Thursday 31 August 2017

ماہنامہ الرسالہ ،دہلی (جون ۲۰۰۷ء)------- سر پرست و مدیر: مولانا وحید الدین خان

0 comments
ماہنامہ الرسالہ ،دہلی (جون ۲۰۰۷ء)
           سر پرست و مدیر: مولانا وحید الدین خان
           صفحات: ۴۸ 
           ناشر: اسلامی مرکز، ۱؍ نظام الدین ویسٹ مارکیٹ ،نئی دہلی-۱۳
           تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی  
دیگر تمام رسائل وجرائد سے مواد اور پیش کش ہر دو اعتبار سے منفرد و ممتاز اور اپنی یک رنگی ،سادگی و پر کاری کی روایت کے ساتھ ماہنامہ الرسالہ جون ۲۰۰۷ء زیر مطالعہ ہے- عصر حاضر کے مشہور اور انتہا پسند مفکر و اسکالر مولانا وحید الدین خاںاپنے اس پورے رسالہ میں تنہا لکھتے ہیں، ان کے اسلوب کی ساحری ، بیان کی معقولیت و منطقیت اور زبان کی سادگی و اثر انگیزی سے کسی کو بھی انکار نہیں- غالباً بلا استثناء یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا غلط سے غلط اور نا قابل فہم و نا معقول بات کو بھی اچھے اور معقول پیرائے میں کہہ جاتے ہیں لیکن شاید یہ کم لوگوں کو معلوم ہو کہ مولانا بعض اوقات اچھی بات کہنے کے لیے بھی غلط اور نا مناسب پیرایۂ اظہار اختیار کر لیتے ہیں، زیر نظر شمارے پر تبصرے کے دیگر اسباب میں سے یہ بھی ایک اہم سبب ہے-
زیر نظر شمارہ ۱۱؍ مختلف عنوانات / مضامین پر مشتمل ہے، پہلا عنوان ہے ’’ مسیحی ماڈل کی آمد ثانی‘‘ مولانا نے اس میں بڑی اچھی بات کہی ہے ، اس میں عصر حاضر کے دعاۃ و مبلغین کے لیے بہت بڑا پیغام ہے- وہ جدید دورمیں عوامی حرکت و عمل کی آزادی کو دعوت کے لیے عظیم امکان تسلیم کرتے ہیں، ان کے مطابق دور جدید کے اسی نئے امکان کو استعمال کر کے یہودیوں نے امریکہ میں میڈیا ایمپائر بنا لیا، چینیوں نے ملیشیا میں کمرشیل ایمپائر بنا لیا، عیسائیوں نے ہندوستان میں ایجوکیشنل ایمپائر بنا لیا اور مغرب ہندوستان کو دو بارہ انڈسٹریل ایمپائر بنا رہا ہے-’’ اسی طرح اسلام کے پیرو خالص پر امن تدبیروں کے ذریعہ ایک دعوہ ایمپائر بنا سکتے ہیں-‘‘اس اچھی بات کو کہنے کے لیے مولانا نے جن تعبیروں اور دلیلوں کا سہارا لیا ہے ان کی تعبیر کے لیے عوامی زبان میں’’ بکواس ‘‘ اور ادبی زبان میں’’ دور کی کوڑی‘‘ سے زیادہ موزوں کوئی لفظ نہیں مل سکتا- مولانا اپنی بات کہنے کے لیے ۵؍ صفحات پر منطقی مغالطات کے ذریعہ اپنا پورا زور اس بات پر صرف کیا ہے کہ جدید دور میں دعوہ ایمپائر قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ’’محمدی ماڈل‘‘کی بجائے’’ مسیحی ماڈل‘‘ اختیار کریں- کیوںکہ ’’ مسیحی ماڈل میں آغاز میں بھی دعوت ہے اور انجام میں بھی دعوت- مسیح کے دعوتی ماڈل میںہجرت اور جہاد(بہ معنی قتال) کے واقعات موجود نہیں(جبکہ) محمدی ماڈل میں ہجرت اور جنگ اس کے واضح اجزاء کے طور پر شامل ہیں- لیکن اب حالات نے ہجرت اور جنگ کو ناقابل عمل بنا دیا ہے-‘‘ (ص:۵/۶)
ایک اچھی بات کہنے کے لیے جدت تعبیر کے جنون نے مولانا کو یہاں تک پہنچادیا:’’ آپ بلا شبہ آخری پیغمبر (Final Prophet)تھے -لیکن آپ ہر صورت حال کے لیے آخری نمونہ(Final Model)نہ تھے- چنانچہ قرآن میں آپ کے لیے ’’اسوۂ حسنہ‘‘ کا لفظ آیا ہے، نہ کہ اسوۂ کاملہ کا‘‘- مولانا کو کون بتائے کہ ’’لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ‘‘(الاحزاب:۲۱) کا کوئی لفظ گرچہ کمال کو نہیں بتا رہا لیکن اس کا اسلوب و آہنگ واضح طور پر اس کی نشاندہی کر رہا ہے ،اس آیت کی تفسیر میں خود مولانا کا قلم گوہر رقم لکھتا ہے:’’ رسول اور اصحاب رسول کی زندگیاں قیامت تک کے اہل ایمان کے لیے خدا پرستانہ زندگی کا نمونہ ہیں‘‘-’’ رسول اور اصحاب رسول نے ان چیزوں کا آخری نمونہ قائم کر دیا‘‘-’’انہوں نے ہر معاملہ میں اسلامی فکر اور اسلامی کردار کا کامل ثبوت دیا‘‘-(تذکیر القرآن ص: ۱۱۵۶، مکتبہ الرسالہ، نئی دہلی)
