Thursday 31 August 2017

فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول ------ مولف : مفتی نظام الدین رضوی برکاتی

4 comments
فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول
              مولف : مفتی نظام الدین رضوی برکاتی
              صفحات: ۳۴۴
              سن اشاعت :  ۱۴۳۰/ ۲۰۰۹ء
              ناشر:مکتبہ برہان ملت، اشرفیہ مبارک پورر اعظم گڑھ(یوپی)
              تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی
وقت کی بڑی ستم ظریفی ہے کہ مذہب اسلام جس کے اصول سب سے زیادہ لچک دار (Flexible )ہیں اسی پر غیر لچک دار (Rigid ) مذہب ہونے کا لیبل چسپاں کردیاگیا ہے - اگر غور کیا جائے تو اسلام کی اس غلط شبیہ سازی میں جہاں اسلام دشمنوں کی اجتماعی ریشہ دوانیوں کو دخل ہے وہیں نادان دوستوں کی بنام فقہ و افتا کی جانے والی مہربانیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے- باستثنائے بعض، صورت حال یہ ہے کہ ہرکس وناکس جس نے بھی چند نام کے مفتیوںکے فتاویٰ ان کے رجسٹر فتاویٰ میں نقل کردیے یا بہار شریعت کا مطالعہ کرلیا وہ اپنے آپ کو مسند افتا پر براجمان ہی محسوس نہیں کرتا بلکہ اگر ان کا اسم گرامی مفتی کے سابقہ کے بغیر لیا جائے تو ان کی فقیہانہ و مفتیانہ غیرت ابال کھا جاتی ہے اور ایسی گستاخی کے مرتکب کا سر قلم کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں-ایسے مفتیان کرام جو حالات زمانہ سے آگاہ ہیں، اجتہادی شان رکھتے ہیں، خلوص وللٰہیت کے پیکر ہیں اور ہمہ وقت عاجزی و فروتنی کے جذبات سے جھکے ہوئے ہیں، ان کے نام انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں - انہیں قابل احترام مفتیان کرام میں ایک نام مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی کا ہے- فقہ وافتا کے میدان میں آپ کی قابل قدر خدمات سے اپنے تو اپنے اغیار بھی متعارف ہیں- عصر جدید کے بعض پیچیدہ مسائل پرآپ کی متعدد تصانیف فقہ کے غواصوں سے داد تحسین وصول کرچکی ہیں- اس بار بھی ہر زمانے میں اسلامی احکام کولچک دار بنائے رکھنے والے چند اصولوں پر اپنی ایک تازہ ترین تصنیف کے ساتھ اسلامی فقہ کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے ایک شاندار تحفہ لے کر حاضر ہوئے ہیں -کتاب کا نام ہے ’’فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول‘‘
جن سات بنیادی اصولوں پر اس کتاب میں بحث کی گئی ہے وہ ہیں ضرورت، حاجت، عموم بلویٰ، عرف، تعامل، دینی مصلحت، فساد کا ازالہ- اصل مبحث سے پہلے’ عرض حال‘ کے عنوان سے مفتی صاحب نے پہلے کتاب کے پس منطر پر گفتگو کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ کتاب در اصل اسباب ستہ وعموم بلویٰ کی تنقیح کے موضوع پر مجلس شرعی ، جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے زیر اہتمام منعقد چھٹے فقہی سیمینار کے لیے لکھے ایک مقالے کی اضافہ و ترمیم شدہ شکل ہے-مولانا نفیس احمد مصباحی نے تعارف سراج الفقہا کے عنوان سے مصنف کتاب کی زندگی کے مختلف گوشوں کو تفصیل کے ساتھ اجاگر کیا ہے اور پھر مصباحی صاحب نے ہی کتاب کا مقدمہ بھی تحریر فرمایا ہے- مقدمہ شاندار ہے اگرآخری ڈیرھ سطر حذف کرکے اسی تحریر کو کسی بھی مجلے میںشائع کردیا جائے تو کوئی بھی اس کے مقدمہ ہونے کا اندازہ نہیں لگا سکتا-
