Wednesday 30 August 2017

کائنات تصوف ---- مولف: مولاناسید اشتیاق عالم ضیا شہبازی

3 comments
کائنات تصوف 
         مولف: مولاناسید اشتیاق عالم ضیا شہبازی
         صفحات:۷۳۵
         سن اشاعت : ۲۰۰۹ء 
         ناشر:مولانا ولی العالم اکیڈمی،بھاگل پور(بہار)
         تقسیم کار: مکتبہ جام نور،دہلی
         تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
’’ تصوف اور علم و عمل کے باب میں یہ بات خوش آئند ہے کہ تقریباً تمام بڑی مرکزی خانقاہیں جاگ پڑی ہیں اور اپنے اپنے اعتبار سے ہر جگہ علمی کام ہورہا ہے - نوجوان نسلیں اپنے اسلاف کی اتباع میں اپنی عافیت سمجھنے کی کوشش میں مصروف کار نظر آرہی ہیں- شاید انہوں نے ’’ کیا کھویا کیا پایا‘‘ کا احتسابی عمل شروع کردیا ہے- ضرورت بھی اسی بات کی ہے کہ ماضی کی کوتاہیوں پر ماتم کرنے کی بجائے نئے حوصلے کے ساتھ عملی اقدام میں لگ جایا جائے کہ صرف پچھتاوے سے کچھ نہیں ہوتا-‘‘ (مقدمہ، ص: ۱۲۳،۱۲۴)
حضرت مولانا سید شاہ اشتیاق عالم ضیا شہبازی سجادہ نشیں خانقاہ عالیہ شہبازیہ بھاگلپور ( بہار) کا یہ وہ فکر انگیز اقتباس ہے جو موجودہ حالات میں تصوف کی طرف بڑھتے رجحان اور موجودہ خانقاہوں کے رویوں کی صحیح ترجمانی کر رہا ہے - یقینا یہ سچ ہے کہ آج تصوف کی طرف ملکی وعالمی سطح پر ایک عمومی میلان پیدا ہوا ہے اور بڑے بزرگوں اور نوجوانوں سب میں فکر وعمل کی نئی چنگاری سلگنے لگی ہے- زیر نظر کتاب بھی اسی عمومی بیداری کا ایک حصہ ہے-’’سبز حروف کے شجر‘‘ اور ’’ برگ ثنا حرف حرف‘‘ کے توسط سے اب تک میں حضرت ضیا شہبازی کی شاعری کا مداح رہا- ان کی شاعری جام نور میں بھی چھپتی رہی اور داد تحسین و آفریں وصول کرتی رہی- اردو کے موجودہ نعت گو شعرا میں دو تین ایسے ہیں جن کی شاعری زبان وبیان ، آہنگ و عروض ، فکر و فن، لہجے کی جدت ،مضامین کے تنوع اورواردات عشق و محبت کے لحاظ سے بہت ہی معیاری ہوتی ہے- ان میں ایک بڑا نام حضرت ضیا شہبازی کا بھی ہے- گزشتہ دنوں تصوف پر ان کی تازہ ترین تصنیف ’’ کائنات تصوف‘‘ میرے مطالعے میں آئی، جس کے بعد موصوف محترم کی علمیت، جہد وکاوش ، تصوف نوازی، روشن خیالی اور اعتدال فکری کا بھی قائل ہوگیا- یہ کتاب اسم با مسمیٰ ہے-تصوف کی تعریف، تصوف کی تاریخ، مسائل و مباحث تصوف، رموز و اسرارتصوف جیسے امور پر اختصار، اعتدال ، علمیت اورجامعیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے- اس عظیم خدمت پر مصنف محترم کو دل کھول کر مبارک باددی جانی چاہیے-
شروع میں ۱۰۸ صفحات پر مشتمل ایک مبسوط مقدمہ ہے- مقدمے کا آغاز اس جملے سے ہوتاہے: ’’تصوف کلیۃً اسلام ہے‘‘ مقدمے میں ان کی یہ بات قابل توجہ ہے کہ : ’’ منکرین تصوف کے سرخیل اور سرکردہ کی حیثیت سے علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم اور علامہ ابن حزم وغیرہ کا نام مشہور زمانہ بتایا جاتا ہے اور منکرین تصوف بھی ان ناموں کو بطور استشہادپیش کرتے ہیں اور ایک عرصہ سے ہم اہل سنت کے یہاں بھی یہ خیال فروغ پاگیا ہے حالاں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حضرات کلیۃً تصوف کے منکر نہیں تھے-‘‘مصنف محترم نے اپنے اس دعوے پر شواہد بھی پیش کیے ہیں-مقدمے کے اندر اقسام صوفیہ ، بیعت، تعلیم اخلاق، صوفیہ کا طریقہ ٔ کار، صوفیہ کی خانقاہیں، تربیت پانے والوں کے مختلف طبقات، ترک و تجرید، صوفیہ کے