Wednesday 15 August 2018

علامہ ابن جوزی—ناقدتصوف یامحدث صوفی؟

1 comments
علامہ ابن جوزی — ناقد تصوف یامحدث صوفی؟
از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی
----------------------------------------------------------------------------
نقداور تنقید کا مقصودہی یہ ہے کہ اصلاح کی جائے اور تنقید جس سے متعلق ہے اس کے نظام میں بہتری اور حسن وخوبی پیداکی جائے، تنقید کا مطلب یہ کبھی نہیں ہوتا کہ نا قد سرے سے اس چیزکومستر د کر رہا ہے جس سے اس کی تنقید کا تعلق ہے، اس لیے کہ وہ تنقید جو برا ئے اصلاح نہ ہو بلکہ عیب جو ئی یا با لکلیہ کسی چیز کو رد کرنے کی غرض سے ہو وہ درحقیقت اس بات کی مستحق ہی نہیں ہے کہ اسے تنقید کے دائر ے میں شامل کیا  جائے۔ عر ب کا مقو لہ ہے: نقدت الدارھم یہ اس وقت اہل عرب بولتے ہیں جب کھرے سکے کو کھوٹے سے الگ اور ممتازکردیا جائے اور ظاہر ہے کہ کھر ے کو کھوٹے سے نما یاں کرنے کا عمل اسی وقت انجام دیا جائے گا جب کہ اس میں کچھ سکے کھرے اورکچھ کھوٹے ہوں اور وہ باہم مل گئے ہوں ،یوں ہی یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ کسی جماعت، تحریک یا نظریے پر تنقید کا مطلب ضروری طورپر یہ نہیں ہوتا کہ نا قد کسی بھی طرح اس جماعت ،تحریک یا نظریے سے جڑا نہیںہو سکتا-
یوں تو تصوف اس نظام کا حصہ ہے جسے محسن انسانیت پیغمبردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور اس کا حدیثی نا م’’ـ احسان ‘‘ہے لیکن بعد کے ادوارمیں جب فتنوں نے اپنے پائوں پسارے، وہ جماعت جس نے اسلام و ایمان کو حاصل کرنے کے بعد احسان پر توجہ دی، صوفیہ کے نا م سے منسوب ہوگئی اور’’ احسان‘‘ تصوف کی اصطلاح سے بدل گیا اور اس میں کوئی تعجب کی بات بھی نہیں کیوں کہ عصر صحابہ میں فقہ کا اطلا ق عین شریعت کے علم پر ہوا کرتا تھا لیکن بعد کے ادوار میں اس کا اطلاق اصطلاحی فقہ جس کی تدوین عصر عباسی میں ہوئی اس پر ہونے لگا۔(۱) چنانچہ مرور ایام کے ساتھ تصوف کا آب زلال بھی گد لا ہونے لگا اور پھر نا قدین کی ایک جماعت اٹھی اور انہوں نے تصو ف کو اس کے سر چشمے سے جوڑنے اور اس میں در آنے والی کدور توں کو صاف کرنے کی کو شش کی۔
نا قد ین تصوف کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان کے اپرو چ (Approach)کے لحاظ سے ان کے دو گروہ سامنے آئیں گے اور دونوںہی گروہ ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ پہلا گروہ وہ ہے جواصطلاح تصوف کو قبول کرتاہے اور خود بھی صوفیہ اور تصوف کے طریقے پر قائم ہے لیکن اس کے باوجود تصوف میں بنام تصوف در آنے والے غیر اسلامی عناصرپر نظر رکھتا ہے اور نا م نہاد صوفیہ اور ان کے تصوف پر تیشۂ تنقید بھی چلاتا ہے ، ایسے نا قدین میں امام غزالی ،مجدد الف ثانی ،اور شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہم اللہ کے نام سر فہرست ہیں ۔دوسرا گروہ وہ ہے جو اصطلاح تصوف کو تو قبول نہیں کرتا لیکن چند باتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود متقدمین صوفیہ کا احترام کر تا ہے۔اس گروہ کے سرکردہ افراد میں حافظ ابن جوزی ،حافظ ابن تیمیہ اورحافظ ابن قیم کانام آتاہے ۔ اِدھر چند صدیوں سے ایک تیسرا گروہ بھی ابھر کر سامنے آیا ہے ، یہ وہ گروہ ہے جو نہ اصطلاح تصوف کو قبول کرتا ہے اور نہ صو فیہ متقد مین ہوں یا متا خر ین ، کا احترام کر تا ہے بلکہ ان کی بارگاہوں میں درید ہ دہن اور بے باک ہے اور خود ان کی زند گی میں بھی حقیقت احسان و تصوف کا کوئی نا م و نشان دکھائی نہیں دیتا بلکہ صر ف ظاہری اعمال کو انہوں نے عین شریعت کا نا م دے رکھا ہے۔ یہ گروہ سرے سے تمام صو فیہ کو گمراہ اور گمراہ گر قرار دیتاہے ، اور اپنے اس موقف کو جائز ٹھہرانے کے لئے ناقد ین تصوف کے دوسر ے گروہ ، ان کی آر ااور ان کی تصنیفات کا سہارا لیتا ہے۔ یہ تیسراگروہ در حقیقت وہ ہے جو سلفی یا عرف عا م میں وہا بی کے نا م سے جانا جاتا ہے ۔
ابھی گزر چکا کہ علامہ ابن جوزی کا تعلق نا قدین تصو ف کے دوسرے گروہ سے ہے۔ ہم اپنے اس مقالے میں اسی بات کا مطالعہ کریں گے کہ کیا واقعی ابن جوزی کا تعلق دوسرے گروہ سے ہے، یوں ہی ہم ان کی تنقید تصوف کی بنیاد وں کو سمجھنے کی کو شش کر یں گے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ان کی زندگی پر مختصر گفتگو کر لی جائے اوراسلام کے لیے ان کی خدمات کا ایک سر سری تعارف پیش کر دیا جائے ۔ 
علامہ ابن جوز ی: حیات وخدمات:
ابوالفر ج جمال الدین عبدالرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبیداللہ ابن جوزی قریشی تمیمی بکری بغداد میں ۵۰۸ھ اور ایک قول کے مطابق ۵۱۰ھ میں پیدا ہوئے ، ابوالحسن علی بن عبدالواحد دینوری متوفی ۵۴۱ھ، ابوالقاسم ابن الحصین ھبتہ اللہ بن محمدبن عبدالواحدبن احمد عباسی شیبانی بغدادی متوفی ۵۲۵ھ اور ابوعبد اللہ حسین بن محمد بن عبدالوہاب بارع بغدادی متوفی ۵۲۴ھ سے سماع حدیث کیا ،ان کے علاوہ ابوبکر محمد بن حسین بن علی بن ابراھیم مرزقی متوفی ۵۲۷ھ اور موھوب بن احمد جو الیقی متوفی ۵۴۰ھ سے علوم وفنون کی تحصیل کی۔(۲) آپ نے اپنے مشائخ میں ستاسی اشخاص کو ذکر کیا ہے حالانکہ ان کے علاوہ اور بھی کئی علما سے آپ نے شاگردی کا شرف حاصل کیا ۔(۳)
تاریخ، حدیث، وعظ، علم جدل وکلام میں علامۂ عصر تھے۔ ابن الجزری نے آپ کو شیخ العراق اور امام الآفاق کے لقب سے یاد کیا ہے۔ علامہ موفق الدین ابن نقطہ بغدادی (متوفی ۶۲۹ھ) آپ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ کان ابن الجوزی لطیف الصوت، حلوالشمائل، رخیم النغمۃ، موزون الحرکات، لذیذ المفاکھۃ یحضر مجلسہ مائۃ الف أو یزیدون لا یضیع من زمانہ شیئا‘‘۔
ترجمہ: ابن جوزی لطیف آواز والے، پیاری عادتوں والے تھے، ان کی آواز میں نغمگی اور حرکت واطوار میں وزن تھا، گفتگو پر لطف ہواکرتی تھی، ان کی مجلسوں میں ایک لاکھ بلکہ اس سے زیادہ لوگ حاضر ہواکرتے تھے اور اپنا وقت بلا وجہ ضائع نہیں کرتے تھے-(۴)
پوری زندگی وعظ ونصیحت اور لوگوں کی اصلاح میں گزاری ،آپ کے ہاتھ پر ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے توبہ کی، آپ نوعمری سے ہی تصنیف وتالیف میں مشغول ہوئے اور تاریخ و حدیث، فقہ وطب اور دوسرے علوم وفنون میںبہ کثرت تالیفات یاد گار چھوڑیں۔(۵) علامہ ابن جوزی کی اپنی تیار کردہ فہرست کے مطابق ان تالیفات کی تعداد ۲۶۳ تک پہنچتی ہے۔ (۶)امام ذہبی لکھتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ کسی عالم نے اتنی تصنیفات کیں جتنی کہ ابن جوزی نے۔(۷)آپ کی چند مشہور مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں ، المنتظم فی تاریخ الملوک والامم ،المدھش فی المواعظ و غرائب الاخبار، صفۃ الصفوۃ، مناقب بغداد ،مناقب عمر بن عبدالعزیز، الاذکیاواخبارھم، مناقب احمد بن حنبل۔(۸)
ان کے علاوہ ان کی اور بھی بہت سی کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں اور ہورہی ہیں اور مختلف زبانوں میں ان کے ترجمے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ 
