Friday 2 February 2018

شطحات صوفیہ: غلط فہمی اور ان کا ازالہ

0 comments
 شطحات صوفیہ: غلط فہمی اور ان کا ازالہ 
مولانا امام الدین سعیدی
-----------------------------------------------------------------------
تصوف،اصل دین ہے:-
معتبرمحققین اور بالغ نظر ناقدین کی تحقیقا ت کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تصوف اسلام کے اند رکوئی جدید یا گمراہ مسلک نہیں بلکہ عین اسلام وایما ن ہے-اس کے نظریات وافکار ،مبادیات ومسائل کا سر چشمہ کتاب وسنت ہیں، جس کی تائید اکابر صوفیہ کے مستند اقوال سےبھی ہو تی ہے ،اجلہ مشائخ نے اس با ت کی صراحت فرمادی ہے کہ صوفی کی کا میا بی کے لیے اول شر ط یہ ہے کہ وہ کتاب وسنت کے ارشادات پر عمل پیرا ہو، چنانچہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں:
ایں راہ کس یابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشدوسنت مصطفی بر دست چپ-درروشنائی ایں دوشمع می رود تانہ درمغاک شبہت افتدنہ درظلمت بدعت -(۱)
’’یہ راہ وہی شخص حاصل کر سکتاہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن مقدس اور بائیں ہاتھ میںسنت مصطفی ہواور ان دونوںچراغوںکی روشنی میں قدم بڑھاتا رہے تاکہ ورطۂ شبہات میں نہ گرے اور بدعت کی تاریکی میں نہ پھنسے-‘‘
 صوفیہ ومشائخ کے عقائد و افکار میں ایسا کوئی فساد نظر نہیں آتا جو شرک وبدعت کو پنپنے کا موقع دے-ان کاکوئی بھی طریقہ کتا ب وسنت سے ہٹ کر نہیں ،ان کی کو ئی بھی فکر دین کے بنیادی اصولوں سے منحرف نہیں - شیخ جنید بغدادی کا ارشاد ہے :
 بنا ء طریقتنا و اساسہا علی الکتاب والسنۃ وکل ما ہو مخالف للکتاب والسنۃ فہو مردود باطل.
ہمارے طریقے کی بنیا د و اساس کتاب وسنت پر ہے اور جو کتاب وسنت کے مخالف ہو وہ مردود وباطل ہے -(۲)
امام جلال الدین سیوطی صوفیہ کے تعلق سے اپنے اعتقاد کااظہاریوں کرتے ہیں:ونعتقد ان طریق الجنید وصحبہ طریق مقوم [ہمارا اعتقاد ہے کہ جنیداور ان کے اصحاب کا طریقہ مستحکم طریقہ ہے-] (۳)
 بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ
 کل حقیقۃ ردتھا الشریعۃ فھی زندقۃ [جو حقیقت خلاف شریعت ہو وہ بے دینی ہے-](۴)
غرض کہ اس طرح کے اوربھی بہت سے اقوال ہیں جن سے اس بات کی مکمل تائید وتوثیق ہوجاتی ہے کہ تصوف کا اصل مآخذکتاب وسنت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،البتہ ارباب تصوف ہی میں سے بعض حضرات ایسے ہیں جن سے غلبۂ حال او روجد ومستی میں کچھ ایسے کلمات وحرکا ت صادرہوجاتے ہیں ،جو بظاہر مخالف شرع معلوم ہوتے ہیں،عام لوگ ان اقوال سے گمراہ وفاسد عقیدہ بنالیتے ہیں ایسے اقوال و افعال کو اصطلاح صوفیہ میں شطحات، ہفوات اورمبہمات وموہمات بھی کہتے ہیں-ان اقوال وافعال کو لے کر بعض حضرات تصوف اور صوفیہ کے تعلق سے سخت بد گمان ہوگئے اور یہ نتیجہ اخذکر لیا کہ تصوف غیراسلامی نظریات وافکار کی پیدوارہے مگر یہ نتیجہ مبنی بر حقیقت نہیں -
 واضح رہے کہ تصوف وہی ہے جسے حدیث میں ’’احسان‘‘ کہا گیا ہے -غیر شرعی رسوم او ر کسی فسق و فجور کا نام تصوف نہیں ہے خلاف سنت وشریعت رسم ورواج کو طریقت نہیں کہا جاتا بلکہ ہمارے مشائخ کا طریقہ رہا ہے کہ وہ خلافِ سنت عمل کوقابلِ ترک ہی نہیں بلکہ مردود سمجھتے تھے-صوفیہ وہی حضرات ہیں جو کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے ہو ئے ہیں ، کیونکہ شریعت کے خلاف کو ئی بھی عمل تصوف نہیں ہو سکتا ۔ بعض دنیادار ومکار،فسق وفجور میں گرفتار،نام نہاد مستصوفین کو دیکھ کر ، ان کے کردار وعمل کو دلیل بناکر صوفیہ جیسی مقدس ومخلص جماعت پر لعن طعن کرنا دانش مندی نہیں بلکہ سخت محرومی اور بے ادبی ہے -
 شطحات کی حقیقت:-
سب سے پہلے ہم شطحات وہفوات کی حقیقت و نوعیت کا ذکر کرتے ہیں پھر اس کا علمی وتحقیقی تجزیہ کریں گے تاکہ لوگوں کے اذہان وقلوب میںجواضطراب ہے ایک جانب اس کاازالہ ہوجائے اور ساتھ ہی شطحات کی حقیقت اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ بے نقاب ہوجائے -
لغوی معنی : لغت کی مشہو ر کتاب المعجم الوسیط میں ہے ’’شطح فی السیر اوالقول :تباعدواسترسل.‘‘
الشطحۃ: یقال لفلان الصوفی لہ احوال وشطحات۔ کہاجاتاہے کہ فلاں صوفی کے احوال وشطحات ہیں -
ہفوات، ہفوۃ کی جمع ہے ’’المعجم الوسیط‘‘ میں ہے الھفوۃ : السقطۃ والزلۃ- اردو میں ٹھوکر اور لغزش کے معنی میں مستعمل ہے-(۵)
اصطلاحی مفہوم:- 
شیخ ابونصرسراج (متوفی ۳۷۸ھ) فرماتے ہیں :
’’شطحات وہ عجیب و غریب عبارات جو صوفیائے کرام سے وجد ومستی کی انتہائی کیفیت میں صادرہوتی ہیں-‘‘ (۶)
 حضر ت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی فرماتے ہیں :
