Thursday 31 August 2017

اسلام اور دہشت گردی

0 comments
اسلام اور دہشت گردی
  ازقلم: ضیاء الرحمٰن علیمی 
------------------------------------------
دہشت گردی اور اسلام دو ایسے لفظ ہیں جن کا آپس میں دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود کئی دہائیوں سے باہم جڑے ہوئے ہیں اور اس ذیل میں اسلام پر میڈیا کی بڑی مہربانیاں رہی ہیں، میڈیا ہمیشہ سے یہ محسوس کرتا رہا ہے کہ اسلام اور دہشت گردی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اب اس غلط فہمی کے لیے ہم اپنی کوتاہیوں کو مورد الزام قرار دیں یا پھر میڈیا کے افراد کی تن آسانی اور ان کے اندر تفتیش و تحقیق کی مجرمانہ حد تک کمی کو، یا پھر ہم یہ مان لیں کہ میڈیا خاص نقطہ نظر کے ساتھ تجاہل عارفانہ برتتے ہوئے ان الفاظ کو باہم جوڑ کر پیش کر رہا ہے اور اس کے پس پردہ جو فکر کام کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کو یہ باور کرا دیا جائے کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب نہیں بلکہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مصدر و منبع ہے اور اسلامی تعلیمات کے اندر ہی کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس کے پیروکاروں کو دہشت گردانہ اعمال کی انجام دہی پر اکساتی ہیں، حقیقت حال جو بھی ہو لیکن اتنا تو مسلّم ہے کہ اس حوالے سے مختلف تحریکوں ، تنظیموں اور جہادی آوٹ فٹ کی سرگرمیاں اخباروں کی شہ سرخی بنتی رہی ہیں- انہی تنظیموں میں ایک مشہور و معروف نام اسٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف انڈیا(SIMI) کا بھی ہے-
۲۰۰۱ء میں پابندی کے بعد یہ تنظیم منظر نامے سے بالکل ہی غائب ہو گئی تھی اور پھر گاہے بگاہے اس کی سرگرمیوں کے تعلق سے بعض معمولی قسم کی خبریں آتی رہیں- لیکن میری حیرت کی انتہا اس وقت نہ رہی جب میں نے ملاحظہ کیا کہ انگریزی میگزین فرنٹ لائن کے ۲۱؍ دسمبر ۲۰۰۷ء کے شمارے میں کور اسٹوری (Cover Story)کا کالم سیمی(SIMI)کی نشو و نما اور ہندوستان میں اسلام پسندوں کی بنیاد پرستی کے ارتقائی جائزہ کی نذر ہے-یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ میگزین ’’ کور اسٹوری‘‘ کے تحت نہایت اہم موضوعات کا مختلف زاویوں سے جائزہ پیش کرتی ہے، بہر حال ۱۶؍ صفحات پر مشتمل اس کالم میں تین مضامین شائع ہوئے ہیں-Terror Links(دہشت کے رشتے) کے عنوان سے شائع مضمون میں مضمون نگار پروین سوامی کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اگرچہ اس تنظیم پر پابندی عائد کی جا چکی ہے لیکن اب بھی یہ ہندوستان کے ریڈیکل اسلام پسندوں کے لئے سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے اور اب تک ملنے والی شہادتوں سے یہی پتا چلا ہے کہ ۲۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو وارانسی، فیض آباد اور لکھنو میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکوں اور آندھرا پردیش ،گجرات اور اتر پردیش میں ہوئے کم از کم ایک درجن بم دھماکوں میں اس کا ہاتھ ہے، تنظیم اسلام پسندوں کے تشدد کے لیے ایک بنیادی پلیٹ فارم کے طور پر معرض وجود میں آئی تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کی تاریخ بم کے ساتھ اس کے لوافیر کاراز ہنوز غیر واضح ہے-
