Thursday 31 August 2017

قدیم وجدید کی کشمکش ---- ضیاء الرحمٰن علیمی

0 comments

قلبی واردات ------------------ ضیاء الرحمٰن علیمی
 اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے، وہ عیسائیت کی طرح قیصر کا حق قیصر کو اور رب کا حق رب کو دینے کی بات نہیں کہتا، بلکہ ہر وہ عمل جو اسلامی دائرے میں رہتے ہوئے انجام دیا گیاہو وہ بظاہر کتنا بھی دنیاوی کیوں نہ ہو اسے دین کے زمرے میں ہی شمار کرتا ہے اور اس کے انجام دینے والے کو اجرو ثواب کا مستحق قرار دیتا ہے، تعلیم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، پڑھنا اگر اللہ کے نام سے ہو تو حاصل کی جانے والی بظاہر عصری تعلیم بھی شریعت اسلامیہ کے دائرے میں آجاتی ہے،لیکن بڑی قابل افسوس بات ہے کہ ایک عرصے تک عصری جامعات اور اداروں سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں رہا، اب سے چند سال قبل تک ہمارے نمایاں ادارے بھی کسی یونیورسٹی سے تسلیم شدہ نہیں تھے، جبکہ اغیار کے چھوٹے چھوٹے مدارس ہمارے ملک کی نمایاں یونیورسٹیوں سے تسلیم شدہ ہیں، اب جب کہ یونیورسٹیز میں ہمارے طلبۂ مدارس بالخصوص طلبائے جامعہ اشرفیہ مبار ک پور اور دار العلوم علیمہ جمدا شاہی کی آمد کا آغاز ہوچکا ہے اور علی گڑھ مسلم یونیور سٹی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو یونیور سٹی اور دیگر یونیورسٹیز کے مختلف کورسیز میں ہمارے طلبہ زیر تعلیم ہیں ایسے میں قدیم و جدید کے مابین رسہ کشی تیز ہوگئی ہے اب صورت حال یہ ہے کہ کچھ اساتذہ طلبہ کو سختی کے ساتھ یونیورسٹی کا رخ کرنے سے منع کرتے ہیں اور کچھ اساتذہ یونیور سٹی کا ارادہ کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان میں ایک درمیانی طبقہ بھی ہے جو نہ تو یونیورسٹی جانے والوں کی مخالفت کرتاہے اور نہ ہی جانے کے لیے حوصلہ افزائی، اساتذہ کے مابین اس کشمکش سے طلبہ کی تعلیم بھی متاثر ہورہی ہے اور ایک د وسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے ، قدیم اور روایتی موضوعات پڑھانے والے اساتذہ عصری علوم کی جانب توجہ دینے والے طلبہ کو نظروں میں چڑھائے رہتے ہیں، عربی ادب ، انگریزی زبان اور اس جیسے دوسرے مضامین کے تئیں نفرت انگیزی اور تلخ تبصرے کرتے ہیں-
یہاں تک تو خود مدارس میں قدیم و جدید کی کشمکش کے سلسلے میں لکھا گیاہے، اب ہم ان طلبہ کا جائزہ لیتے ہیں جو یونیورسٹیز میں آنے کے بعد اپنی مختلف حاجتوں کے پیش نظر اپنے آپ کو مارڈنائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ماڈرنائزیشن کوئی برا عمل نہیں ہے، ہر انسان کو مارڈن ہونا چاہیے، خصوصیت کے ساتھ ایک مسلمان کو ضرور ماڈرن ہونا چاہیے - یہی اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے ، دراصل ماڈرنائزیشن کا عمل ابتدائے آفرینش سے جاری اور رہتی دنیا تک چلتا رہے گا، ماڈرنائزیشن کا عمل اگر اسلامی اصولوں کی روشنی میںانجام دیا جائے تو بہت ہی بہتر ہے، ہاں اگر یہ عمل ہمیں اسلامی روح سے جدا کردے تو قطعا اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے لیکن