’’الشطح ھوافاضۃماء العرفان عن ظرف استعداد العارفین حین الامتیان‘‘(۷)
[خداشناسوں کے ظرف استعداد پر ہوجانے پرعرفان کا پانی چھلک جانا-]
صوفیہ کے نزدیک شطحات، کلمات مشائخ کی ایک قسم ہےجس کا ظاہر نہایت قبیح مگر باطن حسین ہو - واضح رہے کہ کلمات مشائخ ان قسموں پر مشتمل ہوتے ہیں : ارشادات مشائخ ،مبہمات مشایخ ،موہمات مشائخ ،شطحات مشائخ- ان مٰیں صرف ارشادات ہی لائیں تقلید ہوتے ہیں۔ 
علما ومشائخ کے موقف و نظریات:- 
شیخ ابونصر سراج فرماتے ہیں کہ
 اللہ تعالی نے اپنے اولیا کے قلوب کھول دیے ہیں ،انہیںبلندی کی طرف جانے والے درجات کی طرف جانے کی اجازت دے دی ہے اور اللہ تعالی نے اپنے منتخب بندوںکواپنی طرف آنے ، متوجہ ہونے اور مراتب خواص پر مطلع ہونے کی صلاحیت بخشی ہے ،لہٰذاان منتخب اولیامیںسے سبھی اس حقیقت کوبیان کرتے ہیں جسے وہ پالیتے ہیں،وہ اپنے حال اور قلب پروارد ہونے والے انوار وحقائق ہی سے متعلق گفتگوکوزبان پرلاتے ہیں،کیوں کہ وہ اپنے ارادوںسے اعلی ترین مقام پرفائز ہوجاتے ہیںاور وہ اس مقام پرہوتے ہیں جہاں تمام احوال ومقامات اور راستے آکرختم ہوجاتے ہیں-
ارشاد باری ہے :
وفوق کل ذی علم علیم. (یوسف :۷۶)ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے-
اور فرمایا:
ورفعنا بعضھم فوق بعض درجٰت.(زخرف :۳۲)اور ہم نے بعض کو بعض کے اوپر درجوں بلند کیا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
انظرکیف فضلنابعضھم علی بعض.(بنی اسرائیل :۲۱) دیکھو !کیسے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے -
کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اولیاء اللہ کے بارے میںزبان غیبت کھولے اور پھراپنے قیاس کے ذریعے ان کے کلام کے مطالب اخذ کرے، کیوں کہ اولیا اپنے اوقات میں مختلف اور احوال میں ایک دوسرے کے مقابلے فضیلت رکھتے ہیں -اسی طرح وہ احوال میں باہم ایک جیسے بھی ہوتے ہیں، اب اگران میں سے کوئی اپنے ساتھیوں سے زیادہ صاحب فضیلت ہواور اعلی معرفت کاحامل ہوتووہ اس بات کا اہل ہے کہ وہ شطحات صوفیہ کے متعلق گفتگوکرے یااس کے درست ونادر ست ہونے کے بارے میںکچھ کہے- اگر کوئی شخص ایسے صاحب مقام صوفیہ کے راستہ پرچلاہی نہ ہوتواس کے لیے بہتر یہ ہے کہ اس طرح کے کلمات سے انکار ختم کردے اور انہیں اللہ پرچھوڑدے- اس کے علاوہ اگر اس نے صوفیہ کے تعلق سے کوئی غلط نظریہ قائم کیا ہوتواس کے غلط ہونے کا اعتراف کرے- (۸)
دوسری جگہ شیخ نے بڑی اصولی بات تحریر کی ہے وہ لکھتے ہیں :علوم شریعت چار قسم کے ہیں:اول :علم روایت و آثار-دوم : علم فقہ واحکام-سوم:علم قیاس و نظر-چہارم: علم حقایق و مجاہدات -تو جو علم روایت میں خطا کرجائے وہ اس کا حل علم درایت والوں سے نہ پوچھے اور نہ علم درایت کے مسئلہ کو علم روایت والوں سے پو چھے، ایسے ہی علم حقائق کی بات اگرسمجھ میں نہ آئے تو اسی سے پو چھے جو اس کا کامل عالم ہے-( ۹)  
تصوف کی مستند کتاب کشف المحجوب میں حضرت شیخ علی ہجویری عرف داتاگنج بخش قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:  
اہل بصیرت کااس بات پر اتفاق ہے کہ اہل سنت والجماعت سے تعلق رکھنے والا شخص ساحروخاسر نہیں ہوسکتا اور کافر قابل تعظیم نہیں ہوسکتا، کیوںکہ اس سے اجتماع ضدین لازم آتاہے اور حضرت حسین ابن منصور حلاج رحمۃاللہ علیہ کایہ حال تھاکہ پابندی صلوٰۃ،کثرت ذکرومناجات اور مسلسل روزوں کا اہتمام کرتے تھے ،اس لیے وہ بہت ہی نیک تھے مگر ان کے کلام (اناالحق) کی اقتدانہیں کرنی چاہیے، کیوں کہ وہ مغلوب الحال تھے متمکن نہیں اورقابل تقلید کلام صرف صاحب تمکین مشائخ کاہی ہوتا ہے - (۱۰)
متن تصوف کا قدیم اور نہایت معتبر و مقبول رسالہ ’’الرسالۃ المکیہ ‘‘ کے اندر نہایت جامعیت واختصار کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا گیا ہے -علامہ قطب الدین دمشقی قدس سرہ لکھتے ہیں :
صوفی جب نفس وہوا کی وادی کو پار کرکے عالم حقیقت میں پہنچ جاتا ہے جو مقام فنا ہے-(صوفیہ کے نزدیک فنا کا معنی یہ ہے کہ وہ ذات حق کے سوا کسی کو نہ دیکھتا ہے نہ جانتا ہے) تو اس مقام پر وہ اپنے وجود سےبھی غافل ہوتا ہے ،اس وقت یہ گمان گذرتا ہے صرف رب تعالی ہے اور کچھ بھی نہیں چونکہ ذات حق کے سوا کچھ بھی نہیں ہو تا ،جلوۂ حق کے مشاہدہ کی کیفیت میں ’’انا الحق ‘‘،’’لیس فی الدار الا اللہ‘‘ ، ’’لیس فی الوجود سوی اللہ‘‘،جیسے کلمات صادر ہو جاتے ہیں ،اور سننے والا اسے حلول سمجھ بیٹھتا ہے ۔اس مقام پر نجات کا راستہ یہ ہے کہ جب کو ئی اس طر ح کی بات سنے تو سننے والا یہ سمجھے کہ کسی سے ایسا اس خیال کی بنا پر صادر ہواہے کہ وہ دنیا وآخرت کی ہر چیز سے بے خبر ہے یہاں تک کہ اسےخود کا بھی ہو ش نہیں ہے، سر توحید میں گم ہے، تجلیات حق میں مستغرق ہے ،مگر حقیقت میں فی نفسہ ہر شی کا وجود رہتا ہے ، صوفی کا مشاہدہ مقام فنا میں بہتر ہے اور یہ ایک بلند مقام ہے مگر دوسری جہت سے یہ مقام خطر ہے -(۱۱)  
