Tuesday 6 February 2018

شیخ محی الدین ابن عربی: احوال، افکار، آثار

1 comments
شیخ  محی الدین ابن عربی قدس سرہ
احوال، افکار، آثار
از قلم: شاہد رضا نجمی
--------------------------------------------------------------------
چھٹی صدی ہجری کا زمانہ ہے۔ ا ندلس کا ایک معروف شہر قرطبہ علم وفن، حکمت ودانائی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ جہاں علمی گیرائی اور فنی گہرائی کے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔ اربابِ فن اور صاحبان خرد جب اس شہر میں قدم رکھتے ہیں تو یہاں کی علمی آب وہوا سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ سلطان وقت کسی علمی جلالت اور روحانی کمال والے شخص کی تلاش وجستجو میں ہے، تاکہ اسے شہر قرطبہ کا قاضی القضاۃ مقرر کیا جائے۔ علم وفن کے اس معمورے میں کسی شخصیت کا انتخاب آسان نہیں تھا۔ دانش وران عصر کے مشورے پر ابوالولید محمد بن احمد کو قاضی القضاۃ کا عہدہ دیا جاتا ہے۔ اس انتخاب پر سب متفق ہوگئے، کسی نے کچھ لب کشائی نہیں کی۔ ابوالولید محمد بن احمد کو علامہ ابن رشد قرطبی اندلسی کے نام سے جانا جارہا ہے۔ فلسفہ، ریاضی، علم فلکیات، علم حساب، فن طب، علم حدیث اور علم قانون میں ان کا کوئی ہم سر نہیں۔ ارسطو کا فلسفہ دیکھ کر علم وفن کی کمالیت کے زعم میں گرفتار حضرات کی زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں، مگر علامہ ابن رشد ارسطو کے فلسفے پر سیر حاصل گفتگو کررہے ہیں، مبہمات کی تشریحات اور مجملات کی توضیحات کے ساتھ ارسطو جیسے فلسفی، مفکر اور قانون ساز پر تنقید بھی کررہے ہیں۔ ان کی دقیق فلسفہ فہمی اور واضح بیانی عرب عقلیت اور لاطینی فکر پر گہرے اثرات مرتب کررہی ہے۔ اب وہ عمر کے اس پڑائو پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے علمی بالیدگی اور تنقیدی شعور خوب پروان چڑھ چکا ہوتا ہے۔ حکمت ودانائی اور فراست وبصیرت اپنے سارے پر کھول دیتی ہے۔ انھیں خبر ملی کہ شہر اشبیلہ کا ایک نوخیزجوان اپنی کم عمری کے باوجود علم وحکمت، کمالیت وروحانیت اور کشف وشہود کے اس مقام پر فائز ہوچکا ہے جہاں تک پہنچنا صرف بتوفیق الٰہی ہی ممکن ہے۔وہ سراپا حیرت زدہ اور متعجب ہوگئے۔نوجوان سے ملاقات کی خواہش دل میں پیدا ہوئی۔ نوجوان کے والد سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ ایک بار ان سے اپنی خواہش کااظہار کیا۔ والد نے نوجوان کو ان کے پاس بھیج دیا۔ جوان جیسے ہی ان کے پاس پہنچا وہ اپنے روحانی وقار اور علمی طنطنے کی پرواہ کیے بغیر اس کی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور فرط محبت میں گلے سے لپٹالیا اور اشارے کی زبان میں صرف اتنا دریافت کیا: ’’واقعی!‘‘ نوجوان نے اثبات میں جواب دیا۔ یہ سن کر مسرت وشادمانی سے مثل گلاب کھل اٹھے۔ نوجوان نے ان کی مسرت وشادمانی بھانپ لی اور بول اٹھا: ’’نہیں!‘‘ یہ سن کر ان کا کھلا ہوا چہرہ پژمردگی کی طرف مائل ہوگیا، شدید انقباض طاری ہوا ، رنگ فق ہوگیا اور تردد وریب نے آگھیرا۔ پھر پوچھا: ’’تم نے امر کو کشف وشہود اور فیض الٰہی میں کیسا پایا؟ فکر ونظر نے جو کچھ ہمیں عطا کیا ہے، کیا امر وہی ہے؟‘‘ نوجوان نے کہا: ’’ہاں! اور نہیں!‘‘ اسی ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کے درمیان تو روحیں بدن کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں اور گردنیں جسم سے الگ ہوجاتی ہیں۔ اتنا سنتے ہی چہرے کا رنگ مزید زرد پڑگیا اور جسم کانپنے لگا۔ اپنی مسند پر گرگئے اور ’’لاحول ولاقوۃ الا باللہ‘‘ کی تکرار کرنے لگے۔ وہ نوجوان کے اشارے کو سمجھ چکے تھے اور انھیں اب کسی افہام وتفہیم کی حاجت نہیں تھی۔ نوجوان گھر واپس آگیا۔ ابھی چند ایام گزرے تھے کہ علامہ ابن رشد قرطبی کے دل میں پھر وصال ولقا کی خواہش جاگ اٹھی۔ نوجوان کے والد سے ملاقات کا عندیہ ظاہر کیا اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ وہ آکر مجھ سے ملیں، میں ان کے سامنے اپنا موقف رکھوں گا اور معلوم کروں گا کہ ہم دونوں کی فکر میں کیا مطابقت ہے۔ میں دلالت عقلیہ  سے تو اس حالت کا ممکن ہونا ثابت کرچکا ہوں، مگر اب تک میں نے کسی کو اس حالت میں نہیں دیکھا تھا۔ الحمد للہ! مجھے ایک ایسے صاحب حال وکمال کو دیکھنا نصیب ہوا جو سربستہ رازوں کو طشت از بام کرتا ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس کی زیارت کی توفیق بخشی۔ (کتاب المعراج /ابن عربی، تحقیق وشرح: دکتورہ سعاد الحکیم، ص:۱۵، دندرۃ للطباعۃ والنشر، بیروت)
آگے چل کر اس نوجوان کے علم وکمال، فضل وروحانیت کا شہرہ شرق تاغرب پورے اکناف عالم میں پھیل گیا۔ معاصرین، متأخرین اور اربابِ فکر ونظر نے اسے ’’البحر المحیط۔ ذو المواہب الالٰھیۃ۔ العطایا القدسیہ۔ مفتی الطریقین۔ حجۃ الفریقین۔ سلطان العارفین۔ برہان المحققین۔ محی الملۃ والدین۔ ترجمان العلوم الربانیۃ۔ صاحب الولایۃ العظمیٰ والصدیقۃ الکبریٰ۔ بحر المعارف الالٰھیۃ۔ قطب الوجود والکبریت الاحمر‘‘ جیسے درجنوں القابات وخطابات سے یاد کیا۔ اسی نوجوان کو ’’شیخ اکبر‘‘کا عظیم خطاب بھی ملا، جو اس کی علمی وروحانی شخصیت کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کے علاوہ یہ خطاب کسی اور فرد کو نہیں دیا گیا۔ وہ نوجوان شیخ محی الدین ابن عربی تھے جو عنفوان شباب کے وقت ہی سے اعلیٰ قدر ومنزلت کے حامل تھے اور کشف وشہود کے بڑے مقام پر فائز تھے۔ 
نام ونسب:-
شیخ ابن عربی کا پورا نام محمد بن علی بن محمد بن احمد بن علی حاتمی طائی اندلسی ہے۔  (کتاب المعراج /ابن عربی، ص:۱۳)
ولادت ومکانِ ولادت:-
 ۲۷؍ رمضان المبارک ۵۶۰ھ /مطابق ۱۱۶۵ء کو اندلس کے ایک شہر ’’مرسیہ‘‘ میں آپ کی ولادت ہوئی۔اس وقت وہاں سلطان ابوعبداللہ محمد بن مردنیش کی حکومت تھی۔ (ایضاً، ص:۱۳ )
خاندانی پس منظر:-
آپ کا خاندان قبیلۂ طی کے معروف رئیس عدی بن حاتم کے بھائی عبداللہ بن حاتم سے تھا۔ یہ خاندان دین ودنیا ہر دو لحاظ سے کافی غنی تصور کیا جاتا تھا۔ علم وفضل، تقویٰ وپرہیزگاری، مال وثروت میں دوسرے خاندانوں سے ممتاز ویگانہ تھا۔ شیخ ابن عربی کے والد علی بن محمد مرسیہ (اندلس) کے حاکم محمد بن سعید مردنیش کے خاص درباری تھے۔شیخ ابھی کم سن ہی تھے کہ مرسیہ پر موحدین کا قبضہ ہوگیا۔ اشبیلہ پہلے ہی سے موحدین کے زیر تصرف تھا؛ اس لیے آپ کا خاندان مرسیہ سے ہجرت کرکے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت ) آگیا۔ چند برس کے بعد امیر اشبیلہ ابویعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدے کی پیش کش ہوئی۔ آپ اپنے خاندان سمیت پھر اشبیلہ منتقل ہوگئے۔ کہولت سے لے کر جوانی تک کا زمانہ اشبیلہ ہی میں گزرا۔ والد گرامی علی بن محمد متقی وپرہیزگار، عابد وزاہد ، عالم وفاضل اور حکیم وصوفی مانے جاتے تھے۔ سلطان اشبیلہ نے انھیں اپنا معتمد اور وزیر خاص بنالیا تھا۔ ( رسائل ابن عربی، ۱۳ ؍۱۴، المجمع الثقافی، ۱۹۹۸ء)
شیخ ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں ان کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوگیا ۔ زندگی کی امید نہ رہی۔ لوگ میری شدید بے ہوشی دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے۔ انھیں محسوس ہوا کہ میں دارِ فانی سے رخصت ہوچکا ہوں۔ میں نے اسی حالت میں خواب دیکھا کہ کچھ وحشت ناک چہرے والے میرے قریب آکر مجھے اذیت دینا چاہ رہے ہیں۔ قریب ہی ایک حسین وجمیل، عطر بیز شخص مجھے ان کے نرغے سے بچارہا ہے۔ بالآخر اس کے آگے وحشت ناک چہرے والے ماند پڑگئے اور مغلوب ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ والد گرامی سرہانے بیٹھے سوگوار آنکھوں اور اشک بار پلکوں کے ساتھ سورۂ یٰسین کی تلاوت کررہے ہیں۔ میں نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا، سب عرض کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میری صحت وعافیت سب ان کے تصرفات، دعائوں اور سورۂ یٰسین کی برکت کا نتیجہ ہے۔ (کتاب المعرج /ابن عربی، ص:۱۱)
انھوں نے اپنی وفات کی خبر پندرہ روز قبل ہی دے دی تھی۔ فرمایا تھا کہ میں چہار شنبہ کے روز دنیا سے رخصت ہوجائوں گا۔ وفات کے دن شدید نقاہت کے باوجود بلاسہارا ٹیک لگاکر بیٹھے اور مجھ سے فرمایا: ’’یاولدی! الیوم یکون الرحیل واللقاء۔ فقلت لہٗ: کتب اللہ سلامتک فی سفرک ھٰذا وبارک لک فی لقاءک۔ فرمایا: بیٹا! آج سفر درپیش ہے۔ آج میں واصل بحق ہوجائوں گا۔ میں نے عرض کی: اللہ تعالیٰ آپ کا یہ سفر سہل وسلامتی کے ساتھ اختتام کو پہنچائے اور اپنے دیدار سے مشرف فرمائے۔ تھوڑی دیر بعد ان کی پیشانی میں ایک سفید نور ظاہر ہوا جو پھیل کر پورے جسم پر چھاگیا۔ دست مبارک کو بوسہ دے کر حسب حکم میں ان کے قریب سے ہٹ گیا۔ پھر جامع مسجد چلا گیا۔ ظہر کے وقت ان کی رحلت کی جاں کاہ خبر ملی۔ جب میں آیا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ابھی سو رہے ہیں۔ موت کا ان پر کوئی اثر نہیں تھا۔ اس وقت عجیب وغریب مشاہدات سامنے آئے۔ ہم نے اسی حالت میں انھیں دفن کردیا۔ (کتاب المعرج /ابن عربی، ص:۱۱)
 جد امجد محمد بن احمد اندلس کے قاضی اور جلیل القدر عالم تھے۔ خال محترم شیخ یحییٰ بن یغان اور ابومسلم خولانی ریاضت ومجاہدہ کے دل دادہ تھے۔ شیخ یحییٰ بن یغان ’’تلمسان‘‘ کے والی تھے۔ جب خشیت کا غلبہ ہوا تو ولایت چھوڑ کر ایک خدا رسیدہ بزرگ شیخ عبداللہ یحییٰ تونسانی کی حضوری اختیار کرلی۔ پہاڑوں سے لکڑیاں چنتے اور اسی علاقے میں جاکر فروخت کرتے جہاں برسوں حکمرانی اور فرماں روائی کی تھی۔ جوکچھ قیمت ملتی، اس سے بقدر ضرورت کھانا وغیرہ حاصل کرتے اور بقیہ رقم راہِ خدا میں خیرات کردیتے۔ لوگوں کی آنکھیں ان کی حالت زار دیکھ کر شبنمی ہوجاتیں، مگر وہ خوش وخرم دیوانہ وار اپنے کاموں میں مصروف رہتے۔دن گزر جاتا، رات اپنی مقررہ میعاد پوری کرکے رخصت ہوجاتی۔ مگروہ کسی نہ کسی کام میں خود کو مشغول رکھتے۔ تھکاوٹ کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس جہد مسلسل کے بدلے اللہ رب العزت نے انھیں کمال باطنی اور فائز المرامی سے سرفراز کیا، اسرار وحقائق کے معارف سے روشناس کرایا اور اپنے خاص الطاف وعنایات اور تجلیات ومشاہدات کے ابواب ان کے لیے وَا کردیے۔ شیخ یحییٰ تونسانی کے پاس اگرکوئی ضرورت مند حاضر ہوتا تو اس سے فرماتے: یحییٰ بن یغان سے دعا کرائو، وہ زہد وتقویٰ کا بادشاہ ہے کہ بادشاہت ترک کرکے زہد وتقویٰ کا مالک ہواہے۔ اگر میں اس کی جگہ ہوتا توشاید ہی یہ کرپاتا۔ ( نفحات الانس، تذکرہ: شیخ محی الدین محمد بن علی بن العربی)
شیخ ابن عربی کے دوسرے ماموں ابومسلم خولانی زہد وعبادت میں یکتائے روز گار تھے۔ اپنی عبادت وبندگی سے شب دیجور کی مسافتیں سمیٹ دیتے اور شب یلدا کی ظلمتوں کو مار بھگاتے۔ جہاں تھکن کا غلبہ ہوتا، لکڑی سے اپنے پیروں کو مارتے اور کہتے کہ تم اسی قابل ہو۔ 
شیخ کے عم محترم عبداللہ بن محمد بن عربی بھی آشنائے علم ومعرفت تھے۔ شیخ ابن عربی فرماتے ہیں: ان کی سانسوں سے ’’انفاس رحمانیہ‘‘ کی خوشبو آتی تھی۔ اس چیز کا میں نے خود مشاہدہ کیا ہے۔  (التدبیرات الالٰھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ /شیخ محی الدین ابن عربی، ص:۲۳)
تعلیم وتربیت:-
ابتدائی تعلیم کے مراحل آپ ’’مرسیہ‘‘ اور’’ لشبونہ‘‘ میں طے کرچکے تھے۔ اشبیلہ میں آپ کو وقت کے نامور عالموں کی صحبت ملی۔ مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ آپ کا بیشتر وقت صوفیہ کی خدمت میں گزرتا تھا۔ ادب، تاریخ، شاعری اور بعض دیگر علوم وفنون کا اکتساب ابوبکر محمد بن خلف بن صافی لخمی، ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن غالب شراط قرطبی، ابوبکر محمد بن احمد بن ابی حمزہ سے کیا۔ حدیث اور دیگر علوم شرعیہ کی تعلیم ابن زرقون انصاری، ابوحافظ ابن جد، ابوالولید حضرمی اور عبدالمنعم خزرجی وغیرہ سے حاصل کی۔ ابومحمد عبدالحق اشبیلی کے حلقۂ درس میں ایک عرصے تک شامل رہے۔
ابتدائی عمر میں شیخ کا رجحان زہد وتقویٰ، تصوف وتزکیہ اور علوم شرعیہ کی جانب نہیں تھا۔ وہ اپنی تصنیفات میں جا بجا اسے ’’ایام جاہلیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
شیخ ابن عربی اپنے ابتدائی احوال زیست بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں اشبیلہ کے کسی امیر کبیر کی دعوت میں مدعو تھا۔ خورد ونوش سے فراغت کے بعد جب جام گردش میں آیا اور صراحی مجھ تک پہنچی ، تو جام پکڑتے ہی غیب سے آواز آئی: یا محمد! مالھٰذا خلقت۔ میں جام رکھ کر پریشانی کے عالم میں باہر نکل آیا۔ دروازے پر وزیر کے چرواہے کو دیکھا، اس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا۔ میں اس کے ساتھ شہر سے باہر آیا اور اپنے کپڑوں کا اس کے کپڑوں کے ساتھ تبادلہ کرلیا۔ کئی گھنٹوں ویرانوں میں گھومنے کے بعد نہر کے کنارے واقع ایک قبرستان جا پہنچا۔ میں نے وہاں ڈیرا ڈالنے کا ارادہ کیا اور ایک بوسیدہ اور خستہ قبر میں بیٹھ گیا۔ مسلسل چار دنوں تک شب وروز ذکر الٰہی میں مصروف رہا۔ صرف نماز کی ادائیگی کے لیے ہی قبر سے باہر آتا۔ چار روز بعد جب باہر نکلا تو احساس ہوا کہ علوم ومعارف اور اسرار وحقائق مجھ پر منکشف کردیے گئے ہیں۔ (ایضاً، ص:۱۳)
اسفار علمیہ اور علوم دینیہ میں مہارت:-
شیخ اپنی فطری استعداد اور خصوصی فضل الٰہی سے اپنی جوانی ہی میں تمام علوم ومعارف پر ایسے حاوی ہوگئے کہ ارباب کمال کے مرجع وماویٰ بن گئے۔ شیخ کی پوری زندگی جذب وسرمستی، اذعان وایقان،جہد وسعی،شوق وذوق، زہد وتقویٰ، ریاضت ومجاہدہ، تعلیم وتعلم، تحقیق وتدقیق سے عبارت ہے۔ علوم ومعارف کی تبلیغ واشاعت ان کی زیست کا عنوان تھا۔ علوم دینیہ کی خاطر دور دراز ملکوں اور شہروں کا سفر ہی ان کی علمی دیوانگی اور روحانی فرزانگی پر شاہد ہے۔  
اشبیلہ آمد:- 
۵۶۸ھ میں شیخ محض آٹھ سال کی عمر ہی میں خاندان کے ہم راہ مرسیہ سے اشبیلہ آگئے تھے۔ اشبیلہ میں مدت قیام بیس سال رہی۔ اس دوران شیخ نے مختلف علوم وفنون میں کمال حاصل کیا۔ جب آپ کی علمی مہارت کا غلغلہ بلند ہونا شروع ہوا تو اشبیلہ کی حکومت نے دبیر اور کاتب کا عہدہ آپ کو سونپ دیا۔ شیخ اس عہدے پر ایک طویل عرصے تک فائز رہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں اشبیلہ کے باہر بھی ان کی علمی جلالت اور روحانی معارف واحوال کا شہرہ ہونے لگا۔ بہ کثرت علما ومشائخ ان سے فیض یاب ہونے لگے۔ شیخ نے سیکڑوں مسائل اور تصوف وسلوک کے اسرار ورموز پر ان کی عقدہ کشائی بھی کی۔  (شیخ اکبر محی الدین ابن عربی /شیخ شبیہ انور علوی، ص:۲۲، کتب خانہ خاظمیہ لکھنؤ)
قبرفیق کا سفر:-
