Tuesday, 23 January 2018

اسلام اور عصر جدید

0 comments
اسلام اور عصر جدید
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-------------------------------------------------------------------
یہ عہد تضاد ہے:-
 عصر حاضر کوعہد تضاد سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، انسانی آبادی کی کثرت اور آزادی فکر ونظر سے پیدا شدہ کثرت افکار و نظریات نے ہر مسئلہ کے کئی پہلو پیش کردیے ہیں اور عجب یہ کہ ہر پہلو میں ایک فلسفے کے تحت جتنی خوبیاں نمایاں کی جاتی ہیں، دوسرے فلسفے کے تحت اتنی ہی خامیاں بھی دکھائی جاتی ہیں، اس کی سادہ مثال عصر جدید میں عورت کے لباس کا مسئلہ ہے، جہاں اسلامی فکر اس کے تعلق سے یہ کہتی ہے کہ عورت کو بے حجاب کرکے یا باریک کپڑے پہنا کر اس کی جسمانی شراب سے نفسانی سرور حاصل کرنا عورت کا جنسی استحصال اور اس پر کھلا ظلم ہے وہیں غیر اسلامی فکر کا یہ پرزور ادعا ہے کہ عورت کو با حجاب کردینا اس کو ایک طرح سے کپڑے میں جکڑ دینا اور بوریے میں کس دینا ہے اور اسے موٹے کپڑے پہننے کو کہنا اسے ٹھنڈی ہوا کھانے کے فطری حق سے محروم کرنا ہے اور یہ سراسر ظلم ہے اور یہ اس زاویے سے بھی ظلم ہے کہ عورت کا جسم اس کی ملکیت ہے، وہ چاہے چھپا کر رکھے یا اپنے حسن کو بے حجاب کردے، اس مسئلہ میں دوسروں کا پڑنا اس کو اس کی شخصی آزادی سے محروم کرنا ہے۔ 
یہ ایک مثال ہے، موجودہ دور میں کسی بھی مسئلہ پر غور و خوض کرنے بیٹھ جائیں تو تضاد کی صورت ہمیں صاف نظر آئے گی، اسلامی اعتقادیات اور اسلامی نظام حیات آج پوری دنیا میں زیر بحث ہے، یا دوسرے لفظوں میں ہدف تنقید ہے۔ ان کے بارے نہ صرف یہ کہا جارہا ہے کہ عصر جدید میں ان کا نفاذ مشکل ہے بلکہ انہیں خلاف واقع، غلط اور خلاف انسانیت ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، دوسری طرف اسلام پسندوں اور اسلامی دانشوروں کو دیکھیے تو وہ کائنات کے لیے صالح زندگی کے لیے اور پر امن معاشرے کی تشکیل کے لیے صرف اسلامی نظام فکر وحیات کو بنیاد سمجھتے ہیں، اسلام اور کفر پر مشتمل پوری دنیا اس نظری جنگ میں شامل ہے، جنگ زوروں پر ہے، جو جب جہاں اور جیسے غالب آتا ہے فریق مخالف کا ایک بڑا گروہ اس کا ہم نوا بنتاچلا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کا ایک بڑا حلقہ دامن اسلام میں آرہا ہے وہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسلام کے کتنے ہی فرزندوں پر غیر اسلامی فکر ونظر اور طرز بود وباش غالب آتی جارہی ہے، اپنے آپ میں مسلم اسکالر اور دانشور کہے جانے والے افراد  بھی مغرب سے فکری وعملی اور معاشرتی شکست تسلیم کرتے جارہے ہیں۔ 
