Wednesday 30 August 2017

پاکستان میں اردو شاعری ----- مصنف و ناشر: علیم صبا نویدی

0 comments
                   پاکستان میں اردو شاعری
          مصنف و ناشر: علیم صبا نویدی
          صفحات: ۱۷۶
          سن اشاعت: ۲۰۰۸ء
          پیش کش : سہ ماہی نور جنوب،چننائی-۵

          تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی   
ہم جس  ماحول میں جی رہے ہیں وہاں تقریباً ہر دن کوئی نئی کتاب دیکھنے کو مل ہی جاتی ہے- اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے کہ پہلی نظر میں کس کی کتاب سے متاثر ہوئے؟ تو بغیر سوچے تمل ناڈو کے مشہور شاعر اور نثر نگار جناب علیم صبا نویدی کا نام لے ڈالوں گا-( واضح رہے کہ پہلی نظر سے مراد سب سے پہلی ہے جو ٹائیٹل پیج پر پڑتی ہے) اور اگر کہیں یہ سوال ہوجائے کہ دوسری نظر میں کس سے بدظن ہوئے تو میں بعض مصلحتوں کی بنیاد پر بشمول جناب علیم نویدی کسی بھی قلم کار کا نام لینے سے صاف انکار کردوں گا-
شروع میں یہ چند جملے معترضہ تھے، جن کے بارے میں میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کا تعلق جناب علیم نویدی صاحب کی کتاب ’’پاکستان میں اردو شاعری‘‘ جو اس وقت میرے پیش نظر ہے، سے قطعاً نہیں ہے- پچھلے کئی مہینوں سے نویدی صاحب ہم پر احسان فرمارہے ہیں، ہرماہ اپنی کوئی نئی کتاب ہمیںارسال کردیتے ہیں جو بلاشبہ ہماری لائبریری کی زینت میںاضافے کا باعث بنتی ہے، مدیر اعلیٰ جام نورنے اس حقیر پر اس ماہ ایک عدد مزید احسان فرماتے ہوئے علیم نویدی صاحب کی مذکورہ تازہ خوب صورت کتاب تبصرہ کے لیے میرے حوالے کردیا- (واضح رہے کہ اس کی خوب صورتی کا تعلق صرف اس کے ظاہر یعنی ٹائیٹل پیج سے نہیں ہے، اس کے باطن سے بھی ہے، کیوں کہ اس میں کاغذ بھی معیاری استعمال ہوا ہے-) مدیر محترم کے اس احسان پر میری خوشیوں کی انتہا نہ رہی اور میں نے بلا تاخیر اس کا مطالعہ شروع کردیا- نتیجے میں دوران مطالعہ لمحہ لمحہ نویدی صاحب کی کرم فرمائیاں یاد آتی رہیں-
میں سب سے پہلے نویدی صاحب کو اس بات پر مبارک باد دوں گا کہ اردو بازار میں انھوںنے ایک نئی کتاب کا اضافہ کر کے اردو کے تھکے ہوئے قارئین کے صبر کو ایک بار پھر چیلنج کیا ہے، اگر متعصبین اس کتاب کو اس کی قرار واقعی اہمیت نہ بھی دیں جب بھی اس کے وجود پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا اور میں اس کی بھی ضمانت دے سکتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر متعصبین اسے نہ خرید یں تو یہ پڑھی نہ جائے گی- بالخصوص ایسے ماحول میں جہاں مجھ جیسے ہزاروں اردو مدیر ہر ماہ کسی کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے کسی نئی کتاب کے آنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں-
نویدی صاحب کو میں دوسری مبارک باد انہیں کتاب کا نام ’’پاکستان میں اردو شاعری‘‘ رکھنے پر دوںگا، وہ چاہتے تو اس کا نام ’’پاکستان میں اردو شعر و ادب‘‘ بھی رکھ سکتے تھے، کیوںکہ کتاب میں دو میں سے پہلا باب نثر پر ہی ہے (باقی پوری کتاب شاعری پر ہے-) لیکن انھوںنے ایسا نہیں کیا، شاید اس لیے کہ نثر کی بہ نسبت شعر میں لطافت و نزاکت ہوتی ہے اور انھوںنے صنف لطیف و نازک کا خیال رکھتے ہوئے (جو عصر حاضر کا تقاضا اور چلن بھی ہے) کتاب کا نام ’’پاکستان میں اردو شاعری‘‘ رکھا- اگر واقعی ایسا ہی ہے تو میں ان سے گزارش کروںگا کہ اگلی اشاعت میں (جو ہو کر ہی رہے گی) کتاب کا نام بدل کر ’’پاکستان میں اردو غزل ‘‘ یا ’’اردو غزل اور پاکستانی شاعرات‘‘ رکھ لیں، کیوں کہ ان دونوں عنوانات سے کتاب میں دو مضامین بھی شامل ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ نام میں لطافت و نزاکت کا لحاظ مکمل ہوجائے گا-
