Thursday 31 August 2017

خطرات کے بادل ----- مصنف: مولانا سید رکن الدین اصدق چشتی

0 comments
خطرات کے بادل
                  مصنف: مولانا سید رکن الدین اصدق چشتی
                  صفحات: ۱۲۸
                  ناشر : مدرسہ اصدقیہ ، مخدوم شرف ( بہار شریف)
                  تقسیم کار : مکتبہ نعیمیہ ،مٹیا محل،جامع مسجد ،دہلی
                  تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
عالم اسلام کے سیاسی و سماجی زوال کے اسباب و علل پر گہری نظر رکھنے والے مصنف اسرار عالم نے اپنی کتاب ’’ عالم اسلام کی اخلاقی صورت حال‘‘ میں علی مسعود کے حوالے سے زوال امت کے جو۷؍ اسباب گنوائے ہیں، ان میں فروغ وہابیت کو اول نمبر پر رکھا ہے، زیر نظر کتاب میں زوال امت کے اسی اہم ترین سبب کے آغاز، اس کے پس پردہ عوامل و مقاصد اور تدریجاً اس کے عروج و ارتقاء کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور وہابیت کی بھیانک آگ سے امت کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کتاب میں زیادہ زور اس تحریک کی نظر یاتی تباہ کاریوں کو بے نقاب کرنے میں صرف کیا گیا ہے، جو قابل ستائش ہے، لیکن میرے خیال میں اس تحریک سے امت سیاسی سطح پر بھی جس طرح بے دست وپا ہوئی ہے، اس کی داستان کم اندوہ ناک نہیں ہے، خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد سیاسی سطح پر امت مسلسل پستی کی طرف گامزن ہے، آج پوری دنیا میں امت مسلمہ سیاسی سطح پر بے دست و پا ہونے کے سبب جس کرب میں مبتلا ہے اس سے نجات دلانے کے لیے عالم اسلام کے قائدین پر واجب ہو گیا ہے کہ وہ امت کے سیاسی زوال کے بنیادی اسباب پر سنجیدہ غور و فکر کریں اور امت کو مزید آزمائشوں میں پڑنے سے پہلے عالمی سطح پر زوال امت کی بنیاداور اس کی سر بلندی کے راز کے تعلق سے اپنا موقف واضح کریں۔
وہابیت پر جب گفتگو ہوتی ہے تو عموماً زبان و قلم پر عقلیت سے زیادہ جذباتیت غالب آ جاتی ہے، وہابیت مخالفین پر بھی اور وہابیت موافقین پر بھی، مخالفین پر تو اس لیے کہ وہ تحریک کے منفی اثرات کو دیکھتے ہیں جن سے مذہب سے سیاست تک اور دین سے دنیا تک ہر شعبہ متاثر ہوا ،مولانا اصدق صاحب کا قلم بھی کہیں کہیں جذباتیت کا شکار ہو گیا ہے، مثلاً ایک جگہ انہوں نے وہابیت کو ایک نیا دین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ نظریاتی گمرہی الگ چیز ہے اور نئے مذہب کی تشکیل الگ ہے۔ و ہابیت کے موافقین پر اس لیے جذباتیت غالب آ جاتی ہے کہ وہ پیشگی طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک خالص توحید یے جماعت کے رکن ہیں، اس لیے اس جماعت کا دفاع ان پر بہر کیف واجب ہے۔ جب کہ وہابی تحریک کے تعلق سے موافق و مخالف ہر دو گروپ کو چاہیے کہ وہ عقلی بنیادوں پر سنجیدہ غور و فکر کرے، اور مذہبی پہلو ئوں پر علمی بحث و نظر کے ساتھ اس نکتے پر غور کرے کہ خطہ عرب مملکت سعودیہ عربیہ بننے کے بعد آخر کیوں اہل اسلام اور اہل کفر کے بیچ ایک معمہ بنا ہوا ہے؟ اور دونوں طرف کی خوشامدیں اسے کیوں کرحاصل ہیں؟ مسلمان مذہبی جذبات کے سبب اسے تقدس کا درجہ دیے ہوئے ہیں تو اسلام مخالف طاقتوںنے پورے عالم اسلام پر شکنجہ کسنے کے باوجودسعودیہ عربیہ کی خاندانی بادشاہت اور مطلق العنانیت کو جواز فراہم کر دیا ہے، اس راز سے پردہ اٹھنا چاہیے۔