وعدئہ الٰہی کے مطابق علوم و فنون کایہ آفتاب ۵۹۷ھ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی بارہویں تاریخ شبِ جمعہ کو غروب ہوگیا، انتقال کی خبر پھیلتے ہی بغداد میں کہرام مچ گیا ،بازار بند ہوگئے، جامع منصورین میں نماز جنازہ اداکی گئی جو شرکاکی کثرت کی وجہ سے تنگ ہوگئی ،یہ بغداد کی تاریخ کا ایک یاد گار دن تھا، ہر طرف غم کے آثار اور گریہ کی آواز یں بلند ہوتی تھیں ،لوگوں کو آپ سے ایسی محبت تھی کہ رمضان بھر لوگو ں نے راتیں آپ کی قبر کے پاس گزاریں اور قرآن کریم کے ختم کیے۔ (۹)
علامہ ابن جوزی کا نقد تصوف: 
علامہ ابن جوزی کی زندگی پر کی گئی گفتگو سے ان کے منارئہ علم کی بلندی کا اندازہ ہوچکا ہے، اب ہمیں اس بات کا پتا لگانا ہے کہ آخر وہ کون سی تحریریں ہیں جن سے ان کے ناقد تصوف ہونے کا قول کیا جاتاہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ان کی مشہور تالیف ہے تلبیس ابلیس، جس میں انہوں نے پوری اسلا می سوسائٹی کے خلاف ابلیسی سیاست اور اس کی دسیسہ کاریوں سے متعلق گفتگو کی ہے اور اس کے دسویں باب میں صوفیہ پر شیطانی تلبیس کامختلف پہلوئوں سے جایزہ لیاہے۔ اس کے علاوہ صیدالخاطر اور دوسری کتابوں میں بھی صوفیہ سے متعلق تنقیدی پیرا گراف ملتے ہیں، لیکن صوفیہ کی تنقید سے متعلق ان کا اصل سرمایہ تلبیس ابلیس ہے، بقیہ ان کی دوسری تنقیدی تحریریں تلبیس ابلیس ہی کی طرف لوٹتی ہیں۔ 
تلبیس ابلیس کے دسویں باب کے مطالعے سے چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں ۔
۱۔  تصوف ابتدا میں زہد کلی کا نام تھا بعد میں تصوف کی جانب منسوب افراد نے رقص وسماع کی اجازت دے دی۔
۲۔ مصنف نے حضرت جنید بغدادی اور حضرت رویم سے نقل کیا ہے کہ برے اخلاق سے نکلنے اور اچھے اخلاق میں داخل ہونے کا نام تصوف ہے، نیز یہ کہ ساری مخلوق تو رسوم پرستی  میں لگی رہی اور گروہ صوفیہ حقائق کی تلاش میں سرگرداں رہا ، سب نے اپنے نفس سے ظاہر شرع کی درستی چاہی لیکن اس نے اپنے نفس سے حقیقت تقویٰ اور مداومت صدق کا مطالبہ کیا اور پھر مصنف نے یہ اقرار کیا ہے کہ اوائل صوفیہ کا یہی حال تھا البتہ بعد میں شیطان نے چند چیزوں میں ان پر تلبیس کی یہاں تک کہ متاخرین پر اس نے پورا غلبہ حاصل کرلیا۔
۳۔ مصنف یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ متقدمین صوفیہ کتا ب وسنت پر اعتمادکیا کرتے تھے ،بعد میں کم علمی کے سبب شیطان نے انہیں دام فریب میںگرفتار کرلیا۔۴۔ مصنف نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ بعض مشائخ سے جو غلطیاں صادر ہوئی ہیں اگر واقعی صحیح ہیں تو ہم ان کاردکریں گے ورنہ ہم ایسے قول سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں، باقی رہے وہ لوگ جو صوفیہ میں سے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ مشابہت کرتے ہیں تو ان کی غلطیاں بکثرت ہیں۔
۵۔ اخیر میں وہ یہ بھی واضح کردیتے ہیں کہ ہمارامقصود صرف شریعت مطہرہ کو پاک کرنا اور اس کی خاطر لوگوں کو غیرت دلانا اور علمی امانت اداکرناہے۔ آگے وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اطاعت صرف احکام شریعت کی ہوتی ہے لوگوں کی نہیں، بسااوقات اولیاء اللہ سے نسیان ہوتا ہے، ان سے غلطیاں صادر ہوتی ہیں اور ان کی ان لغزشوں کو ظاہر کرنا ان کے مرتبے کاانکار نہیں۔ (۱۰)
تنقید تصوف وصوفیہ کی بنیادیں:
ان اعترافات کے بعد چند سرخیوں کے تحت انہوں نے صوفیہ کی کمیوں کو بیان کیا ہے اور قرآن واحادیث کی روشنی میں ان کو پرکھنے کی کوشش کی ہے ۔ صوفیہ کے استدلال کو ذکر کیا ہے اور پھر اپنی تنقید باوزن انداز میں لکھنے کی کوشش کی ہے، جن باتوں کی وجہ سے انہوں نے صوفیہ پر تنقید کی ہے ان کو نکات کی شکل میں ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
 (۱) صوفیہ کی بداعتقادی (۲)طہارت کے باب میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس، (۳) نماز میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۴) جائے سکونت کے باب میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۵) مال کو چھوڑ دینے اور اس سے علیحدہ رہنے کے سلسلے میں تلبیس ابلیس (۶) لباس کے بارے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۷) کھانے پینے کے بارے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۸) سماع اور رقص کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۹) وجد میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۰) نوجوانوں کی صحبت کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۱) تو کل میں اور مال واسباب جمع نہ کرنے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۲) ترک علاج میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۳) ترک نکاح میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۴)سفر وسیاحت کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۵) بغیر زاد سفر ویرانوں میں جانے کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس(۱۶) بعض وہ امور جو صوفیہ سے سفر میں خلاف شریعت سرزد ہوئے (۱۷) سفر سے واپسی کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس، (۱۸) کسی کی موت کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۱۹) تحصیل علم نہ کرنے کے سلسلے میں صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۲۰) علم کی کتابیں دفن کرنے اور انہیں دریا میں بہادینے کی نسبت صوفیہ پر تلبیس ابلیس (۲۱) علم میں مشغول رہنے والوں پر صوفیہ کا اعتراض (۲۲) صوفیہ کی علمی مسائل میں گفتگو (۲۳) شطحات صوفیہ اور ان کے دعوے (۲۴) صوفیہ کے بعض قبیح افعال ۔ (۱۱)
تنقید تصوف کا جائزہ:
یہ وہ کل۲۴ نکات ہیں جن کی بنا پر انہوں نے صوفیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، علامہ ابن جوزی نے صوفیہ پر تنقید کرتے وقت عمومایا تو صوفیہ کے مستدلات کی روایت کی صحت سے انکار کیا ہے یا پھر ان کی استدلالی کوششوں کو'' تخلیط''قراردیاہے اور اگر روایت کی صحت کا انکار، کسی بھی طرح ممکن نہیں تھا تو تاویل کی کوشش کی ہے- صوفیہ نے اپنے نظریات اور  اعمال ورسوم کے دفاع میں جو کچھ کہاہے یا وہ اعمال جو بظاہر برے معلوم ہوتے ان کا کوئی صحیح معنی ومطلب نکالنے کی جو کوشش کی ہے ان سب کو انہوں نے یک لخت جادئہ نبوت سے خارج قراردیا ہے۔ اگر علامہ ابن جوزی کی تنقیدی بنیادوں کا جائزہ لیاجائے تو پتا چلے گا کہ صوفیہ پر ان کی تنقید یا تو غلط فہمی پر مبنی ہے اور تصوف وصوفیہ کی اصل حقیقت ہی ان پر واضح نہیں ہے یا پھر ان کو  ان بعض اصطلاحات سے اختلاف ہے جن کا عصر نبوی میں کوئی وجود نہیں تھا، البتہ ان کی اصل موجود تھی۔ یا پھر انہوںنے احادیث سے ثابت شدہ صوفیہ کے بعض اعمال کا انکار صرف اس لیے کیا ہے کہ اس پر صوفیہ عمل پیر اہیں جب کہ دوسرے مقام پر انہی چیزوں کی وہ تعریف وتوصیف کرتے نظرآتے ہیں۔ 