دور جدید کا یہ متضاد پہلو ہمیں بتاتا ہے کہ آج حالات کے تجزیہ میں خواہ ہم جو کلیہ بھی بنائیں وہ مکمل طور سے مبنی بر حقیقت نہیں ہوسکتا، بعض نہیں بہت سے زاویوں سے اس میں استثناء کی صورت ہمیں نظر آئے گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر جس طرح یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ موجودہ دور اسلام موافق دور ہے اور اب جلد ہی اسلام کا غلبہ عام ہونے والا ہے ، اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ موجودہ دور اسلام مخالف دور ہے اور اب جلد ہی اسلام پوری دنیا میں مغربی زیر اثر آکر مکمل طور پر شکست و ریخت سے دوچار ہوجائے گا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عصرجدید اسلام پسندوں کے لیے نہ تو خوش فہمیوں کی جنت ہے کہ مارے خوشی کے بغلیں بجانا شروع کردیں اور نہ ہی مایوسیوں کا مدفن ہے جہاں زندگی، حرکت اور موثر عمل کا ہر تصور بے معنی ہوتا ہے کہ شدت قنوطیت سے مجبور ہوکر وہ مصلی سمیٹنے کی تیاری میں لگ جائیں۔ 
دور جدید کا جو سبق ہمارے لیے سب سے اہم ہے وہ یہ کہ کسی بھی کام کے لیے جس قدر کوشش ہوگی اس کے اثرات بھی اسی قدر سامنے آئیں گے، اگر ہم کسی گاؤں میں جلسے کرکے شہر والوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہیں، اسلام کی حمایت میں ایک مضمون لکھ کر مخالفین کے دانت کھٹے کردینے کا خواب دیکھیں ، اردو مضامین لکھ کر انگریزی پڑھنے والوں کو بھی حقیقت آشنا کرنے کا تصور کرلیں ، کسی ریڈیو اسٹیشن یا ٹیلی ویژن چینل سے ایک بار اپنی بات کہہ کر خود کو دعوت حق کی ذمہ داریوں سے سبکدوش سمجھ لیں تو ہماری سوچ مضحکہ خیز ہی نہیں قابل ماتم بھی ہوگی۔ کوئی بھی نظریہ ، کوئی بھی تصور یا کوئی بھی نظام، اگر اسلامی طور پر ہم اسے حق مانتے ہیں ،اسے فلاح انسانیت کا ضامن سمجھتے ہیں تو ہم پر فرض ہے کہ دنیا کے ہر ہر فرد تک اس کو پہنچانے کا عزم کرلیں، ابلاغ حق میں ہماری جتنی کاوشیں ہوں گی ان کا اثر ضرور مرتب ہوگا۔ ارشاد باری  لیس للانسان الا ماسعیٰکووسیع تناظر میں دیکھیں تو یہ حقیقت سمجھنے میں بڑی آسانی ہوگی۔
اسلام کی داخلی صورت حال:-
 اسلام قرن اول میں ہی شیعہ اور سنی جماعتوں میں تقسیم ہوگیا، ہر دو فریق نے اپنے کو حق پر اور دوسرے کو ناحق پر قرار دیا، پھر ہر ایک گروپ سے درجنوں جماعتیں وجود میں آئیں، سنی جماعت کے ماتریدیہ و اشاعرہ مکتب فکر کو چاروں مسالک فقہیہ نے قبول کیا اور یہ اتفاقی طور پر تسلیم کیا گیا کہ یہ پورا گروہ اہل سنت و جماعت ہے۔ ۱۷۴۴ء میں شیخ محمد بن عبد اللہ نجدی نے شیخ ابن تیمیہ کے فکری منہاج پر توحید کی دعوت شروع کی اور بزعم خویش مسلمانوں میں پیدا شدہ شرک کی آلائشوں کو پاک کرنے کا بیڑہ اٹھایا تو وہابی تحریک کی بنیاد پڑی اور جس طبقہ نے اس نئی دعوت کو مسترد کردیا وہ صوفیہ کہلایا، تقلید شخصی کے تعلق سے وہابی تحریک دو خیموں میں بٹ گئی، غیر مقلدین جنہیں سلفی کہا جاتا ہے اور مقلدین جو دیوبندی تبلیغی، ندوی وغیرہ ناموں سے جانے جاتے ہیں، ہندوستان کی جماعت اسلامی اور عالم عرب کی اخوانی تحریک بھی اس سے متاثر ہے۔ صوفیہ بھی مختلف سلسلوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان کے بھی کئی ایک نام ہیں، لیکن باوجود اس کے پوری دنیا (اہل تشییع اور بعض استثناء کے علاوہ ) نظریاتی طور پر اسی دونوں گروہوں میں ہی بٹی ہوئی ہے، واضح رہے کہ وہابی تحریک اپنے جملہ متعلقات کے ساتھ ایک نئی تحریک ہے، اس سے وہی لوگ متاثر ہوئے جن پر اس کی تبلیغی کاوشیں ہوئیں، اتفاق سے روز اول سے ہی اسے حکومتی پشت پناہی حاصل ہوگئی، اس لیے اس کا تبلیغی دائرہ وسیع ہوگیا، لیکن باوجود اس کے عوامی سطح پر یہ آج بھی بے اثر ہے اور امت کا بڑا طبقہ اس سے اب بھی بیزارہے۔ اور چوں کہ وہابیت ایک نئی تحریک ہے، اس لیے جو فعالیت اور دعوتی اسپرٹ اس کے اندر ہے وہ صوفیہ کے اندر نہیں ہے، اس کے ساتھ موجودہ دنیا کی ساری مسلم جماعتوں کا فکری و عملی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر ایک دوسری جماعت کے ساتھ آمادۂ پیکار ہے، جس کی وجہ سے اس کی نظر خارجی دشمن پر کم پڑتی ہے ، یہ تشدد اس قدر ہے کہ جو حملے خارجی سطح سے اسلام پر کیے جارہے ہیں ان کے ردو ابطال میں گروہی مفاد خالص اسلامی مفاد پر غالب آجاتا ہے۔ 
اسلام کی خارجی صورت حال: خلافت راشدہ اسلامی حکومت کی مثالی تصویر تھی، اس کے بعد ۴۱ھ / ۶۶۱ء میںخلافت بنو امیہ کا قیام عمل میں آیا جو ۱۳۲ھ/ ۷۴۹ء میں عباسی خلافت کے قیام سے اپنی انتہا کو پہنچ گئی، اموی دور اسلامی توسیع کادور رہا، عباسی دور میں علمی، تعمیری اور فنی کام زیادہ ہوئے، اس کے دور آخر میں صلیبی حملے ہوئے جس کو ایوبی تدبر نے ناکام بنادیا، لیکن تاتاریوں نے ۶۵۵ھ / ۱۲۵۷ء میں حکومت کا تختہ پلٹ دیا اور امت خارجی سطح پر بے حد کمزور ہوگئی، لیکن مشیت ایزدی ایسی رہی کہ صنم خانے سے کعبہ کو پاسبان مل گئے اور عثمانی خلافت قائم ہوگئی، جس کا اختتام ۱۹۲۳ء میں ہوگیا، اس کے ساتھ ہی مغرب کے اشارے پرمرکز خلافت سر زمین ترکی سے شریعت اسلامیہ کو معطل کردیا گیا اور سوئزرلینڈ کے مدنی و شہری قانون ،اٹلی کے دیوانی قانون اور جرمنی کے تجارتی قانون ترکی میں نافذ العمل قرار پائے، اس کے بعد مسلم دنیا کا نقشہ بدلتا ہی چلا گیا اور استعماری زور اور مشینری قوت نے یکے بعد دیگرے مسلم حکومتوں سے اسلامی قوانین کو دیس نکالا دے دیا، ۱۹۲۷ء میں ایران میں رضا شاہ نے اسلامی قوانین کی جگہ فرانسیسی قوانین نافذ کیے، آج حال یہ ہے کہ اسلامی اصول وقوانین تقریباً تمام مسلم ریاستوں میں اجنبی بن گئے ہیں یا بنتے جارہے ہیں، اس کے پیچھے در اصل مغرب کی وہ عملی و فکری جنگ کا اثر ہے جسے استشراق، تبشیر اور دوسرے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ 
