کلمۂ ’سواء‘ کی دعوت
قرآن کا منفرد پیغام، دور جدید کو جس کی ضرورت ہے
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
------------------------------------------------------------------------
قرآن اپنے پیغام کے اعتبار سے بھی خدائی اعجاز ہے اور اسلوب و بیان کے اعتبار سے بھی- اسی طرح قرآن کا پیغام بھی انسانی ضرورت ہے اور اس کے مطلوب اسلوب دعوت اور طریق حکمت کا اتباع بھی فلاح انسانیت، امن عالم اور بقائے باہم کے لیے لازمی و ضروری ہے- قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ وہ ہر دور، ہر مقام اور ہر حالت میں اتباع حق کی آسان اور ممکن صورت پیدا کر دیتا ہے- اس لیے یہ کہنا بجا طور پر درست ہے کہ وہ قیامت تک آنے والے ہر دور اور ہر خطے میں ایک قابل عمل پاکیزہ زندگی کا داعی ہے- اس کا پیغام آفاقی ہے، جس میں انسانوں کی تمام تر جبلتوں، جائز خواہشوں، تمناؤں اور مقامی ضرورتوں جیسے فطری تقاضوں کا بھرپور خیال رکھا گیا ہے-
بیسویں صدی کا عہد حیرت انگیز ابلاغ و ترسیل کا دور رہا جو اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گیا- حیرت انگیز طور پر انسان کسی ایک مقام پر ہوتے ہوئے جدید ذرائع ابلاغ کے توسط سے پوری دنیا سے جڑ گیا- اس کے لیے عالم گیریت(Globlization) کی اصطلاح استعمال کی گئی- اس عالم گیرت نے اس عظیم دنیا کو ایک چھوٹے سے گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے- لوگ ایک دوسرے سے قریب ہو گئے لیکن یہ عالم گیریت کا صرف ایک پہلو ہے- عالم گیریت کا دوسرا پہلو بہت ہی تکلیف دہ ہے- اس نے بے شمار مسائل کھڑے کر دیے- مقامی اور علاقائی زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوںکواپنا تشخص بچانا مشکل ہو گیا- مختلف سطح پر تشخصات کے تحفظ کی آواز پوری دنیا میں اٹھائی جانے لگی، کیوں کہ عالم گیریت کے پردے میں دنیا کے ترقی یافتہ اور ذہین لوگ اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کو پوری دنیا پر مسلط کر رہے تھے- اس چیز نے عالم گیریت کے خلاف ایک عالمی غم و غصہ کو جنم دیا- عالم گیریت کی زد میں مذاہب بھی آئے اور ان کوبھی اپنے تشخص بچانے کی فکر پوری طرح ستانے لگی-
میرے خیال میں اس سیاق میں اسلام ایک واحد استثنا ہے جسے عالم گیریت سے کوئی خطرہ نہیں،بشرطیکہ مسلمان ’’عالم گیریت‘‘ کو صحیح طور پر سمجھیں اور اس سے زیادہ وہ اسلام کی آفاقیت کو سمجھیں-جس شخص کو اسلام کے آفاقی ہونے کا درست ادراک ہو پائے گا اسے عالم گیریت سے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوگا، کیوں کہ عالم گیریت آفاقیت سے متصادم نہیں ہے، بلکہ اسے حیرت انگیز طور پر مسرت ہوگی کہ عالم گیریت کی آواز دنیا آج بلند کر رہی ہے جب کہ اسلام چودہ سو سال پہلے آفاقیت کا نعرہ بلند کر چکا ہے- کیا یہ بات قرآن کا کھلا اعجاز ثابت نہیں کرتی کہ حقوق مزدور، حقوق نسواں، آزادی مذہب، انسانوں کی غلامی سے آزادی، تکثیریت پسندی، اظہار رائے کی آزادی وغیرہ کے لیے بیسویں صدی میں پر جوش تحریکیں اٹھیں جب کہ یہ ساری باتیں مکمل توازن، اعتدال اور بصیرت افروزی کے ساتھ چھٹی صدی میں قرآن اپنے مخصوص اسلوب میں بیان کر چکا ہے-