اشبیلہ سے رندہ کے مضافات میں واقع قصبہ ’’قبرفیق‘‘ میں ابوعبداللہ بن جنید سے شیخ کی ملاقات ہوئی۔ شیخ نے کئی مسائل پر ان سے گفتگو کی۔ آپ نے معتزلہ کے حوالے سے ان سے اور ان کے متبعین سے مناظرہ بھی کیا اور انھیں اپنی طرف مائل کرلیا۔ سبھوں نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور وہ مذہب اعتزال سے دست بردار ہوگئے۔ (مرجع سابق، ص:۲۱؍۲۲) 
مورور کا سفر:-
شیخ نے ایک دفعہ ’’مورور‘‘ کا بھی سفر کیا۔ وہاں مشہور صوفی بزرگ عبداللہ بن استاد سے ملاقات ہوئی، جو شیخ ابومدین کے خاص تلمیذ اور تربیت یافتہ تھے۔ انھیں لوگ ’’حاجی مبرور‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ان کی ہی فرمائش پر آپ نے اپنی پہلی کتاب ’’التدبیرات الالٰھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ‘‘ تصنیف فرمائی۔ ( مرجع سابق، ص:۲۲)
قرطبہ کاسفر:-
شیخ اپنے والد ماجد کے ہم راہ شیخ ابومحمد مخلوف قبائلی مشہور صوفی وعارف سے ملنے کی خاطر قرطبہ روانہ ہوئے۔ قرطبہ ہی میں وہ عالم برزخ کے مشاہدے سے فیض یاب ہوئے اور مشہد اقدس کے مقام پر سابقہ امتوں کے اقطاب کی زیارت کی۔ (مرجع سابق، ص:۲۴)
بجایہ کا سفر:-
شیخ نے دومرتبہ بجایہ کا سفر کیا اور قطب وقت شیخ شعیب بن حسین کی بارگاہ میں حاضری دی۔ ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ اور بعض دیگر کتابوں میں ان کا ذکر بڑی عقیدت کے ساتھ فرمایا ہے۔ انھیں رجال الغیب میں شامل کیا ہے اور انھیں مقام ملک الملک کا قطب قرار دیا ہے۔( مرجع سابق، ص:۲۲)
سبتہ کا سفر:-
شیخ نے ۵۸۹ھ میں سبتہ کا سفر فرمایا۔ وہاں کے مشہور صوفی بزرگ ومحدث شیخ ابوالحسن یحییٰ بن صائغ سے حدیث سماعت کی۔ اپنے مؤلفات میں انھیں محدث، صوفی، کبریت احمر اور متبحر زاہد جیسے القاب وخطابات سے یاد کیا ہے۔ (شیخ اکبر محی الدین ابن عربی /شیخ شبیہ انور علوی، ص:۲۲، کتب خانہ خاظمیہ لکھنؤ)
بعض دیگر مقامات کا سفر:-
ان مقامات کے علاوہ شیخ نے کثیر دیگر مقامات تیونس، مرشانہ، تلمسان، طریف، فاس، سلا، مرئیہ، بغداد، مصر، حلب، دمشق، مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کا بھی سفر کیا ہے۔ ان مقامات پر آپ کی ملاقات متعدد علما ومشائخ سے ہوئی۔ شیخ نے ان سے اور انھوں نے شیخ سے استفادہ کیا۔ خلق خدا جوق در جوق، جماعت در جماعت علمی وروحانی تشنگی لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتی اور سیراب ہوکر واپس چلی جاتی۔ ( التدبیرات الالٰھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ، ص:۲۷ تا۲۹، تقدیم وتحقیق: عبدالحی عدلونی ادریسی، دار الثقافۃ)
شیخ مکین کی صاحب زادی ’نظام‘‘ (عین الشمس والبہا) سے ملاقات:- 
شیخ مکین الدین ابوشجاع زاہد بن رستم کا شمار شیخ ابن عربی کےشیوخ میں ہوتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی ملاقات شیخ مکین الدین سے ہوئی۔ ان سے درس ترمذی سماعت کی اور ان کی معمر ہم شیرہ عالمہ فخر النسا بنت رستم سے روایت حدیث حاصل کی۔ وہیں آپ کی ملاقات شیخ مکین الدین کی صاحب زادی ’’نظام‘‘ سے ہوئی۔ ان کا حسن وجمال، تبسم ریزی، شیفتگی اور دل ربائی دیکھ کر آپ نے جو الفاظ قلم بند فرمائے وہ آپ کے ادبی ذوق اور عمدہ سراپا نگاری پر دلالت کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

وکان لھٰذا الشیخ رضی اللہ عنہ بنت عذراء وطفیلۃ ھیفاء، تقید النظر وتزین المحاضر والمحاضر تحیر المناظر؛ تسمی بــ (النظام) وتلقب بہ (عین الشمس والبھاء) من العابدات العالمات السابحات الزاھدات، شیخۃ الحرمین، ومربیۃ البلد الأمین الاعظم بلامین، ساحرۃ الطرف عراقیۃ الظرف، ان اسبھت اثعبت وان اوجزت اعجزت، وان افصحت اوضحت، ان نطقت خرس قس بن ساعدۃ،  وان کرمت خنس معن بن زائدۃ، وان وفت قصر السموال خطاہ واغریٰ ورأیٰ بظھر الغرر وامتطاہ ولولا النفوس الضعیفۃ السریعۃ الامراض السیئۃ الاغراض لاخذت فی شرح ما اودع اللہ فی خلقھا من الحسنیٰ وفی خلقھا الذی روضۃ المزن، شمس بین العلماء، بستان بین الادباء، حقۃ فختومۃ، واسطۃ عقد منظومۃ، یتیمۃ دھرھا، کریمۃ عصرھا، سابغۃ  الکرام،  عالیۃ الھمم۔ (فتح الذخائر والاغلاق شرح ترجمان الاشواق /شیخ محی الدین ابن عربی، ص:۲۲؍۳۳،مشمولہ: دیوان ترجمان الاشواق، معتنی: عبدالرحمٰن مصطاوی، دار المعرفۃ، بیروت) 
ہمارے شیخ مکین الدین کی دوشیزہ کی صورت میں ایک خوبصورت صاحب زادی تھی۔ جس کا نام ’’نظام‘‘ اور لقب ’’عین الشمس والبہا‘‘ تھا۔ بڑی حسن وجمال والی۔ آنکھیں اسے دیکھ کر پتھرا جاتیں، محافل اس کی رونق سے پر کیف وپر بہار ہوجاتے، مناظر اس کی دید سے حیران رہ جاتے۔ عبادت گزار، تقویٰ شعار، زاہدہ وپارسا، عالمہ ، حرمین کی مقتدا اور ’’بلد امین‘‘ کی پروردہ، جادو نگاہ، خوب رو اورخوب سیرت تھی۔ جب اس کی گفتگو طوالت اختیار کرتی تو سخن درماندہ ہوجاتا، جب اختصار کا روپ لیتی تو بے سکت ہوجاتا۔ گفتگو نہایت واضح اور صاف ہوتی، لب کشائی کرتی تو ’’قس بن ساعدہ‘‘ (قبیلۂ بنو ایاد کا ایک ماہر حکیم اور معزز خطیب) گونگا نظر آتا، دست سخاوت کشادہ کرتی تو ’’معن بن زائدہ‘‘ (عرب کا ایک فصیح وبلیغ شخص، جو سخاوت کے لیے مشہور تھا) شرم سار ہوجاتا۔ اگر وعدہ وفائی پر آتی تو ’’سموال‘‘ (عہد جاہلی کا ایک بلیغ شاعر، جو وفا شعاری میں معروف تھا) بھی اپنے قدم پیچھے کھینچ لیتا اور بے وفائی کی پشت پھیر کر چلا جاتا۔ اگر لوگوں کے نفوس کم زور، مرضِ بدگمانی کے شکاراور بد بیں نہ ہوتے تو میں اس کے حسن خَلق وخُلق کی اور بھی منظر کشی کرتا۔ وہ علما کے درمیان تابناک سورج اور ادبا کے مابین ایک پر بہار گلسان ہے۔ عفت وپارسائی کا آبگینہ ، نور وزیبائی کے موتیوں پر پرویا ہوا مرقعہ اور شرافت وکرامت کا ایک اعلیٰ مجسمہ ہے۔ 
خرقہ شریف:-
تصوف میں شیخ ابن عربی کے خرقے کی نسبت حضرت خضر علیہ السلام تک پہنچتی ہے۔ 
فرماتے ہیں: 
لبست ھٰذۃ الخرقۃ من ید ابی الحسن علی بن عبداللہ بن جامع ببستانہ بمقلی خارج الموصل سنۃ احدی وست مائۃ ولبسھا ابن الجامع من ید الخضر، وفی الموضع الذی البسہ ایاھا، البسہ ابن جامع وعلی تلک الصورۃ من غیر زیادۃ ولانقصان۔ ( نفحات الانس ، شیخ محی الدین محمد بن علی بن العربی)
میں نے یہ مشہور خرقہ شیخ ابوالحسن علی بن عبداللہ ابن جامع کے مقدس ہاتھوں سے مقلی مضافات موصل میں واقع ان کے باغ میں ۶۰۱ھ میں پہنا اور ابن جامع نے حضرت خضر علیہ السلام کے ہاتھوں سے پہنا۔ جس جگہ اور جس طرح ابن جامع کو حضرت خضر علیہ السلام نے خرقہ پہنایا تھا، اسی جگہ اور اسی طرح بلا کمی وبیشی انھوں  نے مجھے خرقہ پہنایا۔  
مزید فرماتے ہیں: 
صحبت انا والخضر علیہ السلام وتأدبت بہٖ واخذت عنہ فی وصیۃ اوصانیھا شفاھًا التسلیم بمقامات الشیوخ وغیر ذالک ورأیت منہ ثلثۃ اشیاء من خرقۃ العواید: رأیتہٗ یمشی علی البحر وطی الارض ورأیتہٗ یصلی فی الھواء۔ (مرجع سابق)
مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی صحبت بابرکت نصیب ہوئی۔ میں نے ان سے آداب طریقت سیکھے۔ آپ نے میرے روبرو مجھے نصیحت فرمائی کہ مقامات شیوخ کو تسلیم کرلینا چاہیے، وغیرہ۔ میں نے ان میں تین خرق عادات چیزیں دیکھیں: (۱) وہ سمندر پر چلا کرتے تھے (۲)انھیں طی ارض حاصل تھا (۳) وہ فضا میں نماز کی ادائیگی کرتے تھے۔  
اساتذہ ومشائخ:-
شیخ ابن عربی نے طوالت کے خوف سے صرف ستر علما ومشائخ کا تذکرہ اپنی مختلف تصنیفات میں جا بجا کیا ہے، جن سے انھوں نے ظاہری وباطنی اکتساب فیض کیا۔ انھیں جہاں کہیں کسی باکمال کی موجودگی کا پتہ چلتا، اس کی بارگاہ میں عقیدت واحترام کے ساتھ باریابی کے لیے حاضرہوتے اور کسبِ فیض کرتے۔ چند اساتذہ ومشائخ کے اسما درج ذیل ہیں۔ 
(۱) حافظ ابوبکر بن محمد بن خلف صافی لخمی (۲) ابوا لقاسم عبدالرحمٰن بن غالب قرطبی (۳) قاضی ابومحمد عبداللہ بادی (۴) قاضی ابوبکر محمد بن احمد بن حمزہ (۳) ابوعبداللہ محمد بن سعید بن زرقون انصاری (۴) محدث ابومحمد عبدالحق بن محمد بن عبدالرحمٰن ازدی اشبیلی (۵) یونس بن یحییٰ بن ابوالحسن عباسی ہاشمی (۶) ابن شجاع زاہر بن رستم اصفہانی (۷) نصر بن ابی الفتوح بن علی حضرمی (۸) ابوعبداللہ بن علمون (۹) ابوالوائل بن العربی (۱۰) ابوالثنا محمد بن مظفر لبان۔ ( التدبیرات الالٰھیۃ، ص:۳۰ تا ۳۳)
تلامذہ:- 
شیخ ابن عربی نے ’’الفتوحات المکیۃ، التدبیرات الالٰھیۃ‘‘ اور دیگر مؤلفات میں اپنے اجلہ تلامذہ کا ذکر کیا ہے،جنھوں نے آپ سے کسب فیض کیا، آپ کی صحبت اختیار کی اور آپ سے علوم ومعارف کے گوہر نما اسرار وحقائق سیکھے۔ چند معروف تلامذہ کے اسما درج ذیل ہیں:
(۱) عبداللہ بدر حبشی (۲) اسماعیل بن سودکین بن عبداللہ نوری (۳) صدر الدین قونوی (۴) عفیف الدین تلمسانی (۵) ابوالمعالی محمد بن سوار المعروف نجم بن اسرائیل ۔( التدبیرات الالٰھیۃ، ص:۳۷ تا ۳۹)
وصال وتدفین:-
۶۲۰ھ میں شیخ ابن عربی نے دمشق کو اپنا وطن بنایا، جہاں کے حاکم الملک العادل نے آپ کو وہاں آکر رہنے کی دعوت دی تھی۔ شیخ اخیر عمر تک ریاضت ومجاہدہ اور تحریری امور میں  مشغول رہے۔ ۲۲؍ ربیع الثانی ۶۳۸ھ /مطابق ۱۲۴۰ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ مقام ’’صالحیہ‘‘ پر قاضی محی الدین کے پہلو میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔(الدر لثمین،الفرقۃ الاولیٰ ، الباب الاول،  ص:۱۴)
اذا دخل السین فی الشین:-
شیخ ابن عربی مستقبل کی پیشین گوئی کرتے ہوئے بعض دفعہ فرمایا کرتے تھے: ’’اذا دخل السین فی الشین، ظھر قبر محی الدین‘‘۔ (جب سین شین میں داخل ہوگا تو محی الدین کی قبر ظاہر ہوجائے گی۔ مریدین ومتبعین ان کا یہ جملہ سنا کرتے، مگر اس کی افہام وتفہیم سے قاصر رہتے۔ شیخ کی وفات کے بعد انقلابات زمانہ کی وجہ سے آپ کی تربت ایک طویل عرصے تک لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہی۔ جب سلطان سلیم عثمانی نے مصر اور شام کے علاقے فتح کیے تو ایک شب اسے خواب میں انتہائی حسن وجمال کے پیکر میں ڈھلے ہوئے ایک بزرگ دکھائی دیے۔ بزرگ اس جگہ کی کھدائی کا حکم دے رہے تھے جہاں شیخ ابن عربی کی تربت تھی۔ دوسرے روز سلطان سلیم نے حسب حکم کھدائی کروائی تو آپ کی تربت انور ظاہر ہوئی اور لوگوںپر آپ کے قول ’’’’اذا دخل السین فی الشین، ظھر قبر محی الدین‘‘ کی توضیح منکشف ہوئی۔ ’’سین‘‘ سے مراد سلطان سلیم ہے اور ’’شین‘‘ سے مراد ملک شام ہے۔ تربت زمین سے کافی گہرائی میں تھی۔ سلطان نے اس پر ایک عالی شان دیدہ زیب مقبرہ تعمیر کرایا۔ مقبرہ کے نزدیک ہی ایک مسجد اور مدرسہ قائم کیا اور بہت سے اوقاف نذر کیے۔ شیخ کے مقبرے میں ان کے ساتھ ان کے دونوں صاحب زادوں اور امیر عبدالقادر جزائری کے بھی مزارات ہیں۔( شیخ اکبر محی الدین ابن عربی /شیخ شبیہ انور علوی، ص:۶۱)
رشتۂ ازدواج:-
 شیخ ابن عربی نے کئی شادیاں کیں۔ بعض کا ذکر اپنے مؤلفات میں کیا ہے اور بعض کے ذکر سے احتراز کیا ہے۔ ان کے مؤلفات میں نہ مغربی حلقوں میں کی گئی شادی کا ذکرملتا ہے اور نہ ہی ان میں مشرق کی طرف ہجرت کے بعد کی جانے والی شادیوں کا کوئی تذکرہ ہے۔ آپ کی ایک اہلیہ بغداد میں ہی فوت ہوگئی تھیں۔ مریم بنت محمد بن عبدون بن عبدالرحمٰن بجانی نامی ایک پاک باز عفت ماٰب خاتون بھی آپ کے نکاح میں آئیں۔ شیخ ابن عربی کی روحانیت وولایت اور کشف وکرامت سے تعبیرشدہ زندگی میں ان کا اہم کردار ہے۔ آپ نے ’’الفتوحات المکیۃ’’ میں بڑی الفت ومودت کے ساتھ ان کا ذکر کیا ہے۔ فاطمہ بنت یونس بن یوسف نامی ایک اور صالحہ خاتون آپ کی زوجہ بتائی جاتی ہیں۔ سعدالدین محمد، عماد الدین اور ایک صاحب زادی کی ولادت انھیں کے بطن  اطہر سے ہوئی۔ (التدبیرات الالٰھیۃ ، ص:۲۴؍۲۵) علامہ صدر الدین قونوی ابھی کم سن ہی تھے کہ ان کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ بعد میں شیخ ابن عربی نے ان کی والدہ محترمہ سے نکاح کرلیا اور ان کی بڑے سلیقے سے جسمانی وروحانی پرورش وپرداخت کی۔ ( ۱- نفحات الانس ،تذکرہ: شیخ محی الدین محمد بن علی بن العربی۔ ۲- الدر لثمین فی مناقب الشیخ محی الدین ، الفرقۃ الاولیٰ ، الباب الاول، ص:۱۹) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دمشق کے مالکی قاضی کی دختر نیک اختر سے بھی آپ کا عقد ہوا۔ ( الدرا لثمین ، الفرقۃ الاولیٰ ، الباب الاول، ص:۱۹)
اولاد امجاد:-
شیخ کے دو صاحب زادے ہوئے۔ شیخ سعد الدین محمد اور شیخ عماد الدین ابوعبداللہ محمد۔ شیخ سعد الدین محمد ۶۱۸ھ میں ملطیہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک بڑے صوفی شاعر اور وجد وحال کے بزرگ تھے۔ ۶۵۶ھ میں دمشق میں وفات پائی۔ شیخ عماد الدین ابوعبداللہ محمد نے بھی تعلیم وتربیت والد گرامی کی بارگاہ نیاز سے حاصل کی۔ زہد وتقویٰ اور علم وفضل میں والد گرامی کے نقش قدم پر تھے۔ ۶۶۷ھ میں مدرسہ صالحیہ میں وفات پائی اور والد گرامی کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔ شیخ کی ایک صاحب زادی بھی تھیں، جن کا نام زینب تھا۔ شیرخوارگی سے ہی روحانیت وولایت اور کشف والہام کے درجے پر فائز تھیں۔ ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں آپ نے بڑے والہانہ انداز میں ان کا ذکر کیا ہے۔ (شیخ اکبر محی الدین ابن عربی /شیخ شبیہ انور علوی، ص:۶۱؍۶۲)
تصنیفات وتالیفات:-
صاحب’’ نفحات الانس‘‘ علامہ عبدالرحمٰن جامی نے امام یافعی کی ’’مرأۃ الجنان‘‘ کے حوالے سے شیخ ابن عربی کے مصنفات ومؤلفات کی تعداد ڈھائی سو سے کچھ زائد بتائی ہے۔ مگر شیخ ابوالحسن علی بن ابراہیم قاری بغدادی نے ’’الدر الثمین فی مناقب الشیخ محی الدین‘‘ میں پانچ سو سے زائد مصنفات کو شیخ کی طرف منسوب کیا ہے۔ ڈاکٹر عثمان یحییٰ نے فرانسیسی زبان میں شیخ ابن عربی کے مصنفات ورسائل پر ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ جس میں انھوں نے تحقیق وتدقیق کی روشنی میں شیخ ابن عربی کے ۹۹۱؍ مصنفات ورسائل شمار کرائے ہیں۔ ڈاکٹر محمد احمد طیب نے ’’مؤلفات ابن عربی: تاریخھا وتصنیفھا‘‘ کے نام سے اس کی تعریب کردی ہے جو ’’الھیئۃ  المصریۃ  العامۃ للکتاب، مصر‘‘ سے ۱۹۹۱ء میں شائع ہوچکا ہے۔
شیخ ابن عربی کے بعض مریدین نے شیخ سے ان کی تصنیفات وتالیفات کے بارے میں دریافت کیا۔ شیخ نے جوابا ایک مختصر رسالہ تحریر کیا جس میں اپنے ۱۸۰؍ سے زائد کتب ورسائل کا ذکر کیا۔ شیخ لکھتے ہیں: 
بعض احباب نے مجھ سے ان کتابوں کے بارے میں دریافت کیا ہے جو میں نے علم حقائق واسرار، تصوف وتزکیہ اور دوسرے علوم وفنون پر تصنیف کی ہیں۔ ان کی فرمائش پر میں یہاں اپنی کتابوں کے اسما ذکر کررہا ہوں۔ بعض وہ کتابیں ہیں جنھیں میں نے بعض لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا، مگر انھوں نے اب تک واپس نہیں کیا۔ کثیر کتابیں ایسی ہیں جو مکمل ہیں اور کچھ کتابیں ایسی بھی ہیں جو اب تک مکمل نہیں ہوسکی ہیں۔ ان تصنیفات وتالیفات سے میرا مقصد دوسرے مصنفین کی طرح نہیں ہے۔ بعض دفعہ مجھ پر حیرت انگیز حقائق واسرار کا ظہور ہوا، اگر میں انھیں ضبط تحریر نہ لاتا تو سوزشِ قلب مجھے جلاکر ختم کردیتی، محض اس اندیشے سے میں نے انھیں تحریری شکل دی اور بعض دفعہ عالم رؤیا اور حالت مکاشفہ میں من جانب اللہ مجھے لکھنے کا حکم ہوا تو میں نے حکم کی تعمیل میں لکھا۔(الدر لثمین، الباب الثانی، ص:۲۷)
