Wednesday, 30 August 2017

کتابی سلسلہ ’’ نعت رنگ‘‘ (اعلی حضرت احمد رضا شاہ بریلوی نمبر)

0 comments
کتابی سلسلہ ’’ نعت رنگ‘‘ 
(اعلی حضرت احمد رضا شاہ بریلوی نمبر)
        مرتب : سید صبیح الدین رحمانی
        صفحات : ۸۰۰
        ملنے کا پتہ: اقلیم نعت، B-50سیکٹر11/A،نارتھ کراچی(پاکستان)
        تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور نعتیہ ادب کے عالمی جریدہ ’’ نعت رنگ‘‘ کا امام الکلام ،عاشق رسول، اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نعتیہ شاعری اور فکر و فن کے حوالے سے وقیع علمی و تنقیدی نمبر باصرہ نواز ہوا، اس میں شبہہ نہیں کہ ’’ نعت رنگ‘‘ اپنے پاکیزہ ،صالح ،ایمان افروز اور علمی، فکری و تنقیدی مضامین کے سبب اس وقت بین الاقوامی شہرت ، عظمت اورمقبولیت حاصل کر چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا ہر شمارہ دوسرے شمارے کا انتظار، شدید کر جاتا ہے ، لیکن ۱۷؍ ویں شمارے کے بعد ۱۸؍ ویں شمارے کا انتظار، کچھ زیادہ ہی صبر آزما رہا کیوں کہ اس شمارے کو’’ نعت رنگ‘‘ کے مدیر و مرتب جناب صبیح رحمانی نے اردو نعتیہ شاعری کے سالار،عاشق رسول اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی کے فکر و فن کے لیے خاص کر دیا تھا۔
خیال تھا کہ جب شمارہ نظر نواز ہوگا تو اس کو دیکھتے ہی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، شرف زیارت کے بعد کچھ ایسا ہوا تو نہیں لیکن اس کی ضخامت (۸۰۰ صفحات) نے ضرور متحیر کیا، غالباً ’’ نعت رنگ‘‘ کی تاریخ کا یہ سب سے ضخیم شمارہ ہے ، سر ورق سبز رنگ کا ہے، جس پر ’’مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام ‘‘ جلی حروف میں لکھا ہوا ہے ’’ نعت رنگ‘‘ کے سر ورق کی اب تک کی روایت یہ رہی ہے کہ رحمانی صاحب  نے اس کی تزئین میں ہر بار سادگی اور پر کاری کی اعلیٰ مثال پیش کی، لیکن اس بار پر کاری پر سادگی کے غالب آجانے سے یہ مثال شاید منفرد ہو گئی ہے۔ شمارے کی پشت پر ’’تیل ‘‘ کا اشتہار ہے جس میں میاں بیوی اور دو بچوں کی تصاویرہیں ، اس اشتہار کا محدث بریلوی کی عقیدت و عقیدہ ساز نعت، اہل علم و ادب کی تنقید نعت اور محترم صبیح رحمانی کے ذوق نعت سے کیا تعلق ہے ، رحمانی صاحب ہی بتا سکتے ہیں ۔اندرون صفحات تزئین اور تہذیب معیاری ہے، کمپوزنگ کی غلطیوں کا ذکر ہی کیا، یہ تو جدید کتابت کا خاصہ بن گئی ہیں تا ہم عربی عبارتوں کی مسودہ بینی پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’’نعت رنگ ‘‘کا زیر نظر شمارہ ۸؍ حصوں میں بٹا ہوا ہے، جن کے عنوان کچھ اس طرح ہیں: دھنک ، فکر و فن ، تضامین بر کلام رضا، خصوصی مطالعہ، رنگ رضا، کلام رضا کے تحقیقی زاویے ، مذاکرہ اور خطوط۔ آغاز فاضل بریلوی کی عربی حمد’ ’الحمد للمتوحد‘‘ کے چار مصرعوں سے ہوا ہے، اس کے بعد فاضل بریلوی کی ہی مشہور و معروف نعت ’’ سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ‘‘ہے پھر حافظ عبد الغفار حافظ کراچی نے بارگاہ رضا میں ’’ نغمۂ رضا‘‘ کے عنوان سے خراج عقیدت پیش کیا ہے اور مقطع میں بالکل بجا بات کہی ہے کہ  ؎