عبرت کی دوصدیاں:-
 اسلام اور مغرب کے تناظر میں جب بھی جنگ و امن کی گفتگو ہوتی ہے تو عموماً ایسا ہوتا ہے کہ اسلام پر جنگ کی افزائش کا الزام آجاتا ہے اور مغرب امن کا حامی اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے اصول کا علم بردار بن جاتا ہے، مسلمانوں نے چند جنگیں کیا لڑیں کہ آج تک ان کا دفاع کرتے کرتے ان کے قویٰ مضمحل ہونے لگے ہیںاور ہمت جواب دینے لگی ہے، مغربی اہل علم نے انہیں علمی اور فکری طور پر ایسے الجھادیا ہے کہ اب وہ دفاعی پوزیشن سے بھی ہٹ کر راہ فرار تلاش کرنے لگے ہیں، آج جنگ و امن کی پوری بحث ۱۴؍ سو سالہ قبل ان جنگوں کے ارد گرد ہی گھومتی رہتی ہے جنہیں مسلمانوں نے اپنی بقا کے لیے لڑی تھیں۔ اہل مغرب بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسلامی عروج کے عہد کو وحشت کا عہد کہتے ہیں اور دور جدید کو تمدن کا عہد ، حالاں کہ پچھلی چار سو سالہ تاریخ کا عمیق جائزہ لیجئے تو پتہ چلے گا کہ اسلام جس طرح رفتہ رفتہ کمزور ہوتا چلا گیا، دنیا اسی طرح وحشت کا شکار ہوتی چلی گئی، بلکہ در حقیقت اسلام کے خلاف کی جانے والی اسی داخلی و خارجی وحشت ہی کا نتیجہ ہے کہ اسلام کمزور ہوا، خصوصاً پچھلے دو سو سالوں میں استعمار اور تبشیر نے جو کچھ کیا اگر ان کا ناقدانہ اور منصفانہ تجزیہ کیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی۔ معروف عرب قلم کار مصطفی محمد الطحان نے انیسویں اور بیسویں صدی میں عالم اسلام پر صلیبی عسکری حملوں کی جور وداد پیش کی ہے ،اسے ذیل میں نقل کرتے ہیں ، اس سے عہد تمدن کی وحشت ناکیاں بخوبی سمجھی جاسکتی ہیں۔ 
* ۱۷۹۸ء میں ہندوستان کے مغربی جزائر ہالینڈ کے تسلط میں آگئے. * ۱۸۲۰ء میں عمان اور قطر کی امارتیں برطانوی تحفظ کے زیر نگیں ہوگئیں. * ۱۸۳۰ء میں فرانس نے الجزائر کی آزادی سلب کرلی. * ۱۸۳۴ء میں قوقاز کو روس کی آمرانہ حکومت نے ہڑپ کرلیا. * ۱۸۳۹ء میں برطانوی حکومت کے زیر نگیں ہندستان اور افغانستان میں پہلی جنگ ہوئی. * ۱۸۳۹ء میں برطانیہ عدن پر قابض ہوجاتا ہے. * ۱۸۴۲ء میں برطانیہ سندھ کی مسلم امارتوں پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے. * ۱۸۴۹ء میں برطانیہ ہندوستان کے مغربی شمالی علاقوں میں قبائل کی آراضی پر قبضہ کرتا ہے. * ۱۸۵۳ء میں روس، تاشقند پر قابض ہوجاتا ہے. * ۱۸۵۶ء میں برطانیہ ہندوستان میں اودھ کی مسلم ریاست پر اپنا تسلط قائم کرتا ہے. * ۱۸۵۷ء میں برطانیہ ہندوستان میں مغلوں کی حکومت کا خاتمہ کرتا ہے. * ۱۸۶۶ء میں سمر قند و بخارا کی سرزمین پر روس اپنا عفریت مسلط کردیتا ہے. * ۱۸۷۳ء میں ازبکستان پر روس مسلط ہوجاتا ہے. * ۱۸۷۵ء میں خوکند کے علاقے روس ہضم کرجاتا ہے. *  ۱۸۷۸ء میں قبرص پر برطانیہ اپنا قبضہ قائم کرلیتا ہے. * ۱۸۷۹ء میں برطانوی ظلم کے خلاف افغانستان