Thursday 31 August 2017

نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ---- ذیشان احمد مصباحی

0 comments
 قلبی واردات ------------------ ذیشان احمد مصباحی
اگست۲۰۰۸ء کی صبح ڈاکٹر خواجہ اکرام،مولانا خوشترنورانی،مولانا سجادعالم مصباحی اورراقم السطور پرمشتمل کارواں بدایوں کے لیے بذریعۂ کار روانہ ہوا، راستے بھرمختلف موضوعات زیربحث رہے، پھرذکرآیاامام علم وفن حضرت خواجہ مظفرصاحب عمت فیوضھم کا- خوشترصاحب کہنے لگے کہ میرے استاذ بھی کیا عجیب وظریف واقع ہوئے ہیں- کچھ دنوں سے میں نے حضرت کی خیرخبرنہ لی تھی،اس پرحضرت کا نقدظریف سنیے- کل فون آیا، کہنے لگے کہ ’’بھئی خواجہ مظفرکاانتقال ہوگیا‘‘میں نے عرض کی’’خدانہ کرے، حضرت کواورلمبی عمرملے-‘‘ کہنے لگے ’’ارے صحیح بات ہے، خوشترصاب کوفون کرکے معلوم کیجیے-‘‘
 خوشتر صاحب کہتے ہیں کہ ’’میں حضرت کامدعا سمجھ گیا کہ وہ مجھ سے ہی میری شکایت کررہے ہیں- گفتگو اورانداز گفتگو پرتوزورکی ہنسی آئی لیکن اندرسے اپنی کوتاہی پرشرمندگی ہوئی-‘‘ پھربات آئی کہ ہردن ہزاروں انسان مرتے ہیں لیکن بہت کم موتیں ایسی ہوتی ہیں جن پرایک زمانہ افسوس کرتاہے- میں نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’خدانہ کرے،اگران کے ساتھ اس طرح کا کوئی سانحہ پیش آگیا توجماعت کوکتنا بڑادھچکا لگے گا- ایک نئے انقلاب کے آثارمٹتے ہوئے نظرآئیں گے-‘‘خواجہ اکرام صاحب نے ناصحانہ فرمایا’’آپ کوایسا خیال کیوں آتاہے؟ یہ منفی خیال ہے-‘‘اس ردعمل پرمیری زبان خاموش ہوگئی لیکن دل دیرتک مجھ سے پوچھتا رہا کہ’’موت جس کے یقینی ہونے پرہرکافرکا ایمان ہے اوراس بات پربھی ایمان ہے کہ اس کے لے کسی وقت اورکسی عمر کی قیدنہیں،پھربھی انسان اس سے غافل کیوں ہے؟یاکیوں بکوشش اس سے غافل بننا چاہتاہے-؟‘‘
دوپہرکے وقت ہم بدایوں تھے، ۴؍بجے ’’مولانا عبدالماجد بدایونی پبلک لائبریری‘‘ اور’’قاضی دانیال انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ کمپیوٹر ٹکنالوجی‘‘کا افتتاح ہونا تھا- ہم مدرسہ قادریہ سے مدرسہ شمس العلوم گھنٹہ گھربدایوں پہنچے جوچند سوقدم کے فاصلے پرہے-حمدونعت کے بعدصاحب زادہ مولانا اسیدالحق عاصم قادری افتتاحی کلمات کے ساتھ کھڑے ہوئے- دل جذبات سے لبریز اورآنکھیں سرخ تھیں،خانقاہ بدایوں کی علمی وعملی پیش رفت کا تذکرہ مسرت، محبت،جوش اورتشکر کے ملے جلے جذبات میں کرتے ہوئے مولانا عبدالماجد بدایونی پبلک لائبریری کے بارے میں عجیب واقعے کا انکشاف کیا-وہ یہ کہ آج جس لائبریری کاافتتاح ہو رہا ہے اس کی تعمیر مولانا عبدالماجد بدایونی نے اپنی زندگی میں آج سے ۹۰؍سال