اصل کتاب پانچ مقالوں پر مشتمل ہے ، پہلے مقالے میں ضرورت کی تشریح ، اس کے اثر اور دائرہ اثر پرتفصیلی گفتگو کی گئی ہے دوسرے مقالے میں مباحث حرج و دفع حرج کو محققانہ انداز میں اٹھایا گیا ہے اور بحث کی طوالت کے پیش نظر دوسرے مقالے کو تین ابواب پر منقسم کیا گیا ہے- پہلا باب حرج و دفع حرج کی تشریح، تاثیر- دوسرا باب حاجت کی تشریح اور اس کا اثر و دائرہ اثر -تیسرا باب عموم بلویٰ کی تشریح، اثر اور دائرہ اثر، تیسرے مقالے میں عرف و تعامل کی تشریح ،اثر اور دائرہ اثر کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس مقالے کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے- پہلا باب عرف و تعامل وغیرہ کی تشریحات ، دوسرا باب عرف و تعامل کی حجیت کے دلائل، تیسرا باب عرف وتعامل کے اطلاقات اور ان کی حجیت کے مدارج- چوتھا باب عرف وتعامل کے اقسام اور ان کا اثر ودائرہ اثر، پانچواں باب عرف وعادت کا اعتبار عامۂ ابواب فقہ میں، چھٹا باب متفرقات، چوتھے مقالے میں دینی ضروری مصلحت کی تحصیل، اثر اور دائرہ اثر کو بیان کیا گیا ہے اور پانچویں مقالے میں فساد موجود یامظنون بظن غالب کا ازالہ کے موضوع پر گفتگو کی گئی ہے-
اصول سبعہ پر کتاب میں کی گئی مفصل بحث کی تنقیح اور اس کا خلاصہ تفصیلی بحث سے قبل مختصر جوابات کے عنوان سے ذکر کر دیا گیا ہے، تاکہ قاری کے ذہن میں اصل مبحث محفوظ ہوجائے-
ضرورت ، حاجت اور حرج ایسی شرعی اصطلاحیں ہیں جن کا استعمال ایمرجنسی قانون کے طور پر کیا جاتاہے، ان اصطلاحوں کے مابین خط امتیاز کھینچنا عام علما کے بس کا نہیں چنانچہ ان تینوں کے باہمی اتصال وانفصال کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ان اقتباسات سے بنیادی طور پر حرج کے دو معنی سامنے آئے:(۱) سخت تنگی : جس میں فعل کی استطاعت نہ رہے جیسے اپنی جگہ سے حرکت نہ کرسکے ،سحری نہ کھا سکے، نماز نہ پڑھ سکے وغیرہ ،یہ سخت مشقت بھی ہے- (۲) تنگی : جس میں فعل کی استطاعت ہو گو کہ اس میں مشقت ودشواری ہو جیسا کہ کثیر امور میں ایسا ہی ہے - حرج اپنے پہلے معنی کے لحاظ سے ضرورت ہے اور دوسرے معنی کے لحاظ سے حاجت - ضرورت کو اضطرار بھی کہا جاتا ہے-
فقہ کی کتابوں میں جہاں کہیں حرج کا اطلاق پایا جاتاہے اور شریعت بوجہ حرج آسانی فراہم کرتی ہے ان تمام مقامات پر بھی یہ لفظ کہیں ضرورت کے معنی میں استعمال ہوا اور کہیں حاجت کے معنی میں- یہاں تک کہ مفسرین کرام نے قرآن حکیم میں وارد لفظ حرج کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے وہ بھی ضرورت وحاجت سب کو عام ہے -‘‘
فقہ اسلامی میں عرف، عادت اور تعامل کا تغیر احکام میں بڑا رول ہے لیکن تعامل کی طرح ایک اور فقہی اصطلاح ہے شعار، کسی بھی قوم کے مذہبی وقومی شعار کو بھی عرف و تعامل میں بھی داخل مانا گیا ہے- تعامل اور شعار میں تھوڑا فرق ہے، اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 ’’تعامل میں امر متعارف کا مسلمانوں میں ہی خاص ہونا ضروری نہیں بلکہ دوسری قوموں میں بھی پایا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ سے تعامل پر کچھ اثر نہ آئے گا جیسے مسواک کرنا، لنگی پہننا، غسل جنابت کرنا، داہنے ہاتھ سے کھانا وغیرہ مسلم وغیرمسلم سب کے یہاں پایا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس شعار میں ضروری ہے کہ وہ امر متعارف کسی دوسری قوم میں مشترک نہ ہو ، فتاویٰ رضویہ میں اس مسئلے پر یوں روشنی ڈالی ہے: انگریزی ٹوپی، جاکٹ، پتلون اگر چہ یہ چیزیں کفار کی مذہبی نہیں مگر آخر شعار میں تو ان سے بچنا واجب ………مگر اس کے تحقق کو اس زمان و مکان میں ان کا شعار خاص ہونا قطعا ضرور ، جس سے وہ پہچانے جاتے ہوں اور ان میں اور ان کے غیر میں مشترک نہ ہوا ‘‘( ص: ۱۹۶)
