قلبی واردات ------------------ ذیشان احمد مصباحی
’’دعوت و تبلیغ کی راہیں مسدود کیوں؟‘‘ کے عنوان سے میرا مضمون سال گذشتہ اکتوبر، نومبر ۲۰۰۷ء کے جام نور میں شائع ہوا- اس پر مختلف طرح کے رد عمل سامنے آئے جن میں ذاتی طور پر مجھے تین تنقید یں بہت پسند آئیں، یہ تینوں تنقیدیں ہندوستان کے تین بہت بڑے اور مشہور اصحاب فکر و دعوت اور ارباب فقہ و افتاکی طرف سے مجھے موصول ہوئیں- پہلی تنقید علوم و فنون کی ایک سمندر شخصیت کی طرف سے یہ تھی کہ ’’ذیشان کی غلطی یہ ہے کہ اس نے اپنے قارئین اور ماحول و مزاج کا صحیح جائزہ لیے بغیر افلاطون و سقراط کی سطح کی باتیں کر دی ہیں-‘‘ دوسری تنقیدی عصر جدید کے نوزائیدہ مسائل کے ایک عظیم محقق کی طرف سے یہ تھی کہ ’’ذیشان سے ذار پوچھو کہ اس نے تبلیغ کی کب کہ راہیں مسدود ہونے کا شکوہ شروع کر دیا‘‘ اور تیسری تنقید ہندوستان کے ایک بڑے نیک طینت ،صوفی مزاج اور مصلح و مبلغ کی طرف سے یہ تھی کہ ’’چلیے! کم سے کم یہ تو ہوا کہ ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کا لفظ ہماری ڈکشنری میں شامل ہو گیا-‘‘ ان تینوں زبانی تنقیدوں میں پہلی دو بالواسطہ موصول ہوئیں جب کہ آخر الذکر براہ راست-
دعوت و تبلیغ کے حوالے سے یہ تینوں باتیں عصر حاضر میں دعوت و تبلیغ کے تین زریں اسلامی اصول سے واقف کرا رہی ہیں، اگر ہمیں ان خوب صورت لفظوں کے ظاہری حسن اور ادبی استعمال سے زیادہ ان کے معانی سے محبت اور عقیدت ہے تو ہمیں ان اصولوں پر زبانی یا تحریری تقریریں جھاڑنے کی بجائے انہیں اپنے معمولات زندگی میں شامل کرنا ہوگا-ان تینوں باتوں کی قدرے تفصیل یہ ہے:
(۱) دعوت و تبلیغ کے حوالے سے قرآن کی جامع اور زبان زد آیت کریمہ ’’ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنہ وجادلہم بالتی ہی احسن‘‘ (اپنے رب کی راہ کی طرف بلائو پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقے پر بحث کروجو سب سے بہتر ہو-النحل:۱۲۵) میں دعوت کی جو پہلی شرط بتائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ دعوت حکیمانہ ہونی چاہیے- یہ پہلی بات اتنی جامع ہے کہ ہم اسے آخری بات بھی کہہ سکتے ہیں۔ دعوت کے تمام لوازم ’’حکمت‘‘ میں جمع ہو گئے ہیں۔ اور حکمت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ بات جس سے اور جہاں کی جائے اس شخص کی ذہنی سطح اور اس جگہ کے ماحول کا پورا خیال رکھا جائے- یہ اور بات ہے کہ اس راہ میں تمام تر حکمت و دانائی کے باوجود داعی کو مدعو کی شرارت کے باعث پتھروں سے لہولہان بھی ہونا پڑتا ہے اور پھر تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے ذریعے اپنے مشن’’دعوت‘‘ کے ساتھ وارفتگی کی حد تک وابستگی رکھنی پڑتی ہے۔
(۲)’’دعوت‘‘ افلاطون کا فلسفہ نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے-اس کا تعلق تخیلات سے نہیں کردار سے ہے- یہ کام مباحثے اور مناظرے سے نہیں تزکیہ اور تربیت سے ہوتا ہے۔ اس کے لیے کسی محقق کے ایوان تحقیق یا کسی ادیب کی بزم سخن میں نہیں بلکہ کسی صوفی کی کٹیا کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ دعوت کا عمل تقریریں کرنے سے اور مضامین لکھنے سے نہیں ہوتا پہلے خود ’’مسلمان‘‘ بننے سے اور ’’خود کو جہنم سے بچانے ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ ہم اس خالص عملی شئی کو فلسفیانہ اسلوب میں سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں -یہی ہماری بھول ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے-’’دعوت عامہ‘‘ کا تعلق مذاہب عالم میں صرف اسلام سے ہے، اس لیے اس کے مفاہیم اور تقاضے ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی سمجھنے ہوں گے۔ اسلام میں ’’دعوت‘‘ کا عمل اپنی ذات سے شروع ہو کر اپنے اہل خانہ،اقربا واحبا سے ہوتا ہوا روئے زمین کی آخری سرحد پر بسنے والے انسان پر ختم ہوتا ہے۔ اس طریقے سے ہٹ کر جو کام کیا جائے گا وہ کچھ اور تو ہوگا وہ’’دعوت‘‘ نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں سچی بات یہی ہے کہ دعوت کی راہ میں خارج میں نہیں داخل میں باہر نہیں اندر ہوتا ہے۔ اس راہ میں کہیں ایسی رکاوٹ Obstacle) (نہیں ہوتی جو دعوت کے عمل کو روک سکے۔ اس راہ میں سب سے بڑا Barrier اپنا نفس اور اپنا ضمیر ہے، داعی وہی ہے جو اس بیریر کو توڑ دے ۔ مسلمان کا سب سے بڑا کام دعوت ہے جس کے لیے سب سے پہلے اسے اس بیریر کو توڑنا ہوگا۔ جہاد بالنفس کو اسی لیے ’’جہاد اکبر‘‘ کہا گیا ہے-
(۳) ’’دعوت‘‘ کے لفظ کو واقعی اپنی ڈکشنری میں شامل کرنے کی ضرورت ہے-یہ ڈکشنری آکسفورڈ اور کیمبرج سے نہیں چھپتی ، یہ ڈکشنری ہر مسلمان کا اپنا دل ہے۔ قرآن میں اس امت کو ’’خیر امت ‘‘ کہا گیا کہ وہ لوگوں کو اچھائی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے۔ یہی عمل دعوت ہے اور یہی بنیاد ہے اس امت کے ’’خیر‘‘ ہونے کی۔ اگر ہمیں اپنی ’’خیریت‘‘ مطلوب ہے تو یقینی طور پر اس لفظ کو اپنے دل کی ڈکشنری میں نمایاں طور سے نقش کرنا ہوگا اور ہر وقت اس کی تلاوت بھی کرنی ہوگی تاکہ کانوں میں اس کی آواز گونجے، دماغ کی کھڑکیاں کھلیں، دل بیدار ہو اور روح اس کار عظیم کے لیے تڑپ اٹھے۔دعوت کوئی امر مستحب نہیں ایک فرض و واجب عمل ہے۔ یہ ہمارے شوق پر منحصر نہیں یہ ہمارے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے جس سے ہم غافل ہیں۔ قرآن میں جہاں ہمیں ’’خیر امت‘‘ کہا گیا ہے وہاں ہمیں کسی فخر و مباہات کا درس نہیں دیا گیا ہے بلکہ ہمارے اوپر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے- افسوس! کہ ہم اپنی حماقت سے اس آیت سے مباہات کا درس لے لیتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا-
رفیق مکرم مولانا خوشتر نورانی نے پچھلے دنوں کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ دعوت کا باب ہم نے اپنی کتاب فکر و عمل سے نکال باہر کر دیا۔ اس لیے ستمبر ۲۰۰۸ء کے جام نور میں تحریری مباحثہ کے لیے کوئی ’’دعوتی موضوع‘‘ زیر بحث لائیے۔ بالآخر ’’نئی صدی میں دعوت و تبلیغ کے لیے ہم کتنے حساس ہیں؟‘‘ عنوان بحث قرار پایا جس پر اہل علم کی آرا پیش نظر شمارے میں شامل اشاعت ہیں۔ بطور خاص محترم ڈاکٹر سیدعلیم اشرف جائسی نے موضوع کا حق ادا کرتے ہوئے قلم توڑڈالا ہے اور کاغذ پر کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے۔خدا کرے اس مباحثے کو پڑھنے کے بعد ہمارے اندر کا وہ بت بھی ٹوٹ جائے جو اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس تعلق سے ہمارا شرح صدر ہو جائے-
کل جام نور کے دفتر میں اس حوالے سے گفتگو ہونے لگی ،دوارن گفتگو میں نے کہاں کہ ایسا لگتا ہے کہ دعوت کا صحیح مفہوم ہی ہم اب تک نہیں سمجھ سکے ہیں- اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہمارے بعض احباب کے بیچ یہ موضوع زیر بحث آتا ہے تو ایک ہی سانس میں حضرت غوث اعظم سے حضرت غریب نواز تک اکابر صوفیہ کا نام لے لیا جاتا ہے اور اسی سانس میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تک اکابر فقہا کے نام کا ورد ہو جاتا ہے اور ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اظہار حق اور دعوت حق کے مفاہیم ہمارے اوپر بہت واضح نہیں ہیں- اظہار حق ایک عام لفظ ہے اور دعوت حق خاص، اظہار حق کے دو طریقے ہیں دعوت حق اور تردید باطل- اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ دعوت سے بالواسطہ باطل کی تردید بھی