پھر شیخ نے اپنے ۱۹۱؍ مصنفات ورسائل کا ذکر کیا ہے۔ ۱۱۷؍ رسائل ایسے بھی شمار کرائے ہیں جن کے بارے میں شیخ کا کہنا ہے: (ھٰذہٖ) الکتب التی أمرنی الحق سبحانہٗ وتعالیٰ بوضعھا، ولم یأمرنی باخراجھا للناس وبثھا فی الخلق۔ ان رسائل کی تالیفات کا اللہ رب العزت نے مجھے حکم دیا ہے، مگر لوگوں میں انھیں عام کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انھیں رسائل میں شیخ کا معروف رسالہ ’’فصوص الحکم‘‘ بھی ہے۔(الدر لثمین ، الباب الثانی، ص:۲۷ تا ۳۹)
شیخ کے چند مصنفات ورسائل کے اسما درج ذیل ہیں:
[۱] الاحتفال فیما کان علیہ رسول اللہ ﷺ من سنن الأحوال
[۲] الجمع والتفصیل فی اسرار معانی التنزیل 
[۳] الجذوۃ المقتبسۃ والخطرۃ المختلسۃ
[۴] المسبعات الواردۃ فی القرآن
[۵] مبایعۃ القطب بحضرۃ القرب
[۶] مناھج الارتقاء الی افتضاض ابکار البقاء
[۷] الاحلیٰ اسرار روحانیات الملاء الاعلیٰ
[۸] الدلیل فی ایضاح السبیل 
[۹] جلاء القلوب
[۱۰]التجلیات الالٰھیۃ
[۱۱] الاعلام باشارات أھل الالھام
[۱۲] السراج الوہاج فی شرح کلام الحلاج
[۱۳] الافہام فی شرح الاعلام
[۱۴] نتائج الاذکار وحدائق الازھار
[۱۵] المیزان فی صفۃ الانسان 
[۱۶] کنز الاسرار فیما روی عن النبی المختار من الادعیۃ والاذکار
[۱۷] انزال الغیوب علی مراتب القلوب 
[۱۸] مشاھد الاسرار القدسیۃ ومطالع الانوار الالٰھیۃ 
[۱۹] المنھج السدید الی ترتیب احوال الامام البسطامی ابی یزید
[۲۰] البغیۃ فی اختصار کتاب الحلیۃ 
[۲۱] مواقع النجوم ومطالع أھلۃ الاسرار والعلوم
[۲۲] الانزالات الوجودیۃ من الخزائن الجودیۃ
[۲۳] حلیۃ الابدال ومایظھر منھا المعارف والأحوال
[۲۴] الفتوحات المکیۃ
[۲۵] المقنع فی السھل الممتنع
[۲۶] المعلوم فی عقائد علماء الرسوم 
[۲۷] الأعلاق فی مکارم الأخلاق
[۲۸] الأمر المربوط فی معرفۃ مایحتاج أھل طریق اللہ من الشروط
[۲۹] القسم الالٰھی بالاسم الربانی
[۳۰] التدبیرات الالٰھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ 
رسائل ابن عربی:-
یہ شیخ ابن عربی کے تین رسائل (۱) عین الاعیان (۲) خروج الشخوص من بروج الخصوص (۳) انخراق الجنود الی الجلود وانغلاق الشھود الی السجود کا مجموعہ ہے۔ جو قاسم محمد عباس اور حسین محمد عجیل کی تحقیق وتدقیق کے ساتھ ۱۹۹۰ء میں منشورات المجمع الثقافی سے شائع ہوا ہے۔ ناشرین کا کہنا ہے کہ یہ رسائل پہلی مرتبہ زیور طباعت سے آراستہ ہورہے ہیں۔ رسالہ’’ انخراق الجنود الی الجلود‘‘ کافی ضخیم ہے۔ یہ دس فصلوں پر مشتمل ہے۔ (۱) شرح رتبۃ الشوخ وبیان قدر النافخ والمنفوخ (۲) أحوال المرید مع الشیخ وما ھو الصاحب والمصحوب والحب والمحبوب (۳) شرح سکان الارتباط الظاعنین من دائرۃ الاختلاط الی نقطۃ الالتقاء (۴) بحر الشکر فی نھر النکر (۵) فصل فی شرح مبتداء الطوفان (۶) المقدار فی نزول الجبار (۷) خاتمۃ المقدار فی نزول الجبار (۸) نشر البیاض فی روضۃ الریاض (۹) الرد علی الیھود (۱۰) کشف سر الوعد وبیان علامۃ الوجد۔ 
شیخ ابن عربی کے عقائد ونظریات:-
* ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں اپنے عقائد ونظریات کا ذکر کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
میرے احباب واعزا! میں تمھیں، پھر اللہ رب العزت کو، اس کے فرشتوں کو، تمام حاضرین اور سامعین مومنین کو اپنے نفس پر گواہ بناتا ہوں۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ایک ہے۔ الوہیت میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ بذاتہٖ موجود ہے، کسی موجد کا محتاج نہیں۔ وہ صرف وجود بالذات اور وجود بنفسہٖ سے موصوف ہے۔ وہ عرض نہیں ہے کہ اس کی بقا محال ہو، نہ ہی وہ جسم ہے کہ اس کے لیے جہت ومقابلہ ہو۔ زمانہ اسے محدود نہیں کرسکتا۔ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہ تھا، وہ جیسا تھا، ویسا ہی رہا اور ویسا ہی رہےگا۔ مکان ومتمکن دونوں کو اسی نے پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے اعلیٰ ہے کہ حوادث اس میں حلول کریں یا اس کے صفات اس کے بعد وجود میں آئے ہوں۔ وہ سب کو دیکھتا اور سنتا ہے۔ ’’بعد‘‘ اس کی سماعت کا حجاب نہیں بن سکتا۔ اس کے قریب ہونے کے باوجود بھی ’’قرب‘‘ اس کی بصارت کا حجاب نہیں ہوسکتا۔ دل کی باتیں بھی وہ سنتا ہے۔ ہاتھ کے رگڑ کی خفیف سی آواز بھی اس کے دائرۂ سماعت میں آتی ہے۔ سیاہ چیزوں کو ظلمت وتاریکی میں اور پانی کو پانی میں دیکھتا ہے۔ نہ ریزش وامتزاج اس کے لیے حجاب ہے، نہ ظلمات ونور اسے مانع ہے۔ میں توحید الٰہی کا قائل ہوں۔ سرور سروراں، رحمت عالمیاں کی عظمت ورفعت کا معترف ہوں۔ آپ سراج منیر ہیں، شمع روشن ہیں۔ قبر میں منکر نکیر کا سوال، اجسام کا قبروں سے اٹھنا، جنت ودوزخ، انبیا، ملائکہ اور مومنین کی شفاعت، حوض کوثر، پل صراط سے گزر، انبیائے کرام پر نازل شدہ کتب کے عبارات ومطالب سبھی حق ہیں۔ میں ان تمام چیزوں کی شہادت دیتا ہوں۔ یہ میری امانت ہے، جس کے پا س یہ امانت پہنچے وہ اسے عام کرے، اگر کوئی سوال کرے تو اسے ظاہر کرے۔ اللہ رب العزت ہمیں ایمان سے نفع بخشے اور ہم اس دارِ فانی سے رحلت کے وقت ایمان ہی پر ثابت وقائم رکھے۔ (شیخ اکبر محی الدین ابن عربی /شیخ شبیہ انور علوی، ص:۶۴تا  ۷۱)
من قال بالحلول فدینہٗ معلول، وماقال بالاتحاد الا أھل الالحاد۔  (الیواقیت والجواہر/ امام عبدالوہاب شعرانی، ج: ا،ص:۵۸، دار احیاء التراث العر بی) جو حلول واتحاد کا قول کرے وہ دینی اعتبار سے مریض ہے اور اتحاد کا قول صرف ملحدین نے کیا ہے۔ 
لوصح أن یرقی الانسان عن انسانیتہ والملک عن ملکیتہ ویتحد بخالقہ تعالیٰ، لصح انقلاب الحقائق وخرج الالٰہ عن کونہ الٰھا، وصار الخلق خالقا، والخالق خلقا۔  ( الفتوحات المکیۃ /شیخ ابن عربی، الباب الرابع عشر وثلاث مائۃ، ج:۵، ص:۷۸۔ دار الکتب العلمیۃ، بیروت) اگریہ درست ہوجائے کہ انسان درجۂ انسانیت سے، فرشتے صفت ملکوتیت سے نکل کر اللہ رب العزت کے ساتھ متحد ہوتے ہیں، توحقائق کا منقلب ہونا، معبود کا دائرۂ معبودیت سے نکل جانا، مخلوق کا خالق ہونا اور خالق کا مخلوق ہونا درست ہوجائے گا۔ 
شیخ ابن عربی کی بظاہر خلاف شرع نظر آنے والی عبارتوں پربیک جنبش قلم تفسیق، تضلیل یا تکفیر کا حکم لگانے سے پہلے شیخ ابن عربی کے مذکورہ عقائد ونظریات کو بغور دیکھ لیا جائے۔ یہ عقائد ونظریات بعینہا اہل سنت وجماعت کےمتفقہ عقائد ہیں۔ ان میں اور دیگر متنازعہ فیہا عبارتوں میں تضاد ہے۔ یا تو متنازعہ عبارتوں کے حوالے سے شیخ ابن عربی کو معذور سمجھا جائے اور انھیں کسی ملحد شریر کا اضافہ سمجھا جائے، (جیسا کہ بعض علما نے یہی روش اپنائی ہے) یا پھر صوفیانہ احوال وافکار کی روشنی میں انھیں سمجھ کر ان کے صحیح مطالب نکالے جائیں۔(جیسا کہ جلیل القدر ائمہ نے یہی صورت اپنائی ہے) یہ دونوں صورتیں تفسیق، تضلیل اور تکفیر کی صورت سے ہزار درجہا بہتر ہیں۔ 
شیخ ابن عربی کے حوالے سے طبقات علما:-
شیخ اکبر کی بعض عبارتیں اپنے ظواہر وبواطن ہر دو لحاظ سے کافی پر اسرار اور پیچیدہ نکلیں۔ جس کی بنا پر مسلمانوں کے بہترین دماغ متأثر ہوئے۔ تشنگانِ معرفت نے ان کی کتابوں کو آنکھوں سے لگایا اور ان میں معرفت الٰہی کی راہیں تلاش کیں۔مگر عقول نارسا آپ کی علمی وروحانی شخصیت کے پیچ وخم میں الجھ کر رہ گئیں اور آگےنہ بڑھ سکیں۔ شیخ ابن عربی کی عبارتیں ایک بحر زخار کی طرح ہیں، جس میں مختلف علوم ومعارف کے چشمے جاری ہیں۔ آب شیریں اور آب نمکین۔ حسب مذاق اور بقدر ظرف ہر شخص کو اپنے پینے کی جگہ معلوم ہے۔ بعض آب شیریں نوش کرتے ہیں اور بعض آب نمکین ہی کو سمندر کا کل حصہ گمان کرلیتے ہیں۔ آب شیریں نوش کرنےوالے علوم ومعارف کے میدان میں آپ کی قسمیں کھاتے ہیں اور کمال وروحانیت کی شہادت دیتے ہیں۔ جب کہ آب نمکین کا مزا چکھنے والے تفسیق وتضلیل وتکفیر سے آگے راہ نہیں پاتے۔   
آپ کی شخصیت اس قدر متنوع اور محیر العقول ہے کہ خام کار عقلیں تو اس تک پہنچ ہی نہیں سکتیں۔ طہارت باطنی، وسیع العلمی، قادر الکلامی اور تمام جزئیات اور مختلف الانواع کلمات کی تعبیر وتفسیر میں آپ کا کوئی نظیر نہیں ملتا۔ 
شیخ ابن عربی کے افکار ونظریات کو لے کر علمائے اہل سنت مختلف طبقات میں تقسیم ہوگئے:
پہلا طبقہ:-
پہلا طبقہ ان اربابِ علم وحکمت کا ہے جنھوں نے شیخ کے محیر العقول مصنفات ومؤلفات اور افکار ونظریات کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا اور ان کی علمی جلالت، کمال وروحانیت اور تبحر وتحقق کو تسلیم کیا، انھیں ولی کامل، عارف باللہ اور علم اسرار وحقائق کے مخزن کی حیثیت سے قبول کیا ، ان کے دفاع وتائید میں کتابیں لکھیں، علما سے مناظرے کیے اور آفاق عالم میں ان کےکلمات کی حقیقی تعبیر وتشریح کے لیے کوشاں رہے۔ 
ان میں شیخ کے معاصرین بھی آتے ہیں اور بعض متأخرین بھی۔ امام ابن حجر ہیثمی شافعی، امام عبدالوہاب شعرانی، شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ سعد الدین محمد بن مؤید حموی، قاضی شیخ شمس الدین خوبی، شیخ ابوعبداللہ مقدسی،شیخ مجد الدین فیروز آبادی، شیخ سراج الدین مخزومی، کمال الدین زملکانی، صلاح الدین صفدی، امام فخرالدین رازی اور شیخ علاء الدین مخدوم مہائمی  رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا نام اس طبقے میں کافی نمایاں ہے۔  
 امام ابن حجر ہیثمی شافعی  [۹۷۴ھ]
’’الفتاوی الحدیثیہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
ہمارے وہ مشائخ علما وحکما جن کی بدولت آسمان سے بارش کا نزول ہوتاہے، خلق خدا احکام اسلامی کی تشریح، احوال ومعارف اور مقامات وارشادات کی توضیح میں جن سے رجوع کرتی ہے، ان سے ہم نے یہی سنا ہے کہ: شیخ محی الدین ابن عربی عارفین اولیا اور عاملین علما سے تھے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ اپنے زمانے کے سب سے یگانہ ومنفرد عالم تھے۔ وہ خود لائق اتباع تھے، انھیں کسی کے اتباع کی حاجت نہ تھی۔ تحقیق وتدقیق اور کشف وکلام میں ایک بحر بے کراں تھے۔ علم وفن کے ایسے امام جو نہ مغالطے کے شکار ہوئے، نہ ریب وشک کے۔ ورع وتقویٰ، سنت نبوی پر استقامت اور مجاہدہ کرنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔ (الفتاوی الحدیثیہ /امام ابن حجر ہیثمی۔ ص:۲۹۵، مطلب: ان ابن عربی مکث ثلاثۃ اشھر علی وضوء واحد، دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر، بیروت۔) 
 امام عبدالوہاب شعرانی  [۹۷۳ھ] 
امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہٗ [۹۷۳ھ]نے شیخ ابن عربی کے دفاع وتائید اور افکار ونظریات کی توضیح وتشریح میں کئی گراں قدر کتابیں تصنیف کیں۔ ’’الیواقیت والجواہر‘‘ اور  ’’القول المبین فی الرد عن الشیخ محی الدین‘‘  شیخ ابن عربی سے آپ کے والہانہ الفت ومودت کی روشن دلیل ہیں۔ ’’لواقح الانوار القدسیۃالمختصر من الفتوحات المکیۃ‘‘ کے عنوان سے آپ نے ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ کی تلخیص کی۔ پھر ’’الکبریت الاحمر فی علوم الشیخ الاکبر‘‘ نامی رسالے میں اس کا بھی اختصار تیار کیا۔ عالمی سطح پر شیخ ابن عربی کے روحانی کمالات، علمی فیضانات اور فکری انقلابات کی تشہیر میں آپ کا نمایاں کردار ہے۔
 ’’الیواقیت  والجواہر‘‘ میں شیخ کے روحانی اوصاف کا یوں ذکر کرتے ہیں:
ان الشیخ من کمل العارفین باجماع اھل الطریق وکان جلیس رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم علی الدوام۔  (الیواقیت والجواہر، ج:۱،ص:۲۴)
اہل طریقت کا اس پر اجماع ہے کہ شیخ ابن عربی کاملین عارفین کے طبقے سے تھے اور انھیں حضور اکرم ﷺ کی دائمی ہم نشینی حاصل تھی۔  
شیخ مجد الدین فیروز آبادی  [۸۱۷ھ] 
صاحب ’’القاموس‘‘ شیخ مجد الدین محمد بن یعقوب شافعی فیروز آبادی قدس سرہٗ (۸۱۷ھ)نے شیخ ابن عربی کی حمایت میں دو وقیع رسالے تصنیف کیے۔ علی بن خیاط کی دریدہ دہنی اور ہرزہ سرائی کا جواب دیتے ہوئے ’’الاغتباط بمعالجۃ ابن الخیاط‘‘ تصنیف کی اور دیگر معترضین کا رد کرتے ہوئے ’’الرد علی المعترضین علی محی الدین‘‘ تالیف کی۔ شیخ کی مدح سرائی میں یوں رطب اللسان ہیں: 
 صدیق کبیر، شیخ طریقت، امام المحققین شیخ ابن عربی کی برکات نے روئے زمین کو منور کردیا۔ ان کی دعوت وتبلیغ نے آسمان کا سینہ شق کردیا۔ ان کے مصنفات حقائق ومعارف کا بحر زخار ہیں۔ حقیقت وشریعت کے علوم میں دور دور تک ان کا کوئی مقابل نظر نہیں آتا۔ وہ جب ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ کے مسودے سے فارغ ہوئے تو بغیر جلد بندی وجز بندی کے کعبۃ اللہ کی چھت پر اسے رکھ آئے اور پورے ایک سال بعد اسے اتار کر لائے۔ اس عرصے میں بارش بھی ہوئی اور آندھیاں بھی آئیں، لیکن اس کا ایک صفحہ بھی خراب نہ ہوا۔ اس سے جہاں اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی منشا یہ تھی کہ یہ کتاب آئندہ زمانے میں باقی رہے، وہیں  اس سے شیخ اکبر کی کرامت کا بھی پتہ چلتا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ آج تک علم شریعت وحقیقت میں کوئی شخص ان کے مبلغ علم کو پہنچا ہو۔ وہ ایک ناپیدا کنار دریا تھے۔ ان کی تصنیفات بحر زخار ہیں۔ آج تک کسی نے ان کی طرح رموز وحقائق نہیں بیان کیے۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ حق سے تقرب عطا کرتا ہے۔ وہ اپنے زمانے میں ولایت عظمیٰ اور صدیقیت کبریٰ کے مالک تھے۔ جس نے ان کا انکار کیا وہ نہایت پرخطر واقعات اور عبرت ناک حالات سے دوچار ہوا۔ شیخ اکبر کے منکر وہی لوگ ہیں جن کا روحانیت سے واسطہ نہیں اور محققین کے مشرب میں جن کا کوئی حصہ نہیں۔ وہ اہل تحقیق وتوحید کے امام وپیشوا اور علوم ظاہری وباطنی میں یکتا وبےنظیر ہیں۔ ( الیواقیت والجواہر، ص:۲۴(۲) الدر المختار، ص:۳۴۷، باب المرتد، دار الکتب العلمیہ، بیروت) 
 شیخ ابویحییٰ زکریا قزوینی  [۶۸۲ھ]
ملک العلما، اقضی القضاۃ ابویحییٰ زکریا بن محمد بن محمود انسی قزوینی نے بارہ جلدوں میں  ’’اٰثار البلاد واخبار العباد‘‘ نامی کتاب تصنیف کی۔ شہر اشبیلہ کے تذکرے میں لکھتے ہیں: 