حضرت مخدوم سید اشرف جہاںگیر سمنانی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:
’’ قاعدۂ مستمرہ یہ ہے کہ شطحات مشائخ کو نہ رد کرنا چاہیے نہ قبول کیوں کہ یہ مقام وصول کاایک مشرب ہے جوعقل وخرد کی دسترس سے بالاترہے -‘‘(۱۲)
نیز آپ ہی کاارشادہے کہ:’’ اکثر اصحاب عرفان اہل صحوہوئے ہیں اور بہت سے صوفیہ اہل سکر بھی ہیں -‘‘(۱۳)
دوسرے مقام پہ آ پ فرماتے ہیں کہ:’’ اگر چہ بعض صوفیہ نے کلمات شطحات کا محمل پیداکیا ہے اور لطیف عبارتوں میں ان کی تشریح فرمائی ہیں جس سے اس کی گہرائی تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے -‘‘(۱۴) 
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ’’رسالہ مرج البحرین‘‘ میں رقم طرازہیں:
’’وبالجملہ مردم درغلبۂ احوال مشائخ وشطحیات ایشاں سہ فرقہ اند ‘‘(۱۵)
اس باب میں مجموعی طورسے تین فرقے ہیں :
 فرقۂ اول:
 فقہائے محض اور علمائے ظاہر ہیں جن کا موقف تردید وانکار ہے جوایسے مشائخ کے تعلق سے کوئی بھی نرم گوشہ نہیں رکھتے نہ ہی انہیں معذور جانتے ہیں، اس فرقہ میں بھی دوقسم کے لوگ ہیں: ایک وہ جوحقیقی طور سے منکر وتردید پسند ہیںکہ وہ ایسے اقوال وافعال کو جہل وجنون سے تعبیر کرتے ہیں، انکارو تردید کی وجہ، ان کی طبیعت کاجمود اور باطن کی خرابی ہے جوان کے لیے رحمت وبرکات سے محرومی اور سوء خاتمہ کا سبب بن سکتی ہے -دوسرے وہ حضرات ہیں جوبظاہر سدِّذرائع کے لیے تردید وانکار کی روش اختیار کرتے ہیں مگر نفس الامر کے اعتبار سے موافق وحامی ہوتے ہیں -
فرقۂ دوم:
یہ جماعت نہایت غلوپسند ہے ان کااعتقاد شطحات مشائخ کے تعلق سے نہایت گمراہ کن ہے -
ان کاخیال ہے کہ مشائخ کر ام جوبھی کہتے ہیں یاکرتے ہیں وہ حق بجانب ہوتے ہیں اگر چہ صریحاًمخالف شرع ہی کیوں نہ ہوں،بلکہ وہ یہاں تک عقیدہ رکھتے ہیں-کہ شریعت وہی ہے جویہ کرتے ہیں علماوفقہاکے اقوال وفتاویٰ کاکوئی اعتبار نہیں ایسی جماعت کو جاہل مستصوفین کہاجاتاہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں-مذکورہ دونوں فرقوںکے درمیان فرق یہ ہے کہ ایک حقیقت کاادراک نہ کرنے اور شدت و جمود کی وجہ سے بے عرفان ہے اور دوسرا ظاہر شریعت کے منکر ہونے کی وجہ سے بے ایمان ہے-
 فرقۂ سوم: 
وہ حضرات جو افراط وتفریط سے الگ راہ اعتدال پر گامزن ہیں، ان کاموقف یہ ہے کہ ایسے اقوال وافعال در حقیقت درست ہیں مگر شرعاًقبیح ہیں- اس شرعی قباحت کی وجہ ضبط واختیار کا فقدان اور غلبۂ حال ہے، اس کی مثال عالم ظاہر میں ایسے ہی ہے جیسے جب کسی ذی ہوش اور عقل مند آدمی کے اوپر فرحت وغضب کی حالت طاری ہوتی ہے تو اختیار کھو بیٹھتا ہے اور بے خودی میں عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتاہے ،لہٰذا ایسے اقوال وافعال کو فقط تسلیم کیاجائے جیساکہ کہاگیاہے- اسلم تسلم - (۱۶) 
شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنے دوسرے رسالہ ’’ تحصیل التعرف فی معرفۃ الفقہ والتصوف‘‘ میں ایسے صاحبان وجدوحال کو مجنوںکے حکم میں قراردیتے ہیں،جومرفوع القلم ہوتے ہیں ،چنانچہ وہ قاعدہ نمبر ۲۴؍کے تحت لکھتے ہیں کہ صاحب وجد اپنے حال میں خود پراختیار نہیں رکھتا وہ مجنوں کے حکم میں ہوتاہے اس حال میں صادرہونے والے امور ناقابل اتباع ہیں -جیسے حضرت ابوالحسین نوری قدس سرہ کا حالت وجد میں اپنے آپ کو جلاد کے سامنے پیش کردینا ،شیخ ابوحمز ہ کا کنویں میں گر کر کسی کو مدد کے لیے آوازنہ دینا،شیخ شبلی کا حلق ریش اور درہم ودینار کا دریامیں پھینک دیناوغیر ہ، ایسے بہت سے واقعات ہیں جوغلبۂ وجد وحال میں صوفیہ سے صادر ہوئے- ابن جوزی اور ان کے ہم خیال علما نے ایسے افعال پراعتراض کیا ہے-شیخ زروق نے یہ دعوی کیا ہے کہ جس مغلوب الحال کا اپنے افعال پر قابونہیں، ضبط کی قدرت نہیں وہ معذور ہے- بطور استدلال یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت بے ہوش ہوجایاکرتی تھی، ایک دن نبی اکر م ﷺکی بارگاہ میں حاضرہوئی اور آپ سے اپنا حال بیان کیاکہ میں بے ہوش ہو جایاکرتی ہوںاور اسی حالت میں کبھی کبھی عریانیت سے دوچار ہو جایا کرتی ہو ں، لہٰذاآپ میرے لیے دعافرمائیںتا کہ اس سے شفا حاصل ہوجائے (یااسی طرح کچھ الفاظ کہے) تورسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ اگر توصبر کرے تو تیرے لیے جنت ہے، یا نہیں تومیں دعاکرتاہوںکہ اللہ تعالی تجھے شفابخشے وہ عورت راضی ہوگئی کہ اسے جنت منظور ہے-گویاآپ کا اس عورت کو صبرکرنے اور اس حالت کے برداشت کرنے کی تلقین کرناجس میں وہ برہنہ ہوجایاکرتی تھی اس بات کی دلیل ہے کہ بے اختیارشخص کا عذر مقبول ہے- (۱۷) 