حاصل یہ کہ علامہ ابن جوزی کی تنقید کا دائرہ چند بیانات کے گرد گھومتاہے۔ (۱) روایت درست نہیں ہے اور صوفیہ موضوع روایتوں سے استدلال کرتے ہیں۔ (۲) اس روایت کا مطلب یہ نہیں ہے،بلکہ یہ ہے۔ (۳) یہ طریقہ یا یہ معنی جادئہ نبوت سے خارج ہے۔ جہاں تک ضعیف وموضوع روایتوں سے استدلال کی بات ہے تو حکم ضعف و وضع لگانے میں ان کے یہاں اعتدال کے فقدان سے قطع نظر خود ان کی حالت یہ ہے کہ وعظ اور دوسرے اس قسم کے موضوعات پر مشتمل ان کی کتابیں ضعیف وموضوع روایات سے پر ہیں۔(۱۲)
ماسبق میں لکھا جاچکا ہے کہ ان کے عمومی اعتراضات کی نوعیت غلط فہمی ہے کیوں کہ ان کے بعض اعتراضات ایسے ہیں جن سے جماعت صوفیہ بالکلیہ بری ہے ۔ مثلا حلولی ہونے کا الزام، تنہائی اور گوشہ نشینی کے لیے ترک جمعہ کا الزام، ترک نکاح اور ترک طلب اولاد کا الزام اور نوجوانوں کی صحبت میں رہنے کاالزام وغیرہ، اور بعض اعتراضات اس بنا پر کیے گئے ہیں کہ وہ صوفیہ کی مراد اور گفتگو کی حیثیت کو نہیںسمجھ سکے ہیں اور محض غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں مثلا طہارت کے لیے صوفیہ کا پانی زیادہ استعمال کرنا، مال سے دور رہنا اور اس سے دور رہنے کی تاکید کرنا، کھر درے لباس پہننا وغیرہ، یہ اور اس جیسے دوسرے مسائل ایسے ہیں جس میں دونوں فریق دو الگ الگ حیثیتوں سے حق پر ست اور دونوں کی بات اپنی جگہ پر درست ہے لیکن علامہ ابن جوزی کی گفتگو سے ایسا لگتاہے کہ صوفیہ اس دوسری حیثیت کے منکرہیں جس کے وہ قائل ہیں حالانکہ ایسا نہیں، یہاں بھی علامہ ابن جوزی محض غلط فہمی کا شکار ہوئے ہیں اور بعض اعتراضات کا تعلق اختلافی مسائل سے ہے مثلا سماع، رقص ووجد وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ سماع کی حلت وحرمت پر متقدمین سے لے کر آج تک بحث جاری ہے یوں ہی رقص ووجد اضطراری کیفیتوں کا نام ہے اور اس کے مذموم ومحمود ہونے کا دارو مدار صدق احوال پر ہے اگر بندہ صادق الحال ہے تومحمود ہوگا ورنہ مذموم لیکن مشکل یہ ہے کہ اس پر یقینی اطلاع ممکن نہیں ،محض شو اہد وقرائن سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔اور ایسا بھی نہیں ہے کہ رقص ووجد کے محمود و مذموم ہونے کے سلسلے میں صوفیہ نے ان تفصیلات کا لحاظ نہیں رکھا ہے بلکہ صوفیہ نے اپنی کتابوں میں اس معاملے کے ہر پہلو پر گفتگو کی ہے لیکن اس کے باوجود علامہ ابن جوزی یہاں بھی صوفیہ کے تعلق سے بد گمانی کا شکار ہیں اور وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ رقص ووجد کے سلسلے میں صوفیہ ان تفصیلات کے قائل ہیں اور نہ وہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں کہ صوفیہ کے یہاں بھی صادق الاحوال ہوسکتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف وہ غنااور رقص ووجد کے جواز واستحسان کے سلسلے میں امام احمد بن حنبل اور دوسرے ائمہ اعلام سے منقول روایتوں کو اولاتو مسترد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب رد کردینے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے تووہ ان کے سماع کو زہد پر ابھارنے والے اشعار، اور رقص ووجد کو صدق احوال پر محمول کرتے ہیں ۔(۱۳)لیکن اسی وسعت قلبی کا مظاہرہ وہ صوفیہ کے لیے نہیں کرتے ہیں اور جہاں تک صوفیہ کی استدلالی کوششوں کو تخلیط قرار دینے کی بات ہے تو حقیقت یہ ہے کہ صوفیہ کے دلائل کی تردید میں خود ان سے تخلیط واشتباہ واقع ہواہے(۱۴) اور شطحات کے سلسلے میں صوفیہ کا علمی موقف یہی ہے کہ وہ قابل تقلید نہیں ہیں البتہ وہ ناقدین کی طرح شطحات کی بناپر سب وشتم نہیں کرتے بلکہ تاویل کرتے ہیںاور جن سے یہ باتیں صادرہوتی ہیں انہیں معذورجان کران کی عیب پوشی کرتے ہیںاورحسن ظن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جوکہ شرعامطلوب ہے اور جہاں تک جادہ سے منحرف ہونے اور اعتدال پر نہ ہونے کی بات ہے تو اس مقام پر بھی دراصل علامہ ابن جوزی غلط فہمی کے دام میں گرفتارہیں۔
 اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شدید سردی کے موسم میں آگ کے انتہائی قریب بیٹھا ہو اب کوئی دوسراانسان جو اس کیفیت سے دوچار نہیں ہے اس تصویر کو جب بھی دیکھے گا تو اسے اعتدال سے ہٹا ہوا قرار دے گا اور آگ سے اس انسان کی انتہائی قربت کو’’ انحراف عن الجادۃ‘‘ کہے گا لیکن کیا واقعتا ایسا ہی ہے کہ وہ انسان جو شدید سردی کے موسم میں آگ کے انتہائی قریب بیٹھا ہے وہ اعتدال پر نہیںہے؟ یاپھر یہ دیکھنے والے کا محض فریب اور اس کے گردوپیش سے ناواقفیت کی دلیل ہے؟ (۱۵) اور جہاں تک عدم  اعتدال کی بات ہے تو ہر جماعت عدم اعتدال کا شکار ہے ،فقہائے ظاہر صرف ظاہری مسائل پر زوردیتے ہیں، اہل حدیث صرف ظواہر حدیث کو دین سمجھ بیٹھے ہیں، اصحاب ثروت نے صر ف ذخیرہ اندوزی کو سر مایہ آخرت سمجھ رکھاہے، ایسے میںصوفیہ احوال قلب کی درستی، دنیا سے یک گونہ بیزاری اور صرف آخرت پر نظر کو اصل مقصود قرار دے رہے ہیں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟ جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ صوفیہ جس طرح باطن شریعت پر سختی سے عامل اور اس کی دعوت دینے والے ہیں یوں ہی وہ ظاہر شریعت کے مکمل پابند اور اس کی پابندی کی طرف بلانے والے ہیں وہ نہ دنیا سے محبت کی دعوت دیتے ہیں اور نہ دنیا بیزاری کی بلکہ وہ ہر عمل میں نیت کی درستی پر ابھارنے والے ہیں ، وہ اس اعتدال کے داعی ہیں جس کی حدیث میں صراحت کی گئی ہے کہ تم اپنی دنیا ایسے تلاش کروگویا تم ہمیشہ کے لیے یہاں رہنے والے ہو اور آخرت کی تیاری میں اس طرح مسلسل لگے رہو گویا تم اگلے ہی دن موت سے آملو گے، ان کی نظر میں ہمیشہ وہ حدیث رہتی ہے جس میں فرمایا گیا کہ دنیا تمہارے نفع کے لیے پیداکی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے، البتہ صوفیہ نبی کریم ﷺ کے حقیقی وارث ہیں، نیابت کا کام سند متصل کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اس لیے وہ طالبین وسالکین کو ان کے احوال کے لحاظ سے رہنمائی فرماتے ہیں، کوئی اگر دنیا بیزار ہوتا ہے تواسے دنیا سے حدودشرع میں نفع اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں اور اگر کوئی دنیا کی آلائشوں میں ڈوبا نظر آتا ہے تو اسی شدت کے ساتھ اس سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، آج چوں کہ طالب دنیا کی کثرت ہے اور صوفیہ کی بارگا ہوں میں حاضرہونے والے عموما دنیا کی گندگیوں میں سرسے پائوں تک ڈوبے ہوتے ہیں ،اس لیے صوفیہ اسی شدت کے ساتھ اس سے باز رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اب ایک دوسرا شخص جوان احوال سے واقف نہیں ہے صوفیہ پر دنیا بیزاری کا الزام لگاتاہے اور ان پر خود غرض جماعت ہونے کا الزام عائد کرتا ہے کہ انہیں صر ف اپنی نجات کی فکر ہوتی ہے، حالاں کہ صوفیہ سب سے زیادہ مخلوق کی نجات کی فکر کرنے والے ہوتے ہیں، دنیا اور دنیاوی چیزوں سے متعلق صوفیہ کے غیر معتدل سمجھے جانے والے سارے اقوال کو مذکورہ احوال کے سیاق میں ہی سمجھا جانا چاہیے ورنہ ویسی ہی غلط فہمی پیداہوگی جیسا کہ علامہ ابن جوزی کو ہوئی۔
موجودہ دور کے ناقدین تصوف سے دوباتیں:
 تعجب تو عدم تقلید کے ان دعوے داروں پر ہے جو مسائل میں بھی متقدمین کے بجائے متاخرین کی تقلید کرتے ہیں اور کسی نظریے یا کسی تحریک پر تنقید بھی تقلیدی طور پر کرتے ہیں۔ حالانکہ تنقیدی عمل کا تقلید سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ موجودہ دور کے سلفی ناقدین تصوف صدیاں گزرنے کے باوجود تصوف اور صوفیہ کی کوئی اور دوسری خامی نہ پیش کرسکے جسے علامہ ابن جوزی، شیخ ابن تیمیہ وغیرہ نے نہ پیش کی ہو، اب ان حضرات سے چوں کہ غلط فہمیاں ہوئیں اور ان عصر حاضر کے ناقدین نے تقلیدی طور پر تصوف اور صوفیہ پر تنقید کی، اس لیے انہیں اب تک حق کا عرفان حاصل نہیں ہوسکا ،اگر انہوں نے واقعی تنقیدی عمل کو اخلاص وانصاف کے ساتھ انجام دیا ہوتا تو انہیں بھی سچائی مل جاتی اور جماعت صوفیہ میں درآنے والی خرابیوں کی بھی اصلاح ہوجاتی ،جیسا کہ امام غزالی کے ساتھ پیش آیا کہ وہ اجالوں کے سفیر بھی بنے اور مصلح تصوف بھی شمار کیے گئے۔ اگر موجودہ دور کے ناقدین علامہ ابن جوزی کی طرح صرف کمیوں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے، نیت بھی درست رکھتے اور حق پرست وناحق پرست صوفیہ کے مابین فرق قائم کرتے تو بات کسی حد تک قابل قبول تھی، انہوں نے تو تصوف کو بالکلیہ مسترد کردیا اور سب و شتم پر بھی اتر آئے اور علامہ ابن جوزی جیسی شخصیتو ں کو اپنے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے لگے حالانکہ اگر یہ بات درست ہے کہ غیر معصوم کی ہربات قابل قبول نہیں تو پھر تنقید تصوف کے معاملے میں علامہ ابن جوزی کی تقلید کیوں؟اور یہاں ’’خذماصفاودع ماکدر‘‘ کا اصول کیوں جاری نہیں کیاجاتااور خود ابن جوزی کی تنقیدات کا تنقیدی مطالعہ کیوں نہیں کیاجاتا؟ دوسری بات یہ ہے اگر علامہ ابن جوزی کی تنقیدیں ان کو اتنی ہی پیاری اور ان کے نزدیک اتنی ہی'' معصوم'' ہیں تو پھر ان کے ان ریمارکس کو کیوں سینے سے نہیں لگایا جاتا جن کا تعلق سلفیت سے ہے۔ کیوں کہ صیدالخاطر میں ''سلفیون جہال ''کے نام سے مستقل تنقیدی پیراگراف موجود ہے ۔(۱۶)یوں ہی تلبیس ابلیس کے مشمولات اگر اتنے ہی ناقابل تردید ہیں تو کیا ہم یہ مان لیں کہ علامہ ابن جوزی جہاں مخالف تصوف وصوفیہ تھے وہیں فقہ وحدیث ا ور علم قرأت کے حاملین، والیان سلطنت اور اصحاب زہد و ورع کے بھی خلاف تھے؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوگا، بلکہ ہر بالغ نظر حقیقت پسند تقابلی مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے گا کہ علامہ ابن جوزی اہل سنت کے کسی طبقے کے مخالف نہیں بلکہ محض مصلح اور ہمدرد ہیں، ان کی نظر میں جو باتیں غلط نظر آ ئیں ،چاہے ان کا تعلق اسلامی معاشرہ کے کسی طبقے سے ہو، انہوں نے اصلاح کی کوشش کی،  صوفیہ پر ان کی تنقیدات کے مطالعہ سے لب لباب کے طور یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی تنقیدوں کا تعلق جاہل صوفیہ یامتصوفین، اور صوفیۃ الرسوم سے ہے اور جہاں تک صوفیۃ الحقائق کی بات ہے تو وہ ان کی عظمتوں کے معترف ہیں اور جاہل صوفیہ کے خلاف اہل حق صوفیہ اور ان کے متبعین ہمیشہ معرکہ آرا رہے ہیں،البتہ لوگوں کی طبیعتوں کے لحاظ سے معرکہ آرائی کا انداز مختلف رہاہے۔البتہ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ علامہ ابن جوزی بھی انسان تھے اور معصوم نہیں تھے اس لیے ان کی تنقیدات کا بھی جائز ہ لیاجائے گا اور جو بات درست ہوگی اسے ہی قبول کیا جائے گا اور جونادرست ہوگی اسے مسترد کردیا جائے گا۔ یہ سب اللہ کی راہ میں کوشش کرنے والے ہیں،جہاں انہیں درستی نصیب ہوئی اس پر رب تعالیٰ کی جانب سے دوہرے اجر کے مستحق ہیں اور جہاں انہوں نے ٹھوکر کھائی وہاں بھی ایک اجر کے حق دار ہیں اور ان سب کا دار ومدار نیت پر ہوگا۔ اور جہاں تک صوفیۃ الحقائق کا معاملہ ہے تو خود علامہ ابن جوزی اس کے معترف ہیں کہ متقدمین صوفیہ کے یہاں اعتماد کتاب وسنت پر ہوا کرتا تھا،البتہ متاخرین میں خرابیاں در آئیںاور یہ بھی حقیقت ہے کہ افراد کے فساد سے نظریے کا فساد لازم نہیں آتا بلکہ زیادہ سے زیادہ عمل کی خرابی کا دعوی کیا جاسکتا ہے ، اور عمل کی خرابی سے کوئی جماعت اور طبقہ مستثنٰی نہیں ہے ، حقیقی صوفیہ آج بھی مشکاۃنبوت سے سب سے زیادہ روشنی حاصل کرنے والے ،اللہ کی راہ میں کوشش کر نے والے ، قرآن وسنت کے سب زیادہ حریص اور اسلام، ایمان واحسان کو سب سے زیادہ جمع کرنے والے ہیں،ان کاعقیدہ اہل سنت کا عقیدہ ہے اور وہ اپنے ہر عمل کو میزان شریعت میںسب سے زیادہ تو لنے والے اور قرآن و سنت کے خلاف ہر چیز کو سب سے زیادہ مسترد کرنے والے ہیں۔(۱۷)ہاں دوسری جماعتوںکی طرح ان میں بھی اچھے برے لوگ ہیں ان میں فرق و امتیاز کیا جاناچاہئے یوں ہی صوفیہ کا تعلق بھی انسانی جماعت سے ہے، ان سے بھی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ، اب جس طرح برائیوں کی بنا پر اور غلطیاں سر زد ہونے کی بنا پر دوسری جماعتوںکو متہم نہیںکیا جاتا، اسی طرح صوفیہ کو بھی طعن وتشنیع کانشانہ بنا نے کے بجائے ان کے ساتھ انصاف سے کام لیاجانا چاہیے ۔   
تصویرکا دوسرا رخ:
یہاں تک علامہ ابن جوزی کی تنقید صوفیہ و تصوف اور اس سے متعلق گوشوں پر گفتگو کی گئی، اب علامہ ابن جوزی کے تعلق سے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اعتبار الفاظ واصطلاحات کا نہیں ہوتا بلکہ ان کے مدلولات کا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اس زاویے سے دیکھا جائے تو علامہ ابن جوزی کی زندگی کے واقعات اور خود ان کی تحریریں ایک ایسے شخص کے قلم سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہیں جو بظاہر تو ناقد تصوف ہے لیکن بباطن حقیقت تصوف کی عملی تصویر۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے علامہ ابن جوزی کی ان تحریروں کی جانب اشارہ کیا جائے گا جس میں وہ ایک خالص صوفی نظر آتے ہیں، ثانیا ان باتوں کو پیش کیاجائے جو صوفیانہ خصوصیتوں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔پھر ان کے عملی منہج سے ان کے صوفی انداز فکر بتلایا جائے گا اور ثالثا مورخین کے حوالے سے ان کی مجالس وعظ کو پیش کیاجائے جس سے آفتاب نیم روز کی طرح واضح ہوجائے گا کہ علامہ ابن جوزی کی مجلس ایک عام انسان کی مجلس نہیں ہواکرتی تھی بلکہ ایک صاحب حال صوفی کی مجلس ہواکرتی تھی۔ لیکن اس سے قبل کہ ان کی زندگی سے احوال تصوف کے نمونے پیش کیے جائیں، ضروری ہے کہ صوفی کسے کہتے ہیں اور طریقہ تصوف کیا ہے اس کی وضاحت کردی جائے تاکہ علامہ ابن جوزی کی زندگی سے پیش کیے جانے والے نمونوں کو ان تعریفات کی روشنی میں پرکھا جاسکے۔  
صوفی کون ہے؟
صو فی کی تعریف کرتے ہوئے شیخ ابن عجیبہ فرماتے ہیں: "سہل تستری نے فرمایا: 
الصوفی صفا من الکدر وامتلأ من الفکر وانقطع  الی اللہ عن البشر واستوی عند ہ الذھب والمدر"
ترجمہ: صوفی وہ ہے جو کدورت و آلائش سے دور ہو اور فکر آخرت سے پر ہو اور لوگوں سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہوگیا ہو اور اس کے نزدیک سونا اور مٹی کا ڈھیلا برابر ہوگیا ہو (یعنی اپنے مولیٰ کے علاوہ اسے کسی چیز کی رغبت نہ ہو)۔ (۱۸)