لفظ ’’اسوہ‘‘ کی شرح میں علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ’’ اسوہ کا ایک معنی رہنما اور ایک معنی غم خوار و غم گسار کے ہیں، جس کے تمام اعمال کی پیروی کی جاتی ہے اور تمام حالات میں جس سے غم کا مداوا کیا جاتا ہے‘‘(تفسیر القرطبی ۱۹/۲۰ ،دارالکتب العلمیہ بیروت ۲۰۰۴ء) اگر مولانا نے صرف’ ’اسوہ‘‘ کے لفظ پر ہی غور کر لیا ہوتا تو ان کی نگاہیں ’’ کاملہ‘‘ کی تلاش میں سرگرداں نہ ہوتیں اور نہ ہی انہیں بلا وجہ نکتہ آفرینی کی ضرورت پیش آتی-
اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا بھی ان کے اسوہ کے کامل ہونے کی دلیل ہے، بصورت دیگر لازمی طور پر سلسلہ نبوت کا انقطاع بے معنی ٹھہرے گا- مولانا کی یہ گل افشانی بھی پڑھیے:
’’قرآن کی اصطلاح کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم الدین کے اعتبار سے فائنل پیغمبر تھے ، لیکن منہاج کے اعتبار سے آپ فائنل ماڈل نہ تھے- غالباً یہی وجہ ہے کہ حدیث میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ آخری زمانے میں مسیح دوبارہ نازل ہو ں گے، جیسا کہ معلوم ہے ، پیغمبر آخر الزماں کا زمانہ ٔ نبوت قیامت تک ہے، اس لیے اب آپ کے بعد کسی اور پیغمبر کا شخصی طور پر آنا ناقابل فہم بات ہے- اس لیے ان روایات کو درست مانتے ہوئے ان کی صحیح تاویل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جو چیز واقع ہوگی وہ مسیح کی آمد ثانی نہیں ہے،بلکہ مسیح کے ماڈل کی آمد ثانی ہے یعنی بعد کے زمانے میں حالات کے اندر ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی کہ حالات کے اعتبار سے حضرت مسیح کا عملی ماڈل زیادہ قابل انطباق (Applicable)بن جائے گا ‘‘-(ص:۴/۵)
فکر جدید کو اسلوب جدید میں پیش کرنے کے شوق میں اس طرح کی اور بھی گل افشانیاں کی ہیں جن سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا پر تحقیق وتخمین اور تفکر و توہم کے مفاہیم واضح نہیں ہیں- مولانا کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ عصر جدید میں دعوت کے لیے محمدی ماڈل اپنانے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ پہلے ہم دعوت دیں، پھرہجرت کریں، پھر قتال کریں اور پھر فتح ملے- اور ان کے مطابق آج نہ تو ہجرت کی ضرورت ہے اور نہ قتال کی گنجائش، اس لیے ہماری مجبوری ہے کہ دعوت کے حوالے سے کوئی دوسرا ماڈل اپنائیں- مولانا نے مختلف تاویلات کے سہارے اس کا ڈانڈا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دعوتی ماڈل سے ملا دیا، جب کہ مولانا ماڈل کے اپنے ہی مفروضے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوتی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے دعوت دی، مخالفت کے بعد گریز اختیار کیا اور پھر انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا، کیا دعوت کا یہی ناکام ماڈل موجودہ دور میں ہمارے لیے زیادہ قابل انطباق ہے؟ افسوس!!