ابن تیمیہ کا موقف:-
شیخ ابن تیمیہ جو ایک گروہ کے نزدیک بڑے معتبر اور معقول شخص مانے جاتے ہیں اور عمومی طور سے ان کو مخالف صوفیہ سمجھاجاتا ہے ،ایک طبقہ ابن تیمیہ کے افکار سے متاثر ہو کر ہمیشہ صوفیہ اور تصوف کو ہدف ملامت بنا تا رہتا ہے-ذیل میں ان کے مختلف فتاوی نقل کررہے ہیں جن سے ابن تیمیہ کا موقف واضح صورت میں سب کے سامنے عیاں ہو جائے اور تصوف پر جارح تنقید کرنے والے اعتدال کا رویہ اختیار کریں-ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ صوفیہ کے کلام میں کچھ عبارات ظاہری طور پر سمجھ میں نہیں آتیں بلکہ بعض مرتبہ تو بہت غلط عبارت نظر آتی هہے لیکن اس کو صحیح معنی پر حمل کیا جا سکتا هہے، لہٰذا انصاف کا تقاضہ یہ هے کہ ان عبا رات سے صحیح معنی مراد لیا جائے جیسے فنا، شہوداورکشف وغیر ہ -(۱۸)
جماعت صوفیہ میں سے کسی ایک کا بھی یہ عقیدہ نہیں هہے کہ الله تعالی اس میں یا اس کے علاوہ دیگر مخلوقات میں حلول واتحاد کر گیاہے ، اور اگر بالفرض اس طرح کی بات ان اکابر شیوخ کے بارے میں نقل کی جائے تو اکثر اس میں جھوٹ ہوتاہے ، جس کو اتحاد وحلول کے قا ئل گمراہ لوگوں نے ان صو فیائے کرام کی طرف منسوب کیاہے ، صوفیائے کرام اس قسم کے باطل عقائد سے بری ہیں-(۱۹)
صوفیہ جو امت کے نزدیک مشہور هہیں وہ اس امت  کےسچے لوگ ہیں وہ حلول و اتحاد وغیرہ کا عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ لوگوں کو اس سے منع کرتے هہیں اور اہل حلول کے رد میں صوفیہ کا کلام موجودہے ، اور حلول کے عقیدہ کو ان نا فرمان یا فاسق یا کافر لوگوں نے اختیار کیا جنہوں نے صوفیائے کرام کے ساتھ مشابہت اختیارکی اور ظاہری طور پر ولایت کے دعوے کیے- (۲۰)
اگر ان لوگوں کی تکفیر کی جائے تو بہت سارے شافعی، مالکی، حنفی، حنبلی ،اشعری، اہل حدیث، اہل تفسیر اور صوفیہ کی تکفیر لازم آئے گی، حالاں کہ باتفاق مسلمین یہ سب لوگ کافر نہیں تھے-(۲۱) 
ابن تیمیہ کے مذکورہ اقوال سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ اس تصوف کے برخلاف قطعی نہیں تھے جو شیخ جنید بغدادی اور شیخ عبد القادر جیلانی وغیرہم کا تصوف تھا بلکہ حقیقی صوفیہ کے بارے میں طعن وتشنیع کو اس نے گمرہی قرار دیا ہے، لہٰذا ابن تیمیہ کا نام لے کر تصوف کو یکسر غیر اسلامی اور بے دینی بتانے والے اپنے نظریات کا جا ئزہ لیں اور شدت و تعصب کی عینک اتار کر ان نفوس قدسیہ کی تعلیمات کو پھر سے پڑھیں-
مذکورہ اقوال کی روشنی میں جو معتدل راہ نکلتی ہے، وہ یہ کہ شطحات نہ قابل تردید ہیں، نہ قابل اتباع بلکہ انہیں تسلیم کیاجائے او راسی میں سلامتی ہے-
بعض معروف شطحات کی تاویلات وتوجیہات:- 
شطحات وہفوات میںسے بعض کی حکیمانہ تاویلات وتوجیہات اور حقائق ومضمرات بھی پیش کردی جائیں ،تاکہ اہل بصیرت کو ایک اشارہ مل جائے، جس سے وہ ایسے مقامات پراپنے آپ کو صحیح فکر کاحامل بناسکیں -شطحات کے باب میں سب سے زیادہ حضرت منصور حلاج کے نعرۂ’’ انا الحق‘‘ کو لے کر قلق وبے چینی ہے اس لیے اس کی تفصیلی وضاحت ضروری ہے-
 شیخ علی ہجویری فرماتے ہیں کہ :
حضرت ابوالمغیث حسین بن منصور حلاج رحمۃاللہ علیہ کا شمار مشتاقان الٰہی اور مستان طریقت میں ہوتا ہے، آپ کا حال نہایت قوی اورہمت بلند تھی، آپ کے مقام کے متعلق مشائخ طریقت کا اختلاف ہے، ایک گروہ کے نزدیک آپ مقبول بارگاہ ہیںاور ایک کے نزدیک مطعون- وہ طبقہ جوآپ کو مطعون سمجھتاہے، ان میں حضرت عمرو بن عثمان مکی ،ابویعقوب نہرجوری ،ابو یعقوب اقطع، اورعلی بن سہل اصفہانی وغیرہم ہیں-جنہوںنے آپ کو مقبول بارگاہ قرار دیاان میں حضرت ابن عطا،محمد بن خفیف ، ابوالقاسم نصرآبادی اورجملہ مشائخ متأخرین ہیں -ایک طبقہ ایسابھی ہے جس نے آپ کے بارے میں سکوت اختیار کیاان میں حضرت جنید ،حضرت شبلی اور حصری وغیرہم ہیں -ہمارے زمانے کے مشائخ مثلاًحضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر، شیخ ابوالقاسم گرگانی، شیخ ابوالعباس شفانی قدست اسرارہم جیسے عظیم المرتبت حضرات اپنے آپ کو حضرت ابن منصورکا ہمراز سمجھتے ہیں اور ان کااحترام کرتے ہیں-
استاد ابوالقاسم قشیری قدس سرہ ان کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ اگر وہ اہل حقیقت میں سے تھے توخلق کی طعن وتشنیع کی وجہ سے بارگاہ حق سے محروم ومستر د نہیں ہوسکتے، اگر وہ مہجور طریقت تھے توقبول خلق کی وجہ سے مقبول بارگاہ نہیں ہوسکتے، ہم ان کو ان کے حال پر چھوڑ تے ہیں، لیکن ہم نے ان کے اندر جو نشان حق پایااس کی وجہ سے ان کا احترام کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے مخالفین کی تعداد بہت کم اور موافقین کی تعداد بہت زیادہ ہے-(۲۲)