اشبیلہ اندلس کا ایک بڑا شہر ہے۔ صاف وشفاف ہوائیں، آب شیریں، پختہ زمین، عمدہ کھیتی اور مختلف الانواع ثمر والی زمین ہے۔ شیخ امام، عالم، فاضل، مکمل، سلطان العارفین، محی الحق والدین ابوعبداللہ محمد بن علی بن محمد بن احمد بن علی حاتمی طائی اندلسی قدس سرہٗ بھی وہیں کے ہیں۔ میں نے انھیں دمشق میں ۶۳۰ھ میں دیکھا تھا۔ وہ شیخ، عالم، عارف،علوم شریعت وحقیقت کے سمندر، اپنے عصر کے مرجع وماویٰ تھے۔ عظمت شان اور علو مکان میں ان کا کوئی نظیر نہیں تھا۔ کثرت فوائد پر مشتمل ان کی کثیر تصنیفات ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ شہر اشبیلہ کے ایک راستے میں کھجور کا ایک درخت لگا ہوا تھا۔ جو راہ گزر لوگوں پر جھکا ہوا تھا۔ لوگوں نے باہم مشورہ کرکے اسے کاٹ گرانے کا ارادہ کیا۔ شیخ محی الدین کہتے ہیں: میں نے اس رات خواب میں حضور ﷺ کی زیارت کی۔ آپ اسی درخت کے پاس قیام فرما ہیں اور وہ درخت آپ کی بارگاہ میں لوگوں کی شکایت کررہا ہے: یارسول اللہ ﷺ! لوگ مجھے کاٹ گرانا چاہتے ہیں؛ کیوں کہ میری وجہ سے لوگوں کو گزرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے اپنا دست اقدس اس درخت پر پھیرا، جس کی برکت سے وہ سیدھا ہوگیا۔ جب میں بیدار ہوا تو اس درخت کے پاس گیا۔ میں نےاسے حقیقۃ سیدھا پایا۔ میں نے لوگوں سے خواب کا ذکر کیا تو سب تعجب میں پڑگئے اور انھوں نےاسے ایک متبرک جگہ تصور کرلیا۔
(الدر لثمین، الباب الاول، ص: ۱۹؍ ۲۰)
 شیخ سراج الدین مخزومی  [۸۸۵ھ]
شیخ سراج الدین مخزومی اپنے اصحاب سے اکثر فرمایا کرتے تھے: 
شیخ اکبر کے کسی کلام کا انکار اور ان پر اعتراض نہ کرو؛ کیوں کہ اولیاء اللہ کا لحم مسموم (گوشت زہریلا) ہوتا ہے۔ ان سے بغض وعناد رکھنے والے اکثر نصرانی ہوکر مرگئے اور جو کوئی ان کی شان میں زبان درازی کرے گا وہ دل کی موت میں مبتلا ہوگا۔ (الیواقیت والجواہر،۱/۲۵)
 شیخ صلاح الدین صفدی  [۷۶۴ھ]
شیخ صلاح الدین صفدی فرماتے ہیں: 
من أراد أن ینظر الی کلام اھل العلوم اللدنیۃ، فلینظر فی کتب الشیخ  محی الدین بن العربی۔ جو کسی علم لدنی کے حامل شخص کا کلام دیکھنا چاہتا ہو، تو وہ شیخ محی الدین ابن عربی کی کتابیں دیکھے۔ (الیواقیت والجواہر،۱/۲۵)
 مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی  [۱۰۳۴ھ]
مجدد الف ثانی، قاضی محمد اسماعیل فرید آبادی کو مکتوب لکھتے ہیں:
متقدمین کے زمانے میں یہ مسئلہ توحید پوری طرح واضح نہیں ہوا تھا۔ جو شخص مغلوب الاحوال ہوتا اس کی زبان پر ایسے کلمات آجاتے تھے اور وہ سکر ومدہوشی کی وجہ سے ان الفاظ کے صدور کی وجہ معلوم نہیں کرسکتا تھا۔ جناب شیخ  بزرگ وار محی الدین ابن عربی کا دور آیا تو انھوں نے اس دقیق مسئلے کی شرح وبسط کےساتھ توضیح کی اور صرفی ونحوی رنگ وآہنگ کے ساتھ اسے مدون کیا۔ باوجود ان کے شرح وبسط کے ان کے مطلب کو ایک جماعت نہیں سمجھی اور اس نے شیخ اکبر کو مطعون کیا۔ جناب شیخ اپنی اکثر تحقیقات میں حق پر ہیں اور ان پر طعن کرنے والے صواب سے دور۔ جناب شیخ نے اس مسئلے میں جو تحقیق کی ہے اس سے ان کی بزرگی اور وفور علمی کا اندازہ لگانا چاہیے، نہ یہ کہ ان پر طعن اور ان کے کلام کو رد کیا جائے۔ (مکتوبات مجدد الف ثانی، ج:۳، مکتوب:۸۹، ص:۱۵۴؍۱۵۵، مطبع منشی نول کشور)
دوسرا طبقہ:-
دوسرے طبقے میں وہ لوگ آتے ہیں جو شیخ کے افکار ونظریات پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے ان کے مقام ومرتبہ کو دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ امام شرف الدین مناوی، قاضی شوکانی وغیرہ کا شمار اسی طبقے میں ہوتا ہے۔ 
 امام شرف الدین مناوی  [۸۷۱ھ]
امام شرف الدین مناوی سے شیخ ابن عربی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
 ان کے حوالے سے سکوت اسلم ہے۔ یہی ہر تقویٰ شعار کے لیے مناسب ہے جسے اپنی ہلاکت کا خوف ہو۔ (تنبیہ الغبی بتبرئۃ ابن العربی /امام جلال الدین سیوطی، ص:۴) 
 قاضی محمد بن علی شوکانی  [م:۱۲۵۰ھ]
قاضی محمد بن علی شوکانی (م:۱۲۵۰ھ) اولا شیخ ابن عربی کے ناقدین میں سے تھے، حتی کہ ان کی اور ان کے متبعین کی تکفیر بھی کردی تھی۔ آخر حیات میں اپنے تکفیر کے قول سے رجوع کرلیا۔ منصور حلاج اور ابن عربی کے حوالے سے کیے گئے سوال پر سید قاسم بن احمد بن عبداللہ (م:۱۲۱۷ھ) کے تذکرے میں لکھتے ہیں: 
میں نے اس سوال کا جواب ’’الصوارم الحداد القاطعۃ لعلائق مقالات ارباب الاتحاد‘‘ نامی اپنے رسالے میں دے دیا ہے۔ وہ جواب والی تحریر عنفوان شباب کی تھی۔ اب میں ان سب کے بارے میں توقف کرتا ہوں اور ان کے ان تمام اقوال وافعال سے براءت کا اظہار کرتا ہوں جو اس شریعت بیضا کے مخالف ہیں جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ اللہ رب العزت نے مجھے اس کی تکفیر کا مکلف نہیں بنایا ہے جس کے ظاہری معاملات اسلامی ہوں۔ ( البدر الطالع /قاضی شوکانی، ج:۲، ص:۳۷، تذکرہ:سید قاسم بن احمد بن عبداللہ، دارالکتاب الاسلامی، قاہرہ)
تیسرا طبقہ:-
اس طبقے نے شیخ کے بعض بظاہر شریعت سے متصادم افکار ونظریات کے حوالے سے شیخ کو معذور ٹھہرایا اور ان کے حال ومقام کی بات کہہ کر خاموشی اختیار کرلی۔ علامہ علاء الدین حصکفی، امام جلال الدین سیوطی وغیرہ اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
 امام جلال الدین سیوطی  [م:۹۱۱ھ] 
امام جلال الدین سیوطی نے ’’تنبیہ الغبی بتبرئۃ ابن العربی‘‘ کے نام سے شیخ ابن عربی کے دفاع میں ایک رسالہ تصنیف کیا ہے، جس میں شیخ پر ہونے والے اعتراضات کی حقیقت کو افشا کیا ہے اور شیخ کے روحانی کمالات ومقامات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی مختلف فیہ عبارتوں  کے مطالعے سے احتراز کی تلقین کی ہے۔ لکھتے ہیں:
ابن عربی کے حوالے سے میرے نزدیک قول فیصل وہی ہے، جس سے نہ ان کے معتقدین راضی ہوں گے اور نہ ان کے منکرین، اور وہ قول فیصل ان کی ولایت کا ہے، مگر ان کی کتابوں کے مطالعے سے احتراز چاہیے۔ خود ان کے ہی قول سے منقول ہے: نحن قوم یحرم النظر فی کتبنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیہ کے یہاں الفاظ کی خود اپنی اصطلاحات ہیں، جن سے وہ ایسے معانی مراد لیتے ہیں جو فقہا کے یہاں متعارف نہیں ہیں۔ (تنبیہ الغبی بتبرئۃ ابن العربی /امام جلال الدین سیوطی، ص:۴)
 علامہ علاء الدین حصکفی قدس سرہٗ [م:۱۰۸۸ھ]
صاحب در مختارشیخ محمد بن علی المعروف علامہ علاء الدین حصکفی قدس سرہٗ [م:۱۰۸۸ھ] سے دریافت کیا گیا: اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو یہ کہے کہ شیخ محی الدین ابن عربی کی تصنیف کردہ کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ کے مضامین خلاف شرع ہیں۔ ابن عربی نے اس کی تصنیف بدعت وضلالت کی تنشیر کے لیے کی ہے۔ جو اس کا مطالعہ کرے وہ ملحد ہے۔ آپ نے فرمایا:
 ہاں! اس کتاب میں کچھ ایسے کلمات ہیں، جو خلاف شرع ہیں۔ بعض متصلفین نے انھیں زبردستی شرعی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ کسی یہودی نے ان کلمات کا شیخ پر افترا کیا ہے۔ ان کلمات کے مطالعے سے احتراز میں احتیاط لازم ہے۔ وقد صدر أمر سلطانی بالنھی فیجب الاجتناب من کل وجہ۔ اس حوالے سے بادشاہ کا حکم صادر ہوچکا ہے، اس لیے ان کی کتابوں سے اجتناب واجب ہے۔(الدر المختار ، ص:۳۴۷، باب المرتد، کتاب الجہاد)
چوتھا طبقہ:-
چوتھا طبقہ وہ ہے جو معارف ولطائف اور اسرار وحقائق تک کامل رسائی نہ ہونے کی بنا پر شیخ ابن عربی کے اقوال وافکار کو ظاہر شریعت سے ہم آہنگ نہ کرپایا اور شیخ کو گم راہ وبے دین، فاسق وزندیق سمجھنے لگا۔ صرف یہی نہیں بلکہ شیخ پر لعنت وملامت اور بغض وعناد کے اظہار ہی کو متاع دین و دانش اور سرمایۂ آخرت گمان کربیٹھا۔ ملاعلی قاری، ابن تیمیہ، ابن خلدون، ابوزرعہ عراقی، ابوحیان اندلسی، علی بن خیاط کا نام ابن عربی کے مخالفین وناقدین میں بڑا معروف ہے۔ 
 شیخ ولی الدین ابوزرعہ عراقی  [م:۸۲۶ھ]
ابوزرعہ عراقی کہتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’فصوص الحکم‘‘ کفر صریح پر مشتمل ہے۔ اسی طرح ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ بھی ہے۔ اگر واقعی یہ کلمات ابن عربی سے صادر ہوئے ہیں اور وفات تک وہ انھی کے قائل تھے تووہ کافر ہیں اور بلاریب ہمیشہ جہنم میں رہنے والے ہیں۔  (عقیدۃ ابن عربی وحیاتہٗ /شیخ تقی الدین فاسی)
 شیخ ابن تیمیہ  [م:۷۲۸ھ] 
شیخ ابن تیمیہ نے شیخ ابن عربی کی تصنیف ’’فصوص الحکم‘‘ کی تردید وتنقید پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے، جس کا نام ’’الرد الاقوم علی مافی فصوص الحکم‘‘ ہے۔ شیخ کے نظریات کی تردید کے بعد اخیر میں لکھتے ہیں:
صاحب ’’فصوص الحکم‘‘ ابن عربی کا میلان گرچہ کفر کی طرف تھا، مگر وہ اسلام سے قریب تر تھے۔ ان کے کلام میں خلاف شرع باتیں پائی جاتی ہیں۔ نیز وہ دوسروں کی طرح اتحاد پر ثابت قدم نہیں تھے، بلکہ اس معاملے میں وہ کثیر مضطرب تھے۔ وہ اتحاد پر قائم تھے، ساتھ ہی ایسی فکر کے حامل بھی تھے جس میں کبھی حق کو جگہ ملتی اور کبھی باطل کو۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کی وفات کس حالت پر ہوئی۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج:۱، ص:۵۱۴، فصل: فی مقالۃ ابن عربی والرد علیہ) 
 ملا علی قاری حنفی  [م:۱۰۱۴ھ]
شیخ علی بن سلطان محمد ہروی المعروف ملاعلی قاری (م:۱۰۱۴ھ) کا نام شیخ ابن عربی کے ناقدین ومخالفین میں کافی نمایاں ہے۔ ملاعلی قاری نے شیخ ابن عربی کے ردوابطال میں دو مستقل رسالے تصنیف کیے۔ (۱) فر العون ممن یدعی ایمان فرعون (۲) الردۃ علی القائلین بوحدۃ الوجود۔ پہلا رسالہ بالواسطہ ابن عربی کی تردید وتنقید میں ہے اور دوسرا براہِ راست۔ شیخ ابن عربی کے نظریۂ ایمان فرعون کی تائید وحمایت میں امام جلال الدین دوانی (م:۹۱۸ھ) (۱) نے ایک مختصر رسالہ ’’ایمان فرعون‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیا۔ جس میں نظریۂ ایمان فرعون کے حوالے سے شیخ ابن عربی کی تحقیق کو حق وصواب قرار دیا اور ان کے مخالفین کو خطا پر ٹھہرایا۔ ملاعلی قاری نےاس کی تردید میں ’’فر العون ممن یدعی ایمان فرعون‘‘ نامی ایک رسالہ لکھا۔ یہ دونوں رسالے محمد عبداللطیف ابن خطیب کی تحقیق وتوضیح کےساتھ ’’المطبعۃ المصریۃ ومکتبتھا‘‘ سے ۱۹۶۴ھ میں طبع ہوچکے ہیں۔ خطبے میں تعریفی کلمات کے بعد امام جلال الدین دوانی فرماتے ہیں: 
اعلم یا أخی! وفقنی اللہ وایاک طریق الصواب، وجنبنی وایاک عن مسالک التعصب والاعتصاب، أن علماء الاسلام وأھل الولایۃ والاحتشام قد اختلفوا فی ایمان فرعون موسیٰ علیہ السلام۔ فمنھم من طوّقہٗ طوق الکفران والطغیان، ومنھم من أدخل عنقہٗ فی ربقۃ الایمان الی یوم الجزاء والاحسان۔ والحق أن الاٰیۃ الکریمۃ مصرحۃ بالایمان من غیر قانع، منطوقا ومفھوما۔۔۔ انہ صحیح لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہٖ۔ (ایمان فرعون/امام جلال الدین دوانی، ص:۱۲؍۱۳ ؍ ۱۷، تحقیق وتوضیح: محمد عبداللطیف ابن خطیب، المطبعۃ المصریۃ ومکتبتھا۔ ) 
برادرم! (اللہ رب العزت ہمیں صراط مستقیم پر استقامت کی توفیق بخشے اور تعصب وعناد کی راہ سے محفوظ رکھے) واضح رہے کہ عہد موسوی کے فرعون کے ایمان کے حوالے سے علمائے اسلام اور اولیائے عظام مختلف الآرا ہیں۔ بعض لوگوں نے کفر وسرکشی کا طوق فرعون کے گلے میں ڈالا تو بعض نے قیامت تک کے لیے قلادۂ ایمان فرعون کی گردن میں ڈال دیا۔ حق یہ ہے کہ آیت کریمہ سے عبارتا واشارتا ہر دو طرح ایمانِ فرعون ثابت ہے۔ یہی درست ہے۔ اسے باطل نہ آگےسے جھٹلاسکتا ہے اور نہ پیچھے سے۔ 
بحث کے اختتام پر لکھتے ہیں:
وأما من یقول بکون الشیخ محیی الدین بن عربی من الملحدین، فجھل ینادی علیہ بالالحاد؛ حیث تکلم فیمن لایصل الی کنہ کلامہ اساطین العلماء ونحاریر الفضلاء وعجزت افکارھم عن فہم اسرارہٖ۔ (ایمان فرعون/امام جلال الدین دوانی، ص: ۲۳، تحقیق وتوضیح: محمد عبداللطیف ابن خطیب، المطبعۃ المصریۃ ومکتبتھا) 
جو شیخ محی الدین ابن عربی کو ملحد گمان کرتا ہے وہ خود اپنے الحاد کا اعلان کرتا ہے۔ وہ ایسے شخص کے بارے میں گفتگو کررہا ہے جس کے کلام کی حقیقت تک کبار علما اور جلیل القدر فضلا بھی نہ پہنچ سکے اور جس کے اسرار وحقائق کے فہم سے ان کے افکار عاجز رہے۔ 
ملاعلی قاری نےرسالہ ’’فر العون ممن یدعی ایمان فرعون‘‘ میں امام جلال الدین دوانی کے رسالے پر بہت سنجیدہ اور عالمانہ تنقید کی ہے۔ امام دوانی کے دلائل کا رد کیا ہے اور فرعون کے حوالے سے جمہور کے موقف کا براہین کے ساتھ اثبات کیا ہے۔ یہ رسالہ ملاعلی قاری کی تنقیدی بصیرت، متانت وسنجیدگی، اعتدال ووسطیت، ژرف نظری اور عمدہ تحقیقی شعور کا آئینہ دار ہے۔ 
ملاعلی قاری نےرسالہ ’’فر العون ممن یدعی ایمان فرعون‘‘ میں امام جلال الدین دوانی کے رسالے پر بہت سنجیدہ اور عالمانہ تنقید کی ہے۔ امام دوانی کے دلائل کا رد کیا ہے اور فرعون کے حوالے سے جمہور کے موقف کا براہین کے ساتھ اثبات کیا ہے۔یہ رسالہ ملاعلی قاری کی تنقیدی بصیرت، متانت وسنجیدگی، اعتدال ووسطیت، ژرف نظری اور عمدہ تحقیقی شعور کا آئینہ دار ہے۔ 
رسالے کی غرض وغایت بیان کرتے ہوئےملا علی قاری ابتدا میں لکھتے ہیں:
رأیت رسالۃ منسوبۃ الی العلامۃ الأکمل والفھامۃ الأجل جلال الدین محمد الدوانی، سامحہ اللہ بما وقع لہ من التقصیر والتوانی، حیث تبع فیھا ما نسب الی العالم الربانی والغوث الصمدانی مولانا الشیخ محیی الدین بن عربی، قدس اللہ سرہ الشرقی والغربی؛ من أن فرعون -بلاعون- صح ایمانہٗ وتحقق ایقانہٗ، وھٰذا باطل بالکتاب والسنۃ واجماع الامۃ، علی ما سنملی علیک ونقلی الیک، فخشیت أن یطلع علیھا من لااطلاع لہ لدیھا، فیمیل بالاعتقاد الفاسد الیھا، فأحببت أن أذکر کلامہ وأستوفی تمامہ وأبین مرامہ وأعین رضاعہ وفطامہ، بأن أدرج رسالتہ فی ضمن رسالتی متنا وشرحا، لیحصل الغرض علی المقصود بدءا وفتحا۔ (فرالعون ممن یدعی ایمان فرعون /ملا علی قاری، ص:۸۵، مشمولہ کتاب ’’ایمان فرعون‘‘ ،  تحقیق وتوضیح: محمد عبداللطیف ابن خطیب، المطبعۃ المصریۃ ومکتبتھا۔ ) 
علامہ اکمل اور فہامہ اجل امام جلال الدین محمد دوانی کی طرف منسوب ایک رسالہ نظر سے گزرا، اللہ رب العزت ان کی تقصیری مسامحات کو معاف فرمائے!، اس رسالے میں انھوں نے عالم ربانی، غوث صمدانی مولانا شیخ محی الدین ابن عربی قدس اللہ سرہ الشرقی والغربی کی طرف منسوب ایک قول کی تائید کی ہے کہ فرعون کا ایمان وایقان صحیح ومتحقق ہے۔حالاں کہ یہ قول کتاب وسنت اور اجماع امت کی رو سے یکسر باطل ہے۔ جیسا کہ اس رسالے میں گفتگو ہوگی۔  مجھے خوف محسوس ہوا کہ کہیں کوئی لاعلم شخص اس رسالے کے مندرجات پڑھ کر اس میں مذکور فاسد عقیدے کی طرف مائل نہ ہوجائے۔ اسی خوف نے مجھے اس رسالے میں متن وشرح کے ساتھ امام دوانی کے کلام کی حقیقت اور مقصود کی وضاحت پر مجبور کیا۔تاکہ بالکلیہ مقصود کی غرض وغایت کا حصول ہوجائے۔
ایمان فرعون سے متعلق ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘ کی متنازعہ فیہ عبارات کے حوالے سے لکھتے ہیں:
  نعم! وجد ھٰذا القول فی کتب ابن عربی، والمعتمد عند العلماء أن ھٰذا مدخول فیھا من الملحد الغبی۔ ( مرجع سابق، ص:۳۵؍۳۶)
ہاں! ایمان فرعون کا قول شیخ ابن عربی کی کتابوں میں موجود ہے۔ مگر یہ کسی ناعاقبت اندیش ملحد کا اضافہ ہے۔ یہی عند العلما معتمد ہے۔ 
اختتام کتاب پر شیخ ابن عربی کی مدح سرائی یوں کرتے ہیں: 
وأما الشیخ، فھو معتمد الأجلۃ من المشایخ السنیۃ، لاسیما السادۃ النقشبندیۃ والقادۃ الشاذلیۃ ومعتقد معظم الأئمۃ من العلماء الحنفیۃ والشافعیۃ والمالکیۃ والحنبلیۃ۔( مرجع سابق، ص:۸۵، مشمولہ کتاب ’’ایمان فرعون‘‘)
شیخ ابن عربی مشائخ اہل سنت وجماعت بالخصوص سادات نقش بندیہ، کبار شاذلیہ اور مذہب احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کے کبار ائمہ کے معتمد ہیں۔ 
اخیر میں شیخ ابن عربی کےافکار ونظریات کے منکرین کا تعاقب کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
أنکرعلیہ جمع فی بعض الکلمات الصوفیۃ وبعض العبارات الفتوحیۃ التی بظاھرھا غیر مطابقۃ للقواعد الحقیۃ، غافلین عن الاصطلاحات الصوفیۃ، من الدلالات الرمزیۃ والاشارات السریۃ والعبارات الدقیقۃ الخفیۃ۔ اللہ أعلم بما أراد القائل بھا فی النیۃ، من المقاصد الدینیۃ أو المطالب الدنیۃ۔(فرالعون ممن یدعی ایمان فرعون /ملا علی قاری، ص:۸۳)
ایک جماعت نے ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ کے بعض کلمات وعبارات پر نکیر وارد کی ہے، جو بظاہر قواعد صحیحہ کے مطابق نہیں ہیں۔ ایسے لوگ اصطلاحات صوفیہ سے غافل ہیں، رمزی دلالات، سری اشارات اور دقیق وخفی عبارات کے فہم سے عاطل ہیں۔ اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے کہ قائل کی نیت کیا تھی، دنیوی رنگ وروغن مقصود تھا یا دینی مطالب کی تبلیغ وتنشیر مقصود تھی۔ 
۱۶۴؍ صفحات کو محیط ملا علی قاری کا دوسرا رسالہ ’’الرد علی القائلین  بوحدۃ  الوجود‘‘ علی رضا بن عبداللہ کی تحقیق کے ساتھ ’’دار المامون للتراث دمشق‘‘ سے ۱۹۹۵ء میں شائع ہوچکا  ہے ۔ ترتیب زمانی کے اعتبار سے رسالہ ’’فرالعون‘‘ مقدم ہے، جس کی واضح دلیل اس رسالے میں ’’فرالعون‘‘ کے حوالے کا مذکور ہونا ہے۔ یہ رسالہ ’’فرا لعون‘‘ سے زبان وبیان اور طرز وانداز کے اعتبار سے یکسر مختلف ہے۔ ’’ فرالعون‘‘ میں ملاعلی قاری ، شیخ ابن عربی اور ان کے متبعین کے تعلق سے کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں، جیسا کہ ابھی مذکور ہوا،مگر اس رسالےکے مطابق ان کے ساتھ مدح کی کوئی صورت روا نہیں رکھتے، یہاں تک کہ انھیں نجاست وخباثت سے آلودہ، کافر، واجب القتل، بلکہ مخلد فی النار بھی ثابت کیے ہوئے ہیں۔ 
سر دست ہم ’’الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود‘‘ کے مختلف مقامات سے چند اقتباسات بلاتبصرہ ذیل میں درج کرتے ہیں اور ملا علی قاری کی تنقیدات کا تفصیلی تجزیہ آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
* ابن عربی کی کتابیں عقائد مسلمین کے خلاف ہیں۔ (ص:۳۸)اس لیےان کی کتابوں کا مطالعہ حرام ہے۔ (ص:۹۴) 
* ابن عربی کا کفر تو ان سے بھی بڑا ہے جنھوں نے کہا تھا: وَ اِذَا جَآءَتْہُمْ اٰیَۃٌ قَالُوا لَن نُّؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَا اُوتِیَ رُسُلُ اللّٰہِ۔ (الانعام:۱۲۴) بلکہ ابن عربی اور ان جیسے منافقین زندیق اور اتحادی ہیں۔ یہ لوگ جہنم کے اسفل سافلین میں داخل ہوں گے۔ (ص:۶۰) 
* ابن عربی خاتم الاولیا نہیں، بلکہ وہ خاتم الاولیا من الشیاطین الاغبیا ہیں؛ کیوں کہ ان کے مذہب کا نقصان دجال کے نقصان سے بھی زیادہ ہے اور ان کی کتابیں عیسائیوں کی کتابوں سے بھی زیادہ بری ہیں۔ (ص:۱۲۸) 
* ابن عربی کی کتاب ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ میں کفریات  وہذیانات بھرے ہیں۔ (ص:۱۲۹) 
* یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے کہ ابن عربی طبقات اولیا سے ہیں؛ کیوں کہ ان سے کفریہ کلمات صادر ہوئے ہیں۔ (ص:۱۵۳) 
* جو ابن عربی کے عقیدے کو درست بتاتا ہے وہ بالاجماع کافر ہے۔ (ص:۱۵۴)
* ابن عربی کے عقیدے کے حاملین کو سلام کہنا جائز نہیں، نہ ہی ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے۔ بلکہ انھیں ’’وعلیکم‘‘ کہہ کر جواب دینا درست ہے؛ کیوں کہ وہ یہود ونصاریٰ سے بھی بدتر ہیں۔ ان کا حکم مرتد کا سا ہے۔ ان میں سے کوئی اگر چھینک کے وقت ’’الحمد للہ‘‘ کہے تو جواب میں ’’یرحمک اللہ‘‘ نہ کہا جائے۔ ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے بھی احتراز کیا جائے۔ اگر وہ انھی اعتقادات پر رہیں تو ان کی سابقہ عبادات باطل ہیں۔ ارباب اقتدار پر ضروری ہے کہ اس طرح کے فاسد نظریات رکھنے والے لوگوں کو جلادیں؛ کیوں کہ یہ پلید تر ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں سے بھی زیادہ نجس ہیں جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ’’اللہ‘‘ کہتے ہیں۔ حضرت علی نے ایسے لوگوںکو جلانے کا حکم دیا تھا۔ ان کی کتابیں بھی جلانا واجب ہے۔ ہرمسلمان پر بالخصوص علما پر فرض ہے کہ ان کے فاسد عقائد لوگوں پر واضح کریں تاکہ لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔ ہم اللہ رب العزت سے حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں۔ (ص:۱۵۶)  
ملاعلی قاری کی شخصیت علمی حلقوں میں کافی معتدل اور درمیانہ رو کی حامل تصور کی جاتی ہے۔ مگر شیخ ابن عربی پر مذکورہ بالا متشددانہ تبصرہ ان کے اعتدال ووسطیت پر سوالیہ نشان ضرور کھڑا کرتا ہے۔ ’’فر العون ممن یدعی ایمان فرعون‘‘ میں شیخ ابن عربی کے علم وفضل کے اعترافات کے بعد ’’الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود‘‘  میں اس طرح کا روح سوز تبصرہ انھی کا حصہ ہے۔ دونوں رسالوں میں جس قدر تضاد اور تناقض ہے، اسے دیکھ کر یہ گمان ہی نہیں ہوتا کہ یہ دونوں رسالے ایک ہی فرد کی خامہ فرسائی کا نتیجہ ہیں۔
ان کی اس متشددانہ تنقید کا شاخسانہ یہ ہوا کہ اہل سنت وجماعت کے بیشتر دماغ بھی ابن عربی سے بدگمان ہوگئے۔ شیخ ابن عربی پر ابن تیمیہ کی جانب سے کی جانے والی تنقید ات سے لوگوں نے یہ سوچ کر صرف نظر کرلیا کہ ابن تیمیہ تکفیری گروہ کے پیشوا، تشدد وتعنت کے اسیر اور ملت اسلامیہ کے ایک بڑے حصے کو مشرک وکافر قرار دینے کے ملزم ہیں، مگر ملا علی قاری کی تنقیدات سے وہ صرف نظر نہ کرسکے؛ کیوں کہ ملاعلی قاری کا علم وفضل، تحقیقی وتنقیدی شعور اہل سنت وجماعت کے درمیان مسلم ہے؛ نتیجۃ کئی لوگ ابن عربی سے بدگمان ہوگئے اور ملاعلی قاری کے اتباع میں بعض نے تضلیل کی اور بعض تکفیر تک جاپہنچے اور حوالےمیں ملا علی قاری کا نام پیش کردیا۔
اس رسالے میں ملا علی قاری اگر شیخ ابن عربی کی جملہ عبارات سے براءت کا اظہار کرکے ان پر سکوت اختیار کرتے یا دوسروں کو ان کی عبارتوں کے مطالعے سے منع بھی کردیتے تو ہمیں صبر آجاتا، مگر یہاں تو معاملہ شیخ ابن عربی کی تضلیل، بلکہ تکفیر کا ہے۔ شیخ ابن عربی کے حوالےسے  انھوں نے جو سخن گستری، آتش فشانی، مبالغہ آمیزی، خدائی لہجہ اور تنقیدی روش اختیار کی ہے وہ میدان علم وتحقیق میں غیر مناسب ہے۔
ملاعلی قاری نے مذکورہ رسالے میں جو اعتراضات قائم کیے ہیں، ان کے جوابات دیے جاسکتے ہیں اور ان کے کلام پر معارضات بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ الاحسان کے آئندہ شمارے میں اس حوالے سے ہم ایک مستقل مضمون نذرِ قارئین کریں گے۔ 
ملا علی قاری نے ابن عربی کی مخالفت میں امام عبدالعز بن عبدالسلام جیسے بعض ائمہ کے اقوال بھی ذکر کیے ہیں اور بزعم خویش ان کے ذریعے اپنے موقف کو خوب مضبوطی فراہم کی ہے۔ حالاں کہ وہ ائمہ ایسے ہیں جو اولا شیخ ابن عربی کے حوالے سے بدگمان تھے، مگر جب بعد میں علوم اسرار وحقائق ان پر منکشف ہوئے تو انھوں نے اپنے سابقہ قول سے رجوع کرتے ہوئے شیخ ابن عربی کی مدح سرائی کی اور ان کے افکار ونظریات کو حق وصواب قرار دیا۔ملاعلی قاری نے پہلا قول نقل کردیا اور قول اخیر اور قول ناسخ کی طرف کوئی التفات نہیںکیا۔ اس حوالے سے ہم ملا علی قاری سے یہی حسن ظن رکھتے ہیں کہ ان تک ان ائمہ کا قول اول ہی پہنچا ہوگا، قول اخیر کی طرف ان کی رسائی نہیں ہوئی ہوگی۔  
حضرت عزبن عبدالسلام کے تعلق سے ملاعلی قاری لکھتے ہیں: 
وقد سئل شیخنا سلطان العلماء عبدالعزیز بن عبدالسلام عن ابن عربی۔ فقال: شیخ سوء کذاب یقول بقدم العالم ولایحرم فرجا. (الردۃ علی القائلین :۳۴؍۳۵)
سلطان العلما شیخ عبدالعزیز بن عبدالسلام سے ابن عربی کے بارے میں دریافت کیا گیا: فرمایا:وہ دروغ گو اور خام کار ہے۔ عالم کو قدیم مانتا ہے اور زنا کو جائز کہتا ہے۔
یہ شیخ عبدلعزیز بن عبدالسلام کی ابتدائی زندگی کا قول ہے۔ بعد میں جب ان کا رجحان تصوف کی جانب ہوا، صوفیہ کے احوال وافکار سے آشنائی ہوئی اور امام شاذلی کی صحبت بابرکت نصیب ہوئی تو انھوں نے سابقہ قول سے رجوع کرلیا اور ناقدین ابن عربی کی گرفت کرتے ہوئے فرمایا:
بعض علما سے جو شیخ پر نکیر ہوئی ہے، وہ صرف ایسے کم سمجھ فقہا کی بنا پر ہوئی جن کو فقرا کے احوال سے آشنائی نہیں تھی۔( مخدوم علی مہائمی /عبدالرحمٰن پرواز اصلاحی، شیخ اکبر کا علمی وروحانی مقام، ص:۶۳)
شیخ ابوالحسن علی بن ابراہیم بغدادی ’’الدر الثمین‘‘ میں حضرت عزالدین بن عبدالسلام کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: 
شیخ عز الدین اپنے ایک خادم کے ساتھ دمشق کی جامع مسجد میں آئے۔ خادم نے شیخ عزالدین سے عرض کیا کہ آپ نے مجھے موجودہ قطب وقت کی زیارت کروانے کا عہد کیا تھا۔ شیخ ابن عربی مسجد میں لوگوں کے ہجوم میں تھے۔ حضرت عز الدین نے آپ کی طرف اشارہ کرکے خادم سے فرمایا: دیکھو! وہی قطب ہیں۔ خادم حیرت زدہ ہوکر بولا: آپ تو ان سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں! یہی قطب ہیں۔ ہاں! یہی قطب ہیں۔(الدر لثمین، الباب الثانی، ص:۱۶ تا ۱۸)
اسی کے مثل شیخ عز الدین کے خادم کا ایک واقعہ شیخ مجدالدین فیروز آبادی نے اپنی اسناد متصل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ 
خادم کہتے ہیں: ہم مجلس درس میں شیخ عز الدین کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’باب الردۃ‘‘ میں لفظ ’’زندیق‘‘ آیا۔ کسی نے دریافت کیا کہ لفظ زندیق عربی ہے یا فارسی؟ حاضرین میں سے ایک نے جواب دیا کہ یہ فارسی لفظ ہے، جس کی تعریب ہوئی ہے۔ اس کی اصل ’’زن - دین‘‘ ہے۔ یعنی دین المرأۃ (عورت کا دین)۔ کسی نے پوچھا: کس کی طرح؟ شیخ عزالدین کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا: ابن عربی دمشقی کی طرح۔ اس کا یہ جواب سن کر شیخ عزالدین خاموش رہے اور اسے کچھ نہ کہا۔ ایک دن میں روزہ دار تھا۔ اتفاقا شیخ عزالدین بھی روزے سے تھے۔ آپ نے افطار کی مجھے دعوت دی۔ میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے بڑی تعظیم وتکریم سے نوازا۔ میں نے کہا: آقا! موجودہ زمانے میں آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو غوث بھی ہو اور قطب بھی؟ فرمایا: تمھیں اس سے کیا غرض؟ یہ سن کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ انھیں اس کے بارے میں خوب خبر ہے۔ میں نے کھانا ترک کردیا اور عرض گذار ہوا: اللہ کے واسطے بتادیجیے، وہ کون ہے؟ فرمایا: وہ شیخ محی الدین ابن عربی ہیں۔ میں سراپا حیرت بن کر خاموش ہوگیا۔ شیخ نے کہا کہ تمھیں کیا ہوگیا؟ میں نے کہا: میں حیرت واستعجاب میں گرفتار ہوں۔ فرمایا: کس چیز پر؟ میں نے کہا: آپ کو وہ دن یاد نہیں؟ جب آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے ابن عربی کو زندیق کہا تھا اور آپ اس وقت خاموش تھے۔ یہ سن کر شیخ مسکرائے اور فرمایا:خاموش رہو! وہ فقہا کی مجلس تھی۔(مرجع سابق، الباب الثانی، ص:۱۸)
اخیر میں ہم اتنا ہی کہیں گے کہ ہر علم کے اپنے اصول وقواعد ہوتے ہیں، جن کی روشنی میں اس علم کے تمام گوشوں کو سمجھا اور پرکھا جاتا ہے۔ علم فقہ کے گوشوں کو علم حدیث کے اصول وقواعد سے اور علم فقہ کے گوشوں کو علم حدیث کے اصول وقواعد سے نہیں سمجھا جاسکتا۔ یوں ہی تصوف بھی ایک مستقل علم اور فن ہے، اس کے بھی اپنے کچھ اصول وقواعد ہیں۔ اگر صوفیہ کی طرف منسوب بظاہر خلاف شرع کچھ اقوال وافعال ملتے ہیں تو ضروری ہے کہ انھیں علم فقہ کے میزان پر تولنے کے بجائے علم تصوف کے اصول وقواعد کی روشنی میں پرکھا جائے۔ اگر وہ علم تصوف کی روشنی میں بھی خلاف شرع ملیں تو اب انھیں واقعی خلاف شرع تصور کیا جائے گا۔ کثیر اقوال وافعال صوفیہ کے ایسے ہیں جو فقہا کے نزدیک الحاد وزندقہ سے کم نہیں، مگر صوفیہ کےیہاں ان کا اپنا ایک مستقل معنی ومفہوم ہے جس کی رو سے وہ عین ایمان وایقان کہلاتےہیں۔ 
قرآن مقدس کی آیتیں دو طرح کی ہیں۔ محکم ومتشابہ۔ پھر متشابہ آیتیں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک تو وہ جن کا معنیٰ سرے سے معلوم نہیں، مثلا: المٓ - حٓمٓ عٓسٓقٓ وغیرہ، جن کو آیات مقطعات بھی کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جن کا ظاہری لغوی حسی معنیٰ تو معلوم ہوتا ہے، لیکن مراد لینا درست نہیں ہوتا، مثلا: وجہ اللہ، یداللہ وغیرہ۔ یوں ہی بعض احادیث کا تعلق متشابہات سے ہے اور اس کے حقیقی معانی ہمیں معلوم نہیں، مثلا: الحجر الاسود یمین اللہ۔ (حجر اسود اللہ کا داہنا ہاتھ ہے) اور بعض احادیث کا تعلق مبہمات وموہمات سے ہے۔ جیسے: حضور ﷺ کا یہ قول مبارک: ان الجنۃ لاتدخلھا عجوز(کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔) اسی طرح صوفیا ئے کرام کے اقوال وافعال بھی محکمات ومتشابہات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ پھر ان کے متشابہات بھی کئی نوع کے ہوتے ہیں: (۱) مبہمات (۲) موہمات (۳) ہفوات (۴) شطحات۔ ان سب کی تفریق کیے بغیر محض قول پڑھ کر یا سن کر کفر وگم راہی کا حکم لگادینا ملت بیضا کو بازیچۂ اطفال بنانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ 
چوں بشنوی سخنِ اہلِ دل مگو کہ خطا است
سخن شناس نہ ای دلبرا خطا ایں جا است
وکم من عاتب قولا صحیحا
واٰفتہ من الفہم السقیم
اسی خفیف ونازک پہلو کے حوالے سے حافظ ابن قیم جوزی [۷۵۱ھ] لکھتے ہیں: 
فایاک ثم إیاک وألفاظ المجملۃ المشتبہۃ التی وقع اصطلاح القوم علیہا، فإنہا أصل البلاء، وہی مرد الصدیق والزندیق، فاذا سمع الضعیف المعرفۃ والعلم باللہ لفظ اتصال، وانفصال، ومسامرۃ، ومکالمۃ وأنہ لا وجود فی الحقیقۃ إلا وجود اللہ وأن وجود الکائنات خیال ووہم وہو بمنزلۃ وجود الظل القائم بغیرہ، فسمع منہ ما یملأ الآذان من حلول واتحاد وشطحات، والعارفون من القوم أطلقوا ہذہ الألفاظ ونحوہا، وأرادوا بہا معانی صحیحۃ فی نفسہا فغلط الغالطون فی فہم ما أرادوا ونسبوہم إلی الحادہم وکفرہم۔(مدارج السالکین،الدرجۃ الثالثۃ، ۳/۱۵۲)