زیر نظر کتاب دو ابواب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے، پہلے باب میں امت پر چھائے ہوئے خطرات کے بادلوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور اس زہریلی اسٹیم کے متعلق حقائق کا انکشاف کیا گیا ہے جس سے یہ سیاہ مہیب بادل بن کر تیار ہوئے ہیں جب کہ دوسرے باب میں امت کے اس طبقے کی غفلت اور بے فکری کو پیش کیا گیا ہے جو اس بات کا اہل اور اس کا ذمہ دار تھا کہ ان بادلوں کو روکتا اور امت کو ان کی ہلاکت خیز یوں سے بچانے کا بندوبست کرتا، خاتمہ میں حضرت مولانا نے بڑے خلوص اور سلیقے کے ساتھ خانقاہوں کے مسند نشینوں ، مدارس کے اساتذہ ، ائمہ مساجد ، خطباء و مقررین اور سرمایہ داروں کی جناب میں اپنی معروضات رکھی ہیں، اوربلا شک و ریب اگر یہ لوگ ان معروضات پر خود کو کاربند کر لیں تو امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی منجدھار سے ساحل کے قریب آ سکتی ہے اور اہل سنت کی دفاعی صورت حال اقدامی صورت حال میں بدل سکتی ہے۔
باب اول میں عہد حاضر کے فکری انحطاط کا ذکر کرتے ہوئے مولانا اصدق رقم طراز ہیں :’’ اسے فکری زوال ہی کہیے کہ آج مسلمانوں کے نزدیک صرف دو چیزیں حق و ناحق کا معیار بن کر رہ گئی ہیں، ایک کثرت مال دوسری سروں کی گنتی‘‘ (ص: ۳۵)
میرے خیال میں اہل قبلہ کی جماعتوں میں سروں کی گنتی کی بنیاد پر حق وناحق کا فیصلہ کرنا یکسر غلط بھی نہیں ہے، بلکہ حدیث رسول ’’السواد الاعظم‘‘ سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے، مولانا خود بھی آگے چل کر لکھتے ہیں :’’معتقدات اہل سنت کی میزان پر اگر نفری شمار کی جائے تو میرا چیلنج ہے کہ آج بھی صحیح العقیدہ مسلمانوں کی تعداد ہر مسلک کے ماننے والوں سے زیادہ ثابت ہوگی۔‘‘ بلا شبہ اہل سنت کی تعداد پوری دنیا میں آج بھی زیادہ ہے، یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں یا تنگ نظریوں کی بنیاد پر اسے ثابت نہیں کر پا رہے ہیں۔
مولانا اصدق نے صفحہ ۴۰ سے ۶۰ تک حجاز مقدس اوراٰل سعود، خطہ نجد سے فتنے کے ظہور اور شیخ ابن عبد الوہاب کی فکر ی تربیت اور ان کی تحریکی سر گرمیوں کے حوالے سے تاریخی گفتگو کی ہے، یہ گفتگو سلجھی ہوئی ہے، حقائق نما ہے،فکر انگیز ہے لیکن اس کے ساتھ اس گفتگو کی علمی کمزوری یہ ہے کہ اس تاریخی بحث میں حوالے کے نا م پر برطانوی جاسوس کی ڈائری ’’ہمفرے کے اعترافات ‘‘ اور پاکستان کے معروف سنی عالم دین مولانا عبد القیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’ تاریخ نجد وحجاز ‘‘ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، یہ حوالے عقیدت مندوں کو خوش کر سکتے ہیں لیکن ایک عام اسکالر کے لیے کافی نہیں ہو سکتے۔
