Thursday 31 August 2017

موجودہ صورت حال ---- ذیشان احمد مصباحی

0 comments

قلبی واردات ------------------ ذیشان احمد مصباحی
 آج ۲۷؍ دسمبر ہے، شام کے ۷؍ بج رہے ہیں، میں مدیر اعلیٰ جام نور کے ساتھ اپنے آفس میں بیٹھا کسی ضروری مسئلہ پر تبادلۂ خیال کر رہا ہوں، موصوف کے موبائل پر گھنٹی ہوتی ہے، وہ فون اٹھاتے ہیں، علیک سلیک کے بعد اچانک ان کے چہرے پر حیرت و افسوس کی لکیریں نمودار ہوتی ہیں ،’’ کیا سچ مچ ایسا ہو گیا؟‘‘ وہ فون بند کر دیتے ہیں اور معاً بعد ہی وہ اپنی سابقہ حالت میں آکر گفتگو جاری کر دیتے ہیں، گویا کوئی حادثہ تھا، ہوا، لیکن ایسے حادثات توہوتے ہی رہتے ہیں، ان پر بہت دیر تک پریشان رہنے کی ضرورت نہیں-میرے پوچھنے پر بتایا کہ’’ بے نظیر ایک حادثے میں موت کی آغوش میں چلی گئی‘‘-آخر کیوں ایسا ہوتا ہے پاکستان میں، کیا ہو گیا ہے مسلمانوں کویا کیا ہو رہا ہے ان کے ساتھ؟ یہ سوالات میرے ذہن میں اٹھے اور غالباً آپ بھی اس وقت کچھ اسی قسم کے سوالوں میں الجھے ہوں گے-
lبے نظیر بھٹو ۲۱؍ جون ۱۹۵۳ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم لیڈی جینگلس نرسری اسکول کراچی میں حاصل کی، ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے گریجویشن کیا، پھر آکسفورڈ یونیورسٹی انگلینڈ سے قانون کی تعلیم حاصل کی، آکسفورڈ میں وہ اسٹوڈینٹ یونین کی نائب صدر بھی رہیں، یہ سیاست میں پہلا قدم تھا- بے نظیر کے والد ذو الفقار علی بھٹو کو ۱۹۷۷ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے تختہ دار پر چڑھا دیا اس وقت ۲۴؍ سال کی عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کمان بے نظیر نے سنبھال لی، ۳۵؍ سال کی عمر میں ۱۹۸۸ء کو وہ مملکت خدا داد پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں، ۶؍ اگست ۱۹۹۰ء کو اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے بد عنوانی کے الزام میں وزارت عظمی کے منصب سے بے نظیر کو برطرف کر دیا، ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو بے نظیرنے دوبارہ اس منصب کو سنبھالا لیکن ۳؍ سال ۱۶؍ دن کے بعد صدر پاکستان فاروق لغاری نے پھر ۵؍ نومبر ۱۹۹۶ء کو برطرف کر دیا- الزامات وہی تھے کرپشن اور اقرباء پروری-
جمہوریت کے سب سے بڑے داعی انکل سام کے پٹھو مسٹر مشرف ۱۹۹۹ء سے پاکستان کے ڈکٹیٹر بنے ہوئے ہیں، سیکڑوں احتجاج اور ہزاروں تحریکوں اور نعروں کے باوجودتقریباً ۹؍ سال بعد ۸؍ جنوری ۲۰۰۸ء کو قومی اسمبلی انتخاب ہونے جا رہا تھا، اسی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ۸؍ سال کی طویل جلا وطنی کے بعد ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۰۷ء کو بے نظیر اپنے وطن واپس ہوئیں- عوام کا ٹھاٹھیںمارتا سمندر نے بے نظیر کا پر جوش استقبال کیا ، استقبا ل کا جشن جاری ہی تھا کہ بے نظیر پر کراچی میں خود کش حملہ ہوا، وہ تو بچ گئیں لیکن ۱۳۹؍ بے گناہوں کو موت کی ہم آغوش ہونا پڑا-بے نظیر مسلسل انتخابی مہم میں مصروف رہیں اور