صوفیہ کی اصطلاح میں آنے والے مجمل اور مشتبہ الفاظ سے مکمل طور سے ہوشیار رہو؛ کیوں کہ وہ بلاؤں کی جڑ ہے۔ انہیں کی وجہ سے آدمی صدیق سے زندیق ہوجاتا ہے۔اسی لیےقلت معرفت اور قلیل العلمی کا شکار بندہ جب اتصال، انفصال، مسامرۃ (بات چیت) اور مکالمہ کے لفظ کو سنتا ہے اور یہ سنتا ہے کہ حقیقت میں صرف اللہ کا وجود ہے اور کائنات کا وجود وہم وخیال ہے، وہ ظلّی وجود کے درجے میں ہے جو غیر سے قائم ہے، تو اس سے حلول، اتحاد اور شطحات جیسی کانوں پر گراں بار باتیں سننے میں آتی ہیں، جب کہ عارفین صوفیہ نے ان الفاظ کو بول کر بذاتہ صحیح معانی مراد لیے ہیں، ان کی مراد کو سمجھنے میں غلطی کرنے والے غلطی کرگئے اور ان کو کفر والحاد سے منسوب کردیا۔ (۲) 
شیخ ابن عربی کے معاصرین:- 
شیخ ابن عربی کے معاصر علما ومشائخ آپ کی علمی جلالت اور روحانی کمال کے دائمی معترف رہے۔ بعض حضرات اولا آپ کے بعض افکار ونظریات پر معترض ہوئے، مگر صوفیانہ احوال ومعارف سے واقفیت کے بعد آپ کے اسیر ہوگئے۔ آٹھویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ شیخ ابوالحسن علی بن ابراہیم بغدادی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ’’ معاصرین علما ومشائخ  میں کوئی بھی شیخ ابن عربی کا مخالف نہیں ہے۔‘‘( الدر لثمین، الباب الثانی)
 چند معاصر علما ومشائخ کا نام درج ذیل ہے۔ 
(۱) ابوالولید محمد بن احمد، المعروف ابن رشد (۵۹۵ھ)
(۲) امام فخر الدین رازی (۶۰۶ھ)
(۳) شیخ صدر الدین قونوی (۶۷۳ھ)
(۴) شیخ عز الدین بن عبدالسلام (۶۶۰ھ) 
(۵) شیخ فرید الدین عطار (۶۲۷ھ)
 (۶) شیخ شہاب الدین سہروردی (۵۸۷ھ) 
(۷)شیخ ابوالحسن علی بن عبداللہ شاذلی (۵۹۱ھ) 
(۸) شیخ جلال الدین رومی (۶۷۲ھ) 
 شیخ ابن عربی کے شارحین:-
شیخ ابن عربی کی تصنیفات وتالیفات بالخصوص ’’فصوص الحکم‘‘ اور ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ کو ہزاروں اعتراضات کے باوجود علما ومشائخ کے ایک بڑے طبقے نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اپنی روحانی مجلسوں میں ان کا درس دیا، دوسری زبانوں میں ان کے تراجم کیے، انھیں تلخیصات کے مراحل سے گزارا اور عربی وفارسی زبانوں میں ان کی متعدد شرحیں لکھیں۔ ’’فصوص الحکم‘‘ پر لوگوں کے اعتراضات زیادہ رہے؛ اس لیے علما نے اس کے کلمات وعبارات کی تشریح وتوضیح پر زیادہ توجہ دی۔ تقریبا سو سے زائد اس کی شرحیں لکھی گئیں۔ قاضی شہاب الدین شافعی (م:۸۹۵ھ) نے ’’الجانب الغربی فی حل مشکلات ابن عربی من الفصوص‘‘ کے نام سے فارسی زبان میں اس کی شرح لکھی۔ شیخ عبدالغنی نابلسی دمشقی (م:۱۱۴۳ھ) نے ’’جواھر النصوص فی کلمات الفصوص‘‘ کے عنوان سے اس کی تشریح وتوضیح بیان کی اور شیخ ابوالفتح مکی (م:۱۱۶۱ھ) نے اس پر قیمتی حاشیہ لگایا۔ شیخ دائود بن محمود بن محمد رومی ، شیخ قاشانی ، علی اطول بن محمد قسطومی رومی ، شیخ محمد بن صالح رومی ، قاضی شہاب الدین سندی شافعی، شیخ ابوالفتح محمد بن مظفر الدین، شیخ عبدالخلوتی آفندی اور سیکڑوں مشائخ اس کی تشریحات وتوضیحات میں دل وجان سے منہمک رہے۔ علامہ صدر الدین قونوی (م:۶۷۳ھ)نے ’’فصوص الحکم‘‘ کا خلاصہ تیار کیا۔علامہ عبدالرحمٰن جامی (م:۸۹۸ھ) نے ’’نقش النصوص‘‘ (خلاصۂ فصوص الحکم) کی شرح فارسی زبان میں ’’نقد النصوص‘‘ کے نام سے اور ’’فصوص الحکم‘‘ کی شرح عربی زبان میں ’’شرح فصوص الحکم‘‘ کے نام سے کی۔ 
شیخ ابن عربی کے ہندوستانی شارحین:-
معروف تاریخ نگار مولانا سید عبدالحی حسنی (م:۱۳۴۱ھ) نے اپنی کتاب ’’الثقافۃ  الاسلامیۃ  فی الہند‘‘ میں اٹھارہ شارحین کے اسما ذکر کیے ہیں، جنھوں نے فصوص الحکم کی عربی وفارسی شرحیں لکھی ہیں۔ ان کے نام درج ذیل ہیں: 
[۱] سید علی بن شہاب ہمدانی (شرح الفصوص، فارسی)
[۲] سید محمد بن یوسف حسینی دہلوی (خواجہ بندہ نواز) (م:۸۲۵ھ) (شرح الفصوص)
[۳] شیخ علاء الدین علی شافعی مہائمی (م:۸۳۵ھ) (خصوص النعم فی شرح فصوص الحکم)
[۴] شیخ ابوالمحاسن شرف الدین دہلوی (م:۷۹۵ھ) (عین الفصوص شرح الفصوص، عربی)
[۵] شیخ شمس الدین بن شرف دہلوی (م:۷۹۷ھ) (نقش الفصوص) 
[۶] سید اشرف بن ابراہیم حسینی کچھوچھوی (م:۸۰۸ھ) (شرح الفصوص)
[۷] شیخ عبدالنبی بن عبداللہ شطاری گجراتی (شرح الفصوص)
[۸] شیخ محب اللہ عمری الہ آبادی (شرح الفصوص، عربی- فارسی)
[۹] شیخ عبدالکریم بن عبداللہ سلطان پوری (شرح الفصوص)
[۱۰] شیخ عبدالنبی نقش بندی سیام جوراسی (شرح الفصوص)
[۱۱] شیخ غلام مصطفیٰ بن محمد اکبر تہانیسری دہلوی (شخوص الحکم شرح فصوص الحکم، فارسی)
[۱۲] شیخ محمد افضل بن عبدالرحمٰن عباسی الہ آبادی (شرح الفصوص علی وفق النصوص)
[۱۳] شیخ نورالدین بن محمد صالح گجراتی (الطریق الامم شرح فصوص الحکم)
[۱۴] شیخ علی اصغر صدیقی قنوجی (شرح الفصوص)
[۱۵] شیخ طاہر بن یحییٰ عباسی الہ آبادی (شرح الفصوص)
[۱۶] شیخ محمد حسن امروہوی (التاویل المحکم شرح فصوص الحکم) 
[۱۷] شیخ جمال الدین گجراتی (م:۱۱۲۴ھ) (شرح علی فصوص الحکم)
[۱۸] شیخ محمد افضل الہ آبادی (تائید الملہم فی شرح أربع کلمات من فصوص الحکم)
( الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند، ص:۱۸۷؍ ۱۸۸، فصوص الحکم، الشروح والحواشی علی کتب القدماء)
شیخ ابن عربی کی شاعری:-
آپ بلند پایہ اور زود گو شاعر بھی تھے۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی شاعری اپنے نقطۂ عروج پر پہنچی، جہاں پر آپ کا دوستانہ تعلق شیخ مکین الدین ابوشجاع ظاہر بن رستم الاصفہانی اور ان کے خاندان کے ساتھ تھا۔ شیخ مکین الدین کی نوخیز صاحب زادی ’’نظام عین الشمس‘‘ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کی شاعری کی روح بنی۔ خود آپ نے اپنے دیوان ’’ترجمان الاشواق‘‘ میں ’’نظام‘‘ کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا ہے۔(جس کا ذکر ماقبل میں ہوچکا ہے) مگر بعد میں جب آپ پر مخالفین نے عاشقانہ شاعری کرنے کا الزام لگایا تو آپ نے اس کو رد کرنے کے لیے اس دیوان کی شرح ’’فتح الذخائر والاغلاق‘‘ لکھی، جس میں ثابت کیا کہ آپ کے اشعار صوفیانہ ہیں اور تصوف کے مروجہ طریق سے ذرہ بھر ہٹ کر نہیں ہیں۔ (۳) 
’’فتح الذخائر والاغلاق شرح ترجمان الاشواق‘‘ کے خاتمے میں شرح کی غرض بیان کرتے ہوئے شیخ ابن عربی لکھتے ہیں:
جب میں نے مکہ مکرمہ کی پر بہار اور فیض وکرامت سے معمور وادی میں ’’ترجمان الاشواق‘‘ مرتب کیا۔ میرے احباب ابومحمد عبداللہ بدر بن عبداللہ حبشی اور اسماعیل بن سودکین نوری نے مجھ سے بیان کیا کہ بعض فقہا میرے دیوان کے مندرجات پر معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میرے دیوان کا کل سرمایہ غزلی ابیات ہیں، حقائق ومعارف سے ان کا کچھ علاقہ نہیں ہے۔ ان کے اس اعتراض پر میں نے اس کی شرح نویسی کی اور ان کے شکوک وشبہات کے ازالے کی کوشش کی۔ (فتح الذخائر والاغلاق شرح ترجمان الاشواق /شیخ محی الدین ابن عربی، خاتمۃ المؤلف، ص:۲۱۷، معتنی: عبدالرحمٰن مصطاوی، دار المعرفۃ، بیروت)
الفتوحات المکیۃ، فصوص الحکم اور دیگر مؤلفات ورسائل میں بھی جا بجا شیخ ابن عربی کے شعری جلوے نظر آتے ہیں۔ 
 بعد میں شیخ ابن عربی کی جملہ شاعری کو ایک مجموعے کی شکل دے کر ’’دیوان ابن عربی‘‘ کے نام سے مرتب کیا گیا۔ شیخ ابن عربی کی شاعری بھی ان کے نثری تحریر کی طرح علوم ومعارف اور اسرار وحقائق کا گنجینہ ہے۔ 
 کتب ابن عربی کے اردو تراجم:-
(۱) مولانا فضل خان (۱۹۳۸ء) نے ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ کی پہلی تیس فصلوں کا اردو ترجمہ کیا۔ 
(۲) سلیم چشتی (م:۱۹۸۷ء) نے ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ کا ترجمہ کئی ضخیم جلدوں میں کیا۔ جن میں سے صرف ابتدائی چار جلدیں ہی شائع ہوسکی ہیں۔ 
(۳) فاروق القادری نے پہلی دو فصلوں کا ترجمہ کیا، جو ۲۰۰۴ء میں شائع ہوا۔ 
(۴) معروف ترجمہ نگار محمد شفیع نے ’’رسائل ابن عربی‘‘ کے نام سے شیخ ابن عربی کے چار رسالوں کا اردو ترجمہ کیا اور ۲۰۰۴ء میں انھیں لاہور سے شائع کیا۔ وہ چار رسائل یہ ہیں: (۱) شجرۃ الکون (۲) الکبریت الاحمر (۳) الامر المحکم والمربوط (۴) کتاب الاخلاق والامر۔ 
(۵) مولانا عبدالقدیر صدیقی نے بھی ’’فصوص الحکم‘‘ کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ شائع ہوچکا ہے اور پنجاب یونیورسٹی، پاکستان کے نصاب میں بھی شامل ہے۔ 
(۶) مولانا عبدالغفور، سید مبارک علی نے بھی ’’فصوص الحکم‘‘ کے اردو ترجمے کیے ہیں۔ 
ابن عربی فائونڈیشن کے تحت جدید عصری انداز میں عربی متن کے ساتھ ۲۰۰۸ء میں درج ذیل کتابوں کے اردو تراجم منظر عام پر آئے۔ 
(۱) الجلال والجمال (۲)الوصایا (۳) حلیۃ الابدال (۴) نقش الفصوص (۵) الفناء فی المشاہدۃ (۶) اصطلاحات الصوفیۃ (۷) التدبیرات الالٰھیۃ فی اصلاح المملکۃ الانسانیۃ (۸) مشکاۃ الانوار فیما روی عن اللہ من الا خبار (۹) الاسفار عن نتائج الاسفار (۱۰) روح القدس فی مناصحۃ النفس (۱۱) القسم الالٰھی (۱۲) رسالۃ الی الاما الرازی۔ (وزٹ کیجیے:www.ibnularabifoundation.org)
شیخ ابن عربی کی تائید ودفاع میں لکھی جانے والی کتابیں:-
[۱] تنبیہ الغبی فی تبرئۃ ابن العربی /امام جلال الدین سیوطی (۹۱۱ھ) 
[۲] الاغتباط بمعالجۃ ابن الخیاط /شیخ مجد الدین فیروز آبادی (۸۱۷ھ) 
[۳]الرد علی المعترضین علی الشیخ محی الدین/ فیروز آبادی (۸۱۷ھ) 
[۴] مسألۃ فیما تحصل فی کلام الناس فی محی الدین بن عربی /ابن حجر ہیثمی (۹۷۴ھ) 
[۵] شذرۃ من ذھب فی ترجمۃ سید طائر العرب /رضی الدین ہیثمی (۱۱۴۱ھ) 
[۶]کشف الغطاءعن أسرارکلام الشیخ محیی الدین/سراج الدین مخزومی (۸۸۵ھ) 
[۷] الیواقیت والجوھر فی بیان عقائد الاکابر/ امام عبدالوہاب شعرانی (۹۷۳ھ) 
[۸] الکبریت الأحمر فی بیان علوم الشیخ الأکبر /امام عبدالوہاب شعرانی (۹۷۳ھ) 
[۹]القول المبین فی الرد عن الشیخ محیی الدین/امام عبدالوہاب شعرانی (۹۷۳ھ) 
[۱۰] الرد المتین علی منتقص العارف محیی الدین /شیخ عبدالغنی نابلسی (۱۱۴۳ھ) 
[۱۱] القول المنبی عن ترجمۃ ابن عربی / حافظ محمد بن عبد الرحمٰن سخاوی (۹۰۴) 
[۱۲] الدر الثمین فی مناقب الشیخ محی الدین /شیخ ابوالحسن علی بن ابراہیم قاری بغدادی (۸؍ویں صدی ہجری)
اختتامیہ:-
یہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کے زیست کے چند اہم گوشے تھے، جو نہ آپ کی حیات کےسارے گوشوں کا احاطہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے سارے فضائل ومناقب کا بیان۔ شیخ ابن عربی کی زندگی کا ہر گوشہ نہایت ہی وقیع اور اہمیت کا حامل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شیخ ابن عربی کے رسائل وکتب کے قلمی نسخے تلاش کیے جائیں، عصری تقاضے کے مطابق ان کی اشاعت کی جائے، ان کے مضامین کو لے کر مستقل مقالات لکھے جائیں، دیگر زبانوں میں کتابوں کے ترجمے کیے جائیں۔ اتنا مہتم بالشان اور کثیر الوقتی کام یقینا کسی مرد غیب کی آمد کا منتظر ہے۔ 
ع---  مردے از غیب بروں آید وکارے بکند۔ 

------------------------------------------------------------------
حواشی:-
(۱)  امام جلال الدین دوانی شافعی کا اصل نام محمد بن اسعد صدیقی دوانی ہے۔ دوان (کارزون کا ایک شہر) میں ۸۳۰ھ /۱۴۲۷ء میں آپ کی ولادت ہوئی۔ مگر مستقل سکونت پذیری شیراز میں رہی۔ ایک طویل عرصے تک فارس میں قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز رہے۔عقیدہ وتفسیر ،فقہ وتصوف اور منطق وفلسفہ میںآپ کی ایک نمایاں شناخت تھی۔ فقہ وتفسیر اور منطق وفلسفہ کے موضوع پر کئی اہم کتابیں تصنیف کیں، متعدد کتابوں کی شرحیں لکھیں اور مختلف مصنفات پر گراں قدر حواشی لگائے۔ ۹۱۸ھ /۱۵۱۲ء میں فارس ہی میں آپ کا انتقال ہوا اور وہیں آپ کی تکفین وتدفین عمل میں آئی۔ شرح العقائد العضدیۃ، شرح ھیاکل النور للسہروردی، الاربعون السلطانیۃ، شرح تہذیب المنطق، تفسیر سورۃ الکافرون، الاسئلۃ الشریفۃ القرآنیۃ، تعریف العلم، حاشیۃ علی شرح القوشجی لتجرید الکلام، حاشیۃ علی تحریر القواعد المنطقیۃ للقطب الرازی جیسی وقیع کتابیں آپ کی علمی یادگار ہیں۔ (دیکھیے: الاعلام للزرکلی، ۶؍۳۲) 
(۲) ’’الاحسان‘‘ کے ساتویں شمارے میں ’’مطالعۂ تصوف کے چند رہنما اصول‘‘ کے عنوان سےمعروف ادیب و قلم کار مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی کا ایک وقیع مضمون شائع ہوا ہے۔جس میں کتب صوفیہ کے مطالعے کے ۲۷؍اصول بیان کیے گئے ہیں۔ یہ مضمون صوفیانہ مبہمات، شطحات، موہمات، ہفوات اور تصوف کی کئی دقیق پرتوں کو کھولنے والا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: الاحسان، شمارہ: ۷، سن:۲۰۱۷، شاہ صفی اکیڈمی، الہ آباد۔
(۳) ’’رموز الاشراق فی ترجمان الاشواق‘‘ کے نام سے محترمہ زینہ عرفت پور اور صہیلا اصغر زادہ نے ایک نہایت ہی وقیع اور جامعیت سے بھرپور مقالہ لکھا ہے۔ جس میں شیخ ابن عربی کی شعری زندگی، شعری مہارت، فن شاعری میں صوفیانہ روش جیسے دیگر موضوعات پر خوب داد تحقیق دی ہے۔ 


*****







Friday 2 February 2018

شطحات صوفیہ: غلط فہمی اور ان کا ازالہ

0 comments
 شطحات صوفیہ: غلط فہمی اور ان کا ازالہ 
مولانا امام الدین سعیدی
-----------------------------------------------------------------------
تصوف،اصل دین ہے:-
معتبرمحققین اور بالغ نظر ناقدین کی تحقیقا ت کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تصوف اسلام کے اند رکوئی جدید یا گمراہ مسلک نہیں بلکہ عین اسلام وایما ن ہے-اس کے نظریات وافکار ،مبادیات ومسائل کا سر چشمہ کتاب وسنت ہیں، جس کی تائید اکابر صوفیہ کے مستند اقوال سےبھی ہو تی ہے ،اجلہ مشائخ نے اس با ت کی صراحت فرمادی ہے کہ صوفی کی کا میا بی کے لیے اول شر ط یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کے ارشادات پر عمل پیرا ہو، چنانچہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں:
ایں راہ کس یابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشدوسنت مصطفی بر دست چپ-درروشنائی ایں دوشمع می رود تانہ درمغاک شبہت افتدنہ درظلمت بدعت -(۱)
’’یہ راہ وہی شخص حاصل کر سکتاہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن مقدس اور بائیں ہاتھ میںسنت مصطفی ہواور ان دونوںچراغوںکی روشنی میں قدم بڑھاتا رہے تاکہ ورطۂ شبہات میں نہ گرے اور بدعت کی تاریکی میں نہ پھنسے-‘‘
 صوفیہ ومشائخ کے عقائد و افکار میں ایسا کوئی فساد نظر نہیں آتا جو شرک وبدعت کو پنپنے کا موقع دے-ان کاکوئی بھی طریقہ کتا ب وسنت سے ہٹ کر نہیں ،ان کی کو ئی بھی فکر دین کے بنیادی اصولوں سے منحرف نہیں - شیخ جنید بغدادی کا ارشاد ہے :
 بنا ء طریقتنا و اساسہا علی الکتاب والسنۃ وکل ما ہو مخالف للکتاب والسنۃ فہو مردود باطل.