حافظؔ فروغ نعت رسول کریم کا
سہرا بندھا ہے جس پہ وہ ماتھا رضا کا ہے
’’ فکر و فن ‘‘ کی ذیل میں ۲۲؍ مقالات و مضامین ہیں ،پہلا مضمون ہندوستان کے پروفیسر فاروق احمد صدیقی کا ہے جس کا عنوان ہے ’’ کلام رضا میں تو حید کی ضیا باریاں ‘‘موصوف نے فاضل بریلوی کے کلام سے مثالیں دے دے کر اپنے موقف کو ثابت کیا ہے، ایک بڑی بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ ’’ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف سے خالق کی تعریف ہی مقصود و متصور ہوتی ہے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ ’’ حدائق بخشش‘‘ کے دونوں حصے (تیسرا حصہ میرے پیش نظر نہیں ہے )نعت رسول کے ساتھ ساتھ توحید الٰہی کے جلوئوں سے بھی معمورو مستنیر ہیں‘‘قوسین کے عبارت سے محترم صدیقی صاحب کے کمال احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ان کے نزدیک مسلّم ہونے کے باوجود بھی کہ نعت رسول در حقیقت حمد خدا ہے، حدائق بخشش کے تیسرے حصے کے پیش نظر نہ ہونے کی وجہ سے اسے توحید کے جلوئوں سے معمور ہونے کا قول نہیں کیا ،ورنہ انہیں یہ کہنے کا حق تھا کہ حدائق بخشش کے تمام اشعار توحید کے جلوئوں سے معمور و مستنیر ہیں۔
پروفیسر محمد اقبال جاوید جو اپنی مرصع نگاری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، پیش نظر شمارے میں ’’حضرت حافظ احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری‘‘ لے کر تشریف لائے ہیں، عنوان کے تنوع سے ہی ان کے حسن بیان کا ندازہ ہوتا ہے۔ مضمون کا آغاز اس فلسفیانہ جملے سے کیا ہے ’’ دور حاضر کا یہ المیہ ہے کہ اس میں تعلیم جتنی تیزی کے ساتھ پھیلتی جا رہی ہے، اتنی ہی سرعت کے ساتھ علم گھٹتا جا رہا ہے۔ ‘‘ مولانا کوکب نورانی کو پروفیسر موصوف سے یہ شکایت ہے کہ انہیں الفاظ کے استعمال کے شوق میں الفاظ کی ضرورت یا عدم ضرورت کا احساس نہیں رہتا۔ پروفیسر صاحب کے اس جملے سے ان کی شکایت بجا معلوم ہوتی ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ ہمارے یہاں توحید اور رسالت باہم دگریوںہم رشتہ اور ہم آہنگ ہیں کہ دونوں کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا‘‘ ’’ ہم تہی ساغر، تہی دامن اور تہی دست لوگ، بتکدۂ تصورات میں اس قدرکھو گئے ہیں کہ ہم نے توحید اور رسالت کو خانوں میں بانٹ دیا ہے، حالانکہ ہر دونوں لازم و ملزوم ہیں‘‘ پروفیسر صاحب کے نزدیک فن شاعری میں کمال کی بلند یوں پر پہنچنے والے صرف دو شاعر ہیں ، محسن کاکوروی اور امام رضا بریلوی اور امام بریلوی کی علمی شاعری کے بارے میںان کا حقیقت افروز اظہار ہے کہ ’’ سچی بات یہ ہے کہ وہ تو لکھ گئے کہ وہ جانتے تھے اور ہم پڑھ رہے ہیں مگر سمجھنے سے قاصر ہیں۔‘‘
