Sunday 24 September 2017

۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر

1 comments
           نام کتاب: ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر
           مولف : مولانا یٰسین اختر مصباحی ، 

           صفحات: ۳۰۴، قیمت ۱۰۰؍ روپے ، 
           سن اشاعت ۲۰۰۷ء /۱۴۲۸ھ
          طابع و ناشر: دارالقلم ۹۲/۶۶ قادری مسجد روڈ ، ذاکر نگر، نئی دہلی-۲۵


مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب کی تازہ ترین کتاب ’’۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ پیش نظر ہے- یہ ادارہ تصنیف و تحقیق ’’دارالقلم دہلی‘‘ کے سلسلہ مطبوعات کی بیسویں کڑی ہے جبکہ انقلاب ۱۸۵۷ء سے متعلق مباحث پر مشتمل مولانا موصوف کی چھٹی کتاب ہے، سال ۲۰۰۷ء کو ملک بھر میں انقلاب ۱۸۵۷ء کی ۱۵۰؍ سالہ برسی کے طور پر منایا گیا -حضرت مولانا نے بھی نہ صرف اس سال کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام کر دیا بلکہ اپنی فکر کو، اپنے قلم کو، اپنے وقت کو اور خود اپنے آپ کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام وقف کر دیا ، جس کے نتیجے میں پے در پے ۶؍ کتابیں منصہ شہود پر آئیں ، جن کا وصف مشترک پچھلے ۱۵۰؍ سالوں میں تاریخ گری کی مذموم روایت کا پردہ چاک کر کے انقلاب ۱۸۵۷ء کی حقیقی تصویر پیش کرنا ہے -حریفوں نے تاریخ نویسی کے نام پر انقلاب ۱۸۵۷ء کے وقت ،اس سے پہلے اور اس کے بعد کے اپنے پرکھوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی جو کوشش تھی مولانا مصباحی موصوف نے اپنی بے لاگ تنقید، معروضی مطالعہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے وقت میں یا تو ’’زیرو‘‘ تھے یا پھر ان کا کردار ایک ’’ویلن‘‘ کا تھا- ایسے میں انہیں’’ ہیرو‘‘ کہنا تاریخ کے ساتھ بھونڈا مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں-
زیر تبصرہ کتاب ’’ ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ کو مولف محترم نے ۱۸؍ عناوین /مضامین پر مشتمل رکھا ہے- ’’ شعاع نور‘‘ اور’’ مشعل راہ‘‘ کے عنوان سے دین و سیاست کے تعلق سے ایک ایک صفحہ پر قرآن اور حدیث کے متن و ترجمہ کے ساتھ اقتباسات نقل کیے ہیں- صفحہ ۷-۱۶ ؍ دس صفحات پر ایک گراں قدر، فکر انگیز اور معلوماتی ’’ تقدیم ‘‘ بعنوان’’ گذارش احوال واقعی‘‘ سپرد قلم کی ہے- صفحہ ۱۷-۲۵ ؍ پر ’’ پہلی اور آخری جنگ آزادی(۱۸۵۷ء)‘‘ کے عنوان سے انقلاب ۱۸۵۷ء کی روداد، معتبر تاریخی حوالوں کے ساتھ پیش کی ہے، ساتھ ہی اس کے اسباب ووجوہ پر بھی فاضلانہ تبصرہ کیا ہے- وہ اپنی آخری سطور میں لکھتے ہیں:
’’ انگریز مجموعی طور پر ہندو اور مسلمانوں دنوں کا مشترکہ دشمن تھا، کیوں کہ ہندواور مسلمان ہی کی اس ملک کی غالب اکثریت تھی اور کئی جگہوں پر ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ کی- تاہم ۱۸۵۷ء کے جتنے بھی انقلابی تھے وہ سب کے سب بہادر شاہ ظفر کو ہی اپنا بادشاہ سمجھتے تھے- اسی لیے رانی لکشمی بائی، نانا پیشوا، تانتیہ ٹوپے وغیرہ نے سبز پرچم لہرایا تھا-‘‘(ص: ۲۵)
اس سے پہلے والے پیراگراف میں رقم طراز ہیں:
’’ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اندر جوش و خروش اور جذبۂ جہاد علما کے فتاویٰ کی بنیاد پر ہی تھا اور ان کا جذبہ یہ بھی تھا کہ انگریزوں نے مکر وفریب اور ظلم و جارحیت کے ذریعے یہ ملک ہم سے چھینا ہے، اس لیے ہمیں بڑھ کر ان انگریزوں سے بزور قوت و طاقت دوبارہ اپنی اس میراث کا وارث بننا ہے اور اس ملک پر ہمیں اپنی حکومت قائم کرنی ہے‘‘- (ایضاً)
تاریخ اسلامیان ہند میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (وفات ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲ء) کی ذات وہ نقطہ ارتکاز ہے جہاں مسلمانان ہند کے موجود تمام مکاتب فکر کا سلسلہ اپنے کمال و انتہا پر پہنچتا ہے- ایک دلچسپ بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ شاہ صاحب کی وفات ۱۷۶۲ء کے ۶۲؍ سال بعد بھی سواد اعظم کی ایک ہی لکیر تھی جو سیدھی اور مستقیم تھی، شاہ صاحب کے پوتے اسماعیل دہلوی (وفات ۱۸۳۱) کی تقویۃ الایمان آنے کے بعد اختلاف و انتشار کا دور شروع ہوا- سواد اعظم اہل سنت کے سوا آج جتنی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں سب اسی تقویۃ الایمان کے راستے شاہ صاحب تک پہنچتی ہیں، جبکہ سواد اعظم کا عظیم طبقہ اسے کراس کر کے شاہ صاحب تک پہنچتا ہے- اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب کی ذات جو اسلامیان ہند کے لیے نقطہ اتحاد ہے اور جناب اسماعیل دہلوی کی ذات جو نقطۂ اختلاف ہے، ایک ہندوستانی مسلم مورخ کے لیے کتنی توجہ اور اہمیت کی حامل ہیں- مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب نے زیر تبصرہ کتاب میں اسی اہمیت کے پیش نظر شاہ صاحب پر دو مضامین (۱) فکر ولی اللہی کے وارث وامین، اور (۲) کتب شاہ ولی اللہ میں تحریف و الحاق، شامل کیے ہیں- جبکہ تین مضامین جناب اسماعیل دہلوی، ان کی کتاب تقویۃ الایمان اور ان کے اور ان کے شیخ سید احمد رائے بریلوی کے فسانہ جہاد کی بابت شامل کیے ہیں- پہلا مضمون’’ تقویۃ الایمان اور مباحثہ جامع مسجد دہلی‘‘ کے عنوان سے ہے جو اپنے مشمولات کو بخوبی ظاہر کرتا ہے- دوسرا مضمون ’’ رائے بریلی سے بالا کوٹ کا ایک سفر‘‘ اور تیسرا مضمون’’ فتح و نصرت کے الہامات اور بشارتوں کا انجام‘‘ کے عنوان سے ہے-ان میں تاریخی حقائق اور دہلوی و رائے بریلوی صاحبان کے عقیدت مندوں کے مستند حوالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ یہ دونوں حضرات نہ صرف انگریزوں کے مخالف نہ تھے بلکہ شدید موافق و معاون بھی تھے- بین السطور سے یہ بات بھی اجاگر ہوتی ہے کہ انقلاب ۱۸۵۷ء کو اسماعیلی یا وہابی علماء سے جوڑنا تاریخ سے ناواقفیت پر مبنی ہے یا تاریخی فراڈ کا نتیجہ ہے-
شاہ اسماعیل کے حامی غیر مقلد علماء میں دو نام بہت نمایاں ہیں، ایک شیخ الکل میا ںجی نذیر حسین دہلوی کا اور دوسرا جناب حسین احمد بٹالوی کا واضح رہے کہ بٹالوی صاحب ایک زمانے میں مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے رفیق و ہمراز بھی تھے- یہ دونوں صاحبان نہ صرف انقلاب ۱۸۵۷ء کے مخالف تھے، بلکہ انگریزوں کے حامی اور ان کا ریزہ خوارہ بھی تھے- اس تاریخی حقیقت کو مصباحی صاحب نے ایک مضمون بعنوان ’’ علماے صادق پور (پٹنہ) اور میاں جی نذیر حسین دہلوی‘‘ میں اجاگر کیا ہے-
حالات کے ساتھ خیالات کا بدل جانا کوئی حیرت کی بات نہیں، لیکن حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ حالات بدلنے کے ساتھ حقائق کو بھی بدلنے لگتے ہیں- اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کے انتقال (۱۹۰۵ء) کے ۳؍ سال بعد مولوی عاشق الٰہی میرٹھی نے تذکرۃ الرشید لکھی اور شد و مد کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ اکابر دیوبند، مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولانا قاسم نانوتوی صاحبان انگریزوں کے وفادار تھے اور انہوں نے انقلاب ۱۸۵۷ء میں کسی طرح کا کوئی حصہ نہیں لیا تھا لیکن آزادی ہند ( ۱۹۴۷ء) کے بعد جب حالات انگریز مخالف ہوئے تو علماے دیو بند نے اپنے ساتھ اپنے اسلاف و اکابر کو بھی کانگریسی اور انگریز مخالف ثابت کرنا شروع کر دیا- مولانا مصباحی صاحب نے زیر نظر کتاب میں شامل اپنے مضمون ’’قصبہ شاملی کی جھڑپ کا اصل واقعہ‘‘ میں اسی جھوٹ کو اس کے گھر کی راہ دکھائی ہے- ۳۱ ؍صفحات پر پھیلے ہوئے اس مبسوط تحقیقی مقالے کا اختتام مصباحی صاحب نے اس سوال پر کیا ہے:
اس دور کی ایسی کوئی تحریری روایت نہیں ملتی ، جس میں مولانا میرٹھی کے بیان کی کوئی تردید و تکذیب کی گئی ہو، پھر بعد کے عام انگریز مخالف ماحول میں مذکورہ قدیم تاریخ کو بدل کر نئی تاریخ بنانے کا جواز کہاں سے اور کس طرح پیدا ہو گیا؟ (ص: ۱۸۹)
’’ تاریخ نویسی سے تاریخ سازی تک‘‘ کے زیر عنوان ۸؍ صفحات پر تاریخ سازی کی بوالعجبیاں پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ سلطان ٹیپو کا انگریزوں کے خلاف جہاد شاہ عبد العزیز کے ہندوستان سے متعلق دارالحرب ہونے کے فتوی سے متاثر ہوکر تھا جب کہ سلطان ٹیپو شاہ صاحب کے فتوی (۱۸۰۳ء) سے ۴؍ سال پہلے نومبر ۱۷۹۹ء میں جام شہادت نوش فرما چکے تھے- اس طرح کی اور بو العجبیوں سے قارئین کے ذوق ظرافت کی ضیافت فرمائی گئی ہے-
اب ذیل میں کتاب کی چند نمایاں خصوصیات اور کچھ معروضات پیش کی جاتی ہیں :
(۱) کتاب کے عنوان سے اندازہ تھا کہ اس میں انقلاب ۱۸۵۷ء سے پہلے اور بعد کے حالات کا مربوط ذکر ہوگا اور نقد و تجزیہ کے ذریعہ ماضی کی ۲۰۰ سالہ سیاسی، سماجی اور مذہبی تاریخ پیش کی گئی ہوگی-لیکن مطالعہ کے بعد اندازہ غلط ثابت ہوا، اس میں ۱۸۵۷ء کے پس منظر پیش منظر کے حوالے سے مختلف موضوعات پر مضامین ہیں، یہ کوئی مربوط تاریخ نہیں ہے-
(۲) اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ’’سردلبراں در حدیث دیگراں‘‘ نہیں، بلکہ ’’ سرد لبراں درحدیث دلبراں‘‘ کے انداز میں لکھی گئی ہے- جو بات جس گروپ کے خلاف کہی گئی ہے اسی گروپ کے مستند اور معتبر حوالے نقل کر دیے گئے ہیں، اپنی طرف سے بہت کم کہا گیا ہے بلکہ بیشتر مقامات پر تو صرف مخالف کی عبارتیں نقل کرنے پر اکتفا کر لیا گیا ہے-
(۳) یہ کتاب چوں کہ’’ سردلبراں در حدیث دلبراں‘‘ ہے، اس لیے بیشتر مقامات میں وضاحت پر سرّیت غالب ہے- مثلاً مصباحی صاحب نے اپنا ایک مضمون’’ ہندوستان!دارالاسلام یا دارالحرب؟‘‘ اس کتاب میں کیوں شامل کیا ہے؟ بغیر عمیق تفکر کے نہیں سمجھا جا سکتا- اسی طرح’’ علماے صادق پور اور میاں نذیر حسین دہلوی‘‘ کے زیر عنوان مقالہ کو پورے طور پر وہ نہیں سمجھ سکتا جو پہلے سے’’ علماے صادق پور‘‘ کے تعلق سے قابل قدر معلومات نہیں رکھتا-ویسے کتاب کی یہ خصوصیت (سریت) حریف ومتعصب مورخین کے لیے نہایت کاٹ دار اور موثر ہے- شاید یہ بات وضاحت میں نہیں آ پاتی- لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سریت کتاب کی عام فہمیت کو زک پہنچارہی ہے-
(۴) مصباحی صاحب نے بعض مقامات پربہت ہی طویل اقتباسات نقل کر دیے ہیں،ان اقتباسات میں مزید دوسروں کے اقتباسات نقل ہیں، ایسی جگہوں پر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کہاں سے کہاں تک کی عبارت کس کی ہے، اس کا سابقہ خود میرے ساتھ اس کتاب کے دو مضامین میں ہوا اور مجھے کافی غور و خوض کرنا پڑا- ایک ’’ کتب شاہ ولی اللہ میں تحریف والحاق‘‘ میں اور دوسرے’’ تاریخ نویسی سے تاریخ سازی تک‘‘ میں-اسی لیے طویل عبارتیں نقل کرنا جدید طرز تحقیق میں پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا-
(۵)’’مدرسہ دیوبند کے بانی اور مقصد قیام‘‘ کے زیر عنوان مضمون بھی کافی وقیع اور عالمانہ ہے- اس میں فضلاے دیوبند اور محققین دیوبند کے حوالے سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مدرسہ دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی نہیں،سید عابد حسین چشتی ہیں اور یہ بھی محقَق کیا گیا ہے کہ سید عابد صاحب نے جن مقاصد کے لیے ادارہ کی بنیاد رکھی تھی نانوتوی صاحب کے زمام سنبھالنے کے بعد وہ یکسر بدلتے چلے گئے-’’ مقصد قیام‘‘ کے تبدیل ہونے سے متعلق تو مصباحی صاحب کے پیش کردہ حقائق کی روشنی میں کسی اختلاف کی گنجائش نظر نہیں آتی البتہ ’’دارالعلوم کے بانی‘‘ کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا ہے اس میں سخن گستری کی کسی قدر گنجائش نکل سکتی ہے-ہاں! مضمون کا بین السطور جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قیام دارالعلوم دیوبند اور انگریز مخالفت میں کوئی رشتہ نہیں، تاریخ گروں کے لیے ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے-
(۶) کتاب کا عنوان’’ ۱۸۵۷ء پس منظر و پیش منظر‘‘ اپنے اندر بہت ہی وسعت اور عمومیت رکھتا ہے جب کہ اس کے مندرجات صرف مخصوص پس منظر و پیش منظر کو محیط ہیں- اور وہ ہے وہابی ، دیوبندی، غیر مقلد مورخین کی انقلاب ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر کی غلط تصویر کشی کا تصفیہ-مصباحی صاحب نے ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر میں مسلکی حقائق کو پہلی بار ان کی حقیقی صورت میں پیش کیا ہے ، ورنہ اس سے پہلے تو ’’ تھے کواکب کچھ نظر آتے تھے کچھ‘‘—تاہم ۱۸۵۷ء کے پس منظر و پیش منظر کے حوالے سے کم از کم ایک کتاب مزید لکھی جا سکتی ہے، جس میں متعصب ہندو، قوم پرست مورخین اور کمیونسٹ مورخین کی پھیلائی ہوئی تاریخی گمراہیوں کا ازالہ ہو اور ہندی اور انگریزی میں من مانی جو تاریخ سازیاں ہو رہی ہیں، انہیں بے نقاب کیا جائے- اے کاش حضرت مصباحی صاحب اس عظیم کام کے لیے بھی کمر ہمت کس لیں تو جس طرح انہوں نے عوام و خواص اہل سنت کاسر اپنی ان تازہ کتابوں سے اونچا کر دیا ہے، ہندوستان کے عام مسلمانوں کا سر بھی اس کی وجہ سے آبرو مندانہ اٹھ سکے گا-ورنہ وہ اپنے آپ کو تو بس تاریخی مجرم ہی سمجھا کرتے ہیں-
عرض آخر:-انقلاب ۱۸۵۷ء سے متعلقہ مباحث کی پہلی کڑی’’ انگریز نوازی کی حقیقت‘‘ جب زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئی تو جام نور نے اس وقت اس پر ایک شاندار اور بے لاگ تبصرہ شائع کیا،اس کے بعدپے درپے کتابیں آتی رہیںجب مصباحی صاحب کی یہ چھٹی اور غالباً آخری کتاب شائع ہوئی تو پھر ہم نے اس پر تبصرہ کرنا واجب اور ضروری سمجھا-
جب میں تبصرہ کرنے کے لیے بیٹھا تو دیر تک سوچتا رہا کہ میں مصباحی صاحب کی اس کتاب پر نقد و تبصرہ لکھوں، ان کی کتابوں کا تعارف لکھوں یا خود مصباحی صاحب کے اس عظیم کارنامے کے اعتراف میں ان کا نثری قصیدہ لکھوں-بلاشبہ انہوں نے جماعت کا ایک فرض کفایہ ادا کر دیا ہے، تاریخ سے انصاف کیا ہے، حقائق کو ناحق ذبح ہونے سے بچایا ہے اور تنہا وہ کام کیا ہے جسے کرنے کے لیے ایک بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے- اس لیے میں آخر میں زیر تبصرہ کتاب کی مقبولیت کی توقع ظاہر کرنے کی بجائے جماعت کے ارباب حل و عقد سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ مصباحی صاحب جیسے سر فروش مجاہد اہل قلم کی بھر پور پذیرائی کریں- وہ یقینی طور پر پوری جماعت کی جانب سے بے پناہ شکریے اور اعزاز کے مستحق ہیں-خدا ان کی عمر دراز فرمائے انہیں مزید خدمات کی توفیق بخشے اور ہم نو آموزوں کو ان سے خوب خوب مستفید فرمائے-(آمین)