قبل کردی تھی،الماریاں بن گئیں، کتابیں آگئیں، افتتاح کے لیے تاریخ رکھی جاچکی، اس کے لیے ضلع بدایوں کے انگریز کلکٹر مسٹر انگرام اور والی بھوپال کی شرکت کی منظوری لے لی گئی-لیکن پھرتحریک آزادی میں گرمی پیداہوئی اورمولانا اس میں مصروف ہوگئے- یہ مصروفیت اس طرح حائل ہوئی کہ یہ کام رکاتورکارہ گیا-مولانا نے کہا کہ ’’دیرسے سہی،مگراللہ کاشکرہے کہ کام کا آغاز ہوگیا- واضح رہے کہ یہ کام کا آغاز ہے انجام نہیں، کام ان شاء اللہ ہوتا اوربڑھتا رہے گا-‘‘ اس حوالے سے تمام سرگرمیوں کامحرک مولانا نے اپنے والدشیخ طریقت حضرت مولاناعبدالحمید سالم قادری زیب سجادہ آستانہ قادریہ بدایوں کوقراردیتے ہوئے کہاکہ’’ بعض حضرات نادانی میں یہ کہہ جاتے ہیں کہ جب سے مولانا اسیدالحق آئے ہیں بدایوں میں کام کا آغاز ہواہے، مجھے اس بات سے سخت تکلیف ہوتی ہے-کام توآج سے ۳۰؍سال پہلے شروع ہوگیاتھاجب میرے والد گرامی نے میری تربیت فرمانی شروع کی تھی- اگر لوگ مجھے کسی لائق سمجھتے ہیں اورمیں کچھ ہوں تووہ سب حضرت کی تربیت اور ان کے فیض نظرکا اثرہے- اس لیے میں یہ نہیں مانتا کہ کام آج شروع ہواہے- ہاں !یہ کہاجاسکتاہے کہ اب کام میں تیزی آئی ہے-‘‘
مولانا اسیدالحق صاحب نے اپنی افتتاحی تقریرمیں ہی ماحول کوجذباتی بنادیاتھا-ان کے بعدڈاکٹر خواجہ اکرام اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردوجواہرلعل نہرو یونیورسٹی دہلی جواس تقریب کے مہمان خصوصی تھے، اظہارخیالات کے لیے کھڑے ہوئے اورمحفل کومزید جذباتی بنادیا اوریہ کہتے ہوئے خودنم دیدہ ہوگئے اورپوری محفل پررقت طاری کردی کہ ’’اگر خدانے کل قیامت کے دن مجھ سے کسی نیکی کاسوال کیا تومیں اس بزم کی یاد کوپیش کردوں گا‘‘ ڈاکٹر صاحب کے بعدآستانہ قادریہ کے زیب سجادہ حضرت شیخ سالم میاں دعائیہ کلمات کے لیے کھڑے ہوئے اورچندکلمات ہی کہہ سکے کہ اشکہاے مسرت اورجذبات محبت نے ان کی زبان گنگ کردی اوروہ بیٹھ گئے-پھرمولانا اسیدالحق صاحب کی مرتب کردہ کتاب’’تذکرۂ ماجد‘‘ کی رونمائی اورلائبریری وانسٹی ٹیوٹ کی رسم افتتاح اداکری گئی اوراس کے ساتھ ہی محفل اختتام پذیرہوگئی- میں ان خانقاہی لوگوں کا رونا دھونا، جذبات کی طغیانی اوراشکوں کا سمندر دیکھ کردیرتک خودکویقین دلاتا رہا کہ کیا یہ واقعی سچ ہے؟ خانقاہیں جوکہ وجدوسماع کے بعدرقص وسرود کی محفل میں تبدیل ہوگئی تھیں، اپنا رخ حال سے قال اورپھرمال کی طرف کرلیاتھا اورخانقاہیوں نے حافظ شیرازی کے مجاز’’ دلم درعاشقی آوارہ شد آوارہ تربادا‘ کوحقیقت میں تبدیل کردیاتھا،کیا وہاں پھرماضی کی بہاریں لوٹ سکتی ہیں؟ بلکہ یہ بھی غلط ،یہاں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کیاآج بھی ایسی خانقاہیں موجودہیں جہاں ماضی کے سوزوساز، ادب واحترام،محبت، جذبہ، انسانیت،مروت، خدمت خلق، آہ وفغاں اورجنون وسرمستی کے جلوے موجودہیں؟ کیا اقبال کی یہ بات سچ ہے کہ ’’جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں؟‘‘ دیرتک اسی قسم کے سوالات میرا تعاقب کرتے رہے-
رات میں مدرسہ شمس العلوم کے جلسۂ عام میں مدرسے سے فارغ ہونے والے ۹؍حفاظ کی دستاربندی ہوئی، یہ منظر اہل بدایوں کوشمس العلوم جیسے سوسالہ قدیم ادارے میں پچھلے دوعشروں کے بعددیکھنے کوملاتھا- ’’مسلمانوں کے عروج وزوال کے اسباب‘‘ کے موضوع پرمولانا اسیدالحق کے چھوٹے بھائی صاحب زادہ مولانا عبدالغنی عطیف میاںعشقی کا پربہارخطاب ہوا،لیکن بقول شخصے وہ صرف ہوامیں لاٹھی گھما رہے تھے جواپنے آپ میں نقص ہویا حسن، موجودہ خطابت کی شان ہے-ایسی تقریروں کے مخالفین کی اگرفہرست بنائی جائے تومیرا خیال ہے کہ مولانا خوشترنورانی مدیراعلیٰ جام نورکا نام کم ازکم تیسرے نمبرپرضرورآئے گا-(اورممکن ہے کہ پہلے اوردوسرے پربھی انہی کا نام آئے) میں نے دیکھا کہ جناب پہلوبدل رہے ہیں-میں نے دل میں کہا ’’ محترم !اپنی میزپربیٹھ کرتوایسی تقریروں کی بڑی کھلیاں اڑاتے ہو، اب بولوکیا ہوگا؟نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘
عطیف میاں کے بعدمولانا قمراحمداشرفی مصباحی مشیراعلیٰ جام نورجوبطور خطیب خصوصی تشریف لائے تھے خصوصی خطاب کے لیے کھڑے ہوئے- عطیف میاں نے اپنے خطاب سے مولانا کا ذہن بنادیاتھااس لیے انہی کے موضوع پر’’انتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘ کی تفسیر وتاویل کرتے ہوئے مولانا نے زبردست، فکرانگیز اوریادگار خطاب فرمایا- عوام کے علاوہ پورااسٹیج بشمول مولانا عبدالغنی عطیف میاں قادری ہرہربات اورہرہر نکتے پرتحسین وآفریں کہتا رہا- ایک خطیب اپنے بعدآنے والے کا میاب خطیب کوگالیاں دینے کی بجائے کھل کرداددے،یہ میری زندگی کا پہلاواقعہ تھا-یہی نہیں، جلسے کے اختتام کے بعدعطیف میاں شروانی کا کپڑا لے کرآئے اورمولانا قمراحمداشرفی کونذرکیا،انہیں ایک جلسے کی دعوت دی اورہنستے ہوئے کہا کہ پھرمیں اس میں ایک ’’بورٌعلی بور‘‘تقریر کرکے آپ کا موڈبنادوں گا اورآپ شاندار خطاب فرمائیں گے- پریم چندنے کہیں لکھا ہے کہ ایک چورکودوسرے چورسے ایک شرابی کو دوسرے شرابی سے توگہری محبت ہوتی ہے لیکن ایک پنڈت کودوسرے پنڈت یاایک ملا کودوسرے ملا سے کبھی نہیں بنتی‘‘ مجھے پریم چندکی اس رائے پراعتمادنہ رہا کیوں کہ میں نے سرکی آنکھوں سے ایک ملاخطیب کودوسرے ملا خطیب کی تعریف وتوصیف کرتے دیکھ لیا ہے-
