Thursday 31 August 2017

محاضرات فقہ ------ مصنف: ڈاکٹر محمود احمد غازی

0 comments
محاضرات فقہ
                   مصنف: ڈاکٹر محمود احمد غازی 
                   صفحات:۵۵۶
                   سال اشاعت:۲۰۱۰ء 
                   ناشر:اریب پبلی کیشنز،۱۵۴۲؍پٹودی ہاؤس،دریا گنج،نئی دہلی-۲
                   تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی
فقہ کے لفظی معنی گہری فہم و فراست کے ہیں- قرآن پاک میں ہے: قالوا یا شعیب لانفقہ کثیراً مماتقول(ھود: ۹۱) ’’قوم شعیب نے کہا اے شعیب! آپ کی بیشتر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں-‘‘ تفقہ، فقہ کی تحصیل کو کہتے ہیں اور اصطلاح اسلام میں تفقہ سے مراد دین کی ایسی گہری بصیرت کا حصول ہے جس کے بعد انسانیت کو اللہ کے دین کی دعوت اور عذاب الٰہی سے باخبر کرنے کا فریضہ ممکن ہوسکے اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں خوف الٰہی کا جوہر پیدا ہو- ارشاد خداوندی ہے: و ماکان المومنون لینفروا کافۃ- فلو لانفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین و لینذر وا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون-(التوبۃ: ۱۲۲) ’’اور یہ تو نہیں ہوسکتا کہ (اللہ تعالیٰ کی راہ میں) تمام مسلمان روانہ ہوجائیں، تو ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت روانہ ہوتی تاکہ وہ لوگ دین کی سمجھ حاصل کرتے اور جب وہ اپنی قوم کی طرف لوٹتے تو ان کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراتے تاکہ وہ گناہوں سے بچتے-‘‘
ابتدائی مسلم معاشرے میں فقہ و تفقہ کے یہی معنی تھے- اس معنی کے مطابق اہل اسلام کے عرف میں کتاب و سنت کے منشا اور اللہ و رسول کی مرضی کو پورے طور پر سمجھنا سب اس کے اندر شامل تھا- امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب الفقہ الکبیر میں لفظ الفقہ کا استعمال اسی معنی میںہوا ہے- یہی وجہ ہے کہ اس میں عقائد و مسائل ہر طرح کے احکام بیان ہوئے ہیں اور اسی معنی کے پیش نظر بعض علماے اسلام نے فقہ کی تعریف ’’معرفۃ النفس مالھا و ماعلیھا‘‘ (نفس انسانی کا ان تمام حقوق سے واقف ہونا جو اس کے لیے ہیں یا جو اس کے اوپر ہیں) سے کی ہے-
پہلی اور دوسری صدی میں جب علوم اسلامیہ کی تدوین ہوئی تو پھر فقہ کا لفظ اس مخصوص علم کے ساتھ خاص کر لیاگیا جس میں دلائل تفصیلی سے عملی یا فروعی مسائل کے احکام معلوم ہوتے ہیں- یہ علم ایک خاص فن کی شکل میں پروان چڑھا اور امت مسلمہ کے دائرۂ اثر کی بتدریج وسعت، مرور ایام اور تبدیلی حالات سے پیدا شدہ نت نئے مسائل کا حل قرآن و سنت کے منبع سے اس فن کے ذریعے حاصل کیا جانے لگا- اس ضمن میں ایک بڑا کام یہ بھی ہوا کہ کتاب و سنت کے نصوص کو گہرائی کے ساتھ سمجھ کر، ان کو سامنے رکھ کر، مزاج شریعت اسلامی کے مطابق ،اصول و ضوابط وضع کیے گئے- اس عظیم علمی کام کو علم اصول فقہ کہا گیا- اس فن کی روشنی میں علماے اسلام نے کتاب و سنت کو اپنا سرمایۂ حیات بنالیا اور ان دونوں مقدس سرچشموں سے مستفاد اصول کے ذریعے انہوں نے لاکھوں پیش آمدہ یا متوقع مسائل کا حل فراہم کردیا-
یہ فن ہر زمانے میں ترقی کرتا رہا، اصول فقہ کے حوالے سے  مسلم علما میں جو اختلاف ہوا، اس کے پیش نظرچار بڑے مکاتب، حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی پیدا ہوگئے اور ان چاروں کے متعینہ اصولوں پر ہر آنے والے زمانے میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کیا جاتا رہا- گزشتہ۴ ۱؍ سو سالوں میں علما مسلسل اجتہاد کرتے رہے ہیں اور نئے مسائل حل ہوتے رہے ہیں-ا جتہاد کا عمل اصول سازی کے معنی میں بعد کے ادوار میں رک گیا- اسے بعض حضرات فقہی جمود کہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ فقہاے متقدمین نے جو اصول وضع کیے تھے، وہ اتنے جامع تھے کہ بعد میں مزید وضع اصول کی ضرورت نہیں پڑی، ہاں ان اصولوں کی روشنی میں نئے مسائل کا حل مسلسل ہوتا رہا-