امام محی الدین نووی (متوفی ۶۷۶ھ) اپنے رسالہ ’’المقاصد السبعۃفی اصول طریق التصوف‘‘ میں فرماتے ہیں:  
’’راہ تصوف کے اصول پانچ ہیں: ظاہر وباطن میں اللہ کا تقوی اختیار کرنا۔ اقوال وافعال میں سنت کی پیروی کرنا، عروج واقبال اور پستی اور ادبار میں مخلوق سے اعراض کرنا ۔(۱۹)
صوفی اور طریقہ تصوف کی اس توضیح کو ذہن نشیں کر کے علامہ ابن جوزی کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ وہ صوفی اور تصوف کے مدلول کے لحاظ سے صوفی تھے یا نہیں۔ 
صیدالخاطر میں تصوف کے نمونے:
 کسی بھی انسان کی ڈائری اس کی حقیقی زندگی کی بہترین عکاس ہوتی ہے۔ علامہ ابن جوزی کی ایک ایسی ہی تصنیف ہے صیدالخاطر۔ یہ تصنیف کیا ہے ایک کشکول ہے جس میں مصنف نے اپنے قلبی واردات، بے تکلف خیالات واظہارات، زندگی کے مختلف تجربات، بکھرے افکار اور روز مرہ کی زندگی میں پیش آمدہ مسائل و حوادث کو اس طرح سمودیا ہے کہ پوری کتاب پڑھ جایئے کہیں بھی آورد کا شائبہ نہیں ہوگا بلکہ صرف آمد ہی آمد نظرآئے گا۔ اور قاری اس کتاب کے مطالعے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا، اس کتاب میں جابجا نفس سے مکالمے ملیں گے۔سوال وجواب ہوگا، ذہنی کشمکش کی داستان ہوگی، اور معاشرتی مسائل پر کبھی اشاراتی اور کبھی تفصیلی گفتگو ملے گی ،اس کتاب کے مطالعے سے علامہ ابن جوزی کا پورا پیکرتراشا جاسکتاہے۔کہیں وہ ناقد تصوف نظر آئیں گے اور کہیں ’’ناقد سلفیت‘‘، کہیںوہ محدثین کی کمیاں دکھارہے ہوں گے تو کہیں فقہاکی کمزوریاں بیان کرتے نظر آئیں گے، اور کہیں ایک ایسا عاجز ومتواضع انسان نظرآئے گا جو صرف تعلق باللہ کی تلاش میں ہے جو عزلت نشینی چاہتاہے ،جو دنیا سے متنفر ہے، جو بادشاہوں اور والیان سلطنت سے دوری بنائے رکھنا چاہتا ہے، جو ان ساری خوبیوں اور اعلیٰ صفات واحوال سے آراستہ ہے جن سے مشائخ صوفیہ آراستہ ہواکرتے ہیںاور جو سلوک وتصوف کی ان منزلوںپر ہے جہاں اکابر صوفیہ فائز ہوا کرتے ہیں۔ 
اس کتاب کی فہرست اٹھاکر دیکھی جائے تو تین سو سے زائد عناوین کے تحت ان کے مختلف افکار وخیالات ملیں گے جن میں اکثریت ان کی ہوگی جن کا تعلق تصوف اور صوفیانہ احوال وصفات سے ہے۔ ہم ذیل میں صرف چند عناوین کو ذکر کریں گے جس سے ان کے عملی اور فکری تصوف کا اندازہ لگانا آسان ہوگا، وہ عناوین جن سے رنگ ِتصوف جھلکتا ہے کچھ اس طرح ہیں:
(۱)  روابط النفس بالدنیا (دنیاسے نفس کے رابطے)(۲۰) (۲)  موت القلوب (دلوں کی موت) ( ۲۱) (۳) علماء الدنیاوعلماء الآخرۃ (علمائے دنیااور علمائے آخرت) (۲۲) (۴) التسلیم للحکمۃ العلیا (حکمت عالی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا) (۲۳) (۵) التبتل الی اللہ (دنیاسے کٹ کر صرف اللہ کاہوجانا) (۲۴) (۶) فلسفۃ الصبر والرضا (صبرورضا کافلسفہ) (۲۵) (۷) دعاء المنکسرین (منکسرین کی دعا) (۲۶) (۸) السبب لاینبغی ان یذھل عن اللہ (سبب اللہ سے غافل نہ کرے) (۲۷) (۹) جہاد الھوی (خواہش نفس سے جہاد)  (۲۸) (۱۰) سعادۃ العارفین (عارفین کی سعادت) (۲۹) ( ۱۱) دمعۃ التائب تطفئی نارالغضب (تائب کے آنسو غضب الٰہی کو بجھادیتے ہیں) (۳۰) (۱۲) تقوی اللہ علی کل حال (ہر حال میں اللہ سے ڈر) (۳۱) (۱۳) غلبۃ الشھوۃ (غلبہ شہوت) (۳۲) (۱۴) العلم النظری لا یکفی (علم نظری کافی نہیں) (۳۳) (۱۵) العزلۃ النافعۃ (نفع بخش عزلت) (۳۴) (۱۶) الاخلاص التام (کامل اخلاص) (۳۵) (۱۷) الحیاۃ مدرسۃ تخرج للآخرۃ (زندگی ایک مدرسہ ہے جہاں آخرت کی تیاری کرائی جاتی ہے) (۳۶) (۱۸) علماء القشورو علماء اللباب (ظاہر پرست اور حقیقت پرست علما) (۳۷) (۱۹) النفس طامعۃ اذااطمعتھا (نفس کو جتنی امید دلاؤگے اتنی ہی امید باندھے گا) (۳۸) (۲۰) الوحدۃ خیرمن جلیس السوء (برے ہم نشین سے تنہائی بہتر ہے ) (۳۹) (۲۱) آثار الذنوب طویلۃ المدی (گناہ کااثر دیر تک رہتا ہے) (۴۰) (۲۲) لا استقرار فی الدنیا (دنیامیں ثبات نہیں) (۴۱) (۲۳) التسبیح والاستغفار علی الحقیقۃ (حقیقت میں تسبیح و استغفار) (۴۲) (۲۴) العزلۃ دواء (گوشہ نشینی علاج ہے) (۴۳) (۲۵) المحافظۃ علی صفاء القلب (صفائی قلب کی پابندی) (۴۴) (۲۶) الاستعداد للرحیل (کوچ کی تیاری) (۴۵) (۲۷) مخا لطۃ المحجوبین عن اللہ عشاوۃ (غافلین کی صحبت اندھاپن ہے) (۴۶) (۲۸) حقیقۃ الحسد (حسد کی حقیقت) (۴۷)  (۲۹) یوم العید ویوم القیامۃ (یوم عید اور یوم قیامت) (۴۸) (۳۰) نماذج للعبرۃ (عبرت کے نمونے (۴۹) (۳۱) اللذات المعنویۃ (معنوی لذتیں) (۵۰) 
اب تک ہم نے صر ف عناوین کے نمونے کو ملاحظ کیا ہے اب ان کی کتاب صیدالخاطر سے ہی چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں جن سے ان کے فکری میلان اور طبعی رجحان کا اندازہ ہوجائے گا۔
علماء الدنیا وعلماء الآخرۃ کے عنوان سے گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ میں نے علما کے باہمی بغض وحسد کے اسباب پر غور کیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کی وجہ دنیا کی محبت ہے، اس لیے کہ آخرت کو نگاہ میں رکھنے والے علما باہم الفت ومحبت رکھتے ہیں نہ کہ بغض وحسد، جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور جو انہیں دیا گیاہے اس کی ضرورت اپنے اندر محسوس نہیں کرتے۔ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جو ایمان کے ساتھ گزر گئے بخش دے اور ایمان والوں کے تعلق سے ہمارے دلوں میں کینہ مت ڈال ۔ 
حضرت ابو دردا ء ہررات اپنے دوستوں کے لیے دعاکیا کرتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل نے حضرت امام شافعی کے لڑکے سے فرمایا : تمہارے والد ان چھ لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں ہر صبح صادق کے وقت میں دعا کرتاہوں۔
دونوں گروہوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ دنیا کو محبوب رکھنے والے علما دنیا کی سرداری چاہتے ہیں اور زیادہ مال ودولت اور تعریف وتوصیف کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ جب کہ آخرت سے محبت رکھنے والے علما دنیا سے، مال ودولت سے اور تعریف وتوصیف سے بھاگتے ہیں اور اسے دوسروں کے لیے چھوڑدیتے ہیں یہ ان باتوں سے بہت ڈرتے ہیں اور جو اس کی آزمائش میں پڑتے ہیں اس کے لیے دعائے رحمت کیا کرتے ہیں ۔حضرت امام نخعی ستون سے ٹیک نہیں لگاتے تھے۔  یہ لوگ فتووں سے دور بھاگتے تھے، گم نامی کو پسند کرتے تھے۔ ان کی مثال ان لوگوں کی ہے جو سمندری سفر پر ہوں اور سمندر میں زبر دست موجیں بلند ہورہی ہوں تو انہیں صرف اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ کیسے وہ کامیابی کے ساتھ اپنا سفر پورا کریں گے، یہاں تک کہ انہیں کامیابی کا یقین ہوجائے،ان میں کا ہر ایک دوسرے کے لیے دعاکرتاہے اور باہم استفادہ کرتاہے، اس لیے کہ وہ سب ایک سواری میں بیٹھے مسافر ہیں جو آپس میں محبت والفت سے کام لیتے ہیں۔ گویا یہ روز و شب ان کے لیے سفرجنت کی راہ میں منزلوں کی مانند ہیں۔(۵۱)
 اضا عۃ ا لوقت کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