غیر مسلموں  روابط جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے- دہشت گردی عصر حاضر کا ایک عام المیہ ہے اور صوفیہ کے یہاں ہر المیے کا مداوا موجود ہے، اس بات کا لحاظ رکھتے ہوئے دہشت گردی کے مسئلے پر بھی صوفیانہ نظر ڈالی گئی ہے- مقدمے میں ایک علمی وتحقیقی بحث مسئلہ سماع پر کی گئی ہے- قرآن ، حدیث، آثار اور اقوال ائمہ وعلما کی روشنی میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد مصنف لکھتے ہیں : ’’جب مطلق سماع کا حرام نہ ہونااور جائز ومباح ہونا ثابت ہوچکا تو اب جتنی احادیث واخبار و آثار یا فقہا ومشائخ کے اقوال بظاہر مطلقاً حرمت یا کراہت سماع کے تعلق سے بیان کی گئی ہیں ان کو سماع کی حرمت پر دلیل نہیں بناسکتے، کیوں کہ وہ سب کی  سب لہو ولعب کی قید سے مقید ہیں-‘‘ (ص: ۱۹۰)
مزامیر و معازف کی حرمت کے حوالے سے جو احادیث وارد ہیں ان کے تعلق سے اہل علم کے دو موقف بیان کرتے ہوئے مقدمہ میں لکھا گیا ہے: ’’ اس کی مثال ان برتنوں اور پیالوں کی سی ہے جن کا نام خم، مزفت اور دبّاء ہے، جسے وہ اباحت خمر کے وقت استعمال کرتے تھے اور ان میں شراب پیتے تھے- ان کا استعمال بھی کچھ عرصہ تک حرام رہا ——  اس کے باوجود علما، ائمہ دین کے دو طبقے ہوگئے- ایک جماعت تو ان کی ممانعت پر قائم رہی اور دوسری جماعت اس کے جواز کی طرف آگئی—— اسی طرح اس میں (مزامیر میں) بھی دو طبقے ہوگئے- ایک طبقہ تو قدیم عادت کے پیش نظر کہ یہ فساق و فجار کا کام تھا، ممانعت اور احتیاط کی روش کو اختیار کرنے میں ثابت قدم رہا اور دوسرا طبقہ اس کی حقیقت حال اور معنی کے پیش نظر اس سے ملحق رہا- چوں کہ فسق و فجور اور ممانعت شرعی کی آمیزش ہے تو حرام ہے اور ایسا نہیں ہے تو حرام نہیں ہے- واللہ اعلم- ‘‘ (ص: ۱۱۵)
سماع کے تحت ایک بحث یہ بھی چھیڑی گئی ہے کہ سلسلہ قادریہ میں سماع کا رواج کیوں نہیں ہوا؟ اس ضمن میں جو گفتگو ہوئی ہے اس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ غوــث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سماع کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن آپ کے زمانے میںشر کی گرم بازاری،تعیش پرستی اور نغمہ وسرود کی بے جا محافل آرائی ہورہی تھی جس کے پیش نظر بطور احتیاط آپ نے اس کو رواج نہ دینے میں ہی بہتری محسوس کی- مصنف کے لفظوں میں :’’ ایسی حالت میں اس(قوم) کے دسترخوان پر مرغن غذا اس کے لیے سود مند تو کیا ہوتی ایک لقمۂ تر بھی اسے زہر ہلاہل بن کر موت کی آغوش میں پہنچادیتا-‘‘ (ص: ۱۱۷) 
 مقدمے کے بعد جن مباحث پر بطور خاص توجہ صرف کی گئی ہے ان میں تصوف اور علم تصوف کی حقیقت، لفظ صوفی کی تحقیق، تصوف بہ اعتبار حروف تہجی، صوفی کا لفظ کب اور کس کے لیے استعمال ہوا، صوفیہ کی بیان کردہ احادیث اور ان کی حیثیت، تصوف کے مآخذ اور مصادر،مستشرقین کا مطالعہ اور ان کی قسمیں خاصی اہمیت کی حامل ہیں- اس کے بعد تصوف اور کتاب اللہ، تصوف اور سنت رسول اللہ کے عنوان کے تحت اچھی بحث ہے- پھر صوفیانہ مراسم مثلاً خرقہ پوشی، گوشہ گیری، حلقۂ ذکر، ذکر نفی و اثبات، ذوق سماع، بیعت اور اس کی قسمیں، صحبت شیخ، تعظیم مرشد، تصور شیخ وغیرہ مسائل پر بحث کی گئی ہے-اس میں عقیدت مندوں کے لیے مطمئن کرنے والی باتیں ہیں-