جنوبی ایشیا کی دوسری تنظیموں کی طرح یہ تنظیم بھی فکری طور پر ابو الاعلی مودودی صاحب کی خوشہ چین ہے جنہوں نے۱۹۴۱ء شریعت اسلامیہ پر مبنی نظام حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد کی غرض سے جماعت اسلامی کی بنا ڈالی تھی-لیکن جماعت اسلامی گزرتے ایام کے ساتھ ایک ایسی ثقافتی تنظیم میں تحلیل ہو گئی جس کا مطمح نظر مسلمانوں کے مابین Neo Coservativeاسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے، پورے ملک میں اس نے ایسے اسکولوں اور اسٹڈی سرکل کا جال بچھا رکھا ہے جس کا ہدف آزادی کے بعد کمیونزم اور شو شلزم کے مسلمانوں کے مابین بڑھتے اثرات پر بند باندھنا ہے-۱۹۵۶ء میں اس کی ایک طلبہ ونگ SIO کے نام سے قائم ہوئی جس کا ہیڈ کواٹر علی گڑھ تھا-لیکن چوںکہ شمالی ہندوستان کے مسلمان فرقہ وارانہ فسادات کے ستائے ہوئے تھے اس لیے جماعت کے متشددانہ نظریات کو قبولیت عام کا درجہ نصیب نہیں ہوا اور منطقی نتیجے کے طور پر جماعت نے آہستہ آہستہ مودودی صاحب کے پرتشدد نقطہ نظر سے بریک اَپ کرکے سیکولرزم کو اپنی نئی معشوقہ بنا لیا، جماعت اسلامی کے اصلاح پسند طبقے اور سخت گیر نظریہ کے حاملین کے مابین فکری ٹکرائو کے نتیجے میں اپریل ۱۹۷۷ء میںSIOکے ملبے پر سیمی کی داغ بیل پڑی اور پھر آندھرا پردیش، مغربی بنگال، بہار اور کیرالا کی ان طلبہ تنظیموں سے رابطے قائم کیے گئے جو جماعت کے ہم نوا تھیں، اسی دوران دوسری بہت سی چھوٹی چھوٹی تنظیمیں منظر عام آئیں لیکن ان کا دائرہ بہت محدود رہا جب کہ سیمی کا حلقہ اثر پورے ہندوستان میں وسیع ہو گیا، مغرب سے چلنے والا اسلام مخالف تند و تیز استعماری چھونکوں نے اسے اور مضبوط بنانے کا کام کیا، سوویت یونین میں لڑنے والے امریکہ سے شہ یافتہ مجاہدین کی تنظیم نے حمایت کرنی شروع کر دی او رکھلے بندوں یہ کہنا شروع کر دیا کہ اسلام ہی کے دامن میں ساری دنیا کے مسائل کا حل ہے، ان حالات سے خوف زدہ ہو کر جماعت اسلامی قیادت نے اپنے آپ کو اس سے الگ کرنے کی کوشش کی لیکن اندرون خانہ دوستانہ تعلقات میں کوئی کمی نہیں آئی - ۱۹۸۲ء کے بعد اس کے حامیوں کا حلقہ اور بھی وسیع ہو گیا ، مغربی ایشیا کی مختلف تنظیموں مثلا کویت کی ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم یوتھ ، سعودی عرب کی اسلامک فیڈریشن آف اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے داد و تحسین ملی اور ان ممالک سے بے اندازہ رقم کی آمدنی کے نتیجے میں اس نے انگریزی، اردو، ہندی میں ’’ اسلامک مومنٹ ‘‘گجراتی میں ’’ اقرا‘‘ بنگالی میں روپن تار(Rupantar)تمل میں سیدی مالار(Seidi Malar) اور ملیالم زبان میں ویویکم(Vivekam)نامی میگزینیں نکالنی شروع کیں، سیمی نے تحریک طلبہ عربیہ کے نام سے مدارس کے طلبہ کی ایک خاص ونگ اور شاہین فورس کے نام سے ۷؍ سال سے لے کر ۱۱؍ سال کی عمر کے لڑکوں کی بھی ایک ونگ قائم کی-
