Wednesday 9 August 2017

0 comments
  • دعوت وتبلیغ کی راہیں مسدود کیوں؟
                                    از قلم:- ذیشان احمد مصباحی
    ------------------------------------------------------------------------------------------------------
    زیر نظر مضمون الجامعۃ الاشرفیہ میں سال فضیلت (۲۰۰۴ء) میں مفتی بدر عالم مصباحی صاحب کی تحریک پر سپرد قلم کیا گیا تھا، اسے مولانا مبارک حسین مصباحی صاحب نے بھی ملاحظہ کیا اور پسندیدگی کے بعد دونوں حضرات نے اشاعت کے لیے اسے جام نور میں ارسال کرنے کا مشورہ دیا، بعد ازاں حضرت مولانا عبد المبین نعمانی صاحب سے اصلاح لینے اور عنوان منتخب کرانے کے بعد جام نور کو ارسال کر دیا، لیکن بوجوہ اب تین سال بعد اس کی اشاعت کی نوبت آ رہی ہے، ہمیں امید ہے کہ قارئین اس تنقیدی مضمون کے تعمیری اور مثبت پہلوؤں سے مستفید ہوں گے --------- [ذیشان احمد مصباحی]
    ----------------------------------------------------------------------------
    ۳۷ھ میں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان تحکیم (فریقین میں سے ہر ایک نے علی الترتیب حضرت ابو موسیٰ اشعری اور عمر و بن عاص کو اپنا حکم بنایا تھا اور ان کے متفقہ فیصلہ پر سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے)کا مسئلہ اٹھا تھا، جس کے بطن سے بنام اسلام دو نئے فرقے سامنے آئے-ایک خارجی، جو حضرت علی کی مخالفت میں اس قدر غلو پر اتر آئے کہ انہیں کافر تک کہہ ڈالا اور دوسرے روافض ، جو حضرت علی کی محبت میں اس طرح وارفتہ ہوئے کہ بعض نے انہیں پیغمبر بلکہ خدا تک کا درجہ دے دیا- یہ دونوں فرقے جادۂ اعتدال سے ہٹے ہوئے افراط و تفریط کے شکار تھے، جو مسلمان اس افراط و تفریط سے الگ تھے، کتاب وسنت اور صحابہ کرام علیہم السلام کے پیرو کار تھے، اہل سنت و جماعت کہلائے-
    اہل سنت و جماعت کے خلاف بعد کے ادوار میں کئی ایک چھوٹے بڑے فرقے ظاہر ہوئے، معتزلہ، جبریہ، قدریہ، مرجۂ اور باطنیہ جیسے بے شمار نام آپ کو تاریخ میں مل سکتے ہیں-گرچہ اس دور میں ان کا وجود عنقا ہے- لیکن اپنے دور میں انہوں نے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا، اندرون خانہ ان کی ریشہ دوانیوں کے سبب بارہا اربا ب دعوت و عزیمت کو اسلام کی ترویج و اشاعت اور مسلمانوں کی اصلاح کے بجائے، ان کی طرف رخ کرنا پڑا، جس سے دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں میں باندھا پڑا-
    اٹھارہویں صدی میں ابھرنے والا’’فرقۂ وہابیہ‘‘ ماضی کے تمام فرقوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا، اس نے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کر دیں، اس سے نہ صرف روحانی قوتوں کا خاتمہ ہوا، بلکہ اسلام کی سیاسی ،علمی ، عسکری اور تہذیبی قدروں کا بھی جنازہ نکل گیا، وہابیت کی کارستانیوں کو ہم ذیل کے خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں-
        (۱)- رد بدعات و منکرات کے نام پر سواد اعظم اہل سنت و جماعت پر کفر و شرک کا فتوی د یا-
        (۲) - مسجد کے قبوں اور صحابہ و تابعین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مزارت کو مسمار کر دیا-
        (۳)- برطانوی سامراج سے تال میل کر کے سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کرا دیا-
    ان کارستانیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ عربو ںمیں باہم اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی اور عرب قریوں اور بستیوں میں تقسیم ہو گیا، عرب و عجم کے مسلمانوں نے مسیحیت اور یہودیت کی غلامی قبول کر لی اور مغربی میڈیا کے غلط پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر اپنی تہذیب و تمدن اور اپنی مذہبی روایت کو خود ہی قدامت پرستی (Fundamentalism ) اور خود کو جدید و روشن دماغ مسلمان(Radical Muslims) سمجھنے لگے- عظمت مصطفی علیہ التحیۃ والثناء، عزت صحابہ اور احترام سلف دل سے محو ہونے لگا۔ہر کس و ناکس خود کو امام ابو حنیفہ اور امام غزالی سمجھنے لگا- عقل پرستی کا شعلہ بھڑکا جسے یہودی، عیسائی اور وہابی مشنریاں برابر ہوا دیتی رہیں۔
    مذہبی اعتبار سے وہابیت بظاہر ایک اصلاحی تحریک تھی، اس سے متاثر ہو کر ۱۳۴۰ھ میں مولوی اسماعیل دہلوی (م ۱۲۴۶ھ -۱۸۳۱ء) نے ’’تقویۃ الایمان‘‘ لکھی اور وہابیت کی آگ کو اسلامیان ہند کے خرمن میں لگا دیا- مشہور غیر مقلد عالم مولانا وحید الزماں فاروقی (۱۳۳۸ھ) نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے، وہ لکھتے ہیں -’’ اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب ’’ تقویۃ الایمان‘‘ میں محمد ابن عبد الوہاب نجدی کی پیروی کی ہے‘‘-( مولانا یٰسین اختر مصباحی، سواد اعظم ص: ۱۶، بحوالہ ہدیۃ المہدی، از وحید الزماں فاروقی)
    جس وقت یہ کتاب شائع ہوئی شاہ عبد العزیز محدث دہلوی، جو مصنف کے چچا تھے، اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے، انہوں نے بڑے درد و کرب بھرے لہجے میں کہا:
    ’’ میں اس وقت بوڑھا ہوں، ورنہ تقویۃ الایمان کے رد میں بھی’’ تحفۂ اثنا عشریہ‘‘ کی طرح ایک ضخیم کتاب لکھتا‘‘- (مولانا مبارک حسین مصباحی، برصغیر میں افتراق بین المسلمین کے اسباب ،ص: ۱۱۸)
    لیکن جو حضرات جوان تھے انہوں نے لکھا اور خوب لکھا-مصنف کے چچا زاد بھائی مولانا مخصوص اللہ دہلوی، مولانا محمد موسیٰ دہلوی، علامہ فضل حق خیر آبادی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی  مکہ احمد ابن زینی دحلان ، مولانا مخلص الرحمن اسلام آباد، شیخ محمد عابد، مدینہ منورہ اور دوسرے درجنوں علمانے ’’ تقویۃ الایمان ‘‘ کے خلاف کتابیں لکھیں، تقریریں کیں اور مناظرے کیے- ان میں سب سے زیادہ سرگرم بقول مولانا آزادؔ ان کے پرنانا مولانا منور الدین علیہ الرحمہ تھے - (آزاد کی کہانی آزاد کے زبانی ،ص: ۶)
    ’’تقویۃ الایمان ‘‘ نے اہالیان ہند کو کیا دیا اور ریال کے زور پر پھیلنے والی اس فکر نے کیا تباہیاں مچائیں، مولانا شاہ زید ابو الحسن فاروقی کی زبانی سنیے:
    ’’ اس کتاب (تقویۃ الایمان) سے مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا، کوئی غیر مقلد ہوا، کوئی وہابی بنا ، کوئی اہل حدیث کہلایا ، کسی نے اپنے آپ کو سلفی کہا، ائمہ مجتہدین کا جو منزلت اور وقار دل میں تھا ، وہ ختم ہوا، معمولی نوشت و خواند کے افراد امام بننے لگے اور افسوس اس بات کا ہے کہ توحید کی حفاظت کے نام پر بارگاہ نبوت کی تعظیم و احترام میں تقصیرات کا سلسلہ شروع ہوگیا‘‘ -
    انقلاب ۱۸۵۷ء سے ایک سال قبل ۱۸۵۶ء /۱۲۷۲ھ میں شہر بریلی میں امام احمد رضا خاں بریلوی (م ۱۳۴۰ھ ۱۹۲۱ء) کی ولادت ہوئی، وہ ایک علمی گھرانے کے فرد تھے، جب انہوں نے ہوش سنبھالا ہر چہار جانب وہابیت کی آگ لگی ہوئی تھی اور ملک کے سبھی علماء اس کے خلاف بر سر پیکار تھے، ان کے معاصر علمامیں زبان وقلم سے ’ ’رد وہابیہ‘‘ کرنے والوں میں یہ حضرات قابل ذکر ہیں-
    (۱)مولانا عبد الحئی فرنگی محل (م ۱۳۰۴ھ) (۲) مفتی ارشاد حسین رام پوری (م۱۳۱۱ھ) (۳) مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی (م۱۳۱۳ھ) (۴) مولانا غلام دستگیر قصوری، لاہور (م:۱۳۱۵ھ) (۵) مولاناعبد القادر بدایونی (م: ۱۳۱۹ھ) مولانا ہدایت اللہ رام پور (م:۱۳۲۶ھ) (۷) مولانا خیر الدین دہلوی (م: ۱۳۲۶ھ) (۸) شاہ ابو الخیر دہلوی (م: ۱۳۴۱ھ) (۹) حضرت شاہ علی حسین اشرفی (۱۳۵۵ھ) (۱۰) شاہ مہر علی گولڑوی (۱۳۵۶ھ)
    فاضل بریلوی نے بھی اپنے ہم عصر علماے حق کے ساتھ رد وہابیہ کو اپنا مشغلہ بنایا اور اپنے اور بیگانے کا فرق کیے بغیر جس کے فکر و اعتقاد میں بھی ذراسی کجی پائی اس کا بھر پور محاسبہ کیا اور ان کی شدید خبر گیری کی جو سنی حنفی بن کر’’ وہابی فکر‘‘ کی اشاعت میں خفیہ طور سے کوشاں تھے- اس طرح فاضل بریلوی کی کوشش خالص اہل سنت و جماعت کے حق میں تھی-
    لیکن حالات کی ستم ظریفی یا تاریخ کی بو العجبی کہیے کہ بعد کے ادوار میں ایک غلط اصطلاح ’’ بریلویت‘‘ سامنے آئی- اس کے پیچھے ایک منظم سازش تھی جو اہل سنت کی سادہ مزاجی سے بہ آسانی کامیاب ہو گئی ، جب ہم اس کے اسباب پر غور کرتے ہیں تو یہ چند باتیں سامنے آتی ہیں-
    (الف) وہابیہ کے رد میں اگرچہ اس دور کے سبھی بڑے علماء شریک تھے، مگر ان کے بعد کی نسلوں یا شاگردوں میں رد وہابیہ کے تعلق سے وہ اسپرٹ نہیں رہی جو ان کے اندر تھی-
    (ب) ’’وہابیت‘‘ اور اس کے ہمنوائوں کے خلاف تنہا اعلیٰ حضرت کی تحریریں دوسرے سبھی علماء سے زیادہ اور دلائل و براہین میں سب سے بڑھی ہوئی ہیں-
    (ج) امام احمد رضا کے تلامذہ اور خلفاعلم و فن میں یگانۂ روز گار ثابت ہوئے اور علمائے سلف اور اپنے استاد کے مشن کو سب نے بر قرار رکھا، انہوں نے تقریر، مناظرہ اور تصنیف و تالیف ہر طرح سے’’ وہابیت‘‘ کی حقیقت کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی پوری کوشش کی- جس سے جگہ جگہ اسے منہ کی کھانی پڑی-
    اب وہابیت کے سامنے ایک ہی راستہ تھا ،وہ یہ کہ علماے اہل سنت سے بحث و تکرار کی بجائے پروپیگنڈ ہ کا سہارا لو اور اہل سنت و جماعت کے علما کو ہی اصل فتنہ و اختلاف کا ذمہ دار ٹھہرا دو، اس کے لیے انہوں ے علماے اہل سنت کو ’’ بریلوی‘‘ سے متعارف کرایا اور خود اہل سنت و جماعت ہونے کے بلند بانگ دعوے کرنے لگے، ان کے اس پروپیگنڈہ کے اثرات آج گائووں اور شہر وں میں ہر جگہ محسوس کیے جا سکتے ہیں- غریب سے امیر تک، تعلیم یافتہ طبقہ سے جاہل عوام تک، ہر فرد بشر پر یہ جادو چل گیا ہے- رفتہ رفتہ وہ اہل سنت سے دور ہونے لگے ہیں اور ان کے مزاج میں یک گونہ بیزاری کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے، آج کی اس نشست میں ہمیں اسی پہلو پر خاص طور سے گفتگو کرنی ہے اور سدباب کی راہیں تلاش کرنی ہیں-
    اس بیزاری کا بنیادی سبب یہی ہے کہ مسلک اہل سنت و جماعت کو وہابیہ نے اعلیٰ حضرت کی طرف منسوب کر دیا اور ہمارے خطبا نے ’’مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ کا نعرہ لگوا کر اس کی تصدیق کر دی ، اس سے ایک غلط تاثر یہ پیدا ہوا کہ ’’ بریلویت‘‘ ایک جد ااسلامی فرقہ ہے، جس کے بانی مولانا احمد رضا خاں بریلوی ہیں، اگر خطباء نے مذکورہ بالا نعرہ نہیں لگوایا ہوتا تو ایسے حالات پیدا نہیں ہوتے، ہمیں چاہیے کہ اب’’مسلک اعلیٰ حضرت ‘‘ کہنے کی بجائے اسے مسلک اہل سنت و جماعت ہی کہیں- اس سے ذہن فوراً اس سمت جاتا ہے کہ ہم سواد اعظم کے علم بردار ہیں- اس سے ایک عام تعلیم یافتہ کو یہ شبہ بھی نہیں ہوگا کہ دیو بندیت، وہابیت اور قادیانیت کی طرح ’’ بریلویت‘‘ بھی ایک نیا فرقہ ہے اور اہل سنت کے وہ افراد جو بریلی کے علاوہ کسی دوسری درس گاہ یا خانقاہ سے وابستہ ہیں، ان کے لیے بھی کچھ ناگواری کا باعث نہیں ہوگا ، اس صورت میں ہمیں کسی طرح کی وضاحت کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کہ’’ مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ وہی مسلک ہے جو صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم کا تھا- کسی چیز کا حق ہونا الگ بات ہے اور اس کے اثرات و نتائج علیحدہ چیز ہیں-
    بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ جب وہابیہ خود کو اہل سنت و جماعت سے بتاتے ہیں، ایسی صورت میں اس لفظ سے ہمارا امتیاز باقی نہیں رہتا، امتیاز کے لیے ضروری ہے کہ کوئی دوسرا لفظ لایا جائے اور ’’مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ سے بہتر کوئی دوسرا لفظ ابھی موجود نہیں ہے-
    لیکن ہمارا اپنا خیال ہے کہ ’’ اہل سنت و جماعت‘‘ سے کل کی طرح آج بھی ہمارا مکمل امتیاز حاصل ہو جاتا ہے، وجہ یہ ہے کہ نئے فرقے خود کو اہل سنت سے بتاتے ضرور ہیں مگر عوام یہی سمجھتے ہیں کہ و ہ سنی یا اہل سنت و جماعت سے نہیں ہیں- نبیرۂ اعلیٰ حضرت علامہ اختر رضا خان ازہری صاحب کی ذیل کی باتوں سے بھی میرے موقف کی تائید ہوتی ہے، ایک رسالے کو انٹرویو دیتے ہوئے اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
    ’’ بریلوی کوئی مسلک نہیں ہے، ہم مسلمان ہیں، اہل سنت و جماعت ہیں، ہمارا مسلک یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں، حضور کے صحابہ کا ادب کرتے ہیں، حضور کے اہل بیت سے محبت کرتے ہیں، حضور کی امت کے اولیاء اللہ سے عقیدت رکھتے ہیں، فقہ میں ہم امام اعظم ابو حنیفہ کے مقلد ہیں، ہم اپنے آپ کو بریلوی نہیں کہتے ، ہمارے مخالف ہمیں بریلوی کہتے ہیں‘‘-(مولانا یٰسین اخترمصباحی ، سواد اعظم ،ص: ۲۸، بحوالہ ماہنامہ ضیاء حرم، لاہور، فروری ۱۹۸۶ء)
    پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مدظلہ لکھتے ہیں:
     ’’سواد اعظم اہل سنت کے مسلک قدیم کو عرف عام میں بریلویت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ عرف بھی پاک و ہند میں محدود ہے، اصل میں امام احمد رضا اور اس مسلک قدیم کے مخالفین نے اس کو’’ بریلویت‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے اور بقول ابو یحییٰ امام خان نوشہری ’’ یہ نام علماء دیو بند کا دیا ہوا ہے‘‘-(ڈاکٹر محمد مسعود احمد ،مقدمہ البریلویت کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ،ص:۲۰)
    ممکن ہے کہ بعض حضرات کو یہ خیال گزرے کہ ہمارے بعض اکابر علماء نے بھی اپنے لیے’’ مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ کا علم بردار اور’’ بریلوی‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، پھر آج اگر ہم ان الفاظ کا استعمال کرتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ایسے حضرات سے عرض ہے کہ الفاظ زیادہ اہمیت کے چیز نہیں، اہمیت اس بات کی ہے کہ کب اور کن حالات میں کس لفظ کا استعمال بہتر ہے ، ممکن ہے ہمارے اکابر علماء نے اپنے وقت میں قرین مصلحت انہی الفاظ کے استعمال کو سمجھا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وقتی جذباتیت کے اثر میں انہوں نے ایسا کر دیا ہو- ایسے میں ہمیں بالکل یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم حالات اور مصالح سے آنکھیں موند کر ان الفاظ کے استعمال کو اپنے اوپر واجب و لازم کر لیں-
    مسلک حق سے بیزاری کی دوسری بنیادی وجہ یہ پروپیگنڈہ ہے کہ’’ بریلوی‘‘ بدعتی اور قبر پرست ہیں، ان میں تشدد بہت زیاد ہ ہوتا ہے، یہ سب کو بہت جلد کافر کہہ دیتے ہیں، یہ تقریریں بڑی اچھی کرتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، یہ جاہلوں اور گنواروں کی جماعت ہے، یہ علم و تحقیق سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے، قرآن و حدیث سے زیادہ صوفیہ کے ملفوظات اوررسم و رواج پر اعتماد کرتے ہیں، ان میں بعض ہندوانہ رسم و رواج داخل ہیں، یہ عورتوں کو مزارات پر لے جا کر بھیڑ لگاتے ہیں وغیرہ وغیرہ-
    یہ باتیں ایسی ہیں کہ انہیں کسی بھی سادہ ذہن اور انصاف پسند آدمی کے سامنے پیش کر دیا جائے تو وہ اس مسلک سے شدید طور پر متنفر ہو جائے گا- لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈہ کیا کس نے؟ اس کا جواب عام طور سے یہ دیا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت بریلوی نے جن لوگوں کی غلط باتوں اور غیر اسلامی عبارتوں پر شدید گرفت فرمائی تھی، انہوں نے پہلے حیلے بہانے اور تاویل کا راستہ اختیار کیا اور جب اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو غلط پروپیگنڈہ کر کے اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور افکار و عقائد کو مسخ کر کے انہیں مشکوک کردیا اور بجائے اس کے کہ اعلیٰ حضرت کے افکار و نظریات کو ان کی کتابوں سے ثابت کرتے، جاہلوں اور مجاوروں کی غیر شرعی حرکتوں کو مسلک رضا اور بریلویت کی پہچان بنا کر پیش کر دیا-
    مذکورہ جواب سے کلی طور پر اس لیے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں فاضل بریلوی کے متبعین کی کوتاہیوں سے یکسر صرف نظر کر لیا گیا ہے، جب کہ اعلیٰ حضرت کی شخصیت اور ان کے نظریات کو مسخ کرنے میں غیر دانستہ طور پر ہی سہی، ان کے عقیدت مند بھی شامل ہیں اور یہ سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو ہے اور اسی کی تلافی کے لیے ہمیں سوچنا بھی چاہیے- ممکن ہے کہ آپ کو یہ ایک عجیب سی بات لگ رہی ہو، مگر مجھے توقع ہے کہ آنے والی سطروں سے آپ کو اطمینان حاصل ہو جائے گا اور یہ واضح ہو جائے گا کہ اعلیٰ حضرت اور ان کے مسلک و نظریات کے خلاف پروپیگنڈہ میں ان کے عقیدت مند بھی مجرم ہیں، ان کے جرم کو ہم ذیل کے خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں -
    (۱) اعلیٰ حضرت کا محدود تعارف (۲) اعلیٰ حضرت کی اصلاحی خدمات سے چشم پوشی (۳) اعلیٰ حضرت یا مفتی اعظم ہند سے فروعی مسائل میں اختلاف کوناقابل معافی جرم تصور کرنا (۴) بے جا تشدد (۵) مرکزیت کی بحث (۶) مذہبی جلسوں کی حالت زار(۷) عصری تعلیم یافتہ طبقہ سے علیحدگی (۸) افہام و تفہیم سے گریز (۹) دعوت و اصلاح کے شعبے سے بے توجہی (۱۰) علما اور خواص و عوام میں بد عملی (۱۱) اعلیٰ حضرت کے ہم عصر اور ان سے پہلے کے علماء سے بے تعلقی (۱۲) فکری پسماندگی-
    [۱]اعلیٰ حضرت کا محدود تعارف]
    اب تک ہم نے عوام وخواص اور اپنوں اور بیگانوں میں اعلی حضرت کا ہمہ گیر تعارف نہیں کرایا، ادعائی اسلوب میں توپہلے بھی بہت مضامین لکھے گئے اور اب بھی لکھے جاتے ہیں- مگر ایسی تحریر جو سنجیدہ اور تحقیقی ہو، شاید وباید کہیں نظر آ جائے، ان کی سیرت و سوانح پر بھی جو کچھ لکھا گیا اس پر مناظراتی رنگ غالب ہے، جس سے فاضل بریلوی کا ہر پہلو سامنے نہیں آتا، یہ بھی ایک ا لمیہ ہے کہ ان کی سیرت پر ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری کی مبسوط اور مفصل کتاب ابھی چند مہینے پہلے شائع ہوئی ہے، کتنے محققین ہیں جنہیں فاضل بریلوی کے فتاوی پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ مولانا احمد رضا خان کیا تھے، پاکستان کے مشہور مذہبی اسکالر کوثر نیازی لکھتے ہیں:
    ’’ میں نے جو آپ کو (امام احمد رضا خان بریلوی کو) امام ابو حنیفہ ثانی کہا ہے وہ صرف عقیدت میں نہیں، بلکہ’’ فتاوی رضویہ‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ اس دور کے امام ابو حنیفہ تھے‘‘- (سہ ماہی رفاقت ، پٹنہ، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۳ء ص: ۲۳)
    آج خوشی ہے کہ ہند وپاک کے کئی محقق اور دانشور اعلیٰ حضرت کی صحیح تصویر پیش کرنے میں جٹے ہوئے ہیں، لیکن یہ کام ابھی اور ہمہ گیریت کا متقاضی ہے، خصوصاً اعلیٰ حضرت کی اصلاحی اور سائنسی تحریروں کی زیادہ سے زیادہ تسہیل کر کے عام کرنے اور دعوے سے زیادہ دلائل کی روشنی میں ان کی شخصیت اور ان کے عظیم کارناموں کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ فاضل بریلوی پر آج بھی جو تحریریں سامنے آ رہی ہیں ، ان میں بیشتر ایسی ہوتی ہیں جن میں حقائق کو اجاگر کرنے سے زیادہ اعلیٰ حضرت کو بھاری بھرکم اور مقفی القابات دینے کی کوشش ہوتی ہے، اس سے اچھی تحریر بھی سطحی ہو کر رہ جاتی ہے اور شدید نیاز مندیوں کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے، مثلاً ایک صاحب  اعلیٰ حضرت  اوررد فلسفہ سے متعلق اپنے مضمون کا آغاز کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
    ’’ بحر العلوم النقلیہ،حبر الفنون العقلیہ ، شیخ الاسلام والمسلمین، مجدد مائۃ ماضیہ، امام الائمہ حضور سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی…‘‘کیا اس سے ایک عام قاری یہ تأثر نہیں لے گا کہ مضمون نگار عقیدت مندی میں بے خود ہے اور میں تو اسے عقیدت بھی نہیں سمجھتا کہ اعلیٰ حضرت کو بھاری بھرکم القاب دے کر ان کی تحقیقات کو بے وزن کر دیا جائے، عقیدت تو یہ ہے کہ القاب کے بغیر سادہ، سہل اور سلیس زبان میں ان کے تحقیقی کارنامے اس طور پر پیش کر دیے جائیں کہ کم پڑھا لکھا شخص بھی سمجھ سکے اور فاضل بریلوی کی علمیت کا قائل ہو، کیا جارج اسٹیفن، ایڈیسن اور دوسرے ماہرین کی تحقیقات اور جدید نظریات پیش کرتے ہوئے آج کوئی انہیں طویل القاب دیتا ہے -آج اعلیٰ حضرت کو عقیدت کی عینک کے بجائے علم و تحقیق کے آئینے میں دیکھنے اور دکھانے کی ضرورت ہے-
    [۲] اعلیٰ حضرت کی اصلاحی خدمات سے چشم پوشی:-
    اعلیٰ حضرت کی زندگی صرف وہابی ازم کی تردید میں نہیں گزری، بلکہ بدعات و منکرات کا رد بھی ان کی زندگی کا اہم مشغلہ رہا- لیکن اس پہلو پر بہت کم روشنی ڈالی گئی جس سے بریلویت کو ’’ قبوری شریعت‘‘ کا ہم معنی قرار دے دیا گیا- ایک دیو بندی ناقد لکھتا ہے:
    ’’ آج مزارات پر جو عرس اور میلے ہوتے ہیں اور عورتیں ان میں کھچا کھچ چلی آتی ہیں ان کے (بریلوی) علماء ان کے خلاف قطعًا کوئی آواز اٹھا نہیں سکتے‘‘ -(مقدمہ: مطالعۂ بریلویت ،ص: ۱۹)
    کیا ان جملوں کو یہ کہہ کر ٹھکرا دینا انصاف ہے کہ یہ الزام تراشی اور بہتان طرازی پر مبنی ہیں، حقیقت سے آنکھیں چرانا حق کے علم برداروں کے لیے قطعی زیب نہیں دیتا ، آپ ذرا انصاف کی نگاہ سے دیکھیے کہ ’’ مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ کا نعرہ لگانے والے خود ہی اعلیٰ حضرت کے بہت سے نظریات کے عملاً مخالف ہیں ، کیا اس سے بھی قابل افسوس بات کچھ ہو سکتی ہے؟ حیرت ہوتی ہے کہ اسی جگہ’’ مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ کا پر زور نعرہ بھی لگتا ہے اور وہیں چادر پوشی میں غلو، ڈھول تاشہ اور عورتوں کی حاضری جیسی بدعتوں میںقصداً اعلیٰ حضرت کی مخالفت بھی ہوتی ہے- ہمیں اس اعتراف میں کوئی تامل نہیں کہ بہ استثنائے چند ہندوستان کی موجودہ سبھی خانقاہوں کی اصلاح کی ضرورت ہے، کیوں کہ ان میں غیر اسلامی امور بڑے شوق سے انجام پا رہے ہیں، جس سے اعلیٰ حضرت اور مسلک اعلیٰ حضرت سے ایک بڑا طبقہ دن بدن بیزار ہوتا جا رہا ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ ان خرافات کی تردید میں ہمارے عام مبلغین اور خطبا کی زبانیں کیوں گنگ ہیں؟ جس کے سبب مسلک حق پر’’ قبوری شریعت‘‘ کا الزام قوی ہوتا جا رہا ہے- اگر ہم ان فتنوں کو نہیں روک سکتے تو پوری وضاحت کے ساتھ ان سے اپنی براء ت کا اظہار تو کر ہی سکتے ہیں- کیوں کہ اہل سنت کے نزدیک اعراس کے جواز کے یہ قطعی معنی نہیں کہ مزارات پر جو کچھ بھی ہو سب کی وکالت ہی کی جائے- ہاں کچھ ذمہ دار علماو محققین ہیں جو تقریر و تحریر میں اصل حکم کو بیان کرتے ہیں لیکن ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے ،ضرورت ہے کہ پوری اجتماعیت کے ساتھ اس صدائے حق کو بلند کیا جائے اور اعلان حق میں کسی بندے کے ’’غضب ‘ ‘ کا خوف نہ کھا جائے-
    [۳] اعلیٰ حضرت اور مفتی اعظم سے فروعی مسائل میں اختلاف ناقابل معافی جرم:-
    فروعی مسائل میں اختلاف عصر جدید کی ایجادات سے نہیں ہے، بلکہ قرون اولیٰ تک اس کا سلسلہ دراز ہے، علماے کرام اور فقہاء انہیں ’’توسع‘‘ پر مبنی مانتے ہیں، یہاں پر’’ اسلم راستہ‘‘ یہ ہے کہ آج جو عالم آپ کے نزدیک زیادہ معتبر و معتمد ہو اس کی بات پر عمل کیجیے- لیکن دوسرے عالم پر طعن و تشنیع کرنے کا حق آپ کو ہرگز نہیں- آپ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسرے اولوالعزم پیغمبروں کا مذاق اڑائیے، حنفی ہونے کا یہ قطعی معنی نہیں کہ امام مالک اور امام شافعی رضی اللہ عنہما کی شان میں نازیبا کلمات کہیے اور شافعیوں اور مالکیوں کا مکمل بائیکاٹ کیجیے- اسی طرح آپ اگر برکاتی اور رضوی ہیں تو دوسری خانقاہوں کے مریدین اور ان کے پیروں کی تذلیل و تحقیر روارکھیں، آپ کو بالکل اس کا حق نہیں لیکن اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور مفتی اعظم ہند کے بارے میں بہت سے ایسے لوگ مل جائیں گے جو یہ خیال رکھتے ہیں کہ کسی بھی مسئلہ میں ان سے معمولی انحراف بھی جہالت اور گمراہی ہے، جہاں کسی نے ان کے کسی فتویٰ کے خلاف فتویٰ دیا تو اس کی دارو گیر شروع ہو گئی، شدید نقطہ چینی ہوئی، بلکہ سب و شتم سے بھی گریز نہیں کیا گیا، اس رجحان نے بہت سے اپنوں کو دور کر دیا، جس سے سواد اعظم کی قوت متاثر ہوئی اور رفتہ رفتہ اس میں بد نظمی، انتشار اور باہم معرکہ آرائی کی صورت حال پیدا ہو گئی-
    اس رجحان کے سبب دوسری مصیبت یہ آن پڑی کہ یہ خیال زور پکڑنے لگا کہ بریلوی انتہائی شدت پسند اور قدامت پرست ہیں- مثلاً بعض جدید مسائل جو آسانی چاہتے ہیں اور جن پر حالات حاضرہ کو سامنے رکھ کر از سر نو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے- مگر ہمارے محققین نے ادھرسے آنکھیں بند کر لی ہیں ،کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی مسئلہ میں اعلیٰ حضرت سے اختلاف کر کے اپنی شخصیت کو جماعت میں مطعون کریں، بعض نے ہمت کی بھی مگر ان کے خلاف اس طرح ہر چہار جانب سے لوگ بھڑک اٹھے کہ اسے خاموشی میں ہی بھلائی محسوس ہوئی اور اگر کچھ اور ہمت کر کے میدان تحقیق میں اترنے کی صدائے مبارزت دی تو اس کے ایمان و عمل کے لالے پڑ گئے، مثال کے طور پر قوالی مع مزامیر ہی کو لے لیجیے، عہد قدیم سے اسلاف میں اختلاف رائے رہا ہے، خود اعلیٰ حضرت کے زمانے میں بھی اعلیٰ حضرت کے بعض ماننے والے قوالی کو پسند کرتے تھے، مگر اعلیٰ حضرت نے ان سے رشتہ ناطہ نہیں توڑا، جب کہ آج حالات مختلف ہیں-
    کیا یہ باتیں ایسی نہیں کہ لوگ مسلک اعلیٰ حضرت سے بیزار ہوں اور یہ سمجھیں کہ’’ بریلویت‘‘ اعلیٰ حضرت بریلوی کا خانہ زاد فرقہ ہے، کیا اس کی ضرورت نہیں کہ ہم اپنی روش سے باز آئیں اور ’’اعتدال‘‘ کو جو مسلک اہل سنت و جماعت کا خاصہ ہے، گلے لگا لیں-
    [۴] بے جا تشدد:-
    ایک ذمہ دار عالم دین اور مبلغ مفتی کے بارے میں سنا کہ جب وہ سری لنکا گئے تو وہاں انہیں عجیب و غریب شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑا- جب بھی تقریر کرتے، اعلی حضرت کا نام لینا ضروری ہوتا ، اگر اتفاق سے نہیں لیا تو تقریر کرنے کے بعد بعض حضرات سوال کر بیٹھتے کہ آپ نے اعلی حضرت کا نام کیوں نہیں لیا ؟ آپ نے اعلیٰ حضرت کا شعر کیوں نہیں پڑھا؟ نماز جمعہ سے پہلے اعلیٰ حضرت کا لکھا ہوا خطبہ کیوں نہیں پڑھا؟ ملاّ ایک صاحب جو نیم تھے ایک دن آئے اور عرض کیا’’ حضرت ! مولانا الیاس قادری صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لفظ’’ تم‘‘ کا استعمال کیا ہے- وہ کہتے ہیں کہ ع…تم پہ لاکھوں درودتم پہ لاکھوں سلام - لہٰذا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے- مفتی صاحب نے فوراً اعلی حضرت کے چند ایسے اشعار سنا دیے جن کے اندر’’تم ‘‘ کا استعمال ہے، وہ صاحب خاموش ہو گئے ، مفتی صاحب کہتے ہیں کہ اس طرح کی باتوں سے میں تنگ آ گیا تھا، میں نے ایک روز تو یہاں تک کہہ دیا کہ تم لوگ جلد ہی نماز میں بھی اعلیٰ حضرت کا نام لینے کی فرمائش کرو گے-
    یہ بات کسی ایک جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ جہاں کہیں اردو داں سنی مسلمان ہیں سب جگہ کہیں کم کہیں زیادہ آپ ایسا ضرور پائیں گے، ہندوستان میں یوپی، بہار خصوصاً کرناٹک ، ناگپور اور راجستھان کے کئی علاقوں میں ایسی ذہنیت کے لوگ موجود ہیں-
    اس ذہنیت نے نہ یہ کہ صرف عام تعلیم یافتہ اور انصاف پسند لوگوں کو ہم سے دور کر دیا ہے ،بلکہ بہت سے غیر رضوی علما ومریدین بھی ہمیں الگ فرقہ تصور کرنے لگے ہیں، آج ایسے لٹریچر س کی سخت ضرورت ہے جن سے’’ تصلب فی الدین‘‘ اور’’ تشدد بے جا‘‘ میں فرق واضح ہو سکے اور پورے عالم اسلام خصوصاً ہندوستان کے سنی مسلمان نظریاتی طور پر متحد ہوں اور اپنے اندر طاقت و قوت کا احساس لائیں-
    [۵] مرکزیت کی بحث:-
    ماضی کے کچھ سالوں سے ایک نیا مسئلہ ’’مرکز سنیت‘‘ کا سامنے آ یا ہے، جو غایت درجہ فضول اور عبث ہے- اس سے پہلے تاریخ میں کبھی بھی ایسی بحث نہیں چھڑی، کسی نے بغداد، عراق، کوفہ، بصرہ ، دہلی وغیرہ شہروں کو اسلام یا شریعت و طریقت یا سنیت کا مرکز نہیں کہا، حالاں کہ ان شہروں میں بھی بڑے بڑے علما اور داعیان اسلام پیدا ہوئے ،پھر آج یہ بحث کیسی کہ کوئی کہے مبارک پور اہل سنت کا مرکز ہے، یا کچھوچھہ مقدسہ اہل سنت کا مرکز ہے، یا بریلی مرکز اسلام وسنیت ہے-
    اس حقیقت سے کون انکار نہیں سکتا ہے کہ جہاں خیر کی دعوت ہوتی ہے ، ادھر لوگ فطری طور پر متوجہ ہو جاتے ہیں، شہر بریلی میں چوں کہ ایک ایسے عالم ربانی کی تربت ہے جس نے اسلام مخالف قوتوں کو دلائل و براہین کی روشنی میں کیفر کردار تک پہنچایا اور مسلمانوں کو بڑی حد تک فتنوں سے محفوظ کر لیا- اب اس کی وجہ سے مسلمانوں کا بریلی کی طرف متوجہ ہونا فطری ہے، ایسے ہی مبارک پور میں اہل سنت و جماعت کا سب سے عظیم تعلیمی قلعہ ہے اور غالباً ملک کے ہر ہر گوشے سے طلبہ اور ان کے سرپرستوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس چمنستان علم و فضل کی زیارت کریں، لہٰذا اس سے بھی انہیں خصوصی ربط ہے، اسی طرح کچھ لوگوں کا تعلق بدایوں، کچھوچھہ یا اور دوسرے مقامات سے ہے، تو اب یہ ان کا فطری تقاضا ہے کہ وہ ان مقامات کی تعریف و توصیف کریں - جن پر کوئی پابندی نہیں لگائی جا سکتی -البتہ اس کے ساتھ’’ مرکزیت‘‘ کا لا یعنی مسئلہ کھڑا کر کے باہم الجھنا یقینا قابل افسوس ہے۔ اگر و فور جذبات میں کوئی کسی مقدس مقام کو ’’مرکزیت‘‘ کا درجہ دیتا بھی ہے ،تو اسے کم از کم اس کا حق نہیں کہ دوسرے مقامات کے تقدس و عظمت کا منکر ہو جائے- یا یہ حکم دوسروں کے سر بھی تھوپے کہ جسے میں کہتا ہوں وہی ’’ مرکز اہل سنت‘‘ ہے، جس سے نفسیاتی تقابلی جنگ کا آغاز ہو اور پھر اس کے لیے زبان وقلم کا استعمال کیا جائے اور اس بے معنی جنگ پر اپنا سرمایہ صرف کیا جائے-
    یہ غیروں کے نہیں، اپنے پائوں میں کلہاڑی مارنا ہے ، یہ بحث ہمیں دنیا سے الگ کر کے ایک محدود خطے میں قید کرتی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں اپنے حواس بیدار رکھنے ہوں گے اور امام احمد رضا محدث بریلوی سے ایسی عقیدت پر غور کرنا ہوگا ، جو خود ان کے افکار و نظریات کی اشاعت میں رکاوٹ بن رہی ہو-
    [۶] مذہبی جلسوں کی حالت زار:-
    مسلک اہل سنت و جماعت کو جاہلوں، گنواروں اور بدعتیوں کی جماعت سے موسوم کرانے میں مزارات کے غلط رسم و رواج کے بعد مروجہ مذہبی جلسوں کا اہم کردار ہے، مذہبی جلسوں کو وعظ و نصیحت کی مجلس اور اسوۂ رسول کا آئینہ دار ہونا چاہیے مگر یہ جلسے آج ڈرامہ، ایکٹنگ ، ڈائیلاگ اور لطیفوں اور قہقہوں کا اسٹیج بن گئے ہیں،جس کے سبب کوئی بھی سنجیدہ اور شریف مزاج انہیں پسند نہیں کرتا، نہ پڑھا لکھا طبقہ ایسے جلسوں میں جانے کی ہمت کرتا ہے-
    آج بعض بے عمل اور پیشہ ور مقررین کی ڈرامائی تقریر یں سن کر کوئی غیر مسلم مسلمان او رکوئی بے عمل پابند شریعت کیا ہوگا کہ سنجیدہ، با ہوش اور علمی طبقہ بیزار اور متنفر ہو کر ہم سے دور ہوتا جا رہا ہے، بد مذہب ان کا مذاق اڑاتے ہیں اور بے عمل مسلمان اور دلیر ہو جاتے ہیں، مقررین کا انداز بیان اسوۂ نبوی سے ذرہ برابر میل نہیں کھاتا-
    پھر محدود موضوعات خود بیزاری کی بڑی وجہ ہیں- خصوصاً لوگوں کو شفاعت کی تقریریں سنا سنا کر دلیر اور بے خوف بنانا قطعاً نا مناسب ہے- یہی وجہ ہے کہ امام غزالی نے ایسی تقریروں سے منع کیا ہے-
    موجودہ دور میں مذہبی جلسوں کے اندر نعتیہ اشعار سننے سنانے کا انداز بھی اس طرح بگڑ گیا ہے جس سے جماعت اہل سنت مضحکہ خیز ہو کر رہ گئی ہے، شاعر وں کی لچک، تصنع ، نغمگی ، بے سروپا باتیں اور سوقیانہ انداز بیان سے ہر شریف طبیعت کا اوب جانا فطری بات ہے-
    مذہبی جلسوں کو اس وقت دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے جب وعظ و نصیحت کی غرض سے سجی محفل کو مقابلہ جاتی ’’ محفل مشاعرہ‘‘ میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، اس وقت بہت ایسا ہوتا ہے کہ جاہل بے چارے یہ کہتے ہوئے اٹھ کر چل دیتے ہیں کہ یہ لوگ تو صرف گاتے ہیں، کچھ دین و اسلام کی بات نہیں بتاتے -بعض شعراء اور انائونسر حضرات تو اب کھل کر پیسے مانگنے لگے ہیں، کہتے ہیں کہ صرف زبان سے داد نہ دیجیے جیب کی طرف بھی نظر کیجیے ، ایک جگہ اسٹیج پر ایک شاعر پڑھ رہے تھے ’’صدقہ حسن حسین کا نذرانہ دیجیے‘‘ اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کر رہے تھے-
    [۷] عصری تعلیم یافتہ طبقہ سے علاحدگی:-
    مسلک حق سے بیزاری کے اسباب میں یہ بھی ایک اہم سبب ہے، ارباب مدارس نے کبھی بھی یونیورسٹیز کے افراد کو درخور اعتنا نہیں سمجھا، نہ اپنے طلبہ کو مدارس سے یورنیورسٹیز کی طرف بھیجا، نہ یونیورسٹی میں ہزاروں کی تعداد میں زیر تعلیم طلبہ اور وہاں کے اساتذہ کو اعلیٰ حضرت اور ان کے نظریات سے روشناس کرانے کی ضرورت محسوس کی- بلکہ اس خیال سے کہ وہاں آزاد اور مغربیت زدہ لوگ رہتے ہیں، ان سے علیحدگی کو ضروری سمجھا، آج بھی یونیورسٹیز میں متعدد سنی لکچرر اور پروفیسر موجود ہیں، لیکن صرف اس جرم کے سبب کہ وہ یونیورسٹی میں ہیں اپنے لوگ انہیں بہت کم اہمیت دیتے ہیں اور جو لیکچرر اور پروفیسر صاحبان ہیں ان کا حال بھی کچھ ایسا ہے کہ اپنے کو ظاہر کرنے سے ڈرتے ہیں،بالکل ایسے ہی جیسے کفار و مشرکین میں ہمارے عام مسلمان اپنے کو ظاہر کرنے سے ڈرتے ہیں، لہٰذا یہ حضرات بھی ذمہ دارا ہیں -ادھر نو پید افرقوں نے تیزی کے ساتھ یونیورسٹیوں پر اپنا جال ڈالنا شروع کر دیا ہے اور وہ اس کی پوری کوشش میں ہیں کہ یہ مشہور کر دیا جائے کہ مولانا احمد رضا خاں کے افکار و نظریات نئے تھے- انہوں نے بڑے بڑے متقی و پرہیز گار اور مصلح علماء اور اکابر کو کافر کہہ کر دین میں فتنہ ڈالا اور بدعتوں کی حمایت کی-
    اس غلط پروپیگنڈہ سے نہ یہ کہ صرف سیدھے سادے طلبہ، بلکہ وہ طلبہ بھی جو متصلب سنی گھروں سے وہاں پہنچتے ہیں ، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے- پھر نئے فرقوں کا یہ کام بھی ان کی نظر میں بے حد محبوب ہوتا ہے کہ اسلامی افکار و نظریات کی اشاعت ،ان پر کیے جانے والے حملوں کا دفاع اور مسلمانوں کی ہمدردی کے لیے بھی یہی فرقے زیادہ مضامین لکھتے ہیںاور ہمدردی کا دم بھرتے ہیں - جب کہ سنی حضرات صرف عرس، چادر اور قوالی میں الجھے رہتے ہیں-نئے فرقوں نے بھی ان کی توجہ کو اس سمت پھیرنے کی خوب کوشش کی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں ہزار کی تعداد میں یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے امیر و کبیر، ڈاکٹر ، انجینیر، پروفیسر سب کے سب’’مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ کو اعلیٰ حضرت کا پیدا کردہ مذہب سمجھ کر بیزار ہو گئے اور یہ اہل سنت و جماعت کے لیے بہت بڑا المیہ ثابت ہوا ، سواد اعظم عصری تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ سے الگ ہوتا گیا، جس کے بعد یہ پروپیگنڈہ بہ آسانی کامیاب ہو رہا ہے کہ ’’ بریلویت‘‘ جاہلوں کی جماعت ہے-
    [۸] افہام و تفہیم سے گریز:-
    توحید و رسالت کے قائل ہو جانے کے بعد انسان بخشش و مغفرت کا حقدار ہو جاتا ہے، اب جب تک وہ کسی ضرورت دینیہ کا منکر نہ ہو، اسے مسلمان ہی کہا جا ئے گا، دیوبندیت ، جووہابیت کی ماڈرن شکل ہے اس سے وابستہ افراد کی نماز اور دیگر عبارات کو دیکھ کر بعض عوام انہیں اچھا سمجھنے لگتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کے عقائد و نظریات سے بے خبر ہوتے ہیں اور دیو بندیت کا ظاہر یقینا دلفریب ہے-بارہاایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ دیو بندیت سے متاثر عوام کے سامنے اگر وہابیہ کے گمراہ کن نظریات پیش کیجیے تو وہ فوراً چراغ پا ہو جاتے ہیں اور قطعی طور پر اسے صحیح ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور نہ ہی وہابیہ اور دیابنہ کی طرف ان کے انتساب کو درست سمجھتے ہیں، ایسے لوگ یقینا اہل سنت و جماعت کے معتقدات و نظریات ہی پر ہوتے ہیں، انہیں صحیح طور سے سمجھانے کی ضرورت ہے، لیکن ہمارے یہاں ایسے لوگوں کے افہام و تفہیم کا چلن بہت کم ہے، ایسے لوگوں پر عموماً بلا جھجھک وہابیت کا حکم لگا دیا جاتا ہے، ناچار یہ لوگ بھی سنیت سے پورے طور پر الگ ہو کر وہابیت ہی سے ضم ہو جاتے ہیں، یہ ہمارے لیے بہت بڑے نقصان کا سودا ہے اس لیے ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنے اور اس کے تدارک کرنے کی ضرورت ہے-
    [۹] دعوت و اصلاح کے شعبے سے بے توجہی:-
    اہل حق اسلام کے ابتدائی ایام سے ہی مخالفین کے رد و ابطال میں پورے طور سے منہمک رہے، جس سے مسلک حق اہل سنت و جماعت افراط و تفریط سے پاک رہا- لیکن اس کے ساتھ انہوں نے دوسری قوموں میں اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کے ایمان و عمل کی اصلاح پر بھی پوری توجہ دی- لیکن گزشتہ سو سالوں سے فتنۂ وہابیت اس زور سے پھیلنا شروع ہوا کہ اہل حق کی پوری توجہ اس کی سرکوبی کی طرف ہی مبذول رہی اور زبان وقلم کی ساری توانائیاں صرف اسی کے خلاف استعمال کی گئیں، جس کے سبب دعوت و اصلاح کے شعبے سے بڑی حد تک غفلت رہی-
    دوسری طرف وہابیہ نے مختلف چولے بد ل بدل کر اصلاحی کاموں میں پوری جدو جہد صرف کی- گائوں گائوں کا دورہ کیا، غریب مسلمانوں کو خود سے قریب کیا،نماز و روزہ کے نام پر مسلمانوں کے عقیدے متزلزل کر کے انہیں جادۂ حق و صداقت سے منحرف کر دیا، ساتھ ہی انہوں نے ہر علاقہ کے دولت مند افراد کو بھی اپنی چاپلوسی سے متاثر کیا، کتابیں لکھیں ، رسالے جاری کیے، مدارس قائم کیے، ہزاروں طلبہ کی مفت تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا، اصلاحی اجتماعات کیے، اس طرح ان کا سیلاب سر سے اوپر ہوتا چلا گیا، یہ دیکھ کر اہل سنت کی غیرت ایمانی بھڑک اٹھی اور انہوں نے زبان وقلم کے ذریعہ نہایت اوچھے حملے شروع کر دیے، چوں کہ وہ دفاع کے لیے میدان میں آئے تھے، اس لیے ان کی تقریروں میں غم وغصہ اور جذبات کے اثرات نمایاں تھے، تاہم ان میں خلوص تھا ، اس لیے عوام نے ان کے جذبات کی قدر کی، ان کی باتیں سنیں، دل سے قبول کیا، ان کا شایان شان اکرام کیا اور فرط محبت ومسرت میں نذرانے بھی دیے-
    سوئے اتفاق کہ بعد کی نسلوں کو ان نذرانوں نے حرص و طمع کارسیا بنا دیا، پھر ایسے مقرر بننے کا شوق پروان چڑھنے لگا جو مجلس میں زیادہ شور مچا سکے، ناٹک کرے، لطیفے چھوڑے اور عوام کے دل جیتے، تاکہ ندرانے کا لفافہ دبیز ہو سکے، یہ عمل آج بھی نہایت کامیابی سے چل رہا ہے- لیکن اس کا منفی اثر یہ سامنے آیا ہے کہ عوام نے اب یہ سمجھ لیا ہے کہ مقررین کا کام بس بولنا اور نذرانہ وصول کرنا ہے اور ہمارا کام سن کر نعرے لگا دینا ہے، عمل سے سروکار نہ خطیب کو ہے نہ سامع کو اور نہ ہی جلسہ کرانے والوں کو - عموما خطبااصلاحی تقریریں کرنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اکثر کو اصلاحی تقریر کا سلیقہ ہی نہیں آتا، إلاّ ماشاء اللّٰہ-چند رٹی رٹائی اور گھسی پٹی تقریروں کو من وعن ہر محفل میں سناتے اور چنگھاڑ چنگھاڑ کر گلا خشک کر لیتے ہیں، انداز بھی بالکل جنگ جو یانہ ہوتا ہے، جسے اب عوام بھی پسند نہیں کرتے-اس لیے اصلاحی تقریریں کر کے لوگوں کے دلوں پر اپنے خلوص، حسن عمل اور نیک نیتی کا سکہ بٹھانا وقت کی ضرورت ہے یہ المیہ ہے کہ اس وقت بھی اصلاحی تقریروں سے نہ یہ کہ صرف بے توجہی برتی جا رہی ہے- بلکہ بعض حلقوں سے اس کی شدت سے مخالفت ہو رہی ہے -
    میدان تحریر میں ہماری حالت تو اس سے بھی گئی گزری ہے ، ہمارے پاس دعوتی واصلاحی تحریریں بہت کم ہیں اور تنقیدی بہت زیادہ ہیں، پھر عام طور سے ارباب قلم مخالفین کی جہالت اجاگر کرنے اور ان کی تضحیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بہت کم ایسے ہیں جو ایسی تنقید کرنا پسند کرتے ہیں جس کے اندر سنجیدگی ، شائستگی ،حقیقت پسندی اور غیر جانب داری ہو، جس سے مخالف بھی اپنے نظریہ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو، یا کم از کم منصف مزاج لوگوں کے سامنے حق روشن ہو جائے اور قبولیت کا دروازہ واہو، پر فریب اور پر اسرار تحریک ’’ تبلیغی جماعت‘‘ جس نے اہل سنت و جماعت کی بڑی بڑی آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس کے رد میں کچھ لوگوں نے اسی کے مطابق ہتھیار اٹھانے کی کوشش کی اور انہی کی طرح صرف اللہ و رسول کے نام پر عوام کے دلوں کی تطہیر کرنی چاہیے- مگر ہمہ وقت انہیں خود اپنوں کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا- جس سے انہیں اس اصلاحی میدان میں بھی متوقع کامیابی نصیب نہ ہو سکی- جب کہ ضرورت ان کی حوصلہ افزائی کی تھی-
    ماضی میں خانقاہیں دعوت و اصلاح کی اہم مراکز رہی ہیں، مگر گزشتہ چند دہائیوں سے یہ بھی نہایت ابتری کے دور سے گزر رہی ہیں- تقریباً اکثر خانقاہیں سجادگی کے مسئلہ پر سخت خانہ جنگی سے دو چار ہیں، وہاں ہر قسم کی بدعات و منکرات کا کھلے بندوں ارتکاب ہو رہا ہے- نتیجۃً دعوت واصلاح کی امیدیں تقریباً ان سے بھی ختم ہو چکی ہیں کہ جو خود گم کردہ راہ ہو وہ دوسروں کی اصلاح کیاکرے گا- تاہم اس عہد زوال میں بھی بعض خانقاہوں کی اصلاحی خدمات قابل ستائش ہیں- لیکن ان کی تعداد دال میں نمک سے بھی کم ہے-
    [۱۰] علما اور عوام اہل سنت میں بے عملی:-
    آج جلسے ہر کوچہ و بازار میں ہو رہے ہیں ،ہر مسجد میں ہفتہ واری خطاب بھی پابندی سے ہو رہا ہے- لیکن ان تقریروں کے بطن سے عمل کی چنگاری پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی، اس کے بنیادی سبب پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور ادیب و دانشور سید محمد اشرف مارہروی لکھتے ہیں:
    ’’ بھلا اس خطیب یا مبلغ کی نصیحت سے نمازپر کون عمل کرے گا جو خود نماز کے اوقات میں گھر پر پڑا رہتا ہو‘‘-
                                     (طریقۂ تبلیغ میں تبدیلی کی ضرورت)
    لیکن یہاں اسباب کا رونا نہیں، بلکہ تدار ک کی تدبیر اہم ہے، کیوں کہ جماعت اہل سنت اس کی وجہ سے بالکل بدنام ہو گئی ہے اوریہ نہایت سنگین صورت حال ہے، جس سے ہرکس و ناکس میں جماعت اہل سنت کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے ہیں- کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ مقرر کو دعوت دینے سے پہلے یہ بھی جانچ لیا جائے کہ وہ نماز بھی پڑھتا ہے یا نہیں،جس طرح دوسری چیزوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی خوب خوب کوشش ہوتی ہے-
    میرے خیال میں اس مسئلہ کا حل صرف اسی میں ہے کہ علمائے کرام ’’دعو ت اسلامی‘‘ /’’سنی دعوت اسلامی ‘‘کو فروغ دیں، ہر گائوں اور قصبے میں اس کے اجتماعات کرائیں، لوگوں میں اصلاح نفس کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے یہ اجتماعات نہایت موثر ہیں، بعض حضرات کو ’’دعوت اسلامی ‘‘ سے کچھ شکایتیں ہیں جو مسلسل اس کی مخالفت میں جٹے ہوئے ہیں-ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ ’’دعوت اسلامی‘‘ کے طرز پر خود اپنی اصلاحی تنظیم قائم کریں اور اس کے کام کو انجام دیں، یا اس سے جو شکایتیں ہیں، با ہم بیٹھ کر ان کا تصفیہ کر لیں، کیوں کہ کسی کے اوپر تنقید کا مقصد اس کی کمیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح ہونی چاہیے، ایسی تنقید غایت درجہ قابل مذمت ہے، جس کے ذریعہ کسی کے دل کو زخمی کر کے اسے بھی اپنی طرح عمل سے معطل کر دیا جائے-
    [۱۱] اعلیٰ حضرت کے ہم عصر اور ان کے پیش روعلماء سے بے ربطی :-
    بلا شبہ اعلیٰ حضرت کا سارا قلمی جہاد سواد اعظم کے مسلک حق کے تحفظ و دفاع کے لیے تھا، سلف سے جو عقیدہ و مسلک اجماع امت کے ساتھ ان تک پہنچا تھا، زندگی بھر اس کی ترویج و اشاعت اور ترقی کی کوشش کی، جو فرقے ان کے کلک برق بار کی ضد پر تھے یقینا اجماع امت اور علماء سلف کے مسلک سے منحرف تھے- لیکن ان فرقوں کے بعد کے پیرو کاروں نے بڑی دلیری کے ساتھ اعلیٰ حضرت کے پیش رو علماے حق پر کتابیں لکھ کر، تحقیق و ریسرچ کر کے اور سمینار و سمپوزیم منعقد کر کے یہ غلط تاثر دیا کہ پورے علماء سلف انہیں کے عقائد و نظر یات کے پابند تھے اور یہی سواد اعظم کے امین ہیں- یہ بریلوی ہیں جو سواد اعظم سے ہٹ کر صرف مولانا احمد رضا کی پیروی کرتے ہیں-گویا عصر حاضر کے مخالفین اہل سنت کی مثال اسرائیلی غاصبین کی ہے اور اہل سنت کا حال مظلوم فلسطینیوں جیسا ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہی بے گھر بنے ہوئے ہیں، ظلم کی چکی میں پستے، دہشت کے ماحول میں سانس لیتے اور خود دہشت گرد کہلاتے ہیں—لیکن اہل سنت کا یہ حال زار صرف مخالفین کے مکر سے نہیں ہے،اس میں ان کی اپنی تساہلی، حالات زمانہ سے بے خبری، تقاضائے وقت سے لا علمی اور غیر ضروری مباح امور میں ہمہ وقت مصروفیت کا بھی بڑا دخل ہے —عرب و عجم کی نظر میں سواد اعظم سے عملی رشتہ استوار کرنے کی ہمارے پاس صرف ایک ہی صورت ہے کہ ہم اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے ساتھ اہل سنت کے ان جلیل القدر اکابر علماء و مشائخ مثلاً مجدد الف ثانی شاہ عبد الحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ مخصوص اللہ دہلوی، مولانا محمد موسیٰ دہلوی ،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی،ان کے خلیفہ مولانا عبد السمیع رام پوری، علامہ فضل حق خیر آبادی ، مولانا عبد القادر بدایونی، ابو الکلام آزاد کے والد مولانا خیر الدین وغیرہم سواد اعظم کے پیشوایان حق کو بھی اپنے تذکروں میں لائیں جن کے بغیر سواد اعظم کا نعرہ صرف ایک جذباتی پکار ہے ،حقیقت میں سواد اعظم نہیں- یہ پورے کاروان حق کا مسلک وہی ہے جسے آج مسلک اعلیٰ حضرت کہا جاتا ہے ،بلکہ ان میں سے بیشتر حضرات نے ان فتنوں کا رد بھی کیا جن کا رد اعلیٰ حضرت بریلوی نے کیا- مگر اسے حالات کی بو العجبی ہی تو کہیے کہ نو پیدافرقوں نے بڑی آسانی کے ساتھ انہیں اپنے کھاتے میں ڈال لیا اور ہمیں ہی نئی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی -
    لیکن اب ماضی پر ماتم سے کچھ حاصل نہیں ، اب بھی وقت ہے کہ قابل افراد تیار کر کے اس عظیم خلا کو پر کیا جائے اور حق و صداقت سے صحیح طور پر امت مسلمہ کو آگاہ کیا جائے-
    [۱۲] فکر ی پسماندگی:-
    تاویل پسندانہ مزاج ، راحت کوش طبیعت اور پست ذہنیت نے ہمارے اعضا وجوارح کو عمل سے معطل کر چھوڑا ہے-منصوبہ بندی، بلند فکری، روشن خیالی اور اولوالعزمی ہم سے رخصت ہو گئی ہے- خانہ جنگی اور گروہ بندی ہی اپنا مقدر بن چکی ہے ، دنیا کے حالات سے آنکھیں موند کر صرف اپنے شیخ کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے اور دوسرے کی بے جا مخالفت پر آمادہ رہنے کو ہم نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے- قنوطیت اس قدر غالب ہو چکی ہے کہ کسی ہمہ گیر انقلاب یا موجودہ دنیا میں اپنی باوقار زندگی کا تصور ختم ہونے لگا ہے- اغیار کی تعلیمی، سیاسی، سماجی اور صحافتی ترقیوں کو دیکھ کر بجائے اس کے کہ ہم بھی ادھر قدم بڑھاتے بے ساختہ یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ چلو قیامت تو انہیں پر آنی ہے اور یہ ہماری بے چارگی اور لاچاری کی آواز ہوتی ہے- نتیجۃً جاہل عوام کے بیچ گلا پھاڑ کر اپنی بڑائی کے بلند بانگ دعوے اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کے نعرے لگا کر نفس مضمحل کو دلاسا دینے کے عادی ہو گئے ہیں- ہم دیکھتے ہیں کہ وہی خطباء جب اسٹیج پر ہوتے ہیں تو اپنی کامرانیوں کے قصائد پڑھتے ہیں لیکن اپنی نجی محفلو ںمیں نفسیاتی طور پر سخت اضطراب اور مایوسی میں مبتلا ہوتے ہیں- اور دو چار پیسے والوں سے رابطہ کر کے ایصال ثواب ، قرآن خوانی اور جلسے جلوس کے نام پر جینے کی راہیں تلاش کرنے میں کوشاں ہوتے ہیں- افسوس کہ آج ملت کے غضنفر ،روباہ کی باقیات پر صبر کرنے اور اسے غنیمت سمجھنے پر مجبور ہیں-
    موجودہ دنیا کو میڈیا کے جالے نے ایک چھوٹا گائوں بنا دیا ہے-لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اپنے خواص تک کو اس کے فوائد اور اس کی ضرورت کو سمجھانا پڑتا ہے- مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ میں ایسے کم ہیں جنہیں میڈیا سے جڑنے کا عزم ہو،ملک کے چند مدارس کا استثناء کر دیجیے، پھر دیکھیے کہ وہاں کے طلبہ بلکہ اساتذہ تک تحقیق و ریسرچ کو کچھ سمجھتے بھی ہیں ؟ بلکہ جسے آپ مستثنیٰ کرتے ہیں ان میں بھی بیشتر طلبہ تحقیق و ریسرچ کی بات لا یعنی اور فضول جانتے ہیں- بعض کے پاس یہ دلیل بھی ہے کہ جب دسوں سال مدارس میں رہ کر کسی لائق نہیں ہوئے تو دو تین سال کسی یونیورسٹی میں گزار کر کیا کر لیں گے؟ اہل سنت و جماعت کے طلبہ میں یہ فکر پیدا ہی نہیں ہے یا نہیں کی جاتی ہے کہ وہ عالمی سطح پر دین کی تبلیغ اور اس کا تحفظ کر سکتے ہیں،امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں جہاں لوگ اسلام کی طرف بڑھ رہے ہیں، ان کے سامنے وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کر سکتے ہیں-بلکہ اکثرطلبہ تو موجودہ وقت میں خود کو دنیا کا سب سے بڑا ناکارہ تصور کرنے لگے ہیں او ریہ سب سے زیادہ سنگین صورت حال ہے ، جس کے ہوتے ہوئے خوش آئند مستقبل کا تصور خواب و سراب معلوم ہوتا ہے-
    مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ بھی بعض باتیں ایسی ہیں جن سے مسلک حق اہل سنت و جماعت کا شدید نقصان ہو رہا ہے- مثلاً:
    (الف) اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے ہزار کے قریب گراں قدر تصنیفات چھوڑیں، ان کے متوسلین بھی دوسری خانقاہوں کی بہ نسبت زیادہ فعال واقع ہوئے،جس کے سبب اعلیٰ حضرت اور ان کے معتقدین کو سب سے زیادہ شہرت اور وقار نصیب ہوا- اب بعض خانقاہ کے لوگوں کو یہ چیز کھٹکتی ہے، جو نہایت بری بات ہے- انہیں چاہیے کہ رضویوں کی تحریک اور فعالیت سے مثبت اثر لیں اور اپنے اندر زیادہ سے زیادہ اسپرٹ پیدا کریں- یہی ارباب عزیمت کا شیوہ ہے، شریعت کی زبان میں اسے رشک کہا جاتا ہے ، جو پسندیدہ و مستحسن ہے اور حسد بہرحال مذموم ہے جس سے بچنا ضروری ہے -
    (ب)آج کل بعض خانقاہوں کے مرید ین میں ترفع کا عنصر نمایاں ہونے لگا ہے جو اچھی بات نہیں، بلا شبہ وہ ایک عظیم سلسلۂ طریقت سے وابستہ ہیں- لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ دوسرے سلسلے اس سے حقیر ہیں- پھر یہ کہ اپنے اندر یہ اسلامی ذہن پیدا کرنا چاہیے کہ کسی سلسلے سے جڑ جانا کوئی بزرگی کی بات نہیں، بزرگی اور بڑائی کی بنیاد تقویٰ ہے- ہر انسان تقویٰ سے بلند ہوتا ہے ، نہ یہ کہ کوئی بڑا سلسلہ اپنا لے اور اسی پر تکیہ کر کے احکام شریعت اور اعمال حسنہ سے بے پروا رہ کر بھی خود کو بلند و بالا تصور کرے۔
    (ج)مشربی چشمک سے بھی مسلک حق و صداقت کو بڑا دھچکا لگا - کچھ سالوں قبل تو مسلسل تحریری اور تقریری جنگ جاری رہی جس سے عوام بھی دو خانوں میں بٹ گئے - لیکن اسے فضل خدا وندی ہی کہیے کہ یہ آگ بڑی حد تک بجھ چکی ہے- خدا کرے کہ زیر خاک سلگتی ہوئی چنگاریاں بھی خاکستر ہو جائیں-
    (د) مغربیت اور لادینیت کی مسموم ہوا اس قدر تیزی کے ساتھ شہروں اور بستیوں پر چھاتی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کے ایمان واعتقاد متزلزل ہونے لگے ہیں، آج مسلمانوں سے تصلب فی الدین کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے ، اب اگر ان سے شریعت کی کوئی بات کہیے اور وہ ان کی طبیعت پر نہ اتری تو فوراً اسے وہ رد کر دیں گے- یہ مغرب زدہ مسلما ن ہیں جن کی اصلاح کے لیے نہایت حکیمانہ طریقے اپنانے ہوں گے-
    آج جب کہ مذکورہ بالا اسباب کے باعث عوام خصوصاً شہریوں میں’’ مسلک حق‘‘ سے بیزاری کا احساس ہوتا ہے تو ہم کڑھ جاتے ہیں، کبھی ذہن و فکر کا پرندہ تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے ہونے دو، ہمیں کیا کرنا ہے؟ اور ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟ یہ سب سوچنا خواہ مخواہ کی چیز ہے- اور کبھی الٹی سیدھی باتیںکہہ کر دل کو بہلاتے اور اپنی محفل میں خوش ہو جاتے ہیں اور اگر شیخ کے عرس میں لاکھوں کا مجمع دیکھ لیا تو اور دل کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ پوری دنیا ہمارے ساتھ ہے-
    ذیل میں چند باتیں عرض کی جاتی ہیں، اگر ہم ان پر سنجیدگی سے غور کریں اور انہیں عملاً اپنا لیں تو اہل سنت کا وقار پھر سے بلند ہو سکتا ہے اور ان کے اوپر جو مایوسی اور قنوطیت چھائی ہوئی ہے اس کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے-
    [۱] تقسیم عمل:-
    حافظ ملت مولانا عبد العزیز محدث مرادآبادی کے بارے میں لوگوں کا بیان ہے کہ ان کے اندر طلبہ کی فطری صلاحتیوں کے پرکھنے کا خوب ملکہ تھا- جس طالب علم کے اندر جس کام کا جوہر پاتے اسے اسی پر لگا دیتے- آج اساتذہ کے اندر یہ چیز نہیں پائی جاتی  اور عموماً سب کو ایک ہی ڈنڈے سے ہانکا جاتا ہے- جس سے طلبہ کو اپنی من پسند راہ کو چھوڑ کر نا پسند راہ پر چلنا پڑتا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے بہت سے میدان خالی رہ جاتے ہیں، مثلاً آج مدارس میں بہت سے ایسے طلبہ ہیں جنہیں ادب و صحافت سے شغف ہے، وہ اس کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں - مگر ان کی رہنمائی یا حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی- یہی وہ کمزوری ہے جس کے سبب ہر میدان میں اپنے افراد نظر نہیں آتے ، ہم مدارس کے اساتذہ سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ طلبہ کو ان کے ذوق اور لگن کے مطابق مندرجہ ذیل امور کی طرف راغب کریں-
    (۱) علوم دینیہ میں تخصص(۲) مذہبی، ملکی اور عالمی صحافت(۳) سیاست حاضرہ سے آگاہی اور اس میں شرکت (۴) نئے اہم اور ضروری موضوعات پر تحقیق و ریسرچ () الیکٹرانک میڈیا میں شمولیت (۶) اردو، ہندی اور انگریزی زبان پر عبور (۷) ادب کی مختلف اصنا ف مثلاً تنقید ، افسانہ ، تاریخ ، سیرت نگاری، انشائیے وغیرہ سے وابستگی (۷) طب، فلسفہ جدیدہ، سماج جغرافیہ و دیگر علوم جدیدہ کی تحصیل-
    ایسے ہی جو تقریر کے لائق ہوں انہیں دعوتی و اصلاحی تقریروں کی خوب مشق کرائی جائے ، جو طلبہ پمفلٹ، پوسٹر اور کتابچے شائع کرنا چاہیں، انہیں اسی کے لیے حوصلہ دیا جائے، جنہیں درسیات سے رغبت ہو، انہیں درسیات کا ماہر بنایا جائے ، جو اصلاحی تنظیمیں بنانے کا ذہن رکھتے ہوں انہیں اسی کے لیے بھر پور آمادہ کیا جائے- اگر ہندوستان میں پھیلے ہزاروں سنی مدارس کے اساتذہ و ذمہ داران اس پر توجہ دیں تو ان شاء اللہ العزیز رونا بند ہوگا، شکایتیں ختم ہوں گی اور ہر میدان میں اپنے افراد آکر ایک انقلاب برپا کر سکیں گے-
    آج کل بہت سے لوگ خودرائی کے شکار ہیں اور سب سے بڑا کام اسی کو سمجھتے ہیں جو خود کرتے ہیں، اس ذہنیت کا ازالہ ہونا چاہیے- کیوں کہ دین کو جس کام سے بھی فائدہ پہنچے اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے جن جائز طریقوں سے بھی راہیں ہموار ہوں، سب بجائے خود اہم ہیں ، اس لیے بقول علامہ محمد احمد مصباحی :
    ’’ کوئی شخص تھوڑا بھی دینی کام کر رہا ہے تو اس کی قدر کی جائے، صرف اپنے کام کی قدر اور دوسروں کے کام کی تحقیر ایک مذموم رویہ ہے، جس سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں ‘‘ -(ماہنامہ کنزالایمان دہلی، جنوری ۲۰۰۴ء)
    [۲] ذہنی و فکری تنظیم:-
    وہابی فتنہ جس وقت خاک ہند میں داخل ہوا اور مختلف رنگ و روپ میں ہندوستان کے طول و عرض میں تیزی سے بڑھنا شروع ہوا، علماے حق اسی وقت اس کے خلاف میدان میں اتر پڑے اور نہایت مردانہ وار اس سے نبر و آزما رہے- لیکن وہابی لابی چوں کہ منظم تھی اس لیے کم ہونے کے باوجود اس کا سیلاب بڑھتا ہی گیا اور اہل سنت و جماعت کثرت میں ہونے کے باوجود اسے روکنے میں منجملہ ناکام رہے، صوبائی اور ملکی سطح پر کئی تنظیمیں بھی بنیں اوربالآخر انہیں ناکامیوں سے دو چار ہونا پڑا- علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ علیہ ان کی ناکامیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں-
    ’’ ہمارے یہاں کچھ ایسی چیزوں کا ضرور فقدان ہے جو کسی بھی جماعتی تنظیم کے لیے ناگزیر ہیں- مثال کے طور پر ہم ملک میں ذہنی اعتبار سے کارکنوں کا کوئی دستہ تیار کیے بغیر کل ہند سطح پر ہی جماعتوں کے پروگرام کا اعلان کردیتے ہیں، ہمارے یہاں صرف مذہبی اعتقاد کی یک جہتی کسی بھی دستوری جماعت کا بوجھ اٹھانے کے لیے کافی ہے- حالاں کہ مذہبی خیالات کی یگانگت اور کسی تنظیمی جماعت کے اغراض سے اتفاق، دونوں میں نہایت واضح فرق ہے……جب تک ہم دل نشیں اور پر کشش لٹریچر کے ذریعہ سنی نوجوانوں کا ذہن جماعتی مزاج کے سانچے میں نہیں ڈھال لیتے ہماری کوئی تنظیم قابل ذکر کردار کے قابل نہیں ہو سکے گی‘‘ (۱۳)
    خلاصہ یہ کہ ہماری ناکامیوں کی بڑی وجہ ذہنی تنظیم کا فقدان ہے، آج سخت ضرورت ہے ایسے لٹریچر س کی جن سے حالات کے تقاضوں کا صحیح اندازہ ہو، علماء اور عوام اور خصوصاً طلبہ کے اندر عملی جذبات بیدار ہوں، وہ اتحاد باہمی کی ضرورت کو سمجھیں، ان کی فکری پسماندگی دور ہو اور وہ اپنے کو اس قابل سمجھیں کہ وہ کچھ کر سکتے ہیں اور یہ کہ انہیں کچھ کرنا چاہیے- ذہنی طورپر منظم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی کی ذات سے محبت نہ کی جائے بلکہ اس کے وصف اور کام سے محبت کی جائے- اہل سنت کے باہمی گروہی تصادم سے بچ کر عمل کو ترجیح دیا جائے، ذاتی جھگڑوں کو جماعتی جھگڑا بننے سے روکا جائے، اکابر کے مشاجرات سے اصاغر کنارہ کش رہیں اور اسے تسامحات اسلاف سے شمار کریں، ہر شخص خود کو عملی انسان بنانے کی کوشش کرے اور جس سے جو بن پڑے، کسی جماعتی اتحاد اور خاتمۂ نزاع کا انتظار کیے بغیر کر گزرے ، دوستی اور محبت کی بنیاد اخوت اسلامیہ اور عملی جدوجہد کوقرار دے، نہ کہ درس گاہی، مشربی ،علاقائی اور ذاتی رشتوں کو-
    [۳] رد بدعات و منکرات:-
    مسلک اہل سنت و جماعت واضح اور معتدل مسلک ہے اس لیے اس کے تحفظ و بقا کے لیے جہاں اس کے خلاف بر سر پیکار جماعتوں کا تعاقب ضروری ہے، وہیں ان بدعتوں کا خاتمہ ضروری ہے، جن سے مسلک اہل سنت و جماعت پر بدعت نوازی کا الزام ہے، ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ ہم نہیں سمجھتے کہ ان بدعتوں کے رد میں ہمارے ارباب فکر و قلم کی روشنائی کیوں خشک ہو جاتی ہے او رہمارے مصلحین خطبائے کرام کی زبانیں ان کے خلاف بولنے سے کیوں گنگ ہو جاتی ہیں، یہاں میں پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ ذاتیا ت اور شخصیات سے قطع نظر جو امور متفقہ طور پر اسراف، ناجائز اور بدعت ہیں، ان کی کھل کر تردید کی جائے، مزارات پر دس دس بیس بیس چادریں ،عورتوں کا ازدحام، جاہل عوام کا مزارات کو بوسہ لینے میں سر ٹیکنا، کسی طرح بھی تو روا نہیں، پھر ہر عر س میں اس سے چشم پوشی اور اس کے رد سے علما کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے؟ عوام کی دل شکنی کے خیال خام میں الجھ کر انہیں غلط راستوں پر چھوڑے رہنا حق کا خون نہیں تو اور کیا ہے؟ مجھے تسلیم ہے کہ علما کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اجمیر اور دہلی کی خانقاہوں میں رائج بدعتوں کو ختم کرسکیں، لیکن ان اعراس کی بدعتوں کا خاتمہ تو کر ہی سکتے ہیں جن کا انتظام واہتمام ان کے ہاتھوں ہوتا ہے اور وہ نظریاتی طور پر بعض امور کو غلط سمجھتے ہوئے بھی اپنے پروگرام میں شامل رکھتے ہیں، فکر و عمل کا یہ تضاد یقینا جماعت اہل سنت کے لیے سم قاتل ہے، جس کے ازالے کی حتی المقدور کوشش ہونی چاہیے، بالخصوص اس صورت حال کو تو ختم ہی ہونا چاہیے کہ چادر کے جلوس کے وقت اگر نماز کا وقت آ جاتا ہے تو جلوس نہیں چھوٹنا چاہیے، نماز چھوٹ جائے ، ایسی بدیہی غلطی پر بھی جو قوم جمی رہے اپنی اصلاح کی فکر نہ کرے وہ بھلا مستقبل میں کیا کچھ کر سکتی ہے؟ اور مزے کی بات تویہ ہے کہ گدی نشین اور پیر صاحب بھی اس جلوس کے آگے ہوتے ہیں، خدایا قیامت کیوں نہیں آتی!
    [۴] دینی درس گاہوں پر نظر ثانی:-
    عصر حاضر کا سلگتا ہوا یہ نہایت سنگین مسئلہ ہے، اس بات پر تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ یہ ایک ناگزیر امر ہے، مگر نظر ثانی سے مراد کیا ہے ؟ اس سلسلے میں متضاد نظریات ہیں، بعض حضرات کے نزدیک مدارس پر نظر ثانی سے مراد انہیں جدید ٹیکنالوجی سے جوڑنا ہے، بعض حضرات کی یہ ضد ہے کہ مدارس کے نصاب و نظام کو اس طرح تبدیل کر دیا جائے کہ یہاں سے بھی ڈاکٹر، انجینیراور سائنس داں نکلیں ، ایسے حضرات دراصل مدارس کی روح سے نا آشنا ہیں، انہیں نہیں معلوم کہ اگر مدارس سے بھی ڈاکٹر اور انجینیر ہی نکلنے لگے تو ان کو سمجھانے اور شریعت کا حکم بتانے کے لیے فقیہ اور محقق کہاں سے پیدا ہوں گے - بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مدارس کے نصاب و نظام میں صرف اسی قدر تبدیلی کر دی جائے کہ فارغین مدارس عصر جدید کے چیلنجوں کو قبول کر سکیں اور کامل طور سے جدید اعتراضات کا جواب دے سکیں اور یہی صحیح بھی ہے ، دراصل مدارس اسلامی کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ دین وشریعت کی ہمہ گیر تبلیغ ہو اور اس کا تحفظ ہو، اب یہ ارباب فکر و دانش کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے وہ ہر اس تبدیلی کو روا سمجھیں جو اس چیز کے لیے ضروری ہے ،ہندوستان میں اہل سنت و جماعت کے مدارس کی کمی نہیں اور نہ ہی وسائل کی کمی ہی کارونا ہے، یہ صحیح ہے کہ انہیں امریکی ڈالر اور سعود ی ریال میسر نہیں ہیں ، تاہم اگر ذمہ دران مدارس چاہیں توبہ آسانی مندرجہ ذیل امور پر توجہ دے سکتے ہیں-
    (الف) ملکی سطح پر بڑے مدارس کی تنظیم ، جس سے ان میں رابطہ بحال ہو سکے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ حتی الوسع سب کا نصاب ایک ہو، چار پانچ سال میں ایک بار تنظیم کی طرف سے معتمد ارباب علم و دانش کی ایک نشست منعقد ہو، جو نصاب و نظام پر سنجیدہ غور و خوض کریں اور ان کی تجاویز کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
    (ب) چھوٹے مدارس کو بڑے مدارس سے ملحق کر دیا جائے-(ج) مدارس کو عصری د رس گاہوں سے ملحق کیا جائے، تاکہ فضلاے مدارس وہاں جاکر اہم تحقیقی و علمی کام انجام دے سکیں، بلکہ اگر بجٹ ساتھ دے تو دو چار لائق طلبہ کو وہاں پڑھانے کے لیے وظیفہ بھی دیا جائے، کیوں کہ فضلاے مدارس کے اہل خانہ عموماً اس قابل نہیں ہوتے کہ یونیورسٹی کا گراں بار اٹھا سکیں-
    (د)بہت سے مدارس کے ذمہ داران کے سامنے صرف یہ مقصد ہے کہ وہ قوم کے سامنے زیادہ سے زیادہ علما، فضلا اور حفاظ پیش کر سکیں، وہ کس صلاحیت کے ہوں، اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں،مہینے میں کتنے دن ان کی تعلیم ہوتی ہے، ان کی تربیت کا معیار کیا ہے؟ اس سے وہ بے فکر ہیں، ایسے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ خدارا قوم کے سامنے علما نماجہلا پیش کر کے اپنے ہاتھوں ہی اپنے مذہب کا خون مت کیجیے اگر مذہب و مسلک کی حفاظت منظور ہے تو تعلیمی سطح پر سخت جدوجہد کرنی ہوگی، تعلیم کو قرآن خوانی اور ایصال ثواب کے بھینٹ چڑھانے کا بعض مدارس میں جو رواج چل پڑا ہے، اس کو ختم کیے بغیر اپنی بقا یقینا خطرے میں ہے، شہروں کے جوان فضلا اور خطبا سے ہماری خصوصی گزارش ہے کہ وہ اصحاب ثروت کے در دولت پر جبیں سائی کرنے اور نیاز مندانہ ماحول میں خود کو ڈھالنے کی بجائے ماحول کو بدلنے کا عزم کریں اور ان افراد کو مدارس و مساجد سے بے دخل کریں جن کا مقصد مذہب کے تحفظ اور مسلک کی اشاعت کی بجائے انا نیت اور شکم پروری ہے-
    (ہ) مدارس کے بیشتر طلبہ میں سحر انگیز اور پیشہ ورانہ خطابت سیکھنے کا جنون ہے، اساتذہ کو چاہیے کہ وہ طلبہ میں دعوتی خطاب کا ذوق پیدا کریں، تاکہ وہ ایسی تقریر کر سکیں جس سے عوام کے اندر تزکیہ نفس اور اصلاح عمل کا جذبہ بیدار ہو۔
    (و) طلبہ میں علمی مزاج پیدا کیا جائے ، انہیں تحقیق و مطالعہ کا ڈھنگ بتایا جائے اور اس کا عادی بنایا جائے، اس کے لیے مدارس میں لائبریری قائم کی جائے، جس میں ضروری کتابوں کے ساتھ مختلف اخبارات و رسائل بھی مہیا کرا ے جائیں تاکہ طلبہ حالات کو سمجھیں اور  نبر د آزمائی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوں-
    [۵] لٹریچرس:-
    سیف و سنان کا زمانہ ختم ہو چکا، نئے دور میں قلم سے معرکے سر کیے جاتے ہیں، ’’ قلم کی تلوار‘‘ اور ’’قلم یا تلوار‘‘ جیسی تراکیب کسی زمانہ میں قلم کی فضیلت بتانے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں اور اب یہ فضیلت حقیقت کا جامہ پہن چکی ہے- جہاد زندگانی میں یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم یقینا مومن کی شمشیر کا درجہ رکھتی ہیں لیکن اگر عصر حاضر میں قلم کا ماہرانہ استعمال نہیں کیا گیا تو یہ شمشیر ایک جگہ پڑی کند ہو جائے گی اور شکست اپنا مقدر ہو گی- حیرت ہے کہ دنیا قلم سے کمپیوٹر کی طرف بھاگنے لگی اور ہم ہیں کہ قلم پر بھی قرار واقعی توجہ مبذول نہ کر سکے، دنیا میں اپنے افکار و نظریات کو زندہ رکھنے، ان کی اشاعت کرنے اور با وقار زندگی گزارنے کے لیے ہمیں درج ذیل نوعیت کے لٹریچرس کی تخلیق اور عمدہ اشاعت کا کام ممکنہ مختصر ترین مدت میں انجام دینا ہوگا-
    (الف) اعتدال پسندانہ لٹریچرس :-بعض حضرات بیجا عقیدت مندی کے ہاتھوں ایسے اسیر ہو چکے ہیں، جو ’’ مسلک حق‘‘ کو اس قدر تنگ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذاتی تشریح کے مطابق دنیا میں معدودے چند افراد ہی ’’ اہل سنت و جماعت‘‘ کے مل پائیں گے- اس کے برخلاف دوسرے حضرات مغربی اور وہابی میڈیا کے زیر اثر ’’تصلب فی الدین‘‘ اور’’ استقامت علی الشریعت‘‘ سے بھی اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں، اس لیے اس وقت اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ایسے لٹریچر س زیادہ سے زیادہ شائع کیے جائیں، جن سے مسلم نوجوان جادۂ حق و صداقت پر قائم ہوں، اسلامی تہذیب و تمدن کو سمجھیں اور مغربیت ،لادینیت اور بدمذہبیت سے الگ رہتے ہوئے وسیع الظرفی کے ساتھ اسلام اور مسلمانو ںکی خدمات انجام دیں-
    (ب) جدید موضوعات پر لٹریچرس:-آج عوام و خواص یکساں طور پر حالات حاضرہ سے واقفیت کو ضروری سمجھتے ہیں، افغانستان اور عراق جنگ کے دوران آپ نے دیکھا کہ ہر شخص صبح اٹھنے کے بعد سب سے پہلے اخبارات ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی طرف لپکتا تھا اور تازہ ترین خبریں جاننے کے لیے بے تاب نظر آتا تھا اور اب حال یہ ہے کہ لوگ افغان و عراق کی تاریخ، جنگ کے اسباب، جنگ کی تفصیل اور اس کے بعد کے حالات، جہاد کے صحیح مفہوم، عصر حاضر میں اس کی ضرورت اور تقاضے وغیرہ تفصیل سے جاننا چاہتے ہیں، اس لیے عوام و خواص کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایسے موضوعات پر عام فہم تحریریں نہایت اہم ہتھیار ہیں-
    (ج) دعوتی لٹریچرس:-
  • سنی علما رد و ابطال پر زیادہ لکھتے ہیں، وہ بھی جذباتی اوربے ہنگم انداز میں، دعوت و اصلاح کے موضوع پر ان کی تحریریں بہت کم ہیں، اسی لیے سنی عوام اور طلبہ میں دعوتی مزاج اور جذبۂ ایثار بھی کم نظر آتا ہے، آج دعوتی موضوعات مثلاً اسلام کا تعارف، اسلام کے تقاضے ، علما کے داعیانہ فرائض، طریقۂ دعوت، اسلامی تہذیب و ثقافت ، اسلامی اخلاق و آداب اور ان جیسے دوسرے عنوانات پر سلجھی اور سنجیدہ تحریروں کی ضرورت ہے، جو سادگی کے ساتھ اثر اندازی کا جو ہر بھی رکھتی ہوں ، ایسی تحریریں بھی ضروری ہیں جن سے علما طلبہ اور عوام میں اصلاحی تنظمیں قائم کرنے، اصلاحی مجالس اور جلسے منعقد کرنے اور رفاہ عام کے کام کرنے سے شغف پیدا ہو اور وہ نظری انسان بننے کے ساتھ عملی انسان بھی بن سکیں-
    [۶] اتحاد باہمی:-
    علاقائی، صوبائی ، ملکی اور بین الملکی سنیوں کے بیچ اتحاد و یگا نگت کا مزاج پیدا کرنا بھی نہایت ضروری ہے او ریہ ایسی چیز ہے جس کے لیے کسی تنظیم کی ضرورت نہیں بلکہ رفتہ رفتہ اپنے مزاج کو مشربی اور علاقائی اختلافات سے پاک کرنا ہوگا ، جس شخص کے اندر بھی دین و سنیت کا درد ہو وہ اس کے لیے کوشش کرے اور علاقائی، مشربی یا درس گاہی اختلافات کی بنیاد پر ہرگز دین و مذہب کا نقصان برداشت نہ کرے، دوسرے کو بھی اپنی زبان اور قلم سے اس مزاج کا خوگر بنائے، طلبہ، اساتذہ، علما، مشائخ، خطبا اور قلم کار سب اپنے اپنے طور پر اس کی کوشش کریں، اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، اسے مشربی، علاقائی یا درس گاہی بندھنوں میں کسنا قطعاً غلط ہے، اقبال کی فکر کے بمصداق نیل کے ساحل سے خاک کا شغر تک اہل ایماں جب تک متحد نہیں ہو جاتے، حرم اقد س کی پاسبانی کا فریضہ نہیں انجام دیا جا سکتا-
    [۷] ریلیف فنڈ اور ہماری غفلت:-
    آج ہندوستان میں مسلم کش اور فرقہ وارانہ فسادات ہمارا مقدر بن کر رہ گئے ہیں، ایک فساد ختم نہیں ہوتا ہے کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے، فسادات کے دوران اور فسادات کے فوراً بعد کے حالات ہر جگہ ریلیف طلب ہوتے ہیں، ایسے مواقع پر لٹے پٹے مظلوم افراد کی خبر گیری، ان کی امداد کس قدر ضروری ہوتی ہے وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن افسوس کہ ایسے مواقع پر زیادہ تر ریلیف کا کام مخالفین اہل سنت انجام دیتے ہیں، وہ اپنوں کے ساتھ سنیوں سے بھی بڑی بڑی رقمیں ریلیف اور مظلومین کی امداد کے نام پر اینٹھتے ہیں پھر اپنی من مانی تقسیم کرتے ہیں اور اس ریلیف کی رقم کو بھی بد عقیدگی پھیلانے میں لگاتے ہیں ، فساد کے بعد وہ ریلیف کے نیچے دبے سنی مسلمانوں کو وہابی بنانا شروع کر دیتے ہیں، جب کہ ہماری آل انڈیا تحریکیں اور تنظیمیں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں، اس بھیانک صورت حال پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہے، بے چارے سنیوں کا جان و مال تو جاتا ہی ہے ایمان کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں-
    آخری بات:-
    اس مضمون کی پہلی قسط جب گزشتہ شمارے میں شائع ہوئی تو امید سے زیادہ حوصلہ افزا رد عمل کا سامنا ہوا-کئی احباب نے یہاں تک کہا کہ اتنی اچھی تحریر آپ نے اب تک چھپا کہاں رکھی تھی؟ اس سوال پر کہ اس میں بعض اپنی ہی کوتاہیوں کا اعتراف ہے، کیا ایسی باتیں عام قارئین کے سامنے پیش کرنا قرین مصلحت ہے؟ فکر و قلم کے مالک ہمارے کئی بزرگوں نے فرمایا کہ توبہ و اصلاح کے لیے اعتراف گناہ اور صحت و علاج کے لیے امراض کی تشخیص بالکل ضروری ہے، جب تک ہم صرف دوسروں پر ہی برستے رہیں گے اور اپنے فکر و عمل کا محاسبہ نہیں کریں گے تو ہمیں اپنے غلط رویوں کا علم ہو پائے گا اور نہ مستقبل کی طرف پیش قدمی کے لیے واضح خطوط ہی ہو سکے گا- اس کے ساتھ ہمیں بعض منفی رد عمل کا بھی سامنا رہا، لیکن ایسا کوئی رد عمل براں راست نہیں بالواسطہ پیش آیا، اس لیے اس قسم کے رد عمل کی کیا نوعیت ہے ہم صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے- یہا ںکھلے دل سے ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نہ صرف انسان اور پھر کم علم ہیں بلکہ نو آموز اور نا تجربہ کار بھی ہیں، اس لیے ہماری اس تحریر میں اگر کوئی بات خلاف واقعہ یا غیر مناسب شامل ہو گئی ہے اور کوئی خیر خواہ علمی اور اسلامی انداز میں اس کی نشاندہی کرتے ہیں تو ہم اپنی بات پر نظر ثانی بلکہ رجوع کرنے کے لیے ہمہ دم تیار ہیں-آج سے تین سال پہلے جب یہ تحریر لکھی گئی تھی تو اس کا اختتامیہ لکھنے سے رہ گیا تھا، میں نے’’ آخری بات‘‘ کا اضافہ کر کے اس کمی کو پورا کر دیا- خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دوسروں پر تنقید سے زیادہ اصلاح حال کی توفیق بخشے- آمین-
     

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