ماڈرنائزیشن کو یکسر مسترد کردینا انسانی اصولوں سے انحراف ہے، کیوں کہ یہ ایک فطری عمل ہے، اسی بنا پر فارغین مدارس جب یونیورسٹی کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو اپنے اندر تبدیلیاں لانے کی کوشش کرتے ہیں، تبدیلیاں فکری سطح پر بھی ہوتی ہیں اور ظاہری سطح پربھی اور ان سب کے پیچھے اسباب و عوامل کارفرما ہوتے ہیں، یوںہی یہ تبدیلیاں کمی اور زیادتی کے ساتھ واقع ہوتی ہیں، کچھ کے یہاں تبدیلی کا عمل توازن کے ساتھ انجام پاتا ہے او رکچھ کے یہاں عدم توازن کے ساتھ، اور اگر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ تبدیلیاں دراصل انسان کی اپنی طبیعت اور اس کی اس تربیت سے جڑی ہوئی ہیں جس کے گہوارے میں اس نے پرورش پائی ہے، اگر انسان کی تربیت عمدہ ہوتی ہے تو وہ اسلام پسند،بلند حوصلے والا اسلامی تعلیمات و اسلامی تہذیب پر مکمل اعتماد رکھنے والا ہوتا ہے اور ہر عمل میں اپنے آپ کو متوازن رکھتا ہے ورنہ وہ بے اعتدالی کا شکار ہوجاتا ہے، لیکن تمام خامیوں کے باوجود تمام طلبہ میں ایک بات جو  مشترک ہوا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ بہر حال وہ اپنے مذہب سے محبت رکھتے ہیں، اس میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوتی -
اب جب انہی طلبہ کے بارے میں اساتذۂ مدارس کو اطلاع ملتی ہے تو اس پر شدید ردّ عمل کا اظہار کیاجاتا ہے ، ایسے طلبہ سے رابطہ ختم کردیا جاتا ہے اور ان پر زبانی طور پر ہی سہی شرعی احکام صادر کردیے جاتے ہیں، اس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ بغاوت کی آگ اور بھڑک اٹھتی ہے وہ اپنے اساتذہ سے اور بھی دور ہوتے چلے جاتے ہیں ، اب انہیں لگتا ہے کہ برادری سے نکال دیے جانے کے بعد اب ان کاکوئی محاسبہ کرنے والا بھی نہیں رہ گیا ہے اب وہ اپنے آپ کو اپنے ماضی سے بالکلیہ الگ کرنے میں آزاد محسوس کرتے ہیں اور پھر یہیں سے لا ینحل مسائل کا آغاز ہوتاہے-
اساتذہ کی جانب سے رد عمل کی انتہا صرف انہی غیر متوازن کردار کے حامل طلبہ پر نہیں ہوتی بلکہ جو متوازن کردار و عمل کے حامل ہیں انہیں بھی تنقید کانشانہ بنایاجاتا ہے ، مثلاً اگر کوئی طالب علم یونیورسٹی کی دنیا میں مدرسے کی پوشاک کو خبر باد کہہ کر عصری لباس پینٹ شرٹ پہن لیتا ہے تو اگر چہ وہ باضابطہ شرعی حلیے میں ہو پھر بھی اس پر لباس کے حوالے سے تنقیدیں کی جاتی ہیں، جب کہ یہ سراسرناانصافی ہے، کیوں کہ مدرسے کی پوشاک کی پابندی واجب نہیں، یوں ہی کرتا یا پاجامہ ایک خاص ماحول میں مسلمانوں کا لباس تو ہوسکتا ہے اور اسی بنا پر  ایک خاص ماحول میں وہ اسلامی بھی کہلا سکتا ہے لیکن عمومی طور پر اس پر اسلامی لباس ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ، اسلام کا کوئی خاص ڈریس کوڈ نہیں ہے، اسلام کا واجبی ڈریس کو ٹ صرف اتنا ہے کہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک بالکل چھپا ہواور مجموعی طور پر لباس ایسا ہو کہ مومن کا احتشام باقی رہے، اوریہ ماحول کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے، ویسے بھی اسلام ایک عالمی