مڈل کلاس کے مسلمانوں کے درمیان اس تنظیم کی مقبولیت کی وجہ یہ رہی کہ مسلمانوں کے بچے ان کے ہند و بھائیوں کی ہی طرح الکحل، ڈرگ اور جرائم کے عادی ہو چکے تھے، اسلامی رجحان کی آمد کے نتیجے میں یہ بچے بری عادتوں سے دور ہوتے چلے گئے ،اس لیے تنظیم کو مسیحا کے طور پر دیکھا گیا، ایک دوسری وجہ یہ بھی رہی کہ اس طبقے کے مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والی اقتصادی ترقی کے مواقع کے سلسلے میں ان کے ساتھ دھوکے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ حقوق کی بازیابی کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے اور اسی تناظر میں سیمی کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ مافیا سے جڑے بہت سے مسلم نوجوانوں نے سیمی میں شرکت اختیار کر لی جس سے تنظیم کا مالی فائدہ تو ہوا ہی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ وہ جرائم پیشہ افراد نہیں بلکہ مظلوم مسلم امت کا دفاع کرنے والے ہیں-
۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سیمی نقطۂ نظر(Viwe  Point)میں زبردست تبدیلی آئی،بابری مسجدشہادت کی پہلی برسی کے موقع پر سیمی سے مربوط لشکر طیبہ کے افراد جلیس انصاری ،محمد اعظم غوری، عبد الکریم تونڈا نے ہندوستان کے مختلف حصوں میں سلسلہ وار دہشت گردانہ حملے انجام دیے، یوں ہی سیمی کے ممبران کی ایک بڑی تعداد نے جیش محمد، حرکت الجہادالاسلامی جیسی تنظیمیں جوائن کر لیں-۱۹۹۶ء میں سیمی نے یہ بیان دیا کہ جب ڈیمو کریسی اور سیکولرزم مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے تو اب واحد راستہ یہ ہے کہ خلافت کے قیام کے لیے کوششیں کی جائیں اور محمود غزنوی کا طریقہ اختیار کیا جائے، اس کے علاوہ مسلسل دو قومی نظریہ کا نعرہ ،۱۱؍ ستمبر کے بعد القاعدہ کی حمایت میں مظاہرے، بامیان میں بودھ کے مجسمہ کے انہدام پر جشن جیسے اعمال نے تو اس کی جدل و قتال پسند ی کو اور برہنہ کر دیا-
گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ سیاسی اسلام کے ارتقا کی بنیادی وجہ یہ رہی ہے کہ حکومتیں مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اسلامی کمیونلزم کی جانب سے صرف نظر کرتی رہی ہیں اور کمیو نسٹ لیڈر پرکاش کرت کے مطابق ہندو کمیونلزم ہندوستان میں اس لیے مضبوط ہوا ہے کہ سیکولر طبقہ نے مسلم فرقہ واریت کے لیے رسی ڈھیل کر رکھی ہے لہٰذا اس کی بات کی ضرورت ہے کہ ایسی سیاسی پالیسی کی جس کی کوکھ سے اس قسم کی تنظیمیں جنم لیتی ہیں بیخ کنی کے لیے محکم اور مضبوط اسٹریٹیجی وضع کی جائے اور یقینا یہ سیکولر ہندوستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے-
نئے اڈوں کی تعمیر(Building new bases)کے عنوان سے لکھی گئی دوسری تحریر دراصل چنئی سے ٹی، ایس سوبرامنیم ، تروننتپورم سے آر کرشنا کمار، کولکاتا سے سوہرید شنکر چتوپادھیائے کا رپورٹوں کی مجموعہ ہے جس میں انہوں نے بالترتیب تامل ناڈو، کیرالا اور بنگال کے تعلق سے یہ ذہن دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ صوبے اسلامی دہشت گردی کی مکمل گرفت میں ہیں، دہشت گردی کے حوالے سے چیریٹیبل ٹرسٹ فارمائی نارٹیز(C.T.M)نیشنل ڈیویلپمنٹ فرنٹ آف کیرالا(N.D.F)کرناٹکا فورم آف ڈگنٹی(K.F.D)جیسے خیراتی اداروں پر بھی ان کے جارحانہ تیور کی وجہ سے کڑی نظر ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام اداروں کے چیر مین سیمی کے سابق علاقائی صدور اور اس کے ممبران سیمی کے سابق انصار ہیں-