۸؍اگست کی صبح ہماری وہی کا رمولانا قمراحمداشرفی کے اضافے کے ساتھ ہمارے اسی کارواں کولیے دہلی شاہراہ پردوڑرہی تھی،راستے بھربطورخاص مولاناکی تقریر پرتبصرہ وتجزیہ ہوتا رہا،واقعی مولاناکی وہ یادگار تقریرتھی، خواہش مندحضرات اس کے بعض اہم حصے نیوایج میڈیا
اینڈریسرچ سینٹر کی ویب سائٹ پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں،ویب سائٹ ہے:
www.newagemediacentre.comشام۴؍بجے ہم
 دہلی تھے،اپنی قیام گاہ پہنچ کرمیں نے غسل کیا،کپڑے بدلے، کچھ ضروری کام کیے اورپھر سوا۹بجے کی ٹرین پریاگ راج سے الہٰ آباد کے لیے روانہ ہوگیا-
۹؍اگست کی صبح میں الہٰ آباد میں تھا،وہاں سے ۲۲؍کلو میٹر کے فاصلے پرمغرب کی سمت واقع سیدسراواں کی خانقاہ میں حاضرہوا، علی گڑھ سے مولانا مجیب الرحمن علیمی بھی میرے ساتھ تھے- ۹؍بجے کے قریب ہم سیدسراواں کی خانقاہ میں پہنچ گئے تھے،جہاں سے مولانا امام الدین کے ہمراہ ۵۰؍کلومیٹر جنوب مغرب کی سمت واقع جہانگیرنگر ضلع فتح پورجاناتھا، ۳؍بجے ہم لوگ جہاں گیرنگرتھے،جناب سیدغلام غوث صاحب شیخ طریقت ہیں جن کا اپنا حلقۂ اثرہے،اعلیٰ درجے کے مخلص، خلیق اورشریف النفس ہیں، بلکہ یہ کہا جائے کہ اس دورمیں یہ الفاظ انہی پرچسپاں ہوتے ہیں توبے جانہ ہوگا-ان کے والد شیخ طریقت سیدولی الدین رحمۃ اللہ علیہ ۵۰؍سال قبل جب اس بستی میں آئے تھے تویہ چوری، ڈکیتی، شراب اورجواکا اڈہ تھی، جسم فروشی یہاں عام تھی-سیدصاحب یہاں اقامت گزیں ہوئے اورپھریہیں کے ہوکررہ گئے-ان کی نگہ کیمیا کا اثریہ ہواکہ آج اس بستی کے اکثرافرادکے سروں پرٹوپی ہے- انہوں نے یہاں مدرسہ اورمسجدکی تعمیر کردی، دارالبنات قائم کرنے کی بھی خواہش تھی جسے ان کے بعدان کے فرزند خوش خصال جناب سیدغلام غوث صاحب نے تین سال قبل جامعہ ولیۃ البنات السعیدیہ کے نام سے ادارہ قائم کرکے پورا کردیا- مقامی طالبات کے علاوہ۵۰؍کے قریب طالبات یہاں ہوسٹل میں رہ کرتعلیم حاصل کررہی ہیں- تعلیم معیاری ہے تین سال کے مختصر عرصے میں جماعت ثالثہ تک تعلیم ہورہی ہے- طالبات کا امتحان لینے کے بعداندازہ ہواکہ ادارے کے بانی وناظم کا خلوص بانتیجہ ہے اورمولانا عابدحسین مصباحی اوران کی اہلیہ (صاحبزادی ڈاکٹر شکیل احمداعظمی مصباحی) کی کاوشیں رنگ لارہی ہیں- مستقبل میں اس ادارے سے اچھی امیدیں وابستہ ہوچلی ہیں، محترم سیدصاحب سے مجھے عقیدت سی ہوگئی ہے- وہ اپنے والدبزرگوار کا ذکرباربارکرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ’’والدصاحب فرمایاکرتے تھے کہ میں غریبوں کا پیرہوں،غریبوں میں رہتا ہوں- انہو ںنے مجھے ممبئی جانے سے سختی سے منع کیا ہے-فرمایاکرتے تھے کہ ممبئی امیروں کا شہرہے، وہاں مت جانا ورنہ تمہارے اندر دنیا داری پیداہوجائے گی-‘‘وہاں مجھے پھراقبال کا مصرع یادآیا’’جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں-‘‘