حضرت مولانا اصدق کی کرب میں ڈوبی ہوئی یہ تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے:’’اپنے کانوں سے غفلت کے پردے ہٹا کر میری باتیں سنیے، ان درس گاہوں(وہابیہ کے کلیات البنات) میں سنی گھرانوں کی بچیاں بھی پڑ ھ رہی ہیں، یہ قیاس نہیں میرا مشاہدہ ہے، بلکہ سنی قائدین میں شمار ہونے والوں کی بچیاں بھی وہاں داخل درس ہیں، اب رہا یہ دعویٰ کہ ہماری بچیاں ان کا اثر قبول نہیں کریں گی یا ہم انہیں اپنے سانچے میں ڈھال لیں گے، محض خوش فہمی ہے۔‘‘ (ص: ۶۵)
میری سمجھ میں جماعت اہل سنت میں یہ صورت حال سرمایہ کی کمی کی بنیاد پر پیدا نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ اس کے پیچھے بھی فکری انحطاط کی جلوہ فرمائی ہے، سچائی یہ ہے کہ ہم اب تک تعلیم نسواں کے حوالے سے سنجیدہ ہوئے ہی نہیں، ہم میںتو کتنے وہ ہیں جو اب تک کتابت نسواں کے  مسئلے میں ہی الجھے ہوئے ہیں جب کہ علم حدیث کے واقف کاروں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ حدیث موضوعات کے قبیل سے ہے۔
صفحہ ۶۷ پر مولانا لکھتے ہیں: ’’ سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے سوا کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جس نے عوام کے رد عمل سے بے خوف ہو کر اپنا اصل روپ قوم کے سامنے پیش کر دیا ہو‘‘ گستاخی معاف! ہمیں یہ کہنے کی اجازت بھی ملنی چاہیے کہ اہل سنت و جماعت کے سوا کوئی جماعت ایسی نہیں جس کے قائدین دور اخیر میں حالات کے تقاضے سے بے پروا ہو کر ایک ہی دھن میں سر الاپتے چلے گئے ہوں، ہمیشہ اپنا اصل روپ پیش کرنا ہی جسارت ، ایمان اور حق کا طرہ ٔ امتیاز ہے، لیکن پیش کش کے طریقے میں ہمیشہ ایک ہی ڈھرے پر چلنا دانش مندی نہیں ہے، اسلام نے اظہار حق کے لیے طریق حکمت کو لازم قرار دیا ہے، لیکن بد قسمتی سے ڈھیر سارے لوگ حکمت کے تمام طریقوں کو منافقت اور آزاد روی سمجھ بیٹھے ہیں۔
مولانا صفحہ ۶۹؍ پر اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بہار سنی وقف بورڈ ،بہارمدرسہ ایجوکیشن بورڈ ، بہار اردو کاڈمی اور از یں قبیل دیگر تمام اداروں پر ان ہی کی اجارہ داری ہے اور وہ اپنے مقاصد کے لیے ان کا استحصال کر رہے ہیں۔‘‘
حضرت مولانا کی بارگاہ میں بڑے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ موجودہ دنیا کو Competitionکی دنیا کہا جاتا ہے، یہاں صرف کام کرنے سے کام نہیں بنتا، کام کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کر کے آگے بڑھنے سے اپنا مقام ملتا ہے، آپ جن کی شکایت کر رہے ہیں یہ مقابلے والے لوگ ہیں اور جن کی طرف سے احتجاج کر رہے ہیں یہ شکایت کرنے والے ہیں، یہ واضح فرق ہے جسے ہمیں سمجھنا چاہیے، اس کے ساتھ یہ پہلو بھی ہماری توجہ کا طالب ہے کہ ہم نے غلطی سے میدان عمل کو بہت محدود سمجھ لیا ہے۔
حضرت مولانا اصدق صاحب نے صفحہ ۷۶ پر ایک ذیلی عنوان دیا ہے’’ خطرناک چالوں کے دو نمونے‘‘ اور اس کے تحت ۱۰ ؍صفحات پر محیط ایک فکر انگیز گفتگو کی ہے ، گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ تعلیمی محاذ دو ہیں، دینی ادارے اور عصری ادارے، مولانا کے مطابق ان دونوں محاذوں پر وہابی ازم کے چھاپہ مار دستے پختہ کاری سے کام کر رہے ہیں کیوں کہ ’’ انہیں معلوم ہے کہ ان میدانوں کے ہاتھ آ جانے کے بعد ان پڑھوں اور مزدوروں کا ہی طبقہ رہ جائے گا۔ ‘‘(ص: ۷۶) میری رائے میں یہ صورت حال غم کی نہیں ،خوشی کی دعوت دیتی ہے، جن لوگوںکا نشانہ یہی طبقہ ہے انہیں تو خوشی کے شادیانے بجانے چاہیے، حضرت مولانا نے سنی مذہبی اداروں کی نا کامی کی نہایت صحیح وجہ بیان کی ہے، ان کے نزدیک تعلیم و تربیت کو دوخانوں میں بانٹ کر اور تنخواہ کے عوض صرف تعلیم دے کر اساتذہ کا اپنے کو بری الذمہ سمجھنا مدارس کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔مولانا نے عصری تعلیم سے جماعتی بے رغبتی پر بھی اپنے رنج وغم کا اظہار کیا ہے، جس کا انہیں حق ہے، دراصل کمزوری یہ ہوئی کہ عصری تعلیم کو ایک بڑے طبقے نے مغربی سمجھ لیا ہے او ریہ ایک حد تک صحیح بھی ہے ،کیوں کہ دنیا کی پوری طاقت اسی پر صرف ہو رہی ہے کہ عصری تعلیم کو مغربی بنا دیا جائے، لیکن اسلام پسندوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عصری تعلیم کو اسلامیا نے کی کوشش کریں ،لیکن ہماری فکر ی سطح پر نہ جانے کیوں آج بھی اسکول کے قیام کا تصور گناہ گناہ سا لگتا ہے ۔ اس تصور کے ہوتے ہوئے عصری تعلیم نہ ہونے پر غم کا اظہار ہمیں زیب نہیں دیتا۔
صفحہ ۸۶ سے دوسرا باب شروع ہوتا ہے اور حضرت مولانا رکن الدین اصدق بڑے دردو کرب ، سوز و گداز اور آہ و فغاں کے ساتھ تصویر کے دوسرے رخ سے نقاب اٹھاتے ہوئے علمائے اہل سنت اور قائدین ملت کی موجودہ غفلت ، بے پروائی و بے حسی اور اسلاف کے طریق عمل سے ان کے انحراف کو بیا ن کرتے ہیں، حضرت مولانا کی اس تحریر سے ہم سرسری نہیں گزر سکتے ’’ ہم میں مقبول عام شخصیتیں بے حس ہیں، ہمارے ذی علم اور ذہین افراد کاہل ہیں، ہمارے اکثر خطباء جاہل اور حریص ہیں، ہمارے بیشتر سرمائے دار جماعتی کا ز کے لیے کوتاہ دست اور فضول خرچی میں دریا دل ہیں اور ہماری عوام بے عملی اور بے راہ روی کی شکار ہے، گمراہ جماعتیں اپنی انتھک کوششوں کے سہارے کامیابی کی دہلیز تک پہنچ رہی ہیں تو اس میں بھی دورائے نہیں کہ ہماری جماعتی بے حسی اور کاہلی ان کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہی ہے۔‘‘ (ص: ۸۷/۸۸)
کتاب کے شروع میں ’’ اشاریہ‘‘ کے عنوان سے تقریباً پانچ صفحات پر تمہیدی گفتگو کی ہے، اس میں بھی اختصار کے ساتھ بڑی اچھی اورکا م کی باتیں آ گئی ہیں’’ اشاریہ‘‘ کے اس حصے کو کتاب کا حاصل کہا جا سکتا ہے، قارئین توجہ سے پڑھیں:’’ اس وقت جماعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ لوگ بن گئے ہیں جو اپنے سوا کسی کو بھی سنی نہیں سمجھتے، ہر خانقاہ ان کے نزدیک نا کارہ، ہرادارہ ان کے سامنے ناقابل اعتماد اور ہر سلسلہ ان کی نظر میں مشکوک ہے، وہ اکھاڑہ تیار کر کے آپس میں ہی کشتی کے لیے تال ٹھونک رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ٹکڑوں میں بٹتے جارہے ہیں اور سواد اعظم کا لفظ ہمارے لیے مضحکہ خیز بنتا جا رہا ہے۔‘‘ (ص: ۶)
آغاز کتاب میں حضرت مولانا یٰسین اختر مصباحی کی ’’ تقدیم ‘‘ بھی شامل ہے جو وقیع ہے، جس سے کتاب کی قیمت بڑھ جاتی ہے، ، ضرورت ہے کہ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