قرآن کی آفاقیت کی اساس اس کا’ فلسفہ سواء‘ ہے- اس کے مطابق وہ انسانوں کو باہم جھگڑنے کی بجائے امر سواء (Common Issues) پر اتفاق کر کے پر امن زندگی کی دعوت دیتا ہے- قرآن کی دعوت جو غیر جبری خالص حکیمانہ دعوت ہے، وہ نزاعات کے تصفیہ کے لیے امر سوا پر اتفاق کا سہارا لیتی ہے- وفد نجران کاواقعہ کتب احادیث میں مذکور و مشہور ہے- یہ وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ۹ویں ہجری میں آیا- اس میں نجران کے وہ عیسائی تھے جو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تعلق سے غالی عقاید و افکار رکھتے تھے- اسی موقع سے آیت مباہلہ (آل عمران:۶۱) نازل ہوئی- اس سے پہلے کی آیات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں صحیح عقاید کا بیان ہے- نجران کے غالی مسیحی بحث و جدال پر آمادہ تھے اور درست بات ماننے کو تیار نہیں تھے- اس لیے آیت مباہلہ میں پیغمبر علیہ السلام کو یہ حکم دیا گیا کہ مسیحیوں کی کٹھ حجتی سے بچنے کے لیے مباہلہ کی دعوت دیں- مباہلہ کا مطلب یہ ہے کہ دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف و نزاع ہو اور دلائل و بحث سے وہ ختم ہوتا ہوا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہٰی میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم میں جو جھوٹا ہے اس پر لعنت فرما- آیت مباہلہ یہ ہے:
فَمَن حَاجَّکَ فِیہِ مِن بَعدِ مَا جَاء کَ مِن العِلمِ فَقُل تَعَالَوا نَدعُ أَبنَائَ نَا وَ أَبنَا ئَکُم وَ نِسَائَ نَا وَ نِسَا ئَکُم وَ اَنفُسَنَا و اَنفُسَکُم ثُمَّ نَبتَھِل فَنَجعَل لَعنَتَ اللّٰہِ عَلَی الکٰذِبِینَ-
ترجمہ: اس مسئلے میں علم آجانے کے بعد بھی اگر کوئی آپ سے جھگڑے تو آپ یہ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنی اپنی اولاد، عورتوں اور بنفس نفیس خود کو بھی ایک جگہ جمع کر لیں- پھر عاجزانہ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں-(آلِ عمران-:۶۱)
یہ واقعہ ۹ویں ہجری کا ہے جس وقت پیغمبر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم ریاست کی تشکیل کر چکے تھے- وہ چاہتے تو نجران کے وفد پر جبر کا کوئی راستہ بھی ڈھونڈ سکتے تھے مگر ایسے وقت میں بھی قرآن نے معاملہ کے تصفیہ کے لیے نہایت پر امن راستہ تجویز کیا- آج کے جنونی اسلام پسندوں کے لیے اس میں درسِ عبرت ہے-آیت مباہلہ کے بعد’ کلمۂ سواء‘ کی آیت ہے- اس میں اہل کتاب کی بحث و جدال سے بچنے کے لیے کلمۂ سواء پر اتفاق کر لینے کی دعوت دی گئی ہے- اس میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ چلو اگر ہماری بات نہیں مانتے تو وہ بات تو مان لو جس کی دعوت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے اور دوسرے پیغمبران عظام جن پر تمہارا ایمان ہے، اور وہ ہے خالص ایک خدا کی عبادت، شرک سے بیزاری، اور غیر اللہ کی غلامی سے نجات- اس کے بعد پھر یہ بھی کہا گیا کہ اگر وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوتے ہیں تو یہ کہہ کر اپنے ہاتھ کھڑے کر لو اور بات ختم کر دو کہ جاؤ ہم تو مسلمان ہیں تمہیں جو کرنا ہے کرو- آیت کریمہ یہ ہے:
قُل یٰٓاَھلَ الکِتَابِ تَعَالَوا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلّا نَعْبُدَ اِلّااللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہ شَیْئاً وَ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہ فاِن تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْا اشْہَدُوْ ا بِانَّا مُسْلِمُوْنَ-