۱۰؍ اگست کوعصربعد پھرخانقاہ سید سراواں حاضرہوا، یہاں بحرالعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی صاحب کی زیارت ہوئی، حضرت یہاں سالانہ امتحان لینے کی غرض سے تشریف لائے تھے- معلوم ہواکہ ابھی ابھی حضرت نے وہاں موجود علمائے کرام مولانا محمدکتاب الدین رضوی، مولانا محمداشتیاق عالم مصباحی، مولانا محمدمجیب الرحمن علیمی، مولانای محمدثاقب عارفی،مولانامحمدضیاء اللہ نوری، مولانا مشاہد حسن مصباحی اورمولانا عمران کوتبرکاً بخاری شریف کا درس دیاہے-صاحب سجادہ حضرت ابوسعید شیخ احسان اللہ چشتی صفوی دام ظلہ نے حضرت مفتی صاحب سے صاحب زادہ مولاناحسن سعید کوبھی اس شرف سے مشرف کرنے کی درخواست کی-درخواست قبول ہوئی اورصاحبزادۂ موصوف کے طفیل مولانا امام الدین اورراقم السطور نے بھی درس بخاری میں شریک ہوکرحضرت مفتی صاحب سے تلمذ کی سعادت حاصل کرلی- فالحمدللہ علیٰ ذالک-
بعدنماز مغرب حضرت بحرالعلوم صاحب کے ہمراہ الہٰ آباد کے لیے روانہ ہوا، ساتھ میں ان کے نواسے مولانا نذیرمنانی اوراستاذ جامعہ عارفیہ مولانا عرفان حبیبی بھی تھے- پریاگ راج اپنے متعینہ وقت ساڑھے نوبجے دہلی کے لیے روانہ ہوگئی- راستے بھر بس ایک ہی خیال ہم سفر رہا-وہ یہ کہ آج حالات عجیب اور متضاد ہیں-بعض ممالک،بعض مدارس اوربعض افرادکودیکھ کراسلام اورمسلمانوں کے حوالے سے سخت مایوسی ہوتی ہے تووہیں دو سری طرف بعض دوسرے ممالک، مدارس، حالات اورافراد کودیکھ کرخوشی ہوتی ہے- مشرق میں مادیت کا عروج اورحجاب سے بیزاری ہے تومغرب میں روحانیت کی طلب اورحجاب اوڑھنے کے لیے قانونی جنگ لڑی جارہی ہے-اللہ اپنے دین کا کام جس سے،جیسے اورجہاں چاہے لے، اس پرکسی کی مرضی نہیں چلتی-
۱۱؍اگست کی صبح ۸؍بجے جب میرے سفرکا اختتام ہورہاتھا اورذاکرنگردہلی میں اپنی قیام گاہ پر اب پہنچنے ہی والاتھا کہ ایک بچے کا جنازہ میرے سامنے سے گزرا،خیال آیا کہ زندگی میں سفرکے لیے توہم کتنا اہتمام کرتے ہیں لیکن زندگی کے سفرجس کا انجام یقینی اورانجام کا وقت غیریقینی ہے،سے بالکل غافل ہیں- کہتے ہیں کہ گوتم بدھ نے جب ایک جنازہ، ایک مریض اورایک بوڑھے شخص کودیکھاتوان پردنیا کی حقیقت منکشف ہوگئی لیکن ہم ہرروز یہ مناظردیکھتے ہیں مگرپھر بھی ہماری آنکھوں سے حجاب نہیں ہٹتا-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