دینی مصلحت کے سبب بھی بہت سے ا حکام بدل جاتے ہیں اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’خون پینا اور مردار و خنزیرکا گوشت کھانا حرام و گناہ کبیرہ ہے جوبلاشبہ بڑا مفسدہ ہے لیکن اگر بھوک یاپیاس کی شدت سے کسی انسان کی جان جارہی ہو اور وہاں سوائے مردارو لحم خنزیر و خون کے کچھ مہیا نہ ہو تو ایسے ناپاک گوشت اور خون سے کچھ تناول کرلینا جائز ہے حالاں کہ جان بچانا مصلحت ہے مگر اس مصلحت کا پلہ ان حرام و ناپاک چیزوں کے کھانے کے مفسدہ پر بھاری ہے اس لیے قرآن عزیز نے یہاں مصلحت کو مفسدہ پر ترجیح دیا ہے -‘‘(ص :۳۱۶)
مطالعے کے بعد کتاب کی جو خصوصیت ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پوری کتاب میں اسلوب عالمانہ و محققانہ اختیار کیا گیا ہے اور کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتے وقت قرآن کریم ،کتب احادیث اور فقہ واصول فقہ کی امہات کتب سے کثرت کے ساتھ استدلال کیا گیا ہے اور ہر بحث کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرکے اور شواہد ونظائر پیش کرکے نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے- پوری کتاب کے مباحث مکمل طور پر باہم مربوط اورمنظم نظر آتے ہیں - کہیں سے بھی مباحث کا تانا بانا ٹوٹتا نظر نہیں آتا اور ز بان بھی حتی الوسع آسان رکھنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کتاب چوں کہ اسلامی قوانین سے متعلق ہے اور قانون کی زبان بہر حال عام زبان سے دشوار اور مختلف ہوتی ہے اس لیے اس کا اثر اس کتاب میں بھی نظر آتا ہے - کتاب کی ایک دوسری خصوصیت علمی امانت ہے - عربی عبارتوں کے جو ترجمے مصنف نے کسی اور کے نقل کیے ہیں ان کی صراحت کردی گئی ہے- ذاتی ترجموں کو رموز کے ذریعہ ممتاز کردیا گیا ہے اور کتاب کی تالیف میں معاون حضرات کی کوششوں کو الگ الگ تعین و صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے- کتاب کے مطالعے کے بعد اگرکوئی تشنگی باقی رہتی ہے تو صرف اس بات کی کہ جس طرح بحث کی تلخیص بحث سے قبل پیش کردی گئی ہے اسی طرح اگر مفصل مباحث کے نتائج’’ خاتمہ ‘‘کے عنوان سے بیان کردیے جاتے تو پوری بحث اور اس کے نتائج نہایت عمدگی کے ساتھ قاری کے ذہن نشین ہوجاتے-
کتاب کے سرورق کی پیشانی پر دائیں طرف صحیح بخاری بائیں طرف صحیح مسلم اور درمیان میں قرآن کریم کی تصویر دے کرگویا یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ فقہ اسلامی کے یہ بنیادی سات اصول اختراعی نہیں بلکہ قرآن کریم و صحیح احادیث سے مستنبط ہیں - کتاب کمپوزنگ کی غلطیوں سے حیرت انگیز حد تک پاک ہے- یقینی طور پر یہ کتاب فقہ وافتا اور اسلامی قانون سے دلچسپی رکھنے والے اساتذہ و طلبہ کے لیے بیش بہا خزانہ ثابت ہوگی اور ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی اور جو لوگ اسلامی قوانین پر غیر لچک دار ہونے کا الزام لگاتے ہیں ان کے لیے زناٹے دار طمانچہ اور جن لوگوں نے فقہ و افتا کو بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے ان کے لیے بھی تازیانۂ عبرت ثابت ہوگی-

4 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