قارئین سے دلائل کی روشنی میں یہ بتادوں کہ ’’پاکستان میں اردو شاعری‘‘ جناب علیم صبا نویدی کی بیک وقت تصنیف بھی ہے اور ان کی ترتیب بھی- اس کے تصنیف ہونے کی دلیل تو یہ ہے کہ اگرچہ نویدی صاحب نے اس موضوع پر علمی مطالعہ و تحقیق نہیں کیا ہے(میں نے یہ جملہ جب میاں دھڑکن کو پڑھ کر سنایا تو وہ کہنے لگے کہ ’’یہ سب بلاوجہ کی نکتہ چینی ہے- اس قسم کے نکتہ چینوں کا منھ بند کرنے کے لیے نویدی صاحب نے کتاب کے شروع میں ہی کتاب کا موضوع ’’تحقیق و تنقید‘‘ لکھ دیا ہے‘‘ ان کی بات مجھے کچھ معقول سی لگی) بلکہ پاکستان سے شائع ہونے والی مختلف شعری و نثری تصنیفات پر جو انہوں نے تبصرے کیے تھے انہیں جمع کردیا ہے لیکن اس کے دوسرے صفحہ پر جلی حروف میں ان کے نام کے ساتھ’’ مصنف‘‘ لکھا ہوا ہے اس لیے اس کتاب کے تصنیف ہونے پر کسی کو بھی، چاہ کر بھی، انکار کی ہمت نہیں ہوسکتی— اس کے ترتیب ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگرچہ کسی جگہ ترتیب یا مرتب مرقوم نہیں ہے، تاہم فہرست میں ہر مضمون کے سامنے بالالتزام نویدی صاحب کا پورا نام لکھا ہوا ہے- حالاں کہ جب سارے مضامین نویدی صاحب کے ہی تھے تو پھر ہر مضمون کے سامنے مضمون نگار کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن ایسا صرف اس لیے کیا گیا ہے تاکہ یہ حقیقت خوب خوب واضح ہوجائے کہ یہ کتاب ترتیب بھی ہے اور نویدی صاحب اس کے مصنف ہونے کے ساتھ مرتب بھی ہیں-
کتاب کا انتساب بھی لائق دید ہے، ایک ساتھ پاکستان کے ۷؍نامور ادیبوں اور شاعروں کے نام انتساب ہوا ہے- ان کے نام کے بعد نویدی صاحب نے لکھاہے: ’’جن کی حوصلہ افزا محبتوں نے احقر کو پاکستانی ادب پر اچٹتی نظر ڈالنے کی جسارت بخشیں-‘‘ یہ جملہ میں نے اس لیے نقل کیا تاکہ کمپوزروں کی باریک غلطیوں کی نشان دہی کردوں ورنہ علیم صبا نویدی صاحب جیسے کثیرالتصانیف شخصیت سے باریک غلطیاں کہاں متصور ہوسکتی ہیں-
کتاب کے مندرجات کے بارے میں عرض یہ ہے کہ یہ دو ابواب پر مشتمل ہے- پہلے باب میں ۹اور دوسرے میں ۲۰ مضامین شامل ہیں- ’’اپنی بات‘‘ کو بھی شامل کر لیجئے تو کل ۳۰ مضامین ہوتے ہیں- ان میں تین چار کے علاوہ باقی تمام مضامین کسی نہ کسی پاکستانی کتاب پرتبصرہ ہے-یہاں ایک بات محل نظر ہے، وہ یہ کہ نویدی صاحب کی اس کتاب پر ’’اپنی بات‘‘ معلوم نہیں کس استحقاق کی بنیاد پر محترمہ ڈاکٹر جاویدہ حبیب نے لکھا ہے- (یہاں ایک لمحہ ٹھہر کر محترمہ کا نام رکھنے والے بزرگ کی ذہانت کو سلام کہیے جنھوںنے ’’جاوید‘‘ فارسی لفظ مذکر میں عربی کی گول تائے تانیث (ہ) لگا کر ان کی نسوانیت کو واشگاف کردیا ہے- ورنہ ان کی ادبی شناخت کا مسئلہ متنازع بن جاتا اور کوئی عجب نہیں اگر کوئی اردو ادب کا جدیدیت پسند محقق اس تنازع کو ختم کرنے کے لیے انگریزی لفظ ڈاکٹر کے ساتھ مذکورہ علامت تانیث کے الحاق کی تجویز رکھتا-)