میں نے عام طور سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ عجیب و غریب انداز سے اپنی زندگی کے اوقات گزاررہے ہیں، اگر رات لمبی ہو تو بے سود باتوں میں گزرتی ہے یا پھر ایسی کتاب پڑھتے ہوئے گزرتی ہے جس میں جنگ وجدال کی باتیں یا قصے کہانیاں ہوتی ہیں ۔اوراگر لمبا دن ہو تو سوتے ہوئے گزارتے ہیں۔ یہ لوگ صبح وشا م کے وقت یا تو دجلہ کے کنارے ہوتے ہیں یا پھر بازاروں میں، میرے نزدیک یہ لوگ کشتی میں بیٹھے ان لوگوں کی طرح ہیں جو گفتگو میں مشغول ہیں، کشتی انہیں آگے لیے جارہی ہے لیکن انہیں خبر نہیں۔ بہت کم لوگ ہی اپنے وجود کی اہمیت سمجھتے ہیں اور زاد سفر کی اور کوچ کرنے کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔ البتہ ان میں بھی باہم فرق ہوتا ہے، اور یہ فرق اس علم کی کمی اور زیادتی کی بنا پر ہوتا ہے کہ اسے اس شہر اقامت میں کیا خرچ کرنا چاہیے۔ ہوشیار لوگ وہاں رائج چیزوں کی خبروں پر نظر رکھتے ہیں ان کا ذخیرہ کرکے زیادہ نفع کماتے ہیں۔ اور بے خبر لوگ جو مل جائے وہ لاد لیتے ہیں اور بسااوقات بغیر کسی محافظ کے ہی نکل پڑتے ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیںجن کو راستے میں ہی لوٹ لیا جاتا تو وہ خالی ہاتھ ہی رہ جاتے ہیں۔ زندگی کے موسم بہار میں اللہ سے ڈرواور وقت نکلنے سے پہلے جلدی کرو۔ علم سے استشہاد کرو۔ حکمت سے استدلال کرو اور زمانے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو۔ لوگوں سے مکالمے کرو اور زاد سفر لے لو، اس لیے کہ حدی خواں جب حدی خوانی کرچکے گا تو حسرت ویاس کے باوجود اس کی پُر تاثیر آواز کی تاثیر سمجھ میں نہیں آئے گی۔(۵۲)
العز لۃ دواء کے تحت گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عبادت گزاری زہد اور آخرت سے تعلق قائم کرنے کو شش اس وقت تک خالص نہیں ہوسکتی جب تک کہ مخلوق سے کلی طور پر ترک تعلق نہ کرلیا جائے۔ اس طرح کہ نہ انہیں دیکھے، نہ ان کی گفتگو سنے، البتہ ضرورت کے اوقات جیسے نماز جمعہ ،وجماعت اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اور ان اوقات میں بھی ان سے اجتناب کرے۔ اگر کوئی عالم مخلوق کو نفع پہنچا نا چاہے تو ان کے لیے ایک وقت متعین کردے اور ان سے گفتگو سے احتراز کرے۔ رہا وہ انسان جو آج کے بازاروں میں گھومتا ہے اور اس تیرہ وتاریک دنیا میں خرید وفروخت کرتا ہے اور بری باتوں کو دیکھتا ہے تو وہ گھر اس حال میں لوٹتا ہے کہ اس کے دل پر تاریکی چھا چکی ہوتی ہے۔ چنانچہ طالب حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ جب بھی نکلے تو یا تو جنگلوں کی طرف نکلے یا پھر قبرستان کی طرف، سلف کی ایک جماعت خرید وفروخت کرتی تھی اور اجتناب سے بھی کام لیتی تھی۔ اس کے باوجود جس وقت ان کے دل کی نورانیت ختم ہوگئی انہوں نے بھی مخلوق سے قطع تعلق کرلیا۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عبادت وتجارت ساتھ ساتھ کرنے کی کوشش کی تو یہ دونوں اکٹھے نہیں ہوسکے، تب میں نے عبادت کو اختیار کرلیا۔ حدیث میں وارد ہے کہ بازار لہوولعب میں اور لغو باتوں میں لگا تاہے، چنانچہ جو شخص نفع رسائی کے ساتھ پرہیز پر قادر ہو اور میل جول اور اپنے بال بچوںاور خاندان کے لیے حصول روزی پر مجبور ہوتو اسے چاہیے کہ وہ اسے دھیان رکھے اور پرہیز سے کام لے جیسے راہ چلتا انسان کانٹے سے بچتا ہے۔ پھر بھی اس کا بچ نکلنا بہت مشکل ہوگا۔ (۵۳)
یہ صوفیہ کا طریقہ ہے کہ و ہ واقعات زندگی کی پوری تحلیل کرتے ہیں اور اپنے نفس سے حکیمانہ مکالمے کرتے ہیں اور چھوٹے واقعات سے بڑے نتائج نکالتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ابن جوزی بھی واقعات زندگی کا تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں ، حکیمانہ انداز میں اس کے نصیحت وعبرت سے بھرے پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں اور اپنے نفس سے مکالماتی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے دعا کی، ایک دوسرے صالح بزرگ اس دعا میں شریک تھے۔ دعاقبول ہوگئی، لیکن کس کی دعا قبول ہوتی اس پر انہوں نے اپنے نفس سے مکالمہ کیا جس کا حاصل یہ ہے کہ کبھی کبھی اعتراف گناہ حسن عمل پر بھاری پڑجاتا ہے اور حسن عمل نہ ہونے کے باوجود اعتراف گناہ کی وجہ سے بھی دعا قبول ہوجاتی ہے ۔(۵۴)
 یوں ہی وہ چھوٹے چھوٹے واقعات اور روز مرہ کے مشاہدات سے بڑے بڑے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ مثلا انہوں نے دو مزدوروں کو ایک بھاری شہتیراٹھا کر لے جاتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ کچھ گاتے ہوئے جارہے ہیں۔ ایک شخص ایک مصرعہ پڑھتا ہے اور دوسرا اس کا ترنم سے جواب دیتا ہے، اس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ نفس پر شرعی ذمہ داریوں کا جو بوجھ ہے اور اس میں صبرکی جو راہ ہے اس کو نفس کی جائز دلداری سے طے کیاجائے ۔(۵۵)
یوں ہی صوفیہ کا طریقہ ہے کہ وہ قلب کی اصلاح اور ذوق وشوق پیداکرنے کے لیے موثر واقعات اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعے پر زور دیتے ہیں۔ علامہ ابن جوزی بھی اسی فکر کے حامل ہیں اور وہ بھی فقہاو محدثین اور طلبہ و علما کو مشورہ دیتے ہیں کہ اصلاح قلب کے لیے اور ذوق طاعت وعبادت پیدا کرنے کے لیے صرف فقہ اور سماع حدیث میں مشغولیت ہی کا فی نہیں اور نہ صر ف اس سے قلب میں رقت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی صرف حلال و حرام کے علم سے قلب میں صلاح پیدا ہوتا ہے بلکہ اس کے لیے سلف صالحین کے حالات کامطالعہ ضروری ہے کیوں کہ ان روایات کا جو مقصود ہے وہ انہیں حاصل تھا۔ یوں ہی احکام پر ان کا عمل بھی صرف ظاہری نہیں تھا بلکہ اس کا اصلی ذوق انہیں حاصل تھا۔(۵۶)
علامہ ابن جوزی نے صرف مشورے ہی نہیں دیے بلکہ سلف صالحین اور صلحا ئے امت کی سیرتیں بھی لکھیں، جن میں حضرت حسن بصری، عمر بن عبدالعزیز ، حضرت سفیان ثوری ، حضرت ابراہیم بن ادہم، حضرت بشر حافی، امام احمد بن حنبل اور حضرت معروف کرخی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ صلحائے امت کا ایک جامع تذکرہ انہوں نے ’’صفۃ الصفوۃ‘‘ کے نام سے مرتب کیا، جن  صلحائے امت کی انہوں نے مختصر سیرتیں لکھی ہیں ،ان میں اکثریت ان حضرات کی ہے جو متقدمین صوفیہ میں شمارہوتے ہیں مثلا حسن بصری، ابراہیم بن ادہم، معروف کرخی، بشر حافی ،رابعہ بصریہ ، جنید بغدادی ،سری سقطی وغیرہم، یوں ہی انہوں نے اپنی اس کتاب میں بعض مجذوبوں کا بھی تذکرہ کیا ہے اور انہیں المجانین العقلاء (عقل مند پاگل )کے نام سے یاد کیا ہے۔(۵۷)
 یوں ہی انہوں نے اپنی کتاب صیدالخاطر میں بھی بکثرت متقدمین صوفیہ کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی عظمتوں کو بیان کیا ہے۔(۵۸)
عملی تصوف کے نمونے:
 ان ساری باتوں سے قطع نظر خود ان کا عمل، ان کا تقوی اور ذوق عبادت ان کے طبعی میلانات اور فکری رجحانات کا پتا دیتے ہیں ، ان کے نواسے ابوالمظفر کہتے ہیں کہ وہ ہر ہفتہ ایک قرآن مجید ختم کرتے، انہوں نے کبھی کسی سے مذاق نہیں کیا ،بچپن میں کسی بچے کے ساتھ نہیں کھیلا، کبھی کوئی چیز مشتبہ نہیں کھائی۔ابن النجار کہتے ہیں کہ ان کو پاکیزہ ذوق حاصل تھا۔ مناجات ودعاکی چاشنی سے واقف تھے، ابن الفارسی کا بیان ہے کہ وہ شب بیدار تھے اور کبھی اللہ کے ذکر سے غافل نہیں ہوتے تھے۔(۵۹)خود ان کی تالیفات خصوصا صیدالخاطر کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ چشم بینا، دل بیدار، جمعیت خاطر، اور تعلق با للہ کو سر مایہ حیات گردانتے اور اس میں کمی آنے سے بے چین ہوجاتے تھے۔ 
صیدالخاطر میں وہ اپنی ایک حالت کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
ابتدائے عمر ہی سے میرے اندر زہد اختیار کرنے کی خواہش تھی اور نوافل کا اہتمام تھا، تنہا ئی مرغوب تھی، اس وقت میرے دل کی حالت اچھی تھی، مجھے اللہ کے ساتھ ایک تعلق، اور دعا میں لذت و چاشنی محسو س ہوتی لیکن بعد میں ایسا ہوا کہ بعض حکام، اہل کا ران سلطنت میری حسن تقریر سے متاثر ہوئے اور انہوں نے مجھے اپنی طرف مائل کیا اور طبیعت بھی مائل ہوئی اور پھر وہ حلاوت دعاومناجات جاتی رہی یہاں تک کہ ایسا محسوس ہواکہ وہ روشنی بجھ گئی،کوئی علاج ہاتھ نہ آیا آخر میں نے صالحین کی قبروں کی زیارت کی اور ان کے وسیلے سے اصلاح حال کی دعا کی بالآخر اللہ نے میری رہنمائی فرمائی اور مجھے کشاں کشاں خلوت کی طرف مائل کیا جس سے مجھے وحشت تھی اور وہ دل جو میرے ہاتھ سے نکل گیا تھا پھر قابو میں آگیا۔(۶۰)  
مذکورہ بالا نمو نوں کے مطالعے کے بعد کسے انکار کی گنجائش ہو سکتی ہے کہ علامہ ابن جوزی صوفی منہج فکر کے حامل تھے البتہ وہ اپنے زمانہ کے جاہل وگمراہ صوفیہ جن کی اس زمانے میںبھی کثرت تھی اور ہر زمانے میںرہی ہے، ان سے بے حد نالاںتھے اور اس بنا پر وہ اپنے آپ کو اس جماعت سے الگ تھلگ رکھنا چاہتے تھے ۔ 
یہیں پر بات ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اب مشہور عر ب سیاح ابن جبیر اندلسی کے حوالے سے ان کی مجالس وعظ کے نمو نوں کوپیش کیا جاتا ہے، مطالعہ کیجیے اور فیصلہ دیجئے کہ علامہ ابن جوزی کی مجلس کسی صا حب وجدو حال صوفی کی مجلس ہواکرتی تھی یاخشک ناقد تصوف کی۔
 ابن جبیر اندلسی ان کی ایک مجلس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ــ:
میں نے شنبہ کے روز شیخ فقیہ، اما م اوحد جما ل الدین ابوالفضائل بن علی جوزی کی مجلس دیکھی- ان کی بڑی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب وہ منبر پر جلوہ افروز ہو تے ہیں، بیس سے زیادہ قاری قرآن کر یم کی تلاوت طر ب وشوق انگیز ی او ر ترتیب کے ساتھ اس طرح سے کرتے ہیں کہ ان میں سے دو تین قاری ایک آیت کی تلاوت کرتے ہیںپھر جب وہ فارغ ہو جاتے ہیں تو قراء کی دوسری جماعت جو اتنے ہی افراد پر مشتمل ہوتی ہے دوسری آیت کی تلاوت کر تی ہے باری باری مختلف سورتوں سے آیتوں کی تلاوت کایہ سلسلہ جاری رہتاہے یہاں تک کہ سلسلہ قراء ت مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد حیر ت انگیز شخصیت کے ما لک اما م ابن جوزی خطبہ کا آغاز اس طرح کرتے ہیںکہ کانوں کے سیپ میں الفاظ کے موتی اُنڈیل دیتے ہیں اور تلاوت کی گئی آیتوں کو اپنے خطبے میں تلاوت کی ترتیب کے سا تھ پرودیتے ہیں پھر دوسرے قافیے کی آیت پر خطبہ مکمل کرتے ہیں، جب وہ اپنے رقت انگیز وعظ و خطابت سے فارغ ہو تے ہیں تو لوگوں کے دل شوق ووجد کی وجہ سے بے اختیار ہو چکے ہوتے ہیں ، سوزش اور جلن کی وجہ سے قلب پگھل جا تے ہیں، چیخ بلند ہو تی ہے اور آہ و بکا سے بھری بے تابیوں کا سلسلہ جاری رہتاہے، لوگ پکا ر پکار کر توبہ کا اعلان کرتے ہیں اور ابن جوزی کے اوپر ایسے گر تے ہیں جیسے کہ پروا نے شمع پر ، لو گ ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہیں،ابن جوزی ان کے سر پر ہاتھ پھیر تے ہیں اور اس کے حق میں دعا کرتے ہیں ، کچھ لوگ تو بیہوش ہو جاتے ہیں اور آہ وبکا کے ساتھ ان کی جانب بڑھتے ہیں، ہم نے دیکھا کہ یہ لو گ انابت وندامت کے جذبات سے سر شار ہوتے ہیں اور ان کی نگاہوں میں قیامت کے ہو لناک مناظر ہوتے ہیں ، اگر ہم سمندر ی سفر اور بیابانی راستے صرف اس شخص کی مجلس میں حاضر ہونے کے لئے طے کر تے تب بھی یہ نفع بخش سودا ہو تا، تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے کہ اس نے میر ی ملاقات اس شخص سے کرائی جس کی فضیلت کی گواہی جمادات دیتے ہیں اور جس کی مثال سے دنیا تنگ ہے ۔(۶۱)
ان کی ایک دوسری مجلس کا تذکر ہ کرتے ہوئے ابن جبیر اندلسی لکھتے ہیں :
ہم نے ان کی دوسری مجلس جمعرات کے روز صبح کے وقت ۱۱؍صفر باب بدرکے پاس دیکھی۔ وہ منبر پر آئے قراء نے ترتیب کے ساتھ تلاوت قرآن شروع کیا اور ان سے جس قدر ہوسکا شوق وطرب انگیز ی کی ، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ، مختلف سورتوں سے کل نو آیتیں پڑھی گئیں پھر ابن جوزی نے شا ندار خطبہ دیا اور ابتدائی آیتوں کو اپنے خطبے میں تر تیب کے ساتھ پرودیا اورآخرآیت پرخطبے کو مکمل کیا، آیت یہ تھی (اللہ الذی جعل لکم اللیل لتسکنوافیہ والنہار مبصرا، ان اللہ لذوفضل علی الناس) آج کا خطاب کل سے بھی حیرت انگیز تھا۔ لوگوں کی آنکھیں ساون بھادوں بہانے لگیں۔ اور دلوں نے اپنے چھپے ہوئے شوق ووجد کو ظاہر کردیا۔ لوگ اپنے گناہوں کا اعتراف اور توبہ کا اقرار کرنے لگے ،ہوش وحواس اڑ گئے۔ یا رائے صبر جاتارہا، بے تابی اور بے ہوشی بکثرت طاری ہونے لگی۔ ابن جوزی اثنائے وعظ میں ہی شوق ووجد کو بھڑکانے والے تشبیب کے اشعار پڑھنے لگے اور پھر اس کو زہدیہ رنگ دینے لگے، سب سے آخرمیں انہوں نے دواشعار گنگنائے، اس وقت تک مجلس پر احترام کی فضا چھا چکی تھی اور کلام کے تیر نے لوگوں کو چھلنی کردیاتھا۔ وہ دواشعار یہ تھے۔
این فوادی اذابہ الوجد
واین قلبی فما صحابعد
یا سعد زدنی جویً بذکرھم 
باللہ قل لی فدیت یاسعد
 (اے سعد !میرا دل کدھر گیا اسے تووجدنے پگھلا دیا،میرادل کہاں گیا اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا ،اے سعد! میرے آتش عشق پر دوچار انگار ے اور رکھ دو،قسم خدا کی مجھے سناؤ اے سعد میں تجھ پر قربان )
انہی اشعار کو وہ دہراتے رہے اور حالت یہ تھی کہ خود ان اشعار کی تاثیر نے ان کو اپنی پوری گرفت میں لے لیا تھا اور آنسوئو ں کی وجہ سے آواز نہیں نکل پارہی تھی، یہاں تک کہ ا نہوں نے کچھ نہ بول پانے کی وجہ سے مجلس ختم کردی اور منبر سے اتر آئے ، اسی کی وجہ سے لوگوں کے دل بے تاب ہوگئے اور انہوں نے لوگوں کو بھڑکتے انگارے پر جلتا، روتا گڑ گڑا تا، زمین پرتڑپتا چھوڑدیا ،  کیا حسین منظر تھا اور کتنا خوش نصیب ہے وہ جس نے اس منظر کو دیکھا،اللہ ان کی برکتوں سے ہمیں نفع پہنچا ئے اور ہمیں ان لوگوں میں سے کردے جو اس کے فضل وکرم سے اس کی بارش رحمت سے فیضیاب ہوئے۔(۶۲)
 ان کی ایک تیسری مجلس کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن جبیر لکھتے ہیں: 