صفحہ ۲۵۵؍ سے ایک اچھی بحث شروع ہوتی ہے’’ قرون ثلاثہ کی سیاسی اور سماجی صورت حال کا جائزہ ‘‘ یہ بحث صفحہ ۲۷۴؍ تک پھیلی ہوئی ہے- اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کن حالات میں تصوف ایک مستقل فن اور ایک روایت کے طور پر پروان چڑھا- صفحہ ۲۷۴؍پر ایک عنوان ہے ’’ پہلا عہد تصوف اور صوفیہ کا نظریہ‘‘اس ذیل میں حضرت حسن بصری کی مولیٰ علی سے ملاقات اور استفادہ کی بحث تفصیل سے لکھی گئی ہے اور اس حوالے سے صوفیہ و محدثین کے اختلاف پر روشنی ڈالی گئی ہے——مصنف کے مطابق پہلا دور تصوف ۴۱ھ سے ۲۳۶ھ تک محیط ہے- ائمہ اربعہ جو اسی عہد کے تھے انہیں بھی مصنف نے زمرئہ صوفیہ میں شامل مانا ہے- ان کے الفاظ ہیں: ’’ اگر ان ائمہ اربعہ کو اہل تصوف میں شمار نہ کیاجائے اور صدر بزم تصوف، سرحلقہ صوفیاں قرار نہ دیا جائے تو یہ تصوف کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی اور احوال صوفیہ کے ساتھ بھی- (ص:۲۹۷)
مصنف کے مطابق تصوف کا دوسرا دور ۲۳۷ھ سے ۳۴۰ھ تک محیط ہے- اسی عہد میں متکلمین و محدثین کے مابین نزاع، اسلام میں گروہ بندی، مسئلہ خلق قرآن اور صفات باری کا نزاع، یونانی فلسفہ کی گرم بازاری، وضع حدیث کا فتنہ ، قصہ گوئی کا چلن، جیسے پرفتن حالات پیدا ہوئے، ان فتنوں سے تشکیک و گمرہی کا جو سیلاب رواں ہوا صوفیہ نے اس کے سامنے اپنے فلسفہ عشق کے ذریعے مضبوط بند باندھا- مصنف نے اس فلسفے کے محاسن و جمالیات پر تفصیلی گفتگو کی ہے-
مصنف کے مطابق تصوف کا تیسرا عہد دسویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا ہے - اس عہد کے صوفیہ کی اپنی خصوصیات ہیں اور ان خصوصیات کا سبب اس دور کا سماجی پس منظر اور فقہی نقطۂ نظر ہے- اس عہد کے فقہی سرماے پر دو بڑے اعتراضات کیے جاتے ہیں، پہلا یہ کہ اس عہد میں اجتہاد کا دروازہ بند کریا گیا اور دوسرا یہ کہ کتب فقہ میں ’’کتاب الحیل‘‘ کا اضافہ ہوا جس کے لیے ناقدین نے ’’کتاب الفجور‘‘ کا لفظ استعمال کیا- مصنف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ان اعتراضات کا علمی جواب دیا ہے- نیز اس دور کے حقیقی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس دور کے صوفیہ کی اصلاحی و دعوتی خدمات کو اجاگر کیا ہے-
مصنف نے اس کے بعد عہد بعہد تصوف کا جائزہ لیا ہے- ’’تصوف گیارہویں صدی عیسوی میں‘‘ کے ذیل میں ابو نعیم اصبہانی ، ابو القاسم قشیری، داتا گنج بخش ہجویری، عبد اللہ انصاری ہروی، ابو الحسن خرقانی ، ابو القاسم گرگانی، ابو اسحاق گازرونی، ابو الفضل بن حسین سرخسی، ابوسعید ابو الخیرکے حالات و افکار اور خدمات کو پیش کیا ہے-
 ’’تصوف بارہویں صدی عیسوی میں‘‘ کے تحت امام غزالی ، شیخ محی الدین جیلانی، عبد القاہر سہروردی، شیخ ابن العربی اور شہاب الدین سہروردی کے فلسفے اور خدمات کو بیان کیا ہے- اسی ضمن میں شیخ اکبر کا فلسفۂ وحدت الوجود بھی زیر بحث آیا ہے- مصنف لکھتے ہیں:’’ بالاختصار یوں سمجھیے کہ ’’ وحدت الوجود‘‘ کا نظریہ ماننے والوں کے نزدیک کائنات میں خداکے سوا کوئی چیز موجود نہیں یا جو کچھ موجود ہے سب خدا ہی ہے- اہل ظاہر کانظریہ یہ ہے کہ خدا ایک جداگانہ ذات ہے اور سلسلۂ کائنات سے بالکل الگ تھلگ - صوفیہ کا نظریہ اس کے برعکس ہے- ان کے نزدیک خدا سلسلۂ کائنات سے الگ نہیں-‘‘(ص: ۴۱۸)
اہل ظواہر کا غلام اور صوفیہ کے قدموں کی دھول راقم السطور اپنی تمام تر علمی بے مائیگی اور کم فہمی کے باوجود جزم ویقین کے ساتھ مصنف نے جسے اہل ظاہر کا نظریہ کہا ہے ، اسے حق و درست کہنے اور جسے صوفیہ کا نظریہ کہا ہے، اس سے براء ت کا اظہار کرنے اور خدا کی پناہ چاہنے پر مجبور ہے- اگر میں غلط نہ ہوں تو یقینا معلی القاب مصنف سے شیخ اکبر کا فلسفہ اور صوفیہ کا نظریہ سمجھنے میں تسامح ہوگیا ہے- جب ابن عربی خود یہ کہیں کہ الرب رب وان تنزل والعبد عبد وان تعرج تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ سلسلۂ کائنات کو عین خدا سمجھتے ہوں؟ پھر یہ کہ جو مخلوق کو عین خالق سمجھے کیا اس کی تکفیر میں خود آپ کو شبہہ ہوسکتا ہے؟یہ تو شیخ اکبر کے ناقدین کا الزام ہے جو شیخ کی عبارتوں کی غلط توضیح کرکے ان پر تھوپا گیا ہے - اگر ہم بھی یہی کہیں یا بالفرض یہی حقیقت واقعہ ہو تو پھر آخر کس بنیاد پر شیخ اکبر کا دفاع کیا جائے گا؟
مصنف نے ’’ تصوف بارہویں صدی عیسوی‘‘ کے ذیل میں ہی شیخ اکبر،حکیم سنائی، عطار، مولانا روم، سعدی شیرازی، اوحدی، خاقانی، نظامی گنجوی، شیخ عراقی،ابو الحسن بستی، سعد الدین حموی، سیف الدین باخرزی ، کمال الدین جندی، نجم الدین رازی، ابو الوفا خوازرمی، حافظ شیرازی ،خاوند ظہور، ابراہیم شاشی،منصور حلاج، امیر خسرو، حسن دہلوی، شیریں مغربی اور جامی کی صوفیانہ شاعری پر عالمانہ بحث کی ہے-
صفحہ ۵۳۷ پر ’’ تصوف تیرہویں صدی عیسوی میں‘‘ کا عنوان ہے- اس کے بعد میں آخر تک بعد کی آٹھ صدیاں ڈھونڈتا رہا مگر نہیں پاسکا- ہاں! اس طرح کے عنوان کے بغیر بعد کے بزرگوں کے احوال بھی شامل کتاب ہیں- دیگر مباحث میں صوفی سلسلے اور عالم اسلام ، ہندوستان میں روحانی سلاسل، سلسلۂ خواجگان، سلسلہ کبرویہ، سلسلۂ چشتیہ، سلسلۂ سہروردیہ اور سلسلۂ شطاریہ کا تعارف اوران کی تفصیل بڑی جہد وکاوش سے لکھی گئی ہے اور خاصی اہمیت کی حامل ہے-
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تصوف پر یہ بہت ہی گراں قدر تصنیف ہے، لیکن اس کے باوجود طباعت کی عجلت یا اور وجوہ سے بہت سی خامیاں رہ گئی ہیں- مثلاً یہ کہ اگر تصوف اور صوفیہ کے عہد کی درجہ بندی ہوئی ہے تو ہر دور کا ذکر کیا جاتا ، پھر اکیسویں صدی میں تصوف کے امکانات اور صوفیہ او ران کی خانقاہوں کی صورت حال پر بحث ہوتی- یہ باتیں غالباًمصنف کی نظر میں بھی ہیں اس لیے آخر میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ ابھی صوفیہ کے تذکار وحالات کے بہت سے گوشے تشنۂ تحریر ہیں-‘‘ (ص:۷۱۵) مقدمے کے بعد کتاب کی ابواب بندی ہونی تھی اور تمام مسائل و مباحث کو الگ الگ نمایاں اور ذیلی سرخیوں کے ساتھ پیش کرنا تھا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے تمام مضامین باہم مربوط ہونے کی بجائے مخلوط نظر آتے ہیں -اس کتاب کی ایک بڑی خامی کتابت میں کثر ت اغلاط ہے - زبان و بیان بھی اس میں اس معیار کی نہیں جسے حضرت ضیا شہبازی اپنی شاعری میں برتتے ہیں- ترتیب وتہذیب میں بھی رائج انداز کو نظر انداز کیا گیا ہے- اس کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں حوالوں کی فراوانی ہے لیکن وہیں اس کا ایک نمایاں سقم یہ ہے کہ ان حوالوں کو اس انداز سے نقل نہیں کیا گیا ہے جو آج کا طریقہ ہے - بہر کیف ! اس کتاب نے ہمارے اندر مصنف کی عقیدت بڑھا دی ہے- ان سے گزارش ہے کہ وہ تصوف پر اپنے قلم گوہر رقم کو چلتے رہنے دیں- ابھی تصوف پر الہ آباد سے ایک علمی و تحقیقی رسالہ ’’ الاحسان‘‘ کا اجرا ہورہا ہے ، موصوف اپنی علمی نگارشات سے اسے بھی نوازتے رہیں-

