Friday 8 December 2017

امت پر رسول رحمت ﷺ کے دس بنیادی حقوق ----------- ضیاء الرحمٰن علیمی

0 comments
امت پر رسول رحمت ﷺ کے دس بنیادی حقوق
ضیاء الرحمٰن علیمی
ماہ ربیع النور کی آمد کے ساتھ ہی ساری دنیاکے لوگ سیدنا محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اپنے اپنے ڈھنگ سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔اس ماہ میں خصوصاًمحبت و عقیدت کے جذبات  کاسیل رواں ہوتاہے۔آپ کےظاہری وباطنی کمالات پر گفتگو ہوتی ہے۔ لیکن عموماً ان حقوق پر گفتگو نہیں ہوپاتی جواُمت پر عائد ہوتے ہیں اور جن کی ادائیگی کے لیے اُمت کوہمیشہ کمر بستہ رہنا چاہیے۔
امت پرعائد ہونے والے حقوق میں سے یہ دس حقوق ہیں جو اصول وکلیات کی حیثیت رکھتے ہیں اور دوسرے تمام جزوی حقوق کو اپنے اندر شامل کیے ہوئے ہیں۔ان کو ذکرکرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان حقوق کو پڑھ کر ہم غوروفکر کریں کہ بحیثیت انسان اور بحیثیت مسلمان ہم ان حقوق کی ادائیگی اور اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں یا نہیں۔ اگر کررہے  ہیں تو یہ ہمارے لیے بڑی سعادت ومسرت کی بات ہے اور اگر نہیں کررہے ہیں تو یقیناً ہر محاذ پرہماری  ناکامی کا راز یہی ہے؛ اس لیے ان حقوق کی ادائیگی کے لیے خود بھی جدوجہد کریں  اور دوسروں کو بھی اس کے لیے تیارکریں۔ماہ ربیع النور میں حقوق مصطفیٰ کی ادائیگی اور اس کے لیے جد وجہد کی روح اگر ہمارے  اندر بیدار ہوگئی تورسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ میں اس سے بڑھ کر ہمارا کوئی اور خراج عقیدت نہیں ہوگا۔  ذیل میں ہم ’’الشفا‘‘اور دوسری کتب سے استفادہ کرکے اختصارکے ساتھ بعض ان حقوق کا تذکرہ کرتے ہیں جن کی ادائیگی اور جس کے لیے جدو جہد  کو اپنا نصب العین بنالینا اُمت کے لیے ضروری ہے۔
۱۔  معرفت رسول:
جب تک انسان کو کسی کی پہچان نہیں ہوجاتی اس وقت تک وہ اس کی حقیقی قدر ومنزلت کے عرفان سے محروم ہوتاہے اوراسی وجہ سے اس کے حقوق کی ادائیگی بھی نہیںکرپاتا،اس لیے محسن علیہ السلام کی عملی تصویر سمجھنےکے لیے ایسے نیک بندوں کی صحبت میں بیٹھیں جن کی شام وسحر میں رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ کتب سیرت میںبھی جومقامات سمجھ میں نہ آئیں ایسے ہی نیک سیرت لوگوں کی صحبت میں ان کو سمجھنے کی کوشش کریں ؛کیوںکہ یہ علماآقا علیہ الصلاۃ والسلام کے وارث اور اُن کے نقوش کے سچے امین ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:  اے رسول! آپ کہہ دیں کہ یہ میری راہ ہے، جس  کی دعوت میں اور میرے نقش قدم پر چلنے والے دیتے ہیں ۔ (یوسف:108)اس لیےپوری انسانیت پرلازم ہے کہ وہ سب سے پہلے پیغمبراسلام کی ذات وصفات اور سیرت وشمائل کا مطالعہ کرے،تاکہ اُسے یہ معلوم ہوکہ آپ ہی انسانیت کے سب سے بڑے مسیحا اور محسن ہیں،خصوصاً اُمت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اپنے رسول کی حقیقی عظمت کی معرفت حاصل کرے ۔ اس معرفت کے فقدان کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے سارے مسائل الجھے ہوئے ہیں۔ 
۲۔ محبت رسول:
جب انسان کسی شخصیت کی معرفت حاصل کرلیتاہےاوراسے اس کے اندرپنہاں فضائل وکمالات اور محاسن کا علم ہوجاتاہے تو فطری طورپر اُسے اس سے محبت ہوجاتی ہے۔چنانچہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کے فضل وکمال،حسن وجمال،جودوسخاکا علم جب انسان کو ہوجائےگااور اسے یہ بھی معلوم ہوجائےگا کہ آپ نے انسانیت پر کیسے عظیم احسانات فرمائے ہیں تو وہ فطری  طورپر ان سے محبت کرنا شروع کردےگا اور اس طرح آپ کی شخصیت سے متعارف ہونے والے انسان پر یہ ذمہ داری  عائد ہوگی کہ وہ آپ سے محبت رکھے اور چوں کہ انسانیت پر آپ کا احسان سب سے بڑاہے اور حسن وخوبی میں آپ اولین  سے لےکر آخرین تک ساری دنیاکے انسانوں پر فائق ہیں، اس لیے یہ ذمہ داری بھی آئےگی کہ وہ سب سے زیادہ آپ سے محبت والفت کا مظاہرہ کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی ذات ماںباپ، آل اولاد،بھائی بہن، مال وتجارت اور دکان ومکان اور دوسری  دنیوی چیزوں سے زیادہ محبوب ہونی چاہیے۔( سورۂ توبہ: ۲۴) 
۳۔ تصدیق رسول:
اللہ تعالیٰ کاارشادہے: یقیناً ہم نے آپ کوشہادت دینے والا، خوشخبری دینے والا اورڈرانے والا بناکر بھیجاہےتاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر ایمان لاؤ۔(فتح:۸-۹)محبت والفت کا تیسرا حق یہی ہے کہ زبان سے محبوب کی شخصیت،رسالت کااقرارکیاجائے اور قلب سے اس کی تصدیق  کی جائے۔
۴۔ اطاعت رسول:
کسی شخصیت کی عظمت پر ایمان اور اس کے مشن پر غیر مشروط یقین کالازمی تقاضا اطاعت ہے،جس پر ایمان لایاگیا ہے اگر اس کی اطاعت نہیں کی جارہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی ایمان وتصدیق میں ہی کوئی نہ کوئی عیب اور نقص ہے۔ ایمان واطاعت کے درمیان لازم وملزوم کی نسبت ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتاکہ کامل تصدیق پائی جائے اور عمل نہ پایاجائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو،اللہ تم کو اپنا محبوب بنالےگااور تمہارے گناہوں کی مغفرت فرمادےگا۔(آل عمران:۳۱)محبت کی نشانی یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے محبوب سے جنون کی حد تک لگاؤ ہو کہ جس کو کسی سے محبت ہوتی ہے وہ ہمیشہ اس کے نام کی مالا جپتا ہے اور محبت واطاعت کا انعام معیت محبوب اور رفاقت حبیب کی شکل میں ملتاہے۔ارشادنبوی ہے:انسان جس سے محبت کرتا ہےاسی کے ساتھ ہوگا۔محبت ،ایمان اور اطاعت کی نشانی یہ ہے کہ انسان رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام اور آپ کے احکام کے بالمقابل کسی طرح سےکسی بھی چیز کو فوقیت نہ دے۔ 
۵۔ توقیر رسول:
انسان پر واجب ہے کہ وہ جس ذات کی عظمتوں سے آشنا ہے،وہ جس پر ایمان رکھتاہے اور جس کی وہ اطاعت کرتا ہے اس کی تعظیم وتوقیربجالانے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔اس کی تعظیم وتوقیر کا انکاردراصل معرفت،محبت ،ایمان اور اطاعت  میں خلل کا نتیجہ ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اے ایمان والو! اپنی آواز رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی آوازسے بلندنہ کرو،ان کی بارگاہ میں اس طرح بلندآواز سے نہ بولو جس طرح آپس میں بولتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہارے اعمال بےکارکردیے جائیں اور تم کو احساس بھی نہ ہو۔