Friday 25 August 2017

اردو ادب میں سفرناموں کی روایت اور خیرآباد کا پانچ سو سالہ سفر

0 comments
 اردو ادب میں سفرناموں کی روایت 
اور 
خیرآباد کا پانچ سو سالہ سفر
ازقلم:-  محمد شاہد رضا نجمیؔ
----------------------------------------------------------------------------------
کہتے ہیں کہ ’’سفر کرنا انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ ہر شخص رواں دواں زندگی کا طلب گار ہوتا ہے۔ قدم قدم پر نئی دنیا کی تلاش وجستجو اسے کسی ایک جگہ ٹھہرنے نہیں دیتی، بلکہ ہر لحظہ گردشِ رنگ وچمن پر ابھارتی رہتی ہے۔ غرض کہ شوقِ سفر انسانی زندگی کے خمیر میں اسی طرح پیوست ہے جیسے فولاد میں جوہر، انگشتری میں نگینہ اور پھول میں خوشبو۔‘‘
    انسانی طبیعت صرف کسی مقام کے سفر پر اکتفا نہیں کرنا چاہتی بلکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ رودادِ سفر بھی دوسروں کے سامنے آجائے اور لوگ اس کے سفری حالات سے واقف ہوجائیں۔ یہ خواہش انسان کو سفرنامہ لکھنے پر برانگیختہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہلِ قلم نے جب کسی مقام کا سفر کیا تو اپنی رودادِ سفر کو سفرنامے کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔
    سفرنامہ وہ بیانیہ ہے جس میں مسافر دورانِ سفر پیش آنے والے حادثات وواقعات، مشاہدات وتجربات، احوال وکوائف کا ذکر کرتا ہے اور تمام حالاتِ سفر کو اس طرح قلم بند کرتا ہے کہ قاری کی نظروں میں سفر کے سارے مناظرآجائیں اور وہ انھیں پڑھ کر یہ گمان کرنے لگے کہ گویا وہ بھی اس سفر کا ایک حصہ ہے۔ ادب کی یہ صنف انتہائی نازک کہلاتی ہے؛ کیوں کہ یہ صنف کوئی ایک پہلو پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مختلف الجہات اور کثیر الانواع حیثیات کی حامل ہوتی ہے۔ سفرنامے کی خوبی اور عمدگی کا کچھ حد تک انحصار سفر کرنے والے کی مزاجی کیفیت، اندازِ تحریر، قوتِ مشاہدہ، زورِ بیان اور طرزِ تفہیم پر بھی ہوتا ہے۔ سفر کرنے والا جس قدر سنجیدہ فکر کا حامل ہوگا، اسی قدر اس کی فکری سنجیدگی کا اثر اس کے سفرنامے پر بھی ہو گا۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اردو ادب میں سفرنامے کی روایت فارسی اور عربی سفرناموں کی رہین منت ہے۔
     ۱۹۴۷ء میں یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ ’’عجائباتِ فرنگ‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا، جو اردو ادب کا اولین سفرنامہ مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد اردو ادب میں سفر نگاری کی زلفیں دراز ہوتی چلی گئیں۔ عبدالماجد دریا بادی کا ’’سفر حجاز‘‘، پروفیسر احتشام حسین کا سفرنامہ ’’ساحل وسمندر‘‘، قاضی عبدالغفار کا ’’نقش فرنگ‘‘، قاضی ولی محمد کا ’’سفرنامہ اندلس‘‘، منشی محبوب عالم کا ’’سفرنامہ یورپ‘‘ کافی اہمیت اور غیر معمولی مقبولیت کے حامل تصور کیے جاتے ہیں۔
    موجودہ عہد میں بھی کافی تیزی کے ساتھ سفرنامے لکھے جارہے ہیں۔ پاکستان کے معروف عالم دین ڈاکٹر کوکب نورانی کا  اشہب قلم سفر نگاری کے حوالے سے کافی تیز طرار واقع ہوا ہے۔ بقولِ شہید بغداد ’’کثرت سے سفر کرنا اور بلاتاخیر سفرنامہ لکھ دینا یہ مولانا کوکب نورانی کا حصہ ہے، ان دونوں معاملوں میں کوئی شریف آدمی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا‘‘۔ ’’بھارت یاترا‘‘ اور ’’ستارے ناپ رہے ہیں مسافتیں میری‘‘ اسی کے پڑائو کا ایک حصہ ہیں۔ شہید بغداد مولانا اسید الحق قادری کے بھی سفرنامے علمی وادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل کرچکے ہیں۔ ’’ہم نے دیکھا پاکستان‘‘، ’’شب جائے کہ من بودم (سفرنامہ مارہرہ)‘‘، ’’دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘ کے ذریعے ان کے قارئین  ان کے ایک اور علمی وادبی پہلو سے آشنا ہوئے تھے۔