جناب صبیح رحمانی نے’’ نعت رنگ‘‘ کو صفحات کی قید و بند سے آزاد کر کے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے اصحاب قلم کو سیر ہو کر اپنا پورا مطالعہ سپرد قرطاس کر دینے کا موقع مل جاتا ہے، اس سے ایک فائدہ یہ ہو تا ہے کہ قلم کار کو تمہید کے نام پر بیشتر مضامین میں فن نعت گوئی اور اس کی تاریخ و ارتقاء پر خامہ فرسائی کا موقع مل جاتا ہے اور قاری کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اسے موضوع کے تعلق سے معلومات ملے یا نہ ملے، آداب نعت اور تاریخ نعت تو اسے ازبر ہوہی جاتے ہیں۔ زیر تبصرہ شمارہ میں رحمانی صاحب کی اس فیاضی کا سب سے زیادہ فائدہ ویسے تو مولانا کوکب نورانی نے اٹھایا ہے ، لیکن ہندوستان کے محمد امجد رضا خاں نے بھی جس احسن طریقے سے موقع کا لطف اٹھایا ہے ، قابل دید ہے، موصوف نے اپنے ۱۲؍ صفحات کے مضمون میں ۱۰؍ صفحات پر ایسی معلوماتی تمہید لکھی ہے جس کے بعد وہ اصل موضوع پر کچھ بھی نہ لکھتے جب بھی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا، عنوان تحریر’’ رضا بریلوی کی نشتریت کے اساسی محرکات ‘‘ کی ذیل میں ڈیڑھ صفحات پر جو کچھ لکھا ہے، غنیمت ہے کہ صرف مجھے ایک ہی اقتباس نقل کرنے کی زحمت اٹھانی پڑ رہی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’رضا بریلوی کی ( کا) ان ایمان سوز اور کفری عقاید سے متاثر ہونا فطری اور قدرتی امر تھا، ان کا عشق رسول آتش فشاں بن گیا اور دل (میں) در د و اضطراب کی ’’ہو‘‘موجزن ہو گئی ، یہی احساس کم تری دور اصل امام رضا کی شاعری میں طنزو نشتریت کا محرک ہے۔‘‘
جنا ب شمشاد حسین رضوی ( بھارت )نے ’’ امام احمد رضا کے عربی قصاید کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے اپنا علمی مضمون قلم بند کیا ہے۔ شروع میں امام احمد رضا کی عربی دانی پر بھی اجمالی گفتگو کی ہے اور نہایت نرالے ڈھنگ سے عربی زبان و ادب میں امام رضا کے مقام و مرتبہ کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہے :’’ ان کی عربی شاعری کا اب تک کوئی دیوان شائع نہیں ہوا ، بلکہ ان کی شاعری بکھرے ہوئے انداز میں پائی جاتی ہے، اسی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عربی زبان و ادب میں ان کا کیا مقام ہے۔‘‘
پورا مضمون علمی ہے، مولانا کی تحریر سے عربی زبان و ادب پر خود ان کی نظر کا اندازہ ہوتا ہے ، انہوں نے اعلیٰ حضرت کے قصیدے کا امرا القیس کے عشقیہ اشعار سے تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ (اعلیٰ حضرت کی عربی شاعری ) کھنڈرات، خیموں اور چراگاہوں میں امر االقیس کے جذبات عشق کے اظہار کو ماند کر دیتی ہے۔‘‘ ہم تو اس پر تبصرہ کرنے سے رہے ، کیوں کہ اس پر صرف وہی تبصرہ کرنے کا حق رکھتے ہیں جو زبان عربی کے مزاج سے واقف ہیں اور جنہوں نے اشعر شعراء العرب امرأ القیس کی شاعری کا گہرامطالعہ کیا ہے۔