مذہب ہے اور اس پر ہمارا گہرا ایمان ہے ، تو یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کا ایک ڈریس کوڈ ہے اور اس کی خلاف ورزی جرم عظیم ، اسلام سہولتیں پیدا کرتا ہے، مشکلات نہیں، یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ ایک برطانوی، ایک جرمن یا ایک فرنچ مسلمان ہونے کے بعد کرتا پاجامہ پہننا شروع کردے گا، اگر اسلام میں کسی پوشاک کی پابندی واجب ہوتی تو سرکارابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کی پابندی ضروری ہوتی لیکن عرب دنیا کو چھوڑ کر کہیں بھی اسے بطورایک متبادل لباس کے بھی استعمال نہیںکیا جاتا، یوں ہی کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ ایک طالب علم جو جرمنی جاکر تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ہندوستانی مسلمانوں کے لباس کی پابندی کے ذریعے اپنے آپ کو اجنبی بنا کر رکھے گا جب کہ دیار غیر میں اسے شناسائی اور دوست بنانے کی سخت ضرور ہے ، دوسری جانب دعوتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اجنبیت سے دعوت کا کام متاثر ہوتا ہے اور گھل مل جانے سے دعوت کا کام آگے بڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ فرشتوں کو بھیج کر اپنے بندوں کی ہدایت کا سامان فراہم فرمادے لیکن تمام انبیاء کرام کو ’ ’رسولا من انفسہم‘‘ کی شان کے ساتھ مبعوث کیا گیا تاکہ قبول ہدایت میں اجنبیت حائل نہ ہونے پائے، اسی حکمت کے مد نظر صوفیائے کرام جہاں تشریف لے گئے وہاں اپنے آپ کو انہوں نے Inclusive بناکر رکھاexclusive نہیں، مدرسے کی دنیا بھی ایک الگ دنیا ہے، وہاں ایک منفرد ماحول ہوتا ہے ، یونیورسٹیز کی بھی اپنی الگ دنیا ہے، وہاں بھی زندگی کا ایک جداگانہ طرز ہے، اب اگر کوئی طالب علم یونیورسٹی کے ماحول کے مطابق لباس پہننے کے باوجود شرعی لحاظ سے قابل اعتراض زندگی نہیں گزار رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے-
 یہاں اگر میںان اساتذہ کا تذکرہ نہ کروں تو بڑی نا انصافی ہوگی جو یونیورسٹیز میں زیر تعلیم تمام طلبہ کے ساتھ خامیوں اور خرابیوں کے باوجود پدرانہ سلوک پیش کرتے ہیں اور اس کے بہتر نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں، ایسی صورت میں طلبہ غلطیوں کی اصلاح اور خامیوں کے ازالے کی کوشش کرتے ہیں، اپنے آپ کو کسی کے زیر سر پر ستی محسوس کرتے ہیں، ان میں احتساب اور ذمہ داری کا احساس بھی بیدار ہوتا ہے، جب کہ سخت رویے سے غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں-
 مذکورہ باتوں سے قطع نظر کرکے خود اساتذئہ کرام کو اپنے احتساب کی بھی ضرورت ہے، آخر کیا بات ہے کہ ایک لمبے عرصے تک مدرسے کے ’’ روحانی ماحول‘‘ میں زندگی گزارنے کے باوجود اس قابل بھی نہیں بن پائے کہ اس ماحول سے نکلنے کے بعد اپنی اسلامیت فکر برقرار رکھ سکیں- کہیں تربیت کے عمل میں کوئی کمی تو نہیں رہ گئی؟ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اساتذہ کی ذمے داری صرف ظاہری تربیت تک محدود ہے دلوں کو بدلنے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ، جب طلبہ مدارس سے فارغ ہوگئے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اساتذہ کی ذمے داری ختم ہوگئی، زندگی بھر نگرانی ان کا کام نہیں ہے، یہی وجہ ہے بہت سے فارغین مدارس فراغت کے بعد درس و تدریس کے بجائے کوئی اور پیشہ اپناتے ہیں اور سابقہ زندگی کی پابندی بھی نہیں کرتے، اب اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان کا بائیکاٹ کردیا جائے، یوں ہی جو طلبہ یونیورسٹی کی دنیا میں سابقہ زندگی کی پابندی نہیںکررہے ہیں، ان سے قطع کرلینا کسی بھی طرح دانشمندی نہیں ہے، ویسے بھی آج کے دور میں مقاطعہ انسان کی اصلاح کا موثر ذریعہ نہیں رہ گیا ہے، یہ چیزیں انسان کو اور زیادہ ضدی بنا دیتی ہیں اس کے برعکس محبت کی زبان پیار کی بھاشا، عمدہ اخلاق و سلوک ، مومنانہ بصیرت،داعیانہ اسلوب اور بہترین حکمت کے ذریعہ انسان کی اصلاح بہت آسانی سے ہوجاتی ہے اور وہ سیدھی راہ پر گامزن ہوجاتاہے-
مجموعی صورت حال کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یونیورسٹی میں طلباے مدارس کی تعلیم کے جہاں کچھ نقصانات مرتب ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ فائدے حاصل ہوتے ہیں اورسابقہ گفتگو سے یہ بھی صاف ہوچکا ہے کہ نقصانات کی تلافی ممکن ہے، یونیورسٹی کے کیمپس میں چند سال گزارنے سے طالب علم کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، مختلف مزاج کے، مختلف میدان کے مختلف علاقے کے، اور مختلف شعبہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے سابقہ پڑتا ہے ، رد و قبول کا فطری عمل جاری ہوتا ہے، ثقافت و تجربہ وسیع ہوتا ہے، فکری گیرائی پیدا ہوتی ہے، ذہنی ہمہ گیری پیدا ہوتی ہے، مختلف زبانیں سیکھنے کے مواقع فراہم ہوتے ہیں، انسان شناشی پیدا ہوتی ہے، اجنبی ماحول میں جینے کا سلیقہ پیدا ہوتاہے اور متعلقہ تعلیم کے شعبے میں اس کو جو ڈگری ملتی ہے اور پھر اس سے جو خوشحالی پیدا ہوتی وہ ان سب پر مستزاد ہے اور اس طرح طالب علم اپنے آپ کو عالمی سطح پر اسلامی دعوت کی تبلیغ کے لیے بہتر انداز میں مسلح محسوس کرتا ہے ، ان کے علاوہ بے شمارفوائد ایسے ہیں جن کو یونیورسٹی کی دنیا میںآکر محسوس کیاجاسکتا ہے- ہر آدمی جانتا ہے کہ دہلی میں سنی اسلام کے نام پر تبلیغی جماعت اور دوسرے گمراہ فرقوں کی حکمرانی تھی، ادھر چند سالوں سے حالات بدلے ہیں- اس میں بھی یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباے مدارس کا مختلف حیثیتوں سے حصہ ہے، علی گڑھ کے بارے میں تو پوچھنا ہی کیا، چند سال قبل تک علی گڑھ اور الحاد سنی دنیا کے لیے دو مترادف لفظ تھے (جب کہ حقیقتاً ایسا پہلے بھی نہیں تھا) اور ادھر چند سالوں سے صورت حال ایسی بدلی ہے کہ سال بھر رات میں میلا د النبی کے جلسوں کی آواز سنائی دیتی ہے اور صبح کے وقت مختلف سمتوں سے صلاۃ و سلام کی آواز سنائی دیتی ہے، اوراس وقت سنی مساجد کی تعداد 50 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ پہلے جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے محتاط افراد کو سوچنا پڑتا تھا، علی گڑھ کی اس صورت حال کو بدلنے میں یونیورسٹی کے جن فارغین مدارس نے اہم رول ادا کیا ہے ان میں سے کئی ایک سے میں خود بھی واقف ہوں اور ان سب کی سرپرستی فرمانے والے ہیں حضرت امین ملت سید محمد امین قادری برکاتی مدظلہ العالی، مدارس کے طلبا کی یونیورسٹی میں آمد کا یہ سلسلہ مستقبل میں اور بھی بہت سارے فوائد ہمارے سامنے لائے گا-