حضرت مخدوم اشرف جہاںگیر سمنانی قدس سرہ سے منقول ہے ،وہ فرماتے ہیںکہ:
حسین ابن منصورحلاج کے سلسلے میں اختلاف ہے، اکثر ان کی تائید کرتے ہیں ،بعض تردید- ان کے حامیوں میں شیخ ابوالعباس عطا، حضرت عطا ،شیخ شبلی ، شیخ ابوعبداللہ خفیف،شیخ ابوالقاسم وغیرہم ،مذکورہ حضرات ان کے قتل پرراضی نہیں تھے -
 سلطان طریقت شیخ ابوسعید ابوالخیر قدس سرہ (۳۵۷ھ-۴۴۰) فرماتے ہیںکہ:
’’ مشرق ومغرب میں احوال کی بلندی کے اعتبار سے وہ لاثانی ہیں -‘‘ (۲۳)
امام المتکلمین حضرت فخرالدین رازی نے،،انا الحق ،،کی چندتوجیہات ذکرکی ہیں ،جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱- اللہ حق ہے اور اس کی معرفت، معرفت حق اور معرفت حق کی مثال ایسی ہے ،جیسے اکسیر کہ جب وہ تانبے پر پڑتی ہے تو اسے سونا بنادیتی ہے- اسی کے مانند جب معرفت الٰہی کی اکسیر روح کے تانبہ پرپڑتی ہے تو اسے باطلیت سے حقیت کی طرف لے آتی ہے-حضرت منصور کے اناالحق کہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ موجود حقیقی بس حق تعالی شانہ کی ذات ہے اس کے سواسب فانی وباطل ہے، اس لیے کہ منصورحلاج وہ شخص تھے جن پریہ حقیقت منکشف ہوگئی تھی کہ ماسوائے ذات حق کچھ بھی نہیں، حتی کہ خود ان کی ذات بھی فنا ہوچکی تھی، ان کے مشاہدہ ویقین میںیہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ حق تعالی کے سواموجود بالذات کوئی نہیں- اس کیفیت میں اگر انہوں نے اناالحق کہاتو درحقیقت قائل وہ نہیںہیں بلکہ اللہ نے یہ کلمہ ان کی زبان پرجاری فرمایاتھا-خود ان کی ذات تجلیات ربانی میں مستغرق ومحوتھی ،اسی لیے جب ان سے کہاجاتاکہ انابالحق کہو توان کی زبان سے اناالحق ہی نکلتااس لیے کہ اگروہ انابالحق کہتے تولفظ اناسے اشارہ ان کی ذات کی طرف ہوتاحالانکہ وہ مقام محویت میں تھے-
۲-ومنھاماقال الامام ایضاًان من غلب علیہ شیٔ یقال انہ ھوذٰلک الشیٔ علی سبیل المجاز کمایقال فلان کرم فلماکان الرجل مستغرقاًبالحق لاجرم قال اناالحق.‘‘
نیزامام رازی نے فرمایا کہ’’ جب کوئی چیز کسی پرغالب ہوجاتی ہے توبطور مجاز کہاجاتاہے کہ یہ وہی چیز ہے جیسے کہ فلاں سراپاسخاوت ہے،اسی لیے جب کسی کے اوپر حق کی تجلیات کا غلبہ ہوجائے اور وہ مستغرق وفنا ہوجائے تویقینی طورسے اناالحق کہے گا، مثل مشہورہے’’ہرکہ درکان نمک رفت نمک شد ‘‘
۳- اس قول[انا الحق] کامحمل یہ ہے کہ یہاں مضاف محذوف ہے، اصل میں اناعابد الحق یاذاکرالحق ہے ، مگر خود کہتے ہیں کہ یہ ضعیف تاویل ہے، اس لیے کہ حذف مضاف اس جگہ جائز ہے، جہاں التباس نہ ہو، مثلاً واسئل القریۃ اصل میں اھل القریۃ ہے، مگر جہاں التباس سے محفوظ نہ ہووہاں حذف جائز نہیں، جیسے کہاجائے رأیت زیداًا ور مراد لیاجائے غلام زیدٍ-(۲۴)
غیرمسلم محققین وناقدین کی رائے : 
فرانس کے معروف ادیب لوئی مسینونے حضرت حسین ابن منصورحلاج کی شخصیت پربڑی جانفشانی سے ریسرچ کیا، بغداد جاکر قدیم صوفیہ کی کتابوں کامطالعہ کیا،خود ابن منصورکی کتابیں بھی پڑھیں،پھر اس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا،نیز آپ کی سوانح حیات بھی لکھی -حضرت ابن منصورحلاج کے اوپر جوکتاب انہوں نے تحریر فرمائی ہے، اس کا نام ’’لاپیشن ڈی الحلاج‘‘(La passion De Alhallaj)ہے-(۲۵)
ڈاکٹرنکلسن جوابتدائی ایام میں تصوف اور صوفیہ کے تعلق سے متعصبانہ رویہ رکھتے تھے، مگراخیرزمانے میں و ہ حامی ہوگئے تھے -اپنی اخیر دور کی تصنیف ’’تصوف میں نظریۂ شخصیت‘‘(Idea of personalty in sufism)میں حسین ابن منصور حلاج کے ’’نعرۂ اناالحق ‘‘کاذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
حلاج کے’ اناالحق‘ کامطلب یہ نہیںتھاکہ میںخداہوںبلکہ اس کامقصد یہ تھاکہ میں حق یعنی سچ ہوں- یہ نظریہ ہمہ اوست کے سراسر خلاف ہے کیوںکہ اس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ انسان خداکامظہر ہے-یہ نظریہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان کلمات کے تقریباًمطابق ہے جس میںآپ نے فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا خداکودیکھا لیکن وہ نظریہ جسے حلول کے نام سے موسوم کیاجاتاہے اسلام میں جڑنہ پکڑسکا اسے حلاج اور ان کے مریدین ہی نے ختم کردیاتھا-صوفیہ کا بیان ہے کہ حلاج کو اس لیے نہیں شہید کیا گیا کہ وہ حلولی تھے بلکہ اس لیے کہ انہوںنے حق تعالیٰ کا راز فاش کردیا-(۲۶)