ریلیوں کی قیادت کرتی رہیں،۲۷؍ دسمبر کو وہ راولپنڈی کے لیاقت علی باغ (جہاں ۱۶؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا) میں ایک ریلی کو خطاب کرنے کے بعد واپس لوٹ رہی تھیں، ان کی کار بلیٹ پروف تھی اور وہ ہر خطرے سے مامون تھیں، لیکن نوشتے کو کون مٹاتا، بے نظیر کے سپورٹروں کا ہجوم نعرے لگارہا تھا، وہ ان کا جواب دینے کے لیے اپنا سر کار سے باہر نکال کر ان کے نعروں کا جواب دینے لگیں، اتنے میں نا معلوم افراد نے ان پر گولیاں چلائیں، اس کے ساتھ ہی ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو اڑالیا، جس سے درجنوں افراد کے چیتھڑے بکھر گئے، جسم کے اعضاء الگ الگ تڑپنے لگے، ایک قیامت ٹوٹ پڑی، اس خونی منظر کو جس نے بھی ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا، تڑپ اٹھا- بے نظیر کو جائے واردات سے ہسپتال لے جایا گیا جہاں شام ۲۵:۵ بجے ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا -

آج ۲۹؍ دسمبر ہے، میں صبح سے اخبارات دیکھتا رہا، مختلف طرح کے تبصرے ہوتے رہے ، بے نظیر کے چاہنے والے پاگل ہو چکے ہیں، پاکستان مکمل انار کی کی گرفت میں ہے، بس، ریلوے ،اسٹیشن، بینک ،ہسپتال سب نذر آتش ہو رہے ہیں- میں اس سانحہ سے متعلق اب کیا اور کیوں لکھوں؟ سوچتا ہوں تو اندر سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں ملتا-سوال ہے کہ بے نظیر کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا؟ اور اس قتل کا فائدہ کس کو مل رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ مشرف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی تھی ،اس لیے اس کی موت کا فائدہ اسے ہی مل رہا ہے اور بہت ممکن ہے کہ اسی فائدہ کے حصول کے لیے مشرف نے ایسا کیا بھی ہو- سانحہ کے بعد بے نظیر کے سپورٹروں نے بھی مشرف کو ہی ذمہ دار قرار دیا ہے— بے نظیر کے قتل کے پیچھے القاعدہ کا ہاتھ بھی ہو سکتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ القاعدہ والے، جیسا کے میڈیا بتا رہا ہے، امن کے دشمن ہیں، پاکستان میں بد امنی پھیلانے کے لیے انہیں اس سے بہتر ترکیب نہیں سوجھ سکتی تھی- اس کی تائید القاعدہ لیڈر بیت اللہ محسود کے اس ٹیپ سے بھی ہوتی ہے جس میں وہ کسی مولوی کو بے نظیر کی موت پر مبارک باد دے رہا ہے،یہ ٹیپ پاکستان کی وزارت خارجہ نے جاری کیا ہے - یہ بات اس لیے بھی قرین قیاس ہے کہ بے نظیر امریکہ مخالف نہ تھیں بلکہ و ہ دہشت گردی مخالف تھیں، نیز اس سے پہلے بھی القاعدہ کے سرکردہ لیڈر جیسے ایمن الظواہری وغیرہ کے بیانات بے نظیر کے قتل کے سلسلے میں آ چکے ہیں——لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بے نظیر کے سپورٹر جنہیں اس کی موت کا سب سے زیادہ دکھ ہے، اس طرح کے تمام بیانات کو یکسر مسترد کر رہے ہیں، خود بے نظیر نے امیر علی کو لاہور میں ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۷ء کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر میرا قتل ہوتا ہے تو آپ قاتل کے طور پر مشرف کو نامزد کر سکتے ہیں- ( ہفت روزہ آئو ٹ لک ۱۴؍ جنوری ۲۰۰۸ء)
