں ہیں ، کون سی قسم سماج کے لئے کرب وآزار اور کون سی سراپا قرار اور تہذیب وثقافت کی عکاس، اور پھر نوبت بہ ایںجا ر سیدکہ جمالیاتی عریانیت (Aesthetic Nudity)کو سماج ومعاشرے کا خوبصورت پہلو سمجھاجانے لگا بلکہ یہ شکایت بھی کی جانے لگی کہ بالی ووڈ یا دوسرے لفظوں میں کہہ لیجئے کہ ہندوستان جمالیاتی عریانیت کے میدان میں بہت پیچھے ہے، کیوں کہ ہندوستان کی ادا کارائیں ابھی بھی جمالیاتی نقطئہ نظر پر مبنی عریاں مناظر فلمانے میں ہچکچاہٹ اور جھجھک محسوس کرتی ہیں جبکہ عریانیت اداکاری کا نا قابل انفکاک پہلو ہے۔
ایک خطرناک رجحان :- عریانیت کے سانپ نے سب کو ڈساہے، بچہ ہو یا بوڑھا ضعیف العمر ہو یا نوجوان، ہر کوئی اس کا گزیدہ ہے، پورا سماج ہی زہر آلود ہو چکا ہے، پوری فضا ہی مسموم ہو چکی ہے، پوری کہانی ہی غمناک ہے،لیکن اس کہانی کا سب سے کربناک پہلو یہ ہے کہ اب ہمارے بچوں اور بچیوں کی معصومیت ، ان کا بھولا پن ، ان کی سادگی ، ان کی شگفتگی رخصت ہورہی ہے، فلموں نے عام طور پر اور ’’چینی کم‘‘ جیسی فلموں نے خاص طور پر ہماری بچیوں میں ان احساسات اور جذبات کو بیدار کردیاہے جو بلو غت کی علامت سمجھے جاتے رہے ہیں ، اب سات سال سے لے کر دس سال کی بچیاں اس اندازمیں رہنا سہنا پسند کرنے لگی ہیں جس انداز میں ان کی بڑی بہنیں رہتی ہیں ، وہ اپنے ہیئر اسٹائل کا بھر پور خیال رکھتی ہیں، اپنے کپڑوں کی فٹنگ پر ان کی خاص نظر رہتی ہے، اونچے ہیلز والی چپل ان کی پہلی پسند ہوتی ہے، اپنی جسمانی ساخت اور اس کی نشو ونما کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں ، پلاسٹک سرجری کے لئے کم سن لڑکیوں کے بڑھتے وزٹ سے پلاسٹک سرجنز پریشان ہیں ، بیوٹی پارلرز اور کا سمیٹک شاپ کی جانب ان کے روز بروز بڑھتے قدم سے مارکیٹ میں ہلچل ہے، آئیڈیل جسمانی ساخت کے لئے کام کرنے والے اداروں میں ان کی بڑھتی آمدورفت سے معاشرتی امور کے ماہرین قلبی اضطراب کا شکار ہیں ، چھ سال کی بچیاں اپنے جسم کو خوبصورت بنانے کے لئے اور اپنے آ پ کو خوبصورت کہلوانے کے لئے فکر مند نظر آرہی ہیں ، حسن کے اعلیٰ معیار کو پانے کی خواہش بڑھتی جارہی ہے، Tanmayaنام کی بچی اپنے نئے ہیئر اسٹائل کے ساتھ گھر پہنچتی ہے اور فوراً اپنی ماں سے سوال کر بیٹھتی ہے موم ! ایم آئی لوکنگ سیکسی اینف ؟(دیکھئے نونا والیا کا مقالہ :لٹل ویمن ، سنڈے ٹائمز آف انڈیا، ۱۲؍اکتوبر ۲۰۰۸ء)
اہل دانش کا اضطراب :- سول سو سائٹی کے لئے کام کرنے والے افراد اس صورت حال سے بہت رنجیدہ ہیں ، ذمہ دار افراد اس بات سے ناخوش ہیں کہ مارکیٹ میں کم سن بچیوں کے لئے وہ ساری چیزیں کیوں فروخت کی جارہی ہیں جو صرف بڑی عمر کی لڑکیوں کے کام کی ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ کم سنوں کے ساتھ نا انصافی ہے، اس سے ان کا بچپن کھو گیا ہے، ان کی سادگی چھین لی گئی ہے، Minakshi Gigi Durhamنامی ایک مصنفہ کی اس موضوع سے متعلق تین کتابیں :
The media Sexualization of young girls
The lolita effect اور What we can do about it?