ڈاکٹر نکلسن کتاب مذکورمیں حضرت حلاج کی پابندی شریعت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
جب حسین بن منصور حلاج کو پھا نسی دینے کے لیے لایا گیاتوانہوںنے دار ورسن کو دیکھ کر قہقہہ لگایااور اس قدرہنسے کہ آنکھوں سے پانی بہنے لگااس کے بعد انہوں نے لوگوں کی طرف نگاہ کی اور اپنے پیربھائی دوست حضرت ابوبکر شبلی قدس سرہ کودیکھ کردریافت کیاکہ کیاآپ کے پاس مصلیٰ ہے؟انہوںنے جوا ب دیاجی ہاں یاشیخ!انہوںنے کہااسے بچھادو،اس کے بعد حلاج نے آگے بڑھ کر دورکعت نماز ادا کی- شبلی فرماتے ہیں کہ میں ان کے پاس کھڑاتھاپہلی رکعت میں انہوں نے سورۂ فاتحہ کے بعد یہ آیات پڑھیں کل نفس ذئقۃالموت الخ دوسری رکعت میں ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الاموال الخ.(۲۷) 
شیوۂ منصور تھا اہل نظر پر بھی گراں
 پھر بھی کس حسرت سے سب دارورسن دیکھا کیے
سبحانی مااعظم شانی پر مشائخ کا تبصرہ:-
 لطائف اشرفی میں مذکور ہے :
حضرت مخدوم اشرف سمنانی قدس سرہ فرماتے ہیںکہ سلطان العارفین کا یہ قول حالت تلون سے ہے، مقام تمکین سے نہیں، حضرت سلطان العارفین قدس سرہ نے جوکہااس کی حقیقت اس راہ کے اہل تجربہ ہی جانتے ہیںکیوںکہ یہ قول حضرت بایزیدکی زبان پربلاقصدجاری ہواجیساکہ قلب میں ذکربلاارادہ پیداہوتاہے-نیز خـودحضرت بایزید فرماتے ہیںکہ الٰہی اگرمیں نے کسی دن سبحانی مااعظم شانی کہا ہو تومیں کا فر ومجوسی ہو ں،میں اپنی زنّار توڑتا ہوں اور کہتا ہوں اشہد ان لاالہ الا اللہ واشہد ان محمد اعبدہ ورسولہ- (۲۸)
بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت با یزید سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فر ما یاکہ اس وقت میں بعض اوراد میں مشغو ل تھا اور فقرہ سبحانی ما اعظم شانی ربّ العالمین کے قول کی حکا یت تھی جیسا کہ کو ئی سورئہ طہٰ میں پڑ ھے  انّی انا ربّک  اس طرح آپ کے بارے میں منقول ہے کہ غلبۂ حال میں اگر چہ ان کی زبان پہ کلمات جاری ہوئے مگر جب ہوش وحواس درست ہوئے تو آپ کے رفقا ومریدین نے اس تعلق سے آپ کو بتا یا کہ آپ ایسا ایسا لفظ کہہ رہے تھے- آپ نے ارشاد فرمایا کہ: ٹھیک ہے اگر تم لوگ مجھ سے ایسے الفاظ دوبارہ سننا تو میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردینااور سب کو ایک ایک چھری تھما دی  چنانچہ آپ پرپھر غلبۂ حال طاری ہوا اورآپ نے اسی لفظ کو دہرایا -آپ کے حسب ارشا د رفقا و مریدین نے آپ کو کاٹنے کا ارادہ کیا، پہلے دیکھا کہ پورا کمرہ آپ کے وجود سے بھرا ہوا ہے مگر جیسے ہی چھری ان کے جسم کے قریب لے گئے تو وہ صورت چھوٹی ہوگئی اور حضرت بایزید نمودار ہو گئے- لوگوں نے ماجرا دریا فت کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ بایزید یہ ہے اس سے پہلے بایزید نہیں تھا-(۲۹)
ہفوات کے صدورکا سبب بھی چوں کہ ایک خاص حالت وکیفیت کا غلبہ ہے، جس میں ضبط واختیار ختم ہو جاتا ہے، بے خودی طاری ہوجاتی ہے اورجوبھی عجیب وغریب حرکات ان سے صادرہوتے ہیں وہ ان کے مقتضائے حال کے مطابق ہوتے ہیں- وہ ایساکرنے میں معذور ہیں - مگرساتھ ہی ان افعال کے پیچھے ایسی لطیف اور بلیغ حکمت کارفرماہوتی ہے جس کے آگے ظاہری قباحت بے حیثیت نظرآتی ہے اس کاباطن جمال معنوی کا ایسا حسین پیکر ہو تاہے جسے ظاہرکی خراب شباہت معیوب نہیں کر سکتی ، بطور تمثیل ایک واقعہ کی تفصیل بیان کی جاتی ہے شاید حق واضح ہوجائے اور مقصودتک پہنچنے میں کفایت کرے-
لوگوں نے بیان کیاہے کہ جب حضرت شبلی کا لڑکا فوت ہوگیا تواس صدمہ میں آپ کی اہلیہ نے اپنے سر کے بال کٹوالیے اور خود حضرت شبلی قدس سرہ نے اپنی داڑھی حلق کروالی اور گھرمیں بیٹھ گئے، اہل بغداد کو جب شبلی کی اس حالت کاعلم ہواتووہ آپ سے بدظن ہوگئے اور تعزیت کاارادہ ترک کردیا -شیخ کے احباب میںسے کسی نے دریافت کیا کہ اے شبلی !آپ نے ایسی حرکت کیوںکی ؟آپ نے جواباََ فر مایا:اپنی اہلیہ کی موافقت میں-لیکن انہوںنے کہاکہ یہ جواب تسلی بخش نہیں آپ حقیقت حال سے آگاہ کریں کیوںکہ آپ اپنے اہل وعیال کے لیے ایسی حرکت نہیںکرسکتے - اصرار واستفسا ر  کے بعد آپ نے اس کی صحیح حکمت وعلت بیان کرتے ہو ئے فرمایا :
 نبی اکرم کی ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے کہ جولوگ تذکیرحق کرتے ہیں اور خود ان کے قلوب اس سے غافل ہوتے ہیں توایسے لوگ مستحق لعنت اور رحمت حق سے دور ہوجاتے ہیں -یہ بات ظاہرہے کہ لوگ میرے پاس تعزیت کے لیے آتے اور حسب عادت رسمی طور سے انا لّٰلہ وانا الیہ راجعون کہہ کر تذکیر حق کرتے ،حا لا ں کہ خود ان کے قلوب اس سے غافل ہو تے اس طر ح وہ مستحق لعنت ہو جا تے، اسی وجہ سے میں نے اپنی ڈاڑھی حلق کر والی تا کہ لوگ میری اس حرکت سے بے زار ہو کر میرے قریب نہ آئیں- میرے اس فعل نے خلق خدا کو ورطۂ ہلاکت میں گرنے سے بچا لیا-