ان کی ہم تیسری مجلس میں شنبہ کے روز ۱۳ صفر کو حاضر ہوئے میں نے دیکھا کہ ان کے وعظ کو سن کر لوگ ہچکیاں لے لے کر رورہے تھے، آنسوؤں کا سیل رواں تھا، اپنی مجلس کے آخر میں تشبیب کے کچھ اشعار دہرانے لگے تاکہ لوگوں میں زہد وشوق وطرب پیدا ہوجائے لیکن رقت قلبی کی وجہ سے وہ خود آگے کچھ نہیں بول سکے اور شوق ووجد کی حالت میں منبر سے اتر آئے اور سب کو اظہار ندامت کرتا آہ وزاری کرتا چھوڑ دیا ،کوئی واحسر تاہ کی صدائیں لگارہاتھا تو کوئی کچھ اور، آہ وبکا کرنے والوں کا سلسلہ چکّی کی طرح گردش کر رہاتھا اورکوئی بھی ابھی تک اپنے نشے سے ہوش میں نہیں آیا،پاک ہے وہ ذات جس نے ان کی ذات کو عقل مندوں کے لئے عبرت کا باعث اور اپنے بندوں کی توبہ کا مضبوط ترین ذریعہ بنایا،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔(۶۳)
خاتمہ: 
پوری بحث ہمیں اس نتیجے تک پہنچا تی ہے کہ علامہ ابن جوزی اپنے زمانے کے نمایاں محدث، واعظ اور صوفی منہج فکر اور زاویہ نظر کے مالک تھے البتہ انہوں نے تصوف اور صوفیہ کو اپنی تنقید کا نشانہ اس لیے بنایا کہ ان کے زمانے میں اکثر صوفیہ غفلت اور بے اعتدالیوں کا شکار تھے، اور صرف اسی زمانے کی بات نہیں بلکہ ہر زمانے میں اچھے صوفیہ،صرف صوفیہ ہی نہیں بلکہ ہر طبقے کے اچھے لوگوں کی تعداد کم رہی ہے۔ ان کی ساری تنقیدی تحریر وں کے مطالعے کے بعد یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے رائج تصوف کے خلاف تھے اور ان تنقید وں سے ان کا مقصود یہ تھا کہ کمیوں کی اصلاح ہوجائے اور صوفیہ اپنی اصل یعنی کتاب وسنت کی طرف رجوع کریں، ان کا یہی مقصد وہاں بھی کارفرما ہے جہاں انہوںنے معاشرے کے دوسرے طبقوں مثلا متکلمین فقہا،محدثین، واعظین، اور ملوک و سلاطین پر تنقید کی ہے، وہ چوں کہ محدث پہلے ہیں اس لیے ان پر خصوصیت کے ساتھ سنت کی روشنی میں ہر چیز کو پرکھنے کا مزاج غالب ہونا ایک فطری امر ہے اور ہونا بھی چاہیے جب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا مختلف جماعتیں اپنے ناقدین کی تنقید وں کی روشنی میں اپنامحاسبہ کرتی رہیں گی اور جب یہ سلسلہ بند ہوجائے گا تو یہ جماعتیں بے راہ رو ہوجائیں گی۔ لیکن یہ بات ضرور واضح رہے کہ انہوں نے صوفیہ کو گمراہ جماعتوں میں شامل نہیں کیا ہے بلکہ صرف ان کی خامیاں گنائی ہیں اور تنقید ہی نہیں صوفیہ کی تعریف بھی لکھی ہے اگر صر ف تنقید کسی جماعت کو گمراہ قراردینے کے لیے کافی ہے تو پھر علامہ ابن جوزی کے نزدیک فقہا اور محدثین ساری جماعتوں کو گمراہ ماننا پڑے گا کیوں کہ انہوں نے سب پر تنقیدیں کی ہیں۔
اب یہ کہا ں کا انصاف ہے کہ ان کی تنقیدوں کو بنیاد بناکر جماعت صوفیہ کو گمراہ قرار دیا جائے ، یوں ہی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ علامہ کی زندگی کے صرف ایک رخ کو پیش کیا جائے اور ان کی زندگی کے دوسرے رخ کو جوامتیازات تصوف میں رنگی ہوئی ہے، اسے نظر انداز کردیا جائے، اس باب میں میرا مطالعہ اس نتیجے تک پہنچا ہے کہ وہ سب سے پہلے محدث ومصلح ہیں اور بعد میں حقیقت تصوف کے علم بردار،خواہ اصطلاح تصوف کو وہ خود قبول کریں یا نہ کریں،جہاں وہ ناقد تصوف ہیں، وہیں ان کی پوری زندگی صوفیانہ و زاہدانہ رنگ میں رنگی ہو ئی ہے، البتہ تنقید تصوف میں ان سے بے اعتدالیاں بھی صادر ہوئی ہیں اور ان دونوں حیثیتوں کے باہم جمع ہوجانے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہمیں حق کو حق کہنے،باطل کوباطل لکھنے اور حق پرعمل اور باطل سے اجتناب کی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین۔   
------------------------------------------------------------
مصادر ومراجع:
۱۔ احیاء علوم الدین، امام غزالی، ج :ا، ص: ۳۲ اور ما بعد بحوالہ الامام غزالی بین مادحیہ ونا قد یہ، ڈاکٹریوسف القرضاوی ص: ۸۴۔۸۵، موسسۃ الرسالۃ بیروت۱۹۹۴ء
۲۔ دیکھئے: مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین لابن جوزی اور اس کا حاشیہ ص: ۷ ، المکتب التجاری، بیروت۔
۳۔ دیکھیے: مقدمہ تلبیس ابلیس لابن جوزی ،مترجم: مولانا ابومحمد عبدالحق اعظم گڑھی ، دارالکتاب دیوبند ۱۹۹۹ء
۴۔ مصدر سابق ص: ۸
 ۵۔ نفس مصدر ص: ۸-۱۳
۶۔ مقدمہ تلبیس ابلیس مترجم، ص: ۸- ۱۲ 
۷۔ مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین ص:۱۳  
۸۔ نفس مصدر
۹۔ تاریخ دعوت وعزیمت ،ابوالحسن علی ندوی، ص: ۲۳۲،مجلس صحافت و نشریات اسلام،لکھنئو۔
۱۰۔ دیکھئے: تلبیس ابلیس مترجم ص : ۲۲۵-۲۳۳ ملخصا۔ 
۱۱۔ نفس مصدر باب دہم، ملخصا۔
۱۲۔ دیکھئے: الکامل فی التاریخ لابن اثیر ج:۱۰ ،ص: ۶۴۰بحوالہ مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین،ص ۸ ۔
۱۳۔ دیکھئے: تلبیس ابلیس مترجم ،ص: ۲۸۸،۲۹۵،۳۰۱، ۳۰۷، ۳۰۹، ۳۱۲، ۳۱۵
۱۴۔ دیکھئے: تلبیس ابلیس باب دہم ،اور مطالعہ کریں تصوف کی بنیادی کتابوں میں متعلقہ بحثیں، دونوں کے مقابلے سے واضح ہو جا ئیگا کہ علامہ ابن جوزی سے بہت اشتباہ واقع ہوا ہے ،ان سے یہ اشتباہ صرف یہاں نہیں بلکہ موضوعات حدیث کے بیان میں بھی واقع ہوا ہے۔
۱۵۔ یہ مثال حضرت احسان اللہ ابو سعید چشتی مدظلہ العالی نے انحراف عن الجادہ کے سوال پر تقریب فہم کے لیے پیش کی تھی۔
۱۶۔ دیکھئے: صیدالخاطر ص: ۸۳
۱۷۔ التصو ف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ، سیدیوسف ہاشم رفاعی مترجم: شاہ قادری سید مصطفٰی رفاعی جیلانی، ص ۱۳-۵۸،الاصلاح بنگلور ملخصا۔۲۰۰۴ 
۱۸۔ معراج التشوف الی حقائق التصوف ص: ۵۔ بحوالہ التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب و السنۃ، مترجم ص ۳۶-۳۷ 
۱۹۔ التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ مترجم، ص: ۵۴
۲۰۔ صیدالخاطر، ص:۱۲۔
۲۱۔ نفس مصدر،ص:۱۴۔
۲۲۔ نفس مصدر،ص:۱۷۔
۲۳۔ نفس مصدر،ص:۴۵۔
۲۴۔ نفس مصدر،ص:۷۸۔
۲۵۔ نفس مصدر،ص:۹۱۔
۲۶۔ نفس مصدر،ص:۱۰۷۔
۲۷۔ نفس مصدر،ص:۱۰۹۔
۲۸۔ نفس مصدر،ص:۱۲۲۔
۲۹۔ نفس مصدر،ص:۱۳۸۔
۳۰۔ نفس مصدر،ص:۱۹۵۔
۳۱۔ نفس مصدر
۳۲۔ نفس مصدر،ص:۲۱۰۔
۳۳۔ نفس مصدر،ص:۲۱۶۔
۳۴۔ نفس مصدر،ص:۲۶۲۔
۳۵۔ نفس مصدر،ص:۲۷۹۔
۳۶۔ نفس مصدر،ص:۳۰۵۔
۳۷۔ نفس مصدر،ص:۳۱۳۔
۳۸۔ نفس مصدر،ص:۳۲۰۔
۳۹۔ نفس مصدر،ص:۳۵۸۔
۴۰۔ نفس مصدر،ص:۳۸۴۔
۴۱۔ نفس مصدر،ص:۳۸۷۔
۴۲۔ نفس مصدر،ص:۳۹۷۔
۴۳۔ نفس مصدر،ص:۳۹۸۔
۴۴۔ نفس مصدر،ص:۳۹۹۔
۴۵۔ نفس مصدر،ص:۴۱۰۔
۴۶۔ نفس مصدر،ص:۴۱۱۔
۴۷۔ نفس مصدر،ص:۴۲۲۔
۴۸۔ نفس مصدر،ص:۴۶۸۔
۴۹۔ نفس مصدر،ص:۴۷۳۔
۵۰۔ نفس مصدر،ص:۴۷۵۔
۵۱۔ نفس مصدر،ص:۱۷،۱۸۔
۵۲۔ نفس مصدر،ص:۱۴۲۔
۵۳۔ نفس مصدر،ص:۳۹۹۔
۵۴۔ نفس مصدر،عنوان : دعاء المنکسرین، ص:۱۰۷۔
۵۵۔ نفس مصدر،عنوان : تعلیل النفس ،ص:۹۹۔
۵۶۔ نفس مصدر،عنوان: العلم النظری لایکفی ،ص:۲۱۔
۵۷۔ صفۃ الصفوۃ ، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد۔
۵۸۔ دیکھیے: مصدر سابق، عنوان: تعلیل النفس ۔ ص: ۹۹، عنوان: اھل الاشارۃ، ص: ۱۴۷، عنوان: تفاوت الھمم والآمال ،ص: ۲۳۹۔
۵۹۔ دیکھیے: تاریخ دعوت وعزیمت ،ابو الحسن علی ندوی، ص:۲۰۹ ،مجلس صحافت ونشریات اسلام لکھنؤ۔
۶۰۔ عنوان: التبتل الی اللہ، ص:۷۹
۶۱۔ مقدمہ اخبار الحمقی والمغفلین، ص: ۱۰-۹۔ المکتب التجاری، بیروت
۶۲۔ نفس مصدر، ص: ۱۱-۱۰
۶۳۔ نفس مصدر،ص: ۱۲)






1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