محمدی دعوت ماڈل کی توضیح قرآن میںاس طرح کی گئی ہے-’’ اپنے رب کی طرف بلائو، حکمت اور اچھی نصیحت سے، اور ان سے احسن طریقے سے جدال کرو‘‘ یہ آیت محمدی دعوتی ماڈ ل کی اصل روح’’ حکمت‘‘ کی وضاحت کر رہی ہے- اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنی دعوت کے لیے زمانی تقاضوں اور حکمتوں کا لازمی خیال رکھیں، دعوت محمدی کے جو مختلف طریقے اور رنگ ملتے ہیں سب میں قدر مشترک کی حیثیت اسی’’حکمت ‘‘ کی ہے- اس کو سمجھ لینے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاموش کردار میں بھی دعوت نظر آئے گی، گفتار میں بھی اور جنگ و فتح میں بھی- اسی سے دعوت کا کلی مفہوم سمجھ میں آئے گا- یہ سمجھ لینا بڑی غلطی ہوگی کہ حضور نے صرف طائف کی گلیوں میں اور ایام حج کے مواقع پر دعوت کا فریضہ انجام دیا اور فتح مکہ کے موقع پر ایک شہر فتح کیا اور اقتدار حاصل کیا، دعوت نہیں دی-
جیسا کہ مولانا نے لکھا ہے کہ ’’ دین ہدایت‘‘ کے اعتبار سے تمام انبیاء یکساں ہیں، البتہ منہاج(Method)کے اعتبار سے ان میں فرق ہے، یہ سچ ہے، اس کے ساتھ بعثت انبیاء کی سنت الٰہی اور ختم نبوت کی حکمت پر غور کریں تو صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مختلف ادوار میںMethodکو مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت رہی، اسی لیے الگ الگ شریعتیں آتی رہیں، لیکن جب تاریخ کا سورج چڑھ گیا اور ہر طرف اجالا پھیل گیا تو آخری نبی کی بعثت ہوئی اور انہیں شریعت بھی کامل دی گئی اور منہاج Methodبھی کامل دیاگیا- اب اس میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت نہیں ، ہاں وقتی اور ضروری تبدیلی یقینا ناگزیر ہے لیکن اس کے لیے خود منہاج محمدی میں ایسے اصول بتا دیے گئے ہیںجن کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی علاحدہ Methodکی ضرورت نہیں ہے-
 جہاں تک دعوت کے مسیحی ماڈل کے زیادہ قابل انطباق ہونے کی بات ہے تو یہ مکمل لغو ہے کیوںکہ حضرت مسیح نہ یہ کہ دعوہ ایمپائر قائم کرنے سے قاصر رہے بلکہ دعوت کو مکمل کیے بغیر ہی انہیں اعراض و گزیر کی راہ اختیار کرنی پڑی -آج دعوہ ایمپائر قائم کرنے کے لیے نہ گزیر کی ضرورت ہے اور نہ گزیر سے ایسا کوئی ایمپائر قائم ہو سکتا ہے-موجودہ دور میں دعوہ ایمپائر قائم کرنا واقعی داعیوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، لیکن اس کے لیے اصولی طور پر محمدی منہاج میں اس کی نشاندہی کردی گئی ہے اور وہ ہے ’’ طریق حکمت‘‘ جو واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ دعوت کے لیے کسی مخصوص طریقے کو اپنے اوپر لازم کرلینا محمدی طریق دعوت نہیں، بلکہ حکمت کے پیش