آپ کہہ دیں اے اہل کتاب! آؤ اس امر کی طرف جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے- یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے- اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے- ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب نہیں ٹھہرائے گا- اگر وہ اس سے اعراض کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں-(آل عمران:۶۴)
’کلمۂ سواء‘ کی دعوت کوئی معمولی حکمت وبصیرت کی دعوت نہیں ہے، دوسرے کے حق میں اپنے موقف سے دست بردار ہونے کی دعوت ہے- یہ بات اپنی رائے دوسرے پر مسلط کرنے سے روکتی ہے- یہی وہ حکمت بالغہ ہے جس پر پیغمبر دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے قبائل اور اہل مذاہب سے معاہدہ کر کے ایک عالم گیر نظام اور تکثیری معاشرے کی بنیاد رکھی- بادشاہت کے دور میں طاقت و قوت ہونے کے باوجود مذہب اور رائے کی آزادی دینا کوئی معمولی بات نہیں ہے- پیغمبر علیہ السلام نے ’امر سواء‘ کی دعوت کے ذریعے یہ کام ایسے عہد میں کیا جب کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا- اسی کا اثر تھا کہ مسلم سلاطین نے ہمیشہ دوسرے اہل مذاہب کے ساتھ رواداری کا معاملہ کیا- غیر مسلم، مسلم ریاستوں میں اس سے کئی گنا آزاد اور پر امن رہے جتنا کہ مسلم غیر مسلم ریاستوں میں رہے-
تکثیریت اور عالم گیریت کے جدید دور میں ایک بار پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے ایمان و عقیدے پر مکمل استقامت کے ساتھ دوسری قوموں، ملتوں، ملکوں اور مذاہب کے ساتھ ’’امر سوا پر اتفاق‘‘ کے ذریعے پر امن زندگی گزاری جائے- ہم فلاح انسانیت کے لیے سوچیں، بلکہ اس سے بڑھ کر کائنات کے فطری اسباب اور طبعی ذرائع کے تحفظ کے لیے کوشش کریں- یہ کوشش بنی نوع آدم کے دل میں ہمارے لیے نرمی، رواداری اور عزت کا گوشہ پیدا کر دے گی- اس کار خیر کے لیے دنیا بالکل ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہو گی اور اگر کوئی دوسرا نہ بھی چلے تو کم از کم ہم اپنی ذمہ داری سے تو سبک دوش ہو جائیں گے اور ہم یہ تو کہہ سکیں گے کہ گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں- ہم صرف مسلمانوں کے ہی نہیں، تمام انسانوں کی ،بلکہ کرۂ ارضی کی سلامتی کے داعی ہے-
علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ نے بیسویں صدی کے نصف اول میں تنظیم بین المذاہب قائم کی تھی- اس کا مقصد یہ تھا کہ تمام اہل مذاہب مل کر جدید اباحیت پسندی اور دہریت کے خلاف جنگ کریں-علامہ میرٹھی کی یہ کاوش در اصل امر سوا پر اتفاق کے قرآنی فلسفے کے تحت تھا- علامہ میرٹھی نے یہ کام ایسے دور میں کیا جب کوئی بھی اس سمت سوچنے کو تیار نہیں تھا- آج دنیا کا ایک بڑا طبقہ دہریت کے خلاف لڑنے کو تیار ہے- ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور موبائل ایس ایم ایس کے توسط سے یہ جنگ آسان ہو گئی ہے- اس گلوبل ورلڈ میں بہت آسانی سے ہم اپنا ہم خیال پیدا کر سکتے ہیں-لیکن اس کے باوجود ہم دہریت کے بڑھتے سیلاب سے بے خبر ہیں یا شعوری تغافل برت رہے ہیں-آج اگر ہمارے ذہن کے دریچے وا ہوں اور ہم کام کرنے کے لیے آگے بڑھیں تو دنیا کی ایک بڑی آبادی ہماری ہم نوا ہوگی بشرطیکہ ہم ’امر سواء‘ پر اتفاق کی دعوت دیں- اپنی تمام باتیں دوسروں پر مسلط کرنے کے خواب کے ساتھ ہم دہریت کے خلاف کبھی بھی اور کوئی بھی مورچہ نہیں بنا سکتے- آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ علامہ عبدالعلیم صدیقی علیہ الرحمۃ کی تنظیم کا احیا ہو یا اس نہج پر دوسری تنظیم کی تشکیل ہو- دوسرے اہل مذاہب کے ساتھ مل کر نہ صرف دہریت کے خلاف جدوجہد کی جا سکتی ہے بلکہ اخلاقی زوال، ہم جنس پرستی، عریانیت و بے حیائی اور لاقانونیت وانارکی کے خلاف بھی پر امن اور کامیاب جدو جہد کی جاسکتی ہے-کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے؟