کی دوسری جنگ ہوتی ہے. *۱۸۸۱ء میں فرانس میونس پر حملہ آور ہوتا ہے. * ۱۸۸۲ء میں برطانیہ مصر پر قبضہ کرتا ہے. * ۱۸۸۵ء میں اٹلی نے اریٹیریا پر حملہ کردیا. *۱۸۹۰ء میں فرانس نے سینیگال پر یورش کردی. * ۱۸۹۱ء میں مسقط اور عمان برطانوی تحفظ میں کردیے گئے. * ۱۸۹۵ء میں روس پامیر کو اپنے اندر ضم کرلیتا ہے. * ۱۸۹۸ء میں برطانیہ سوڈان پر قبضہ جمالیتا ہے. * ۱۸۹۹ء میں بلوچستان کے مسلم علاقوں کو برطانوی ہندوستان میں ضم کردیا گیا.* ۱۹۰۰ء میں فرانس چاڈ پر حملہ کر بیٹھتا ہے. * ۱۹۰۶ء میں شمالی نائیجریا کی اسلامی سلطنتیں برطانیہ کی چراگاہ بن جاتی ہیں. * ۱۹۱۲ء میں اٹلی لیبیا پر ہلہ بول دیتا ہے. * ۱۹۱۲ء ہی میں فرانس اور ہسپانیہ مراکش پر حملہ آور ہوجاتے ہیں. * ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی اور ترکی پر حملہ کردیا گیا. * ۱۹۱۴ء میں کویت برطانوی تسلط میں چلا گیا. * ۱۹۱۹ء میں یونان ترکی کی آراضی پر قابض ہو گیا. * ۱۹۱۹ء ہی میں ترکی میں شامل اٹلی کے حصوںپر اٹلی نے اپنا تسلط قائم کرلیا. * ۱۹۱۹ء میں ہی فرانس عثمانی سسلی پر قابض ہوگیا. * ۱۹۱۹ء ہی میں تیسری افغانی جنگ لڑی گئی. * ۱۹۲۰ء میں عراق برطانوی تحفظ میں چلاگیا. * ۱۹۲۰ء میں شام اور لبنان فرانسیسی حفاظت میں کردے گئے. * ۱۹۲۶ء میں اٹلی صومالیہ کے ایک حصے پر قبضہ کرلیتا ہے. * ۱۹۴۱ء میں ایران روسی و برطانوی مشترک مقبوضات میں چلا جاتا ہے. * ۱۹۴۸ء میں فلسطینی قوم کی پیٹھ میںخنجر گھونپ کر اسرائیل کی مملکت قائم کردی جاتی ہے. * ۱۹۵۶ء میں نہر سویز کے مسئلہ پر برطانیہ اور فرانس مصر پر دھاوا بول دیتے ہیں. * ۱۹۷۹ء میں روس افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیتا ہے۔ (فی التدریب التربوی (اردو ترجمہ) ص ۱۳۔۱۴ ، ہلال پبلیکیشنز، کلکتہ ۱۹۱۳ء )
یہ عہد تمدن میں متمدن قوموں کی اسلام مخالف یورشوں اور غاصبانہ قبضوں کی ایک مختصر سی جھلک ہے، اس کے بعد ۱۹۹۲ء کی جنگ خلیج کی وحشتیں اور پھر افغانستان و عراق پر یکے بعد دیگرے مہذب حملوں کی خوں چکاں داستان الگ ہے، اہل مغرب کی ان ساری شرافتوں کے باوجود نہ جانے کیوں آج بھی ظلم و وحشت کی سوئی اسلام اور مسلمانوں کی طرف ہی اٹھی رہتی ہے ، مخالفین اسلام کی بات تو چھوڑیے، مسلم علماء، دانشوران اور طلبہ کی نظروں سے بھی یہ دو سو سالہ تاریخ بربریت اوجھل ہے، اتنی بڑی مظلومیت کے باوجود مغرب نے انہیں احساس ظالمیت میں مبتلا کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی ساری ذہنی توانائی اسلام اور مسلم حکمرانوں کے دفاع میں صرف ہوتی ہے، آج ضرورت ہے کہ مسلم اہل علم ، طلبہ، لیڈران، قائدین سب سے پہلے احساس ظالمیت سے باہر آئیں، اور دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت کوو اضح کریں۔ یہ بہت بڑا فریضہ ہے ، جب تک ہم دنیا کے سامنے اپنی مظلومیت پیش نہیں کردیتے عوامی سطح پر ہم کبھی بھی نرمی اور رواداری کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ 