(حجرات:۲)’’شفاشریف ‘‘میںہے کہ آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کی تعظیم وتوقیر کا وہی حکم ہے جوزندگی کاہے۔حضرت ابوابراہیم تجیبی مالکی فرماتے ہیں کہ جب بھی مردمومن محبوب کائنات علیہ الصلاۃ والسلام کا تذکرہ کرےیا اس کے پاس آپ کا ذکرخیر ہوتو اس پر واجب ہے کہ اس کے اندر خشوع وخضوع پیدا ہواوراس وقت اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ظاہری والی ہیبت وعظمت کا اثر طاری ہو۔یہی سلف صالحین کا طریقہ اور ائمہ متقدمین کا شیوہ رہا ہے۔
۶۔ نصرت رسول:
جب انسان کی نظرمیں کوئی شخصیت معظم ہوگی تو لازمی طورپر وہ اس کی نصرت وحمایت میں اپنا سب کچھ نثارکرنے کا جذبہ رکھنے والا ہوگا۔گویا تعظیم کا لازمی نتیجہ محبوب ومعظم ذات اور اس کے مشن کی نصرت وحمایت  ہے۔ قرآن کریم میں اس کو تعزیرسے تعبیر کیاگیاہے۔(سورۂ فتح:۹) رسول کریم علیہ السلام کا ارشادہے:اپنے مال،اپنی ذات اور اپنی زبان سے مشرکوں  سے جہادکرو۔(ابوداؤد، حدیث: ۲۵۰۶)یعنی جان ومال،زبان اورہر ممکن طریقے سےرسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی نصرت وحمایت ان سے محبت رکھنے والے ہر فردبشرپر واجب ہے،اور آپ کی نصرت وحمایت کی نشانی یہ ہے کہ انسان آپ کی شریعت وسنت کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہے۔ہرممکن طریقے سے اس کی تفہیم اور اشاعت  کی کوشش کرے اور پھر آپ کی شان میں ہر قسم کی گستاخی کا راسخ علم اورداعیانہ حکمت کے ذریعے جواب دے۔
آج شریعت وسیرت کی غلط تعبیر وپیش کش ہورہی ہے، ایسے میںآج نصرت رسول کی بڑی اہمیت ہے اوراُمت پر محبت رسول کا یہ حق ہے کہ دنیا والوں تک آپ کی روشن شریعت وسیرت کو داعیانہ حکمت اور بہترسے بہتر اسلوب اور ذرائع کااستعمال کرتے  ہوئے پہنچایاجائے۔
۷۔ صلاۃ وسلام:
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:بےشک اللہ اور اُس کے فرشتے رسول پر صلاۃ بھیجتے ہیں،اے ایمان والو! تم بھی ان پر صلاۃ وسلام بھیجو۔(احزاب:۵۶)
حضرت ابوالعالیہ(متوفی:۹۳ھ)کے مطابق اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍکا معنی یہ ہے کہ یااللہ!تومقام بالا اور فرشتوں کے درمیان محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا کراور اُن کا ذکرخیرفرما۔’’السلام‘‘ اللہ تعالیٰ کےاسمائے حسنیٰ میں سےہے ۔اس طرح ’’ السلام علیک یا رسول اللہ‘‘ کا معنی یہ ہوگاکہ اللہ تعالیٰ آپ کا اور آپ کی شریعت وسیرت کا نگہبان ہو۔(الشفاء،الباب الرابع،الفصل الاول)علمائے اہل سنت کا اتفاق ہے رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر صلاۃ وسلام پڑھنا مستحب ہے۔امام ابن عطیہ فرماتے ہیںکہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام پر صلاۃ وسلام بھیجنا سنت مؤکدہ ہے  اور اس مبارک عمل کو وہی شخص ترک کرےگا اور اس سے وہی غافل ہوگاجس کے اندر کوئی خیرنہ ہو۔(تفسیر المحررالوجیز،ابن عطیہ،زیرآیت صلواعلیہ وسلموا تسلیماً)صلاۃ بھیجتے وقت مستحب یہ ہے کہ آپ کی آل کو بھی شامل رکھے؛کیوں کہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام سے جب صحابہ کرام نے پوچھاکہ یارسول اللہ! ہم صلاۃ کیسے بھیجیں تو آپ نے فرمایایہ کہو: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔(صحیح بخاری،باب الصلاۃ علی النبیﷺ)