Wednesday 13 September 2017

ایک ضروری وضاحت ---- سماع اور وجد ورقص کے حوالے سے مشائخ کے معمولات کا جائزہ

1 comments

ایک ضروری وضاحت
سماع اور وجد ورقص کے حوالے سے مشائخ کے معمولات کا جائزہ
                                            از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
                             استاذ: جامعہ عارفیہ، سید سراوں، الہ آباد
    -----------------------------------------------------------
    خانقاہِ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد اور اس کے شیخ داعیِ اسلامی شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی سے شناسائی اور وابستگی کے کل دس سال پورے ہوگئے۔ ۲۰۰۷ء میں پہلی بار پہلے یوم غزالی کے موقع پر بطور مہمان خصوصی میری شرکت ہوئی تھی۔ اس سے پہلے میرے کان سید سراواں سے آشنا نہیں تھے۔ اسی سال اپنے تیسرے یا چوتھے سفر میں شیخ سے میں نے بیعت بھی کرلی تھی۔ بیعت سے قبل اور آشنائی کے بعد کی درمیانی مدت میں اپنے احباب کے بیچ بڑے ذوق وشوق اور وارفتگی کے ساتھ اس خانقاہ اور شیخ خانقاہ کا ذکر کیا کرتا تھا، جس کا سلسلہ بیعت کے بعد تقریباً ختم سا ہوگیا؛ کیوں کہ اب میںمرید ہوچکا تھااور موجودہ زمانے میں مرید جب پیر کی تعریف وتوصیف کرتا ہے تواسے ’’پیراں نمی پرند، مریداں می پرانند‘‘ کے باب سے سمجھا جاتا ہے۔ ۲۰۱۲ء سے مستقل اس خانقاہ میں قیام پذیر اور اس کے تعلیمی اور تصنیفی اداروں جامعہ عارفیہ اور شاہ صفی اکیڈمی کا حصہ ہوں۔ اس طرح خانقاہ میں میری مستقل اقامت کے بھی پانچ سال مکمل ہوگئے۔
    خانقاہِ عارفیہ اور شیخ عارفیہ کی دس سالہ صحبت،خدمت، مشاہدے اور تجربے کے بعد بھی کبھی کبھی جب میں خالی الذہن ہوکر اور خانقاہ سے اپنے رشتوں اور مشاہدوں کو بھلاکرباہر کی دنیا سے خانقاہ کے احوال وواقعات کو دیکھتا ہوں تویہاں کی بہت سی باتیںمجھے بھی افسانہ، قصۂ پارینہ، جھوٹ اور ناقابل یقین سی لگتی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ایسا شخص جس نے خانقاہ اور صاحبِ خانقاہ کو قریب سے نہیں دیکھا ہے، اگر یہاں کی کسی بات یا روایت پر معترض ہوتا ہےیا اسے جھوٹ، مبالغہ اور افسانہ سازی کہتا ہے تو کیا عجب !! ایسے لوگوں کو کیسے سمجھایا جائے، یہ خود میرے لیےبھی  ایک بڑا چیلنج ہے۔ جی چاہتا ہے کہ کچھ کہنے اور لکھنے کے بجائے ابوفراس ہمدانی کے اس شعر کے ساتھ ایسے لوگوں سے معذرت کرلوں:
ومن مذھبی حب الدیار لاھلھا
وللناس فیما یعشقون مذاھب
    اور میں ہی کیا ، خسرو جیسے شہنشاہ سخن نے بھی تو یہی کیا تھا:
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آری آری می کنم با خلق ما را کار نیست
    اور یہ کہ
ہمہ شہر پر ز خوبان منم و خیال ماہی
چہ کنم کہ چشم بدخو نہ کند بہ کس نگاہی
    آمدم برسرِ مطلب:-  خانقاہ عارفیہ کی محفل سماع کی ایک تصویر گذشتہ تقریبا ًدو سالوں سے Facebook پر گردش کررہی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو لوگ شیخ کے قدموں میں پڑے ہوئے ہیں اور شیخ کھڑے ہیں۔ اس تصویر پر اندازوں، قیاس آرائیوں، پھبتیوںاور تنقیدات بلکہ مغلظات کاایک سلسلہ ہے، جو ختم ہونے کو نہیں آتا اور جسے دیکھ کر جرأت کا یہ شعر یاد آتا ہے:
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
    فسق ومعصیت کے اس بازار میں اپنی زہد وپارسائی کی قسمیں کھانے والوں اور دوسروں کی کھلیاں اڑانے والوں، بلکہ دوسروں کی تفسیق اورتضلیل وتکفیر تک میں جوش وعجلت کا مظاہرہ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اہلِ نظر خوب واقف ہیں کہ اس رویے نے اہل سنت کےپورے وجود کو زخموں سے چھلنی کردیا ہے۔ ایسے میں اگر اس قسم کا کوئی نیا واقعہ سامنے آتا ہے تو ہمیں ذرہ برابر حیرت نہیں ہوتی اور نہ ہی وضاحت وصفائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؛ کیوں کہ اس قسم کا طوفانِ بدتمیزی اٹھانے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو وضاحت سننا ہی نہیںچاہتے۔اس حوالے سے مثالوں کی ایک قطار ہے جس سے تقریباً ہر شخص آشنا ہے۔ اس کے باوجود حضرت داعی اسلام کی اس تصویر پر ہونے والی بدتمیزیوں کے پیش نظر وضاحت لکھنے کا خیال اس لیے پیدا ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جھنڈا برداروں کی ہنگامہ آرائیوں کےسبب بعض مخلصین بھی بدگمانیوں میں مبتلا ہوجائیں اور اس لیے بھی کہ داعی اسلام ایک حکیم صوفی ہیں۔ موجودہ تناظر میں امت ان کی حکمتوں اور بصیرتوں سے استفادے کی ضرورت مند بھی ہے اور حق دار بھی ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت کی حکمت وبصیرت اور عرفان وتربیت نقار خانے کی ہنگامہ خیزیوں کی نذر ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں حضرت کا اپنا ذاتی نقصان کچھ نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وہ تو حسبِ قضا ہر شخص کی طرح ایک دن اللہ کے حضور حاضر ہوجائیں گےاور سرخروہوجائیںگے۔ اس میں نقصان امت مسلمہ اور بالخصوص افرادِ اہلِ سنت کا ہے، جو بالعموم زندہ مشائخ کی فیض بخشیوں سے محروم اور قبروں پر چادروں کا انبار لگانے کے خوگر ہوچکے ہیں۔ حضرت داعیِ اسلام کی شخصیت کو زمانے کی روحانیت، بصیرت، حکمت، مشن اور ضرورت کہوں تو دور بیٹھے احباب یقیناً مجھے مبالغہ آرائی اور طومار بیانی کا طعنہ دیں گے، جو ان کا حق ہے، لیکن میرا اپنا وجدان یہ ہے کہ کل یہی لوگ شیخ ابوسعید کو یاد کرکے غالب کا یہ شعر پڑھیں گے:
ہوئی مدت کہ غالب مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا!
    اقبال اکیڈمی لاہور کے سابق چیرمین جناب احمد جاوید نے شیخ کی شخصیت کے بارے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ
آن مجری قلوب و مصفا گر نفوس
آن وارث روایت خرقانی و فرید
این جا ست سر غیب کہ از دل بہ دل رود
بی حرف و بی حکایت وبی گفت و بی شنید
این مجمع الصفات چو کبریت احمر است
ظاہر شود بہ سلسلہ در مدت مدید
    اب مسئلہ زیر بحث کو بالترتیب مقدمات کی شکل میں ملاحظہ کیجیے:
    [۱] ’’سماع بالمزامیر‘‘ ہمیشہ سے ایک متنازع مسئلہ رہا ہے۔ مشائخ کی ایک بڑی تعداد نے اسے سنا ہے، جب کہ بہت سے مشائخ نے اس سے احتیاط برتا ہے۔ محدثین وفقہا میں بیشتر عدم جواز کی طرف گئے ہیں، جب کہ ان کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو اس کی اباحت کی قائل ہے۔ خانقاہ عارفیہ اور اس کے شیخ کا تعلق تصوف کے اس خانوادے سے ہے جس میں ’’سماع بالمزامیر‘‘ صدیوں سے متوارث ہے۔ تفصیل کے لیے قارئین اس موضوع پر راقم کی کتاب کا انتظار کریں۔
    [۲]  نفس سماع اہل اسلام کے یہاں بالاتفاق جائز، معمول بہ ومتوارث رہا ہے۔ الاماشاء اللہ! اور شاذ آرا قابلِ التفات نہیں۔ اس کے ساتھ دل چسپ بات یہ ہے کہ اہل تصوف کے یہاں جب سماع بولا جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی وجد ورقص کا خیال بھی لازمًا آتا ہے۔ چوں کہ صوفیہ کے یہاں سماع کی روایت وجد ورقص کی روایت کے ساتھ مربوط رہی ہے۔ موجودہ زمانے میں جب کہ مجالسِ وعظ اور محافلِ نعت ومنقبت کا رنگ بدل چکا ہے، قدیم محافلِ سماع کا ہم صحیح تصور بھی نہیں کرسکتے، بلکہ ہمارے بعض تقویٰ شعار وہ ہیں جو اس تصور کو ہی معصیت سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس لیے یہاں چند اقتباسات ملاحظہ کریں:
    الف: علم تصوف کی پہلی جامع کتاب ’’قوت القلوب‘‘ میں شیخ ابوطالب مکی (۳۸۶ھ)لکھتے ہیں:
’’احمد بن عیسیٰ خراز سماع سننے میں بہت مشہور تھے۔ سماع کے وقت وہ تڑپ تڑپ جاتے اور بے ہوش ہوجاتے۔ (ج:۲، ص:۱۰۰) ----- حضرت جنید فرمایا کرتے تھے: اس گروہ پر تین مواقع پر رحمت نازل ہوتی ہے۔ ایک کھانے کے وقت ؛ اس لیے کہ یہ حضرات فاقہ اٹھانے کے بعد ہی کھاتے ہیں۔ دوسرا مذاکرہ کے وقت؛ اس لیے کہ یہ انبیائے کرام علیہم السلام کے احوال اور صدیقین کے مقامات کا ہی ذکر کرتے ہیں۔ تیسرا سماع کے وقت؛ اس لیے کہ ان کا سماع وجد کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ اس وقت حق کے مشاہدے میں مصروف ہوتے ہیں -----  ہم نے اس کا ذکر اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ بھی بعض اہل محبت کا طریق اور بعض اہل عشق کا مشرب رہا ہے۔ اگرکلی طور پر اس کا  انکار کردیں تو گویا ہم نے امت کے نوّے بلند پایہ صادقین کا انکار کردیا۔‘‘
 (ج:۲، ص:۱۰۱، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۲۰۰۵ء)
    ب: شیخ ابو نصر سراج (۳۷۸ھ)تصوف کی معروف اور انتہائی معتبر کتاب ’’کتاب اللمع‘‘ میں لکھتے ہیں:
    ’’ جب ذوالنون بغداد میں داخل ہوئے تو صوفیہ کی ایک جماعت ان سے ملنے آئی، جن کے ہم راہ ایک قوال بھی تھا۔ انھوں نے ذوالنون سے درخواست کی کہ قوال کو کچھ کہنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ انھوں نے اجازت دی اور قوال نے یہ اشعار گائے۔----- ----- یہ اشعار سنتے ہی ذوالنون اٹھے اور منھ کے بل ایسے گرپڑے کہ پیشانی سے خون ٹپکنے لگا۔‘‘ (ص:۲۴۶، دارالکتب الحدیثیہ، مصر، ۱۹۶۰ء)
    ج: ہندوستان کی پہلی کتاب تصوف ’’کشف المحجوب‘‘ میں حضرت داتا علی ہجویری(۴۶۵ھ) رقم طراز ہیں:
    ’’مشہور ہے کہ حضرت جنید بغدادی کا ایک مرید تھا جو سماع میں بہت زیادہ بے قرار ومضطرب رہتا، جس سے دوسرے درویشوں کو خلل لاحق ہوجاتا۔ چناں چہ درویشوں نے شیخ کی خدمت میں اس کی شکایت کی۔ حضرت جنید نے فرمایا: اگر اس کے بعد تم نے سماع میں مضطرب ہوئے تو میں تمھیں اپنی صحبت سے نکال دوں گا۔ ابومحمد جریری کہتے ہیں کہ سماع کے وقت میں نے اسے دیکھا کہ وہ اپنا لب بند کیے خاموش ہے اور اس کے ہر بن مو سے سے چشمہ ابل رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگیا اور پورے ایک دن اسی طرح بے ہوش رہا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کا یہ حال سماع میں لذت بڑھنے کے سبب تھا یا اس کے دل میں عظمتِ شیخ میں اضافے کے سبب تھا--- ایک شخص نے حالتِ سماع میں نعرہ مارا۔ اس کے شیخ نے کہا: خاموش رہو۔ اس نے سر زانو پہ رکھا۔ لوگوں نے جب اسے دیکھا اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی --- شیخ ابومسلم فارس بن غالب فارسی نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک درویش سماع میں تڑپ رہا تھا۔ کسی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا کہ بیٹھ جائو۔ وہ بیٹھا اور اسی لمحے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ (ص:۴۶۵،۴۶۶) واضح رہے کہ شریعت وطریقت میں رقص کی کوئی اصل نہیں ہے--البتہ دل میں جب لطافت پیدا ہوتی ہے اور دماغ میں خروش غالب آجاتا ہے تو غلبۂ حال کے سبب اضطراب پیدا ہوجاتا ہے اور یہ ترتیب اور ضوابط وقواعد سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ اضطراب رقص نہیں ہے، نہ کھیل تماشا ہے، نہ ہویٰ پرستی۔ یہ تو جاں گدازی کا لمحہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اسے رقص کہتے ہیں وہ سخت خطا پر ہیں۔ یہ ایک حال ہے جسے زباں سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ من لم یذق لایدری۔ ذوقِ ایں مے نہ شناسی بخدا ،تا نہ چشی۔ 
(۴۷۶، باب الرقص ومایتلق بہٖ، دارالنور، لاہور،۲۰۱۳ء)
    د: سید محمد مبارک کرمانی مشائخِ چشت کے احوال پر پہلی مستند تصنیف ’’سیر الاولیا‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’سلطان المشائخ فرماتے تھے کہ شیخ الاسلام شیخ قطب الدین قدس سرہ العزیز چار شبانہ روز عالم تحیر میں تھے۔ آپ کی وفات کا واقعہ اس طرح ہے کہ شیخ علی سہزی کی خانقاہ میں محفلِ سماع تھی۔ شیخ قطب الدین نوراللہ مرقدہٗ بھی اس محفل میں حاضر تھے۔ قوال نے یہ شعر گایا:
کشت گانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زمان از غیب جانی دیگر است
    شیخ قطب الدین قدس سرہٗ پر اس شعر نے اس قدر اثر کیا کہ آپ خانقاہ سے گھر تک مدہوش ومتحیر لائے گئے۔ بار بار قوالوں سے فرماتے کہ یہی شعر پڑھو۔ قوال یہی شعر پڑھتے۔ وہ اسی عالم تحیر اور مدہوشی میں تھے، لیکن جب نماز کا وقت آتا تو نماز پڑھتے۔ پھر یہی شعر پڑھواتے اور یہی شعر خود بھی پڑھتے۔ وہ اسی عالم تحیر ومدہوشی میں رہے ، یہاں تک کہ چار شبانہ روز اسی عالم میں گزرے۔ پانچویں شب آپ نے رحلت فرمائی۔ (ص:۱۴۲)-----  ایک دن سلطان المشائخ (حضرت نظام الدین اولیا) اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے تھے اور صامت نامی قوال آپ کے سامنے گارہا تھا۔ سلطان المشائخ پر اثر ہوا اور آپ پر گریہ وحال غالب آئے۔ اس موقع پر کوئی مرید وہاں موجود نہ تھا جو رقص میں آئے۔ حاضرین مجلس متفکر ہوئے۔ اسی اثنا میں ایک شخص باہر سے آیا اور قدم بوس ہوکر رقص کرنے لگا۔ سلطان المشائخ بھی اس کی موافقت میں رقص کرنے لگے۔ (ص:۷۷۹، مترجم: خواجہ حسن ثانی نظامی، درگاہ نظام الدین اولیا، دہلی)
    ہ:  ’’احیاء العلوم‘‘ جسےادبیات تصوف میں ’’ام الکتب‘‘ کا درجہ حاصل ہے اور جسے زاہدانہ اور فلسفیانہ اسلوب کا جامع کہا جاتا ہے، اس کی دوسری جلد میں حجۃ الاسلام امام محمد غزالی(۵۰۵ھ) نےمسئلہ سماع پر تفصیلی بحث کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ سماعِ قرآن سے ظہورِ وجد کے واقعات بےشمار ہیں۔ اہل وجد کے حوالے سے قرآن کریم کا ارشاد ہے: جب وہ رسول پر نازل شدہ وحی کو سنتے ہیں تو عرفانِ حق کے سبب ان کی آنکھیں آنسوئوں میں ڈوب جاتی ہیں۔ (المائدۃ: ۸۳) اور نبی کریم ﷺ کا حال یہ تھا کہ جب آپ نماز پڑھتے تو آپ کا سینۂ مبارک اس طرح جوش مارتا جس طرح ہانڈی میں پانی جوش مارتا ہے۔ اس قسم کے واقعات صحابہ وتابعین سے بھی بہ کثرت مروی ہیں۔ قرآن سن کر بعض کی چیخیں نکل جاتیں، بعض روپڑتے، بعض بے ہوش ہوکر گرپڑتے اور بعض کی روح پرواز کرجاتی۔ زرارہ بن عوفہ، امام شافعی اور علی بن فضیل وغیرہ سے ایسے واقعات مروی ہیں۔ امام غزالی نے اس حوالے سے صوفیہ کے بھی متعدد واقعات نقل کیے ہیں،جس کے بعد انہوں نے یہ سوال قائم کیا ہے کہ سماعِ قرآن یقیناً وجد کے لیے مفید ہے، لیکن صوفیہ سماعِ قرآن کے بجائے سماعِ نغمہ کے لیے کیوں جمع ہوتے ہیں اور قاری کے بجائے قوال کو کیوں بلاتے ہیں؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ وجد وشوق پیدا کرنے کے حوالے سے سماعِ قرآن کے بالمقابل سماعِ نغمہ میں سات درجے زیادہ قوت وشدت پائی جاتی ہے۔ پھر امام غزالی نے تفصیل کے ساتھ ان سات وجوہ کا ذکر کیاہے۔ یہ پوری بحث پڑھنے سےتعلق رکھتی ہے۔
    و: گذشتہ صدی میں ہندوستان کے اندر فقہیات کے سب سے بڑے عالم اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی (۱۳۴۰ھ) جنھیں عام طور پر سماع اور وجد ورقص کا مخالف مطلق باور کرلیا گیا ہے، ان کی تحریریں بھی اس باب میں بڑی دل چسپ ہیں، جن کا بالاستیعاب منصفانہ مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔ سماع بالمزامیر کے حوالے سے اپنے اس ایک جملے میںہی ختم سخن کردیا ہے کہ ’’مزامیر یعنی آلات لہو ولعب بروجہ لہو ولعب بلاشبہ حرام ہیں‘‘۔ (فتاویٰ رضویہ:۲۴/۷۸، پوربندر ،گجرات)
    وجد ورقص کے حوالےسے سوال ہوا کہ مجلس وعظ یا میلا دشریف میں لوگوں کو وجد آجاتے ہیں، اس میں پاگل کی طرح ہاتھ اور پائوں ہلاتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ بعض آدمی سر ہلاتے، نہ بے ہوش ہوتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے؟ یہ کیا معاملاتِ عشق ہیں یا کیا ہیں؟ فاضلِ بریلوی اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’اس کی تین صورتیں ہیں: وجد کہ حقیقۃً دل بے اختیار ہوجائے۔ اس پر تو مطالبہ کے کوئی معنی نہیں۔ دوسرے تواجد یعنی باختیارِخودوجد کی سی حالت بنانا۔ یہ اگرلوگوں کے دکھاوے کوہوتوحرام ہے اور ریا اور شرک خفی ہے اور اگرلوگوں کی طرف نظراصلاً نہ ہو،بلکہ اہل اﷲ سے تشبّہ اور بہ تکلف ان کی حالت بنانا کہ امام حجۃ الاسلام وغیرہ اکابر نے فرمایا ہے کہ اچھی نیت سے حالت بناتے بناتے حقیقت مل جاتی ہے اور تکلیف دفع ہوکر تواجد سے وجد ہوجاتاہے، تو یہ ضرور محمودہے۔ مگراس کے لئے خلوت مناسب ہے۔ مجمع میں ہونا اور ریاسے بچنابہت دشوارہے۔ پھربھی دیکھنے والوں کو بدگمانی حرام ہے۔اﷲ عزوجل فرماتاہے:یایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن انّ بعض الظن اثم۔اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو کہ کچھ گمان گناہ ہیں۔نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔گمان سے بچو کہ گمان سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے۔
جسے وجد میں دیکھو یہی سمجھو کہ اس کی حالت حقیقی ہے اور اگرتم پرظاہرہوجائے کہ وہ ہوش میں ہے اور باختیار خود ایسی حرکات کررہاہے تو اسے صورتِ دوم پرمحمول کرو جومحمودہے یعنی محض اﷲ کے لئے نیکوں سے تشبہ کرتاہے، نہ کہ لوگوں کے دکھاوے کو، ان دونوں صورتوں میں نیت ہی کاتوفرق ہے اور نیت امرباطن[ہے] جس پر اطلاع اﷲ ورسول کوہے۔ جل وعلاوصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم، تو اپنی طرف سے بری نیت قراردے لینا برے ہی دل کاکام ہے۔ائمہ دین فرماتے ہیں:الظن الخبیث انما ینشأ من القلب الخبیث۔خبیث گمان خبیث ہی دل سے پیدا ہوتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ:۲۳/۷۴۵)
    [۳]   مذکورہ بالا تفصیلات میں قارئین کا وقت مصروف کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سماع اور وجد ورقص کی حقیقت اور اکابر تصوف کے یہاں اس کی متوارث روایت سے کسی قدر آشنائی ہوجائے۔ اب خانقاہِ عارفیہ کی محفلِ سماع اور شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہٗ کی مجلس وعظ کی حکایت سنیے۔شیخ کی مثنوی ’’نغمات الاسرار فی مقامات الابرار‘‘ کے پیشِ لفظ میں شیخ کی مجلس وعظ کے حوالے سے راقم نے یہ باتیں تحریر کی ہیں:
’’حضرت کے دست حق پرست پر اب تک سیکڑوں افراد ایمان کی دولت سے سرفراز ہوچکے ہیں اور ہزاروں بد عمل تائب ہوکر صراط مستقیم سے لگ چکے ہیں -آپ کے دربار سادہ ورنگین کی یہ کرامت ہے کہ اس میں ہر مغرور کی پیشانی جھکتی نظر آتی ہے- ان سے مل کر بچوں کو ایک دوست، بڑوں کو ایک سرپرست ، بوڑھوں کو ایک دست گیر، عالموں کو ایک مربی اور اہل نظر کو ایک دور اندیش مفکر ومدبر کی ملاقات محسوس ہوتی ہے-آپ کی دعوت کا رنگ دل کش اور اصلاح کا طریقہ انوکھا ہے-آپ جس سے گفتگو کرتے ہیں اس کی زبان، اصطلاح، نفسیات اور مزاج کا بھرپور خیال رکھتے ہیں-سکھوں سے بات کرتے ہوئے گروبانیوں کا استعمال، ہندؤں سے گفتگو کے دوران دیومالائی قصوں اور ہندی اصطلاحوں سے استفادہ ،مخاطب کو حد سے زیادہ قریب کردیتا ہے- حضرت کی دعوتی اور اصلاحی انداز میں ،حکمت و موعظت، ترتیب و تدریج ، انفاق و بے لوثی، انذاروتبشیراور دل جوئی و خیر خواہی کے عناصر بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں-گفتگو میں تعلی اور ادعائیت بالکل ہی نہیں ہوتی، مگر وہ شک و ریب سے بھی مکمل پاک ہوتی ہے- وہ مقام ایمان سے گفتگو فرماتے ہیں اور وہ بھی اس دل نشیں انداز میں کہ’’ از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘ کی پوری مثال صادق آتی ہے-بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دلوں پر شیخ کی گرفت ہے۔ وہ جیسے چاہتے ہیں انہیں الٹتے پلٹتے رہتے ہیں اور بعض دفعہ چند لمحے میں بے ایمانوں، گم راہوں اور بد کاروں کو سپر انداز ہوتے اور اپنے پچھلے کرتوتوں پر احساس ندامت میں آہ وزاری کرتے دیکھ کر خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا- ایسی آنکھیں جو کبھی رونا نہیں جانتیں، جب موسلادھار برسنے لگتی ہیں، اور ایسے دل جنہیں پتھر سمجھا جاتا ہے، جب وہ موم کی طرح پگھلتے نظر آتے ہیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی دست مسیحائی کو چوم لینے کو دل بے قرار ہوجاتا ہے-
ان کی محفل میں دل کو سکون ، عقل کو روشنی، قلب کو اخلاص، ذہن کو پختگی ، فکر کو سمت اور علم کو توانائی ملتی ہے - کج کلاہان عصر اپنا تاج ان کے قدمو ںمیں ڈالتے ہیں ، ارباب فقہ و فتاویٰ باب اجتہاد کے سامنے خود کو سجدہ ریز پاتے ہیں ، اہل علم ودانش کو اپنی تنگ دامانی کا احساس ہوتاہے اورمسند نشینان خانقاہ اس جناب میں پہنچ کر تصوف اور طریقت کی بھیک لیتے ہیں -بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ جو لوگ مغرور پیشانی کے ساتھ حاضر دربار ہوئے پہلی اور دوسری ملاقات کے بعد ایسے جھکے کہ کبھی گردن سیدھی نہ کرسکے، ان کی انا کے بت ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئے -وہ لوگ بھی ہمارے سامنے ہیں جو علم وآگہی کے غر ور سے چور تھے اور اب ان کے سر سے دستار علم ہمیشہ کے لیے اتر گئی ہے-اب وہ صرف خاموش طالب اور سوالی بن کر رہ گئے ہیں - ہم ا ن سے بھی واقف ہیں جو مولانا روم کی طرح علمی اسناد و شہادات کو درنار کرچکے ہیں اور اب ہاتھوں میں کشکول لیے روئے جاناںکو تکے جارہے ہیں- وہاں ہر منگتا کی مرادیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں، وہ منگتا کسی بھی سطح کا اور اس کا سوال کسی بھی نوعیت کا کیوںنہ ہو- آپ کی محفل کأنّ علٰی رؤسہم الطیور کا نمونہ معلوم ہوتی ہے اور خاص بات یہ کہ گفتگو جہاں سے بھی شروع ہو ،بات مطلوب ومقصود حقیقی تک ہی پہنچتی ہے- محفل پر کبھی انذار کا غلبہ ہوتا ہے تو کبھی تبشیر کا- اس میں غم دنیا کا رونا نہیں ہوتا، فکر آخرت میں ہی آنکھیں برستی نظر آتی ہیں اور کبھی دنیا کی بات بھی ہوئی تو اس میں دین کا پہلوتلاش کرلیا گیا اور اس طرح دنیا دین بن گئی - ‘‘(نغمات الاسرار فی مقامات الابرار، پیش لفظ، ص:۱۲،۱۳)
     رہی شیخ کی محفلِ سماع تو شاید میں اپنے اس دعویٰ میں حق بجانب ہوں کہ بر صغیر میں اس ذوق وشوق، کیف ومستی اور آداب کےساتھ کہیں اور محفلِ سماع منعقد نہ ہوتی ہوگی۔ شیخ کے قوال باریش اور پابندِ صوم وصلاۃ ہیں۔ بالعموم محفلِ سماع سے قبل محفلِ وعظ ہوتی ہے جس کا خود بھی اپنا رنگ وآہنگ ہوتا ہے۔ شیخ کی خواہش ہوتی ہے کہ جو لوگ سماع کا ذوق نہیں رکھتے وہ وعظ سن کر رخصت ہوجائیں۔ شیخ کے مریدین ومتوسلین میں بیشتر باوضو بیٹھتے ہیں۔ پہلی صف میں بیٹھنے والے دو زانو بیٹھتے ہیں۔ خود شیخ بھی از ابتدا تا انتہا دو زانو ہی بیٹھتے ہیں۔ عموماً پہلی صف میں انھیں بٹھایا جاتا ہے جو عالم یا بظاہر دین دار ہوں۔ آیاتِ قرآنیہ سےمحفلِ سماع کا آغاز ہوتا ہے اور آیات پر ہی اختتام ہوتا ہے۔ شیخ کا قوال ان کا پروردہ اور شاگرد بھی ہے اور خوش الحان قاری بھی۔ محفل میں اکابر اور اساتذہ کا فارسی اور اردو کلام پڑھا جاتا ہے۔ وہاں بازاری شاعری کا گزر نہیں ہوتا۔ شیخ کی شاید وباید ہی کوئی ایسی محفل ہو جس میں اہلِ دل وفورِ شوق ومستی میں کھڑے نہ ہوگئے ہوں ۔ جب کوئی اہل دل ، جذب و شوق میں سرشاررقصیدہ کھڑا ہوتا ہے تو آدابِ محافلِ سماع کی روایت کی پاس داری میں پورا مجمع کھڑا ہوجاتا ہے۔ ادھر قوال اس شعر کی تکرار کرتا جاتا ہے جس پر کسی کو وجد آیا ہوا ہوتا ہے۔کبھی کبھی شمع محفل پر نثار ہونے والے پروانوںکے کیف ومستی کا منظر دیدنی ہوتا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور کبھی دس دس، بارہ بارہ سوختہ جاں، شوریدہ سر میدان میں اتر آتے ہیں۔ سرمستی وسرشاری، گریہ وزاری، آہ وفغاں، نعرۂ مستانہ، رقص وضرب اور جنون و بے خودی کا عجب عالم ہوتا ہے۔ کوئی رو رو کر نیم جاں ہوجاتا ہے، کوئی مرغِ بسمل کی طرح تڑپتا ہے، کبھی کوئی گریباں چاک کرلیتا ہے، کوئی آہیں بھرتا اور کوئی زمین پر لیٹا ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے، کوئی شیخ کا ہاتھ چومتا ہے تو کوئی پائوں، کوئی شیخ کے قدموں پر سر رکھ کر دیر تک روتا بلکتا رہتا ہے، کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو قدم بوسی کے لیےبڑھے اور غش کھاکر گرپڑے، پھر جس کروٹ میں رہے دیر تک بے حس وحرکت پڑے رہے۔ شیخ کی حالت بھی عجیب ہوتی ہے، کبھی ان کی آنکھیں بھی ساون بھادوں بن کے برسنے لگتی ہیں، کبھی وہ اپنی جگہ پر ہی آنکھ بند کیے ہوئے جھومتے نظر آتے ہیں۔ عشق کے بیماروں کی حال پرسی کا انداز بھی نرالا ہوتا ہے۔ کسی کو سینے سے لگارہے ہیں، کسی کے سر پر دست شفقت پھیر رہے ہیں، تو کبھی زمین پر پڑےکسی بےحس و حرکت دیوانے کو تھپکیاں دے کر ہوش میں لارہے ہیں۔ ایک کو سنبھالا تو دوسرا بے حال ہوا، دوسرے کو گلے لگایا تو تیسرا چیخا، تیسرے کو تھپکی دی تو چوتھا قدم بوس ہوا، اسے اٹھایا تو پانچویں کے سینے پر ہاتھ رکھا اور اس کے جوش مارتے سینے کو ٹھنڈا کیا۔ ایسے روحانی، پرکیف، اشک بار مناظر کی عکاسی سے قلم عاجز اور زبان گنگ ہے۔
     میرے جو احباب دور بیٹھے ہوئے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ وہ ان مناظر کا صحیح تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ ہاں! جن کی نگاہیں دنیا و مافیہا میں الجھی ہوئی ہیں اور جن کا شبستان تعیش،دین و آخرت کے تفکرات سے آزاد اور جدیدوسائل ابلاغ کی فیض بخشیوں سے آباد ہےاورجن کے زہد و تقویٰ کا کل سرمایہ فیس بک اور واٹس ایپ پرخدائی فوج دار بنے اپنے مشرب مخالف علما و مشائخ کے ایمان و تقویٰ کا احتساب ہے، ایسے حضرات یقیناًفیس بک کی ایک تصویر پر فسق وفجور، سجدۂ تعظیمی، بت پرستی وہوا پرستی اور ریا وسمعہ کی پوری روداد لکھ سکتے ہیں، اگرچہ ان کے نزدیک رویت ہلال کے بارے میں جدید ذرائع ابلاغ کی تمام شکلیں یکلخت ناقابل اعتبار ہی کیوں نہ ہوں۔اورمجھے ایسے ٹھیکداروں سے غرض بھی نہیں۔ ہاں! اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ حضرات دوسروں کا حساب لیتے رہنے کے ساتھ کبھی قیامت میں اپنا حساب بھی دینے کی فکر کریں۔ہاں! جو مخلصین وطالبین ہیں، ان سے گزارش کروں گا کہ شیخ ابوسعید کی صحبت بافیض سے خود کوفیض یاب کریں۔ جو حق کے متلاشی اور تحقیق کے طالب ہیں ان سے التماس کروں گا کہ ایک بار خانقاہ عارفیہ میں پہنچیں اور انتہائی تنقیدی نظر سےشیخ ابوسعید کے شب وروز کا مطالعہ کریں، پھر جو رائے بنے آزادانہ قائم کریں۔کیوں کہ دروغ بے فروغ، کردار کشی اور تفسیق وتضلیل کے اس بازار میں سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینا دن کے اجالے میںاصولِ روایت ودرایت کا خون کرنا ہے۔
    [۴] ہندوستانی ملفوظاتی ادب میں سب سے زیادہ معتبر ومستند ملفوظ ’’فوائد الفواد‘‘ میں خواجہ قطب، بابا فرید اور حضرت نظام الدین اولیا کے یہاں سجدۂ تعظیمی کی روایت کا ذکر ملتا ہے۔چناں چہ امیر حسن علی سجزی نے حضرت نظام الدین اولیا کا یہ قول نقل کیا ہے: 
    ’’برمن خلق می آید وروئ بر زمین می آرد، چون پیش شیخ الاسلام فرید الدین وشیخ قطب الدین قدس اللہ روحہما العزیز منع نبود، من ہم منع نمی کنم‘‘۔(فوائد الفواد، ج:۴، مجلس نمبر:۳۰، درگاہ حضرت نظام الدین اولیا، دہلی، ۲۰۰۷ء)
ترجمہ: میرے پاس لوگ آتے ہیں اور اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں، چوں کہ شیخ الاسلام بابا فریداور حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی محفل میں یہ منع نہیں تھا، اس لیے میں بھی منع نہیں کرتا۔
     یقیناً یہی وہ نکتہ ہے جس کے پیش نظر مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان بریلوی نے یہ رقم فرمایا ہے:
’’قوالی مع مزامیر ہمارے نزدیک ضرور حرام وناجائز وگناہ ہے اور سجدۂ تعظیمی بھی ایسا ہی۔ ان دونوں مسئلوں میں بعض صاحبوں نے اختلاف کیا ہے، اگر چہ وہ لائقِ التفات نہیں۔ مگر اس نے ان مبتلائوں کو حکم فسق سے بچادیا ہے جو ان مخالفین کے قول پر اعتماد کرتے اور جائز سمجھ کر مرتکب ہوتے ہیں۔‘‘ (فتاویٰ مصطفویہ، ص:۴۵۶)
    یہی نکتہ حضرت داعیِ اسلام کے پیش نظر بھی ہے اور وہ بھی مجوزین سجدۂ تعظیمی کی تفسیق وتضلیل درست نہیں سمجھتے ۔ البتہ! نصوصِ فقہا اور احوالِ زمانہ کے پیشِ نظر اسے ناجائز ہی باور کرتے ہیں۔ ہاں! خانقاہِ عارفیہ میں قدم بوسی کی روایت موجود ہے جو خود سنت نبوی، آثارِ صحابہ اور علما وصوفیہ کے تعامل سے ثابت ومتحقق ہے۔ لیکن شیخ کی طرف سے قدم بوسی ہی نہیں دست بوسی پر بھی کوئی اصرار نہیں ہے۔ نہ وہ اصرار کو روا سمجھتے ہیں۔ بلکہ وہ تو یہ فرماتے ہیں کہ جس کی دست بوسی یا قدم بوسی ہو اسے خود کو حجر اسود سمجھنا چاہیے، جسے گرچہ سید البشر نے بھی چوما ہے، مگر وہ مقامِ بشر تک بھی نہ پہنچ سکا، چہ جائے کہ مقام سید البشر تک پہنچے۔ جو لوگ دست بوسی یا قدم بوسی کرتے ہیںوہ خود کو حقیر سمجھتے ہیں اور سامنے والے کو بڑا تصور کرتے ہیں۔ یہ تواضع اور حسن ظن ان کی بلندیِ درجات کا سبب ہے، لیکن چوموانے والا اگر کبر ونخوت میں مبتلا ہوا تو اس نے اپنی عاقبت برباد کرلی۔
    واضح رہے کہ قدم بوسی اور سجدہ دونوں کیمرے کی نظر میں ہی نہیں عام نظر میں بھی بظاہرایک ہی جیسے ہیں۔ ان میں بڑا لطیف فرق ہے۔ اعلیٰ حضرت بریلوی فرماتے ہیں:
’’ قدم بوسی کو سجدہ سے کیا تعلق! قدم بوسی ’’سربرپانہادن‘‘ (سر پاؤںپر رکھنا ۔ ت) اور سجدہ ’’پیشانی بر زمین نہادن‘‘ (پیشانی زمین پر رکھنا۔ ت) ہے۔ مسلمان پر بدگمانی حرام ہے۔قال اﷲ تعالٰی: یایھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم ۔وقال رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم  : ایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث۔ (اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچتے رہواس لئے کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: بدگمانی سے بچو کہ بدگمانی سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے(ت) ‘‘(ج: ۲۲، ص:۵۶۶)
      شیخ کے یہاں قدم بوسی ہی ہوتی ہے، سجدۂ تحیت نہیں ہوتا۔ ہاں! محفلِ سماع کی کیف ومستی میں ڈوبے ہوئے وہ بے خود وسرشار مستانے کہاں گررہے ہیں اور کیسے گر رہے ہیں، سر رکھ رہے ہیں یا پٹک رہے ہیں، جو بے خود، مدہوش اور کبھی بے ہوش بھی ہوجاتے ہیں۔ یقیناً وہ ’’رفع القلم عن الثلاثۃ‘‘ کے درجے میںہوتے ہیں۔سوختہ پر اور گداختہ جان تڑپتے پروانے کو کیا خبر کہ گردِ شمع وہ زمین پرکس کروٹ گرا۔
    فقہ وفتاویٰ کی اپنی دنیا ہے اور عشق و وفا کا اپنا جہان ہے۔ فقیہ پر واجب ہے کہ وہ مسلمانوں کو حرام اور ارتکابِ حرام سے دور رکھے۔ وہ بسا اوقات عام مسلمانوں کو سد ذرائع کی خاطر محرمات کے قریب پھٹکنے سے بھی روکتا ہے،کہ مبادا ایک عام مسلمان اس سے آگے بڑھ کر حدودِ شریعت کو پامال کردے۔ فقہا کے یہاں یہ مسلم ہے کہ سجدۂ عبادت شرک اور سجدۂ تحیت ناجائز ہے۔ لیکن اب آئیے! عاشقوں کی واردا ت دیکھیے کہ وہ محبت والفت، عشق وارادت، کیف ومستی، جذب وشوق اور اضطرار وبےخودی کے عالم میں زبانِ حال سے کس طرح گویا ہوتے ہیں:
ہزار سجدے کریں ان کی ذات کو کم ہے
ہمیں تو باندھ دیا ان کی ہی شریعت نے
(سید نظمی مارہروی)
نہ ہو آقا کو سجدہ، آدم و یوسف کو سجدہ ہو!
مگر سدِ ذرائع داب ہے اپنی شریعت کا
(اعلیٰ حضرت بریلوی)
سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا
(مفتی اعظم ہند)
اے شوق دل یہ سجدہ گر ان کو روا نہیں
اچھا وہ سجدہ کیجے کہ سر کو خبر نہ ہو
    (اعلیٰ حضرت بریلوی)
اس میں روضے کا سجدہ ہو کہ طواف
    ہوش میں جو نہ ہو وہ کیا نہ کرے
    (اعلیٰ حضرت بریلوی)
    بے خودی میں سجدۂ در یا طواف
    جو کیا اچھا کیا، پھر تجھ کو کیا!
    (اعلیٰ حضرت بریلوی)
سنگِ درِ جاناں پر کرتا ہوں جبیں سائی
سجدہ نہ سمجھ نجدی! سر دیتا ہوں نذرانہ
(مفتی اعظم ہند)
موسیا! آدابِ دانان دیگرند
سوختہ جان و روانان دیگرند
عاشقان را ہر نفس سوزید نیست
بر دہِ ویران خراج و عشر نیست
ملت عشق از ہمہ دینہا جداست
عاشقان را ملت و مذہب خداست
(مولانا روم)
    [۵]  مذکورہ تصویرجو گذشتہ دو سالوں سے سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہے، وہ یقینا سجدے کی تصویر نہیں ہے۔ ہاں! قدم بوسی کے بعد غشی میں ڈوبے ہوئے دو دیوانے ہیں جو دنیا ومافیہا سے بے خبر ہیں۔ خانقاہِ عارفیہ کی محافلِ سماع میں شرکت کرنے والے اس قسم کے واقعات کے شاہد ہیں کہ ایک شخص شیخ کا ہاتھ یا پائوں پکڑے آدھے آدھے گھنٹے تک زار وقطار روتا چلا جارہا ہے۔ ایک شخص رقص کرتے کرتے پورے قد کے ساتھ زمین پر گرا ہے اور پھر دیر تک تڑپتے رہنے کے بعد ساکت وجامد پڑاہوا ہے۔ ایک شخص طویل وجد وکیف کے بعد قدم بوس ہوا ہے اور اسی حال میں جامد وساکت رہ گیا ہے یا پلٹ کر کروٹ کے بل گرپڑا ہے اور گھنٹہ نصف گھنٹہ اسی طرح بے حس وحرکت پڑا ہوا ہے، یہاں تک کہ شیخ اسے چھوڑ کر وجد واضطراب میں ڈوبے ہوئے دوسرے دیوانوں تک پہنچ گئے ہیں، لیکن یہ شخص اپنی جگہ پر یونہی بے خبر اور بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ اگر ہم انصاف کا دامن تھامیں تو اس صورت کو سجدۂ تعظیمی ہرگز نہیں کہہ سکتے، بلکہ قدموں پر منھ کے بل یا کروٹ کے بل دیر تلک بے ہوش اور بے حس وحرکت پڑے رہنے کو قدم بوسی کہنا بھی صحیح معنوں میں درست نہیں ہے۔ ہاں! اس کی ابتدا وجد وکیف، بےخودی وسرشاری کے جذبات سے لبریز قدم بوسی سے ضرور ہوئی ہے۔
    آخری بات:-
    یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے، خاص طور پر ہمارے ان احباب کے دلوں میں جو خانقاہ عارفیہ سے دورسیکڑوں اور ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔وہ یہ کہ یہ کیفیات پورے بر صغیر میں صرف خانقاہ عارفیہ ہی میں ہوتی ہیں، کہیں اور کیوں نہیں ہوتیں؟ اور وہاں ہوتی ہیں تو کیوں ہوتی ہیں؟ یقیناً یہ سوال اپنی جگہ فطری ہے۔ اگر ان احباب کی جگہ میں ہوتا تو شاید میں بھی یہی سوال کرتا، مگر فیض بخشیِ قدرت کو کیا کہیےگا! جو جب اور جسے چاہے سرشار و فیض یاب کرے۔ ہم اور آپ اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتے۔ نوادرات ہوتے بھی تو ایسے ہی ہیں۔ اکابر کی کتب تصوف سے وجد وسماع کے جتنے احوال اوپر نقل ہوئے اللہ کے فضل واحسان سے ان تمام مناظر کا مشاہدہ میری آنکھوں نے خانقاہِ عارفیہ کی چہار دیواری میں کرلیا ہے۔ سر پٹکنے والے، پوری شدت کے ساتھ فرش پر ہاتھ پیر مارنےوالے، گریباں چاک کرلینے والے، بلکہ خود کو زخمی کرلینے والے، بلکہ خود کو کنویں میں ڈال دینے والے سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ، اِلا یہ کہ اب تک کسی کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں ہوئی ہے۔ تاہم ایک دو مواقع پر ایسا ضرور ہوا کہ کوئی عاشق جاں سوختہ روتے روتے بے حال ہوا اور پھر ایک زور کا نعرہ مارا اور اس کے ساتھ ہی جامد وساکت ہوگیا۔ اس وقت راقم الحروف کو ایسا محسوس ہوا کہ دیوانہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا ہے۔ عہد زوال کی زرپرست خانقاہوں اور دنیا پرست علما کو دیکھ دیکھ کر ماضی کی شاندار روایات کے مشاہدے سے مایوس نگاہوں اور شک گزیدہ سماعتوں کو اگر ہماری باتوں پر یقین نہ آئے تو میں اس کے علاوہ اور کربھی کیاسکتا ہوں کہ انھیں اخلاص ومحبت کےساتھ خانقاہ آنےکی دعوت دوں۔ شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ بصورت دیگر یا تو وہ میری زبانِ قلم کو مشکوک سمجھیں یا میں اپنے مشاہدات کو جھٹلادوں؟؟؟
-------------------------------------------
    نوٹ: - (۱) یہ تحریر خانقاہِ عارفیہ میں انعقاد پذیر محافلِ وجد وسماع کی ایک اجمالی تصویر پیش کرتی ہے۔ حضرت داعیِ اسلام کی شخصیت کے دیگر پہلوؤں پر قارئین راقم کی مستقل کتاب کا انتظار کریں۔(۲) یہ مضمون تصوف سے وابستہ اہلِ سنت کے لیے لکھا گیا ہے؛اس لیے یقینا سلفی منہجِ فکر واستدلال کے حامل افراد کے لیے ناکافی ہے۔مستقبل قریب میں تصوف اور مراسمِ تصوف پر اس جہت سے شاہ صفی اکیڈمی سے کتابیں / مقالات شائع کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ!!
***





 







https://drive.google.com/file/d/0B7PawD8kIlKua1VKOFFkVzQ2RWs/view?usp=sharing

https://docs.google.com/uc?export=download&id=0B7PawD8kIlKua1VKOFFkVzQ2RWs

Friday 8 September 2017

0 comments
خیرآباد کا پانچ سو سال سفر
از قلم: ذیشان احمد مصباحی



Thursday 7 September 2017

آزادی نسواں کے علم برداروں سے ایک اپیل

0 comments
آزادی نسواں کے علم برداروں سے ایک اپیل
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
 علمی د نیا میں آ ج مطالعہ و تحقیق کے دو طریقے رائج ہیں، ایک یہ کہ آپ اپنے طور پر جس نتیجے کو صحیح اور درست سمجھے ہوئے ہیں خواہ وہ گھر یا ماحول کی وجہ سے ہے یا معاشرہ یا تعلیم کے زیر اثر ہے، اس کو سامنے رکھ کر اسی کی صحت کے اثبات پر دماغ کا سارا زور صرف کر دیں ،اس کے موافق جتنے دلائل آئیں انہیں پورے شد و مد کے ساتھ پیش کریں اور جو خلاف دلائل آئیں انہیں رد کرنے کے لیے دماغ کو نچوڑ کر رکھ دیں۔ یہ موضوعی طرز تحقیق ہے جو آج بالعموم رائج ہے۔
تحقیق کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کے بارے میں جو آپ کے سابقہ خیالات یا نظریات ہیں ،انہیں فراموش کر دیں اور مسئلے کے سارے پہلو سامنے لائیں اور موافق و مخالف ساری دلیلوں پر تنقیدی نگاہ ڈالیں ،اب مثبت یا منفی جو جہت بھی قوی اور محکم نظر آتی ہے اسے بلاچون و چرا تسلیم کر لیں، اسے معروضی طرز تحقیق کہا جاتا ہے جسے بہت کم لوگ اپناتے ہیں ،یہ تحقیق کا وہ طریقہ ہے جو آزادی فکر اور آزادی رائے کی دعوت دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ اسے وہ افراد بھی پورے طور سے نظر انداز کر جاتے ہیںجو آزادی فکر کا علم لیے گلا پھاڑ پھاڑ کر آزادی کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزادی کے نعرے لگانے والے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہر شخص کو آزاد انہ سوچنے اور کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے ۔ عورتوں پر نوازشات کی بارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نیم عریاں ہی نہیںمکمل عریاں رہنا بھی اس کا حق ہے،کسی خارجی مصلحت کو بتا کر اسے اس کے اس شخصی حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر وہیں دوسری خاتون جو حجاب یا اسکارف لگانا چاہتی ہے اور شخصی طورپر اسے پسند کرتی ہے تو اسے اس کا حق نہیں دیا جاتا اور اسے روایت پسند کہہ کر اس کے گرد زندگی کی راہیں مسدود کر دی جاتی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ آزادی فکر کے علم برداروں نے اپنے طور پر یہ طے کر لیا ہے کہ آزادی کا جو مفہوم وہ سمجھتے ہیں وہی آزادی ہے۔اس کے خلاف آزادی ہو ہی نہیں سکتی اور نہ کسی کو اس کے خلاف آزادی کی تشریح کرنے کی آزادی ہے۔ یہ آزادی کا غلامانہ تصور موضوعی طرز تحقیق کا نتیجہ ہے ۔
اگر آپ تا ریخ کے طالب علم ہیں تو محسوس کرتے ہو ں گے کہ تاریخ، ماضی کی تلاش اور کھنڈرات میں دبے حقائق کی باز یافت میں جہاں معروضی طرز تحقیق کا استعمال کرتی ہے وہیں ماضی اور حال کے معاشرے کا تقابل کرتے وقت بالعموم موضوعی انداز اختیار کر لیتی ہے، ماضی کے معاشرے میں اسے انسانی زندگی بے کیف سی لگتی ہے اور وہ اپنے پیش رووں کے طریق معاشرت پر استہزا اور اہانت پر آمادہ نظر آتی ہے ۔حالانکہ اگر معروضی انداز میں پر سکون زندگی کی تلاش کی جائے تو وہ حال کے بالمقابل ماضی میں زیادہ بہتر نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جدیدیت کے حا ملین بھی کبھی کبھی اپنے ضمیر کو بے اختیار ماضی کی طرف پلٹتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
تاریخ کے اس موضوعی طرز عمل کو سمجھنے کے لیے صرف یہ ایک مثال کافی ہے کہ تاریخ ماضی کے ان بادشاہوں پر تو کھل کر لعنت کرتی ہے جو اپنی ہوس کی پیاس بجھانے کے لیے درجنوں باندیاں رکھتے ، ان کے رقص و سرود کی محفلیں سجاتے ،ان کو بازوئوں میں بھرتے اور پھر انہیں انعامات و کرامات سے نوازتے ، تاریخ کو یہ چیزیں صنف نازک کے اوپر شدید مظالم نظر آتی ہیں لیکن آج عورتوں کو ایر ہوسٹس، سیلز گرل اورکال گرل بنا دیا گیا ہے ،فلمو ںاور فیشن شوز میں اس کے انگ انگ کی نمائش کرائی جا رہی ہے۔ اور طوائف خانوں کو لائسینس فراہم کر کے چند سکوں کے عوض کھلونے کی طرح اسے استعمال کیا جارہا ہے ۔صنف نازک کے ساتھ وہ سلوک جوماضی میں صرف باشاہ کیا کرتا تھا آج عام و خاص ہر کوئی کر رہا ہے لیکن پھر بھی تاریخ کی نظر میں آج کی عورت ماضی سے آزاد ہے، اور اسے مکمل حقوق حاصل ہیں۔ تاریخ کی نظر میں ماضی کا ظلم آج انصاف اس لیے بن گیا ہے کہ تجزیہ کرتے وقت اس نے موضوعی طرز عمل اختیار کر لیا ہے او ریہ فرض کر لیا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ صحیح ہو رہا ہے۔
مذکورہ گفتگوکی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ تحقیق و جستجو کا معروضی طریقہ غیر جانب دارانہ طریقہ ہے، اس سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے کوئی ضروری نہیں کہ وہ آپ کی انا اور مزاج کے مطابق ہی ہو، بلکہ بسا اوقات آپ کی سوچ سے ٹکراتی ہوئی بات بھی سامنے آ سکتی ہے۔ اس کے بر خلاف موضوعی طریقہ تنگ نظری پیدا کرتا ہے اور صحیح نتیجے تک پہنچنے سے روکتا ہے جب کے معروضی طریقہ اعلی ظرفی اور وسعت نظری پیدا کرتا ہے۔ اس سے شی کی وہ تصویر سامنے آتی ہے جو حقیقت اور واقعیت میں ہے نہ کہ وہ جسے آپ نے پہلے سے حقیقت فرض کر رکھا ہے۔
ایک اندھے اور ایک لنگڑے سے اگر آپ یہ سوال کریں کہ انسان میں عیب کیا ہے، اندھا پن یا لنگڑا پن؟ تو اندھا لنگڑا پن کو اور لنگڑا اندھاپن کو عیب ثابت کرنے میں ایک مناظراتی مجلس گرم کر دے گا۔ چوں کہ ہر ایک نے یہ فرض کر لیا ہے کہ وہ جس عیب میں مبتلا ہے وہ عیب ہے ہی نہیں۔ اب ان کی جتنی باتیں ہوں گی اسی موضوعی فکر کے تحت ہوںگی جن کا نہ کو ئی نتیجہ سامنے آئے گا اور نہ کوئی حاصل۔
مغرب کے ہوس پر ستوں نے اپنی نفسانیت کی تکمیل کے لیے عورتوں کو ایک پر فریب نعرہ دیا ’’ مرد و عورت برابر ہیں؟‘‘بظاہریہ ایک میٹھی آواز تھی، جس پر عورتوں نے لبیک کہا اور تسلیم کر لیا۔ شاطر ظالموں نے عورتوں کو اس پر فریب نعرے سے خوش کر کے جی بھر کے اپنی ہوسناک نگاہوں سے عورتوں کے حسن کو پیا اوران کو اپنے بازوئوں میں بھر کے حیوانیت اور شہو ت پرستی کی ننگی ناچ رچائی۔ اسلام جو معروضی فکر کا حامل ہے اور کسی بھی مسئلے کے سارے پہلوئوں اور تمام کوششوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہی کوئی نتیجہ اخذ کرتا ہے، اس نے مغرب کے اس رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلندکی اور یہ بتایا کہ عورت اتنی ارزاں نہیں جسے ہر کوئی کھلونا بنا لے، اس کے حسن کا سودا، ناز و ادا، آواز و انداز کی بازی اور اس کی عزت وعصمت کا کاروبار اس کا اعزاز نہیں، اس کی کھلی توہین ہے۔ ہوٹلوں اور ریستو رانوں،پارکوں، تماشہ گاہوں اور کارو بار کے فروغ کے لیے فیشن شو کے نام پر ان کی بلیک میلینگ ان کے ساتھ ہمدرد ی نہیں ظلم ہے، ایسا ظلم جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔
مغرب کے تنگ نظر اور موضوعی فکر کے حاملین نے اسلام کی اس آواز کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور وہ لیتے بھی کیسے جب کہ یہ آواز ان کی شہوت پرستی اور ہوس ناکی کی راہ میں شدید رکاوٹ پیدا کر رہی تھی، اسلام نے نان و نفقہ اور عدل و انصاف کے شرائط کے ساتھ انسان کو چار شادیاں تک کی اجازت دی ہے۔ لیکن ان کی طبیعت کل جدید لذیذ اور’’ ہر لحظہ از دیگر جام‘‘ کی طالب تھی، وہ چند سکوں پر ہر نئی رات حسن و جمال کی کسی نئی دیوی کے ساتھ گزارنے اورا پنی شہوت کی آگ کو اور ہوا دینے کے خواہاں تھے۔ اس لیے انہوں نے اسلام کے فارمولے کو رد کر دیا، اور اس کی تجویز کو بنیاد پرستی کے طعنے کے ساتھ عورتوں کو محصور اور مقید کرنے کا الزام دیتے ہوئے اپنے قوی ذرائع ابلاغ سے خوب خوب پیش کیا اور بمصداق’’ جھوٹ اتنا بولو کہ سچ ہو جائے ‘‘ان کی باتیں اکثر مردوں اور عورتوں کی سمجھ میں آ گئیں۔
’’مساوات‘‘ کے اس نعرے کے پیچھے اہل مغرب کے اندر عورتوں کے ساتھ کتنی ہمدردی تھی، اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد تھے،اس سے قطع نظر کیا واقعی مرد و عورت کے بیچ فطرت نے مکمل مساوات پیدا کی ہے؟ نیز مساوات کے دعوایداروں نے کیا واقعی عورت کو مساوات کا درجہ دے دیا ہے اور ان کی عورتیں ان کی برابر ہو گئی ہیں؟ ان دو نوں سوالات پر آج کے ہر با شعور مرد و عورت کو غور کرنا چاہیے۔ بطور خاص عورتوں کو مکمل آزادی کے ساتھ معروضی انداز میں غور کرنا چاہیے کہ مغرب کی آواز میں ان کے لیے ہم دردی ہے یا فریب؟ لیکن اس سے پہلے اپنے ظرف کو انہیں اتنا وسیع کر لینا ہوگا کہ اگر بعض باتیں فی الواقع ان کی موجودہ سوچ کے خلاف بھی سامنے آئیں تو وہ بسر و چشم قبول کر لیں۔ جب ہی وہ صحیح نتیجے تک پہنچ سکتی ہیں، موضوعی فکر اور تنگ نظر سوچ کسی کو بھی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچا سکتی۔
مرد و عورت کے بیچ ظاہری ساخت و ہیٔت اور جسمانی طاقت و قوت میں فرق اس قدر نمایاں ہے جس کا کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا، شاید پاگلوں کو بھی نہیں ۔ہاں !ذہنی اور فکری سطح پر دونوں کا مختلف ہونا اور مرد کا عورت کی بہ نسبت فائق و بر تر ہونا بظاہر واضح نہیں ہے۔ اور اس کو سمجھنے میں اکثر لوگوں کو دھوکہ ہو جاتا ہے۔ اسلام اس سطح پر بھی تفریق کا قائل ہے، اس نے مرد کو فکر و تدبر میں عورت سے برتر بتایا ہے۔ اسے مساوات کے علم بر دار خوب اچھالتے ہیں اور اسلام کے خلاف عورتوں کو بھڑکانے کے لیے اسے ایک زبردست ہتھکنڈا کے طورپر استعمال کرتے ہیں ۔اور چوں کہ اکثر انسان موضوعی فکر کے حامل ہیں جس کے سبب اپنے خلاف بات خواہ کتنی بھی سچی کیوں نہ ہو، اسے مسترد کرنے کی فکر میں ہوتے ہیں،اس لیے عورتیں عموماً مساوات کے علم برداروں کے جھانسے میں آ جاتی ہیں۔ اور اسلام کی سچی بات انہیں کڑوی لگتی ہے اور اسے وہ اپنے خلاف ظلم تصور کرنے لگتی ہیں۔ لیکن اگر معروضی انداز میں غور کریں تو وہ خود بھی اسی نتیجے پر پہنچے گی جو اسلام کہہ رہا ہے، اور تاریخ کی بعض خواتین کی حیرت انگیز ذہانت، غیر معمولی تدبر اور بے پناہ قوت فکر ونظر اور حکومت و سلطنت کی صلاحیت سے جو انہیں دھوکہ ہوتا ہے اس کی حقیقت ان پر واضح ہو جائے گی۔ اور انہیں اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ ایسے واقعات جزوی اور استثنائی ہیں اور اسلام کی بات ایک عمومی ہے۔ ورنہ کم از کم آج ان ممالک میں جہاں مساوات کے علم برداروں کے مطابق عورت مکمل آزاد ہے اور مرد کے شانہ بشانہ عروج و ارتقا کے سفر میں گامزن ہے، عظیم عہدوں پر عورتیں ضرور ہوتیں، لیکن افسوس کہ بڑے عہدوں پر عورتوں کا تناسب چند فیصد بھی مشکل سے ملے گا۔ دور مت جائیے تہذیب مغرب کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکہ کا ہی جائزہ لیجیے جہاں خد مت کے لیے ہر جگہ تقریباً سو فی صد عورتوں کا ہی تناسب ہے مگر آج تک کوئی خوش نصیب امریکہ کی صدر نہیں بن سکی۔ اگر خواتین مجھے میری تلخ نوائی سے معاف رکھیں تو ان کے سامنے یہ رپورٹ بھی پیش کر دوں جسے سنڈے ٹائمز لندن کے حوالے سے ٹائمس آف انڈیا نے اپنی ۷؍فروری ۲۰۰۵ کی اشاعت میں پہلے صفحے پر شائع کیا ہے:
Men's brain cells transmit impulses 4 times faster than women's.
مردوں کے ذہن کے خلیے عورتوں کی بہ نسبت چار درجے تیز  حرکت کرتے ہیں…سائنس دانوں نے یہ تحقیقی رپورٹ ہارورڈ یونیورسٹی کے پریسیڈینٹ لاری سمرس کی زیر نگرانی تیار کی ہے۔مردوں کی ذہانت کی تیزی کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے:
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کے اعصاب پر موٹے پردے ہوتے ہیں۔ اور اس میں چکنا ہٹ اور چربی ہوتی ہے جو اعصاب کی حفاظت کرتے اور اس کے نظم و نسق کو بہتر بناتے ہیں۔‘‘
مرد و عورت کے بیچ اس فطری تفریق کے بعد آزادی و مساوات کے علم برداروں کو اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ فطر ت نے دونوں صنف کو ایک دوسرے سے مختلف کیوں بنایا ہے؟ پھر یہ نقطہ بھی توجہ کا طالب ہے کہ جب دونوں فطرتاً مختلف ہیں تو پھر دونوں کی ذمہ داری بھی مختلف ہونی چاہیے۔ جو کام پتھر سے لیا جاتا ہے و موم سے نہیں لیا جا سکتا۔شوہر اگر دن بھر پیٹھ پر چاول کی بوریے ڈھو رہا ہے تو مساوات کا نعرہ لگاکر بیوی کی پشت پر آٹے کی بوری نہیں لادی جا سکتی ۔
رہا یہ سوال کہ کیا مساوات کے دعویدار وں نے عورت کو مساوات کا درجہ دے دیا ہے؟ تو اس کے لیے ابھی حالیہ دنوں پوپ جان پال کے انتقال کے بعد دوسرے پوپ کے انتخاب کے واقعے کو اگر سامنے رکھیں تو بڑی حد تک ان کے نعرۂ مساوات کا کھوکھلا پن ظاہر ہوجائے گا۔ دنیا کو حیرت ہوئی کہ جہاں پوپ منتخب ہونے کے لیے درجنوں مرد صف بستہ تھے وہاں ایک عورت کو بھی جگہ نہیں دی گئی۔ مساوات کے نعرے لگانے والوں کا عورتوں کے ساتھ یہ غیر مساوی سلوک خودان کے اصول  مساوات کے پیش نظرکس قدر ظالمانہ ہے؟امریکہ کے منصب صدارت کے تعلق سے جوبات گزری،بڑی حد تک اس سے بھی نعرۂ مساوات کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ مزید وہاں عورتوں پر مردوں کی الطاف و عنایات کی یہ روداد بھی پڑھ لیجیے کہ وہاں سن بلوغ سے پہلے سے ہی ہر بچے کو اپنے معاملات میں مکمل آزادہونے اور بوائے فرینڈ یاگرل فرینڈ کے شریک زندگی ہونے کے باوجود ہر۴۶ سیکنڈ پر ایک زنا بالجبر کا واقعہ پیش آتا ہے۔ اس مسئلے کو ٹائمس آف انڈیا اشاعت ۱؍مئی ۲۰۰۵ء کی اس رپورٹ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے جسے اس نے ایک فلمی اداکارہ کے حوالے سے شائع کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے:
This is a male-dominated industry.
فلمی دنیا مردوں کے زیر اثر ہے …یہ برتری اس طور پر ہے کہ فلم میں ایک عورت مردوں کی توجہ فلم کی طرف مبذول کرانے کے لیے اپنی ہر طرح نمائش کراتی ہے ،بسااوقات سر راہ اپنی چادر عصمت کے تار تار ہونے کا شرمناک منظر بھی اسے پیش کرنا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود فلم میں اس کی حیثیت ثانوی ہو تی ہے۔اسے ہیرو کی بہ نسبت پیسے بھی کم ملتے ہیں ۔ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ جس میدان میں عورت کو سب سے زیادہ آزاد سمجھا جاتا ہے وہاں بھی اس کی حیثیت اب تک ثانوی ہی ہے۔ اب ایسے میں بھلا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ مساوات اور آزادی نسواں کے علم بر داروں نے عورتوں کو مکمل مساوات کا درجہ دے دیا ہے؟ کیا صرف اس وجہ سے کہ کاروبارکو فروغ دینے اور خریداروں کو اپنے پروڈکٹس کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہر دروازے او رہر کاؤنٹر پر انہوں نے نازک اندام حسینائوں کو نصف عریاں کر کے کھڑا کر دیا ہے؟
میر ے خیال میں قبل اس کے کہ حال ماضی بنے اور مستقبل کا تاریخ نگارہمارے بے مہار رویوں اور غیر متوازن فکر و عمل پر لعنت و نفریں بھیجے ہمیں آج ہی اپنے حال کا محاسبہ کر لینا چاہیے۔ آزادی کے مغربی نعرے باز جن کی تنقید کا نشانہ صرف قدامت پسندی اور روایت پرستی ہوتی ہے انہیں اپنی جدیدیت اور روشن خیالی کا بھی کھلے ذہن کے ساتھ معروضی جائزہ لینا چاہیے۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب ان کی روایت مستقبل میں تنقید واحتساب کی میز پر رکھی جائے تو اس میں روشن دماغی کی بجائے ہوس پرستی اور زراندوزی جیسے امراض ہی نظر آئیں اور انسانیت پر حیوانیت کا مکمل تغلب دکھائی دے۔    
 ٭٭٭

رضویات: پس منظر وپیش منظر

0 comments
رضویات: پس منظر وپیش منظر
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
فقیہ اسلام حضرت مولانا شاہ احمدرضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اپنے زمانے کی نابغۂ روزگار شخصیت تھے-بلاشبہ وہ ایک جہان معنی تھے -ان کی ہشت پہلو شخصیت کو جس طرف سے بھی دیکھیے وہ اپنے آپ میں منفرد وممتاز نظر آتی ہے- انہوں نے پوری ایک صدی کو متاثر کیا- ایک زمانہ ان کا معترف ہے- ان کے افکارو خیالات نے نہ صرف اپنے دور کو متاثر کیا اورنہ وہ صرف اپنے عہد میں مجالس علما اورعوام میں مقبول اور زیربحث رہے بلکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کے افکارو خیالات اورتحقیقات پر بحث ونظر اور علم وتحقیق کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلاگیا- یہ بات خود اپنے آپ میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی عبقریت کا آخری ثبوت ہے اور سچائی بھی یہی ہے کہ عہدرضاسے اب تک عرب وعجم میں ان کا ثانی کوئی دوسرا نظر نہیں آتا-
یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر اب سامنے آتی جارہی ہے کہ اعلیٰ حضرت ایک شخص نہیں ایک تحریک کانام ہے اور بقول مخدوم گرامی حضرت شیخ ابوسعیدشاہ احسان اللہ محمدی صفوی’’اعلیٰ حضرت کی ذات سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے- ‘‘اورجہاں تک حالات اور واقعات کی تبدیلی سے بعض جزوی مسائل اورفروعی نظریات سے اختلاف کا مسئلہ ہے تو یہ کوئی نیا نہیں، اصول فقہ کا قاعدہ ہے : تختلف الاحکام باختلاف الزمان- حالات کے بدلنے سے مسائل بھی بدل جاتے ہیں-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی تاریخ اسلام کی اس مقدس لڑی کے ایک فیروز بخت دانہ ہیں جس میں شاہ ولی اللہ ، مجدد الف ثانی، شیخ محقق، غزالی ورازی اور امام احمدبن حنبل، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ جیسی عظیم شخصیات ہیں جنہوں نے اسلام کے علمی کاررواں کو آگے بڑھایا، جو بلاشبہ راہ حق کے استعارے ہیں، جن کے علمی وفکری سرمایے کے احسان سے بعد والے نہ سبک دوش ہوئے اور نہ رہتی دنیا تک ہوں گے- جزوی طور پر بعدوالوں نے اختلاف تو ضرور کیا یا حالات کی تبدیلی کے سبب مختلف اقوال میں ترجیح دینے کا عمل توضرور کیا لیکن ان شخصیتوں کاانکاریا ان کے احسانات کی ناسپاسی کسی کے لیے ممکن نہیں رہی-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کتاب حیات کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بڑی حیرت انگیز نظر آتی ہے کہ جو لوگ اس زمانے میں خود اپنے طور پر ماہ ونجوم کی حیثیت رکھتے تھے، وہ بھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے اکتساب فیض کو غنیمت اور چندلمحے کی صحبت کو سرمایۂ حیات تصور کرتے تھے-مولانا امجدعلی اعظمی، مولانا ظفر الدین بہاری، مولانا عبد العلیم صدیقی میرٹھی، مولانا نعیم الدین مرادآبادی ، مولانا سید محمدکچھوچھوی ، مولاناسید سلیمان اشرف بہاری، اور ان جیسے دوسرے بہت سے علما ایسے تھے جو خود اپنی شناخت آپ تھے- ہر شخص اپنی جگہ آفتاب وماہتاب تھا لیکن یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوتی ہے کہ فاضل بریلوی ان کے بیچ ستاروں کی جھرمٹ میں ماہ کامل نظر آتے ہیں-ان عہد ساز شخصیات کا بارگاہ فاضل بریلوی میں سجدۂ نیاز لٹانا بس یوں ہی تو نہیں ہوسکتا- کچھ تو ایسی بات تھی جو تعلق اور عقیدت کیشی پر مجبور کررہی تھی-
ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح امام ابوحنیفہ قدس سرہ نے ماہرین کی ایک ٹیم اپنے گرد جمع کرلی تھی او ران کی مشاورت اورتعاون سے فقہ اسلامی کی تدوین کا فریضہ انجام دیا اسی طرح اعلیٰ حضرت نے اپنے دورمیں متخصصین کی چنندہ جماعت اکٹھا کرلی تھی جن کے تعاون سے خصوصیت کے ساتھ فقہ اسلامی پر ایسا کام کیا جس کی نظیر نہ تو بعد میں نظر آتی ہے اور نہ اس سے قبل کی قریب کی صدیوں میں کوئی اس کی مثال ملتی ہے-
کسی بھی شخصیت کی عظمت کا راز اس شخصیت کے پھیلاؤ سے سمجھا جاتا ہے -شخصیت جب بڑی ہوتی ہے توسب سے پہلے وہ اپنے گھر کی چہاردیواری سے باہرآتی ہے، پھر اس کی عظمت اس کی علاقائی حدوں کو توڑتی ہے پھر ملکوں کی سرحدیں مٹ جاتی ہیں- شخصیت جس قدر بڑی ہوتی جاتی ہے انفس وآفاق میں اس کے چرچے اسی قدر بڑھتے چلے جاتے ہیں-کسی عبقری شخصیت کی شناخت یہ بھی ہے کہ اسے جغرافیہ کی لکیریں اورزمانے کی رفتار پابجولاںنہ کر سکیں-عبقری شخصیتیں کسی ایک گھر، کسی ایک خطہ، یا کسی ایک زمانے کی نہیں ہوتیں اور نہ ہی گردش زمانہ ان کے گہرے نقوش کو مٹا سکنے میں کامیاب ہوتی ہے- اس تناظر میں جب ہم اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمدرضا خاں فاضل بریلوی کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پھر ہمیں ان کی عبقریت اور آفاقیت میں کوئی شبہ نہیں رہتا اور ان یارانِ کرم پر افسوس ہوتاہے جو اعلیٰ حضرت سے عقیدت کے نام پران کی شخصیت کو کسی گھر یا خطے میں محدود کرنے کی غیر شعوری کوشش کرتے ہیں-
روایتوں میں مذکور ہے کہ نبی کا کوئی وارث نہیںہوتا- اس سے ایک لطیف نکتہ یہ بھی ملتا ہے کہ علوم نبوت پر بھی کسی کی وراثت یا کسی کی جاگیر نہیں ہوتی- وہ خلقِ خدا کے عام استفادے او رہدایت کا سرمایہ ہوتے ہیں اور ان میںسب کا حصہ ہوتاہے- جس طرح امام ابوحنیفہ، امام غزالی، امام رازی، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شخصیت خطے اور کنبے سے بہت بلند ہے، بلا تمثیل اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی شخصیت بھی زمان ومکان کی قید سے اب آزاد ہوچکی ہے -اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس شخصیت پر قبضہ کرنے کے زعم میں اسے محدود کرنے کی غیر شعوری کوشش سے باز آجائیں- اسے اس کا صحیح حق دیں- اس پر تجارت اور سیاست نہ کریں-بلکہ ہر ممکن طور سے اس کے علمی ذخیرے کی تقسیم وترسیل کریں اور جدید اسالیب اورجدید سائنسی وتکنیکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اسلام کے متوارث علمی وفکری سلسلے کوآگے بڑھانے کی کوشش کریں-
یہ بات بالکل سچ ہے کہ بیسویں صدی میں مختلف جہات سے فاضل بریلوی کے فکر وفن پر جس معیاراور وسعت سے کام ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوسکا - لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ جتنا کام فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی شخصیت اورفکر و فن پر کیا گیا اتنا بیسویں صدی کی کسی اور شخصیت پر نہیں ہوا-انیسویںاوربیسویں صدی کے ممتاز علماے ہندمیں غالباً اعلیٰ حضرت کی شخصیت ان میں سب سے زیادہ خوش نصیب ہے جو دینی سطح پر علمی کام کرنے والوں کی مرکز توجہ بنی رہی- بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی پر کام کرنے کا جوش اتنازیادہ بڑھا کہ اس عہد اور اس سے ماقبل عہد کے اکابراہل سنت پر کام کرنے کا رجحان ہی کالعدم ہوگیا-فکررضا کی اشاعت کا جذبہ ایک جنون کی شکل اختیار کرگیا اور ہر شخص نے ایک ہی راگ الاپنا شروع کردیا- اس سے جہاں ایک طرف دوسرے علماے اہل سنت اور ان کی خدمات فراموش ہوگئیں اور بعض ممتاز سنی شخصیتیں دوسروں کے کھاتے میں چلی گئیں تو دوسری طرف ایک منفی اثر یہ بھی پڑا کہ اعلیٰ حضرت پر ہونے والے کام کا معیار پستی کا شکار ہوگیا-اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری، اعلیٰ حضرت کا عشق رسول ، اعلیٰ حضرت کا ترجمۂ قرآن جیسے موضوعات پر ہزاروں مضامین لکھے گئے اور بیشتر مضامین میں ایک ہی بات کی تکرار کی جاتی رہی- رضویات پر لکھنا اور لکھوانا ، چھپنا اور چھپوانا ایک فیشن بن گیا- نتیجہ یہ ہوا کہ رضویات پر مضامین رسائل وجرائد میں دیکھے جانے لگے اور ان کو پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی بجاے صرف مضمون دیکھ کرہی دل کو تسکین پہنچائی جانے لگی-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے رشحاتِ قلم کا بڑاحصہ فتوؤں پر مشتمل ہے- ڈاک کے ذریعے ان کے فتاویٰ لکھنے کے ساتھ ہی ملک کے طول وعرض میں پھیلتے رہے -پڑھے جاتے رہے اور اپنا اثر دکھاتے رہے- پھرمطبع اہل سنت بریلی (قیام۱۳۱۳ھ) کے ذریعے اعلیٰ حضرت کے بعض کتب ورسائل ان کی زندگی ہی میں زیور طبع سے آراستہ ہوئے اور بڑے پیمانے پرا ن کی تقسیم ہوئی- تحفہ حنفیہ پٹنہ اور دبدبۂ سکندری رام پور کے توسط سے بھی اعلیٰ حضرت کے افکارو تحقیقات ملک بھر میں پھیلتے رہے-اعلیٰ حضرت کے شاگر د مولانا ظفرالدین بہاری غالباً وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حیات اعلیٰ حضرت لکھ کر اعلیٰ حضرت کی حیات وخدمات کو مدون کیا- افسوس کہ اس کی مکمل اشاعت بیسویں صدی کے گزرجانے کے بعدہی ممکن ہوسکی اوراشاعت ہوئی بھی تو اس طورپر کہ پاکستان کا نسخہ ہندوستانی نسخے سے مختلف ہے اور ہندوستانی نسخہ پاکستانی نسخہ سے مختلف ہے -دونوں نسخے ایک دوسرے کی بہ نسبت ناقص ہیںجس کی تصحیح نہایت ضروری ہے- مولانا ظفرالدین بہاری کے بعد اعلیٰ حضرت کے برادرزادے مولانا حسنین رضا بریلوی کا نام بھی اس خصوص میں قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے سیرت اعلیٰ حضرت مع کرامات لکھ کر راز دارخانہ ہونے کی حیثیت سے اعلیٰ حضرت کی شخصیت کے بہت سے گمنام پہلوؤں کو اجاگر کیا - مولانا برہان الحق جبل پوری نے اکرام امام احمدرضا لکھا اور ایک شاگرد ہونے کی حیثیت سے اعلیٰ حضرت کی شخصیت کے تعلق سے بہت سی قیمتی یادوں کو محفوظ کردیا- مولانا بدرالدین احمدقادری گورکھ پوری کی کتاب سوانح اعلیٰ حضرت نے بھی اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو عوام تک پہنچانے میں بڑا کلیدی کردار اداکیا-اس طرح کی اور کتابیں بھی لکھی گئیں اور ان سب کا انداز اور اسلوب روایتی تھا-اعلیٰ حضرت کے اصل علمی سرمایہ یعنی فتاویٰ رضویہ کی تدوین واشاعت سنی دارالاشاعت مبارک پور کے ذریعے ہوئی- اس حوالے سے مولانا عبد الرؤف بلیاوی اور مفتی عبد المنان اعظمی کا نام بہت ہی قابل احترام ہے ،جنہوں نے تدوین کا یہ عظیم فریضہ انجام دیا-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے افکارو خیالات کی جدید علمی اسلوب میں اشاعت کے لیے مولانا محمد احمد مصباحی، صدر المدرسین الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور اور ان کے رفقا مولانا یٰسین اختر مصباحی ، مولانا بدرالقادری ، مولانا افتخار احمد مصباحی، مولانا عبد المبین نعمانی وغیرہ نے۱۹۷۶ء میں المجمع الاسلامی قائم کیا جہاں سے امام احمدرضا اور تصو ف، امام احمدرضا اور رد بدعات ومنکرات ، امام احمدرضا کی فقہی بصیرت جیسی بلند پایہ کتابیں علمی انداز میں سامنے آئیں-اس کے ساتھ ترجمہ وتسہیل اور جدیدپیراگرافنگ کے ساتھ اعلیٰ حضرت کے درجنوں رسائل  خصوصاًجدالممتار حاشیہ رد المحتارپہلی بار اشاعت پذیر ہوئے- یہی کام اس سے قبل پاکستان میں حکیم موسیٰ امرتسری نے مرکزی مجلس رضا کے قیام (۱۹۶۸ء) اور ماہنامہ جہان رضا کی اشاعت اور اعلیٰ حضرت کی کتابوں اور اعلیٰ حضرت پر لکھی جانے والی کتابوں کی اشاعت وتقسیم کے ذریعے کیا -
۱۹۷۰ء میں پروفیسر مسعود احمد مجددی حکیم محمد موسیٰ امرتسری کی تحریک پر مرکزی مجلس رضا کے پلیٹ فارم سے رضویا ت پر کام کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور رضویات پر نئے انداز سے کام کرنا شروع کیا- اعلیٰ حضرت کی شخصیت کے مختلف گوشوں پر درجنوں اعلیٰ معیاری کتابیں لکھ کرعلمی اور دانش ور طبقہ کو پہلی بار چونکا دیا اور سب کو رضویات کی طرف متوجہ کردیا -پروفیسر مسعود کے علاوہ پاکستان میں مولانا عبد الحکیم شرف قادری ، مفتی عبد القیوم ہزاروی، مولانا عبد الحکیم اختر شاہجہاں پوری، سید وجاہت رسول قادری (ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کراچی) اور ہندوستان میں مولانا یٰسین اختر مصباحی کا نام بہت نمایاں ہے جنہوں نے کمیت و کیفیت اور تنوع ہر لحاظ سے رضویات پر بڑا کام کیا-ہندوستان میں رضویات کی اشاعت کے حوالے سے الحاج سعید نوری اور رضا اکیڈمی اور مولانا عبد الستار ہمدانی اور مرکز اہل سنت برکات رضا کے نام بھی اس ضمن میں بہت اہم ہیں- ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام ہیں جن کا شمار نہ اس مختصر سی تحریر میں ممکن ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے- ان تمام کاموں میں سب سے ممتاز اور اہم کام فتاویٰ رضویہ کی جدید اشاعت تھی- چوں کی فاضل بریلوی کی ہشت پہلو شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو فقہ وفتاویٰ کا ہے کیوں کہ بنیادی طور پر وہ ایک عالم اور مفتی تھے اور ان کا سب سے بڑا سرمایہ ان کے فتاویٰ تھے جو کچھ فتاویٰ رضویہ کے قدیم نسخے میں چھپے ہوئے تھے اورکچھ کتابوں اور رسالوں کی شکل میں مطبوع تھے اور کچھ منتظر اشاعت تھے -مفتی عبد القیوم ہزاروی نے اس پورے علمی ذخیرے کو عربی اور فارسی عبارات کے ترجمے اور حوالوں کی تخریج کے ساتھ ایک ساتھ شائع کرنے کا عزم کیا، مختلف جلدوں پر مختلف ماہر علما کی خدمات لیں اور سب کی اجتماعی کاوش سے فتاویٰ رضویہ تیس ضخیم جلدوں میں چھپ کر پہلی بار سامنے آیا جس میں اعلیٰ حضرت کے تقریباً تمام دستیاب فتاویٰ یکجا ہوگئے ہیں- اس کام کومیں بنیادی اور کلیدی اس لیے قرار دیتا ہوں کہ کسی شخصیت کا اصل سرمایہ اس کی اپنی تحریریں ہوتی ہیں رہا اس شخصیت اورا س کے فن پر تحقیق کا معاملہ تو جب اصل سرمایہ موجود ہوگا تو ثانوی تحقیقی عمل تو ہوتا ہی رہے گا-
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی پر عصری دانش گاہوں میں علمی تحقیق کا سلسلہ بھی شروع ہوا- سب سے پہلے مولانا حسن رضا نے پٹنہ سے اعلی حضرت کی فقہی خدمات پر پی ایچ ڈی کی- اس کے بعد اعلیٰ حضرت کی نعتیہ شاعری ، اعلیٰ حضرت کے عشق رسول اور دوسرے موضوعات پر دنیا بھر کی مختلف یونیورسٹیوں میں ایم، فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے-کولمبیا یونیورسٹی امریکہ سے اوشا سانیال نے اعلیٰ حضرت کی شخصیت پر مقالہ لکھا جو انگریزی زبان میں چھپ کر آگیا ہے- مولانا ممتازاحمد سدیدی نے جامعۃ الازہر سے اعلیٰ حضرت کی عربی شاعری پر مقالہ لکھ کر ڈگری حاصل کی، مولانا صادق الاسلام نے پروفیسر اختر الواسع کی نگرانی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں اعلیٰ حضرت کی تحریک اور اس کے اسباب واثرات پر اپنا مقالہ لکھ کر جمع کردیا ہے -اس طرح دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ حضرت کے فکروفن پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں ،جس سے جدید علمی طبقہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور ان کے افکار سے متعارف ہوا اور متعار ف ہورہا ہے -لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہاں پھر دو بارہ یہ اظہار کرنا ضروری ہے کہ اعلیٰ حضرت کی عبقری شخصیت جتنی مستحق تھی اتنا کام اس پر اب تک نہیں ہوسکا- میری نظر میں چند امور ایسے ہیں جن پر توجہ دینے اور کام کرنے کی ضرورت ہے-
(۱)اب تک جدید اسلوب اور معیار کے مطابق فاضل بریلوی کی شخصیت پر ایک مستقل قاموسی سوانح نہیں لکھی جاسکی- پروفیسر مسعود احمد مجددی نے بھی بارہا اس کا اظہار فرمایا اور اپنی تحریروں میں کئی جگہ اسے لکھا بھی- انہوں نے باضابطہ ایک انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کا منصوبہ بنایاتھا- اس کا خاکہ بھی تیار کرلیا تھا- اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کام کو جلد از جلد تکمیل تک پہنچایا جائے- یہ گروپ ورک ہے- اس کے لیے محققین کی ایک ٹیم اور وافر سرمایے کی ضرورت ہے- رضویات کے غم میں دبلے ہونے والے کاش اس کام کی طرف متوجہ ہوتے!
(۲) اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی پر مختلف ویب سائٹس موجود ہیں لیکن اب تک کوئی ایسی ویب سائٹ نہیں بن سکی جس میں بیک وقت اردو ،عربی، اور انگلش میں فاضل بریلوی کی شخصیت وسوانح پر مواد ہو- ان کی تمام کتابیں اور تمام فتاویٰ موجود ہوں- ان سے استفادہ کرنا اور ان کا مفت ڈاؤن لوڈ کیا جانا ممکن ہو- انٹرنیٹ جوعلم کی تبلیغ اور معلومات کی ترسیل کی حیرت انگیز ایجاد کی شکل میں سامنے آیا ہے اس سے کماحقہ استفادہ نہ کرنا اور اس کے توسط سے اعلیٰ حضرت کے افکار وتحقیقات کی برقی ترسیل نہ کرنا جدید ذرائع سے ہماری ناواقفیت یا تساہلی یا فاضل بریلوی سے جھوٹے دعوی محبت کی دلیل ہے-
(۳) مفتی عبد القیوم ہزاروی اور ان کے رفقانے اپنی انتھک جدوجہد سے فتاویٰ رضویہ کی جدید اشاعت کردی- رضویات کے باب میں اب تک کا یہ سب سے بڑا کام ہے- ان کے شائع کردہ پاکستانی نسخے کی ہندوستان سے بھی اشاعت ہورہی ہے لیکن مختلف اہل علم نے بتایا کہ ترجمہ اور تحقیق وتخریج میں عجلت کے سبب بہت سی خامیاں راہ پاگئی ہیں- اس بات کو ایک حدتک میں نے بھی محسوس کیا- اب ـضرورت ہے کہ ہندو پاک میں رضویات پر کام کرنے والا کوئی تحقیقی ادارہ یااعلیٰ حضرت سے منسوب کوئی بڑی شخصیت یہ بیڑا اٹھائے- محققین کی ایک ٹیم کو تمام تر سہولیات فراہم کرے اور موجودہ ترجمہ وتحقیق اور تخریج پر نظر ثانی کرکے اسے فتاویٰ کی شایان شان بنائے پھر اس کی تصحیح کے بعد از سرنو اس کی اشاعت ہو اورموجودہ نسخے کی اشاعت ثانی موقوف کردی جائے-
(۴)فتاویٰ رضویہ کی جدید اشاعت کافائدہ یہ ہوا کہ اردو دنیا کے لیے فاضل بریلوی کے گنج ہاے گراں مایہ سے استفادہ آسان ہوگیا لیکن عالم عرب اب بھی ان سے محروم ہے- اگر فتاویٰ رضویہ کا زبان وادب کے ماہرین کے ذریعے عربی ترجمہ ہوجاتاہے تو عالم اسلام اس عالم ربانی کی تحقیقات ونوادرات سے پورے طورپر استفادہ کرسکتا جو اس کا حق ہے- یہ کام تاج الشریعہ علامہ اختررضا خاں ازہری جو خود بھی عربی زبان پر نظررکھتے ہیں، کی سرپرستی میں ہوجائے یا کوئی اور صاحب یا کوئی اور ادارہ اس کام کو اپنے ذمے میں لے لیں تو رضویات کا ایک بڑا کام ہوجائے گا -یہ کام بھی شخصی نہیں اجتماعی ہے -اس کے لیے بھی ماہرین کی ایک پوری ٹیم چاہیے جنہیں اعلیٰ وظائف دیے جائیں اور جدید سہولیات فراہم کی جائیں- اگر اس کے بعد یہ کام انگریز ی میں بھی ہوجائے تو صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت کے لیے اعلیٰ حضرت کی تحقیقات سے استفادہ ممکن ہوجائے گا لیکن یہ کام بعد کے مرحلے کا ہے، عربی ترجمہ اس سے پہلے ضروری ہے-
 رضویات کے حوالے سے یہ چاربنیادی کا م ہیں جوفاضل بریلوی کادم بھرنے والوں کی توجہ کے طالب ہیں- کام کرنے کے یہ ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے اور جو کام نہیں ہے اس کو کام بنا کر رضا رضا کا شورمچایاجارہا ہے -اب نمائشوں کی نہیں کام کی ضرورت ہے -حافظ ملت مولاناشاہ عبد العزیز مرادآبادی کا قول ہے:’’ ہرمخالفت کا جواب کام ہے -کام کرونام ہوہی جائے گا-‘‘ جو حضرات نمائش کو ہی اپنا کام بنائے ہوئے ہیں وہ یا درکھیں کہ وقتی طور پر وہ چاہے جتنا خراج وصول کرلیں اور اعلیٰ حضرت کے نام پر چاہے جتنا کما لیں، تاریخ انہیں اپنے صفحات میں مثبت طور پر ہرگز جگہ نہیں دے گی- اس کے ساتھ میں اس بات کی بھی وضاحت کرنا چاہتاہوں کہ اعلیٰ حضرت پر کام کرنا جوایک فیشن سابنتا جارہا ہے، خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو کہ مصداق ہر کوئی اعلیٰ حضرت پر لکھنے کے لیے اور اعلیٰ حضرت کے نام پر اکیڈمی قائم کرنے کے لیے جو بے چین نظر آرہا ہے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے -اس کاجو سب سے بڑا نقصان ہے وہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے دین وملت کے دوسرے ضروری موضوعات ہماری بے التفاتی کا شکار ہیں اور دین ودنیا کے جو دوسرے کام ہیں ان کو کرنے کے لیے کوئی کمربستہ نہیں ہوپارہا ہے- جن قوموں سے عقابی روح رخصت ہوجاتی ہے اور وہ بھیڑ کی چال چلنے کی عادی ہوجاتی ہیں وہ کبھی زندگی کی دوڑمیں سرخ رو نہیں ہوسکتیں-



۱۸۵۷ء کی ۱۵۰ سالہ تاریخ اور عصری تصورات

0 comments
۱۸۵۷ء کی ۱۵۰ سالہ تاریخ اور عصری تصورات
از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
تاریخ گوئی یا قصہ گوئی :-
۹؍اپریل ۲۰۰۷ء کو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے انصاری آڈیٹوریم میں’’ انقلاب ۱۸۵۷ء اور اردو اخبارات‘‘ کے موضوع پر ایک سمپوزیم منعقد ہوا، یہ سمپوزیم شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ذمہ داران نے منعقد کی تھی، شرکاء میں محترمہ شیلا دکشت و زیر اعلیٰ دہلی، مولانا انظر شاہ کشمیری اور دوسری سیاسی و سماجی شخصیات شریک تھیں، میڈیا کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے علمی پروگراموں میں معروف غیر علمی ہستیوں کو دعوت دینا عصر حاضر کی مقبول روایت ہے اور مجموعی طور پر یہ سمپوزیم بھی اس روایت کا مکمل آئینہ دار تھا- اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ’’ انقلاب ۱۸۵۷ء اور اردو اخبارات‘‘ جو بنیادی موضوع تھا اس پر کسی خطیب نے ڈیڑھ سطری تبصرہ کرنے کی بھی زحمت نہیں کی، ایک دو صاحبان نے اگر اردو اخبارات کا ذکر کیا  بھی تو بڑے تپاک سے مولانا ابو الکلام آزاد کے البلاغ اور الہلال کا اور مولانا محمد علی جوہر کے ہمدرد کا نام لیا اور بیشتر باریش حضرات نے سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسماعیل دہلوی کے جوش جہاد کا تذکرہ بڑے کروفرسے کیا جن کی لڑائی انقلاب ۱۸۵۷ء سے ۲۶ سال پہلے سرحد کے سکھوں اور مسلمانوں سے ہو ئی تھی-نا معقولیت کی حد تو یہ تھی کہ اکثر خطباء کا ش ق بھی درست نہیں تھا ،’’ انکلاب ‘‘ اور’’ زنگ آجادی‘‘ جیسے الفاظ کی سمع خراشی نے طبیعت مکدر کر دی تھی- بالآخر وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کو اپنے پیش رو مقرروں کے بارے میںیہ کہنا پڑا کہ ’’ ان کی زبان میں وہ چاشنی نہیں ہے جو دہلی اور لکھنؤ کی اردو میں پائی جاتی ہے-‘‘
 میں مصمم ارادے لیے بیٹھا تھا کہ آج تو یہ سوال کر ہی دینا ہے کہ کسی مقرر نے بنیادی موضوع سے متعلق ایک جملہ تک نہیں بولا، پھر آخر اس سمپوزیم کے انعقاد کا مقصد و ضرورت کیا ہے؟ لیکن افسوس کہ تنگی وقت کا بہانہ کر کے منتظمین نے سوال و جواب کے سیشن کو موقوف کر تے ہوئے فاتحانہ شان سے سمپوزیم ختم کر دیا ورنہ جو افسوس آج میں کر رہا ہوں اس وقت وہ کرتے-
۲۶؍ جون ۲۰۰۷ء دن ۱۰؍ بجے جب میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے پروفیسر سیدعزیز الدین احمد سے انٹر ویو کے لیے ملا توانہوں نے بھی اس سمپوزیم کا بڑا کربناک ذکر کیا- ان کا فرمانا تھا کہ ’’ بھئی ! جب آپ کو تاریخ کا علم ہی نہیں تو تاریخ پر جلسہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے جب یہ واقعہ صوفی ناصر الدین سے سنایا تو وہ غرائے، وجہ دریافت کرنے پر کہنے لگے کہ آپ نے پروفیسر صاحب سے یہ کیوں نہیںپوچھا کہ’’ مذہب چھوڑنے کے بعد جن لوگوں نے سائنس پر ایمان لایا تھا ، آج سائنس کے مفروضات کو ٹوٹتا ہو ا دیکھ کر وہ بھی سائنس کو فکشن (افسانہ) سے تعبیر کرنے لگے ہیں، پھر اگر کوئی تاریخ میں قصہ اور داستان کا لطف پیدا کر دے تو اس کا کیا گناہ؟ ‘‘ صوفی صاحب کی اس برجستگی نے مجھے لا جواب کر دیا اور مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ والوں نے ۱۸۵۷ء کی تاریخ کو ۲۱؍ ویں صدی کے اخبارات سے جوڑ کر اور اس کا سرا کو سید احمد رائے بریلوی کی پنجاب اور سندھ میں لڑی جانے والی جنگوں (۱۸۲۶-۱۸۳۱ء) سے ملا کر کوئی گناہ نہیں کیا اور اس پر تاریخی نقطۂ نظر سے وہی تنقید کر سکتا ہے جس کی کوتاہ نظری تاریخ گوئی اور قصہ گوئی میں فرق کرتی ہوگی-
۱۸۵۷ء کی وہابیائی تعبیر:-

 پروفیسر خلیق احمد نظامی ایک محقق قلم کار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں- ان کا مرتب کردہ ’’ ۱۸۵۷ء کا تاریخی روزنامچہ‘‘ (از عبد اللطیف دہلوی) میرے پیش نظر ہے، اس پر موصوف کا ۴۶؍صفحات پر پھیلا ہوا مبسوط مقدمہ بھی ہے، مقدمے کا یہ حصہ پڑھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی -’’ حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید اور ان کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا - انگریزوں نے ان کی تحریک کی نوعیت کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ اس جذبہ سے بھی بے خبر نہ تھے جو جماعت مجاہدین کے قلب و جگر کو گرمائے ہوئے تھا- چنانچہ انہوں نے ایک طرف تو’’ وہابی‘‘ کا لقب دے کر اس مکتب خیال کے لوگوں کو ختم کیا اور دوسری طرف کوشش کر کے اس تحریک کو اس طرح پیش کیا اور کرایا جس سے متاخرین کو ایسا محسوس ہونے لگا گویا اس کا رخ محض سکھوں کی طرف تھا‘‘-(ندوۃ المصنفین اردو بازار، جامع مسجد، دہلی ، دسمبر : ۱۹۷۱ء)
اولِ نظر میں حیرت کی وجہ یہ نہیں بنی کہ پروفیسر صاحب نے کوئی نئی بات کہہ دی تھی، بلکہ حیرت اس لیے ہوئی کہ پروفیسر موصوف جیسے شخص سے جن کا شمار محققین میں کیا جاتا ہے، آخر کیوں ہمیں اسی آواز کی باز گشت سنائی دے رہی ہے جو ہم غلام رسول مہر اور دوسرے نامو رتاریخ سازوں کے صریر خامہ سے سن چکے ہیں- شروع میں یہ شبہ بھی پیدا ہوا کہ ایسے نامور افراد بلا وجہ کسی سے متاثر تو نہیں ہو سکتے، پھر یہ خیال گزرا کہ نامور بننے کے لیے بھی تو کسی معقول وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی، بسا اوقات نا معقولیت بھی شہرت کا سبب بن جاتی ہے- میں نے سر جھٹکا اور مطالعے کی طرف متوجہ ہو گیا، چوںکہ عقیدت مندوں کے لیے موافقین کی رائے مخالفین کی بہ نسبت زیادہ ٹھوس ہوتی ہے کیوں کہ مخالفین کی سچی باتوں کو بھی بسا اوقات جذبۂ مخالفت کا نتیجہ قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے، اس لیے میں نے سید احمد رائے بریلوی کے بارے میں ان کے مخالفین یعنی علماے اہل سنت کی کتابوں کی طرف رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ رائے بریلوی صاحب کے ایک مشہور معتقد کی مشہور کتاب’’ سیرت سید احمد شہید‘‘ کا مطالعہ کرنا شروع کیا- اس کی تلخیص ’’ تذکرہ حضرت سید احمد شہید‘‘ بھی دیکھی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ انگریزوں کے تعلق سے رائے بریلوی صاحب کے خیالات کیا تھے ؟ اور انہوں نے ان کے خلاف کہاں تک فکری و عملی جہاد کیا ؟ تلاش بسیار کہ بعد بھی انگریزوں کی مخالفت یا ان سے جہاد کا کوئی واضح سراغ ہمیں مصنف کتاب مولانا ابو الحسن علی ندوی نہیں دے سکے، جنہیں رائے بریلوی صاحب سے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے- بلکہ بر عکس اس کے ایسی چیز ملی جس سے خلیق صاحب کے خیالات کی تردید ہوتی معلوم ہوتی ہے - مثلاً صفحہ ۴۱۸ پر مصنف لکھتے ہیں:’’ لیکن پچھلے برسوں میں بعض فاضل اہل علم کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سید صاحب جنگ آزادی کے ایک رہنما تھے، جن کا مقصد وحید ہندوستان سے انگریزوں کا اخراج اور ملک کو غیر ملکی حکومت سے آزاد کرا کے ایک خالص ملکی حکومت قائم کرنا تھا -‘‘ ندوی صاحب نے تقریباً ۵؍صفحات پر اس نظریے کی پر زور میں تردید کی ہے-
۱۸۵۷ء کی تاریخ رقم کرنے والے اکثر مصنفین کا یہ وطیرہ بن چکاہے کہ وہ تاریخ کا آغاز حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی آفاقی شخصیت سے کرتے ہیں، ان کی سیاسی، سماجی اور فکری تحریروں کی تعریف کرتے ہیں، ان کے افکار جہاں بانی و جہاں بینی کا ذکر کرتے ہیں (جن کا رشتہ ہندوستان کی آزادی سے جوڑنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ اسلام آزادی ہند کا سبب بنا کیوں کہ اسلام کی تعلیمات مجموعی طور  پر آزادی کے حق میں ہیں نہ کہ غلامی کے حق میں) پھر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی ایک تحریر کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے انگریزی تسلط کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد اس خانوادے کی تعریف جذباتی انداز میں کرتے ہیں اور پھر اسی خانوادے کے فرزند (اور فکری باغی ) اسماعیل دہلوی اور ان کے شیخ سید احمد رائے بریلوی کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کی جہادی کارناموں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ،پھر ۱۸۵۷ء کا ذکر کرتے ہیں—مزید یہ کہ وہ افراد جو نظریاتی طور پر احمد رائے بریلوی اور اسماعیل دہلوی کے متبع و مقلدہیں اور جن کا کسی نہ کسی طرح جنگ آزادی ۴۷ ۱۹ میں نام بھی آتا ہے ان کا نام لے ہیں—اس جذباتی تاریخ نگار ی کے بین السطور سے جو بات باور کرائی جاتی ہے وہ یہ کہ ہندوستان کی آزادی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریات کی رہین منت ہے جس کا علَم عملی طور پر شاہ اسماعیل دہلوی، سید احمد رائے بریلوی اور ان کے معتقدین و متوسلین بلند کیے ہوتے تھے- چوںکہ ایک کھلی سچا ئی یہ ہے کہ اکثر اردو تاریخ نویس وہ افراد تھے جن کا سررشتہ رائے بریلوی اور اسماعیل دہلوی صاحب کے اس فکری نظام سے جا ملتا ہے جس کے خالق وہ خود تھے، نتیجہ کے طور پر۱۸۵۷ء کی تاریخ اپنے پس منظر و پیش منظر کے ساتھ ایسی تحقیقات کا مجموعہ بن گئی ہے جس میں انقلاب ۱۸۵۷ء کی حقیقی تصویر کے سواسب کچھ ہے- چلتے چلتے یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے کہ رائے بریلوی اور دہلوی صاحب کے پیرو کاروں کا ’’ وہابی‘‘ نام انگریزوں نے نہیں ہدوستانی سنی مسلمانوں نے رکھا ہے ، بر عکس اس کے وہابی علما ء کی درخواست پر انگریز حکومت نے ان کا نام ’’ اہل حدیث ‘‘ رکھا تھا- (ملاحظہ فرمائیں محمد جعفر تھا نیسری کی کتاب تواریخ عجیب یعنی کالا پانی پر پروفیسر محمد ایوب قادری کا مقدسہ اور مولانا مسعود عالم ندوی کی کتاب ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک)
رائے بریلوی صاحب کے جہاد کا مقصد:- 

پروفیسر خلیق انجم صاحب کی محولہ بالاعبارت پر ایک بار پھر نظر ڈالیے جو وہابیائی تحقیقات کا حاصل ہے- محولہ عبارت کا پہلا جملہ ہے’’ حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید  اوران کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا‘‘-اس جملے پر تنقیدی نظر ڈالنے سے پہلے رائے بریلوی صاحب کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں، رائے بریلوی صاحب یکم محرم ۱۲۰۱ھ /۱۷۸۶ء کو پیدا ہوئے، ۴؍ سال ۴؍ماہ کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہوا،طبیعت پڑھنے کی طرف مائل نہ تھی (سیرت سید احمد شہید اول :۱۱۰) معاش کے مسئلہ سے دو چار حیران و پریشان ۲۰؍ سال کی عمر میں دہلی پہنچے اور شاہ عبد العزیز اور شاہ عبد القادر دہلوی سے ملاقات اور استفادہ کیا(سوانح نگاروں کا اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے) ۲؍ جون ۱۸۲۱ھ یکم شوال ۱۲۳۶ھ کو حج کے لیے روانہ ہوئے اور ۳؍ سال بعد ۱۸۲۴ء میں سفر حج سے واپس ہوئے، واپسی کے بعد ہی جہاد کی تیاری شروع کر دی -۱۷؍ جنوری ۱۸۲۶ء /۷ جمادی الاخری ۱۲۴۱ ھ کو رائے بریلی سے روانہ ہوئے اور گوالیار، ٹونک، اجمیر، پالی، عمر کوٹ، حیدر آباد، کوئٹہ، قندہار، کابل اور پشاور ہوتے ہوئے ۱۱؍دسمبر ۱۸۲۶ء؍۱۸ جمادی الاولیٰ ۱۲۴۲؍ کو نو شہرہ پہنچے،۴؍ سالوں تک چھوٹی بڑی جھڑپیں اور جنگیں ہوتی رہیں، اور بالآخر ۲۴؍ ذی قدہ ۱۲۴۶ھ کو بالا کوٹ کے میدان میں یہ داستان جہاد اپنے اختتام کو پہنچ گئی ، ناکامی کیوں ہوئی؟ ’’ تدبر‘‘ کے ساتھ مولانا محمد سلیمان قاسمی کی ان سطور کو پڑھا جائے تو بات واضح ہو جائے گی-
’’ برا ہو نسلی غرور کا، برا ہو قبائلی عصبیت کا، برا ہو جہالت کا اور ستیاناس ہو علما سوء کی پھوٹ ڈالنے والی حرکات کا اور خدا معاف کرے مخلصین کی بے صبری، بے تدبیری اور نا تجربہ کاری کو، سب نے مل کر کیے کر ائے پر پانی پھیر دیا، حنفیت اور وہابیت کے جھگڑے کھڑے کر دیے گئے ، قبر پرستوں نے سرفروشان اسلام پر کفر کے فتوے داغے،  سرحد کے پٹھانوں نے غداری کی‘‘-(کربلا سے بالاکوٹ تک، ص: ۲۳۱، ناشر مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، ستمبر ۲۰۰۵ء) ہر چند کے یہ پوری عبارت رائے بریلوی صاحب کی گرداب عقیدت میں ڈوبی ہوئی ہے تاہم غیر شعوری طور پر وہ سارے حقائق سامنے آ گئے ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ان میں دو باتیں نمایاں ہیں اول یہ کہ ان جہادیوں میں بے صبری، بے تدبیری اور نا تجربہ کاری تھی اور دوم یہ کہ شکست کی وجہ وہابیت اور حنفیت کا جھگڑا بنی- بلفظ دگر سید صاحب نے جہاد کا رخ سکھوں سے ہٹا کر مسلمانوں کی طرف پھیر دیا تھا -
سید صاحب کی زندگی کو سامنے رکھیے اور اس کے بعد پروفیسر خلیق احمد کے اس ادعاء کا تجزیہ کیجیے کہ ’’ حقیقت یہ ہے سید احمد شہید اور ان کے رفقاء کار کے خون سے آزادی کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا-‘‘ تو سخت مایوسی ہوتی ہے- افق ذہن پر یہ چند سوالات یکایک کھڑے ہو جاتے ہیں-
(۱) یہ بات اس وقت درست تسلیم کی جاتی کہ سید صاحب اوران کے رفقاء کار کا خون انگریزوں نے بہایا ہوتا -
(۲) سید صاحب نے اپنی جنگ کے لیے فوج و سامان فراہم کرنے کے لیے جن علاقوں کا دورہ کیا ان میں اکثر انگریزوں کے زیر نگیں تھے، لیکن انگریزوں نے کہیں بھی سید صاحب کی اس ’’فوجی کارروائی‘‘ سے تعرض نہ کیا، کیا انگریز اتنے ہی بیوقوف تھے؟
(۳) سرحد کے علاقوں پر یا تو سکھوں کا قبضہ تھا یا مسلمانوں پر پھر آزادی کے پودے کی سینچائی کرنے سید صاحب کو وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟
(۴)ہندوستان کے مرکز دہلی پر ایک کمزور سہی مسلم سلطنت قائم تھی اور ہندوستانی علاقے نوابوں اور راجائوں کے زیر نگیں تھے، ایسے میں انگریزوں کی ایک بیرونی طاقت تیزی سے ہر جگہ ہر معاملے میں دخیل ہوتی جارہی تھی-ایسی صورت حال میں جہاد کی صرف دو صورتیں ہو سکتی تھیں:
(الف) سید صاحب دہلی کے تخت پر جلوہ فرما مغل شہنشاہ کے تعاون میں اپنی فکر و عمل کی ساری توانائیاں صرف کردیتے اور اس وقت کی ایک مسلم حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ کوسہارا دے کر ایک مضبوط سلطنت قائم کرتے اور پھر غیر ملکی تسلط ختم کرنے کی تدبیریں کرتے-
(ب)سید صاحب اپنے اجتہاد کی بنیاد پر تخت دہلی پر جلوہ افروز شہنشاہ کو نا اہل قرار دیتے اور اس کو معزول کر کے دوسری مستحکم مسلم / اسلامی حکومت قائم کرکے اعلائے کلمۃ الحق کے لیے انگریزوں اور مشرکین سے جہاد کرتے-یا انگریزوں اور مشرکین سے ایک ساتھ جہاد کرتے-
مگر سید صاحب نے ان دونوں میں سے کچھ بھی نہ کیا اور کسی مسلم حاکم و امام کے فرمان کے بغیر جو جہاد کی شرط ہے، ہزاروں میل کا سفر کیا اور جہاد کے نام پر غیر منظم لڑائیاں شروع کر دیں- انگریزو ںسے رابطے ہموار ہیں، ہندو راجوں، مہاراجوں کی دعوتیں اڑارہے ہیں اور جہاد کا رخ صرف سکھوں کی طرف اور حنفی سنی مسلمانوں کی طرف ہے، بالفرض اگر یہی عمل ان کا جہاد ہے تو اس جہاد سے ہندوستان کی آزادی  کا کیا رشتہ؟
(۵) جناب شاہ حسین گردیزی صاحب کی تحقیقی کتاب ’’ حقائق تحریک بالا کوٹ ‘‘میرے سامنے ہے، اس میں سید صاحب کے متعدد موافقین و مخالفین اور غیر جانب دار قلم کاروں کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ سید صاحب کسی طور پر بھی انگریزوں کے مخالف نہیں تھے، ان حوالوں میں شیخ اکرام کا یہ اقتباس بڑا واضح ہے-
’’جب آپ سکھوں سے جہاد کرنے کو تشریف لے جاتے تھے، کسی شخص نے آپ سے دریافت کیا کہ اتنے دور سکھوں سے جہاد کرنے کو کیوں جاتے ہو، انگریز جو اس ملک پر حاکم ہیں وہ دین اسلام کے کیا منکر نہیں ہیں -گھر کے گھر میں ان سے جہاد کر کے ملک ہندوستان لے لو- یہاں لاکھوں آدمی آپ کا شریک اور مددگار ہو جائے گا……سید صاحب نے جواب دیا، سرکار انگریزی گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے-‘‘(حقائق تحریک بالاکوٹ ص:۷۱، مجلس اتحاد اسلامی کراچی بحوالہ موج کوثر از شیخ امحمد اکرام ص:۲۰)
کیا اس کے بعد بھی سید صاحب کو تحریک آزادی کا ہیرو ثابت کرنے کا جنون صحت فکر کا اشاریہ ہوسکتا ہے؟ لیکن یہ سوال بہر کیف اپنی جگہ پر رہ جاتا ہے کہ پھر سید صاحب کی ان معرکہ آرائیوں کا کیا مقصد تھا؟
میرا خیال ہے کہ اس سوال کا جواب سید صاحب کی زندگی کے جزئیاتی واقعات میں تلاش کرنے کی بجائے سرحدی مسلمانوں اور خانوادۂ ولی اللّٰہی سمیت پورے ہندوستانی مسلمانوں کی دوخانوں میں تقسیم اور ان کے گزشتہ ۱۵۰؍ سالہ باہمی جنگ و جدال کا علمی ،فکری اور نفسیاتی تجزیہ کیا جائے تو حقیقت حال سے آگہی زیادہ آسان ہو جائے گی- اوراگرخلیق احمد نظامی صاحب کے جملے کو معمولی تبدیلی کے ساتھ اس طرح کر دیا جائے کہ ’’ حقیقت یہ ہے کہ سید احمد شہید اور ان کے رفقاء کار کے خون سے’’ وہابیت‘‘ کا پودا ہندوستان میں سینچا گیا-‘‘ تو یہ ایسی حقیقت ہوگی جس کا انکار سید صاحب کے موافقین اور مخالفین میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا-
۱۸۵۷ء کی یاد ،غفلت اور شکایت:-

 سال۲۰۰۷ء شروع ہونے سے چند ماہ پیشتر ہی ایک دن حضرت مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب کی مجلس میں حاضر تھا، حضرت نے ۲۰۰۷ء کاذکر کیا اور کہا کہ ’’ آنے والے سال ۲۰۰۷ء کو انقلاب ۱۸۵۷ء کے ۱۵۰ سال مکمل ہو جائیں گے، اس کی یاد حکومتی سطح پر بھی کچھ نہ کچھ منائی جائے گی اور غیر حکومتی سطح پر بھی - اس موقع پر ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اپنے طور پر سمینار و سمپوزیم منعقد کریں، رسائل و جرائد کے خصوصی شمارے شائع کریں اور ان میں خاص طور پر ان علماء کو پیش کریں جن کا کردار انقلاب ۱۸۵۷ء میں کلیدی نوعیت کا ہے‘‘
۲۰۰۷ء کی آمد کے ساتھ ہی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کے علمی ترجمان ماہنامہ اشرفیہ شمارہ جنوری ۲۰۰۷ء کا اداریہ ’’ سال ۲۰۰۷ء انقلاب ۱۸۵۷ء کے نام‘‘ تشریف لایا جس میں مدیر محترم مولانا مبارک حسین مصباحی نے اداریے کے مرکزی نکتے پر زور دینے کے ساتھ کئی دوسرے گوشوں کو اجاگر کیا- دوسرے اردو ،ہندی اور انگریزی اخبارات و رسائل میں بھی اس موضوع پر مضامین شائع ہوئے ، مختلف زبانوں میں اس موضوع پر نئی نئی کتابیں بھی آئیں ، مئی کے مہینے میں حکومتی سطح پر مختلف ثقافتی تقریبات منعقد ہوئیں، اب سال نصف سے زائد گزر گیا اور ۱۸۵۷ء کے تعلق سے امنگیں عموماً ختم ہو گئیں ، تاہم میری معلومات کی حد تک ابھی ماہنامہ اشرفیہ مبارک پو رایک ضخیم نمبر کی تیاری میں مصروف ہے، اس کے ساتھ ہی اعلیٰ پیمانے پر ایک سمینار کے انعقاد کا بھی ارادہ رکھتا ہے، مولانا یٰسین اختر مصباحی کی کوششوں سے دہلی ، ممبئی ، لکھنؤ میں کئی پروگرام ہو چکے اور ابھی کئی تیاری کے مرحلے میں ہیں ، تنظیم ابنائے اشرفیہ شاخ دہلی اور مسلم فائونڈیشن دہلی کے اشتراک سے عنقریب ایک پروگرام جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں منعقد ہونے کو ہے- مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب کی اب تک تین کتابیں’’ انگریز نوازی کی حقیقت‘‘ ،’’ چند ممتاز علماے انقلاب ۱۸۵۷ء‘‘ اور ’’ علماء و قائدین جنگ آزادی ۱۸۵۷ء ‘‘ شائع ہو چکی ہیں، ’’قائدجنگ آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی‘‘ زیر اشاعت ہے، اور ان کے علاوہ ۱۸۵۷ء سے ہی متعلق کئی موضوعات حضرت مصباحی صاحب کے ذہن میں موجود اور صفحۂ قرطاس پر اترنے کے لیے بے تاب ہیں-(أطا اللہ بقاء ہ و جعلہ نفعاً وخیراً للإسلام والمسلمین)اس کے ساتھ ہی مولانا عبد المالک مصباحی کی ایک عمدہ کتاب’’ جنگ آزادی اور وطن کے جانباز‘‘ جلد ہی شائع ہو کرقبول عام حاصل کر چکی ہے- جام نور کا یہ شمارہ جو میرے محترم قاری کے پیش نظر ہے یہ بھی اسی زریں سلسلے کی ایک روشن کڑی ہے-
ان یادوں کی بہاروں کے بعد ہمارے سماجی شعور کو تین احساسات سختی سے جکڑے ہوئے ہیں، یہ احساسات مختلف شکایات ہیں جو حسب ذیل ہیں -
(۱) ۱۸۵۷ء کی یاد شایان شان نہیں منائی گئی-
(۲) مسلمانو ں کو اور خصوصاً علماء کو نظر انداز کر دیا گیا یا ان کے کردار کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے واجبی طور پر وہ مستحق تھے-
(۳) انقلاب کا مرکز ہندوستان کا مرکز رہا، جہاں جہادی جذبہ پیدا کرنے میں علمائے اہل سنت کا مرکزی کردار رہا، لیکن اردو کی معاصر تحریروں میں ان جید علماء کو شعوری طور پر نظر انداز کر دیا گیا-
ان شکایات واحساسات کے تجزیہ سے پیشتر لازم ہے کہ تاریخ کے مفہوم و مزاج کا تجزیہ کر لیا جائے، علامہ عبد الرحمن ابن خلدون اپنی شہرہ آفاق تصنیف ’’ مقدمہ ابن خلدون‘‘ کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں:
’’ واضح رہے کہ تاریخ ایک مقبول، نفع بخش اور مقصد خیر کا حامل فن ہے، یہ گزشتہ قوموں کے اخلاق و اطوار ، انبیاء کرام کی سیرت طیبہ اور سلاطین کی حکومتوں اور ان کی تدابیر جہاں بانی کے احوال سے واقف کراتا ہے، یہاں تک کہ تاریخ کا طالب علم اپنے دینی و دنیوی امور میں ایک بصیرت حاصل کر لیتا‘‘-(ص: ۸،، دارالکتب العلمیہ ، بیروت، ۲۰۰۲ء)
فن تاریخ کے موجد مسلم علماء نے تاریخ نگاری کو اسی مفہوم میں لیا تھا اور مذکورہ مقصد کے لیے ہی اس راہ پر خار کی آبلہ پائی کی تھی، لیکن عصر حاضر میں تاریخ نگار ی کا مفہوم یکسر بدل چکا ہے ، اب پیش گی طور پر کوئی مدعا طے کر لیا جاتا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے چند دیمک خوردہ کتابوں کے حوالے پیش کر کے اپنے نظریے کی صداقت کا ڈھنڈورا پیٹ دیا جاتا- استشراق کے بعد تاریخ نگار ی نے ایک نئی کروٹ لی اور غایت درجہ خطرناک بنیادی مقصد کو تحقیقات کے صفحوں میں چھپا کر بظاہر نیک مقاصد کے تحت تاریخ نگاری کی جانے لگی-
تاریخ کے اس مزاج کو سامنے رکھنے کے بعد جب ہم اپنی شکایات پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں تو ہماری ساری شکایات بے سود اور لا حاصل معلوم ہوتی ہیں-پہلی شکایت تو اس لیے کہ انقلاب ۱۸۵۷ء کی جدو جہد کا مرکزی مقصد (دیگر تمام اسباب و مقاصد کے ساتھ) راقم السطور کی نظر میں مسلم سلطنت کو دوبارہ سہارا دینا تھا اور اس پر مسلط غیر ملکی عیسائی تسلط کا خاتمہ کرنا تھا- اس کی واضح دلیل چوٹی کے علماء کا فتویٔ جہاد دینا ہے ، اس کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے فتوی جہاد دیے جانے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہونا- ظاہر ہے جو انقلاب اس مقصد کے تحت برپا ہوا ہو اس کا بہت زیادہ چرچا موجودہ جمہوریت کے مفاد کے خلاف ہے، اس کا ذکر اسی قدر کافی ہیجس سے ’’ ہندوستانی قومیت‘‘ اجاگر ہو سکے،ملکی سطح پر کیے جانے والے انقلاب ۱۸۵۷ء کے چرچوں کا چشم بینا سے جائزہ لیا جائے تو اس مدعیٰ پر کسی دلیل کی ضرورت بالکل ہی محسوس نہ ہوگی- دوسری شکایت کی وجہ بھی ’’ ہندوستانیت‘‘ کا یہی مزاج ہے- تیسری شکایت کی وجہ بھی اردو مورخین اور قلم کاروں کی یہی’’ با مقصد تاریخ نگاری‘‘ ہے، چوں کہ ان میں بیشتر وہ افراد ہیں جن کا فکری سر رشتہ ان علماے اہل سنت سے کٹا ہوا ہے، پھر بھلا وہ تاریخ نگاری کے چکر میں ایسا کام کیوں کرنے لگے جس سے ان کے اسلاف کے فکری حریفوں کا نام روشن ہو— یہاں تک تو بات کسی قدر سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے بعد ان کا اہل سنت مجاہدین کی کردار کشی میں تاریخ نگاری کے نام پر مذبوحی حرکتیں کرنا نا قابل برداشت ہو جاتی ہیں-
آخر میں اپنی اس تساہلی کا برملا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہم شکایت کے مرحلے میں اس لیے ہیں کہ جو کام ہمیں کرنا تھا وہ ہم نے نہیں کیا اور احمقانہ طور پر دوسروں سے یہ امید لگائے رہے کہ وہ ہمارا کام کر دیں گے- ہم اس رویہ کو بدل لیں تو پھر شکایت کی گنجائش ہی نہ رہ جائے گی- درج کردہ شکایات کے پہلے اور دوسرے نکات پر مسلم دانشوران کو بطور خاص سنجیدہ غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے، یہ اسلام،ریاست، عصر اور عروج و زوال کا سنگین مسئلہ ہے جس کی طرف یہاں صرف اشارہ ہی کر دینا ممکن ہے ، سو میں نے کر دیا- رہی تیسری شکایت تو اس کے ازالے کی کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے، تاہم اس عمل میں عموماً ’’رد عمل‘‘ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے، اس لیے اس موضوع پر لکھنے والوں سے صرف یہی گزارش ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں معروضیت لانے اور عصری اسلوب کی پیروی کرنے کی کوشش کریں-

٭٭٭