ملاحظہ کیجیے کہ اس حرکت میں کیسی دور اندیشی اور دقت نظری ہے ،ان کی نیت میں کس قدر صدق و خلوص مضمر ہے ،  آیت ربانی اور حدیث رسالت پناہی  کی کیسی قدر وتعظیم ہے- (۳۰)
بہر کیف! ایسے احوال کا طاری ہو نا نوادرات میں سے ہے،یہ ایک مخصوص کیفیت کے تحت صادر ہوتے ہیں ،اس سلسلے میں فقہا نے سد ذرائع کے طور پر جو فتوی دیا ہے، وہ اپنی جگہ بر حق ہے ،نہیں تو رخصت کے نام پر فساق وفجار کے لیے ایک دروازہ کھل سکتا ہے، صوفیہ اپنے احوال میں معذور ہیں ،حتی الامکان تاویل و تو جیہ  کی راہ نکالی جائے-
اسبا ب ومضمرات:-  
بعض صوفیہ نے فرمایا کہ شطحات کی مثال اس حدیث پاک میں ہے، جس میں رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا : 
اللَّهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ حِينَ يَتُوبُ إِلَيْهِ مِنْ أَحَدِكُمْ كَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِأَرْضِ فَلَاةٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ وَعَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ ، فَأَيِسَ مِنْهَا ، فَأَتَى شَجَرَةً فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا قَدْ أَيِسَ مِنْ رَاحِلَتِه فَبَيْنَا هُوَ كَذَلِكَ ، إِذَا هُوَ بِهَا قَائِمَةً عِنْدَهُ فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا  ، ثُمَّ قَالَ : مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ، اللَّهُمَّ أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّكَ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّةِ الْفَرَحِ- (۳۱)
 جب بندہ خدا کی طرف توبہ (استغفار ) کے ذریعے رجوع ہوتا ہے تو خدا بہت خوش ہوتا ہے (جس کی مثا ل حضور نے یوں فرمائی) کہ ایک شخص بےآب وگیاہ جنگل میں سواری پر سفر کررہا تھا ، کسی منزل پر اس کی سواری اس سے چھوٹ گئی، جس پر اس کا توشہ پانی تھا ، اس کو اپنی ہلاکت یقینی نظر آنے لگی ہو ، عالم حسرت ویاس میں کسی درخت کے نیچے لیٹ گیا، بے خودی سی کیفیت طاری ہوئی ، پھر اچا نک کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری اس کے پاس موجود ہے اور سازوسامان جوں کا توں موجود ہے ، اس وقت فرط مسرت میں بے ساختہ یہ کہہ بیٹھا ’’اللہم انت عبدی وانا ربک‘‘ اے اللہ !تو میرا بندہ اور میں تیرا رب-خوشی کی انتہا میں اس کی زبان لڑکھڑاگئی -(کہنا تو یہ چاہتا تھا کہ تومیرا رب میں تیرا بندہ ہوں ، مگر سبقت لسانی ہوگئی، جس میں اس کے قصد وارادہ کا کو ئی دخل نہیں تھا،لہٰذا اس پر کو ئی مواخذہ نہیں ہوگا -)
 ایسے اقوال وافعال بنفسہا شرعاََ قبیح ہیں مگر یہ قباحت قائل وفاعل کی طرف راجع نہ ہوگی یہ سب اصلاََ خطا ومعصیت ہیں، مگر فاعل عاصی وخاطی نہیں جیسے گھوڑا پاک جانور ہے مگراس کی لید نجس ہے،اس نجس لید کے گھوڑے سے خروج ہونے کے سبب اس پر نجاست کا حکم نہیں لگایا جاتا، لہٰذا صاحب قول وفعل پرمعصیت کاحکم صادر کرنادانش مندی نہیں ہے-  ایک توجیہ یہ بھی کہ ممکن ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنا کلمہ منصوروبایزید کی زبان سے ظاہرکیاایسے کلمات کی نسبت ان کی طرف نہیں ہوگی کیوںکہ ایسی حالت میں ان حضرات کی حیثیت محض آلہ کی ہے اور حقیقت میںقائل ذات حق ہے - اس سے کوئی اعتراض لازم نہیں آتا،کیوں کہ جب درخت سے صدائے اننی انا اللہ جاری ہوسکتی ہے توکسی انسان کی زبان سے اناالحق یا سبحانی مااعظم شانی کا جاری ہو جانا، بدرجۂ اولی درست ہے - 
روا باشد انا اللہ از درختے
چرا نبود روا از نیک بختے
کھلے لفظوں میں یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ ایسے کلمات کا صارد ہو نا بلا قصد وارادہ ایک مخصوص کیفیت کے زیر اثر ہو تا ہے جس میں اختیار و ضبط کا فقدان ہو تا ہے -ان شطحات کو اصل دین سمجھنا بھی بے دینی ہے،نیز ان کلمات کی وجہ سے ان پر طعن وتشنیع بھی مذموم ہے- محفوظ و مستقیم راہ یہی ہے کہ اسے اللہ کے حوالے کیا جائے یاحسن ظن رکھتے ہو ئے اس کے تعلق سے صحیح تاویل کی راہ نکا لی-اسے یو ں بھی سمجھیں کہ یہ متشابہ آیتوں کی طرح ہے ،جیسے قرآن میں بعض آیتیں محکم ہیں، جوبا ٓسانی سمجھ میں آجاتی ہیں او کچھ آیتیں متشابہ ہیں جن کا ظاہر ی مفہوم مراد نہیں ہو تا بلکہ وہاں تاویل کر کے صحیح معنی کا محمل پیدا کیا جاتا ہے یا اس میں بحث و کرید سے بچتے ہیں ،اسی طرح اولیائے ربانی کی بھی دو قسمیں ہیں :بعض آیات محکم کی طرح ہیں، بعض متشابہ کی طرح-جو محکمات ہیں وہ ارباب صحو وتمکین ہیں ،دعوت وارشاد ،تزکیہ و تربیت کا کام انہیں سے انجام پاتا ہے، ایسے صوفیہ مسند ارشاد پر فائز ہو تے ہیںاور جو متشابہات کی طرح ہیں وہ ارباب سکر وتلوین کہلاتے ہیں ،یہ مغلوب الحال ہو تے ہیں ،ان سے تزکیہ و ارشاد کا کا م نہیں ہو پاتا ،یہ حضرات مقتدا و مرشد نہیں ہو تے، اگر چہ اپنے احوال میں غایت درجہ بلند ہو تے ہیں ،ان کے اقوال و افعال کی پیروی منع ہے ،جیسے آیات متشابہات کااتباع منع ہے -   