پولیس کا ماننا ہے کہ تامل ناڈو میں لشکر طیبہ، جیش محمد جیسی تنظیموں کے سلیپر سیل کی موجودگی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا، ویسے تامل ناڈو میں سیمی اس وقت لوگوں کی نظر میں آئی جب ۱۹۹۹ء میں ان کے دعوتی آرگن Seithi Madd(خبر نامے) میں جموں کشمیر کی سرگرمیوں کو کوسوو اور چیچنیا کی آزادی تحریک کے مماثل قرار دیا گیا تھا اور اسی بنا پر اس پر پابندی بھی عائد کر دی گئی تھی، ان دنوں سیمی کے سابق ممبران لائبریریوں ، خیراتی اداروں اور دعوتی کاموں میں مصروف ہیں، پولیس افسران کے مطابق سعودی عرب کی زیر حمایت مختلف غیر ملکی ایجنسیاں نہ صرف انتہا پسند تنظیموں کو بلکہ انفرادی طور پر بھی مالی تعاون فراہم کر رہی ہیں،مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگرچہ ذمہ داران کی جانب سے حالات کنٹرول میں ہونے کی بات کہی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے دہشت گردی کے حوالے سے طاری اس سکوں کو پرفریب سکون سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے-
کیرالا کی صورت حال تو بالکل ہی مختلف ہے، یہ بڑی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنتا جا رہا ہے، یہاں سے مالدیپ کی دہشت گرد تنظیموں کو اسلحے، آتش گیر مادے سپلائی کیے جا رہے ہیں، ایم ،ڈی، ایف ، این ڈی ایف، جیسی سیمی سے مربوط تنظیمیں سر گرم عمل ہیں، ان ساری تنظیموں کا پروفائل حالات کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے، کبھی وہ ہندوتو کے بالمقابل اسلامی آئیڈ یالوجی کو نمایاں کرتے ہیں تو کبھی کیرالا کے مسلمانوں کے سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل کو، تو کبھی استعماریت مخالف، گلوبلائزیشن مخالف ایجنڈوں کو، سیمی کے دفتر پر پولس کے چھاپے سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ حوالہ چینل کے ذریعہ مغربی ایشیا سے ہر ہفتہ ایک لاکھ سعودی ریال کی رقم تعاون فنڈ کے طور پر آتی ہے، مقالہ نگار خلاصہ کرتے ہیں کہ اس وقت کیرالا میں سب بڑی دہشت گردانہ سرگرمی یہ جاری ہے کہ نوجوانوں اور کم سنوں کی برین واشنگ ہو رہی ہے اور انہیں فکری طور پر یر غمال بنایا جا رہا ہے-
مغربی بنگال کو عام طور سے دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پاک مانا جاتا رہا ہے، لیکن ۲۱ ؍ نومبر کو کولکاتا میں ایک مظاہرے کے دوران جس تیزی سے حالات خراب ہوئے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہاں بھی فکری بمباری شروع ہو چکی ہے ،پولیس کو شبہ ہے کہ سیمی سے مربوط کچھ بنگلہ دیشی اور اتر پردش کی تشدد پسند تنظیموں نے حالات خراب کرنے میں رول ادا کیا ہے- اگست ۲۰۰۶ء اور اپریل ۲۰۰۷ء کے درمیان لشکر طیبہ، حزب المجاہدین، جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کے افراد بنگال میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے، جون ۲۰۰۷ء میں کولکاتا پولس نے تین تشدد پسندوں کو گرفتار کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ حزب الجہاد الاسلامی بنگلہ دیش سے ان کے رابطے ہیں، خلاصہ یہ کہ حالات یہاں بھی اچھے نہیں ہیں اور مغربی بنگال بھی اب دہشت گردوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے-