ہوتی ہے اور باطل کی تردید سے بالواسطہ حق کی دعوت بھی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں الگ الگ دو چیزیں ہیں-براہ راست ضرورت دونوں کی الگ الگ دو مختلف مقامات پر پڑتی ہے- یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا کے خلفا میں جب علم فقہ کی بات آتی ہے تو حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی کا نام نگاہوں میںآجاتا ہے اور جب دعوت وتبلیغ کا ذکر آتا ہے تو مبلغ اسلام مولانا عبد العلیم صدیقی میرٹھی کے تذکروں سے ہماری محفل میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے-دعوت و تبلیغ کی جامع آیت ’’ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘(اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤپکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے-) میں ’’دعوت‘‘ ’’اللہ کی راہ کی طرف‘‘ دینے کا حکم ہے- اس سے واضح طور پر یہ سمجھ میں آیا کہ دعوت ایک خدا رخی عمل ہے- دعوت کا قبلہ ہمیشہ خدا کا راستہ ہوگا۔ مسجد کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے- اس لحاظ سے ہم آسانی کے لیے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دعوت نام ہے مسجد رخی عمل کا، مدرسہ رخی عمل بالذات دعوت نہیں ہے- یہ اور بات ہے کہ دعوت کے عمل میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے- یہیں سے بعض افراد کے لیے دعوت کے مفہوم میں کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے-حالاں کہ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ دعوت کا حقیقی مفہوم یہی ہے کہ حکمت تمام کے ساتھ خدا کے بندوں کو خدا کی راہ دکھادی جائے، مغرور پیشانی کو بارگاہ الٰہی میں جھکا دیا جائے اور سرکش نفس کو قید کر کے بے دست وپا بارگاہ صمدیت میں ڈال دیا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ بارگاہ الہی میں بندہ حاضر ہو کر عمل کون ساکرے گا، کھڑا کیسے ہوگا، بیٹھے گا کیسے اور اس کی زبان پر کیا جاری ہوگا؟؟ یہ سب جاننے کے لیے اسے مدرسے کا رخ کرنا ہی ہوگا- اب مدرسے میں جانے کے بعد جہاں ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ بارگاہ خداوندی کے آداب کیا ہیں وہیں پر یہ بھی جاننا ہے کہ اس حوالے سے بعض لوگوں کی غلط فہمیاں کیا ہیں؟ وہیں سے ہمیں یہ درس بھی ملے گا کہ معاشرے میں جو لوگ غلط باتیں پھیلا رہے ہیں ، ان باتوں کا تعلق خواہ افکار و عقائد سے ہویا افعال و اعمال سے، ان کی تردید ایک لازمی اور ضروری امر ہے ،لیکن اس سب کے باوجود مدرسے کی سب سے بنیادی تعلیم یہی ہے کہ بندہ آداب بندگی سیکھے اور اس سیکھنے کا واحد مقصود صرف یہ ہے کہ بندہ ان آداب کو عملاً بجالائے--- نتیجہ کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے نام پر مسلمان جو کچھ بھی تگ و دو کر رہے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طور سے دعوت سے ضرور ہے ،لیکن حقیقی دعوت براہ راست اللہ کی راہ کی طرف بلانے کا نام ہے اور’’لفظ داعی‘‘ کے کامل مصداق وہ شخصیات ہیں جنہوں نے خود اپنے آپ کو اور دوسروںکو تا حیات بارگاہ خدا کی طرف بلاتے رہے اور اس طرح بالواسطہ طریقے سے باطل کی تردید کی---نئی صدی میں دعوت کے عمل کو جاری کرنے یا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان ’’خرقہ پوشوں‘‘ کو دیکھنے کے لیے اپنے اندر’’ارادت‘‘پیدا کریں جو اپنی آستینوں میں یدِ بیضا لیے بیٹھے ہیںاور اگر یہ نہ کر سکے تو کم از کم ان کے حالات زندگی کا مطالعہ ہی کریں، کیوں کہ داعیوں کو سمجھے بغیر اور ان سے سچی محبت کے بغیر صحیح طور پر فریضہ دعوت ادا نہیں ہوسکتا-
*****
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