کلمۂ سوا کی دعوت کے ذریعے آج ہم پوری انسانیت کو توحید کی دعوت دے سکتے ہیں جو اسلام کی اساس ہے اور دیگر مذاہب میں بھی جس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے- یہ اور بات ہے کہ دیگر مذاہب کے ماننے والے رسوم و روایات میں الجھ کر اصل پیغام کو بھولے بیٹھے ہیں- یہ بھی ہوا ہے کہ تحریفات وتلبیسات نے انہیں توحید کے حوالے سے مشتبہ کر دیا ہے- ایسا بھی ہوا ہے کہ بعد کے مذہبی پیشواؤں کی تشریحات نے توحید کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے- آج اگر اس پہلو پر حکیمانہ کوشش کی جائے تو خود ان کے مذہبی مصادر اور علمی و سائنسی تکینک کے ذریعے انہیں توحید کی دعوت دی جا سکتی ہے- کیا یہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے؟
آج ہر مسلمان یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ دشمنان اسلام، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچ رہے ہیں- وہ Divide and Rule کے ذریعے مسلمانوں ہی کی زمین پر مسلمانوں کو غلام بنائے ہوئے ہیں - مگر یہ سوچنے کے لیے شاید کوئی تیار ہو کہ وہ خود دشمن کا آلہ کس طور پر بن رہا ہے- کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ یورپ و امریکہ کی جس سازش کی بات کر رہا ہے خود اپنی سادگی سے اس سازش کا حصہ بنا ہوا ہے- مسلم امہ کے لیے سوچنا- تعلیم، تجارت، معیشت اور سیاست میں مسلمانوں کو آگے بڑھانا ،اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کے لیے بنیادی باتیں ہیں- کیا ہم اس کے لیے سوچتے ہیں؟ شاید نہیں یا بہت کم یا بالکل نہیں- کیا دشمن کی یہی کوشش نہیں ہے کہ ہم اپنی فلاح سے بے خبر ہو جائیں اور اجتماعی جلسوں اور غم و غصہ کے اظہار میں زندگیاں بتا دیں؟ کیا ہم ایسا کر کے دشمن کی سازش سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
قرآن کی’ کلمۂ سواء‘ کی دعوت پر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ قرآن ہم سے چاہتا ہے کہ ہم ہر قیمت پر نزاع ختم کرنے کی کوشش کریں- قرآن نے اس کے لیے یہ طریقہ بتایا کہ ہم مصالحت کے لیے ہمیشہ ’’امر مشترک‘‘ کو بنیاد بنائیں- لیکن اس کے ساتھ آیت کے اگلے حصے میں اس کی وضاحت ہے کہ جو امر مشترک نہیں ہے، جس پر آپ کا مقابل آپ سے متفق نہیں ہے اس پر آپ اپنی حد تک پورے طور پر قائم رہیے- اس میں کوئی لوچ اور جھجھک مت رکھیے - اور اگر مقابل شخص یا گروپ امر مشترک پر بھی اپنی خود غرضی سے راضی نہ ہو تو آپ اپنے موقف پر پورے طور پر قائم رہیے- اپنا موقف بیان کر کے علاحدہ ہو جائیے، جبر یا جنگ مت کیجیے- اس سے آپ کا فرض بھی ادا ہو جائے گا- آپ کا موقف بھی ثابت ہو جائے گا اور آپ کی دست برداری سے قیام امن بھی ہوجائے گا- لیکن کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟؟؟
*****
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