3 comments:

  • 20 March 2021 at 22:50

    مجھے حضرت کا کلام درکار ہے

  • 28 August 2021 at 19:28

    ایسی بھی گزر جاۓ اک رات مدینے میں
    سرکار ہوں اور ہم ہوں اک ساتھ مدینے میں

    موسیٰ ہیں کہاں کہدو آکر وہ ذرا دیکھیں
    اللہ کے جلووں کی برسات مدینے میں

    اے موت ابھی رک جا آگے مجھے جانے دیے
    ہو جائیں گے ہم دونوں پھر ساتھ مدینے میں

    اب دل میں ضیاء اپنے بس ایک تمنا ہے
    آقا ﷺ کو سنا آئیں اک نعت مدینے میں

  • 28 August 2021 at 19:30

    ایسی بھی گزر جاۓ اک رات مدینے میں
    سرکار ہوں اور ہم ہوں اک ساتھ مدینے میں

    موسیٰ ہیں کہاں کہدو آکر وہ ذرا دیکھیں
    اللہ کے جلووں کی برسات مدینے میں

    اے موت ابھی رک جا آگے مجھے جانے دیے
    ہو جائیں گے ہم دونوں پھر ساتھ مدینے میں

    اب دل میں ضیاء اپنے بس ایک تمنا ہے
    آقا ﷺ کو سنا آئیں اک نعت مدینے میں

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