lبے نظیر کا سانحہ پاکستان میں پیش ضرور آیا ہے لیکن یہ المیہ پاکستان کا نہیں عالم اسلام کا ہے، اس کے بطن سے جو سوالات پیدا ہوئے ہیں، ان کا رخ صرف پاکستانیوں کی طرف نہیں ہرفرد مسلم کی طرف ہے- مسلمان اپنے ہی ملک کو کیوں برباد کر رہے ہیں؟ مسلمان مسلمان ہی کا خون کیوں بہا رہے ہیں ؟ آخر یہ کون سا جہاد ہے؟ دنیا ہر مسلمان سے سوال کر رہی ہے اور مسلمان خاموش ہیں یا یہ کہیے کہ ان کے پاس معقول جواب نہیں- اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے- اب تو انہیں بھی ہوش آ جانا چاہیے جنہوں نے بنام جہاد یہ خونی کاروبار شروع کر رکھا ہے اور انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کاروبار مسلما نوں کے حق میں سرا سر گھاٹے کا سودا ہے- اب انہیں اپنے بے سود متشد دانہ نظریات پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور جو لوگ ان نظریات کی حمایت نہیں کرتے انہیں کھل کر ان کی مذمت کرنے کے ساتھ امت کی صحیح رہنمائی کرنی چاہیے- ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں کے پیچھے ممکن ہے انہی قوتوں کا ہاتھ ہو جو دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہیں-لیکن اس شبہ کو بنیاد تو اسی وقت ملتی جب دہشت گردی کے لیے نامزد تمام تنظیمیں دہشت گردانہ کارروائیوں سے اپنی بر اء ت کا اعلان کر دیتیں،جیسے القاعدہ نے ابھی بے نظیر معاملے میں اپنی براء ت کا اعلان کر دیا-
آج دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ اور کیا ہونا چاہیے؟ اس امریکی مسلط دنیا میں ذرائع ابلاغ نے ہمیں جو کچھ بتایا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آج تہذیبوں کا تصادم ہے، ایک طرف ایک ترقی یافتہ تہذیب ہے جب کہ دوسری طرف تاریخی اور روایتی تہذیبیں، ساری جنگ اسی لیے ہے- روایت شکست کھا رہی ہے، اس لیے وہ اپنی شکست کو چھپانے کے لیے خون ریزی اور تشدد پر آمادہ ہے- روایت کے سب سے بڑے حامل اسلام پسند ہیں، اس لیے تشدد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معنی اسلام پسندوں کے خلاف جنگ ہے- اس جنگ میں امریکہ اپنے اعوان وانصار کے ساتھ مصروف ہے، یہ جنگ اپنے آپ میں درست ہے یا غلط، یہ Justifyکرنا آج کی دنیا اورآج کی صحافت میں ایک ٹیڑھی کھیر ہے- البتہ اس جنگ کے نتیجے اور حاصل کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو بہت کچھ صاف ہو جاتا ہے—امن بنام دہشت گردی کا نعرہ اگر درست ہے تو پھر دنیا کو باور کر لینا چاہیے کہ امن کے لیے امریکہ کی دہشت گردی مخالف مہم نہ صرف ناکام ہے بلکہ اس سے دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے- اس لیے امن پسند دنیاکو بہر کیف امریکی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا- نیز اس کا متبادل تلاش کرنا ہوگا-
lمریکہ کی دہشت گردی مخالف مہم کا رخ واضح طور پر اسلام پسندوں کی طرف ہے-ایسے میں اسلام پسندوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اس مہم کو غلط سمجھتے ہیں تو خود وہ آگے بڑھیں اور دنیا کو پر امن بنانے کا کوئی فارمولہ پیش کریں- اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اسلام امن پسند ہے یا تشدد پسند؟ حالانکہ اسلام کے مفہوم میں امن و سلامتی کا معنی شامل ہے، مگر اس کے باوجود ایک زمانے سے غیروں کی مہربانی اور اپنوں کی نادانی کے سبب مسلسل یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے- مگر افسوس کہ نہ وہ صرف اب تک غیروں کو اس حوالے سے مطمئن کر سکے بلکہ خود وہ اپنا موقف بھی متعین نہ کر سکے-مسلمانوں کا بڑا طبقہ اس سوال پر اب تک سنجیدہ نہیں ہوا ہے، معدودے چند زعم دانشوری میں معذرت پر اتر آئے ہیں، وہ نظریۂ جہاد کو ہی مسخ کر رہے ہیں-ایک طبقہ اس مسئلہ پر سنجیدہ ہے، حساس ہے، مگر اس کا احساس منفی شکل اختیار کر گیا ہے- اس کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ مسلمان جلد سے جلد جمہوریت سے نکل کر خلافت کے دور میں پلٹ آئیں لیکن اسے اس کی فکر نہیں کہ عہد خلافت عود کر آنے سے قبل جمہوریت میں وہ با عزت کیسے زندہ رہیں؟ یہی بے بصیرت احساس آج مسلمانوں کو در پیش تمام مسائل کی جڑ ہے- وقت کی پکار ہے کہ مسلمانوں کا بڑا طبقہ جو اب تک بے حس ہے، بیدار ہو اور مسائل پر احتجاج کی بجائے اقدام کی سوچے-
آج یکم جنوری ہے، آج کے اخبارات نے بھی بے نظیر سانحہ سے متعلق خبریں صفحہ اول پر شائع کی ہیں، لیکن ایک دوسری خبر نے خاص طور سے مجھے متوجہ کیا ، جسے اخبارات نے اندرونی صفحات پر شائع کیا ہے-خبر کا حاصل یہ ہے کہ کینیا میں گذشتہ دنوں ہوئے صدارتی انتخابات کے نتائج کل( ۳۱؍دسمبر) سامنے آئے ، جن کی روشنی میں موائی کباکی(Mwai Kibaki)کو صدر نامزد کر دیا گیا لیکن شکست خوردہ امید وار رائیلا اوڈنگا(Raila Odinga)نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے اس کے سپورٹروں نے توڑ پھوڑ ، آتش زنی اورقتل و غارت کا بازار گرم کر دیا،ایک رپورٹ کے مطابق اس میں اب تک ۱۲۴؍ افراد جاں بحق اور تقریباً ۱۰۰۰ زخمی ہو چکے ہیں، حالات ابھی بھی قابومیں نہیں آ سکے ہیں-
اس خبر کو پڑھ کر دل میں یہ احساس ہوا کہ تشدد کے واقعات مسلمانوں یا مسلم ملکوں کے ساتھ خاص نہیں ہیں، ہاں! یہ ضرور ہے کہ ان کے حوالے سے جو تشدد کے واقعات رو نما ہوتے ہیں، میڈیا انہیں پیش کرنے میں خاص دلچسپی لیتا ہے، غلطی اپنی ہے، اگر میڈیا پر اپنا تسلط ہوتا تو بہت ممکن ہے کہ صورت حال اس کے بر عکس ہو تی یا کم از کم برابری کا معاملہ ہوتا—واضح رہے کہ اب تک دہشت گردی کی عالمی بدنام تنظیم القاعدہ کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں صرف ۵؍ ہزار کے قریب لوگ مارے گئے ہیں، جبکہ اس دہشت گردی کو ختم کرنے کی امن مطلوب امریکی مہم کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد جانیں تلف ہو چکی ہیں — سوال ہے کہ قیام امن کے لیے آواز کس کے خلاف اٹھائی جائے؟

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