منظر عام پر آچکی ہیں، جس میں انہوں نے کم سن لڑکیوں میں بڑھتے جنسی ونسوانی احساسات ، اس کے اسباب وعوامل اور پھر اس کے مضر اثرات کا جائزہ لیا ہے، انہوں نے اپنے بلاگ The lolita effectپر یہ بحث بھی چھیڑ رکھی ہے کہ آخر کیسے ایک فیشن میگزین نے ایک پندرہ سالہ لڑکی کی نیم عریاں تصویر شائع کی ہے؟ ایک شوسیولوجسٹPatrica Oberio کا کہنا ہے کہ چمک دمک میں رہنے کی مسابقہ آرائی بہت بڑ ھ گئی ہے، کم سن بچیاں شادیوں کی تقریب میں دلہنوں کی طرح بن سنور کر جانا پسند کرتی ہیں، اس عمر میں یہ رجحان بہت تشویشناک ہے،ان کم سنو ں کی صحت وتندرستی پر بھی اس کے منفی اثرات کا دائرہ وسیع تر ہو تا جا رہا ہے، ایک حالیہ سروے کے مطابق دس سال کی لڑکیاں بے چینی اور قلبی اضطراب کا شکار ہیں ، کیوں کہ وہ حسن کے ایک تصوراتی معیار تک پہنچنا چاہتی ہیںاور یہی خواہش ان کو مضطرب وبے قرار بنائے رکھتی ہے-
ذمہ دارکون؟ اس پوری صورت حال کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ اس عریاں کلچر کے فروغ میں کون سی چیزیں رول پلے کررہی ہے ؟اس سوال کے جواب میں بچوں کے ساتھ کام کرنے والے مصنف آنند کا کہنا ہے کہ اس پوری دل آزار صورت حال کے لئے ٹیلی ویژن ذمہ دار ہے، اس میں تھوڑی اور عمومیت پیدا کرکے یہ کہہ لیا جائے کہ سماج کی اس درگت کے لئے الکٹرانک میڈیا ذمہ دار ہے تو بات زیادہ منا سب اور مکمل ہو جائے گی-قدیم زمانے کایہ حال تھا کہ اگر کہیں برائی جنم لیتی تو اس کی خبر ہم تک بر سوں بعد پہنچتی تھی، انسانی زندگی میں اگر کوئی منفی رجحان سامنے آتا تو عام انسانوں تک اس کے دائرئہ اثر کے پھیلنے سے قبل ہی وہ درگور کر دیا جاتا تھا ، لیکن موجود دنیا بڑی مختلف ہے، اب دینا کے ایک گوشے میں کوئی فتنہ سر اٹھا رہا ہے اور چند ساعتوں میں وہ پوری دینا کے لئے کرب وآز ار کا سبب بن جاتا ہے، میڈیا کے واسطے سے پل بھر میں وہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتا ہے، کسی ادا کارہ نے کسی فیشن ڈیزائنرسے کوئی خاص لباس تیار کروایا کہ اگلے دن ہماری بہن بیٹاں اسی طرز کے لباس کا آرڈر دیتی نظر آتی ہیں، گویا فحاشی وعریانیت کی نمائندہ شخصیات کی ہر عر یانیت اگلے ہی لمحہ ہمارے سماج پر حملہ آور ہو جاتی ہے-
ایک نظر ادھر بھی:-اس دل فگار صورت حال کے لئے ذمہ دار کوئی بھی ہو اتنی بات تو ہمیں تسلیم کرنی ہی ہوگی کہ فحاشی وعر یانیت کی اس گرم بازاری کے لیے کسی نہ کسی طرح ہم بھی ذمہ دار ہیں ، ہم میڈیا کی اخلاق سوز حرکتوں کا شکوہ کیوں کریں ، ہم میڈ یا کو مورد الزام کیوں قرار دیں جبکہ ہم نے اپنے سماج کی حفاظت کے لئے کوئی طریقہ کار اپنا یا ہی نہیں ، ہم نے اپنے کم سنوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام کیا ہی نہیں،اسلامی طرزحیات سے انہیں واقف کرایا ہی نہیں ، عفت وپاک دامنی اور پر دے کی عظمت وحرمت سے ان کو آشنا کرایا ہی نہیں ، فحاشی وعریا نیت کی خرابیوں کو ان کے سامنے اجا گر کیا ہی نہیں ، ہم کرتے بھی کیوں جب کہ ہمارا وجود خود ہی غیر اسلامی طرز حیات کا مرقع تھا - اس ترقی یافتہ عہد میں بھی بہت سے خوش قسمت خاندان ایسے ہیں جو فکر کی اسلامیت اخلاق کی پاکیزگی ، کردار کی بلندی ، روح کی بالیدگی ، ایمان کی خوشبو ، دامن کی عفت ، تہذیب کی خوب صورتی اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں ، اور اس دور پر فتن میں بھی سچے پکے مسلمان کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں، اور یہ سب ان کی ذاتی کاوشوں ، نجی دل چسپیوں ، ان کی زندہ ضمیری اور احساس ذمہ داری کی بنا پر ہی ممکن ہو سکا ہے ، اور کوئی وجہ نہیں کہ اگر ہم بھی کوششیں کریں، اپنی متعلقہ ذمہ داریوں کو نبھا ئیں تو ہمارا ماحول بھی اسلامی نہ بن سکے ، ہمارا سماج اسلامی طرز حیات کا نمونہ نہ بن سکے ، ہم معاشرتی چیلنجوں کا سامنا نہ کرسکیں اور ہماری زندگیاں اسلامی تہذیب وثقافت کے ڈھانچے میں نہ ڈ ھل جائیں ، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کو زندگیوں میں اتار لیا جائے ، اسلامی طرز پر نسلوں کی تربیت کی جائے ، اخلاقی خوبیوں سے آراستہ کیا جائے، حرا سے لائے ہوئے نسخہ کیمیا کی عظمت اور اس کے تقدس کو ان کے دلوں میںبسا دیا جائے ، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ضرور اللہ تعالی کی توفیق ہمارے شامل حال رہے گی اور ہم ایک بہتر معاشرہ ، بہتر نسل اپنے پیچھے چھوڑنے میں کامیا ب ہو جائیںگے، اور دنیاکا کوئی بھی فتنہ ہماری سوسائٹی پر حملہ آور ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا-