Thursday 31 August 2017

کشف بردہ (شرح قصیدہ بردہ) ------ تصنیف: مولانا نفیس احمد مصباحی

0 comments
کشف بردہ (شرح قصیدہ بردہ)
              تصنیف: مولانا نفیس احمد مصباحی
              صفحات : ۴۲۵
              ناشر: المجمع القادری،مبارک پور، اعظم گڑھ،یوپی ،انڈیا
              تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی 
اطاعت رسول ﷺ فرض عین ہے جو ذکر رسول کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ ذکر تعریف وستائش کے ساتھ ہی ہوگا،نہ کہ نقص و عیب جوئی کے ساتھ،ایک تو اس لیے کہ عیب جوئی سے اطاعت ممکن نہیں جو فرض عین ہے اور اس لیے بھی کہ ذات رسول کمالات انسانی کی جامع ہے جہاں عیب و نقص کا گزر ممکن ہے نہ گمان(سوائے اس کے کہ جب عقل  فساد کا شکار ہو جائے)- ذکر رسول کی منظوم شکل کو ہی اصطلاح شعر و ادب میں نعت کہتے ہیں، جسے آغاز اسلام سے اب تک مکمل تسلسل کے ساتھ اہل اسلام حرزجان و ایمان بنائے ہوئے ہیں- ذات رسول سے مکانی قربت کے باعث نعت گوئی کا آغاز عربی میں ہوا، کبار صحابہ وصحابیات نے اور بعد کے ہر دور میں مسلمانوں نے عربی میں نعتیں کہیں- لیکن عربی نعتیہ شاعری میں جو شہرت ، مقبولیت اور توقیر حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کی نعتیہ شاعری کو اور ان کے بعد حضرت امام ابو عبد اللہ محمد شرف الدین بو صیری رحمۃ اللہ علیہ (۶۰۸-۶۹۴ھ) کے قصیدہ بردہ کو ملی کسی اور کو نہیں مل سکی-
زیر نظر کتاب ’’کشف بردہ‘‘ امام بوصیری کے اسی قصیدہ کی ،جس کا نام حضرت بوصیری نے ’’ الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ‘‘ رکھا تھا اور جسے’’ بردۃ المدیح‘‘ بھی کہا جاتاہے، تفصیلی تحقیق و تشریح ہے- فاضل مصنف مولانا نفیس احمد مصباحی جو برصغیر کے ممتاز دینی دانش گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پو رکے استاذ ہیں، نے بڑی خوبی اور نفاست سے قصیدہ بردہ کا با معنی وسلیس ترجمہ اور تشریح کے ساتھ اس کا علمی، فکری ،فنی ، عروضی اور بلاغی تجزیہ کیا ہے اور حتی الوسع اس کا حق ادا کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے-
فاضل مصنف نے ’’ کشف بردہ‘‘ کی باضابطہ ابواب بندی کرنے کی بجائے مختلف پہلوئوں کو نمایاں عنوانات کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے- ’’ عرض حال‘‘کے بعد’’ کلمات طیبات‘‘ کے زیر عنوان محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی کے وقیع تاثرات ہیں، حضرت مفتی صاحب نے شرح بردہ کی تعریف کرتے ہوئے ترجمہ کو’’ بجا طور پر اچھا اور نفیس‘‘ قرار دیا ہے، جس سے علمی حلقے میں کتاب کی استنادی حیثیت مستحکم ہو گئی ہے، اس کے بعد مصنف نے ’’ امام بوصیری- حیات اور کارنامے‘‘ کی جلی سرخی کے تحت علمی و تحقیقی انداز میں صاحب بردۃ المدیح کے احوال و کوائف بیان کیے ہیں-
صفحہ ۲۶-۲۹ پر ’’ قصیدہ بردہ اور جہان علم و دانش‘‘ کے زیر عنوان قصیدہ بردہ کے تعلق سے اکابر و اسلاف کے تاثرات نقل فرمائے ہیں، اس میں حضرت ملا علی قاری، شیخ زادہ محی الدین، علامہ عمر بن احمد خرپوتی، عارف کامل حضرت سید علی ہمدانی، صاحب کشف الظنون کاتب چلپی کے ساتھ علامہ سید احمد سعید کاظمی، ابو الحسنات سید محمد احمد قادری، پیر زادہ اقبال احمد فاروقی، وغیرہ کے تاثرات بھی شامل ہیں- اس فہرست میں مشیر مالیات ریاست بہاول پور مولانا عبد المالک خان اور مفتی محمد رحیم سکندری خطیب مسجدد رگاہ پیر، سندھ (پاکستان) کے اسماء بھی ہیں، ہمارا خیال ہے کہ علماے متقدمین و متاخرین ہر دو طبقے سے ابھی اس فہرست میں کچھ نام اضافہ کیے جا سکتے ہیں اور شاید کچھ نام کم کرنے کی بھی گنجائش نکل آئے، اب دیکھنا ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں مصنف محترم کیا فیصلہ لیتے ہیں-
صفحہ ۳۰ تا ۳۳شرح بردہ کی عربی ، فارسی، اردو میں لکھی جانے والی ۳۲؍ شروح اور ان کے شارحین کا مختصر تعارف ہے، صفحہ ۳۸ تا ۷۴ قصیدہ کا فکری تجزیہ کیا گیا ہے اور کمال جامعیت کے ساتھ کیا گیا ہے-باعث تخلیق کائنات، حقیقت محمدیہ کا ادراک ناممکن ، سرکار کے لا محدود فضائل و کمالات ، وسعت علم نبوی، علم غیب، شفاعت اور دست گیری اور استغاثہ وا مدد وغیرہ ذیلی سرخیوں کے تحت تحقیق و استدلال کے ساتھ ان تمام افکار و خیالات کا جائز ہ لیا گیا ہے، جن کا امام بوصیری نے اپنے قصیدہ میں مبہم یا غیر مبہم انداز میں ذکر کیا ہے - حوالوں کی تخریج بھی کر دی گئی ہے مگر چند ایک مقام پر اس کا بہت زیادہ اہتمام نہیں کیا گیا ہے-چوں کہ یہ اعتقادی و نظریاتی مباحث ہیں، اس لیے کتاب کی دوسری اشاعت میں اگر اس پہلو پر تھوڑی سے اور محنت صرف دی جائے تو اس کی علمیت مزید روشن ہو جائے گی-
صفحہ ۷۵ تا ۷۶ قصیدے کی ’’عروضی پیمائش‘‘ کی گئی ہے-مصنف نے اسے بحر بسیط کی پہلی نوع(عروض و ضرب مخبون) میں بتایا ہے، بطور نمونہ تین اشعار کی تقطیع بھی فرما دی ہے- اس فن میں خالی دست ہونے کے باوجود ہمیں اس اظہار میں تأمل نہیں کہ مصنف اپنے موقف میں حق بجانب ہیں-
’’ قصیدہ بردہ کی بلاغی پیمائش‘‘ اور’’شرح بردہ‘‘ کتاب کے اہم ترین مباحث ہیں اور مصنف نے ان دونوں میں خوب محنت کی ہے اور داد تحقیق دی ہے- شرح کا انداز یہ ہے کہ پہلے صحت اعراب کے ساتھ ایک یا دو شعر نقل کرتے ہیں ، پھر خوب صورت ، سلیس اور با محاورہ ترجمہ کرتے ہیں، پھر حل لغات اور پھر شرح و بسط سے اس کی توضیح و تشریح فرماتے ہیں - یہ صفحہ ۱۴۹ سے آخر کتاب صفحہ ۴۲۴ تک یعنی ۳۷۵ صفحات کو محیط ہے- شرح میں ایک خاص بات یہ ہے کہ قصیدہ کے مختلف اجزاء ذکر عشق، اصلاح خواہش نفس، مدحت رسول، ذکر میلاد، معجزات، عظمت قرآن ، معراج رسول، غزوات نبی، استغفار و توسل، مناجات و عرض حاجات کو الگ الگ دس فصلوں میں بانٹ دیا گیا ہے- اس سے قصیدہ فہمی اور آسان ہو گئی ہے - لیکن ان دسوں فصلوں کا نام عربی میں لکھا گیا ہے مثلاً’’ الفصل الثانی فی منع ھوی النفس‘‘ جو اردو شرح اور خالص ار دو قارئین کے مد نظر مستحسن نہیں ہے-
’’قصیدہ بردہ کی بلاغی پیمائش‘‘ (۷۷-۱۴۰) ہم نے بطور خاص دلچسپی سے پڑھی، اس سے نہ صرف قصیدہ بردہ کی خوبیاں نکھر کر سامنے آتی ہیں، بلکہ ہم جیسے طالب علموں کو فن بلاغت اور محاسن کلام سمجھنے کا شعور بھی ملتا ہے- کتاب کا یہ حصہ خاصے کی چیز ہے- محاسن بلاغت کی توضیح و تفہیم میں مصنف نے قصیدہ بردہ کے اشعار کے علاوہ اردو فارسی اور عربی کے دوسرے مستند شعراء کے کلام سے بھی نمونے پیش کیے ہیں- اس خصوص میں امام نعت گویان اردو حضرت رضا بریلوی کے اشعار زیادہ نقل کیے گئے ہیں جو در حقیقت اس کے مستحق ہیں- اس حصے میں مجھے ایک دو مقام پر تأمل بھی ہوا، مثلاً حضرت مولانا نے میرانیس کے اس شعر کو
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
تشبیہ بلیغ کی مثال میں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے’’ اس میں دوستوں کے دلوں کو آبگینوں (شیشوں) سے تشبیہ دی ہے، وجہ تشبیہ اور ادات تشبیہ دونوں محذوف ہیں-‘‘(ص: ۸۴) لیکن میرانیس کے ہی ایک دوسرے شعر
دولت کوئی دنیا میں پسرسے نہیں بہتر
راحت کوئی آرام جگر سے نہیں بہتر
کو استعارہ تصریحیہ کی مثال میں پیش کیا ہے- حالانکہ پہلے اور دوسرے شعر میں ’’ آبگینوں‘‘ اور ’’ آرام جگر‘‘ کے استعمال میں ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آیا، دوسرے شعر میں بھی ’’ اولاد‘‘ کی تشبیہ ’’ آرام جگر‘‘ سے دی گئی ہے اور وجہ تشبیہ اور ادات تشبیہ محذوف ہے، پھر پہلے شعر میں تشبیہ بلیغ اور دوسرے میں استعارہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے- اگر دوسرے شعر کے تعلق سے کہیں کہ اس میں مشبہ مذکورنہیں اور یہ تشبیہ کی نہیں استعارہ کی صورت ہے تو اس ہیچ مداں کی رائے میں پہلے شعر کی صورت بھی اس سے مختلف نہیں ہے- اور اگر پہلے شعر کے تعلق سے یہ کہا جائے کہ اس کے پہلے مصرعے میں ’’ مشبہ‘‘ ’’خاطر‘‘ موجود ہے، اس لیے وہ تشبیہ بلیغ ہے تو ہم دوسرے شعر کے بارے میں بھی یہی بات کہیں گے، کیوں کہ یہاں بھی پہلے مصرع میں ’’ پسر‘‘ موجود ہے-اسی طرح حضرت بوصیری کے اس شعر کو
دعنی و وصفی آیات لہ ظہرت
ظہور نار القری لیلا علی علم
 مصنف نے تشبیہ بلیغ کی مثال میں پیش کی ہے (ص: ۸۵) حالانکہ ہماری ناقص رائے میں یہاں وجہ شبہ ’’ ظہور‘‘ عبارت میں موجود ہے ، جس کے ہوتے ہوئے تشبیہ بلیغ نہیں ہو سکتی -
اسی طرح حضرت امام کے اس شعر میں
وراعہا و ہی فی الأعمال سائمۃ
وان ہی استحلت المرعی فلاتسم
 شارح محترم استعارہ بالکنایہ کی نشاندہی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں’’ اس شعر میں نفس کو ایک جانور سے تشبیہ دی ہے، پھر مشبہ بہ (جانور) کو حذف کر کے اس کے خصائص میں سے ایک خصوصیت ’’سائمہ‘‘ (چرنے والا) ذکر کر دیا ہے، تو یہ استعارہ بالکنایہ ہوا-(ص: ۹۵) جب کہ یہی شعر اور یہی لفظ ’’ سائمہ‘‘ صفحہ ۹۲ پر استعارہ تصریحیہ کی مثال میں پیش کیا گیا ہے- ہمیں امید ہے کہ استاذ گرامی ہمارے اشہب نظر کی تادیب فرمائیں گے -
اس طرح کی دو تین کو تاہیوں (ممکن ہے یہ کوتاہی ہماری نظر کی   ہو)سے قطع نظر زیر نظر کتاب اپنے فن اور موضوع سے مکمل انصاف کرتی ہے، تاہم اگر اس میں ناقدین قصیدہ بردہ کا ذکر اور ان کی تنقیدوں کا جائزہ بھی لے لیا گیا ہو تا تو اس کی جامعیت انتہاے کمال کو پہنچ جاتی۔
 طلبہ اور اساتذہ کے لیے یکسا ں طور پر مفید و کار آمد اس کتاب کی خوب  پذیرائی ہونی چاہیے -

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