نظر دعوت کے عمل کو تبدیلیوں سے گزارنا ہی اصل محمدی دعوت ماڈل ہے—علاوہ اس کے عہد عباسی اور اس کے بعد کے ادوار میں صوفیہ نے ایشیاء و یورپ میں عملی طور پر جو کچھ کیا یہ وہی چیز ہے جس کا حضرت خان صاحب خواب دیکھ رہے ہیں اور جس کے لیے ’’دعوہ ایمپائر‘‘ کا لفظ استعمال فرما رہے ہیں- کیا یہ تاریخی سچ نہیں ہے کہ مسلم حکومتیں بعد میں بنیں جبکہ اسلام کی تبلیغ و ترسیل صوفیہ اور مسلم تاجروں کے توسط سے ہر جگہ پہلے ہو چکی تھی؟
الرسالہ کے زیر نظر شمارے کا دوسرے مضمون کا عنوان ہے ’’ تاریخ دعوت:آدم سے دابہ تک‘‘ اس کا حاصل یہ ہی کہ نصوص میں آثار قیامت کے حوالے سے جو ’’ دابہ‘‘ کا ذکر آیا ہے، مولانا نے اس کی تاویل فرمائی ہے، بقول ان کے’’ دابہ کمیونیکیشن کے زمانے کا ایک مشینی ہتھیار ہے- یہی وہ چیز ہے جس کو آج کل ملٹی میڈیا کہا جاتا ہے‘‘ تاویل کی تان جہاں ٹوٹتی ہے وہ یہ ہے-’’ حدیث میں بعد کے زمانے کے ایک گروہ کا ذکر کیا گیا ہے، اس گروہ کو ’’اخوان رسول‘‘ کا نام دیا گیا- میری سمجھ کے مطابق جو لوگ دابہ کے اس جدید دعوتی امکان کو استعمال کر کے ساری دنیا میں دین حق کا پیغام پہنچائیں، وہی اخوان رسول کہے جائیں گے- ‘‘(ص:۱۱) چوں کہ اس تاویل کے پیچھے علمی دلائل کی بجائے خاں صاحب کی ’’سمجھ‘‘ کار فرما ہے، اس لیے یہ دیکھنا ہے کہ اہل علم خان صاحب کی اس سمجھ پر کتنا اعتماد کرتے ہیں؟
الرسالہ کی تیسری سرخی ہے’’آفاقی مشن‘‘ (ص: ۱۲) اس کی ذیل ڈیڑھ صفحات پر اسلام کی آفاقیت کو مولانا نے بالکل نئے انداز میں واضح کیا ہے - مولانا کے مطابق اسلام کے تمام احکام میں صرف ایک ’’دعوت‘‘ کا حکم ایسا ہے جس سے آفاقیت کا شعور ملتا ہے-’’ بقیہ احکام اگر مسلم رخی احکام ہیں تو دعوت کی حیثیت انسان رخی حکم کی ہے-‘‘(ص:۱۲)
عہد عباسی کو اسلام کا زریں دور کہا جاتا ہے، اس میں مختلف علوم و فنون کی تدوین و اشاعت ہوئی، اسلام کرۂ ارضی کے بڑے حصے پر پھیل گیا اور دنیا کی بڑی طاقت بن کر سامنے آیا- اسی دور میں فقہ کی مکمل تدوین ہوئی ، فقہ کا تعلق چوںکہ عمومی طور پر مسلمانوں کے نجی مسائل و معاملات سے ہے، اس لیے فطری طور پر اس میں’’دعوت‘‘ کا باب شامل نہیں ہوسکتا ، جس کا تعلق غیر مسلموں میں تبلیغ و ترسیل سے ہے- مولانا وحید الدین خان نے زیر نظر شمارہ کی چوتھی سرخی’’شاہ راہ دعوت سے انحراف‘‘ کے تحت اس چیز کو بطور فقہ کی بڑی خامی کے ذکر کیا ہے-اس ذیل میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ’’ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ مسلمانوں میں دعوتی ذہن ختم ہوا اور احکامی ذہن ہر طرف پھیل گیا‘‘-اس بات سے جزوی طور پر تو اتفاق کیا جا سکتا ہے کلی طور پر نہیں، کیوں کہ اسی زمانہ میں تبلیغ اسلام کا بھی بے پایاں کام ہوا ہے، آج جو پوری دنیا میں مسلمان ہر جگہ موجود ہیں، یہ اسی زمانہ میں صوفیہ کے انفس و آفاق میں پھیل کر ’’ دعوت دین‘‘ کا فریضہ انجام دینے کی برکت ہے- چار مشہور سلاسل صوفیہ میں تین سلاسل قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ کے بانیان اسی عہد میں پیدا ہوئے-اور ان کے مریدین و خلفاء نے غیر اعلانیہ طور پر پوری دنیا میں دعوہ ایمپائر قائم کر دیا ، فقہ اور فقہاء کا عمومی تعلق چوںکہ مسلمانوں کے شخصی مسائل سے ہے اس لیے کتب فقہ میں ’’باب دعوت‘‘ کی عدم شمولیت کی وجہ سے فقہا پر نزلہ اتارنا مثبت سوچ کا اشاریہ نہیں ہے- عہد عباسی کے مطالعہ میں’’ باب دعوت‘‘ کی بجائے’’ عمل دعوت‘‘ کی تلاش کی جائے تو اس طرح کے شکوے یقینی طور پر نہیں ہو سکتے-
صفحہ ۲۲؍۲۳؍ مولانا نے ’’ انسان کی منزل‘‘ کے زیر عنوان اسلام کے تصور حیات بعد الممات کو بڑے ہی خوب صورت، معقول اور فکر انگیز انداز میں پیش کیا ہے- مولانا کی بات بڑے سے بڑے منکر کو بھی سوچنے پر مجبور کرے گی- اس طرح کے اسلامی نظریات کی تفہیم و تبلیغ میں مولانا کے قلم کو انفرادیت سے متصف کریں تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا-
صفحہ ۲۴؍ پر ’’ پیغام ‘‘ کے زیر عنوان مولانا کی گفتگو کا یہ اقتباس بہت پیارا لگا ’’ موجودہ دنیا مقابلہ اور مسابقت کی دنیا ہے- اس لیے یہ بات بالکل فطری ہے کہ اس دنیا میں ایک کو دوسرے سے زک یا نقصان پہنچے ، آدمی کو چاہیے کہ وہ اس نقصان کو چیلنج کے طور پر لے، وہ سمجھے کہ جو کچھ پیش آیا ہے وہ دوسرے کی تیاری اور میری بے تیاری کا نتیجہ ہے اور پھر اپنی اس کمی کو دور کر کے اس کا حل نکالے، نہ کہ دوسرے کے خلاف شکایت اور احتجاج کا ہنگامہ کھڑا کرے-‘‘
زیر نظر شمارے میں جناب عبد السلام اکبانی صاحب کے نام ایک خط بھی شامل ہے- خط کیا ہے ایک دعوتی میسیج ہے، صلح حدیبیہ اور آیت فتح کاذکر کرتے ہوئے یہ بڑی اچھی بات کہی ہے-’’ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ فتح سیاسی کو جانتے ہیں، لیکن وہ فتح مواقع کو نہیں جانتے-حالاںکہ فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں کام کے مواقع کا کھلنا سب سے بڑی فتح ہے، بلکہ یہی اصل فتح ہے-‘‘(ص:۲۷)