مولانا نے اپنے مضمون میں ایک غیر متعلق جملہ یہ بھی لکھا ہے کہ:’’مگر افسوس علامہ فضل رسول بدایونی کے موجودہ اخلاف و اذناب پر کہ وہ اپنے اسلاف کی روایات کو برقرار نہ رکھ سکے اور نہ ہی ان کی علمی و فنی اور تہذیبی خدمات کو اجاگر کر سکے۔‘‘
میرا خیال ہے کہ موجودہ دور اہل سنت کی مختلف خانقاہوں اور اداروں کو باہم جوڑنے کا جبری تقاضا کرتا ہے جبکہ اس طرح کے جملے مزید دوریاں پیدا کرتے ہیں ، علاوہ اس کے مولانا رضوی صاحب لفظ ’’اذناب‘‘ کے استعمال پر غور فرمالیں تو بہتر ہے۔ ویسے مولانا کو اہل بدایوں سے جو شکایت ہے اسے اور بھی اچھے طریقے سے پہنچایا جا سکتا تھا۔مجھے توقع ہے کہ صاحبزادہ مولانا اسید الحق بدایونی مستقبل قریب میں اپنے اسلاف کے کارناموں کو اجاگر کر کے اس شکایت کو دور کرنے کا سامان کریں گے ۔
سیا لکوٹ کے جناب ریاض حسین چودھری کا مضمون ’’ فاضل بریلوی کا شعری وژن ‘‘بھی لائق مطالعہ ہے، اس میں انہوں نے کئی باتوں کا انکشاف کیا ہے، مثلاً یہ کہ ’’ عظمت رفتہ کی با زیابی کا سفر اور تحریک پاکستان کا سفر دو مختلف چیزیں نہیں ۔‘‘ میرے خیال میں چودھری صاحب سے یہاں معمولی چوک ہو گئی ہے ، ورنہ وہ صرف تحریک پاکستان ہی کو نہیں ملک پاکستان کے سفر کو بھی’’ عظمت رفتہ کا سفر‘‘ لکھتے تو بے جانہ ہوتا، کیوں کہ جس طرح تحریک پاکستان کا سفر عظمت رفتہ کو یاد کرنے کے لیے درس عبرت بن گیااسی طرح ملک پاکستان کے سفر سے بھی عظمت رفتہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، لوگ سوچتے ہیں کہ کاش آج کا ہندوستان بھی کل کی طرح متحدہ ہندوستان ہوتا تو بیچ میں نفرت کی یہ دیواریں حائل نہ ہوتیں، جن کو پار کرنے کے لیے ویزا کی حصولیابی کے چکر میں ایڑیاں گھس جاتی ہیں۔ چودھری صاحب نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی لفظیات کے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’(فاضل بریلوی) الفاظ کا چنائو بہت ہی سوچ سمجھ کر کرتے ہیں،‘‘ چودھری صاحب نے اردو میں مروج لفظ ’’ انتخاب‘‘ کے ہوتے ہوئے ایک ہندی لفظ ’’ چنائو‘‘ کا استعمال کیا ہے، مجھے ڈر ہے کہ یہ جملہ راجا رشید محمود نہ پڑ ھ لیں، ورنہ وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ جناب ریاض چودھری کی تحریریں ہندوستان میں بھی پڑھی جاتی ہیں، جس کا اثر ان کی تحریر میں نمایاں طور سے آ شکارا ہے۔
صفحہ ۲۵۰ سے پروفیسر قیصر نجفی کا مضمون ’ ’ رضا بریلوی: باب تحیر کھولنے والا نعت گو شاعر ‘‘ شروع ہوتا ہے ، ۱۰ ؍ صفحات پر پھیلا ہوا یہ مضمون اعلیٰ حضرت کی فنکارانہ شاعری اور عالمانہ اسلوب کا خوبصورت تعارف کراتا ہے ، ساتھ ہی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی شخصیت کے حوالے سے بھی اس نے ایک باب تحیر کھول دیا ہے، رقم طراز ہیں: ’’ انہوں (اعلیٰ حضرت ) نے اپنی تمام تر علمی و ادبی صلاحیتوں کوحمد، نعت اور منقبت کے لیے وقف کر رکھا تھا۔‘‘ اب دیکھیے گو جرانوالہ کے پروفیسر محمد اقبال جاوید اس سے کہاں تک اتفاق کرتے ہیں جنہوں نے اسی شمارہ کے صفحہ ۶۹؍ پر یہ لکھا ہے کہ :’’ ان کی شاعری طبعی اضطراب کے بے ساختہ پن کا حاصل تھی، کیوں کہ آورد کے لیے فکر کو وقت کی ضرورت ہے اور وقت ان کے پاس تھا نہیں کہ اسے شعر گوئی کے لیے وقف کیا جا سکے۔‘‘
