Wednesday 12 September 2018

فقہی روایات واقوال میں عارفانہ تطبیق (المیزان الکبری الشعرانیۃ کی روشنی میں)

0 comments
فقہی روایات واقوال میں عارفانہ تطبیق
المیزان الکبری الشعرانیۃ کی روشنی میں
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
----------------------------------------------------------------
عارف باللہ امام عبد الوہاب شعرانی (۸۹۸ھ۔ ۹۷۳ھ) نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف المیزان الکبریٰ الشعرانیۃ میں بظاہر مختلف احادیث و اقوال میں تطبیق کی ایک نئی راہ نکالی ہے، جو تمام مجتہدین و مقلدین کے تعلق سے احترام و توقیر ، اولیاے کاملین کی عظمت بلند کے اعتراف اور اجتہاد و تقلید کے حوالے سے ایک معتدل نقطۂ نظر پر مبنی ہے۔ اس حوالے سے امام شعرانی نے المیزان الکبریٰ کے ابتدائی صفحات میں جو اصولی باتیںکی ہیں ان کا خلاصہ راقم کے ہی قلم سے مجلہ الاحسان کےگزشتہ شمارے میں’’مسئلۂ اجتہاد و تقلید امام شعرانی کی نظر میں‘‘ کے زیر عنوان آچکا ہے۔ اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں امام شعرانی نے بظاہر مختلف احادیث واقوال میں جو بے شمار تطبیقات فرمائی ہیں ان میں سے بعض مثالیں نذر قارئین کی جارہی ہیں۔
امام شعرانی کا اصول تطبیق جو بقول ان کے خود ان کی دریافت ہے، ان سے پہلے کسی دوسرے عالم کی عروس فکر اس تک نہیں پہنچ سکی تھی، وہ یہ ہے:
’’برادرم !شریعت؛ امرونہی ہردو جہت سے دومرتبے تخفیف وتشدید پر وارد ہے۔ شریعت میںصرف ایک پہلوہی نہیںہے،اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں تمام مکلفین ایمانی اور جسمانی اعتبارسے دوہی طرح کے ہوسکتے ہیں ؛قوی یاضعیف۔ان میں جو قوی ہے وہ تشدید سے مخاطب ہے اوراسے عزیمت پرعمل کرنے کاحکم ہے اورجوضعیف ہے وہ تخفیف سے مخاطب ہے اوراسے رخصت پرعمل کرنے کاحکم ہے۔ایسے میںان دونوں میںسے ہر ایک اپنے رب کی طرف سے شریعت اوربرہان پر قائم ہیں،لہٰذا قوی کو رخصت کے لیے نیچے آنے کاحکم نہیں دیا جاسکتا اورنہ ضعیف کو عزیمت کے لیے اوپر جانے کامکلف کیاجاسکتا ہے۔‘‘
(المیزان الکبریٰ الشعرانیۃ،ص:۶، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، ۱۹۹۸ء)
تاریخ اسلام کے اس پہلے اور منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں یہ حقائق منکشف ہوتے ہیں کہ ائمہ میں جو اختلافات ہیں ، ان اختلافات کی وجہ سے ان میں کوئی صحیح و درست اور کوئی خاطی و گمراہ نہیں ہے ، بلکہ تمام ائمۂ ہدیٰ برحق ہیں اور ان میں سے ہر ایک صحیح و مصیب ہے۔ نیز صرف وہ ائمہ ہی برحق نہیں ہیں جن کے مسالک بعد میں جاری رہے، بلکہ ان کے علاوہ وہ ائمۂ مجتہدین بھی برحق اور مصیب تھے، جن کے مسالک بعد کے ادوار میں کسی بھی وجہ سے جاری نہ رہ سکے، مثلاً حضرت داؤد ظاہری، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، محمد بن جریر، عمربن عبد العزیز، اعمش، شعبی اور اسحاق وغیرہ۔ رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین۔ اسی طرح امام شعرانی نے اپنے اصول تطبیق سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ ایسا شخص جو صرف اپنے امام کو مصیب اور دوسرے ائمہ کو خاطی سمجھتا ہے، ابھی اس کا فہم ناقص اور اس کا سلوک ناتمام ہے، بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث اور ائمہ کے تمام اقوال حق و درست ہیں، ان میں سے کوئی حدیث یا اجتہاد قابل رد نہیں ہے، بلکہ عالم کے لیے جو سچ مچ کتاب و سنت اور اقوال ائمہ کا عالم ہو، تمام مسالک فقہ ایک مسلک کی طرح سے ہیں، ایسا عالم حسب ضرورت و صورت مسالک اربعہ پر فتویٰ دے سکتا ہے، البتہ بے ضرورت ایک مسلک فقہ کو چھوڑ کر دوسرے پر فتویٰ دینا یا عمل کرنا درست نہیں، کہ اس میں اتباع ہویٰ کا پہلو ہے۔
 اب ہم امام شعرانی کی تطبیقات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ان تطبیقات میں امام شعرانی کا اسلوب سادہ ، یکساں اور عام فہم ہے، وہ پہلے کسی بھی مسئلے سے متعلق ایک دو یا اس سے زائد ایسی احادیث پیش کرتے ہیں جن میں تشدید ہوتی ہے پھر ان کے بالمقابل دوسری احادیث پیش کرتے ہیں جن میں تخفیف ہوتی ہے، پھر امام شعرانی فرماتے ہیں کہ ان میں پہلی قسم کی احادیث میں شدت ہے لہٰذا وہ اکابر اور خواص کے لیے ہیں اور دوسری قسم کی احادیث میں تخفیف ہے، وہ عوام اور ضعفا کے لیے ہیں۔ یہ ترتیب کبھی اس کے برعکس بھی ہوتی ہے۔ 
(۱) کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا  مسئلہ:
امام شعرانی نے اس حوالے سے سب سے پہلے بخاری سےیہ حدیث نقل کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا۔ ( صحيح البخاري،کتاب الوضو، باب البول قائما وقاعدا/صحيح مسلم،کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفين)
 پھر اس کے بالمقابل وہ حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر پیشاب فرمایا۔ ( ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب النھي عن البول قائما/ ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب في البول قاعدا)
اوراسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر سےیہ فرمایا کہ کھڑے ہوکر پیشاب مت کرو، جس کے بعد تا دم آخر حضرت عمر نے کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کیا۔
 ( ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب النھي عن البول قائما/ ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب في البول قاعدا)
ان احادیث میںمختلف علما نے مختلف انداز سے تطبیقات دی ہیں اورکھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی مختلف توجیہیں کی ہیں۔ مثلاً قاضی عیاض مالکی فرماتے ہیں:
’’کھڑے ہوکر پیشاب فرمانے کی مختلف توضیحات کی گئی ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر اس لیے پیشاب فرمایا کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں خروج حدث کا خطرہ بہت کم رہتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کی اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ غالباً اس کوڑے میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایاتھا، ترنجاستیں تھیں اور وہ جگہ نرم تھی، وہاں کھڑے ہوکر پیشاب کرنے میں پیشاب کے چھینٹے پڑنے کا خطرہ نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خدشہ تھا کہ اگر پیشاب کے لیے آپ بیٹھیںگے تو آپ کا لباس مبارک نجاست آلود ہوجائے گا۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب فرمایا۔(اکمال المعلم شرح صحيح مسلم ،۲/۴۶)
امام شعرانی نے ان احادیث میں جو تطبیق دی ہے، وہ گزشتہ تطبیقات سے یکسر مختلف ہے۔ آپ اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’پہلی حدیث میں تخفیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان جواز کے لیے ایسا فرمایا، جب کہ آخر کی دونوں حدیثوں میں تشدید ہے، گویاادب و حیا میں کاملین اور غیر کاملین دونوں کے احوال کی رعایت کرلی گئی ہے۔ ‘‘(ص:۹۷)
(۲) بیٹھے بیٹھے سونے سے وضو ٹوٹنے کامسئلہ:
اس حوالے سے سب سے پہلے یہ حدیث نقل کی ہے:
 العینان وکاء السہ، فمن نام فلیتوضا۔ دونوں آنکھیں بندھن ہیں۔ لہٰذا جو سوجائے وہ وضو کرے۔
(سنن ابن ماجہ ،کتاب الطہارۃ، باب الوضوء من النوم/ مسند احمد ابن حنبل،مسند علي بن ابي طالب رضي الله عنہ)
اس کے بعد اس کے بالمقابل یہ حدیث نقل کی:
 حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سوکر جھپکیاں لینے لگے تھے کہ اتنے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے پیچھے سے انہیں پکڑلیا۔ حضرت حذیفہ نے عرض کی:حضور! کیا میرا وضو ٹوٹ گیا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! اس وقت تک وضو نہیں ٹوٹے گا جب تک کہ تمہارے پہلو زمین سے نہ لگ جائیں۔ (سنن بیہقی، کتاب الطہارۃ، باب ترک الوضوء من النوم قاعدا)
امام شعرانی اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں مذکورہ دونوں احادیث میں تطبیق دیتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’ پہلی حدیث سونے کی وجہ سے وضو کےٹوٹنے کے سلسلے میں عام ہے ، اگرچہ سونے والا جم کر بیٹھا ہوا ہو،اور دوسری حدیث میں یہ ہے کہ جو بیٹھ کر سوئے اس کا وضو نہیں ٹوٹتا۔ اور ان دونوں کو دیکھتے ہوئے دونوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ پہلی حدیث کو متدین اور متقی اکابر کے حال پر محمول کیا جائے اور دوسری حدیث کو ان کے علاوہ دوسروں کے حال پر محمول کیا جائے ، اس طرح معاملہ میزان کے دونوں پہلو؛ تشدید اور تخفیف کی طرف راجع ہوگیا۔‘‘ (ص:۹۷)
واضح رہے کہ اس باب کی احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے علما نے مختلف قول کیے ہیں۔ امام ابوزکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’علما کے اس میں مختلف مذاہب ہیں: (۱) نیند کسی بھی حال میں ناقض وضو نہیں۔یہ حضرت ابوموسیٰ اشعری ، سعید ابن مسیب، ابو مجلز، حمید الاعرج اور شعبہ کی طرف منسوب ہے۔ (۲) نیند ہر حال میں ناقض وضو ہے۔ یہ حضرت حسن بصری، مزنی، ابوعبید القاسم بن سلام اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ امام شافعی کا ایک غریب قول بھی یہی ہے۔ ابن منذر نے کہا کہ میرا موقف بھی یہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہی معنی حضرت ابن عباس، حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔(۳) زیادہ سونا ہر حال میں ناقض ہے اور سونے کی معمولی مقدار کسی بھی حال میں ناقض نہیں۔ یہ امام زہری، ربیعہ، اوزاعی، مالک اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا مذہب ہے۔ (۴)  نمازی کی نماز میں جو حالتیں ہوتی ہیں، اگر ان میں سے کسی حالت میں سویا ، مثلاً رکوع، سجدے، قیام اور قعود کی حالت میں سویا تو وضو نہیں ٹوٹے گا ،خواہ حالت نماز میں ہو یا نہ ہو، اور اگر پہلو کے بل سویا، یاچت سویا تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ یہ امام ابو حنیفہ اور امام داؤدکا مذہب ہے اور امام شافعی کا ایک غریب قول بھی یہی ہے۔ (۵) صرف حالت رکوع اور حالت سجود والی نیند ناقض ہے۔ یہ امام احمد بن حنبل سے مروی ہے۔ (۶) صرف حالت سجدہ کی نیند ناقض ہے۔ یہ بھی حضرت امام احمد ابن حنبل سے ہی مروی ہے۔ (۷) حالت نماز کی نیند بہر حال ناقض نہیں جب کہ خارج نماز والی نیند ناقض وضو ہے۔ یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ضعیف ہے۔ (۸) اگر کوئی بیٹھ کر اس طرح سوتا ہے کہ اس کی سرین زمین سے مضبوطی سے لگی ہوئی ہے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا بصورت دیگر اس کا وضو ٹوٹ جائے گا ، عام ازیں کہ اس کی نیند تھوڑی ہو کہ زیادہ، نماز میں ہو کہ خارج نمازمیں، یہ امام شافعی کا مذہب ہے۔‘‘ (شرح النووی علی صحیح مسلم،کتاب الحیض، باب الدليل علی ان نوم الجالس لا ينقض الوضوء)
(۳) لمس اور بوسہ سے وضو ٹوٹنے کا مسئلہ:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا(نساء:۴۳) اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مریض، مسافر، قضاے حاجت سے فارغ ہونے والے اور عورتوں سےملامست کرنے والے پر لازم ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں پاک مٹی سے تیمم کرے۔ 
اس کا مفاد یہ ہے کہ عورتوں سےملامست کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ مفسرین کی ایک جماعت ادھر گئی ہے کہ اس آیت میں ملامست ( لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ) کے معنی مباشرت اور جماع کے ہیں جب کہ ایک طبقےکا کہنا ہےکہ یہاں  ملامست کے معنی مطلقاً چھونے اور لمس کرنے کے ہیں۔اس صورت میں عورتوں کو چھونے اور بوسہ لینے سے بھی وضو ٹوٹ جانا چاہیے۔ امام شعرانی فرماتے ہیں کہ اس معنی کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضرت ماعز نے اعتراف زنا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغالباً تم نے ملامست کی ہوگی یا بوسہ لیا ہوگا؟ (مسند احمد ابن حنبل، مسند عبد الله بن العباس/ مستدرک،کتاب معرفۃ الصحابہ،کتاب الحدود )کیوں کہ اس حدیث میں ملامست مباشرت کے لیے نہیں،بلکہ اس کے بالمقابل یعنی چھونےکے لیےاستعمال ہوا ہے۔بہر کیف! اس معنی کے اعتبار سے مطلقاً عورت کو چھونے یا بوسہ لینے سے بھی وضو ٹوٹ جانا چاہیے۔ چنانچہ علما کے ایک طبقے کا یہی مذہب ہے۔
اس کے بر خلاف حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ اللہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بعض امہات المومنین کو بوسہ لیتے اور پھربغیر وضو کیے نماز پڑھ لیتے۔(سنن الدارقطنی،کتاب الطہارۃ،باب صفۃ ما ينقض الوضوء وما روي في الملامسۃ والقبلۃ/ المعجم الاوسط،من اسمہ عبد الرحمن،حدیث:۴۶۸۶) جس سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کو بوسہ لینے یا چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔اس طرح کی احادیث میں مختلف علما نے اپنے اپنے طور پر تطبیق و ترجیح کا عمل فرمایا ہے، لیکن اس مقام پر امام شعرانی کی تطبیق سب سے الگ ہے ۔ آپ فرماتے ہیں:
’’پہلی حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ چھونے اور بوسہ لینے سے وضو ٹوٹ جائے گا جب کہ دوسری حدیث وضو نہ ٹوٹنے کےسلسلے میں صریح ہے۔ لہٰذا نقض وضو کی بات اس شخص کے حال پر محمول ہوگی جسے اپنی شہوت پرکنٹرول نہ ہو اور عدم نقض کو اس شخص کے حال پر محمول کیا جائے گا جسے اپنی شہوت پر مکمل کنٹرول ہو۔‘‘(ص:۹۸)
(۴) بلی کے جوٹھے کا حکم:
بلی کے جوٹھے سے متعلق بھی دو قسم کی روایات وارد ہیں۔ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جوٹھا پاک ہے جب کہ بعض سے اس کے ناپاک ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
(۱) الف۔ إنها ليست بنجس۔ بلی ناپاک نہیں ہے۔
(الموطا ،روايۃ يحیی الليثي،کتاب الطہارۃ، باب الطہور للوضوء؍ سنن ترمذی، ابواب الطہارۃ، باب ما جاء في سؤر الھرۃ)
ب۔ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتوضا بفضلہا۔  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کوبلی کے پینے کے بعد بچے ہوئے پانی سے وضو فرماتے ہوئے دیکھاہے۔ 
(السنن الکبریٰ ،کتاب الطہارۃ،  باب سور الھرۃ؍ سنن ابی داؤد،الطہارۃ، باب سؤر الھرۃ)
(۲) الف۔ عن ابی ھریرۃ یغسل الاناء من الہر کما یغسل من الکلب۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ بلی کے جوٹھے برتن کو اسی طرح دھویا جائے جس طرح کتے کے جوٹھے برتن کو دھویا جاتا ہے۔(السنن للدارقطنی ،کتاب الطہارۃ، باب سور الھرۃ؍ معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی،باب سؤر ما لا يؤکل لحمہ سوی الکلب والخنزير)
ب۔ عن ابی ھریرۃ اذا ولغ الھر فی الاناء غسل مرۃ او مرتین بعد ان یہراق ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اگربلی برتن میں منہ ڈال دے تو اس کا پانی بہانے کے بعد اسے ایک یا دو بار دھو دیا جائے۔ 
(سنن الدارقطني،کتاب الطہارۃ، باب سؤر الھرۃ، میں ہے: إذا ولغ الهر في الإناء فاهرقه واغسله مرة)
 امام شعرانی فرماتے ہیں:
 پہلی قسم کی احادیث میں تخفیف ہے اور ان کے بالمقابل جو حضرت ابو ہریرہ کے اقوال ہیں اگر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد پر مبنی ہیں تو یہی سمجھا جائے کہ اس میں تشدید ہے۔ لہٰذا یہاں بھی میزان کے دونوں پلے تشدید و تخفیف صادق آئے۔ (ص: ۹۹، ۱۰۰)
واضح رہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ بلی کے جوٹھے کو مکروہ کہتے ہیں جب کہ آپ کے علاوہ دیگر ائمہ کا اس کی طہارت پر اتفاق ہے۔(اختلاف الائمۃ العلماء، کتاب الطہارۃ، باب الاوانی)
(۵)عظمت نماز اور اہمیت طہارت:
۶؍ ہجری میں مدینے میں خبر آئی کہ قبیلۂ بنی مصطلق کے لوگ مدینے پر حملے کی تیاری میں ہیں۔ یہ سن کر پیش بندی کے طور پر پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃ والسلام اپنے صحابہ کو لے کر نکلے۔ اس سفر میں امہات المومنین میںقرعۂ فال حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے نام نکلا۔مقام مریسیع پر جنگ ہوئی اورمسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ واپسی میں ایک مقام پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہوگیا۔ اللہ کے رسول ﷺ نےبعض صحابہ کوہار کی تلاش میں بھیجا۔اسی اثنا میں نماز کا وقت آگیا، ان حضرات نے بغیر وضوکے نماز پڑھ لی۔ جب وہ بارگاہ رسالت میں آئے تو اس کا ذکر کیا لیکن بقول امام شعرانی سرکار علیہ السلام نے ان سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا۔ اس پر آیت تیمم نازل ہوئی جس میں یہ حکم ہوا کہ پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھ لی جائے۔
ایک طرف بخاری و مسلم کی یہ روایت ہے اوردوسری طرف اللہ کے رسول ﷺ کا یہ فرمان کہ اللہ طہارت کے بغیر نمازقبول نہیں فرماتا۔ لایقبل اللہ صلاۃ الا بطہور(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ وسننہا،باب لا يقبل الله صلاۃ بغير طہور؍السنن الکبریٰ،کتاب الزکاۃ،جماع ابواب صدقۃ التطوع)
امام شعرانی علیہ الرحمہ نے دونوں کے بیچ یہ تطبیق فرمائی:
 پہلی حدیث میں طہارت کے معاملے میں نرمی اور اہتمام نماز کےمعاملے میں سختی ہے، جب کہ دوسری حدیث میں طہارت کے معاملے میںسختی ہے، گویا یہاں بھی حکم شریعت تشدید و تخفیف کی طرف راجع ہے۔(ص:۹۹)
واضح رہے کہ جب پانی اور مٹی دونوں مفقود ہوتو ایسی صورت میں امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جب تک پانی یا مٹی نہ مل جائے نماز نہیں پڑھی جائے گی ، امام مالک کے یہاں اس سلسلے میں تین اقوال ملتے ہیں، ایک تو یہی، دوسرا یہ ہے کہ جیسے ممکن ہو نماز پڑھ لے پھر جب پانی ملے تونماز دوہرالے، امام احمد ابن حنبل کی ایک روایت اور امام شافعی کا قول جدید بھی یہی ہے، اور امام شافعی کا قول قدیم امام اعظم کے موافق ہے، جب کہ امام احمد ابن حنبل کی دوسری روایت کے مطابق وہ نماز پڑھ لے گا اور اعادے کی حاجت نہ ہوگی، اور امام مالک کا قول ثالث بھی اسی کے موافق ہے۔ (اختلاف الائمۃ العلماء ،کتاب الطہارۃ، باب التیمم)
اس مسئلے میں شیخ ابن حزم ظاہری کا موقف امام احمد ابن حنبل کی دوسری روایت کے مطابق ہے، موصوف رقم طراز ہیں:
ومن كان محبوسا في حضر أو سفر بحيث لا يجد ترابا ولا ماء أو كان مصلوبا وجاءت الصلاة فليصل كما هو، وصلاته تامة ولا يعيدها، سواء وجد الماء  في الوقت أو لم يجده الا بعد الوقت ، برهان ذلك قول الله تعالى: (فاتقوا الله ما استطعتم) وقوله تعالى: (لا يكلف الله نفسا الا وسعها) وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم) جو مقام اقامت میںقید ہو یا سفر میں ہواور ایسی جگہ پر ہو جہاں پر نہ پانی ہو اور نہ ہی مٹی ہو، یا اسے صلیب پر لٹکا دیاگیا ہو اور اسی اثنا میں نماز کا وقت ہوجائے تو وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لےاور اس نماز کے اعادے کی ضرورت نہیں، خواہ اسے اس کے بعد وقت کے اندر پانی مل جائے یا وقت کے بعد ملے، اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ ارشاد ہے: فاتقوا الله ما استطعتم جہاں تک ممکن ہو اللہ سے ڈرو۔نیز یہ ارشاد:لا يكلف الله نفسا الا وسعها اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ گراں بار نہیں کرتا۔اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد:إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اسے بجا لاؤ۔(المحلی:۲/۱۳۸)
(۶) مسح علی الخفین کی مدت:
اس حوالے سے امام شعرانی نے پہلے صحیح مسلم کی وہ حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے مدت مسح تین دن اور تین رات مقرر فرمائی جب کہ مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات۔
جعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام ولياليهن للمسافر، ويوما وليلة للمقيم ۔(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب التوقيت في المسح علی الخفين)
اس کے بعد سنن بیہقی سے درج ذیل احادیث نقل کی ہیں:
(ا) عن خزيمة بن ثابت قال : جعل لنا رسول الله صلى الله عليه و سلم ثلاثا ولو استزدته لزادنا يعني المسح على الخفين للمسافر (السنن لکبریٰ للبیہقی،کتاب الطہارۃ، باب ما ورد في ترک التوقيت) حضرت خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے مسح علی الخفین کی مدت تین دن مقرر فرمائی ، لیکن اگر ہم اور زیادہ چاہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور اضافہ فرمادیتے۔
(ب) عن خزيمة بن ثابت قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه و سلم أن نمسح على الخفين يوما وليلة إذا أقمنا وثلاثا إذا سافرنا وأيم الله لو مضى السائل في مسئلته لجعلها خمسا(السنن لکبریٰ للبیہقی،کتاب الطہارۃ، باب ما ورد في ترک التوقيت)
حضرت خزیمہ بن ثابت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیں حکم دیا کہ ہم حالت اقامت میں اپنے موزوں پر ایک دن اور ایک رات مسح کریں اور حالت سفر میں تین دن اور تین رات۔ اور قسم خدا کی اگر سائل مدت مسح میں مزید توسیع چاہتا تو اللہ کے رسول اسے پانچ دن فرمادیتے۔
(ج)  عن أبي عمارة : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم صلى في بيته قال: فقلت : يا رسول الله أمسح على الخفين قال فقال نعم قلت يوما قال ويومين قلت ويومين قال وثلاثة قلت وثلاثة يا رسول الله قال نعم ما بدا لك ۔  (السنن لکبریٰ للبیہقی،کتاب الطہارۃ، باب ما ورد في ترک التوقيت) حضرت ابو عمارہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک باران کے گھر میں نماز پڑھی۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: حضور! کیا میں موزوں پر مسح کرسکتا ہوں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:ہاں! میں نے عرض کی: ایک دن؟ آپ نے فرمایا : دو دن۔ میں نے کہا:دو دن؟ فرمایا: تین دن۔ میں نے کہاحضور! تین دن؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں! جب تک تم چاہو۔  
امام شرف نووی صحیح مسلم والی حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’اس میں مذہب جمہور کی تائید پر واضح دلیل اور قاطع برہان ہے۔جمہور کا مذہب یہ ہے کہ مسح علی الخفین کی مدت مقرر ہے۔ یہ سفر میں تین دن اور تین رات ہے جب کہ حضر میں ایک دن اور ایک رات۔ یہی امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل اور جمہور صحابہ و تابعین کا مذہب ہے جب کہ امام مالک کے مذہب مشہور اور امام شافعی کے قول قدیم کے مطابق مسح کی کوئی مدت مقرر نہیں ہے۔‘‘ (شرح النووی علی صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب التوقيت في المسح علی الخفين)
ائمہ و علما کے اس اختلاف وتشریح کے بر خلاف امام شعرانی اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث میں تشدید ہے جب کہ بیہقی کی جملہ حدیثوں میں تخفیف ہے۔ ایسے میں اول کو اکابر کے حال پر اور دوم کواصاغر کے حال پر محمول کیا جانا چاہیے۔ اور کبھی طاعت و معصیت کے حوالے سے جسمانی قوت وضعف کا لحاظ کرتے ہوئےاس کے بر عکس بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ (ص:۱۰۰)
(۷)عشا کا وقت:
(۱)حضرت جبریل علیہ السلام نے نماز عشا میں آپ ﷺ کی پہلی بار اس وقت امامت فرمائی جب شفق غائب ہوچکا تھا اور دوسری بار اس وقت جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر چکا تھا، اور اس کے بعد بتایا کہ عشا کا وقت ان دونوں کے بیچ ہے۔ یعنی شفق کے ڈوبنے سے لے کر رات کے پہلے تہائی حصہ تک۔(المستدرک، کتاب الصلاۃ، باب : في مواقيت الصلاۃ ؍السنن الکبریٰ، کتاب الصلاۃ، جماع اباب المواقیت،باب آخر وقت الظہر وأول وقت العصر)
اس کے برخلاف حضرت عبد اللہ ابن عباس کا فرمان ہے کہ عشا کا وقت فجر تک ہے۔ (السنن الکبریٰ، کتاب الصلاۃ، جماع ابواب المواقیت، باب آخر وقت الجواز لصلاۃ العشاء)
ان دونوں باتوں کو نقل کرنے کے بعدامام شعرانی فرماتے ہیں :
 پہلی حدیث میں شدت ہے، اس لیے کہ اس میں رات کے پہلے تہائی حصہ گزرنے کے ساتھ عشاکے وقت ختم ہونے کا اندیشہ ہے جب کہ دوسری روایت میں تخفیف ہے کہ اس میں طلوع فجر تک وقت میں وسعت ہے۔ لہٰذا یہاں بھی وہی تخفیف و تشدید کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔(ص:۱۰۱)
(۸)امام کے پیچھےسورۂ فاتحہ کی تلاوت:
فقہاے امت کے درمیان مختلف فیہ فقہی مسائل میں ایک اہم مسئلہ قراءت خلف الامام کا بھی ہے۔ شوافع کے یہاں قراءت، امام کے ساتھ مقتدی پر بھی پر واجب ہے، مالکی علما کے نزدیک سری نمازوں میں مقتدی کا قراءت کرنا مستحب ہےاور جہری میں مکروہ ہے اور حنبلی علما کے یہاں سری اور جہری دونوں نمازوں میں مقتدی کا قراءت کرنا مستحب ہے، البتہ جہری نمازوںمیں امام کی قراءت کے دوران مکروہ ہے،اس لیے کہ تلاوت قرآن کے دوران خاموش رہنے اور غور سے سننے کا حکم ہے (الاعراف:۲۰۴)،اس لیے جہری نمازوں میںمقتدی کو امام کے سکتے اور خاموشی کے دوران قراءت کرنی چاہیے، جب کہ عام ائمۂ احناف کے یہاں قراءت خلف الامام بہر صورت مکروہ ہے ۔ البتہ صاحب ہدایہ علامہ ابوالحسن مرغینانی حنفی نے ائمۂ احناف میں امام محمد کا ایک قول نقل کیا ہے جس کے مطابق قراءت خلف الامام احتیاطاً مستحسن ہے ۔(ہدایۃ، کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ) اس پر امام ابن ہمام نے فتح القدیر میں تفصیلی گفتگو کرنے کے بعدآخر میں لکھا ہے کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے میں ہی احتیاط ہے؛کیوں کہ احتیاط،قوی تر دلیل پر عمل کرنے میں ہوتا ہے اور اس مقام پر قوی تر دلیل قراءت کے حق میں نہیں، عدم قراءت کے حق میں ہے۔
فقہا کے یہ اختلافات اس مسئلے میں دو طرح کی احادیث مروی ہونے کی وجہ سے ہیں، مثلاً:
(۱) الف۔ لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب سورۂ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں۔
(القراءۃخلف الامام للبخاري،باب وجوب القراءۃ للامام والماموم ؍السنن الصغریٰ للبیہقی،کتاب الصلاۃ، باب فرض الصلاۃ وسننھا)
ب۔ انی أراکم تقرؤون وراء امامکم، قالو ا:اجل یارسول اللہ! قال: لاتفعلوا الا بفاتحۃ الکتاب، فانہ لا قراءۃ لمن لم یقرابھا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو، صحابہ نے عرض کی :جی سرکار ہم قراءت کرتے ہیں۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا سورۂ فاتحہ کے علاوہ میں ایسا نہ کرو، کیوں کہ سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (مسند احمد، تتمۃ مسند الانصار، حدیث عبادۃ بن صامت؍ سنن ابو داؤد،  الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ فی صلاتہٖ بفاتحۃ الکتاب، الفاظ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ)
(۲)الف۔ من صلی خلف امام فان قراءۃ الامام لہ قراءۃ۔ جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قراءت اس کے لیے قراءت ہے۔ 
(کتاب الآثار،باب القراءۃ خلف الامام وتلقينہ؍المعجم الاوسط، باب من اسمہ محمود)
ب۔ من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔ جس کی نماز کا کوئی امام ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہے۔ (القراءۃ خلف الامام للبخاري،باب وجوب القراءۃ للامام والماموم ا؍سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرا الامام فانصتوا)
ان احادیث میں تطبیق دیتے وقت شوافع نے دوسری قسم کی احادیث کو مرجوح قرار دیااور صرف پہلی قسم کی احادیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے سورۂ فاتحہ کی قراءت کو امام و مقتدی دونوں پر فرض قرار دیا۔ شوافع کےعلاوہ دیگر علما نے دونوں طرح کی احادیث پر عمل کی صورت نکالی ہے، بہ ایں طور کہ مالکی علما نے کہا کہ پہلی قسم کی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے ہرنماز میںسورۂ فاتحہ کی تلاوت تو ضروری ہے البتہ جماعت والی نماز اگر سری ہوتو پہلی قسم کی احادیث کے پیش نظر اگر امام کے ساتھ ہر مقتدی پڑھے تو یہ مستحب ہے ، واجب نہیں ہے، کیوں کہ دوسری قسم کی احادیث کی وجہ سے مقتدی کے لیے امام کی قراءت کافی ہےاور اگر جہری نمازوں میں بھی وہ پڑھتا ہے تو دوسری قسم کی احادیث کو دیکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ قرآن میں تلات قرآن کے دوران غور سے سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے (الاعراف:۲۰۴)، اس کا یہ عمل مکروہ ٹھہرے گا۔
 حنابلہ نے اس میں اور تفصیل کی اور کہا کہ امام کے ساتھ اگر مقتدی بھی قراءت کرتے ہیں تو پہلی احادیث کی طرف نظر کرتے ہوئے یہ عمل بلا شبہ مستحب ہوگا، البتہ واجب اس لیے نہیں ہوگا کہ دوسری قسم کی احادیث کی وجہ سے مقتدی کے لیے امام کی قراءت کافی ہے، البتہ امام جب بلند آواز سے قراءت کررہاہو تو اس کی قراءت کے دوران ہی مقتدی نہ پڑھیں، یہ مکروہ ہے، کیوں کہ قرآنی حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو، تو غور سے سنو اور خاموش رہو۔(الاعراف:۲۰۴)
 احناف نے کہا کہ پہلی حدیث پر اس طرح عمل ہوگا کہ ہر نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھی جائے گی، انفرادی نمازوں میں ہر شخص پڑھے گا اور جماعتی نمازوں میں امام پڑھے گا اور مقتدی سنیں گے، امام کے پڑھنے سے پہلی قسم کی احادیث پہ عمل ہوگیا اور مقتدی کے سننے سے قرآنی حکم ’جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو‘پر،دوسری قسم کی احادیث پراور اکابر صحابہ کی سنت پر عمل ہوگیا۔
صاحب ہدایہ نے اس سلسلے میں لکھا ہے کہ امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے پرصحابہ کا اجماع ہے۔(ہدایۃ، کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ)  اس پر شرح کرتے ہوئے علامہ شمس الدين بابرتي نے لکھا ہے کہ یہ بات قابل غور ہے، اس لیے کہ جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض صحابہ قراءت خلف الامام کے وجوب کے قائل تھے۔ پھر صاحب ہدایہ کی بات کی تاویل و توضیح کرتے ہوئے خود ہی لکھا ہے کہ ممکن ہے کہ صاحب ہدایہ کی اس سے مراد اکثر صحابہ کا اجماع یا اکابر اور مجتہدین صحابہ کا اجماع ہو، یا ممکن ہے کہ جو صحابہ اس موقف کے خلاف تھے وہ بعد میں اس کے حامی ہوگئے ہوں، یا یہ مراد ہے کہ جیسا کہ بعض روایتوں میں منقول ہے کہ دس اکابر صحابہ قراء ت خلف الامام سے منع کرتے تھے اور جب ان کے منع پر کسی کا رد منقول نہیں ہوا تو گویا صحابہ کا اجماع سکوتی ہوگیا۔ (العنایہ، ہدایۃ، کتاب الصلاۃ،فصل فی القراءۃ) 
اس باب کی مذکورہ احادیث کو سامنے رکھتے ہوئےامام شعرانی اپنے منفرد اصول تطبیق کی روشنی میں فرماتے ہیں:
’’دوسری قسم کی احادیث(جس میں امام کی قراءت کو مقتدی کی قراءت بتایا گیا ہے) اکابر کے حال پر محمول ہیں،جن کا دل قراءت امام کی سماعت کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں حاضر رہتا ہے، اسی طرح جو امام کی قراءت کے ساتھ خود بھی قراءت کرتے ہیں ،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے، ان کا حال ان لوگوں کا ہے جن کا دل قراءت امام کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں حاضر نہیں رہتا۔ حضرت عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن مسعود، عبد اللہ ابن عمر اور صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے پہلا والا موقف اختیار کیا۔۔۔۔حضرت عطا کا بیان ہے کہ صحابہ سری نمازوں میں قراءت خلف الامام کے قائل تھے، جہری نمازوں میں اس کے قائل نہیں تھے۔ یہاں بھی معاملہ میزان کے دونوں پہلو، تخفیف اور تشدید کی طرف راجع ہوا۔‘‘(یعنی اصاغر کے لیےقراءت خلف الامام اوراکابر کے لیے عدم قراءت)(ص:۱۰۴)
(۹) دیہات میں جمعہ کی نماز:
امام شعرانی فرماتے ہیں:
’’امام شافعی کا ارشاد ہے :جمعہ صرف ایسی آبادی میں ہوگی جہاں گھربنے ہوئے ہوں اور ان کے اندرایسے لوگ رہتے ہوں جن پر جمعہ واجب ہوتا ہے، وہ آبادی خواہ شہر ہو یا گاؤں۔ 
اس کے بالمقابل بعض علما اس طرف گئے ہیں کہ جمعہ کی نماز ہر گاؤں میں نہیں ہوسکتی، صرف اسی گاؤں میں ہوسکتی ہے جس میں گھنی آبادی ہو، اس کے ساتھ اس میں ایک مسجد اور ایک بازار بھی ہو۔
 جب کہ امام ابوحنیفہ کا ارشاد ہے کہ جمعہ کی نماز صرف اس شہر کی مسجد میں ہوگی، جہاں سلطان اسلام بھی ہو۔
پہلے قول میں تشدید ہے، اس اعتبار سے کہ اس میں عمارتوں کی شرط ہے۔دوسرے قول میں اس سے زیادہ سختی ہے، اس اعتبار سے کہ اس میں آبادی کے گھنی ہونے اور ایک بازار ہونے کی شرط ہےاور تیسرا قول ان دونوں سے بھی سخت ہے۔
لہٰذا یہاں بھی معاملہ میزان کے دونوں پہلو تخفیف اور تشدید کی طرف راجع ہوا۔
پھر قول اول اور اسی طرح قول ثانی کی دلیل اتباع صحابہ ہے۔اس لیے کہ ہمیںکوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ صحابہ نے شہر اور گاؤں سے باہرصحرا اور سفر میں جمعہ قائم کیا ہو۔ 
اسی طرح ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے اس کے لیے مسجد، بازار، آبادی اور سلطان کی جو شرط لگائی ہے وہ کسی دلیل کی بنیاد پر لگائی ہے، اس کے لیے ان کے پاس دلیل ہوگی۔اہل علم کا کہنا ہے کہ واقعۂ ارتداد کے بعد(مسجد نبوی میں قیام جمعہ کے بعد، مضمون نگار کو کتب حدیث میں یہی ملا۔) بحرین کے جس گاؤں میں سب سے پہلے جمعہ قائم کیا گیا اس کا نام جؤاثی تھا، اس میں ایک مسجد بھی تھی اور ایک بازار بھی تھا۔ 
اور قول ثالث کی دلیل بھی واضح ہے کہ جہاں پر حاکم نہیں ہوگا، وہاں بد نظمی اور لاقانونیت ہوگی۔ 
ایک عارف کا قول ہے کہ ائمہ نے یہ شرائط صرف لوگوں کی آسانی کے لیے رکھی ہیں، ورنہ حقیقت میں یہ صحت کی شرط نہیں ہے،لہٰذا اگر مسلمانوں نے بغیر آبادی کے اور بغیر حاکم کے جمعہ کی نماز پڑھی تو بھی یہ ان کے لیے جائز ہوگا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جمعہ فرض کیا ہے اور ائمہ نے جوشرطیں لگائی ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔‘‘(ص:۲۴۱)
(۱۰) لاپتہ شوہر کی بیوی کا نکاح  ثانی:
وہ عورت جس کا شوہر غائب ہو اور یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ زندہ ہے یا مردہ؟ اس سلسلے میں علما کے اختلافات ہیں۔ امام شعرانی نے مختلف آثار نقل کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں اصحاب رسول ﷺکا موقف مختلف تھا۔فرماتے ہیں:
ــ’’امام شافعی اور امام بیہقی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ لاپتہ شوہر کی بیوی دوسری شادی نہیں کرے گی، اگر اس نے دوسری شادی کر لی اور اس کے بعد اس کا لاپتہ شوہر آگیا تو وہ اسی کی بیوی رہے گی، اسے اختیار ہوگا ، چاہے تو اسے رکھے چاہے تو طلاق دے دے۔
اس کے بالمقابل امام مالک ، امام شافعی اور امام بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ جس عورت کا شوہر غائب ہوجائےاور اسے معلوم نہ ہوکہ وہ زندہ ہے یا مرگیا، تو وہ چار سال تک انتظار کرے گی، پھر اس کے بعد چار مہینے دس دن گزار کر عدت سے باہر آجائے گی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے زمانے میں اسی پر فیصلہ کیا۔
لہٰذا پہلا حکم سخت ہے اور دوسرانرم، اس طرح یہاں بھی معاملہ وہی تشدید و تخفیف کا ہے۔‘‘  (ص:۱۲۱، ۱۲۲) 
واضح رہے کہ امام مالک کے علاوہ ائمۂ ثلاثہ نے حضرت علی کا ہی مذہب اختیار کیا ہے جب کہ حضرت امام مالک نےسیدنا عمر ابن الخطاب کا موقف اختیار کیا ہے، البتہ ماضی قریب میں شہزادۂ اعلی حضرت علامہ مصطفی رضا خاں بریلوی، علامہ ظفرالدین بہاری اور علامہ ارشدالقادری نے عام ائمہ اور علماے احناف کے برخلاف امام مالک کے فتوی کو ہی مفتی بہ قرار دیا۔(تفصیل کے لیے دیکھیےاستاذگرامی حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی صاحب کی کتاب:’فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت، فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے،ص: ۵۹ تا ۶۱)
تلک عشرۃ کاملۃ:
یہ دس مثالیں بطور مشتے نمونہ ازخروارے ہیں۔’’ میزان الشریعۃ الکبریٰ‘‘ اس قسم کی سیکڑوں بلکہ ہزاروں مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔حضرت امام شعرانی نے’’کتاب الطہارۃ‘‘ سے لے کر ’’کتاب الشہادات‘‘ تک جمیع ابواب فقہ سے متعلق احادیث و آثاراور اقوال و روایات کے درمیان اسی طرح عارفانہ تطبیق فرمائی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اہل حق کے جتنے فقہی اختلافات ہیں ان میں غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر مسئلے میں دو حکم ہے ، ایک سخت اور دوسرا نرم، اس طرح جملہ اختلافات انہی دو پہلو میں راجع ہیں، جو حضرات تفصیل دیکھنا چاہیں اصل کتاب سے رجوع کریں بلکہ موجودہ شدت پسندی کے ماحول میں جب کہ ہر مفتی نہ صرف یہ کہ صرف اپنے ہی موقف کودرست سمجھنے پر مصر ہے بلکہ اپنی رائے کو غیر شعوری طور پر وحی کا درجہ دیے ہوئے ہے،اعتدال پسند علما پر لازم ہے کہ اپنے اکابر کی اس قسم کی کتابوں کا مطالعہ کریں جس سے نہ صرف معلومات میں اضافہ اور فکر میں وسعت پیدا ہوگی بلکہ یہ بھی واضح ہوگا کہ تمام ائمہ و علماے مجتہدین کے اقوال برحق ہیں اور سب کی بنیاد کتاب وسنت ہے۔ اس کے ساتھ انہیں اختلاف کا سلیقہ بھی آئےگا اور انہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہوگی کہ علماے حق کے اختلافات زحمت نہیں رحمت ہیں۔
یہاں پہنچ کر بعض حضرات کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اس طرح کے مضامین کی اشاعت کا کیا حاصل ہے جس سے ایک عام آدمی کو یہ لگنے لگے کہ حنفیت اور شافعیت کا اختلاف کوئی چیز نہیں اور ہمارے لیےیہ جائز ہے کہ جب چاہیں جس موقف پرعمل کریں؟
 میں جواباً کہوں گا کہ یہ سوال مجھ سے نہیں ، مجھ سے پہلے امام شعرانی سے ہونا چاہیے کہ انہوں نےتقلید ائمہ پر اتفاق علما کے زمانے میں آج سے تقریباً چار سو سال پہلےدسویں صدی ہجری میں اس قسم کی کتاب کیوںلکھی، پھر ایسی کتاب لکھنے پر ہمارے اکابر علماے اسلام ، اہل تصوف اور فقہاے احناف نے ان پر نقد و جرح کرنے کے بجائے ان کی مدح و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے کیوں ملائے؟
بات در اصل یہ ہے کہ امام شعرانی کے زمانے میں تقلید ائمہ ان کے معاصر علما کے مابین تحقیق و اتباع سے آگے نکل کر عصبیت کی وادی میں داخل ہوگئی تھی۔ بعض علما اس قدر جری ہوگئے تھے کہ زبانی طور پر سارے ائمہ کو برحق کہنے کے باوجود،ان کے طرز عمل سے یہی ظاہر تھا کہ صرف انہی کا مسلک فقہ برحق ہے باقی دیگر مسالک ہفوات وخرافات کا پلندہ ہیں ،ان کی جرات کا یہ عالم تھا کہ دوسرے مسلک فقہ کا ردو ابطال ہی ان کی زندگی کا شیوہ بن چکا تھا۔میزان الشریعہ کے شروع میں ہی امام شعرانی نے اپنے شیخ حضرت علی الخواص رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھاہےکہ ماوراء النہر کے بعض حنفی اور شافعی علما رمضان کے دنوںمیں بھر پیٹ کھاکھا کر مناظرے کیا کرتے تھے اور اپنے مسلک فقہ کی حقانیت کو بیان کرنے کے لیے پریشان رہاکرتے تھے۔ انہی حالات میں امام شعرانی نےاپنی یہ کتاب لکھی ، چناں چہ فرماتے ہیں:
ــ’’اس تصنیف کا مقصد یہ بھی ہے کہ مقلدین کا قول کہ تمام ائمہ برحق ہیں، ان کے دلی اعتقاد کے موافق ہوجائے، تاکہ وہ اپنے ائمہ کے حق ادب کا پاس رکھیں اور آخرت میں اس پر مرتب ہونے والے ثواب سے لطف اندوز ہوں اور جو شخص زبانی طور پر تو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے تمام ائمہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور اپنے دل میں اس کا اعتقاد نہیں رکھتا، وہ نفاق اصغر سے محفوظ ہوجائے جس کی مذمت اللہ کے رسول ﷺ نے فرمائی ہے۔ ؃ ‘‘(ص: ۷)
ہمارے زمانے کے حالات اس سے بھی ابتر ہو چکے ہیں ، موجودہ ہندوستانی فقہی معاشرے میںبعض علما حنفیت و شافعیت سے بھی نیچے اتر کر حنفیت اور حنفیت کے درمیان ہی  برسر پیکار ہیں،بعض غلو پسند علما نے غیر اعلانیہ طور پر اپنے محبوب نظر فقہا کو مقام عصمت پر بٹھا رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا فقیہ ان سے یا ان کے محبوب نظر فقہا سے علمی و فقہی اختلاف کرتا ہے یافقہ حنفی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے حالات زمانہ کی تبدیلی سے حکم شرعی میں تبدیلی کا فتوی دیتا ہے تو یہ لوگ چراغ پا ہوجاتے ہیں، سب و شتم شروع کردیتے ہیں اور اس سے بڑھ کر بد دعائیں دینا شروع کردیتے ہیں اور رحمت حق کو اپنے محدود پیمانوں سے ناپتے ہوئے ایسے بے گناہ فقہا پرباب توبہ و مغفرت کو بھی بند کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس لیے ہمیںامام شعرانی کی عارفانہ تطبیقات کی ضرورت کل کے بہ نسبت آج زیادہ محسوس ہورہی ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام شعرانی کی یہ گفتگو عوام کے لیے نہیں خواص علما کے لیے ہے، اس لیے امام شعرانی کے ان عارفانہ نکات تک اگر بعض ذہن نہ پہنچ سکیں تو وہ عارف باللہ امام عبد الوہاب شعرانی پریا ان کے افکار کو پیش کرنے والے اس سیہ کار پر انکار و اعتراض کرنے کے بجائےموجودہ عہد کے معتبر اور متوسط علما سے رجوع کریں، وہ صحیح طور پر ان کی تفہیم کرسکیں گے۔  
کیا اب تقلید کی ضرورت نہیں ہے؟
امام شعرانی کی ان تطبیقات اور نکات آفرینیوں کو پڑھنے کے بعد عامۃ الناس بلکہ بہت سے اوساط الناس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب تمام مسالک برحق ہیں اور سارے آثار و اقوال تشدید و تخفیف پر مبنی ہیں، پھر تو تقلید ائمہ کی ضرورت ہی نہ رہی، جس کے جی میں آئے جب جیسے اور جس موقف پر عمل کرے، کیوں کہ سب برحق ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام شعرانی کی تطبیقات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے؛ کیوں کہ خود امام شعرانی تقلید کے مخالف نہیں، موافق و موید ہیں،ان کا مقصد تقلید محضیت، اندھی تقلیداور متعصبانہ تقلید کی مخالفت ہے جس کا اسیر ہوکرایک مسلمان اکابر ائمہ و علما کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردیتاہےیا اپنے ان معاصر علما کے خلاف آمادۂ پیکار ہوجاتاہے جو اس کے نقطۂ نظر کے مخالف ہیں ۔امام شعرانی کا مقصود اہل علم تک اس پیغام کو پہنچانا ہے کہ وہ تمام ائمہ و علما کو دل سے برحق جانیں اور سب کا احترام کریں، ایسا نہ ہو کہ ان کی زبان تو سب کو برحق کہے اور ان کا ضمیر اس کی نفی کرتا رہے اور اس طرح وہ نفاق خفی کے مرض میں مبتلا رہیں، اسی طرح ان کا مقصد مقلد علما کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ تقلید محضیت اور فقہی و علمی جمود کا شکار نہ ہوںبلکہ تمام ائمۂ مجتہدین کو برحق سمجھتے ہوئے زمانی تقاضوں کے تحت اگر دوسرے مسلک فقہ پر فتوی دینے کی ضرورت محسوس کریں تو اس پر فتوی دیںاور بہر صورت کسی ایک امام سے چمٹے رہنے کی قسمیں توڑدیں۔ 
اس مقام پر اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اتباع شریعت کے حوالے سے مسلمانوں کو تین خانوں میں رکھا جاسکتا ہے:
(۱) مجتہدین مطلق (۲) مجتہدین مقید/ عام محققین (۳) عامۃ المسلمین بشمول عام علما۔
مجتہدین مطلق تو آج کوہ قاف کے باشی بن چکے ہیں، موجودہ عہد میں ایسے علما نظر نہیں آتے ، جواجتہاد و استنباط میں مطلقاً آزاد ہوں، رہے عام محققین تو ایسے علما سے زمانہ کبھی خالی نہیں ہوگا ، بقول علامہ علاؤ الدین حصکفی زمانہ اہل تمیز سے کبھی خالی نہیں رہے گااور جو صاحب تمیز نہ ہو وہ صاحب تمیز سے رجوع کرے، کہ اس کی فقط اتنی ہی ذمہ داری ہے۔ 
ولا يخلو الوجود عمن يميز هذا حقيقة لا ظنا، وعلى من لم يميز أن يرجع لمن يميز لبراءة ذمته (الدر المختار،۱؍۸۴)
اس تقسیم پر نظر کرتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ تقلید سے مطلق آزادی موجودہ عہد میں عملاً ناممکن ہے، کیوں کہ یہ حصہ مجتہدین مطلق کا ہے جو آج موجود نہیں،رہے عام مسلمان توان کے مقلد ہونے میں کس کافر کو شک ہوگا، ہاں!عام محققین کا حال یہ ہے کہ وہ اصول و فروع میں کسی ایک مکتب فقہ سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ ابن الوقت نہیں ابو الوقت ہوتے ہیں کہ تبدیلی زمانہ اور تغیر حالات کے تحت حسب ضرورت و حاجت تبدیلی فتوی کے لیے تیار رہتے ہیںاور ضرورت پڑنے پر دوسرے امام کے قول پر فتوی دینے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔
امام شعرانی کا مقصد اسی روح علمی کو بیدار کرنا ہے، نہ کہ تقلید کے خلاف آواز اٹھانا ۔ وہ اہل علم کے ذہن و دماغ میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ تمام مسالک فقہ برحق اور مبنی بر کتاب و سنت ہیںتاکہ وہ ضرورت پڑنے پر تبدیلی فتوی کے لیےیا دوسرے مسلک فقہ پر فتوی دینے کے لیے تیار رہیں، ان کا مقصد عوام کو تقلید سے آزادی کی دعوت دینانہیں ہے،وہ تو صرف اس کے قائل ہیں کہ سارے مکاتب فقہ برحق ہیں، اس کے قائل نہیں کہ جو جب چاہے جس مکتب فقہ پر عمل کرے،کون سا حکم کس صورت میں نافذ العمل ہوگا اس کا فیصلہ ہر ایرے غیرے کا نہیں، یہ اپنے زمانے کے ممتاز علما کا ہے جو صاحب تمیز کے مقام پر فائز ہوتے ہیں۔ عام مسلمان کو نہ یہ جائز ہے کہ جب چاہے جس موقف پر عمل کرے اور نہ یہ جائز ہے کہ اپنے عہد کے ان علما پر زبان طعن دراز کرے جواسے پسند نہ ہوں، عام مسلمان بلکہ عام علما کو جو صاحب تمیز نہیں ہیں ، ان کی ذمہ داری فقط یہ ہے کہ وہ اپنے طور پر جن علما کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور جو ان کے نزدیک صاحب تمیز ہیں، ان سے رجوع کریں اور ان کے فتوے پر عمل کریں۔
امام شعرانی کے نزدیک عام مسلمانوں پر تقلیدامام واجب ہے اور بلا ضرورت دوسرے مکتب فقہ پر عمل کرنا جائز نہیں، اس کا ثبوت ان کا یہ ارشاد ہے:
’’کوئی شافعی المسلک ہے اور اس نے شرم گاہ کو چھولیا ،اگر وہ دوبارہ وضوکرنے پر قادر ہے توامام ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہوئے بے تجدید وضونماز پڑھنا اس کے لیے روانہیں ہے۔ اسی طرح اگرکوئی شافعی المسلک فاتحہ کی تلاوت پرقادرہے تواسے جائز نہیں کے بغیر تلاوت فاتحہ کے نماز پڑھ لے، یا تلاوت قرآن پرقدرت ہوتے ہوئے ذکر الٰہی کرتے ہوئے نماز پڑھے،یہ بھی اس کے لیے جائز نہیں۔‘‘ (ص:۲۳)
ہاں! اہل علم میں جو صاحبان تمیز ہیں، وہ اپنا کام جاری رکھیں۔بقول امام موصوف کے:
’’’باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کے حق میںفرمایاہے کہ :’’ہم نے اس کتاب میں کسی چیز کو ترک نہیں کیاہے۔:مافرطنا فی الکتاب من شیء۔ (الانعام:۲۸)اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجمال کی تفصیل بیان فرمائی۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے طہارت ،نماز اورحج وغیرہ کے طریقے بیان نہیں فرمائے ہوتے توامت کا کوئی شخص ان امور کو قرآن سے نہیں نکال پاتا۔نہ ہم فرائض ونوافل کی رکعتوں کی تعداد اور ان دوسرے امور سے واقف ہوپاتے جن کا ذکر آئندہ آئے گا۔تو جس طرح شارع علیہ السلام نے اپنی سنتوںکے ذریعے قرآن کے مجمل احکام کو واضح فرمایا اسی طرح ائمۂ مجتہدین نے احادیث کریمہ میں موجود اجمال کی ہمارے لیے تفصیل فرمائی۔اگر ائمہ مجتہدین نے ہمارے لیے اجمال شریعت کی تفصیل نہیں فرمائی ہوتی توشریعت مجمل ہی رہ جاتی۔یہی بات قیامت تک پچھلے دورکے بالمقابل ہر دورکے حق میں کہی جاسکتی ہے؛ کیوںکہ علمائے امت کے کلام میں قیامت تک اجمال کا سلسلہ جاری ہے۔اگرایسا نہ ہوتاتو نہ کتابوں کی شروحات لکھی جاتیں اور نہ ہی شروحات پر حواشی لکھے جاتے۔‘‘(ص:۵۸)
چوتھا گروہ:
واضح رہے کہ یہاں مسلمانوں کا ایک چوتھا طبقہ بھی ہے، جو نادر و کمیاب ہونے کے باجودصوفیہ کی تصریحات کے مطابق ہر زمانےمیں موجود رہا ہے، جسے امام شعرانی عارفین باللہ کے لقب سے ملقب کرتے ہیں اور جن کے بارے میں امام موصوف کا دعوی ہے کہ یہ عین شریعت پر فائز ہوتے ہیں، ایسے نفوس قدسیہ بسا اوقات فنی اعتبار سے مقام اجتہادمطلق پر نہ ہوتے ہوئے بھی،حقیقت کے لحاظ سے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں،امام شعرانی کے لفظوں میں:
’’اس کشف کاحامل یقین کے معاملے میں مجتہدین کے برابر ہوتاہےاوربسااوقات بعض پرفوقیت بھی رکھتاہے؛کیوںکہ وہ اپناعلم براہ راست عین شریعت سے اخذکرتاہے ۔ ایسا شخص اجتہاد کے ان ذرائع کے حصول کامحتاج بھی نہیںہوتا جنھیں علمانے مجتہدکے حق میں مشروط کیاہے۔اس کامعاملہ اس شخص جیساہے جوسمندر کی راہ سے ناواقف ہو،کسی واقف شخص کے ساتھ سمندر چلاجائے اورپھراپنے برتن کواس کے پانی سے بھرلے تواب ان دونوں کے پانی میں کوئی فرق نہیں رہا۔‘‘(ص:۱۶) 
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’جس کوبھی ولایت محمدی کاکوئی درجہ ملتاہے وہ احکام شریعت کووہاں سے لینا شروع کردیتا ہے جہاں سے مجتہدین نے لیاہے اوراس سے تقلیدکی گرہ کھل جاتی ہے۔وہ صرف اللہ کے رسول ﷺکامقلدرہ جاتاہےاور بعض اولیا کے بارے میں جو یہ منقول ہے کہ وہ مثلا شافعی یا حنفی تھے توایسامقام کمال تک پہنچنے سے پہلے تھا۔‘‘ (ص:۲۸،۲۹)
اور اہل تصوف کے یہاں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ ایسے صاحبان کمال اولیا سے زمانہ کبھی خالی نہیں رہا، امام احمد رضا قادری بریلوی کے لفظوں میں ’’بغیر غوث کے زمین و آسمان قائم نہیں رہ سکتے۔‘‘ (الملفوظ،ج:۱،ص۱۲۰، قادری کتاب گھر، بریلی،۱۹۹۵ء)
یہ اولیا تقلید کی زنجیر سے آزاد ہوتے ہیں مگراس کے باوجود عویٔ اجتہاد کرنے سے ادباً اور احتیاطاً گریز کرتے ہیں ،کیوں کہ موجودہ زمانے میں عام مسلمان بلکہ عام محبین صوفیہ نے بھی یہ اعتقاد کر رکھا ہے کہ اب اولیاے کاملین اور مقام غوثیت پر فائز نفوس قدسیہ نہ رہے۔
کیا غیر مقلدین زمانہ عارفین باللّٰہ کے مسلک پر ہیں؟
امام شعرانی نے میزان الشریعہ میں اس بات کو بار بار لکھا ہے کہ عارفین باللہ عین شریعت پر فائز ہیں، انہیں کسی امام مجتہد کی تقلید کی حاجت نہیں، وہ براہ راست سر چشمۂ نبوت سے سیرابی حاصل کرتے ہیں،انہیں سارے مسالک فقہ چشمۂ نبوت سے پھوٹتے ہوئے نظر آتے ہیں اوروہ حسب حال خود کو جس پن گھٹ سے سیراب کرنا چاہتے ہیں سیراب کرتے رہتے ہیں۔
امام شعرانی کی اس بات سے ممکن ہے کہ بعض حضرات یہ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کریں کہ غیر مقلدین زمانہ(یہ ایک اصطلاح ہے، ورنہ یہ حضرات بھی حقیقتاً اپنے چند مخصوص علما کے مقلد ہیں ، غیر مقلد نہیں ہیں)بھی عارفین باللہ کے مسلک پر ہیں، کیوں کہ جس طرح عارفین باللہ امام معین کی تقلیدکو اپنے لیے ضروری نہیں سمجھتے، غیر مقلدین بھی تقلید شخصی کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں؟
اس شبہے کا جواب ایک جملے میں تو صرف یہ ہے ـ:
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
اور بقول عارف ربانی حضرت شیخ ابوسعید صفوی دامت فیوضہم:
کہاں ناسوت کی دنیا کہاں ملکوت کی دنیا
کہاں آفتاب اور کہاں ایک ذرہ
کہاں دل کی دنیا کہاں گل کی دنیا
اس کی تفصیل یہ ہے کہ یہ عارفین کے لیے جائز ہے کہ وہ جب چاہیں، جس پنگھٹ سے پانی پییں، جاہلین کے لیےنہیں،جو اس سرچشمے سے ہی ناواقف ہیں، شمشیر زنی کی اجازت مجاہدین کو ہے نہ کہ بچوں کو ، جو خود اپنی ہی ٹانگیں کاٹ لیں گے۔ جہلا کو یہ اجازت دے دی جائے تو شریعت اور اسراردین سے یہ ناواقف اپنی خواہشات اور طبیعت کو ہی دین و شریعت بنا لیںگے اور أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ (الجاثيۃ: ۲۳)کے بمصداق اتباع شریعت کے بجاے خواہشات پرستی میں مبتلا ہوجائیںگے۔
غیر مقلدین زمانہ اور عارفین باللہ کے موقف میں ایک دوسرا نمایاں فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ عرفا یہ دیکھتے ہیں کہ تمام مجتہدین امت کے اجتہادات و اقوال سرچشمۂ نبوت سے پھوٹ رہے ہیں، لہٰذا وہ سب کو برحق سمجھتے ہیں اور سب کا احترام کرتے ہیں، اس کے برخلاف غیر مقلدین زمانہ کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے فہم و ادراک کو کتاب و سنت کا درجہ دے دیتے ہیں اور اپنے فہم کے مخالف تمام اجتہادات و اقوال کو مخالف قرآن و سنت قرار دیتے ہوئے ائمۂ اعلام کواربابا من دون اللہ بتاتےہوئے انہیں سب و شتم کرنے کو اپنے لیے جائز بلکہ باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر یوسف القرضاوی:
’’ان غیرمقلدین کا معاملہ بھی بڑا عجیب و غریب ہے، دوسروں کو تقلید سے روکتے ہیںاور خود مقلد محض ہیں، قدیم ائمہ کی تقلید سے انکار کرتے ہیں اور بعض موجودہ علما کی تقلید کرتے ہیں، مسالک اربعہ کا انکار کرتے ہیں جب کہ خود ان کی آراپر مبنی ایک پانچواں مسلک ایجاد کر رکھا ہے جس کے پیچھے آمادۂ جنگ نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ان کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ یہ لوگ کسی اختلافی مسئلہ میں کسی حدیث پاک کو پالیتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ اب انہوں نے اختلاف کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے اور اب اس مسئلہ میں ان کی رائے کا مخالف در اصل حدیث اور سنت کا معارض ہے۔‘‘(الصحوۃ الاسلامیۃ بین الاختلاف المشروع والتفرق المذموم، ص:۷۷۔۸۰،دار الشروق،قاہرہ)
اللہ تعالی ہمیں اسرار شریعت کو سمجھنے اور ائمۂ مجتہدین کی عزت واحترام کرنے کی توفیق بخشے اور موجودہ مسائل میں علما کوامانت و تقوی کےساتھ تحقیق و تدقیق کرنے اور علمی اختلاف میں علمی وفقہی آداب ملحوظ رکھنے، ایک دوسرے کا احترام کرنے اور اختلاف کے ساتھ زندہ رہنے کا سلیقہ بخشے اور عوام کے اندر اتباع شریعت کا جذبہ عطا فرمائے اور انہیں علما کے اختلافات میں پڑنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
---------------------------------------------------------------
مصادر و مراجع:
(۱) القرآن الکریم ------------------------------
(۲) اختلاف الائمۃ العلماء وزيرابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیرہ شيبانی
(۳) اکمال المعلم شرح صحيح مسلم علامہ قاضي ابو الفضل عياض يحصبی
(۴) الدر المختار علامہ محمد علاء الدين حصکفی
(۵) السنن الصغریٰ         امام احمد بن الحسين ابوبکر بیہقی
(۶) السنن الکبریٰ امام احمد بن الحسين ابوبکر بیہقی
(۷) الصحوۃ الاسلامیۃ بین الاختلاف المشروع والتفرق المذموم۔۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی
(۸) العنایہ    علامہ شمس الدين بابرتی
(۹) القراءۃ خلف الامام للبخاري  امام محمد بن اسماعيل البخاری
(۱۰) المحلی شیخ ابو محمد بن حزم اندلسي ظاہری
(۱۱) المستدرک امام محمد بن عبدالله حاکم نيساپوری
(۱۲) المعجم الاوسط امام ابو القاسم سليمان بن احمدطبرانی
(۱۳) المنہاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج امام ابو زکريا یحییٰ بن شرف بن نووی
(۱۴) موطاامام مالک امام مالک بن انس اصبحی
(۱۵) المیزان الکبری الشعرانیۃ امام عبد الواہاب شعرانی، دار الکتب العلمیۃ،بیروت ۱۹۹۸ء
(۱۶)سنن ابن ماجہ امام ابو عبدالله محمد بن يزيد قزوينی
(۱۷) سنن ابی داؤد امام سليمان سجستاني ازدی
(۱۸) سنن الترمذی امام ابو عیسیٰ محمد ترمذی
(۱۹) سنن الدارقطنی امام ابو الحسن علي بغدادي دارقطنی
(۲۰) صحيح مسلم امام مسلم بن الحجاج قشيري نيساپوری
(۲۱) صحيح البخاري امام ابو عبدالله محمد بن اسماعيل بخاری
(۲۲) فتح القدیر امام كمال الدين محمد بن عبد الواحدسيواسی
(۲۳)کتاب الآثار امام ابو يو سف يعقوب بن إبراہيم انصاری
(۲۴) مسند احمد ابن حنبل امام احمد بن حنبل ابو عبداللہ شيبانی
(۲۵)   معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی امام احمد بن الحسين ابو بکر بیہقی
(۲۶)ہدایۃ علامہ ابو الحسن علي بن ابوبکر مرغينانی
(۲۷) الملفوظ امام احمد رضا قادری، قادری کتاب گھر، بریلی،۱۹۹۵ء
(۲۸) فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت مفتی محمد نظام الدین رضوی،مجلس شرعی مبارک پور۲۰۱۳ء
نوٹ: اکثر حوالے المکتبۃ الشاملہ اور دیگر برقی ذرائع سے لیے گئے ہیں۔

٭٭٭










0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