صفحہ ۲۸؍ سے آخر یعنی صفحہ ۴۵؍ تک مولانا نے مختلف سوالات کے جواب دیے ہیں- اس میں مختلف مسائل پر ۱۴؍ سوالاتی خطوط شامل ہیں، کچھ علمی نوعیت کے ہیں، کچھ فکری و نفسیاتی اور کچھ فقہی، مولانا نے سب کا جواب دیا ہے اور یکساں انداز میں جواب دیا ہے، یہی انسان کی بنیادی غلطی ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب لکھنے بیٹھ جائے خواہ وہ سوال اس سے متعلق ہو یا نہ ہو- ایک سوال کے جواب میں’’ القرآن والسلطان تو أمان ‘‘(قرآن اور اقتدار جڑواں بھائی ہیں )نقل کیا ہے اور یہ اجتہاد فرمایا ہے کہ قرآن کی حفاظت کے لیے اقتدار لازمی ہے، اب جبکہ قرآن کی حفاظت ہو چکی اقتدار کی ضرور ت نہیں-سبحان اللہ!جو حدیث مولانا کے خلاف پیش کی جاتی اپنی حسن بیانی سے اسے اپنے موقف کی تائید میں پیش کر دیا- ایک سائل نے داعی بننے کی خواہش ظاہر کی تو جواب مرحمت فرمایا:’’ دعوت کا کام صرف الرسالہ مشن کے تحت ہو رہا ہے اگر آپ واقعی دعوت کا کام کر نا چاہتے ہیں تو اپنے مقام پر تعمیری ذہن کے تحت رہیے اور ماہنامہ ’’ الرسالہ‘‘ کی ایجنسی لے لیجیے-‘‘ چوں کہ پوری دنیامیں غالباً مولانا واحد شخص ہیں جنہوں نے لفظ’’ دعوت‘‘ اور ’’ مثبت سوچ‘‘ کا سب سے زیادہ استعمال کیا ہے،اس لیے ہم یہ کہنے کی جسارت کیسے کر سکتے کہ اس جواب میں منفی ذہنیت کار فرماہے!!
مولانا کے معتقد خاص جناب غلام نبی کشافی نے وراثت کا یہ سوال کر ڈالا ہے کہ ’’ کیا مرحوم کے بچے یعنی پوتے اپنے دادا کے اسی طرح وارث قرار پائیں گے ، جس طرح ان کا مرحوم با پ وارث تھا یا وہ اپنے باپ کے فوت ہو جانے کی صورت میں اپنے دادا کی میراث سے محروم رہیں گے؟ ‘‘ امن و صلح کے سب سے بڑے داعی حضرت مولانا ایک خالص فقہی سوال کا واضح شرعی جواب دینے کی بجائے کس جنون میں عدالت اور مقدمے بازی کی راہ دکھا رہے ہیں، پڑھیے اور اور ان کی ’’دعوتی‘‘اور ’’ پر امن ‘‘ تعمیری سوچ کی داد دیجیے-’’میری رائے ہے کہ یا تو دادا وراثت کی تقسیم کر کے پوتے کو اس کا پورا حق دے دے، بصورت دیگر، پوتے کو یہ حق ہے کہ وہ عدالت سے رجوع کر کے اپنا قانونی حق وصول کرے ‘‘ (ص: ۴۵)
سوال ہے کہ کیا وراثت مورث کی زندگی میں بھی تقسیم ہوتی ہے، پوتے کا پورا حق کیا ہے؟ جس کو دینے کی بات مولانا کر رہے ہیں اور وہ کس نص سے ثابت ہے؟ اس باب میں عدالت سے رجوع کرنے کا حق پوتے کو کس نے دیا ،شریعت نے یایہ صرف مولانا کی رائے ہے؟  اگر سوال شریعت کے حکم سے متعلق ہو تو مولانا کی رائے میں حکم شریعت کی بجائے اپنی رائے پیش کرنا کیسا ہے؟
صحیح کہا مولانا ابو الحسن علی ندوی نے کہ مولانا کے نظریات میں سخت نا ہمواری ہے اور ان کی تحریروں سے اسلاف سے بیزاری پیدا ہوتی ہے- مولانا کی بعض فکری، سماجی اور نفسیاتی باتیں پڑھ کر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے، لیکن باب شریعت میں خیالی لن ترانیوں سے سخت تکلیف ہوتی ہے- ماہنامہ الرسالہ کے قارئین اس بات کا خیال رکھیں تو وہ بہت سی علمی و نظریاتی گمراہیوں سے بچ سکتے ہیں-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