مولانا کوکب نورانی اس ’’ انکشافی تحقیق ‘‘کے ساتھ محفل’’ نعت رنگ‘‘ میں جلوہ بار ہو ئے ہیں’’ رضویات ‘‘ پر ریسرچ کرنے والے نوٹ فرمالیں۔’’ اپنے نام ’’ احمد رضا‘‘ کے اعداد کی مناسبت سے اتنی ہی کتابیں تحریر کرنے والے ’’ اعلیٰ حضرت‘‘۔
’’ نعت رنگ‘‘ کے پڑھنے والوں کا ماننا ہے کہ ہر بار مولانا کوکب نورانی اپنے دلچسپ طویل علمی و تنقیدی مکتوب سے ’’ نعت رنگ ‘‘ پر چھائے رہتے ہیں، اس بار مکتوب کی بجائے اپنے ناقدانہ مضمون سے چھائے ہوئے ہیں، اپنی گونا گوں مصروفیتوں کے علاوہ اس بار اپنی والدہ کی وفات کے غم میں بھی افسردہ تھے ، جس کی وجہ سے وہ سیر ہوکر نہیں لکھ سکے، اختصار سے بہت سے حوالے اور باتیں چھوڑ کر صرف ۱۵۱ صفحات پر ہی لکھ سکے ہیں، یہ تحریر دراصل علی گڑھ کے جناب رئیس احمد نعمانی کی ایک تنقیدی تحریر کا جواب ہے، نعمانی صاحب نے فاضل بریلوی کی نعتیہ شاعری پر نہایت سوقیانہ لب و لہجہ میں تنقید کی ہے، اور مجھے نہیں لگتا کہ وہ مولانا نورانی کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد غصہ ہونے کے علاوہ اپنی تحریر پر نظر ثانی کرنے کی بھی زحمت کریں گے، بہر کیف! نورانی صاحب نے اکابر دیوبند کے نا قابل انکار حوالوں سے جس طرح اپنے موقف کو موکد کیا ہے، نعمانی صاحب اگر حلقۂ دیو بند سے ہیں تو انہیں ضرور خاموشی اختیار کر لینی چاہیے۔
صفحہ ۵۰۲ سے پروفیسر شبیر احمد قادری کا مضمون ’’ تذکرۂ رضا اور  نعت رنگ‘‘ شروع ہوتا ہے، مضمون بڑی محنت و جاں فشانی سے لکھا گیا ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ نعت رنگ کے اب تک کے شمارو ں میں جہاں کہیں بھی ،کسی طرح بھی اعلیٰ حضرت کا ذکر آیا ہے موصوف نے اسے نقل کر دیا ہے، حتیٰ کہ’’ نعت رنگ‘ ‘ کے دوسرے شمارے میں جناب حفیظ تائب نے اپنے مضمون میں راجا رشید محمود کے رسالہ ماہنامہ ’’ نعت اگست ۱۹۹۹ء کا ذکر کیا تھا ، اتفاق سے ماہنامہ ’’ نعت‘‘کے اس شمارے کے سر ورق پر’’ فیضان رضا‘‘ لکھا ہوا ہے ، اس لیے پروفیسر شبیر قادری صاحب نے اس کا ذکر بھی فرما دیا ہے۔ پروفیسر موصوف کی تحریر پڑھ کر یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’ نعت رنگ‘‘ میں اعلیٰ حضرت کے تعلق سے لکھنے والوں میں ہندوستانی اہل قلم کی اکثریت ہے، کیوں کہ اس سے پہلے کے ۱۷ شماروں میں اعلیٰ حضرت کی شاعری کے حوالے سے ۶؍ مضامین شائع ہو ئے ہیں اور اتفاق کہیے کہ سبھی ہندوستانیوں کے ہیں، خود پیش نظر شمارے میں ۱۳؍ مضامین ہندوستانی قلم کاروں کے ہیں جن میں بیشتر اعلیٰ معیار کے ہیں۔