اصل یہ ہے کہ طلباے مدارس کی یونیورسٹیز میں تعلیم اپنے اندر بہت سے دینی، دنیاوی اور دعوتی فوائد کو سمیٹے ہوئے ہے، یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے، قدیم و جدید کے مابین ٹکراؤ کی صورت حال کو ختم ہونا چاہیے ، جو لوگ مدارس کی تعلیم کے بعد دینی مدارس میں تدریس میں مصروف ہیں وہ بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں اور جو مدارس کی تعلیم کے بعد یونیورسٹیز کی طرف بڑھ رہے ہیں وہ وقت کی پکار پر لبیک کہنے والے ہیں دونوں میںکسی قسم کا کوئی ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے ایک دوسرے کے تجربات و مشاہدات اور ایک دوسرے کی صلاحیتوں سے استفادے کا ماحول قائم ہو، خامیوں کی اصلاح کے لیے داعیانہ اسلوب، مشفقانہ لب و لہجہ، پدرانہ وبرادرانہ برتاؤ پیش کیا جائے اور ہر جگہ خلوص و للہیت کی جلوہ گری ہو، خصوصیت کے ساتھ اساتذہ کرام والدین کی منزل میں ہوا کرتے ہیں اور طلبہ اولاد کے مثل، اگر کوئی کمی ، خامی نظر آتی ہے تو پیار بھری زبان میں اصلاح کی کوشش کی جائے، انشاء اللہ بہتر نتائج بر آمد ہوں گے، انداز فکر میں تبدیلی لائی جائے ، یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلبا سے یہ امید نہ رکھی جائے کہ وہ مدرسے کے لباس کا التزام کرتے رہیں گے، اور نہ اس کی تاکید کی جائے، طلبہ خود با شعور ہیں وہ اپنی حاجتوں کے لحاظ سے فیصلے لیتے ہیں، بلکہ تاکید اس بات کی کی جائے کہ جہاں رہیں سچے مسلمان بن کر رہیں، اصلامی روح اور فکر کو زندہ و بیدار رکھیں، کسی بھی میدان میں رہیں خالق و مالک کی عظمت، اس کے تئیں احساس بندگی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں بٹھائے رکھیں، ایسی نصیحتیں کی جائیں جن سے ان کے اندر دعوتی جذبہ بیدار ہو، اسلام کی سر بلندی کے لیے کام کرنے کا حوصلہ جوان ہو، بڑی اچھی بات ہوگی اگر مبلغ اسلام حضرت علامہ عبد العلیم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کو آئیڈیل بنانے کی بات کہی جائے، اس طرح بڑے اچھے اثرات مرتب ہوں گے، مختلف میدان میں ہمارے افراد نظر آئیں گے، ہر طرف اسلام و سنیت کا بول بالا ہوگا، یوں ہی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہمارے طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے کردار و عمل کے ذریعہ قدیم و جدید کے مابین ٹکراؤ کی فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریں، اساتذہ سے بہتر رشتہ بنائے رکھیں، بہتر مسلمان بہترین داعی اور ہر جگہ اپنے آپ کو اسلام کا بہترین نمائندہ بناکر رکھنے کی کوشش کریں کہ افق عالم سے اسلام کی نئی صبح طلوع ہونے کے آثار ہویدا ہیں-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