تیسرے مضمونUneasy in Paradise(جنت میں اضطراب) میں مضمون نگار پروین سوامی نے ذکر کیا ہے کہ اسلام پسندوں کی سرگرمیاں ان آئس لینڈ میں بھی فروغ پا رہی ہیں، جو ان سماجی، سیاسی تنائو سے آزاد ہیں جن کی بنا پر یہ سرگرمیاں فلورش ہوا کرتی ہیں، چنانچہ فصیحو اور واحد نامی مالدیپ کے دو طالب علم جامعہ سلفیہ اسلامیہ فیصل آباد گئے جہاں کے پروڈکٹ میں مختلف القاعدہ اور لشکر طیبہ کے قائدین شامل ہیں، اسی مدرسہ سے ابراہیم شیخ نامی شخص نیوکنزرویٹو روایات سے آراستہ ہو کر مالدیپ لوٹا اور صدر ماموں عبد القیوم کی حکومت کے خلاف جو کہ سنی شافعی مسلک کی نمائندگی کرتی ہے آواز اٹھائی، سلطان پارک بم دھماکہ ہو یا کوئی اور پر دہشت حادثہ ان سب میں جماعت اہل حدیث کے افراد ملوث نظر آتے ہیں، Fiyesمیگزین کے رپورٹر احمد عبد اللہ کے مطابق ابو عیسی اور اس جیسے لوگوں نے سنامی سے متاثرین کی مدد میں بھی بھید بھائو روا رکھا اور ان کی یہ کوشش رہی کہ ریلیف فنڈ ان لوگوں کو دیا جائے جو ان کی مرضی کے اسلام (سلفیت) کی پیروی کے لیے تیار ہوں -
مالدیپ حکومت نے سلفی حضرات کی سرگرمیوں سے پریشان ہو کر ان کے تمام نیٹ ورک پر پابندی عائد کرنا شروع کر دیا ہے کیوں کہ اسے پتا ہے کہ جنت سے جہنم کا راستہ بہت دور نہیں ہے-
کور اسٹوری کی تلخیص سے چند باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں (۱) میڈیا سیاسی اسلام سے بہت زیادہ خوف زدہ ہے(۲) شعوری یا لا شعوری طور پر پوری دنیا میں سلفی اسلام کے ذریعہ اسلام کی رسوائی اور بدنامی ہو رہی ہے اور اس پورے منظر نامے میں ابن تیمیہ کی حیثیت ایک ہیرو یا ویلن کی ہے(۳) سرکاری ذرائع سے فراہم سلفی حضرات (میری مراد ہندوستانی سیاق میں ہے جس میں دیو بندی ،جماعت اسلامی اور اہل حدیث حضرا ت سب کسی نہ کسی طرح ابن تیمیہ کے فکری خوشہ چین ہیں) کے دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہونے کی خبر پر اگر آنکھ بند کر کے یقین نہیں کیا جا سکتا تو اس کی صحت کے امکان کو یکسر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا (۴) جماعت اسلامی ایک ایسی تنظیم ہے جو اپنے خدو خال علاقائی اعتبار سے متعین کرتی ہے، شمالی ہندوستان میں اگر وہ ایک طرف صوفیہ اور ان کے رسوم و روایات کے خلاف سخت گیر نظر آتی ہے تو دوسری طرف جنوبی ہندوستان میں وہ میوزک، فلم اور دوسری ثقافتی سوسائٹیوں کی سر پرستی بھی کرتی ہے، شمالی ہندوستان میں ان کا ایجنڈا اگر عموما مذہبی ہوتا ہے تو جنوبی ہندوستان میں تعمیری، تربیتی  اور کمیونسٹ و استعماریت مخالف، اور یہ علاقائی اثر ہی کا نتیجہ ہے کہ مودودی صاحب کی کتاب ’’ پردہ‘‘ کی اشاعت اب تک ملیالم زبان میں نہیں ہو سکی ہے-