’’ ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط ایک علمی و فنی شخصیت ہیں، ان کی تحریریں پڑھ کر ان کی وسعت مطالعہ کا اندازہ ہوتا ہے اور تحریروں کا فنکارانہ انداز دیکھ کر ان کے قلم کی پختگی اور بیان کی سلیقہ مندی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ اس بار سید صاحب ایک نہایت عمدہ تحریر ’’ فتاویٰ رضویہ اور نعت کا موضوع‘‘ کے ساتھ ’’ نعت رنگ‘‘ کی بزم میں شریک ہوئے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی یہ تحریر کئی وجوہ سے اس بار چرچے میں رہے گی، اسے پڑھنے کے بعد اچانک خیال آیا کہ جناب کلیم صاحب نے غالباً ایسی ہی تحریروں کے بارے میں کہا تھا  ؎
  1. بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
    بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
پیش نظر شمارے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک مکتوب بھی شامل ہے، اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ : ’’ نعت رنگ کے شمارہ ۱۷ میں مولانا محترم کوکب نورانی صاحب مد ظلہ العالی کا خط پڑھ کر خوشی ہوئی کہ اب کی بار ان کے لہجے میں سختی نہیں ہے۔‘‘ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نعت رنگ شمارہ؍۱۹ پڑھ کر ان کی یہ خوشی وقتی معلوم ہویا غم میں بدل جائے۔
کسی اشرفی صاحب نے کسی مقام پر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی معرکۃ الآرا نعت ’’ لم یات نظیر ک فی نظر‘‘کے بارے میں یہ لکھ دیا ہے کہ :’’ اس نعت میں عربی ،فارسی اور ہندی کی اردو کے ساتھ آمیزش تو نعتیہ شاعری میں نادر الوجود نہیں کہی جا سکتی ، ہاں اس کی لسانیاتی تکنیک میں (جو) آمیزش و آہنگ ہے، جو سلاست و روانی ہے، اس کی لطافت اور دل نشینی کی باز گشت سے آج بھی اردو کی نعتیہ شاعری محروم ہے۔‘‘
مولانا شاہ محمد تبریزی القادری (کراچی ) کو اس تحریر میں نہ جانے کون سا تضاد نظر آ گیا اور نہیں معلوم وہ یہ پڑھ کر کیوں اس قدر غصہ ہو گئے کہ اشرفی صاحب کا نام لیے بغیر ان کی اتنی سی ذرا بات کا   ۳۵ صفحات میںافسانہ کر دیا،اور مطلع سے طومار بیانی کرتے ہوئے جب مقطع پر پہنچے تو یہ نکتہ آفرینی فرمائی کہ:’’ امام رضا نے اس نعت کے مقطع میں تو ایسی کمال ہنر مندی دکھائی کہ ہندی زبان کا ایک بھی لفظ استعمال نہیں فرمایا۔‘‘ میں ادب کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے حضرت مولانا تبریزی صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ یہ بتائیں کہ مقطع میں اعلیٰ حضرت نے ہندی زبان کا لفظ استعمال نہ کر کے اگر کمال ہنر مندی دکھائی ہے تو دوسرے اشعار میں نصف مصرع ہندی زبان میں لکھ کر آخر کیا کیا ہے؟