شطحات کے تعلق سے جوبھی توجیہات ہیں وہ بہت ہی دقیق اور لطیف ہوتی ہیں، جوعام فہم نہیں اور کوئی بھی تاویل وتشریح ان کلمات کا یقینی و مستند محمل نہیں، اس لیے اس کی صراحت ووضاحت میںزیادہ سرکھپانااور اس کی حقیقت کو کریدنا خلجان واضطراب سے خالی نہیں، جیسا کہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:
 ’’شطحیات کی جزئیات کی تفصیل کرنا مناسب نہیں کیوںکہ یہ رموزواشارات ،فناوتوحید کے قبیل سے ہیں-قیل وقال درآںجامناسب حال نہ باشد- واللہ اعلم بالصواب-‘‘(۳۲)
خاکم بدہن:-
چند مغلوب و مجذوب صوفیہ کے بعض ہفوات وشطحات کی آڑ میں صوفیہ کی پوری جماعت کے خلاف الزام تراشی کرنا اور اسے غیرشرعی و غیراسلامی افکارقرار دینا ،بلاشبہہ فقدان بصیرت وفساد باطن کی دلیل ہے، کیوں کہ تاریخی حقائق ومشاہدا ت سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ اسلام کے حقیقی علم بردار کی حیثیت اگر کسی کو حاصل ہے تووہ یہی پاک گروہ ہے جن کی زندگی کا ہرصفحہ شریعت مطہرہ کے ظاہری احکام وباطنی آداب کی پابندی سے عملاً وحالاً عبارت ہے-اسلام کے شرعی واخلاقی اصولوں کی پاسداری واحترام جوان کے یہاں دیکھنے کو ملتاہے وہ کہیںاور نہیں ،معرفت خداوندی جیسی بے بہانعمت سے جووافرحصہ انہوںنے حاصل کیاوہ دوسرے لوگ نہ پاسکے -
در حقیقت یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے مادیت گزیدہ ماحول میں روحانی قوت کاایساسکہ رائج کیا کہ لوگ طاغوتی ونفسانی شکنجوں سے آزاد ہوکر معبود برحق کے مخلص وصادق بندے ہو گئے ،انہوںنے ہی اخلاق وکردار کی عظمت سے تسخیر کائنات کا حسین فلسفہ پیش کیا، ان کی زندگی کا واحد مقصد دین خداوندی کی نشرواشاعت اوردعوت وتبلیغ تھا- دنیا کو منافرت و فرقہ پسندی کے گرداب سے نجات دینے والے ،امن وآشتی کی فضا قائم کرنے والے یہی ارباب تصوف تھے- صفحۂ ہستی پر ان کے انقلابی کارناموں کی دھوم رہی ہے اور ہے، تاقیامت رہے گی - خلافت ارضی کی مسند عظیم کاحقیقی وارث یہی طبقہ ہے جیساکہ قرآن مقدس میں مذکور ہے: ’’ان الارض یرثہا عبادی الصالحون‘‘(۳۳) 
[زمین کے وارث میرے مخلص بندے ہو ں گے-]
-------------------------------------------------------------------
مصادر ومراجع:
۱- تذکرۃالاولیا( فارسی)، شیخ عطار، ص:۸
۲- الرسالۃ القشیریہ ،ج :۱،ص :۲
۳- مرج البحرین (فارسی)شیخ عبدالحق محدث دہلوی ،ص:۳۳، ایجوکیشنل پریس پاکستان 
۴- ایضاً،ص: ۳۴
۵- المعجم الوسیط، ص: ۴۸۲؍۹۸۹،زکریابک ڈپودیوبند
۶- کتاب اللمع :ص: ۳۷۴، لندن
۷- لطائف اشرفی(ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی)، ص:۶۴۴،مترجم شمس بریلوی ، سہیل پریس پاکستان 
۸- کتاب اللمع (عربی )،ص:۳۷۵مطبع بریل لندن
۹- ایضا :۳۷۶ 
۱۰- کشف المحجوب( اردو)،داتاگنج بخش ہجویری، ص:۴۶۲؍۴۶۴ترجمہ وتحقیق کپتان واحد بخش سیال چشتی ، مکتبہ رضویہ دہلی 
۱۱- الرسالۃ المکیۃ،ص :۱۶۱-۱۶۲، شاہ صفی اکیڈمی الہ آباد
۱۲- لطائف اشرفی 
۱۳- ایضاََصـ۶۴۴
۱۴- ایضاََصـ۶۴۴
۱۵- مرج البحرین( فارسی)،شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص:۳۳، ایجوکیشنل پریس کراچی 
۱۶- ایضاًص:۳۵،۳۶،۳۷
۱۷- تحصیل التعرف فی معرفۃ الفقہ والتصوف، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، ص:۱۷۱؍۱۷۳مترجم عبدالحکیم شرف قادری 
اعتقاد پبلشنگ ہائوس دہلی 
۱۸- مجموع الفتاوی : ج:۲ص:۳۳۷
۱۹- نفس مصدر:ج:۱۱ص۷۴۔۷۵
۲۰- نفس مصدر:ج۱۵ص۴۲
۲۱- نفس مصدر:ج۳۵ص۱۰۱
۲۲- کشف المحجوب (اردو)،داتاگنج بخش ہجویری ،ص:۴۶۵ترجمہ وتحقیق کپتان واحد بخش سیال چشتی، مکتبہ رضویہ، دہلی
۲۳- ایضاًص:۴۶۵
۲۴- لطائف اشرفی (ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی)، ص:۶۵۳-تا ۶۵۸،مترجم شمس بریلوی، سہیل پریس کراچی
۲۵- مشاہدۂ حق ،کپتان واحد بخش سیال چشتی، ص:۱۴۶،الفیصل غزنی اسٹریٹ لاہور
۲۶- ایضاًص:۱۵۷؍۱۵۸
۲۷- ایضاًص:۱۵۸؍۱۵۹
۲۸- لطائف اشرفی ملفوظات مخدوم اشرف سمنانی ص:۶۷۰؍مترجم شمس بریلوی مطبع سہیل پریس پاکستان چوک کراچی
۲۹- ایضاًص:۶۷۰
۳۰- مرج البحرین( فارسی)،شیخ عبدالحق محدث دہلوی ،ص:۴۸؍۴۹، ایجوکیشنل پریس کراچی
۳۱- مسلم شریف :کتاب التوبہ
 ۳۲- مرج البحرین ،ص:۴۹
۳۳- سورہ انبیا : ۱۰۵
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