۸۔ تأسی بالرسول:
انسانوںپر یہ بھی لازم ہے کہ وہ رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنامرشد وہادی اعظم اور مقتدائے اکمل سمجھیں ۔ باقی جوبھی ہادی ومقتدا ہوںگے،سب ان کے درکی چاکری اور ان کے نقوش قدم کی پیروی کرکے مرشد وہادی اور مقتدا ہوںگے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:یقیناً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ان لوگوں کے لیے اسوۂ حسنہ ہے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یادکرتے ہیں۔(احزاب:۲۱)اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی شخصیت پیکرقرآن اورقرآنی تعلیمات وربانی ہدایات کی ایک مجسم تصویر ہے۔جو بھی آئڈیل بنتاہے کسی بڑی شخصیت کے زیرنگرانی سجنے اورسنورنےکے بعدبنتاہے اور آپ کی ذات کوتو اس ذات نے سجایااور سنوارا تھاجو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: رحمٰن  نے آپ کو قرآن سکھایا۔  (رحمٰن) اور خود آپ کا ارشاد ہے: مجھے میرے رب نے اچھا ادب سکھایا ہے۔
 (کنزالعمال /۷، حدیث: ۱۸۶۷۳)
۹۔ محبت اہل بیت رسول:
انسانوں پر رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابہ کرام سے عمومی اور اہل بیت اطہار سے خصوصی طورپر محبت رکھی جائے۔اللہ تعالیٰ کا ارشادہے۔  آپ فرمادیں کہ میں تم سے اپنے قرابت داروں کی محبت کے علاوہ کسی بھی اجر کا مطالبہ نہیں کرتا۔(شوریٰ:۲۳)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ  جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے پوچھاکہ یارسول اللہ! آپ کے وہ قرابت دارجن کی محبت ہم پر واجب ہے،کون ہیں؟آپ نے فرمایاکہ علی،فاطمہ اور حسن وحسین۔ (معجم کبیر ازطبرانی،حدیث:۲۶۴۱)حضرت سعید بن جبیر نے فرمایاکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آیت مودت کے بارےمیں پوچھاگیاتو اُنھوں نے  فرمایاکہ مرادآل محمد کی قرابت ہے۔(بخاری،حدیث:۳۴۹۷)
۱۰۔معرفت سیرت واحوال صحابہ و اہل بیت :
 رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کا ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیاجائے،سمجھاجائے اور اُسے اپنی زندگی میں اتاراجائے۔ آپ کے نسب اور اہم واقعات زندگی کو زبانی یادرکھاجائے۔ یوں ہی صحابہ کرام اور اہل بیت کی زندگی سے آگاہی رکھی جائےتاکہ ہمیں ان سے ہدایت کی روشنی ملتی رہے۔مگرافسوس کی بات یہ ہے کہ اس تعلق سے امت مسلمہ میں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے،کیوںکہ لوگوں کو دنیاکے مختلف میدان میں مشہورلوگوں کے نام اور واقعات زندگی تومعلوم ہوتے ہیں لیکن رسول کریم علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرت، اور صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے نقوش حیات سے کوئی واقفیت  نہیں ہوتی۔اس جانب کوتاہی کی وجہ سے ہمارا رشتہ اپنے رسول، ان کے صحابہ اور اہل بیت سے کمزور ہوتا جارہا ہے اور اسی وجہ سے ہماری زندگیاں ایمانی احوال سے بےنور ہوتی جارہی ہیں۔