ہمارے طریقے کی بنیا د و اساس کتاب وسنت پر ہے اور جو کتاب وسنت کے مخالف ہو وہ مردود وباطل ہے -(۲)
امام جلال الدین سیوطی صوفیہ کے تعلق سے اپنے اعتقاد کااظہاریوں کرتے ہیں:ونعتقد ان طریق الجنید وصحبہ طریق مقوم [ہمارا اعتقاد ہے کہ جنیداور ان کے اصحاب کا طریقہ مستحکم طریقہ ہے-] (۳)
 بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ
 کل حقیقۃ ردتھا الشریعۃ فھی زندقۃ [جو حقیقت خلاف شریعت ہو وہ بے دینی ہے-](۴)
غرض کہ اس طرح کے اوربھی بہت سے اقوال ہیں جن سے اس بات کی مکمل تائید وتوثیق ہوجاتی ہے کہ تصوف کا اصل مآخذکتاب وسنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،البتہ ارباب تصوف ہی میں سے بعض حضرات ایسے ہیں جن سے غلبۂ حال او روجد ومستی میں کچھ ایسے کلمات وحرکا ت صادرہوجاتے ہیں ،جو بظاہر مخالف شرع معلوم ہوتے ہیں،عام لوگ ان اقوال سے گمراہ وفاسد عقیدہ بنالیتے ہیں ایسے اقوال و افعال کو اصطلاح صوفیہ میں شطحات، ہفوات اورمبہمات وموہمات بھی کہتے ہیں-ان اقوال وافعال کو لے کر بعض حضرات تصوف اور صوفیہ کے تعلق سے سخت بد گمان ہوگئے اور یہ نتیجہ اخذکر لیا کہ تصوف غیراسلامی نظریات وافکار کی پیدوارہے مگر یہ نتیجہ مبنی بر حقیقت نہیں -
 واضح رہے کہ تصوف وہی ہے جسے حدیث میں ’’احسان‘‘ کہا گیا ہے -غیر شرعی رسوم او ر کسی فسق و فجور کا نام تصوف نہیں ہے خلاف سنت وشریعت رسم ورواج کو طریقت نہیں کہا جاتا بلکہ ہمارے مشائخ کا طریقہ رہا ہے کہ وہ خلافِ سنت عمل کوقابلِ ترک ہی نہیں بلکہ مردود سمجھتے تھے-صوفیہ وہی حضرات ہیں جو کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے ہو ئے ہیں ، کیونکہ شریعت کے خلاف کو ئی بھی عمل تصوف نہیں ہو سکتا ۔ بعض دنیادار ومکار،فسق وفجور میں گرفتار،نام نہاد مستصوفین کو دیکھ کر ، ان کے کردار وعمل کو دلیل بناکر صوفیہ جیسی مقدس ومخلص جماعت پر لعن طعن کرنا دانش مندی نہیں بلکہ سخت محرومی اور بے ادبی ہے -
 شطحات کی حقیقت:-
سب سے پہلے ہم شطحات وہفوات کی حقیقت و نوعیت کا ذکر کرتے ہیں پھر اس کا علمی وتحقیقی تجزیہ کریں گے تاکہ لوگوں کے اذہان وقلوب میںجواضطراب ہے ایک جانب اس کاازالہ ہوجائے اور ساتھ ہی شطحات کی حقیقت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ بے نقاب ہوجائے -
لغوی معنی : لغت کی مشہو ر کتاب المعجم الوسیط میں ہے ’’شطح فی السیر اوالقول :تباعدواسترسل.‘‘
الشطحۃ: یقال لفلان الصوفی لہ احوال وشطحات۔ کہاجاتاہے کہ فلاں صوفی کے احوال وشطحات ہیں -
ہفوات، ہفوۃ کی جمع ہے ’’المعجم الوسیط‘‘ میں ہے الھفوۃ : السقطۃ والزلۃ- اردو میں ٹھوکر اور لغزش کے معنی میں مستعمل ہے-(۵)
اصطلاحی مفہوم:- 
شیخ ابونصرسراج (متوفی ۳۷۸ھ) فرماتے ہیں :
’’شطحات وہ عجیب و غریب عبارات جو صوفیائے کرام سے وجد ومستی کی انتہائی کیفیت میں صادرہوتی ہیں-‘‘ (۶)
 حضر ت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی فرماتے ہیں :
’’الشطح ھوافاضۃماء العرفان عن ظرف استعداد العارفین حین الامتیان‘‘(۷)
[خداشناسوں کے ظرف استعداد پر ہوجانے پرعرفان کا پانی چھلک جانا-]
صوفیہ کے نزدیک شطحات، کلمات مشائخ کی ایک قسم ہےجس کا ظاہر نہایت قبیح مگر باطن حسین ہو - واضح رہے کہ کلمات مشائخ ان قسموں پر مشتمل ہوتے ہیں : ارشادات مشائخ ،مبہمات مشایخ ،موہمات مشائخ ،شطحات مشائخ- ان مٰیں صرف ارشادات ہی لائیں تقلید ہوتے ہیں۔ 
علما ومشائخ کے موقف و نظریات:- 
شیخ ابونصر سراج فرماتے ہیں کہ
 اللہ تعالی نے اپنے اولیا کے قلوب کھول دیے ہیں ،انہیںبلندی کی طرف جانے والے درجات کی طرف جانے کی اجازت دے دی ہے اور اللہ تعالی نے اپنے منتخب بندوںکواپنی طرف آنے ، متوجہ ہونے اور مراتب خواص پر مطلع ہونے کی صلاحیت بخشی ہے ،لہٰذاان منتخب اولیامیںسے سبھی اس حقیقت کوبیان کرتے ہیں جسے وہ پالیتے ہیں،وہ اپنے حال اور قلب پروارد ہونے والے انوار وحقائق ہی سے متعلق گفتگوکوزبان پرلاتے ہیں،کیوں کہ وہ اپنے ارادوںسے اعلی ترین مقام پرفائز ہوجاتے ہیںاور وہ اس مقام پرہوتے ہیں جہاں تمام احوال ومقامات اور راستے آکرختم ہوجاتے ہیں-
ارشاد باری ہے :
وفوق کل ذی علم علیم. (یوسف :۷۶)ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے-
اور فرمایا:
ورفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت.(زخرف :۳۲)اور ہم نے بعض کو بعض کے اوپر درجوں بلند کیا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
انظرکیف فضلنابعضھم علی بعض.(بنی اسرائیل :۲۱) دیکھو !کیسے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے -
کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اولیاء اللہ کے بارے میںزبان غیبت کھولے اور پھراپنے قیاس کے ذریعے ان کے کلام کے مطالب اخذ کرے، کیوں کہ اولیا اپنے اوقات میں مختلف اور احوال میں ایک دوسرے کے مقابلے فضیلت رکھتے ہیں -اسی طرح وہ احوال میں باہم ایک جیسے بھی ہوتے ہیں، اب اگران میں سے کوئی اپنے ساتھیوں سے زیادہ صاحب فضیلت ہواور اعلی معرفت کاحامل ہوتووہ اس بات کا اہل ہے کہ وہ شطحات صوفیہ کے متعلق گفتگوکرے یااس کے درست ونادر ست ہونے کے بارے میںکچھ کہے- اگر کوئی شخص ایسے صاحب مقام صوفیہ کے راستہ پرچلاہی نہ ہوتواس کے لیے بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے کلمات سے انکار ختم کردے اور انہیں اللہ پرچھوڑدے- اس کے علاوہ اگر اس نے صوفیہ کے تعلق سے کوئی غلط نظریہ قائم کیا ہوتواس کے غلط ہونے کا اعتراف کرے- (۸)
دوسری جگہ شیخ نے بڑی اصولی بات تحریر کی ہے وہ لکھتے ہیں :علوم شریعت چار قسم کے ہیں:اول :علم روایت و آثار-دوم : علم فقہ واحکام-سوم:علم قیاس و نظر-چہارم: علم حقایق و مجاہدات -تو جو علم روایت میں خطا کرجائے وہ اس کا حل علم درایت والوں سے نہ پوچھے اور نہ علم درایت کے مسئلہ کو علم روایت والوں سے پو چھے، ایسے ہی علم حقائق کی بات اگرسمجھ میں نہ آئے تو اسی سے پو چھے جو اس کا کامل عالم ہے-( ۹)  
تصوف کی مستند کتاب کشف المحجوب میں حضرت شیخ علی ہجویری عرف داتاگنج بخش قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:  
اہل بصیرت کااس بات پر اتفاق ہے کہ اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والا شخص ساحروخاسر نہیں ہوسکتا اور کافر قابل تعظیم نہیں ہوسکتا، کیوںکہ اس سے اجتماع ضدین لازم آتاہے اور حضرت حسین ابن منصور حلاج رحمۃاللہ علیہ کایہ حال تھاکہ پابندی صلوٰۃ،کثرت ذکرومناجات اور مسلسل روزوں کا اہتمام کرتے تھے ،اس لیے وہ بہت ہی نیک تھے مگر ان کے کلام (اناالحق) کی اقتدانہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ وہ مغلوب الحال تھے متمکن نہیں اورقابل تقلید کلام صرف صاحب تمکین مشائخ کاہی ہوتا ہے - (۱۰)
متن تصوف کا قدیم اور نہایت معتبر و مقبول رسالہ ’’الرسالۃ المکیہ ‘‘ کے اندر نہایت جامعیت واختصار کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا گیا ہے -علامہ قطب الدین دمشقی قدس سرہ لکھتے ہیں :
صوفی جب نفس وہوا کی وادی کو پار کرکے عالم حقیقت میں پہنچ جاتا ہے جو مقام فنا ہے-(صوفیہ کے نزدیک فنا کا معنی یہ ہے کہ وہ ذات حق کے سوا کسی کو نہ دیکھتا ہے نہ جانتا ہے) تو اس مقام پر وہ اپنے وجود سےبھی غافل ہوتا ہے ،اس وقت یہ گمان گذرتا ہے صرف رب تعالی ہے اور کچھ بھی نہیں چونکہ ذات حق کے سوا کچھ بھی نہیں ہو تا ،جلوۂ حق کے مشاہدہ کی کیفیت میں ’’انا الحق ‘‘،’’لیس فی الدار الا اللہ‘‘ ، ’’لیس فی الوجود سوی اللہ‘‘،جیسے کلمات صادر ہو جاتے ہیں ،اور سننے والا اسے حلول سمجھ بیٹھتا ہے ۔اس مقام پر نجات کا راستہ یہ ہے کہ جب کو ئی اس طر ح کی بات سنے تو سننے والا یہ سمجھے کہ کسی سے ایسا اس خیال کی بنا پر صادر ہواہے کہ وہ دنیا وآخرت کی ہر چیز سے بے خبر ہے یہاں تک کہ اسےخود کا بھی ہو ش نہیں ہے، سر توحید میں گم ہے، تجلیات حق میں مستغرق ہے ،مگر حقیقت میں فی نفسہ ہر شی کا وجود رہتا ہے ، صوفی کا مشاہدہ مقام فنا میں بہتر ہے اور یہ ایک بلند مقام ہے مگر دوسری جہت سے یہ مقام خطر ہے -(۱۱)  
حضرت مخدوم سید اشرف جہاںگیر سمنانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:
’’ قاعدۂ مستمرہ یہ ہے کہ شطحات مشائخ کو نہ رد کرنا چاہیے نہ قبول کیوں کہ یہ مقام وصول کاایک مشرب ہے جوعقل وخرد کی دسترس سے بالاترہے -‘‘(۱۲)
نیز آپ ہی کاارشادہے کہ:’’ اکثر اصحاب عرفان اہل صحوہوئے ہیں اور بہت سے صوفیہ اہل سکر بھی ہیں -‘‘(۱۳)
دوسرے مقام پہ آ پ فرماتے ہیں کہ:’’ اگر چہ بعض صوفیہ نے کلمات شطحات کا محمل پیداکیا ہے اور لطیف عبارتوں میں ان کی تشریح فرمائی ہیں جس سے اس کی گہرائی تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے -‘‘(۱۴) 
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ’’رسالہ مرج البحرین‘‘ میں رقم طرازہیں:
’’وبالجملہ مردم درغلبۂ احوال مشائخ وشطحیات ایشاں سہ فرقہ اند ‘‘(۱۵)
اس باب میں مجموعی طورسے تین فرقے ہیں :
 فرقۂ اول:
 فقہائے محض اور علمائے ظاہر ہیں جن کا موقف تردید وانکار ہے جوایسے مشائخ کے تعلق سے کوئی بھی نرم گوشہ نہیں رکھتے نہ ہی انہیں معذور جانتے ہیں، اس فرقہ میں بھی دوقسم کے لوگ ہیں: ایک وہ جوحقیقی طور سے منکر وتردید پسند ہیںکہ وہ ایسے اقوال وافعال کو جہل وجنون سے تعبیر کرتے ہیں، انکارو تردید کی وجہ، ان کی طبیعت کاجمود اور باطن کی خرابی ہے جوان کے لیے رحمت وبرکات سے محرومی اور سوء خاتمہ کا سبب بن سکتی ہے -دوسرے وہ حضرات ہیں جوبظاہر سدِّذرائع کے لیے تردید وانکار کی روش اختیار کرتے ہیں مگر نفس الامر کے اعتبار سے موافق وحامی ہوتے ہیں -
فرقۂ دوم:
یہ جماعت نہایت غلوپسند ہے ان کااعتقاد شطحات مشائخ کے تعلق سے نہایت گمراہ کن ہے -
ان کاخیال ہے کہ مشائخ کر ام جوبھی کہتے ہیں یاکرتے ہیں وہ حق بجانب ہوتے ہیں اگر چہ صریحاًمخالف شرع ہی کیوں نہ ہوں،بلکہ وہ یہاں تک عقیدہ رکھتے ہیں-کہ شریعت وہی ہے جویہ کرتے ہیں علماوفقہاکے اقوال وفتاویٰ کاکوئی اعتبار نہیں ایسی جماعت کو جاہل مستصوفین کہاجاتاہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں-مذکورہ دونوں فرقوںکے درمیان فرق یہ ہے کہ ایک حقیقت کاادراک نہ کرنے اور شدت و جمود کی وجہ سے بے عرفان ہے اور دوسرا ظاہر شریعت کے منکر ہونے کی وجہ سے بے ایمان ہے-
 فرقۂ سوم: 
وہ حضرات جو افراط وتفریط سے الگ راہ اعتدال پر گامزن ہیں، ان کاموقف یہ ہے کہ ایسے اقوال وافعال در حقیقت درست ہیں مگر شرعاًقبیح ہیں- اس شرعی قباحت کی وجہ ضبط واختیار کا فقدان اور غلبۂ حال ہے، اس کی مثال عالم ظاہر میں ایسے ہی ہے جیسے جب کسی ذی ہوش اور عقل مند آدمی کے اوپر فرحت وغضب کی حالت طاری ہوتی ہے تو اختیار کھو بیٹھتا ہے اور بے خودی میں عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتاہے ،لہٰذا ایسے اقوال وافعال کو فقط تسلیم کیاجائے جیساکہ کہاگیاہے- اسلم تسلم - (۱۶) 
شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنے دوسرے رسالہ ’’ تحصیل التعرف فی معرفۃ الفقہ والتصوف‘‘ میں ایسے صاحبان وجدوحال کو مجنوںکے حکم میں قراردیتے ہیں،جومرفوع القلم ہوتے ہیں ،چنانچہ وہ قاعدہ نمبر ۲۴؍کے تحت لکھتے ہیں کہ صاحب وجد اپنے حال میں خود پراختیار نہیں رکھتا وہ مجنوں کے حکم میں ہوتاہے اس حال میں صادرہونے والے امور ناقابل اتباع ہیں -جیسے حضرت ابوالحسین نوری قدس سرہ کا حالت وجد میں اپنے آپ کو جلاد کے سامنے پیش کردینا ،شیخ ابوحمز ہ کا کنویں میں گر کر کسی کو مدد کے لیے آوازنہ دینا،شیخ شبلی کا حلق ریش اور درہم ودینار کا دریامیں پھینک دیناوغیر ہ، ایسے بہت سے واقعات ہیں جوغلبۂ وجد وحال میں صوفیہ سے صادر ہوئے- ابن جوزی اور ان کے ہم خیال علما نے ایسے افعال پراعتراض کیا ہے-شیخ زروق نے یہ دعوی کیا ہے کہ جس مغلوب الحال کا اپنے افعال پر قابونہیں، ضبط کی قدرت نہیں وہ معذور ہے- بطور استدلال یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت بے ہوش ہوجایاکرتی تھی، ایک دن نبی اکر م ﷺکی بارگاہ میں حاضرہوئی اور آپ سے اپنا حال بیان کیاکہ میں بے ہوش ہو جایاکرتی ہوںاور اسی حالت میں کبھی کبھی عریانیت سے دوچار ہو جایا کرتی ہو ں، لہٰذاآپ میرے لیے دعافرمائیںتا کہ اس سے شفا حاصل ہوجائے (یااسی طرح کچھ الفاظ کہے) تورسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ اگر توصبر کرے تو تیرے لیے جنت ہے، یا نہیں تومیں دعاکرتاہوںکہ اللہ تعالی تجھے شفابخشے وہ عورت راضی ہوگئی کہ اسے جنت منظور ہے-گویاآپ کا اس عورت کو صبرکرنے اور اس حالت کے برداشت کرنے کی تلقین کرناجس میں وہ برہنہ ہوجایاکرتی تھی اس بات کی دلیل ہے کہ بے اختیارشخص کا عذر مقبول ہے- (۱۷) 
ابن تیمیہ کا موقف:-
شیخ ابن تیمیہ جو ایک گروہ کے نزدیک بڑے معتبر اور معقول شخص مانے جاتے ہیں اور عمومی طور سے ان کو مخالف صوفیہ سمجھاجاتا ہے ،ایک طبقہ ابن تیمیہ کے افکار سے متاثر ہو کر ہمیشہ صوفیہ اور تصوف کو ہدف ملامت بنا تا رہتا ہے-ذیل میں ان کے مختلف فتاوی نقل کررہے ہیں جن سے ابن تیمیہ کا موقف واضح صورت میں سب کے سامنے عیاں ہو جائے اور تصوف پر جارح تنقید کرنے والے اعتدال کا رویہ اختیار کریں-ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ صوفیہ کے کلام میں کچھ عبارات ظاہری طور پر سمجھ میں نہیں آتیں بلکہ بعض مرتبہ تو بہت غلط عبارت نظر آتی هہے لیکن اس کو صحیح معنی پر حمل کیا جا سکتا هہے، لہٰذا انصاف کا تقاضہ یہ هے کہ ان عبا رات سے صحیح معنی مراد لیا جائے جیسے فنا، شہوداورکشف وغیر ہ -(۱۸)
جماعت صوفیہ میں سے کسی ایک کا بھی یہ عقیدہ نہیں هہے کہ الله تعالی اس میں یا اس کے علاوہ دیگر مخلوقات میں حلول واتحاد کر گیاہے ، اور اگر بالفرض اس طرح کی بات ان اکابر شیوخ کے بارے میں نقل کی جائے تو اکثر اس میں جھوٹ ہوتاہے ، جس کو اتحاد وحلول کے قا ئل گمراہ لوگوں نے ان صو فیائے کرام کی طرف منسوب کیاہے ، صوفیائے کرام اس قسم کے باطل عقائد سے بری ہیں-(۱۹)
صوفیہ جو امت کے نزدیک مشہور هہیں وہ اس امت  کےسچے لوگ ہیں وہ حلول و اتحاد وغیرہ کا عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ لوگوں کو اس سے منع کرتے هہیں اور اہل حلول کے رد میں صوفیہ کا کلام موجودہے ، اور حلول کے عقیدہ کو ان نا فرمان یا فاسق یا کافر لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے صوفیائے کرام کے ساتھ مشابہت اختیارکی اور ظاہری طور پر ولایت کے دعوے کیے- (۲۰)
اگر ان لوگوں کی تکفیر کی جائے تو بہت سارے شافعی، مالکی، حنفی، حنبلی ،اشعری، اہل حدیث، اہل تفسیر اور صوفیہ کی تکفیر لازم آئے گی، حالاں کہ باتفاق مسلمین یہ سب لوگ کافر نہیں تھے-(۲۱) 
ابن تیمیہ کے مذکورہ اقوال سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ اس تصوف کے برخلاف قطعی نہیں تھے جو شیخ جنید بغدادی اور شیخ عبد القادر جیلانی وغیرہم کا تصوف تھا بلکہ حقیقی صوفیہ کے بارے میں طعن وتشنیع کو اس نے گمرہی قرار دیا ہے، لہٰذا ابن تیمیہ کا نام لے کر تصوف کو یکسر غیر اسلامی اور بے دینی بتانے والے اپنے نظریات کا جا ئزہ لیں اور شدت و تعصب کی عینک اتار کر ان نفوس قدسیہ کی تعلیمات کو پھر سے پڑھیں-
مذکورہ اقوال کی روشنی میں جو معتدل راہ نکلتی ہے، وہ یہ کہ شطحات نہ قابل تردید ہیں، نہ قابل اتباع بلکہ انہیں تسلیم کیاجائے او راسی میں سلامتی ہے-
بعض معروف شطحات کی تاویلات وتوجیہات:- 
شطحات وہفوات میںسے بعض کی حکیمانہ تاویلات وتوجیہات اور حقائق ومضمرات بھی پیش کردی جائیں ،تاکہ اہل بصیرت کو ایک اشارہ مل جائے، جس سے وہ ایسے مقامات پراپنے آپ کو صحیح فکر کاحامل بناسکیں -شطحات کے باب میں سب سے زیادہ حضرت منصور حلاج کے نعرۂ’’ انا الحق‘‘ کو لے کر قلق وبے چینی ہے اس لیے اس کی تفصیلی وضاحت ضروری ہے-
 شیخ علی ہجویری فرماتے ہیں کہ :
حضرت ابوالمغیث حسین بن منصور حلاج رحمۃاللہ علیہ کا شمار مشتاقان الٰہی اور مستان طریقت میں ہوتا ہے، آپ کا حال نہایت قوی اورہمت بلند تھی، آپ کے مقام کے متعلق مشائخ طریقت کا اختلاف ہے، ایک گروہ کے نزدیک آپ مقبول بارگاہ ہیںاور ایک کے نزدیک مطعون- وہ طبقہ جوآپ کو مطعون سمجھتاہے، ان میں حضرت عمرو بن عثمان مکی ،ابویعقوب نہرجوری ،ابو یعقوب اقطع، اورعلی بن سہل اصفہانی وغیرہم ہیں-جنہوںنے آپ کو مقبول بارگاہ قرار دیاان میں حضرت ابن عطا،محمد بن خفیف ، ابوالقاسم نصرآبادی اورجملہ مشائخ متأخرین ہیں -ایک طبقہ ایسابھی ہے جس نے آپ کے بارے میں سکوت اختیار کیاان میں حضرت جنید ،حضرت شبلی اور حصری وغیرہم ہیں -ہمارے زمانے کے مشائخ مثلاًحضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر، شیخ ابوالقاسم گرگانی، شیخ ابوالعباس شفانی قدست اسرارہم جیسے عظیم المرتبت حضرات اپنے آپ کو حضرت ابن منصورکا ہمراز سمجھتے ہیں اور ان کااحترام کرتے ہیں-
استاد ابوالقاسم قشیری قدس سرہ ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ اگر وہ اہل حقیقت میں سے تھے توخلق کی طعن وتشنیع کی وجہ سے بارگاہ حق سے محروم ومستر د نہیں ہوسکتے، اگر وہ مہجور طریقت تھے توقبول خلق کی وجہ سے مقبول بارگاہ نہیں ہوسکتے، ہم ان کو ان کے حال پر چھوڑ تے ہیں، لیکن ہم نے ان کے اندر جو نشان حق پایااس کی وجہ سے ان کا احترام کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے مخالفین کی تعداد بہت کم اور موافقین کی تعداد بہت زیادہ ہے-(۲۲)
حضرت مخدوم اشرف جہاںگیر سمنانی قدس سرہ سے منقول ہے ،وہ فرماتے ہیںکہ:
حسین ابن منصورحلاج کے سلسلے میں اختلاف ہے، اکثر ان کی تائید کرتے ہیں ،بعض تردید- ان کے حامیوں میں شیخ ابوالعباس عطا، حضرت عطا ،شیخ شبلی ، شیخ ابوعبداللہ خفیف،شیخ ابوالقاسم وغیرہم ،مذکورہ حضرات ان کے قتل پرراضی نہیں تھے -
 سلطان طریقت شیخ ابوسعید ابوالخیر قدس سرہ (۳۵۷ھ-۴۴۰) فرماتے ہیںکہ:
’’ مشرق ومغرب میں احوال کی بلندی کے اعتبار سے وہ لاثانی ہیں -‘‘ (۲۳)
امام المتکلمین حضرت فخرالدین رازی نے،،انا الحق ،،کی چندتوجیہات ذکرکی ہیں ،جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱- اللہ حق ہے اور اس کی معرفت، معرفت حق اور معرفت حق کی مثال ایسی ہے ،جیسے اکسیر کہ جب وہ تانبے پر پڑتی ہے تو اسے سونا بنادیتی ہے- اسی کے مانند جب معرفت الٰہی کی اکسیر روح کے تانبہ پرپڑتی ہے تو اسے باطلیت سے حقیت کی طرف لے آتی ہے-حضرت منصور کے اناالحق کہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ موجود حقیقی بس حق تعالی شانہ کی ذات ہے اس کے سواسب فانی وباطل ہے، اس لیے کہ منصورحلاج وہ شخص تھے جن پریہ حقیقت منکشف ہوگئی تھی کہ ماسوائے ذات حق کچھ بھی نہیں، حتی کہ خود ان کی ذات بھی فنا ہوچکی تھی، ان کے مشاہدہ ویقین میںیہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ حق تعالی کے سواموجود بالذات کوئی نہیں- اس کیفیت میں اگر انہوں نے اناالحق کہاتو درحقیقت قائل وہ نہیںہیں بلکہ اللہ نے یہ کلمہ ان کی زبان پرجاری فرمایاتھا-خود ان کی ذات تجلیات ربانی میں مستغرق ومحوتھی ،اسی لیے جب ان سے کہاجاتاکہ انابالحق کہو توان کی زبان سے اناالحق ہی نکلتااس لیے کہ اگروہ انابالحق کہتے تولفظ اناسے اشارہ ان کی ذات کی طرف ہوتاحالانکہ وہ مقام محویت میں تھے-
۲-ومنھاماقال الامام ایضاًان من غلب علیہ شیٔ یقال انہ ھوذٰلک الشیٔ علی سبیل المجاز کمایقال فلان کرم فلماکان الرجل مستغرقاًبالحق لاجرم قال اناالحق.‘‘
نیزامام رازی نے فرمایا کہ’’ جب کوئی چیز کسی پرغالب ہوجاتی ہے توبطور مجاز کہاجاتاہے کہ یہ وہی چیز ہے جیسے کہ فلاں سراپاسخاوت ہے،اسی لیے جب کسی کے اوپر حق کی تجلیات کا غلبہ ہوجائے اور وہ مستغرق وفنا ہوجائے تویقینی طورسے اناالحق کہے گا، مثل مشہورہے’’ہرکہ درکان نمک رفت نمک شد ‘‘
۳- اس قول[انا الحق] کامحمل یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے، اصل میں اناعابد الحق یاذاکرالحق ہے ، مگر خود کہتے ہیں کہ یہ ضعیف تاویل ہے، اس لیے کہ حذف مضاف اس جگہ جائز ہے، جہاں التباس نہ ہو، مثلاً واسئل القریۃ اصل میں اھل القریۃ ہے، مگر جہاں التباس سے محفوظ نہ ہووہاں حذف جائز نہیں، جیسے کہاجائے رأیت زیداًا ور مراد لیاجائے غلام زیدٍ-(۲۴)
غیرمسلم محققین وناقدین کی رائے : 
فرانس کے معروف ادیب لوئی مسینونے حضرت حسین ابن منصورحلاج کی شخصیت پربڑی جانفشانی سے ریسرچ کیا، بغداد جاکر قدیم صوفیہ کی کتابوں کامطالعہ کیا،خود ابن منصورکی کتابیں بھی پڑھیں،پھر اس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا،نیز آپ کی سوانح حیات بھی لکھی -حضرت ابن منصورحلاج کے اوپر جوکتاب انہوں نے تحریر فرمائی ہے، اس کا نام ’’لاپیشن ڈی الحلاج‘‘(La passion De Alhallaj)ہے-(۲۵)
ڈاکٹرنکلسن جوابتدائی ایام میں تصوف اور صوفیہ کے تعلق سے متعصبانہ رویہ رکھتے تھے، مگراخیرزمانے میں و ہ حامی ہوگئے تھے -اپنی اخیر دور کی تصنیف ’’تصوف میں نظریۂ شخصیت‘‘(Idea of personalty in sufism)میں حسین ابن منصور حلاج کے ’’نعرۂ اناالحق ‘‘کاذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
حلاج کے’ اناالحق‘ کامطلب یہ نہیںتھاکہ میںخداہوںبلکہ اس کامقصد یہ تھاکہ میں حق یعنی سچ ہوں- یہ نظریہ ہمہ اوست کے سراسر خلاف ہے کیوںکہ اس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ انسان خداکامظہر ہے-یہ نظریہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان کلمات کے تقریباًمطابق ہے جس میںآپ نے فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا خداکودیکھا لیکن وہ نظریہ جسے حلول کے نام سے موسوم کیاجاتاہے اسلام میں جڑنہ پکڑسکا اسے حلاج اور ان کے مریدین ہی نے ختم کردیاتھا-صوفیہ کا بیان ہے کہ حلاج کو اس لیے نہیں شہید کیا گیا کہ وہ حلولی تھے بلکہ اس لیے کہ انہوںنے حق تعالیٰ کا راز فاش کردیا-(۲۶)
ڈاکٹر نکلسن کتاب مذکورمیں حضرت حلاج کی پابندی شریعت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جب حسین بن منصور حلاج کو پھا نسی دینے کے لیے لایا گیاتوانہوںنے دار ورسن کو دیکھ کر قہقہہ لگایااور اس قدرہنسے کہ آنکھوں سے پانی بہنے لگااس کے بعد انہوں نے لوگوں کی طرف نگاہ کی اور اپنے پیربھائی دوست حضرت ابوبکر شبلی قدس سرہ کودیکھ کردریافت کیاکہ کیاآپ کے پاس مصلیٰ ہے؟انہوںنے جوا ب دیاجی ہاں یاشیخ!انہوںنے کہااسے بچھادو،اس کے بعد حلاج نے آگے بڑھ کر دورکعت نماز ادا کی- شبلی فرماتے ہیں کہ میں ان کے پاس کھڑاتھاپہلی رکعت میں انہوں نے سورۂ فاتحہ کے بعد یہ آیات پڑھیں کل نفس ذئقۃالموت الخ دوسری رکعت میں ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال الخ.(۲۷) 
شیوۂ منصور تھا اہل نظر پر بھی گراں
 پھر بھی کس حسرت سے سب دارورسن دیکھا کیے
سبحانی مااعظم شانی پر مشائخ کا تبصرہ:-
 لطائف اشرفی میں مذکور ہے :
حضرت مخدوم اشرف سمنانی قدس سرہ فرماتے ہیںکہ سلطان العارفین کا یہ قول حالت تلون سے ہے، مقام تمکین سے نہیں، حضرت سلطان العارفین قدس سرہ نے جوکہااس کی حقیقت اس راہ کے اہل تجربہ ہی جانتے ہیںکیوںکہ یہ قول حضرت بایزیدکی زبان پربلاقصدجاری ہواجیساکہ قلب میں ذکربلاارادہ پیداہوتاہے-نیز خـودحضرت بایزید فرماتے ہیںکہ الٰہی اگرمیں نے کسی دن سبحانی مااعظم شانی کہا ہو تومیں کا فر ومجوسی ہو ں،میں اپنی زنّار توڑتا ہوں اور کہتا ہوں اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمد اعبدہ ورسولہ- (۲۸)
بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت با یزید سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فر ما یاکہ اس وقت میں بعض اوراد میں مشغو ل تھا اور فقرہ سبحانی ما اعظم شانی ربّ العالمین کے قول کی حکا یت تھی جیسا کہ کو ئی سورئہ طہٰ میں پڑ ھے  انّی انا ربّک  اس طرح آپ کے بارے میں منقول ہے کہ غلبۂ حال میں اگر چہ ان کی زبان پہ کلمات جاری ہوئے مگر جب ہوش وحواس درست ہوئے تو آپ کے رفقا ومریدین نے اس تعلق سے آپ کو بتا یا کہ آپ ایسا ایسا لفظ کہہ رہے تھے- آپ نے ارشاد فرمایا کہ: ٹھیک ہے اگر تم لوگ مجھ سے ایسے الفاظ دوبارہ سننا تو میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردینااور سب کو ایک ایک چھری تھما دی  چنانچہ آپ پرپھر غلبۂ حال طاری ہوا اورآپ نے اسی لفظ کو دہرایا -آپ کے حسب ارشا د رفقا و مریدین نے آپ کو کاٹنے کا ارادہ کیا، پہلے دیکھا کہ پورا کمرہ آپ کے وجود سے بھرا ہوا ہے مگر جیسے ہی چھری ان کے جسم کے قریب لے گئے تو وہ صورت چھوٹی ہوگئی اور حضرت بایزید نمودار ہو گئے- لوگوں نے ماجرا دریا فت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ بایزید یہ ہے اس سے پہلے بایزید نہیں تھا-(۲۹)
ہفوات کے صدورکا سبب بھی چوں کہ ایک خاص حالت وکیفیت کا غلبہ ہے، جس میں ضبط واختیار ختم ہو جاتا ہے، بے خودی طاری ہوجاتی ہے اورجوبھی عجیب وغریب حرکات ان سے صادرہوتے ہیں وہ ان کے مقتضائے حال کے مطابق ہوتے ہیں- وہ ایساکرنے میں معذور ہیں - مگرساتھ ہی ان افعال کے پیچھے ایسی لطیف اور بلیغ حکمت کارفرماہوتی ہے جس کے آگے ظاہری قباحت بے حیثیت نظرآتی ہے اس کاباطن جمال معنوی کا ایسا حسین پیکر ہو تاہے جسے ظاہرکی خراب شباہت معیوب نہیں کر سکتی ، بطور تمثیل ایک واقعہ کی تفصیل بیان کی جاتی ہے شاید حق واضح ہوجائے اور مقصودتک پہنچنے میں کفایت کرے-
لوگوں نے بیان کیاہے کہ جب حضرت شبلی کا لڑکا فوت ہوگیا تواس صدمہ میں آپ کی اہلیہ نے اپنے سر کے بال کٹوالیے اور خود حضرت شبلی قدس سرہ نے اپنی داڑھی حلق کروالی اور گھرمیں بیٹھ گئے، اہل بغداد کو جب شبلی کی اس حالت کاعلم ہواتووہ آپ سے بدظن ہوگئے اور تعزیت کاارادہ ترک کردیا -شیخ کے احباب میںسے کسی نے دریافت کیا کہ اے شبلی !آپ نے ایسی حرکت کیوںکی ؟آپ نے جواباََ فر مایا:اپنی اہلیہ کی موافقت میں-لیکن انہوںنے کہاکہ یہ جواب تسلی بخش نہیں آپ حقیقت حال سے آگاہ کریں کیوںکہ آپ اپنے اہل وعیال کے لیے ایسی حرکت نہیںکرسکتے - اصرار واستفسا ر  کے بعد آپ نے اس کی صحیح حکمت وعلت بیان کرتے ہو ئے فرمایا :
 نبی اکرم کی ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے کہ جولوگ تذکیرحق کرتے ہیں اور خود ان کے قلوب اس سے غافل ہوتے ہیں توایسے لوگ مستحق لعنت اور رحمت حق سے دور ہوجاتے ہیں -یہ بات ظاہرہے کہ لوگ میرے پاس تعزیت کے لیے آتے اور حسب عادت رسمی طور سے انا لّٰلہ وانا الیہ راجعون کہہ کر تذکیر حق کرتے ،حا لا ں کہ خود ان کے قلوب اس سے غافل ہو تے اس طر ح وہ مستحق لعنت ہو جا تے، اسی وجہ سے میں نے اپنی ڈاڑھی حلق کر والی تا کہ لوگ میری اس حرکت سے بے زار ہو کر میرے قریب نہ آئیں- میرے اس فعل نے خلق خدا کو ورطۂ ہلاکت میں گرنے سے بچا لیا-
ملاحظہ کیجیے کہ اس حرکت میں کیسی دور اندیشی اور دقت نظری ہے ،ان کی نیت میں کس قدر صدق و خلوص مضمر ہے ،  آیت ربانی اور حدیث رسالت پناہی  کی کیسی قدر وتعظیم ہے- (۳۰)
بہر کیف! ایسے احوال کا طاری ہو نا نوادرات میں سے ہے،یہ ایک مخصوص کیفیت کے تحت صادر ہوتے ہیں ،اس سلسلے میں فقہا نے سد ذرائع کے طور پر جو فتوی دیا ہے، وہ اپنی جگہ بر حق ہے ،نہیں تو رخصت کے نام پر فساق وفجار کے لیے ایک دروازہ کھل سکتا ہے، صوفیہ اپنے احوال میں معذور ہیں ،حتی الامکان تاویل و تو جیہ  کی راہ نکالی جائے-
اسبا ب ومضمرات:-  
بعض صوفیہ نے فرمایا کہ شطحات کی مثال اس حدیث پاک میں ہے، جس میں رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا : 
اللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ ، فَأَيِسَ مِنْهَا ، فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِه فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ ، إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا  ، ثُمَّ قَالَ : مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ- (۳۱)
 جب بندہ خدا کی طرف توبہ (استغفار ) کے ذریعے رجوع ہوتا ہے تو خدا بہت خوش ہوتا ہے (جس کی مثا ل حضور نے یوں فرمائی) کہ ایک شخص بےآب وگیاہ جنگل میں سواری پر سفر کررہا تھا ، کسی منزل پر اس کی سواری اس سے چھوٹ گئی، جس پر اس کا توشہ پانی تھا ، اس کو اپنی ہلاکت یقینی نظر آنے لگی ہو ، عالم حسرت ویاس میں کسی درخت کے نیچے لیٹ گیا، بے خودی سی کیفیت طاری ہوئی ، پھر اچا نک کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے پاس موجود ہے اور سازوسامان جوں کا توں موجود ہے ، اس وقت فرط مسرت میں بے ساختہ یہ کہہ بیٹھا ’’اللہم انت عبدی وانا ربک‘‘ اے اللہ !تو میرا بندہ اور میں تیرا رب-خوشی کی انتہا میں اس کی زبان لڑکھڑاگئی -(کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ تومیرا رب میں تیرا بندہ ہوں ، مگر سبقت لسانی ہوگئی، جس میں اس کے قصد وارادہ کا کو ئی دخل نہیں تھا،لہٰذا اس پر کو ئی مواخذہ نہیں ہوگا -)
 ایسے اقوال وافعال بنفسہا شرعاََ قبیح ہیں مگر یہ قباحت قائل وفاعل کی طرف راجع نہ ہوگی یہ سب اصلاََ خطا ومعصیت ہیں، مگر فاعل عاصی وخاطی نہیں جیسے گھوڑا پاک جانور ہے مگراس کی لید نجس ہے،اس نجس لید کے گھوڑے سے خروج ہونے کے سبب اس پر نجاست کا حکم نہیں لگایا جاتا، لہٰذا صاحب قول وفعل پرمعصیت کاحکم صادر کرنادانش مندی نہیں ہے-  ایک توجیہ یہ بھی کہ ممکن ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنا کلمہ منصوروبایزید کی زبان سے ظاہرکیاایسے کلمات کی نسبت ان کی طرف نہیں ہوگی کیوںکہ ایسی حالت میں ان حضرات کی حیثیت محض آلہ کی ہے اور حقیقت میںقائل ذات حق ہے - اس سے کوئی اعتراض لازم نہیں آتا،کیوں کہ جب درخت سے صدائے اننی انا اللہ جاری ہوسکتی ہے توکسی انسان کی زبان سے اناالحق یا سبحانی مااعظم شانی کا جاری ہو جانا، بدرجۂ اولی درست ہے - 
روا باشد انا اللہ از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
کھلے لفظوں میں یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ایسے کلمات کا صارد ہو نا بلا قصد وارادہ ایک مخصوص کیفیت کے زیر اثر ہو تا ہے جس میں اختیار و ضبط کا فقدان ہو تا ہے -ان شطحات کو اصل دین سمجھنا بھی بے دینی ہے،نیز ان کلمات کی وجہ سے ان پر طعن وتشنیع بھی مذموم ہے- محفوظ و مستقیم راہ یہی ہے کہ اسے اللہ کے حوالے کیا جائے یاحسن ظن رکھتے ہو ئے اس کے تعلق سے صحیح تاویل کی راہ نکا لی-اسے یو ں بھی سمجھیں کہ یہ متشابہ آیتوں کی طرح ہے ،جیسے قرآن میں بعض آیتیں محکم ہیں، جوبا ٓسانی سمجھ میں آجاتی ہیں او کچھ آیتیں متشابہ ہیں جن کا ظاہر ی مفہوم مراد نہیں ہو تا بلکہ وہاں تاویل کر کے صحیح معنی کا محمل پیدا کیا جاتا ہے یا اس میں بحث و کرید سے بچتے ہیں ،اسی طرح اولیائے ربانی کی بھی دو قسمیں ہیں :بعض آیات محکم کی طرح ہیں، بعض متشابہ کی طرح-جو محکمات ہیں وہ ارباب صحو وتمکین ہیں ،دعوت وارشاد ،تزکیہ و تربیت کا کام انہیں سے انجام پاتا ہے، ایسے صوفیہ مسند ارشاد پر فائز ہو تے ہیںاور جو متشابہات کی طرح ہیں وہ ارباب سکر وتلوین کہلاتے ہیں ،یہ مغلوب الحال ہو تے ہیں ،ان سے تزکیہ و ارشاد کا کا م نہیں ہو پاتا ،یہ حضرات مقتدا و مرشد نہیں ہو تے، اگر چہ اپنے احوال میں غایت درجہ بلند ہو تے ہیں ،ان کے اقوال و افعال کی پیروی منع ہے ،جیسے آیات متشابہات کااتباع منع ہے -   
شطحات کے تعلق سے جوبھی توجیہات ہیں وہ بہت ہی دقیق اور لطیف ہوتی ہیں، جوعام فہم نہیں اور کوئی بھی تاویل وتشریح ان کلمات کا یقینی و مستند محمل نہیں، اس لیے اس کی صراحت ووضاحت میںزیادہ سرکھپانااور اس کی حقیقت کو کریدنا خلجان واضطراب سے خالی نہیں، جیسا کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:
 ’’شطحیات کی جزئیات کی تفصیل کرنا مناسب نہیں کیوںکہ یہ رموزواشارات ،فناوتوحید کے قبیل سے ہیں-قیل وقال درآںجامناسب حال نہ باشد- واللہ اعلم بالصواب-‘‘(۳۲)
خاکم بدہن:-
چند مغلوب و مجذوب صوفیہ کے بعض ہفوات وشطحات کی آڑ میں صوفیہ کی پوری جماعت کے خلاف الزام تراشی کرنا اور اسے غیرشرعی و غیراسلامی افکارقرار دینا ،بلاشبہہ فقدان بصیرت وفساد باطن کی دلیل ہے، کیوں کہ تاریخی حقائق ومشاہدا ت سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ اسلام کے حقیقی علم بردار کی حیثیت اگر کسی کو حاصل ہے تووہ یہی پاک گروہ ہے جن کی زندگی کا ہرصفحہ شریعت مطہرہ کے ظاہری احکام وباطنی آداب کی پابندی سے عملاً وحالاً عبارت ہے-اسلام کے شرعی واخلاقی اصولوں کی پاسداری واحترام جوان کے یہاں دیکھنے کو ملتاہے وہ کہیںاور نہیں ،معرفت خداوندی جیسی بے بہانعمت سے جووافرحصہ انہوںنے حاصل کیاوہ دوسرے لوگ نہ پاسکے -
در حقیقت یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے مادیت گزیدہ ماحول میں روحانی قوت کاایساسکہ رائج کیا کہ لوگ طاغوتی ونفسانی شکنجوں سے آزاد ہوکر معبود برحق کے مخلص وصادق بندے ہو گئے ،انہوںنے ہی اخلاق وکردار کی عظمت سے تسخیر کائنات کا حسین فلسفہ پیش کیا، ان کی زندگی کا واحد مقصد دین خداوندی کی نشرواشاعت اوردعوت وتبلیغ تھا- دنیا کو منافرت و فرقہ پسندی کے گرداب سے نجات دینے والے ،امن وآشتی کی فضا قائم کرنے والے یہی ارباب تصوف تھے- صفحۂ ہستی پر ان کے انقلابی کارناموں کی دھوم رہی ہے اور ہے، تاقیامت رہے گی - خلافت ارضی کی مسند عظیم کاحقیقی وارث یہی طبقہ ہے جیساکہ قرآن مقدس میں مذکور ہے: ’’ان الارض یرثہا عبادی الصالحون‘‘(۳۳) 
[زمین کے وارث میرے مخلص بندے ہو ں گے-]
-------------------------------------------------------------------
مصادر ومراجع:
۱- تذکرۃالاولیا( فارسی)، شیخ عطار، ص:۸
۲- الرسالۃ القشیریہ ،ج :۱،ص :۲
۳- مرج البحرین (فارسی)شیخ عبدالحق محدث دہلوی ،ص:۳۳، ایجوکیشنل پریس پاکستان 
۴- ایضاً،ص: ۳۴
۵- المعجم الوسیط، ص: ۴۸۲؍۹۸۹،زکریابک ڈپودیوبند
۶- کتاب اللمع :ص: ۳۷۴، لندن
۷- لطائف اشرفی(ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی)، ص:۶۴۴،مترجم شمس بریلوی ، سہیل پریس پاکستان 
۸- کتاب اللمع (عربی )،ص:۳۷۵مطبع بریل لندن
۹- ایضا :۳۷۶ 
۱۰- کشف المحجوب( اردو)،داتاگنج بخش ہجویری، ص:۴۶۲؍۴۶۴ترجمہ وتحقیق کپتان واحد بخش سیال چشتی ، مکتبہ رضویہ دہلی 
۱۱- الرسالۃ المکیۃ،ص :۱۶۱-۱۶۲، شاہ صفی اکیڈمی الہ آباد
۱۲- لطائف اشرفی 
۱۳- ایضاََصـ۶۴۴
۱۴- ایضاََصـ۶۴۴
۱۵- مرج البحرین( فارسی)،شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص:۳۳، ایجوکیشنل پریس کراچی 
۱۶- ایضاًص:۳۵،۳۶،۳۷
۱۷- تحصیل التعرف فی معرفۃ الفقہ والتصوف، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص:۱۷۱؍۱۷۳مترجم عبدالحکیم شرف قادری 
اعتقاد پبلشنگ ہائوس دہلی 
۱۸- مجموع الفتاوی : ج:۲ص:۳۳۷
۱۹- نفس مصدر:ج:۱۱ص۷۴۔۷۵
۲۰- نفس مصدر:ج۱۵ص۴۲
۲۱- نفس مصدر:ج۳۵ص۱۰۱
۲۲- کشف المحجوب (اردو)،داتاگنج بخش ہجویری ،ص:۴۶۵ترجمہ وتحقیق کپتان واحد بخش سیال چشتی، مکتبہ رضویہ، دہلی
۲۳- ایضاًص:۴۶۵
۲۴- لطائف اشرفی (ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی)، ص:۶۵۳-تا ۶۵۸،مترجم شمس بریلوی، سہیل پریس کراچی
۲۵- مشاہدۂ حق ،کپتان واحد بخش سیال چشتی، ص:۱۴۶،الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور
۲۶- ایضاًص:۱۵۷؍۱۵۸
۲۷- ایضاًص:۱۵۸؍۱۵۹
۲۸- لطائف اشرفی ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی ص:۶۷۰؍مترجم شمس بریلوی مطبع سہیل پریس پاکستان چوک کراچی
۲۹- ایضاًص:۶۷۰
۳۰- مرج البحرین( فارسی)،شیخ عبدالحق محدث دہلوی ،ص:۴۸؍۴۹، ایجوکیشنل پریس کراچی
۳۱- مسلم شریف :کتاب التوبہ
 ۳۲- مرج البحرین ،ص:۴۹
۳۳- سورہ انبیا : ۱۰۵
*****