مولانا موصوف اعلیٰ حضرت کی مذکورہ نعت کے اوصاف و خصوصیات کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد بطور نتیجہ ارشاد فرماتے ہیں: اسی وجہ سے یہ نعت ازل کی طرح آج بھی ( گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے) ہر خاص و عام کی زبان پر جاری و ساری ہے، اور ابد تک اسی طرح رواں دواں رہے گی۔ ‘‘ یہ پڑھ کر مجھے یہ تو معلوم ہو گیا کہ مولانا موصوف کا ’’ازل‘‘ ڈیڑھ سو سال کا ہے، لیکن ان کا’’ ابد‘‘ کتنے سالوں کا ہے نہیں معلوم ہو سکا، مجھے امید ہے کہ موصوف ہمیں اس سے بھی آگاہ فرمائیں گے۔
’’ نعت رنگ ‘‘ کے مکتوبات کا حصہ ویسے بھی علمی ہوتا ہے، اس بار پروفیسر قیصر نجفی ، ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی ، سید طلحہ رضوی برق ، پروفیسر شفقت رضوی اور علامہ شرف قادری کے علمی مکتوبات نے اسے مزید وقیع بنا دیا ہے، پروفیسر نجفی صاحب نے بجا طور پر ’’ نعت رنگ‘‘ کا شمار ان جرائد میں کرایا ہے جو ادب میں لا بی ازم یا گروہ بندی کو تکفیر کی حد تک برا خیال کرتے ہیں۔ حضرت مولانا کوکب نورانی کے بارے میں اردو کے معتبر ترین ادیب و ناقد جناب شمس الرحمن فاروقی کی یہ رائے کہ’’ حضرت مولانا موصوف کی دقت نظر اور وضع احتیاط کا جواب شاید ہی کہیں ملے گا۔‘‘ مولانا نورانی کے مخالفین کے لیے آئینہ ہے۔پروفیسر شفقت رضوی کا یہ حقیقت پسند انہ تجزیہ بار بار پڑھنے کی چیز ہے، فرماتے ہیں: ’’ لاکھ پابندی لگائو کہ ذکر نہ ہو، احترام نہ ہو، عقیدت میں سر نہ جھکے، ہاتھ کا اشارہ نہ ہو، زبان پر یا رسو ل اللہ نے آئے ، لیکن نہ تو فتوئوں کی ضرب اور نہ قمچیوں کی ضرب دلوں کے جذبوں پر قابو پا سکیں، نہ محبتوں اور عقیدتوں کے سوتے سوکھ سکے۔‘‘
فیصل آباد کے جناب محمد افضل خاکسار کا خط بھی میں نے توجہ سے پڑھا، کچھ باتیں ان کی معقول بھی ہیںلیکن اسلوب تیکھا، تیور جارحانہ ، انداز سوقیانہ اور وجہ تحریر مولانا کوکب نورانی سے ذاتی عداوت معلوم ہوتی ہے ۔ اب دیکھیے مولانا نورانی اس پر کیا گل افشانی کرتے ہیں ، ویسے میں ان سے عرض کروں گا کہ ایسی تحریروں کا جواب نہ دینا ہی ان کا صحیح جواب ہے۔
 بڑی نا انصافی ہوگی اگر ہم اپنی بات ’’ نعت رنگ‘‘ کے مدیر و مرتب عالی جناب سید صبیح رحمانی کے حضور گلدستہ شکر وستائش پیش کیے بغیر ختم کر دیں جنہوں نے پہلی بار چودہویں صدی ہجری کی عبقری شخصیت مولانا امام احمد رضا خان فاضل بریلوی کا تعارف ’’ بحیثیت شاعر‘‘ کرایا اوراہل علم کو کھل کر ان کی شاعری کا ناقدانہ جائزہ لینے کی دعوت دی، اگرچہ بقول ان کے’’ اپنوں کی بے گانگی‘‘ نے انہیں ان کے مقصد میں پور ے طور پر کامیاب ہونے نہیں دیا، لیکن باوجود اس کے انہیں خوشی ہے کہ انہوں نے اس نمبر کے توسط سے قارئین تک یہ احساس منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے کہ فاضل بریلوی جتنے اہم اور مقبول شاعر ہیں ان پر اب تک ویسا کام نہیں ہو سکا، اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ’’ ممکن ہے اس احساس کی بدولت آئندہ کوئی اعلیٰ کام سامنے آ سکے۔‘‘

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