پہلے باب میں ایک طویل مضمون کا عنوان ہے ’’جمیل جا لبی کا روشن کارنامہ تاریخ ادب اردو ‘‘ نویدی صاحب نے اس مضمون میںعنوان کے ساتھ بڑا انصاف کیا ہے،’’ جمیل جالبی‘‘ چوںکہ عنوان مضمون کا حصہ ہیں اس لیے مضمون کا نصف حصہ ان کے تعارفی ، سوانحی اور تعریفی خطبہ پر مشتمل ہے جب کہ نصف حصہ، دوسرے اہل علم و دانش کے تاثرات کو شامل کر کے، ان کی کتاب ’’تاریخ ادب اردو‘‘ پر ہے- یہ نصف نصف کا انصاف بہت کم لوگ کر پاتے ہیں- جالبی صاحب کے اس کارنامے کے بارے میں نویدی صاحب کا ناقد قلم لکھتا ہے:
’’یہ تصنیف اولاً اس اہمیت کی حامل ہے کہ ایک فرد واحد کی کاوشوں سے تکمیل کو پہنچی ہے-‘‘ میرے نزدیک نویدی صاحب کا یہ بصیرت افروز اور با معنی جملہ اس اہمیت کا حامل ہے کہ ایک بار پڑھنے سے سمجھ میں نہیں آتا- آپ خود دوبارہ پڑھ کر دیکھیے تب یہ عقدہ کھلے گا کہ تین ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب کی نہ صرف یہ خصوصیت ہے کہ اسے ایک شخص نے لکھا ہے بلکہ یہ اس کی اہمیت بھی ہے- ’’ایک فرد واحد‘‘ کی ترکیب بھی اپنے قاری سے تحسین و آفریں کی طالب ہے- نویدی صاحب کا اگلا جملہ ہے: ’’جمیل جالبی کا کثیر مطالعہ اور ان کی انتھک محنت دونوں نے اس کی رونمائی کا باعث ہیں-‘‘ یہ جملہ پڑھ کر بے ساختہ سبحان اللہ !زبان سے نکلتا ہے-
نویدی صاحب مزید لکھتے ہیں: ’’ماضی مین جتنے معتبر ذرائع ادب ہیں ان کی از سر نو تحقیق و تدوین کا عمل ہی دقت طلب اور محنت و کاوش طلب ہے-اس کے لیے صحیح نظر، صحیح دماغ اور صحیح طریقہ کار کی ضرورت ہے- جمیل جالبی کی شخصیت ان تمام خوبیوں سے پر ہے-‘‘
اب جملے کی نحوی و بلاغی تشریح پڑھیے: ’’ماضی کے‘‘ کی جگہ ’’ماضی میں ‘‘ کا استعمال غالباً اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جمیل جالبی نے نہ صرف ماضی کے ذخیرہ ادب کا مطالعہ کیا بلکہ اس کے لیے وہ خود بھی ماضی میں ڈوب گئے- ’’ذخیرہ ادب ‘‘کے لیے ’’ذرائع ادب‘‘ کا استعمال طبع زاد جدت پسندی ہے- ’’تدوین کا عمل ہی دقت طلب …‘‘ یہ اسلوب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قلم کار ترقی کر کے کچھ اور کہے گا لیکن شاید یہ سوچ کر کچھ نہیں کہا کہ  ؎
اگر خموش رہوں میں تو توہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو تیرا حسن ہوگیا محدود
اس سکوت میں بیان ناقابل بیان پوشیدہ ہے-
نویدی صاحب کے اگلے جملے کی تلاوت کیجیے: اور جمیل جالبی سے اتنے بڑے کام کا سر انجام پانا حیرت انگیز نہیں مگر یہ بات ضرور حیرت انگیز ہے کہ اتنی خوبی سے سر انجام پانا ہی ایک ادبی کرشمہ ہے-‘‘ نویدی صاحب کی اس رائے سے اتفاق یا عدم اتفاق کا کوئی حق مجھے نہیں مل سکتا، کیوںکہ میں نے جمیل صاحب کی ’’تاریخ ادب اردو‘‘ دیکھی ہی نہیں ہے- ہاں! مجھے یہ کہنے کا حق اہل ادب کی جانب سے ملنا چاہیے کہ نویدی صاحب کا اس کمال خوبی سے آخری والا جملہ لکھ دینا ضرور ایک ادبی کرشمہ ہے-
دوسرے باب کے پہلے مضمون کا عنوان ہے’’جادۂ رحمت کی طرف‘‘ یہ پاکستان کے معروف نعت گو، نعت خوان اور نعت دوست شاعر جناب سیدصبیح الدین صبیح رحمانی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ’’جادۂ رحمت‘‘ پر علیم نویدی صاحب کا تبصرہ ہے، اس مضمون کا دوسرا جملہ ہے:
’’اس محترم صنف کو برتنے والوں میں ایک جذبہ، جذبۂ عشق رسول ہی ہے-‘‘ یہاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ اس جملے میں لفظ ’’میں‘‘ کی جگہ ’’کا‘‘ اور ’’ایک‘‘ کی جگہ ’’بنیادی‘‘ ہونا چاہیے، صحیح جملہ یوں ہوتا: ’’اس محترم صنف کو برتنے والوں کا بنیادی محرک؍ جذبہ، جذبۂ عشق رسول ہے-‘‘
آگے لکھتے ہیں: ’’وہ اسے محض فنی برتری کے لیے نہیں اپناتے بلکہ بطور عبارت اس کی طرف مائل ہوتے ہیں-‘‘ شعرا اور ناقدین کو یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ عبادت صرف خالق و مالک کی کی جاتی ہے-جذبۂ نعت کے لیے عبادت کا لفظ یکسر غلط ہے- نعت ادب اور عشق چاہتی ہے عبادت نہیں- چوتھا جملہ ہے- ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایک شعر کہنا متعدد بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے مترادف ہے‘‘ مدارس اسلامیہ میں برسوں تک ذخیرہ کتب احادیث کے مطالعہ کے باوجود بھی نعت گوئی کی یہ فضیلت پہلی بار پڑھنے کو ملی- ویسے میرا حقیر مشورہ ہے کہ اہل قلم کو خصوصا نعت جیسی مقدس صنف کے تعلق سے اس قسم کی اختراعی نکتہ آفرینی سے گریز کرنا چاہیے-
نویدی صاحب اس مضمون کے دوسرے پیراگراف میں لکھتے ہیں: ’’وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن اکرم تھامنے میں بہت بڑا سکون محسوس کرتے ہوںگے-‘‘ اس میں جملے کے غیر یقینی تیور اور دامن کے ساتھ ’’اکرم‘‘ کے استعمال کے علاوہ نویدی صاحب نے ’’سکون‘‘ کی جو سائز بڑھائی ہے یہ صرف انہی کا حصہ ہے- ایک دوسرا جملہ ہے- ’’پہلے ماہ طیبہ‘‘ میں اور پھر اب ’’جادۂ رحمت‘‘ میں انھوںنے اپنے قلم کو تمیز سجدہ سکھایا ہے-‘‘ مقام نعت میں ’’سجدہ‘‘ کا لفظ محل نظر ہے- ساتھ ہی صبیح صاحب سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ آیا انھوںنے قلم کو تمیز سکھایا ہے یا سکھائی ہے؟ نویدی صاحب نے صبیح رحمانی صاحب کی نعتیہ شاعری کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے: ’’آپ نے نعت کو صنف غزل کی مماثلت سے دور بھی کیا ہے-‘‘ چند سطور کے بعد ’’آپ پابند غزل کے مزاج کے موافق جب نعتیں کہتے ہیں تو وہ محفلوں اور مجلسوں میں خوش الحانی سے پڑھنے کے لیے کہتے ہوںگے-‘‘ یہاں جملے کی ساخت سے ہمیں بحث نہیں، ہماری نظر، پہلے اور دوسرے جملے سے، رحمانی صاحب کی نعتیہ شاعری کی جو متضاد خوبی سامنے آئی ہے، اس پر اٹکی ہوئی ہے- اب یہ فیصلہ قارئین کو کرناہے کہ اس تضاد کا جرم کس کے اوپر ہے شاعر پر، ناقد پر یا اس غریب مبصر کی نظر پر؟
ہمیں افسوس ہے کہ نویدی صاحب کے صرف دو مضامین پر گفتگو اتنی طویل ہوگئی، جب کہ ہر مضمون کچھ اسی طرح کے تبصرے کے لائق ہے- خصوصاً ’’پاکستانی اردو— خصوصی انتساب کیوں؟‘‘ ’’احمد فراز— شعری تہذیب کا خوب صورت آئینہ ‘‘ ’’پروین شاکر— اردو شاعری میں نسوانیت کی بھینی بھینی خوشبوئیں‘‘ ’’منظر بھوپالی اور منظر پتلی میں‘‘ ’’ اردو غزل اور پاکستانی شاعرات‘‘ ’’پاکستان میں اردو غزل‘‘ قابل مطالعہ مضامین ہیں-
آخر میں قارئین کو بتادوں کہ علیم صبا نویدی جنوبی ہند میں اردو کا ایک بڑا نام ہے- نویدی صاحب بڑے جوش اور جذبے سے اردو کی خدمت کر رہے ہیں- خدا ان کے جذبے کو سلامت رکھے-ہماری بعض معروضات سے اگر انہیں تکلیف پہنچی ہو تو اس کے لیے سراپا معذرت ہوں- چوںکہ یہ مقام نقد ہے جہاں آدمی کو ہر قرب و بعد کی عصبیت سے بالا تر اٹھ کر سچ بولنا پڑتا ہے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