خطرات کی طرف:-
۱۹۹۷ء میں ہر تزل کی قیادت میں سوئزر لینڈ میں یہودیوں کی کانفرنس ہوئی جس میں یہودی ریاست کے قیام پر غور وخوض کیا گیا، اس کانفرنس کے بعد جب اخباری نمائندوں نے ہرتزل سے سوال کیا کہ آپ لوگوں نے اس کانفرنس میں کیا کیا؟ تو اس نے جواب دیا، ’’ہم نے اسرائیل کی سلطنت قائم کرلی۔‘‘ سوال ہوا کہ یہ ریاست عملاً کب قائم ہورہی ہے؟ تو ہرتزل نے جواب دیا، ’’وہ پانچ سال بعد قائم ہوسکتی ہے لیکن پچاس سال بعد تو ضرور قائم ہوکر رہے گی۔‘‘ (فی التدریب التربوی (اردو) ص ۲۰۸)
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انیسویں صدی یہودیوں کی سازش ، تلیفق اور عیسائی مشینریوں کے توسط سے اپنے مفاد کی حصولیابی کی فکر میں گذری، اب وہ اس پوزیشن میں تھے کہ باضابطہ اپنی ریاست قائم کرکے اپنے اوپر سے ذلت و مسکنت کی مہر کو مٹانے کی کوشش کرتے، چنانچہ انیسویں صدی کے اختتام کے ساتھ ہی انہیں اپنی کامیابی کا یقین ہوگیا، اور ہرتزل کے توقعات کے عین مطابق ۵۰؍ سال کے اندر اندر یہودی ریاست اسرائیل قائم ہوگئی۔ مسیحی سامراج اور مشینری تحریکات کے ذریعہ انہوں نے راستہ بنایا اور جب منزل کے امکانات روشن ہوگئے تو خاص حکمت عملی کے تحت اب سامراج سے ملکوں کو آزاد کرانا شروع کردیا اور نتیجہ میں ایک آزاد ریاست ان کے ہاتھوں میں بھی آگئی۔ یہ ۱۹۴۷ء کی بات ہے ، اس کے ساتھ ہی لیگ آف نیشنز کا قیام پھر اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آگیاجو تنظیم برائے امن بنام تنظیم برائے استیصال اقتدار اسلامی ہے، اور جس کا فی الواقع مقصد یہودی عالمی نظام کا قیام ہے۔ 
۱۹۸۳ء میں امریکی صدر بی کارٹر نے ’’قابل برداشت سوسائٹی‘‘Sustainable Societyکے قیام کا اعلان کیا جو یہودی عالمی نظام کی عملی تشکیل کی راہ میں پہلا قدم تھا اور اس راہ میں مزید عملی پیش رفت کے لیے ۱۹۹۱ء میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘کا اعلان کردیا گیا ، اس کے مطابق قابل برداشت سوسائٹی کے قیام کے لیے تمام مراحل تفصیل وار نوٹ کرلیے گیے اور اس منصوبہ کی تکمیل کی مدت ۴۰؍ سال رکھی گئی، اس طرح ۲۰۳۰ء تک اس نظام کو مکمل طور پر نافذ ہوجانا ہے۔ یہ قابل برداشت سوسائٹی کیا ہے؟ اس کے بارے میں جناب اسرار عالم لکھتے ہیں: 
’’یہودیوں کی دیرینہ خواہشات کے عین مطابق ، سیکولرائزیشن کے ہمہ جہت ، ہمہ گیر ، ہمہ اطراف اور بیک وقت جزوی اور کلی دونوں سطحوں پر نفاذ کا دوسرا نام ’’قابل برداشت سوسائٹی‘‘ ہے۔ اسے ٹوٹل سیکولرائزیشن کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔‘ ‘(عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال، ۳۴۶)