پچھلی دو صدیوں میں امت مسلمہ میں بعض ایسے کج دماغ پیدا ہوئے جو اس مقدس علم کے حوالے سے طرح طرح کے اعتراضات کرنے لگے- ان اعتراضات کا محرک ان کی بدنیتی تھی یا سادگی، یہ تو قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا، لیکن یہ یقینی ہے کہ یہ حضرات فقہ و فراست کی ربانی دولت سے محروم تھے-ورنہ کتاب و سنت پر ایمان کے ساتھ ان سے فقہ الکتاب والسنہ کے مقدس علم پر انگشت نمائی کی جرأت کاتصور کیسے کیا جاسکتا تھا- فقہ کے حوالے سے ایک دوسرا بڑا اہم پہلو معاصر گلوبل ورلڈ میں نئے مسائل کا انفجار اور ان سے روایتی علما کی ناواقفیت یا عدم مانوسیت سے پیدا شدہ بحران ہے جس کے سبب’’ گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل‘‘ کی فضا بنی ہوئی ہے-
ڈاکٹر محمود احمد غازی(۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۰ء - ۲۶؍ستمبر ۲۰۱۰ء) کی کتاب ’’محاضرات فقہ‘‘ فقہ سے متعلق ایسے ہی قدیم و جدید مسائل و مباحث سے متعلق ہے- یہ عجیب اتفاق ہے کہ راقم اسی کتاب کے ذریعے موصوف سے واقف ہوا اور یہ بھی عجیب ہے کہ جس دن میں نے یہ کتاب خریدی اسی دن اخبارات میں موصوف کی رحلت کی افسوس ناک خبر بھی پڑھی، جس کو Q.Tvنے بھی کافی کوریج دیا- موصوف انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر، وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حکومت پاکستان اور جج وفاقی شرعی عدالت تھے- موصوف نے قرآن، حدیث، فقہ اور سیرت پر سلسلہ وار لیکچرز دیے- یہ چاروں سلسلے محاضرات قرآن، محاضرات حدیث، محاضرات فقہ اور محاضرات سیرت کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں- اس سیریز کی تیسری کڑی ’’محاضرات فقہ‘‘ ہے جو اس وقت میرے پیش نظر ہے- یہ فقہ سے متعلق ۱۲؍ مختلف عنوانات کے تحت دیے گئے لیکچرز کا مجموعہ ہے- یہ بارہ عنوانات اس طرح ہیں:
۱- فقہ اسلامی: علوم اسلامیہ کا گل سرسبد
۲- علم اصول فقہ: عقل و نقل کے امتزاج کا ایک منفرد نمونہ
۳- فقہ اسلامی کے امتیازی خصائص
۴- اہم فقہی علوم اور مضامین: ایک تعارف
۵- تدوین فقہ اور مناہج فقہا
۶- اسلامی قانون کے بنیادی تصورات
۷- مقاصد شریعت اور اجتہاد
۸- اسلام کا دستوری اور انتظامی قانون: بنیادی تصورات، حکمت، مقاصد
۹- اسلام کا قانون جرم و سزا: حکمت، مقاصد، طریقۂ کار، بنیادی تصورات
۱۰- اسلام کا قانون تجارت:حکمت، مقاصد، طریقۂ کار، بنیادی تصورات
۱۱- مسلمانوں کا بے مثال فقہی ذخیرہ: ایک جائزہ
۱۲- فقہ اسلامی دور جدید میں
کتاب کے مطالعے سے جو چیز سب سے پہلے سامنے آتی ہے، وہ ہے صاحب کتاب کی وسعت مطالعہ، گہری بصیرت اور فکری استحکام- یہ خوش آئند بات ہے کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی ان جدیدیوں سے قطعاً مختلف ہیں جو چند کتابیں پڑھتے ہی امام ابو حنفیہ اور امام ابویوسف کی تلقین اور امام غزالی اور امام طحاوی کی اصلاح شروع کردیتے ہیں- وسعت مطالعہ کے ساتھ طالب علمانہ ذوق اور فقہاے متقدمین کی عظمتوں کا اعتراف ڈاکٹر محمود غازی کو جدید محققین میں ممتاز کرتا ہے- ’’یہ خطبات مختصر نوٹس اور اشاروں کو سامنے رکھ کر زبانی ہی دیے گئے تھے-‘‘ (پیش لفظ) لیکن مضامین اتنے مربوط ہیں کہ دور دور تک ان پر خطابت کا گمان نہیں گزرتا، اس میں نہ تقریر کا پھکڑ پن ہے اور نہ ہی تحریر کا سکوت یا علمی خشکی- مضامین مربوط اور رواں ہیں، نہ بے جا طوالت ہے اور نہ ہی اختصار کے سبب کہیں پیچیدگی ہے- ہر خطبہ معلومات و حقائق کا سمندر ہے، جن کے مطالعے سے ایک ساتھ علم کو وسعت اور فکر کو استحکام ملتا ہے-
پہلے خطبہ ’’فقہ اسلامی: علوم اسلامی کا گل سرسبد‘‘ کے شروع میں ان خطبات کی مقصدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر غازی کہتے ہیں:
’’ان خطبات کا مقصد فقہ اسلامی کے موضوعات و مندرجات کا احاطہ کرنا نہیںہے، اس لیے کہ بارہ خطبات تو کیا بارہ سال میں بھی کوئی شخص فقہ اسلامی کی وسعتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا… ان خطبات کا مقصد صرف یہ ہے کہ ان خواتین و حضرات کو، جنہوں نے مطالعہ قرآن مجید کو اپنی زندگی کا بنیادی مشن اور تدریس قرآن کو اپنی سرگرمیوں کا نقطۂ ارتکاز قرار دیا ہے اور جو قرآن مجید کے درس و تدریس میں بالفعل مصروف ہیں، فقہ اسلامی سے اس طرح متعارف کرادیا جائے کہ وہ فقہ اسلامی کی ہمہ گیریت، گہرائی، گیرائی اور بنیادی خصوصیات سے واقف ہوجائیں-‘‘
یہ بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر موصوف اپنے مقصد میں سو فیصد کامیاب ہیں- ان خطبات کا ایک جائز مصرف یہ بھی ہے کہ فقہ و فتاویٰ کے طلبہ کے لیے ان کا مطالعہ لازمی کردیا جائے- فقیہ کو جن متنوع علمی و فکری صلاحیتوں سے آراستہ ہونا ضروری ہے، ان خطبات کے مطالعے سے طلبہ بخوبی ان سے واقف ہوجائیںگے اور مفتی جس کے معنی عصر حاضر میں ناقل فتاویٰ بتائے جاتے ہیں، اس کے عاقل اور صاحب بصیرت ہونے کے جو پہلو ہیں وہ بھی سامنے آجائیںگے-
آخری خطبہ ’’فقہ اسلامی دور جدید میں‘‘ بہت ہی فکر انگیز ہے- اس کا پہلا ذیلی عنوان ہے ’’فقہ اسلامی کے نئے فہم کی ضرورت‘‘ نئے فہم کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’’یہ فہم ماضی کے فہم ہی کا تسلسل ہوگا‘‘ اس ضمن میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’گزشتہ تین چار سو سال کے دور زوال میں جہاں مسلمانوں میں اور بہت سی کمزوریاں پیدا ئیں، وہاں فقہ کے بارے میں ان کے رویہ میں ایک جمود اور ایک ٹھہراؤ کی سی کیفیت سامنے آئی… بیسویں صدی کا وسط بالخصوص اور بیسویں صدی کا آغاز بالعموم فقہ اسلامی میں ایک نئی زندگی اور نئے دور کا آغاز ہے-‘‘
’’فقہ اسلامی بیسویں صدی کے آغاز میں‘‘ دوسری ذیلی سرخی قائم کی گئی ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ انیسویں صدی کا پورا عہد مشرق و مغرب کے براہ راست ٹکراؤ کا عہد تھا، عثمانی سلطنت کے زوال اور مغربی طاقتوں کے عروج اور ان حالات میں مشرق و مغرب کے درمیان آمد و رفت کی بڑھتی رفتار نے بہت سے نئے مسائل پیدا کیے- اس وقت تک فقہ اسلامی ایک غیرمدون قانون تھی، ان حالات کے بعد علامہ ابن عابدین شامی اور دوسرے فقہا نے مل کر سلطنت عثمانیہ کے زیر سرپرستی مجلۃ الاحکام العدلیہ کی تدوین کی ، جس میں اسلامی قوانین کو بیس سال کی طویل مدت میں دفعہ وار مرتب کیا گیا- انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں ایک دوسرا بڑا واقعہ یہ ہوا کہ مشرقی علما نے مغربی قوانین کا گہرا مطالعہ کیا، ان میں ایک بڑا نام سید امیر علی کا ہے، جنہوں نے غالباً پہلی بار اسلام کے نقطۂ نظر کو انگریزی زبان میں انگریزوں کے سامنے پیش کیا- ان کے علاوہ سرعبدالرحیم اور دوسرے اسکالرز بھی ہیں- اس پورے عہد میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مشرقی دنیا سے اسلامی قوانین کا انخلا اور مغربی قوانین کی بالادستی عملاً تسلیم کرلی گئی- پھر مسلمانوں کے روشن دماغوں نے اس پہلو پر سوچنا شروع کیا کہ کس طرح سے قوانین اسلامی کے احیا اور نفاذ کی کوششیں کی جائیں اور بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی: ’’دنیا ے اسلام کی جس عظیم شخصیت نے بہت زیادہ شدت کے ساتھ اس ضرورت کو محسوس کیا، وہ حکیم الامت علامہ اقبال تھے-انہوں نے ۱۹۲۵ء میں یہ لکھا کہ میرے نزدیک مذہب اسلام اس وقت زمانے کی کسوٹی پر کسا جارہا ہے- آج اس بات کی ضرورت ہے کہ احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کیا جائے اور جو شخص زمانۂ حال کے جو ریس پروