Wednesday 29 November 2017

تو ارادے کا ہمالہ ہے، عمل کا آبشار ---- داعی کبیر مولانا شاکر نوری کی داعیانہ زندگی کے چند ابتدائی اوراق

1 comments
تو ارادے کا ہمالہ ہے، عمل کا آبشار 
--------------------------------------------------------
داعی کبیر مولانا شاکر نوری کی داعیانہ زندگی کے چند ابتدائی اوراق
ازقلم: شاہد رضا نجمیؔ
------------------------------------------------------
اس خاکدانِ گیتی پر ہر روز ہزاروں افراد جنم لیتے ہیں اور اپنا عرصۂ حیات گزار کر لوگوں کی نگاہوں سے ’’آفتابِ سما‘‘ کی مانند روپوش ہوجاتے ہیں۔ ان کی موت کے بعد اقربا واحبا کی ایک کثیر تعداد چند دنوں تک آہ وفغاں کرتی ہے، پھر خاموش ہوجاتی ہے۔ کاروانِ عصر جتنا بڑھتا چلا جاتا ہے ان کی حیات کے گوشے رفتہ رفتہ الواحِ دہر سے مٹتے چلے جاتے ہیں، پھر کوئی زبان ان کا ذکر کرنے والی، کوئی دل انھیں یاد کرنے والا اور کوئی محفل ان کے لیے آہ وفغاں کرنے والی نہیں رہ جاتی۔ البتہ ایک طبقہ ایسا ہے جس کی روپوشی اکنافِ عالم میں بسنے والوں کو خون کے آنسو رلاتی ہے، جس کے جانے سے زندگی کے باغ وبہار مکدر ہونے لگتے ہیں، انوار وتجلیات کی انجمنیں ویران ہونے لگتی ہیں، جادۂ علم وفن پر تاریکی چھاجاتی ہے، فیض وکرم اور الطاف وعنایات کے سوتے سوکھنے لگتے ہیں، آنکھیں اشک بار اور دل نالہ کناں ہوتے ہیں۔ 
یہ طبقہ علماے ربانیین کا ہے، جو اس دارِ مِحن پر سکونت اختیار کرنے والے سیکڑوں مسلمانوں میں نایاب تو نہیں کمیاب ضرور ہیں۔ یہی وہ پاک باز ہستیاں ہیں جن کے مقدس وجود سے نخلِ ہستی کی بہاریں قائم ہیں، ایمانی کشکول باوزن ہے، جسدِ عرفانی میں حرارت ہے، چشم وخم کی عادتوں سے دور یہی وہ شخصیات ہیں جن کے طوالت بھرے سجدے شبِ دیجور کی مسافتیں سمیٹ دیا کرتے ہیں، شبِ یلدا کے اندھیروں کو مار بھگاتے ہیں اور شبِ تیرہ کی تاریکیاں تابانیوں میں تبدیل کرتے ہیں، جن کے ایمانی قدم جس دشت، جبل یا بنجر زمین میں پڑتے ہیں اسے لالہ زار بنادیتے ہیں، وہ جس راہ سے گزرتے ہیں اسے شاہراہِ حیات میں بدل دیتے ہیں، جن کی زیست کا مقصد ہفت اقلیم کے تاجور کی حقیقی معرفت ہوتی ہے، جن کی زندگی کا سارا دقیقہ امیرِ کشورِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ فرمودات وارشادات کی تبلیغ وتنشیر میں صرف ہوتا ہے، ان کا رب ان سے راضی اور وہ اپنے رب سے، سورج ان کو سلام کرتا ہے، ان سے یزداں کلام کرتا ہے، جن کی رہبری اور رہ نمائی ہمیں جادۂ مستقیم کا عرفان بخشتی ہے اور جن کی روحانی نسبتیں ہمارے ایمانی رشتے کو حجازِ مقدس کی پاکیزہ دہلیز سے جوڑتی ہیں، جن کے دامانِ کرم سے وابستگی زندگی کی فیروز مندی اور ارجمندی کی علامتِ آگیں ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو قلزمِ عشق کے سالارِ موجِ رواں کے حضور آدابِ نیاز سکھاکر ہماری سوختہ جانوں کو ہم دوشِ ثریا کردیتے ہیں، جن کی حیاتِ مستعار کے انمٹ نقوش ہمیں سلیقۂ زندگی کا درس دیتے ہیں۔   ؎  
کچھ ایسے نقش بھی راہِ وفا میں چھوڑ آئے ہو
کہ دنیا دیکھتی ہے اور تم کو یاد کرتی ہے
سطوتِ رسالت کے سلطانِ عظیم، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ظاہری طور پر دنیا سے رحلت فرمائی تو اسلام مخالفین کے واویلے سرچڑھ کر بولنے لگے، عارضی عشرتوں کے دلدادوں نے اپنے آزادانہ خیالات اور بے مہار آرزئوں سے مجبور ہوکر دنیوی جاہ وحشم کے حصول کی خاطر اسلامی اقدار روایات کی پامالی کی بے ہودہ کوششیں کی۔ امت مسلمہ کے متفقہ عقائد پر شب خون مارا، یزیدی ظلم کی داستانیں، مامونی شرارتیں اور اکبری ہفوات تاریخی اوراق پر ابھی تک مُرتَسِم ہیں۔ فرہنگی متوالوں کا وہ دور بھی بڑا خوں آشام ہے جب انھوں نے اسلامی افکار ونظریات مٹانے کی خاطر مذہب اسلام ہی کے مصنوعی شیدائیوں اور خود ساختہ رہنمائوں کو اپنے زیر اثر لینا شروع کیا تھا، ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ دیا، جس کا فرسودہ اثر یہ ظاہر ہو اکہ اسلامی شعور کا زوال شروع ہوگیا، مساجد میں ہندو پنڈتوں سے تقریریں کرائی گئیں، کلیسا وکعبہ کے خط امتیاز کو مٹایا گیا، قرآن جیسی مسعود اور گیتا جیسی مردود کتابوں کو میزانِ مساوات میں تولا گیا۔ کائناتِ گیتی پر بسنے والے مسلمانوں کے چودہ سو سالہ قدیم عقائد ومعمولات خلافِ شرع ٹھہرائی گئیں، ملت اسلامیہ کی پاسبانی کے دعوے دار ہی نخلِ ہستی کی جان، سرورِ سروراں، رحمتِ عالمیاں، مالکِ اکرمیاں ، سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وفکر پر انگشت نمائی کرنے لگے تو اس محشر طراز خستہ حالات میں علماے ربانین کی ہی وہ پُر نور جماعت تھی جو سارے باطل عقائد ونظریات کے انسداد میں جان ودل سے منہمک ہوگئی، عرش کی وسعتوں میں جلالتِ کبریائی کا غلغلہ بلند کیا، علمِ نورِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارضِ تیرہ کو درخشاں کیا۔کرب کے اندر سے سکوں، اضطراب کے اندر سے قرار، ظلمت کے اندر سے نور، یاس کے اندر سے رجا اور نفرت کے اندر سے محبت پیدا کیا، سیم وزر، لعل وگہر سے عصمتوں کو خرید کر ذوقِ گنہ گاری کی تکمیل کرنے والوں کے سامنے بندھ باندھا، بد مزاج آوارہ افراد کا اپنی شاہین صفت موعظت سے بھر پور تعاقب کیا،سیماب کی طرح موجِ گرداب، وقت کے سانچوں اور طلسمات کے بساطوں کی طرح باطل کدۂ دہر کی حالت لاشوں کی بستی جیسی بنادی اور انھیں درد کے جنگل، خوابوں کے ویرانے، کشتِ بے رنگ، سنسان زندان جیسی ابتر حالتوں سے دوچار کرکے رکھ دیا۔ 
یہ بات حقیقت ہے کہ اگر ان علماے ربانیین نے اساسِ دینی کے تحفظ وبقا کی خاطر یوں جہد مسلسل اور سعیِ پیہم نہ کی ہوتی تو معرفت وتجلیات کا جو عرفان وفیضان آج سے چودہ سو سال پہلے مدینے کی گلیوں میں جاری ہوا تھا وہ جزیرۂ عرب کے پُرپیچ اور خار زار دشت وجبل میں دم توڑ چکا ہوتا، اسلامی تہذیب وثقافت کا درخشاں خورشید غروب ہوجاتا، منبعِ انوار وحق کی نہریں سوکھنے لگتیں اور معرفت خداوندی کی راہ چلانے والی تعلیمات عام انسانوں کی طرح دنیا سے نابود ہوجاتیں۔ سید الشہدا امام حسین، امام احمد بن حنبل ، مجددِ الفِ ثانی، امامِ ربانی شیخ احمد سرہندی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ذرّیں کارناموں سے واقف ہر عادل ودانش ہماری ذکر کردہ باتوں پر ضرور غیر مشروط ایمان لائے گا۔
تعارفِ اسلاف میں ہماری فِروگزاشتیں:-
ان ساری صداقتوں کے ساتھ ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی کسی نہ کسی طرح اپنے حلق کے نیچے اتار لینی چاہیے کہ ہم اپنے ان بزرگوں اور آقائوں کی عظمت وتقدس کی بقا ودوام کے لیے وہ کام نہ کرسکے جس کا ہم پر موجود ان کے احسانات وعنایات کا بارِ گراں مطالبہ کرتا تھا۔ہمارے وہ علما وصوفیا جنھوں نے ہمیں عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا جامِ فرجام بخشا تھا نہ ہم ان کی تابناک زندگی کے حسین اوراق محفوظ رکھ سکے اور نہ ہی ان کی دینی، ملی اور فکری خدمات سے دنیا کو روشناس کراسکے۔جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری وہ مقدس اور عبقری شخصیتیں یا تو پردۂ گمنامی میں چلی گئیں یا پھر دوسرے مکاتبِ فکر کی جھولی میں۔ ہمیں ہوش اس وقت آیا جب دوسرے مکاتب فکر کے نمائندوں نے ہمارے اپنے بزرگوں کی تعلیمات، افکار ونظریات کو اپنے گرو گھنٹالوں کی جانب منسوب کرنا شروع کیا، خوش عقیدگی اور خوش عملی کی وہ کتابیں جن کو ہمارے علما نے شب وروز ایک کرکے بڑی کدّ وکاوش کے ساتھ لکھا تھا انھیں انھوں نے اپنے اکابرین کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔ اس پر جب ہم نے آہ وفغاں بلند کی تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہمیں پر یہ سوال دائر کیا گیا کہ اگر وہ آپ کے بزرگوں کی کتابیں تھیں تو آپ لوگ اب تک ان کی طباعت واشاعت سے دریغ کیوں کررہے تھے؟ لیلاے نجد کے ان مجنوئوں کو اب جاکر یہ کون سمجھائے کہ یہ تو ہماری تساہلی اور غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج ہم خود اپنی علمی اور فکری وراثت سے محروم ہیں ورنہ تمھارے پاس وہ ایمانی وروحانی قوتیں کہاں جو اس طرح کے افعال انجام دے سکیں۔ 
اسلاف شناسی جیسے اہم عنصر کے ساتھ بے اعتدالی اور عدم توجہی برتنے کا دوسرا خسارہ یہ ہوا کہ ہماری وہ قوم جو انھی بزرگوں کی انتھک محنتوں کے نتیجے میں حسن اسلا می کی زندگی گزار رہی ہے ان کے ہی کارناموں سے لاعلم رہی جس کا شاخسانہ یہ ہوا کہ شیواجی اور سر سید احمد کے مصنوعی کارناموں کو ایک سانس میں سنا ڈالنے والی ہماری نئی نسل جب جنگ آزادی کے عظیم قائد علامہ فضل حق خیرآبادی قدس سرہٗ کا نام سنتی ہے تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہے۔ 
         ہم نے کوششیں کیں، تعارفِ اسلاف پر مشتمل سیکڑوں کتابیں لکھیں، سیکڑوں رسائل وکتابچے مفت تقسیم کروائے، ’’تذکرۂ خانودۂ قادریہ، تذکرۂ مشائخِ رشیدیہ، تذکرۂ مشائخِ رضویہ وبرکاتیہ، تذکرۂ علماے ہند، تذکرۂ علماے اہل سنت، تذکرۂ مخدوم علی مہائمی، رجال الغیب، نقوشِ رئیس القلم، حیاتِ اعلیٰ حضرت، جہانِ مفتیِ اعظم ہند،مفتیِ اعظمِ ہند کے تابندہ نقوش، جہانِ ملک العلما، شہرِ خموشاں کے چراغ‘‘ جیسی تذکروں کی بسیار کتابیں منظرِ عام پر آئیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی ان عبقری اور قد آور شخصیتوں کی تعداد کی ایک طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے جن کی تعلیمات وخدمات، افکار ونظریات، تصنیفات وتالیفات اور سوانحی تفصیلات سے کتب خانے خالی پڑے ہیں۔’’ماہنامہ جام نور دہلی‘‘ نے بہت پہلے ’’سوادِ اعظم نمبر‘‘ کی اشاعت کا منصوبہ تیار کیا تھا اور اس کا ایک خاکہ بھی پیش کیا تھا، مگر ابھی تک وہ منصوبہ دیارِ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ تعارفِ اسلاف کی اس روایت کو ہمیں مزید فروغ دینا چاہیے کیوں کہ زندہ قوموں کی علامت ہی یہی بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے اقدار وروایات کو زندہ رکھتی ہیں۔ اگر ہم نے اس میں تساہلی برتی اور غفلت سے کام لیا تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔ 
دورِ حاضر کے ایک عالم ربانی:-
سطورِ بالا میں ہم نے جن اوصاف وخصائص کا ذکر کیا ان سے لیس دورِ حاضر کی سطح سے ایک اور شخصیت ابھرتی ہے، وہ نمونۂ سلف، داعیِ کبیر، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند حضرت حافظ وقاری مولانا محمد شاکر علی نوری نوّراللہ حیاتہٗ کی ذات بابرکت ہے۔ جس کی علمی، فکری، دینی، مذہبی، فلاحی ورفاہی خدمات کسی پر مخفی نہیں ہیں۔ عالمی تحریک ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے چند فعّال افراد کی طرف سے جب اس بات کا اعلان کیا گیا کہ آنے والے پچیسویں سالانہ سنی اجتماع کے موقع پر ایک ایسی ضخیم کتاب کی رونمائی ہوگی جو حضور داعیِ کبیر کے بیکراں دینی، ملی، علمی، فکری کارناموں کو محیط ہوگی تو میری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، کیوں کہ میں خود بھی اس داعی وقائد، رہبر ورہنما کی داستانِ شوقِ رہِ نَوَردِی کو جاننے کے لیے بے چین تھا جس نے اتنے مختصر عرصے میں دعوت وتبلیغ کا اعلیٰ معیار قائم کردیا، ہزاروں گم گشتگانِ راہ کو جادۂ مستقیم کا راہی بنادیا، ان کے ایمانی قدم کو سنبھالا، انھیں کفر وضلالت کی تاریک وادی میں گرنے سے بچایا، شکستہ دلوں اور آشفتہ سروں کے لیے صبحِ امید کی کرنیں پیدا کیں، خود آہنگوں کو نرم دل، رعونت پسندوں کو صاف دل، دُرمُتانہ چال والوں کو خوش دل، چشم پوشی کے متوالوں کو حقائق نگار اور قنوطیت کے شیدائیوں کو حقائق شناس بنایا، مملکتِ رسالت کے عظیم سلطان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عشق ووارفتگی کا جام پلاکر انھیں کوثر وتسنیم کا حق دار بنادیا، قوم کی شکستہ دلی اور آشفتہ حالی کو یکسر ختم کرنے کے لیے تصنیفات وتالیفات کی شکل میں نسخہاے کیمیا پیش کیا۔ ایسی ذات کی حیات وخدمات پر مشتمل انسائکلوپیڈیا کی اشاعت کا کام تو بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا مگر بہر حال دیر آید، درست آید۔
دعوت کا شرعی مفہوم:-
دعوت وتبلیغ اسلام کی جانب سے عطا کردہ ایک اہم فریضہ ہے۔ قرآن مقدس ارشاد فرماتا ہے: {وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ } [آلِ عمران، ۱۰۴] تم میں ایک ایس قوم ہونی چاہیے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دے، بھلائیوں کا حکم دے، برائیوں سے منع کرے اور وہی لوگ حقیقہً کامیاب ہیں۔
{وَمَنْ اَحْسَنَ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ} [فصّلت:۳۳] اس سے زیادہ کس کی بات اچھی، جو اللہ کی طرف بلائے، نیکی کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں۔
{ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} [توبہ: ۷۱] مسلمان مرد اور مسلمان عورت ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
{اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ} [النحل: ۱۲۵] اپنے رب کی طرف بلائو سچی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقے پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ} [آلِ عمران: ۱۱۰] تم ان سب امتوں میں ایک بہترین امت ہو جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں، بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔ 
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَۃً۔ میری طرف سے طرف تبلیغ کرو خواہ ایک آیت کی ہو۔ 
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: وَاللّٰہِ لَاَن یَّھْدِیَ اللّٰہُ بِکَ رَجُلًا وَّاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ اَن یَّکُوْنَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ۔ خدا کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے سے کسی کو ہدایت عطا فرما دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں کا مالک ہونے سے بہتر ہے۔
دیکھ رہے ہیں آپ ! دعوت وتبلیغ کی عظمت واہمیت کو آیاتِ قرآنیہ اور ارشاداتِ مصطفویہ کس طرح اجاگر فرمارہے ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کا مفہوم وتصور اسلام کے سوا کسی دیگر مذہب میں نہیں۔ دعوت وتبلیغ کی یہ عظیم ذمے داری کوئی اجنبی، غیر مانوس اور نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا رشتہ عہدِ موسوی، دورِ عیسوی، زمانۂ ابراہیمی اور قرونِ محمدی سے ملا ہوا ہے۔ ابتدا میں یہ ذمے داری انبیا ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام کے حصے میں آئی، انھوں نے اسے بخوبی نبھایا اور پیغاماتِ الٰہیہ کے انوار وتجلیات کے ذریعے عالمِ تار کو منور کرنے کی سعی کی۔ ان کے بعد ان کے نائبین یعنی علماے اسلام کو یہ ذمے داری سپرد کی گئی، انھوں نے بھی تلواروں کے سائے میں، نیزوں کی اَنیوں میں، محشر طراز ہنگام میں رہ کر اس فریضے کو بخوبی انجام دیا اور اور اپنی ذمے داری سے سبک دوشی کی بھرپور کوشش کی۔ 
دعوت کے چند ابتدائی پہلو:-
دعوت وتبلیغ کے لیے جو چیزیں لازمی عناصر قرار دی جاتی ہیں، وہ یہ ہیں: (۱) اخلاص (۲) اسلامی فکر (۳) دولتِ علم (۴) ایثار (۵) خوش طبعی (۶)فکرِ آخرت۔ یہ وہ عناصر ہیں جو دعوت وتبلیغ کے میدا ن میںحد اوسط کا درجہ رکھتے ہیں، انھیں پسِ پشت ڈال کر خود کو داعیِ دین اور قائدِ مذہب سمجھنا کچھ اور نہیں جِنانِ احمقاں میں رہنے کے متراد ف ہے۔ علماے ربانیین جنھوں نے خدمت اسلام اور دعوت وتبلیغ کے تعلق سے اپنی حیات کا کوئی دقیقہ فِروگزاشت نہیں کیا ان میں یہ ساری چیزیں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھیں۔ لیکن جب سے ہم ان سے دور ہوئے، ہمارے مدارس، مساجد اور دیگر مذہبی اداروں سے دعوت وتبلیغ کا مفہوم یکسر ختم ہونے لگا ہے۔ نہ واعظِ قوم کے پاس پختہ خیالی رہی، نہ ہی برقِ طبعی اور شعلہ مقالی، صرف فلسفہ ہی فلسفہ رہ گیا۔ دعوت وتبلیغ کا مفہوم ومعنٰی ہماری لغت میں تبدیل ہوگیا، پہلے جو قدم کلیسا ودیر وحرم کے اسیروں کو خانۂ یزداں کی طرف بلانے کے لیے اٹھتے تھے وہی اب ربِّ کعبہ کے شیدائیوں کے ایمان وعقائد بچانے کے لیے بھی بڑھنے سے انکار کرنے لگے۔ نتیجے میں تباہی، تاریکی، ظلمت، جہالت، غفلت، بیہودہ گوئی، بد خیالی، ظلم، جبر، تساہلی اور چشم پوشی امت مسلمہ کا مقدر بن کر رہ گئی۔ اللہ رب العزت کا یہ بڑا فضل ہے کہ اس نے ایسے پُر آشوب ماحول میں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی بازیابی، شوکتِ کہنہ کی جستجو، حقائق کی تلاش اور دعوت دین کی تبلیغ وتنشیر کے لیے داعیِ کبیر، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند، حضور امیر سنی دعوتِ اسلامی مد ظلہ کا انتخاب فرمایا اور آپ کو دینِ حق کا ایک عظیم داعی بنایا۔
داعیِ کبیر کی داعیانہ خصوصیات:-
داعیِ کبیر میں مذکورہ محاسن بڑی خوبی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ اسلامی فکر کے حامل ہیں، امت مسلمہ کے زخموں کی کسک رکھتے ہیں، دین مصطفوی کے لیے جذبۂ ایثار والے ہیں، دولتِ علم سے مزین ہیں، فکرِ آخرت میں نالاں وگریاں رہتے ہیں، دینِ آگہی پر استقامت کے حامل ہیں، عجز واخلاص کا بڑا وافر حصہ آپ کے پاس ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔
-:خدمات کا سرسری جائزہ
داعیِ کبیر ، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند کی داعیانہ زندگی کا سرسری جائزہ لیا جائے تو چند نمایاں چیزیں اور روشن کارنامے سامنے آتے ہ
٭       دورانِ تعلیم ہی آپ دعوت وتبلیغ کے عظیم منصب سے وابستہ ہوگئے تھے، قریبی اجتماعات میں شریک ہوکر لوگوں کو قرآنی تعلیمات وارشادات سے روشنا س کرانا آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ 
٭ وقت کے جلیل القدر اساتذہ سے اکتساب فیض کے علاوہ آپ نے وقتًا فوقتًا اشرف العما سید حامد اشرف جیلانی علیہ الرحمہ سے بھی استفادہ کیا۔
٭ تعلیم سے فراغت کے بعد ایک داعی کی حیثیت سے آپ دعوت وتبلیغ کے میدان میں آگئے اور اپنی روشن فراست اور عمدہ ظرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو دور دورتک عام کیا۔ 
٭ ۱۹۸۵ء میں آپ نے ایک بیوہ سے نکاح کیا جن کے پاس تین یتیم بچیاں بھی تھیں، بچیوں کی بڑی شفقت وعنایت سے پرورش کی، حسنِ ادب سے نوازا، پھر سب کی دین دار گھرانے میں شادی بھی کردی۔ اس طرح آپ نے ایک ایسی سنت کا احیا فرمایا جو برسوں سے پردۂ عدم میں تھی۔ 
٭ ۲۳؍ سال پہلے آپ نے ’’سنی دعوتِ اسلامی‘‘ کے نام سے ایک تحریک چلائی جس کا بنیادی مقصد دنیا کو قرآن وحدیث سے قریب کرنا، جہالت وبے دینی دور کرنا، انوارِ علم وعمل کے حسین زیور سے لوگوں کو مزین کرنا، فکری اور عملی طور پر مسلک اعلیٰ حضرت یعنی مسلک اہل سنت وجماعت کی نگہبانی کرنا، اسلام دشمنوں کی دشمنی سے امت مسلمہ کو محفوظ رکھنا اور ان کی جانب سے کیے جانے والے رکیک حملوں کا جواب دینا تھا۔
٭ ہندوستان، برطانیہ، کناڈا، امریکہ، افریقہ وغیرہ میں اس کے توسل سے کافی اچھا کام ہو رہا ہے، آپ نے اس کے ذریعے معاشرے میں پھیلی برائیوں سے کافی حد تک اہل معاشرہ کو بچایا، ایمان وایقان کا درس دیا اور لوگوںکو حبِ توحید کا جام پلایا، نتیجے میں ہزاروں غیر مسلم افراد اسلام کی طرف مائل ہوئے، گنہگاروں نے گناہوں سے توبہ کی، برائیوں کی دعوت دینے والے نیکیوں کے داعی بن گئے۔
٭ ہرسال حج وعمرہ کی زیارت سے شرفیاب ہوتے ہیں، کئی بار کعبۂ مقدسہ کے اندر داخل ہوکر عبادت کرنے کا شرف بھی حاصل کرچکے ہیں۔
٭ دینِ اسلام کی تعلیمات عام کرنے کی خاطر مختلف مقامات پر ۱۱۱؍ دینی ادارے اور ان کے علاوہ متعدد عصری ادارے قائم کرنے کا آپ نے منصوبہ بنایا اور اب تک ۵۰؍ سے زائد مدارس واسکولس قائم بھی کرچکے ہیں، جن میں سے جامعہ غوثیہ نجم العلوم، جامعہ حرا نجم العلوم، دارالعلوم انوارِ مدینہ نجم العلوم، جامعہ حلیمہ سعدیہ نجم العلوم، حرا انگلش اسکول کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آپ کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد دس ہزار سے متجاوز ہے۔
٭ اس تحریک کے تحت ہر سال وادیِ نور آزاد میدان میں تین روزہ سنی اجتماع منعقد ہوتا ہے، جس میں دنیا بھر کے علما ومشائخ شریک ہوتے ہیں اور ان سے لاکھوں افراد کو استفادہ کو موقع ملتا ہے۔ 
٭ ہر تین سال پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ، یوپی کا ایک سہ روزہ فقہی سیمینار اور اخیر میں اجلاس عام بھی منعقد کراتے ہیں۔ 
٭ ۲۰۰۵ء کے اواخر میں ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ کے نام سے ایک علمی اور دعوتی سہ ماہی رسالے کی اشاعت کا آغاز کیا، یہ رسالہ علما ومشائخ کے مابین کافی مقبول ہوا، یہاں تک کہ ۲۰۱۱ء کے اوائل سے ’’سہ ماہی‘‘ سے نکل کر ’’ماہنامہ‘‘ کی صورت میں آگیا۔ 
٭ ہم شبیہِ غوثِ اعظم، حضور مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی مصطفی رضا خان قادری نوری قدس سرہٗ سے آپ کو شرف بیعت حاصل ہے، جب کہ خلافت کا شرف جانشینِ حضور مفتیِ اعظمِ ہند، تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا خان قادری ازہری دام ظلہٗ اورشہزادۂ سید العلما، سید ملت سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی نوّراللہ مرقدہٗ سے ملاہے۔
٭ تقریر وتحریر کا آپ کا خاص فن ہے۔ اب تک سیکڑوں مقامات پر مختلف مسائل کے حوالے سے سیکڑوں خطابات کرچکے ہیں اور تین درجن کے قریب کتابیں اپنے رَشحاتِ قلم سے پیدا کرچکے ہیں۔ علمی، فکری، اصلاحی، دینی، مذہبی موضوعات آپ کی تقریر وتحریر کا خاص حصہ ہوا کرتے ہیں۔
٭ ایک کہنہ مشق اور باوقار شاعر بھی ہیں، شاعری کی تعداد گرچہ بہت مختصر ہے مگر ہزاروں زیادات پر فائق ہے۔ 
٭ آپ کی مذکورہ دینی، مذہبی، سماجی، علمی، فکری حسین خدمات دیکھ کرملت کے دانش وران نے آپ کو ’’نمونۂ سلف، مصلحِ ملت‘‘ ، جب کہ مفکر اسلام وترجمانِ اسلام علامہ قمرالزماں خان اعظمی نوّراللہ حیاتہٗ نے ’’داعیِ کبیر‘‘ جیسے بلند خطاب سے نوازا۔ 
سطورِ بالا میں ابھی ہم نے یہ بیان کیا کہ داعیِ دین برحق کا کن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے اور یہ بھی بیان کیا کہ داعیِ کبیر، عطاے حضور مفتیِ اعظم ہند میں وہ اوصاف بہ حسنِ خوبی پائے جاتے ہیں۔ اب درج ذیل سطور میں ہم ان اوصاف میں سے صرف بعض کا ذکر کرکے داعیِ کبیر کی داعیانہ زیست کو ان میں پرکھنے کی کوشش کریں گے۔ جن اوصاف کا ابھی ذکر ہوگا وہ یہ ہیں: (۱)عشقِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (۲)استقامت (۳)توقیرِ اکابر (۴)اصاغر 
نوازی۔ 
-:عشقِ مصطفی
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عظمیٰ جانِ ایمان، عینِ ایمان، زندگی کا نصب العین، زیست کا عنوان ہے، ہزاروں ارجمندی اور فیروز مندی کی آماجگاہ ہے، ترقی اور کامیابی کی علامت آگیں ہے۔ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جام کی لذتوں سے جو کوئی سرشار ہوجاتا ہے وہ کسی دوسرے عشق کے جام کی تمنا نہیں کرتا۔ دنیوی عشق کے بے کیف مزے میں گرفتار ہوکر زندگی کتنی آوارہ اور ناکارہ ہوجاتی ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے۔
ٍٍ مگر سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق وہ نہیں جو ناکارہ بنادے، یہ تو وہ ہے جو دنیا وآخرت ہر جگہ سرخرو کرتا ہے، تاجِ شاہی عطا کرتا ہے، اسی سے زمانے کے خرد، برد سے بچنے کا نسخۂ کیمیا ملتا ہے، عاشقِ سلطانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ وقت معراجِ زندگی کے زینے چڑھتا ہے، تکالیف ومصائب کے سمندروں کی تلاطم خیز موجیں بھی اس کے پاے ثبات میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی ہیں، وہ درد والم میں بس مسکرانا جانتا ہے اور رنج وکلفت میں خنداں ہونا۔ 
میں مصطفیٰ کے جامِ محبت کا مست ہوں
یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے
:دنیوی محبوبوں کے لب وکاکل کی اسیری کا حال یہ ہوتا ہے کہ
 زلف کی اسیری سے خدا سب کو بچائے 
سنتے ہیں کہ اس قید کی مدت نہیں ہوتی
:مگر یہاں کا یہ عالم ہے کہ
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم 
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
:دنیوی الفتوں کے بادہ خانے کی مے گساری کس قدر تباہ کن ہوتی ہے
تباہ کردیا مجھ کو بھی تیرے مینا نے
کدھر سے لاؤں میں ہوش وحواس اے ساقی
مگربادہ خانۂ عشقِ رسالت کی مے گساری زندگی تباہ نہیں کرتی، اسے عروج بخشتی ہے، تشنہ لب یہاں آکر پیتے ہیں، خوب پیتے ہیں مگر دل نہیں بھرتا، روح کی تشنگی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، مزید پہ مزید کی تمنا زبانِ حال سے یہ  کہلواتی ہے 
مجھے پینے دے، پینے دے کہ تیرے جامِ لعلیں میں
ابھی کچھ اور ہے، کچھ اور ہے، کچھ اور ہے ساقی
یہی وہ عشق ہے جو کسی کو رازی اور غزالی، کسی کو رومی اور جامی، تو کسی کو سعدی اور عینی بناتا ہے۔ قرآنِ مقدس اسی عشق ومحبت کے بارے میں فرماتا ہے: قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ۔ اس آیت سے مستفاد ہوا کہ اللہ کی محبت، رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کیے بغیر نہیں مل سکتی اور محبت کے لیے ضروری ہے کہ ان کی پیروی کی جائے، ان کے نشانِ قدم کو چراغِ رہِ منزل سمجھ کر اپنایا جائے۔ داعیِ کبیر میں یہ وصف بڑے ہی کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی عشقِ رسول اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عبارت ہے۔ چلنا، پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، بولنا، سننا ہر ایک ادا، ہر ایک طرز سے اتباعِ مصطفی اور محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم چھلکا کرتا ہے۔ تقریرہو کہ تحریر ہر جگہ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت ان کی عملی زندگی میں جا بجا ملتا ہے۔
-:استقامت


بات واضح ہے کہ جب ٹھہرے ہوئے پانی پر پتھر پھینکا جائے گا تو اس سے اِرتِعاش کا پیدا ہونا فطرت کا لازمہ ہے، تاریکیوں کے متوالوں سے جب روشنی کی بات کی جائے گی تو وہ چراغ پاہی ہوں گے۔ یہی حال ایک داعی کا بھی ہوتا ہے کہ جب وہ میدانِ دعوت وتبلیغ میں قدم رکھتا ہے تو ہر طرف سے فتنوں اور شورشوں کے غوغے آنے لگتے ہیں، اس کے قریب ہرزہ سرائیوں کے دائرے کھینچ دیے جاتے ہیں، اس کی اچھائیوں کو برائیوں، محبتوں کو نفرتوں، شفقتوں کو کدورتوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ داعیِ کبیر کی حالت اس سے کچھ جدا گانہ نہ تھی۔ جب سے آپ نے سنی دعوتِ اسلامی کے ذریعے دعوت وتبلیغ کا عظیم کام انجام دینا شروع کیا آپ کے لیے بھی نفرتوں کے بیج بو دیے گئے، اپنے بے گانے ہوگئے، رفاقتیں عداوتوں میں بدل گئیں، عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا، جسمانی وذہنی ایذائیں دی جانے لگیں، کبھی رفیقوں نے کنارہ کشی کی، کبھی بظاہر خیر خواہ نظر آنے والوں نے آستین کے سانپ کا رول ادا کیا، جن سے مروتوں اور تائیدوں کی امید تھی انھوں نے منجدھار میں لے جا کر ڈبانے کی کوشش کی، ان کے مشن کو روکنے کے لیے ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگایا گیا، اس میں ناکامی میسر آئی تو ذات کو مطعون ومجروح کرنے کی کوشش کی گئی، دشنام دہی سے بھی احتراز نہ کیا گیا، فحش جملے بھی استعمال کرنے میں لوگوں نے عار نہیں محسوس کی، بینر لگائے گئے، پوسٹر چسپاں کیے گئے، کتابیں چھاپی گئیں، افراد کو توڑنے کی کوشش کی گئی، غرض کہ وہ سب کچھ کیا گیا جو ایک داعی کے ساتھ کیا جانا قدیم تاریخ ہے۔ مگر دین کا یہ کبیر داعی اپنی جا اٹل رہا، استقامت کا جو درس اس نے احد کی وادی اور کربلا کے میدان سے لیا تھا اس پر برابر جما رہا، پاے ثبات میں ذرا سی بھی لغزش نہ آئی۔ اپنوں کی ہرزہ سرائیوں سے تنگ آکر سلطانِ کونین کا یہ بے نوا عاشق، محبوبِ داور کے کوچۂ جاناں میں جاتا ہے اور دست بستہ عرض کرتا ہے، آنکھیں سوگوار ہیں، پلکیں اشک بار ہیں، لب پژمردہ ہیں، دل افگار ہے، روح شرارہ ہے اور زبانِ قال یوں عرض کناں:
حالِ دل اپنا سناؤں تو سناؤں کیسے
داغ سینے کے دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے
نہ زمانے کے ستم گروں کی ستم کوشیوں کا شکوہ ہے، نہ ہی اپنوں کی ہرزہ سرائیوں کا گلہ، بلکہ محبوب کے مرقد انور اور ربِّ کعبہ کے بیت اطہر کی دید کی مسرت میں فضلِ ربی اور احسانِ مصطفوی کا برملا اظہار ہے: 
آج آغوش میں کعبے نے لیا صدقے ترے
شکر مولیٰ کا بجالاؤں تو لاؤں کیسے
احسان پسندی اور احسان شناسی کا یہ منظر بھی بڑا دل دوز ہے: 
تھام لیتے ہو مصیبت میں ہمیشہ سرکار
اتنے احسان گناؤں تو گناؤں کیسے
حق وصداقت کا وہ داعی سراپا عزم بنا ہوا اور فضلِ خدا وکرمِ رسول پر تکیہ کیے ہوئے اپنے مشن کو لے کر آگے بڑھتا رہا، منزل منزل قدم بڑھاتا رہا، راہ میں بچھے ہوئے کانٹوں کی کوئی پروا نہیں ہے، نظر بس منزلِ مقصود پر ہے اور حال یہ ہے کہ روٹھوں کو مناتا ہے، نو آموزوں کو سکھاتا ہے، برائیاں کرنے والوں کے ساتھ بھلائیاں کرتا ہے، صبر وتحمل، عفو ودرگزر، رحمت ومودت، نرمی وشفقت کا مجسمہ بنا ہوا ہے، دعوت کے کاموں کی نئی نئی راہیں ہموار کرتا ہے، ان راہوں پر گرد وپیش موجود افراد کو چلاتا ہے، چلنے کا سلیقہ سکھاتا ہے، گرتوں کو اٹھاتا ہے، حوصلہ دیتا ہے، تربیت کرتا ہے، اصلاح کرتا ہے، رہنمائی کرتا ہے، اصول مہیا کرتا ہے، مدد کرتا ہے، خبر گیری کرتا ہے، جمود توڑتا ہے، ضرورتیں پوری کرتا ہے، اسباب مہیا کرتا ہے اور ایک دن یہ اسلام کا عظیم داعی اپنے مشن کو لے کر عروج وارتقا کی منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے جسے دیکھ کر زمانہ عش عش کرنے پر مجبور ہے۔
توقیرِ اکابر:-
اللہ کے رسول، داناے غیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا فَلَیْسَ مِنَّا ۔ جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم وتوقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ ایک داعی کے لیے جہاں دعوت کی دوسری چیزوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ویسے ہی اکابر کی تعظیم وتکریم اور چھوٹوں پر شفقت ورحمت بھی اس کی دعوت کے اصول میں سے ہیں۔
داعیِ کبیر کے اوصاف میں یہ وصف بھی کافی نمایاں ہے۔ علم وعمل کے صاحبان، منبر ومحراب کے وارثین جب آپ کی بارگاہ میں آتے ہیں تو آپ ان کی تعظیم وتکریم کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، خنداں پیشانی سے ملتے ہیں اور اپنی پاکیزہ باتوں کے ذریعے ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلافِ کرام میں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں مگر دورِ حاضر میں نابود ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ بقولِ رئیس القلم علامہ ارشدا لقادری قدس سرہٗ: شہرستانِ جہالت کا ہر خاک روب آج رازی اور غزالی کی مسند سے بات کرتا ہے۔
آج تو حال یہ ہے کہ عامی سے عامی شخص ان پاکیزہ طینت ہستیوں پر اعتراضات کرتا ہے جن کے عظمت وتقدس کی قسم قدسیانِ فلک کھایا کرتے ہیں، ایسی برگزیدہ شخصیتوں کو برسرِ عام رسوا کرنے کی، ان کی دستارِ فضیلت کے تہوں کو کھولنے کی اور ان کی قبائوں کے ٹانکیں ادھیڑنے کی ناپاک کوشش کرتا ہے، اس جیسے محشر طراز ماحول میں اگر کوئی اس عظیم صفت کا حامل ہو اور اسے اس کی بنا پر نمونۂ سلف کہاجائے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
اصاغر نوازی:-
چھوٹوں کے ساتھ محبت، مودت، شفقت، عنایت داعیِ کبیر کی زندگی کا لازمہ ہے۔ جو کوئی قریب آتا ہے وہ آپ کے اس وصف عظیم کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ بات اس وقت کی ہے جب میں نے پہلی بار آپ کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل کیا تھا، جب قریب گیا، قریب سے قریب ہوتا چلا گیا، ایک نحیف سی آواز پر جو کہ بیٹھنے کے لیے کہہ رہی تھی بیٹھ گیا، مگر میری نظریں روے زیبا کے جلووں کا نظارہ کرنے لگیں۔ سر پر سنتوں بھرا عمامہ انوار وتجلیات کی تابشیں بکھیر رہا تھا، خنداں لب فیض وکرم کے ہزاروں ابواب وَا کر رہے تھے، جھیل جیسی آنکھیں ساون کی گھٹا کانمونہ پیش کر رہی تھیں، گہر بار تکلم، دل نواز تبسم، جمال شارہ رخ، قد رعنا اس پر مستزاد۔ میں آپ کی شخصیت کی مقناطیسیت میں کھوگیا، بہت چاہا کہ کچھ عرض کروں، ہمت نہ ہوئی، زبان خاموش رہی مگر دل یوں گویا ہوا: 
تم مخاطب بھی قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں
تھوڑی دیر کی گفتگو میں آپ کا گرویدہ ہوگیا، اس کے بعد جب کبھی حاضری کا موقع ملتا بڑے شوق سے حاضری دیتا، مستقبل کی تابناکی کے لوازمات پوچھتا، دعائیں لیتا، پھر بوجھل قدموں سے یہ کہہ کر واپس ہوجاتا:
اک پل کو تری بزم میں ہم بیٹھ کے واعظ
برسوں نہ رہے بزمِ خرافات کے قابل
آپ کے پاس سے چلا آتا مگر دل واپس آنے پر کوستاتا رہتا، شکوے کرتا، فریاد کرتا اور حال یہ ہوتا: 
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
یہ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
یہ میرا ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کا حال ہے جو آپ کے قریب گیا، آپ کی نشستوں میںجسے بیٹھنے کا موقع ملا، جو آپ سے محوِ گفتگو ہوا۔ اس کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ بقولِ داغ ؔ دہلوی یہ ہے:
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی ترا گویا بھری محفل سے ملتا ہے
اس پر طرّہ یہ کہ آپ سے ملاقات میں اصاغر واکابر کی کوئی تفریق نہیں ہے، جو چاہے آپ کو دیکھ سکتا ہے، جو چاہے آپ سے مل سکتا ہے، جو چاہے فون پر گفتگو کر سکتا ہے، سب کو ملاقات کا موقع دیتے ہیں، سب کی سنتے ہیں، سب کو فیضیاب کرتے ہیں۔ ہم نے ملاقاتیوں کو سلسلہ گھنٹوں تک دراز ہوتے دیکھا ہے، فون کرنے والوں کو بھی ایک لمبا سلسلہ ہوتا ہے، مگر کبھی آپ نے بیزاری کا اظہار نہیں فرمایا۔ عام سے عام مبلغین اور طلبہ بھی براہِ راست مل سکتے ہیں، اپنے مسائل پیش کر سکتے ہیں، اپنی الجھنیں بیان کر سکتے ہیں۔ سب کی باتیں سنتے ہیں، مفید مشوروں سے نوازتے ہیں، حسبِ ضرورت مدد بھی کرتے ہیں۔ سمجھاتے ہیں، رہنمائی کرتے ہیں۔
نعتیہ شاعری:-
حضور داعیِ کبیر ایک کہنہ مشق اور باوقار شاعر ہیں، آپ کی شاعری مقدار وکمیت کے لحاظ سے کچھ زیادہ نہیں، مگر معانی خیزی اور جلوۂ عشق کے اعتبار سے ہزاروں صفحات پر مشتمل بھاری بھرکم دیوانوں پر بھاری ہے۔ روشن خیالی، علوِ فکر، وارفتگیِ شوق، محبت وشیفتگی جیسے سارے عناصر آپ کے کلام میں جا بجا پائے جاتے ہیں۔ 
شہزادۂ احسن العلما، شرف ملت سید اشرف مارہروی مدظلہ العالی داعیِ کبیر کے مجموعۂ کلام ’’مژدۂ بخشش‘‘ پر اظہارِ خیالات کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: 
’’امیر سنی دعوتِ اسلامی مولانا حافظ وقاری محمد شاکر نوری رضوی کی ادبی شخصیت اور تبلیغی کارنامے تعارف کے محتاج نہیں ہیں، لیکن ان کے ادبی اظہار سے میرا پہلا باضابطہ سابقہ پڑا ہے اور اس کا ردِّ عمل بہت دل خوش کن اور روح کی گہرائیوں کو تر کرنے والا ہے۔ نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑا ہی سخت میدان ہے، اس راہ میں قلم کی ایک معمولی لغزش بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عمر بھر کے لیے معتوب بناسکتی ہے۔ اس مجموعے میں شامل نعتوں میں بفضلہ تعالیٰ نعتیہ شاعری کے مضامین سے متعلق وہ دونوں بڑی مشہور لغزشیں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملیں گی، یعنی شرک کا شائبہ اور اہانتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر سمجھوتہ۔ شاعری، شاعر کے دل کی ترجمانی کرتی ہے۔ جناب شاکرؔ نوری کو اپنے پیرانِ سلسلہ اور تحریک سنی دعوتِ اسلامی سے والہانہ عقیدت ومحبت ہے، ان دونوں جذبوں کا اظہار بخوبی ہوا۔ نعت کے میدان میں مولانا محمد شاکر علی نوری کی سعیِ مشکور کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔ لفظوں کا تناسب، معنٰی کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیاز مندی، طالب کا عجز اور اشعار میں جاری وساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی کے جلووں سے آنکھیں خوب ٹھنڈی ہوں گی۔‘‘       (مژدۂ بخشش، ص:۵-۶) 
یہ حقیقت افروز اقتباس پڑھنے کے بعد چند نمونے بھی دیکھ لیجیے تاکہ مذکورہ کلمات بلا دلیل نہ رہ جائیں:
سرکارِ دوعالم کی نظر مجھ پہ پڑی ہے
پہنچا ہوں وہاں، خلدِ بریں کی جو گلی ہے
آیا جو مدینے میں تو قسمت نے پکارا
بگڑی ہوئی تقدیر یہاں آکے بنی ہے
قدموں کو ذرا ہوش سے اس خاک پہ رکھنا
یہ کوے نبی ہے، ارے یہ کوے نبی ہے
للہ مجھے اپنا رخِ زیبا دکھا دو
پلکوں میں مری دید کی خاطر یہ نمی ہے
دے ڈالیے مجھ کو بھی غلامی کی سند اب
بخشش کو مرے شاہ یہ خیرات بڑی ہے
اللہ کو محبوب سے کتنی ہے محبت
ہاں ’’طٰہٰ و یٰسٓ‘‘ میں اسرارِ جلی ہے
ایک عاشق زار کو اپنے محبوب کے گلیاروں سے کتنی محبت ہے، کوچۂ جاناں کی دید کی کتنی تڑپ ہے، محبوب کی شفقت وعنایات کی کتنی تمنا ہے۔ ذرا ملاحظہ کریں: 
میرے سرکار مدینے میں بلاتے رہنا
غمِ دنیا، غمِ عقبیٰ سے بچاتے رہنا
حشر کی پیاس مجھے جب کہ پریشاں کردے
جام کوثر کا مجھے آپ پلاتے رہنا 
فکرِ امت کا یہ جذبۂ سوزِ دروں بھی بڑا لطیف ہے:
ظلمِ ظالم سے اسے آپ بچاتے رہنا
وحشتِ قبر سے گھبرائے جو شاکر آقا
تھپکیاں دے کے اسے آپ سلاتے رہنا 
ذرا علوِّ فکر اور نزہت خیالی کا یہ رنگ ہم آہنگ دیکھیںاور وارداتِ قلب پر مبنی وجدانی کیفیات کا انوکھا نمونہ بھی ملاحظہ کریں:
میں نے رخ کرلیا مدینے کا
کیا بگاڑے کوئی سفینے کا 
اپنی الفت کا جام دو مجھ کو
مست کردو مجھے مدینے کا 
جانبِ نار میں نہ جائوں گا
میں نے رخ کر لیا مدینے کا 
کیسے کہہ دوں کہ بے سہارا ہوں
مجھ کو آقا ملا مدینے کا 
ہے یہی وردِ شاکرِؔ نوری
میں نے رخ کر لیا مدینے کا 
آپ کے بعض اشعار تو ایسے ہیں جن سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بوندیں ٹپکا کرتی ہیں، لگتا ہے کہ آپ نے انھیں آنسوئوں سے وضو کرکے لکھا ہے۔ انھیں پڑھ کر آدمی تصورات کے حسین دبستان میں پہنچ جاتا ہے جہاں ہر طرف اسے محبت ومودت کے لہلہاتے ہوئے رنگ برنگے پھول نظر آتے ہیں، جن کی پاکیزہ خوشبووں سے وجود کا گوشہ گوشہ معطر ہوجاتا ہے۔ 
آپ کے کلام کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ریا کاری اور تصنع آمیزی کا دور دور تک کوئی اثر نہیں ملتا۔ اس میں کسی ایسے عشق کا وجود نہیں جو محض دکھاوے کا ہو، وہ تمنا اور تڑپ نہیں جو دل کہ اتھاہ گہرائی سے نہ نکلی ہو۔ 
لوح وقلم سے رشتہ:-
اپنی علمی، فکری، دینی، ملی مصروفیات کے باوجو د آپ کے تصانیف کی تعداد تین درجن کے قریب ہے اور تقریبًا ساری تصنیفات کا مصدر ومحور عقائد واعمال کی اصلاح ہے۔ 
(۱) برکاتِ شریعت:
۳؍ حصوں اور ۱۱۲۰؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب آپ کے علم وفن کی روشن دلیل ہے۔ علما، خطبا، واعظین اور مبلغین سب کے لیے یکساں مفید ہے۔ کتاب بڑی قابلِ قدر ہے، یقینا اس کے مطالعے سے معاشرے میں ظلمت کا خاتمہ ہوگا، تاریکیاں دور ہوںگی، ایمان وایقان کا نور پھیلے گا۔ 
(۲) ماہِ رمضان کیسے گزاریں؟:
یہ کتاب ماہِ رمضان کی عظمت، روزے اور زکوٰۃ کے فضائل، ان کے تر ک پر وعیدیں، اعتکاف کی حیثیت، ماہِ رمضان المبارک کی کچھ اہم تاریخوں پر مشتمل ہے۔
(۳) گلدستۂ سیرت النبی:
یہ کتاب ۱۶۰؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ کے ورودِ مسعود سے پہلے کے حالات ، آپ کی آمد پر دوجہاں کی تابناکی، آپ کے فضائل وشمائل اور آپ کی زندگی کے احوال اختصارًا مگر جامعیت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ 
(۴) قوموں کی تباہی کا اصلی سبب:
یہ کتاب دورِ حاضر میں امت مسلمہ کے خستہ احوال کے تناظر میں لکھی گئی ہے اور قوموں کی تباہی کے اسباب بیان کیے گئے ہیں۔قومِ ہود، قومِ نوح، قومِ صالح، قومِ لوط، قومِ شعیب، قومِ موسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام کی تباہی اور بربادی کی داستانیں درج کی گئی ہیں جو بڑے سے بڑے شقی القلب پر بھی رقت طاری کردیتی ہیں۔
بقیہ تصانیف: آپ کی دوسری تصانیف یہ ہیں: (۵) تحفۂ نکاح (۶) خواتین کے واقعات (۷) خواتین کا عشقِ رسول (۹) داعیانِ دین کے اوصاف (۱۰) بے نمازی کا انجام (۱۱) قربانی کیا ہے؟ (۱۱) مسلم کے چھ حقوق (۱۲) امام احمد رضا اور اہتمامِ نماز (۱۳) حیاتِ سلطان الہند خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ (۱۴) عذاب قبر سے نجات کا ذریعہ (۱۵)عظمت ماہِ محرم اور امام حسین رضی اللہ عنہ (۱۶)برکات شریعت براے خواتین (۱۷)حیاتِ مفتیِ اعظم ہند کے تابندہ نقوش (۱۸)موبائل کا استعمال قرآن کی روشنی میں (۱۹) مژدۂ بخشش (مجموعۂ کلام) (۲۰)ذکرِ الٰہی کی برکتیں (۲۱)بچوں کو نصیحتیں (۲۲)معمولاتِ حرمین (۲۳)نوری اوراد ووظائف (۲۴) طریقۂ عمرہ وآدابِ مدینہ
اقوالِ زریں:-
آپ کی زبان اطہر سے نکلنے والے کلمات عالیہ اور ارشاداتِ غالیہ یقینا امت مسلمہ کے اس فرسوہ ماحول میں مشعلِ راہ اور نشانِ منزل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم نے انھیں آپ کی مختلف تقریر وتحریر سے یکجا کیا ہے۔ ذرا آپ بھی دیکھیں:   ع… کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
٭ دنیا کی طمع دل میں آنے نہ پائے، کیوں کہ دنیا کی طمع علم کی برکتیں اٹھادیتی ہے اور نورِ علم سینے سے نکال دیتی ہے۔ 
٭ جب تم دعوت کے لیے میدان میں نکلو تو عوام کو یقین دلائو کہ ہمیں تم سے کوئی اجر نہیں چاہیے، ہمیں اجر تو صرف اللہ رب العزت سے چاہیے۔ 
٭ دنیا کی طمع جس کے دل میں بس جاتی ہے اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ہر کس وناکس کے سامنے گڑگڑاتا ہے، ہر دروازے پر دستک دیتا ہے اور پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ وہ کسی بازار میں بک جاتا ہے۔ 
٭ آپ جب دینی خدمات پر مامور ہوں تو چند دن قناعت کے ساتھ گزاریں، پھر اللہ تعالیٰ آپ کے لیے نعمتوں کے اتنے دروازے کھول دے گا کہ آپ خود تعجب میں پڑجائیں گے۔ 
٭ جب تم نے نائب رسول کا تاج پہن لیا تو تمھارے وجود کے اندر خشیتِ ربانی کا اثر ہونا چاہیے اور تمھیں خلوت وجلوت ہر حال میں اللہ عزوجل سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ 
٭ خشیت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو اس کے مخصوص بندوں کو ملتی ہے، خدا کی قسم! یہ نعمت جسے مل گئی وہ بہت بڑا عالم ہے۔
٭ ایک داعیِ دین کا جن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں: اخلاص، ایثار، دولتِ علم، استقامت، اچھی صحبت، محبت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، باہمی اخوت، خوش طبعی، فکرِ آخرت۔ 
یہی وہ اوصاف ومحاسن ہیں جو آپ کو بزم ومحافل میں ’’میر وحکم‘‘ کا درجہ دیتے ہیں، مگر ان سارے فضائل وخصائص کے باوجود کبر ورعونت، خود آہنگی، درشتی نام کی کوئی شے آپ میں نہیں، بلکہ آپ اپنے سارے کمالات کو اپنے آقا حضور مفتیِ اعظمِ ہند رحمۃ اللہ علیہ کا فیض وکرم بتاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے، جیساکہ محقق مسائل جدیدہ مفتی نظام الدین قادری اپنے ایک تأثر میں فرماتے ہیں: ایک ایسا شخص جس کی کل تعلیم درجۂ خامسہ تک ہو اور وہ ایسے کارہاے نمایاں انجام دے، قابل رشک وقابلِ تقلید ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مرشد برحق حضور سیدی ومولائی وملاذی مفتیِ اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا قادری نوری بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کا نوری فیضان ہے جو مولانا موصوف پر برس رہا ہے۔
داعیِ کبیر کی داعیانہ زیست کے یہ چند ابتدائی اوراق تھے جو نہ آپ کی حیات کے سارے گوشوں کا احاطہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے سارے فضائل ومناقب کا بیان۔ یہ تو استاذ گرامی حضرت مولانا عبداللہ سرورؔ اعظمی نجمی صاحب کی ثمر آور محبتیں اور عنایتیں تھیں جنھوں نے مجھ بے بضاعت سے یہ کام کروالیا، اس امید پر کہ داعیِ کبیر کے بحرِ فیوض وبرکات کے کچھ قطرے میرے بھی نصیب میں آجائیں، ورنہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘، لیکن اتنا سب کچھ لکھنے کے بعد بھی اب تک یہی سوچتا ہوں:
جمالِ یار کی رعنائیاں ادا نہ ہوئیں
ہزار کام لیا میں نے خوش بیانی سے