کور اسٹوری سے متعلق میں چند سوالات قائم کرتے ہوئے گزر جانا چاہتا ہوں (۱) کیوں میڈیا دہشت گردی کے ساتھ اسلام کے مقدس لفظ کو جوڑتا ہے جب کہ خود اس کا ہی ماننا ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا؟ (۲) اور اگر وہ دہشت گردی کے ساتھ اسلام کا اضافہ امتیاز کے لیے کرتا ہے تو پھر وہ ہندو دہشت گردی یا یہودی دہشت گردی کی اصطلاح استعمال کیوں نہیں کرتا؟ (۳) اسلامی دہشت گردی اور اسلام پسندی کے ارتقائی جائزے کے لیے میگزین کا اہم ترین کالم وقف کر دیا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں آر ایس ایس، بجرنگ دل جیسی تنظیموں کے نشو ونما اور ان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر سیمی جیسی تنظیمیں سیکولر ہندوستان کے لیے چیلنج ہیں تو کیا ہندو دہشت گرد تنظیمیں ہندوستان کے ماتھے کا جھومر ہیں؟ میرے خیال میں سیکولر ہندوستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج میڈیا کا دوہرا معیار ہے، انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سکے کے دونوں رخ دکھائے جائیں - درحقیقت اس سلسلے میں راز پنہاں یہ ہے کہ دہشت گردی کی تو صرف دہائی دی جا رہی ہے ، امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رامسی کلارک کے مطابق اصل نشانہ پر اسلام ہے ،امریکہ اسلام سے خوف زدہ ہے کیوں کہ اسلام نے افریقی ، امریکی نسل کے لوگوں کو امن، سکون ، عظمت کیوں وقار اور ایمان عطا کیا ہے جس کی وجہ امریکہ کا مادّی مفاد دائوں پر ہے (دیکھیے رامسی کلارک کا انٹرویو، دی ہندو ۱۷؍ دسمبر ۲۰۰۷ء) اور اسی بنا پر اسلام اور دہشت گردی کی افواہ پھیلائی جا رہی ہے-
دوہرا رویہ:- 
ایسا عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جب کبھی دہشت گردی کے حوالے سے ان جماعتوں کے ملوث ہونے کی خبر آتی ہے جو سواد اعظم اہل سنت و جماعت اور مسلک صوفیہ سے الگ ہیں تو فوراً ہی اس طرح کی خبروں کو بے بنیاد ٹھہرا دیا جاتا ہے اور پھر تصوف و صوفیا کی دہائی دی جاتی ہے، ابھی کچھ دنوں قبل اجمیر بم دھماکے میں کچھ سلفی حضرات کے ملوث ہونے کی خبر آئی تو فوراً ہی جماعت کی جانب سے تردیدی بیان شائع ہوا اور کہا گیا کہ حضرت شیخ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ہم سب کے آقا اور سرتاج ہیں، لیکن دوسری طرف جب کبھی موقع ملتا ہے تو یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ صوفیہ کی ان تمام جماعتوں نے عالم اسلام کو کھوکھلا کر دیا ہے(دیکھیے اداریہ مجلہ الفرقان، عربی : جون ، جولائی ۲۰۰۶ء) اور کبھی کویت سے شائع ہونے والے سلفی مجلہ المجتمع میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ صوفیا کے تمام گروہ گمراہ اور گمراہ گر ہیں ، بلکہ کچھ لوگوں کی قبائے حیا یہ کہنے میں بھی تار تار نہیں ہوتی کہ خواجہ غریب نواز تو (معاذ اللہ) ایک سَنْت تھے مسلمان نہیں،ایسے حضرات سے میں صرف ایک ہی گزارش کروں گا  ؎
دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سرا سر موم ہو جایا سراسر سنگ ہو جا