    اس وقت مولانا ذیشان احمد مصباحی کا سفر نامہ ’’خیرآباد کا پانچ سو سالہ سفر‘‘ فردوسِ نظر بنا ہوا ہے۔ مولانا ذیشان احمد مصباحی کی شخصیت اپنے جلو میں علم وادب کے مختلف زاویوں کو اس طریقے سے سمائے ہوئے ہے کہ اس کی کوئی ایک جہت متعین کرنا آسان نہیں ہے۔ شگفتہ اسلوب نگارش، فکری پختگی، مستحکم طریقۂ استدلال، غیر ادعائی رویہ اور اعتدال پسندی کی وجہ سے علمی وادبی حلقوں میں انھیں غیر معمولی مقام حاصل ہے۔ انھوں نے اپنی محققانہ تحریروں، ناقدانہ بصیرت، موزوں تبصرہ نگاری، بے نظیر مرقع کشی ،متوازن تفسیر نگاری اور بے باک صحافت کے ذریعے مذہبی ادب کے دامن کو حیرت انگیز طور پر عظیم وسعتوں سے ہم کنار کیا ہے۔
    ان کا یہ سفرنامہ بھی ان کی علمی وفکری قد آوری پر دلالت کرتا ہے۔عام طور سے سفرنامے محض موضع سفر کے جغرافیائی احوال، وہاں کی تعمیر وترقی اور باشندگان کے تذکرے پر مرتکز ہوتے ہیں۔ دین ومذہب سے ان کا دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ مگر جب مولانا ذیشان احمد مصباحی جیسا مذہبی اور دینی شخص سفر نگاری کرتا ہے تو اسے مذہبی رنگ اور دینی پیرایے میں لاکر کھڑا کردیتا ہے۔ اس طرح کی سفر نگاری بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ سفرنگاری کا یہ شائستہ رنگ یا تو شہید بغداد مولانا اسید الحق قادری کے سفرنامہ مارہرہ ’’شب جائے کہ من بودم‘‘ میں دیکھنے کو ملا تھا یا اب پیش نظر سفرنامہ ’’خیرآباد کا پانچ سو سالہ سفر‘‘ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
    ۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۶ء کو مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس سرہٗ کا پانچ سو سالہ عرس تھا، جس میں ان کی معرکۃ الآرا کتاب ’’مجمع السلوک‘‘ کی رونمائی ہوئی ۔ حسن اتفاق کہ راقم بھی اس سفر میں شریک تھا۔ وہاں سے واپسی کے بعد یہ سفر نامہ محض چند نشستوں میں لکھا گیا۔ جو اپنی ضخامت کے لحاظ سے تو نہیں، البتہ حسن معنویت کےاعتبار سے بہت سے سفریات پر فائق ہے۔ یہ محض ایک سفرنامہ ہی نہیں ، بلکہ عینی مشاہدات، قلبی وارادات اور تاریخی تخیلات پر مبنی ایک داستانِ شوق ہے۔ جس میں جہاں ظرافت کا رنگ ملے گا، وہیںخانقاہوں کے زوال وادبار پر ماتم کنائی اور نوحہ گری بھی ملے گی۔ اسے پڑھ کر آدمی جہاںتاریخ کی وادیوں کی سیاحت سے لطف اندوز ہوگا، وہیں امت مسلمہ کے موجودہ خستہ احوال پر آنکھیں شبنمی بھی ہوجائیں گی۔ متعدد جگہوں پر جہاں عمدہ شعرگوئی کے جلوے ملیں گے وہیں از اول تا آخر عمدہ نثر نگاری اور مرقع سازی سے دل محظوظ بھی ہوگا۔ یہاں چند مثالیں پیش کرنا دل چسپی سے خالی نہیں۔
    ’’میں نے گھڑی کو دیکھا کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ گردش کناں ہے۔ اس کی سوئیاں لمحوں سے نہیں، صدیوں سے گزر رہی تھیں۔ سامنے دیکھا کہ ایک بزرگ مخدوم صاحب کی چو کھٹ چوم کر واپس ہورہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک بارعب عالم دین ہیں۔ ان کے پیچھے علما اور طلبہ کی قطار ہے۔ پیچھے کچھ فاصلے پر اونٹوں اور ہاتھیوں کا ایک ہجوم ہے۔ یہ شاہی قافلہ میرے قریب آگیا۔ سجادے صاحب کے درازے پر دستک دی گئی۔ اندر سے ایک نورانی بزرگ نمودار ہوئے۔ آنے والے بزرگ فورا قدم بوس ہوگئے۔ کہنے لگے: حضور! دنیا کی ساری نعمتیں حاصل ہوچکی ہیں۔ منطق وفلسفہ میں ارسطو اور ابن سینا کی گتھیاں سلجھا چکا ہوں۔ اب دین ودنیا کی کوئی تمنا ادھوری نہ رہی۔ بس ایک ہی آرزو رہ گئی ہے جس کی تکمیل آپ کی کرم نوزایوں پر منحصر ہے۔ میاں! اس بوڑھے نے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا، بن مانگے خدا نے سب کچھ دیا، لیکن آج جب کہ عمر کے آخری پڑائو میں ہوں، آپ سے ایک بھیک مانگنے حاضر آگیا ہوں۔ بزرگ نے ایک منگتے کی طرح اپنی چادر پھیلادی۔ ’’مولانا! پریشان کیوں ہوتے ہو! فقیروں کی زنبیل کبھی خالی نہیں ہوتی۔ مخدوم صاحب کی درگاہ میں مسجد کے اتر جانب آپ کی جگہ متعین ہے۔ اپنے وابستگان کو بتادیں کہ وہ وفات کے بعد بلاجھجھک مخدوم صاحب کے جوار میں سپردِ خا ک کردیں۔‘‘ مولانا کا چہرہ خوشیوں سے دمک اٹھا۔ جھک کر سلامی دی اور واپس ہوگئے۔ میرے بازو میں ایک نیزہ بردار کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی: دہلی کے صدر الصدور علامہ فضلِ امام خیرآبادی اور ان کے پیچھے ان کے بیٹے۔۔۔!‘‘ (ص:۲۵) تاریخ نگاری کا یہ طرز اپنے اندر کتنی جامعیت رکھتا ہے، اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
    منظر کشائی کا یہ انداز بھی بڑا نرالا اور منفرد ہے:
    ’’مطلع نے یکایک قلب ونظر کی جنگ کو روک دیا اور ماضی وحال سے بے گانہ کردیا۔ نظر اوپر اٹھائی تو دیکھا کہ حسن میاں مرغِ بسمل کی طرح اضطرابِ شدید کے ساتھ اٹھے اور قوال کے پاس پہنچ گئے۔ ان کی کیفیت بہت شدید تھی، ان کا رقص کیا تھا! جیسے کسی نے کلیجہ نچوڑ دیا ہو یا عشق کی آگ نے جگر کو سوختہ کردیا ہو۔ خمیدہ اٹھے اور تیزی کے ساتھ آٹھ دس چکر لگایا، پھر سوزش میں کچھ کمی آئی اور اپنی جگہ بیٹھ گئے۔‘‘ (ص:۳۱) ---’’عجب اتساہ، عجیب رقت، روحانیت اور اضطراب وطمانینت کا سماں تھا۔ آج ۵۰۰؍ سال بعد حضرت شیخ کی کتاب پہلی بار شائع ہوکر ان کی بارگاہ میں پیش ہوئی تھی۔ آج ان کی روح کس قدر جھوم رہی ہوگی۔ ہاتفِ غیبی نے ندا دی: دیکھو! وہ سامنے وہی بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں جو اس مقام پر آج سے پانچ سو سال قبل ’’الرسالۃ المکیۃ‘‘ کا درس دے رہے تھے۔ ان کے چہرے کی تابانی تو دیکھو جس پر آفتابِ نیم روز کی کرنیں بھی شرمندہ ہیں۔ آج شیخ بہت خوش ہیں اور اپنے غلاموں کی اس احسان شناسی پر ہاتھ اٹھا اٹھاکر دعائیں دے رہے ہیں۔ ‘‘ (ص:۴۱)
    بعض جملے تو ایسے ہیں جنھیں پڑھ کر بے ساختہ زبان پر ’’ماشاء اللہ!‘‘ جاری ہوجاتا ہے۔ جیسے: ’’ہم لوگ کل نو افراد تھے، دو ڈرائیوروں کے ساتھ گیارہ ہوگئے تھے، آج پہلی مرتبہ نودو گیارہ کا محاورہ دیکھنے کو ملا تھا‘‘ -- >’’یہ ایسے عاشقِ خسرو ہیں جو پیر نظام کو فراموش کرجاتے ہیں‘‘ -- یہ بھی کیا دیوانگی ہے! جو شمع کو چھوڑ کر پروانوں پر نثار ہورہی ہے‘‘۔
    بعض مقامات پر کچھ ایسے بھی جملے رقم ہوگئے ہیں جو مولانا مصباحی کی طرزِ نگارش کے یکسر خلاف ہیں۔مثلا ’’فوائد سعدیہ کے توسط سے مجمع السلوک سے سیراب ہوچکے تھے‘‘۔ فوائد سعدیہ میں مجمع السلوک کے بعض ابواب نقل کیے گئے ہیں۔ مجمع السلوک ایک بحر بےکراں اور فوائد سعدیہ اس کے چند قطرات۔ اس مقام پر ’’متعارف‘‘ کا لفظ زیادہ مناسب تھا۔ کہیں کہیں تذکیر وتانیث کی بھی خامی راہ پاگئی ہے۔ جیسے ’’قلعے کے تہ میں‘‘۔ اردو زبان میں لفظ ’’تہ‘‘ مؤنث استعمال کیا جاتا ہے۔
    مولانا ذیشان احمد مصباحی کا یہ سفرنامہ اردو سفرناموں کی روایت میں ضرور کچھ وسعتیں پیدا کرے گا اور علم وادب کے شائقین  اس سے استفادہ کرکے اپنی معلوماتی سمتوں کو مزید ہموار کریں گے۔ 
 



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