اس قابل برداشت سوسائٹی کا قیام نیو ورلڈ آرڈر کے منصوبہ کے تحت ، اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی امریکی قوت نافذہ کے ذریعے عمل میں آئے گا۔ ۱۹۹۱ء کے بعد امریکہ نے اس کے لیے اپنی جد وجہد تیز کردی ہے، اپنے ارد گرد ہم آئے دن جو کچھ دیکھ رہے ہیں جن سے ہماری حیرتوں میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے، یہ در اصل اسی نیو ورلڈ آرڈر کی کرشمہ سازیاں ہیں۔  Dalit Voiceکے ایڈیٹر وی ٹی راج شیکر کے بقول نیو ورلڈ آرڈر متعصب سفید فاموں اور صہیونیوں کی سیاہ فاموں اور مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش کا نام ہے۔ "Global conspiracy of white racists and zionists against Blacks and Muslims"
راج شیکر مزید لکھتے ہیں: ’’اگرچہ یہ منصوبہ یوروپی سفید فاموں نے بنایا تھا، لیکن قبل اس کے کہ یہ تمام اہل یورپ کے ہاتھ میں جاتا، اس کی قیادت کو امریکہ نے اچک لیا، اور اس نے یوروپی سفید فاموں سے یہ عہد کرلیا کہ وہ نیوورلڈ آرڈر کا تجربہ خلیجی ممالک سے شروع کرے گا، پہلے عراق کو شکست دے گا، صدام کو قتل کرے گا اور پھر بغداد کو اسلامی عسکری قوت کو کچلنے کے لیے مرکز کے طور پر استعمال کرے گا۔‘‘
جناب راج شیکرنومبر ۱۹۹۱ء کے اپنے اس اداریے میں مزید لکھتے ہیں: 
’’لیکن بد قسمتی سے نہ تو عالم اسلام کو اب تک کوئی تشویش ہے اور نہ ہی ہندوستانی مسلمانوں کے اشرافیہ طبقہ کو ہی کوئی پریشانی لاحق ہے، ہندوستانی مسلم قیادت کو تو اب تک یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ملک کا اعلیٰ طبقہ آرین حکمراں نیو ورلڈ آرڈر سے اپنی وابستگی قائم کرچکے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کو کچلنے کے سارے اقدامات ہوچکے ہیں۔‘‘
(India's Muslim problem, P 64 Dalit Sahitya Akademy, 1998)
نیو ورلڈ آرڈر کے اعلان کے بعد قابل برداشت سوسائٹی Sustainable Sicietyکے نفاذ کی کوششیں بہت تیز ہوگئی ہیں، اس سوسائٹی کے قیام کے لیے یہودی مشینری کو تین محاذوں پر کام کرنا ہے۔ (۱)معاشی محاذ، جس کے تحت پوری دنیا کو معاشی طور پر غلام بنانا ہے، (۲) عسکری محاذ، جس کے تحت پوری دنیا کو نہتھا کرنا اور جنگ سے اپاہج بنانا ہے اور(۳) ماحولیاتی محاذ جس کے تحت پوری دنیا کو ایسے ماحول میں لاکر کھڑا کردینا ہے، جہاں لوگ شکم اور نفس کی آگ سرد کرنے سے سروکار رکھیں اور ان کی فکری اور عقلی قوتیں ماؤف ہوجائیں تاکہ وہ کسی بھی مسئلہ پر اپنے طور پر سوچنے کے اہل نہ رہ سکیں۔ ان تینوں محاذوں پر برق رفتاری سے کام ہورہا ہے، اس کے رد عمل میں مسلم دنیا کیا کر رہی ہے؟ اور مستقبل میں کیا کچھ ہوسکتا ہے؟ اس پہلو پر ہمیں بہت عمیق، سنجیدہ اور بیدار مغزی سے غور کرنا ہے۔ 
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