ویسے یہ حضرات اگر اپنے رول ماڈل شیخ ابن تیمیہ ہی کی بات پر کان دھر لیں تو معامل حل ہو جائے لیکن اصل پریشانی ان کے ساتھ یہ ہے کہ جب یہ پھنستے نظر آتے ہیں تو امام مالک سے استعانت کرتے ہوئے ان کا یہ قول کل یوخذ من قولہ و یردالا صاحب ہذا القبر (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کچھ بات مقبول اور کچھ مردو ہے) پیش کر کے راہ فرار اختیار کرتے نظر آتے ہیں، شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
’’صوفیہ کبھی اپنے زمانے کے صدیقین میں ہوتے ہیں اس بنا پر کہ ان میں بہتوں سے اجتہاد واقع ہوتا ہے اور اس سے نزاع و اختلاف واقع ہوتا ہے، لوگوں کا ان کے طریقہ کے بارے میں اختلاف ہے، ایک جماعت صوفیا اور تصوف کی مذمت کرتی ہے اور ایک جماعت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے افضل و کامل ہیں ، یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرات اللہ کی اطاعت میں کوشش کرنے والے ہیں…تو ان میں اپنی کوشش کے لحاظ سے سبقت کرنے والے اور مقرب ہیں اور ان میں درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہیں جو اہل یمن سے ہیں اور دونوں قسموں میں کچھ لوگ کبھی اجتہاد کرتے ہیں اور ان سے کبھی غلطی ہوتی ہے‘‘-(التصوف والصوفیۃ فی ضوء الکتاب والسنۃسید یوسف ہاشم رفاعی کویت، اردو ترجمہ: شاہ قادری سید مصطفی رفاعی جیلانی، ص: ۹۱ ،مطبع الاصلاح بنگلور، سن اشاعت ۱۴۲۵ھ/۲۰۰۴ء)
صوفی اسلام سے میڈیا کی محبت کا راز:- 
اس وقت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ صوفی اسلام کی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں اور یہ آواز بلند کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ صوفی اسلام لوگوں تک پہنچایا جائے، آخر راز کیا ہے؟ کیا واقعی میڈیا صوفی اسلام کے تعلق سے سنجیدہ ہے؟ اور اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور کیا ہم یہ مان لیں حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ اور شیخ ابن عربی علیہ الرحمہ کی شخصیتوں اور ان کی تحریروں سے مغربی دنیا کا شغف کسی نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے؟ میرا اس سلسلے میں اپنا خیال یہ ہے کہ اس بابت بہت زیادہ خوش فہمی میں رہنا خام خیالی کے مترادف ہے،ایسا یقینا ہے کہ ان حضرات کے پیغام محبت و انسانیت سے متاثر ہو کر لوگ اسلام کے مطالعہ میں مصروف ہیں اور ان کی تحریروں کی مانگ مغربی مارکیٹ میں بہت بڑھ گئی ہے- لیکن یہ بھی ناقابل انکار سچائی ہے کہ ان حضرات کی تحریروں کے جو ترجمے شائع ہوئے ہیں اور ان کی شخصیتوں پر جو کام ہوئے ہیں وہ اس نوعیت کے ہیں کہ ہم جماعت صوفیہ سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اسے مکمل طور پر اپنا نہیں سکتے، کیوں کہ ان کی شخصیت کو وحدت ادیان کے نمائندے اور ان کے افکار کو اس نظریے کے ناطق کے طور پیش کرنے کی بھر پور کوشش ہو رہی ہے، ان کے حوالے سے آئی تحریروں کو پڑھنے کے بعد ایک سادہ لوح مسلمان اس نتیجے تک پہنچنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتا کہ واقعی سارے مذاہب کی روحانیت برحق ہے اور سب کا سر چشمہ دراصل ایک ہی ہے - درحقیقت پوری دنیا کی یہ خواہش ہے کہ اسلام کے تعلق سے مسلمانوں کا جنون ختم یا کم ہو یا کم از کم وہ یہ باور کر لیں کہ دنیا کے سارے مذاہب سچے ہو سکتے ہیں- ابھی چند ماہ قبل پونے کے ایک اسکالر نے مشہور انگریزی اخبارThe Hinduمیں لکھا تھا ’’ بڑے افسوس کی بات ہے کہ میں اپنی پوری کوشش کے باوجود اپنے مسلمان دوستوں کو یہ یقین کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام میں بھی کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہیں‘‘ اور اسی طرح کی کوشوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان شعوری یا لاشعوری طور پر وحدت ادیان کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں-
آخری بات:- 
اب ایسے میں ہم اہل سنت و جماعت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ نہ تو اسلام کے نام پر سلفی نظریہ جہاد کی حمایت کریں اور نہ ہی صوفیہ اور تصوف کی وہ صورت قبول کریں جسے پیش کیا جا رہا ہے بلکہ سواد اعظم سے منحرف جماعتوں کی فکر ی کمزوریوں کو اجاگر کر کے تصوف کے رخ روشن کو دیدار عام کے لیے واکر دیا جائے، دہشت گردی کے مفاہیم و معانی واضح کیے جائیں اور بتایا جائے کہ جہاد ( بمعنی قتال) ایک مقدس فریضہ ہے جو عدل و مساوات، امن و امان کی حکمرانی، ظلم و ستم کی بیخ کنی کے لیے بوقت ضرورت ہتھیار کے استعمال سے عبارت ہے اور اس قدر تشدد سے جو بظاہر تشدد ہے اور در حقیقت امن کا پیام بر ، بوقت ضرورت گریز ایک مجرمانہ قدم ہی کہا جا سکتا ہے- ابھی کچھ دنوں قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ستیہ گرھ تحریک کی بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاحی خطبہ پیش کرنے کے بعد تبّت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ صاحب نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر کوئی انسان کسی انسان کے خلاف سازشوں کا جال بنتا ہے اور وہ اسی انسان سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتا ہے تو یہ تشدد ہے یا عدم تشدد، انہوں نے کہا کہ یہ بھی تشدد ہی کے زمرے میں آئے گا لیکن اگر والدین یا استاذ اپنے بچوں کے ساتھ کسی حکمت کی وجہ سے تشدد کو بروئے کار لاتے ہیں تو اسے عدم تشدد ہی مانا جائے گا ، کیوں کہ اعتبار مآل اور نتیجے کا ہوتا ہے، گاندھیائی فلسفہ عدم تشدد کا مداح اگر تشدد اور عدم تشد د کی یہ تعبیر و تشریح کر سکتا ہے تو ہم دنیا کے سامنے یہ واضح کیوں نہیں کر سکتے کہ اسلام کے نظریہ قتال میں فلسفہ امن مخفی ہے-
حاصل یہ کہ اسلام سے وابستگی میں تصلب چاہیے، نہ تساہل اور نہ ہی تشدد کیوں، کہ بڑی ہی خوبصورت بات خوشتر نورانی صاحب نے اپنے اداریے ’’اعتراف حقیقت‘‘ میں لکھی ہے کہ تصلب سے وابستہ شخص اور نظریے دونوں کی نشو و نما ہوتی ہے، صلح کلیت سے شخصیت کا نقصان ہوتا اور وہ شکوک کے دائرے میں گھر جاتی ہے اور تشدد سے متعلقہ نظریے کا ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے اور وابستہ افراد کو برے انجام بھگتنے پڑتے ہیں-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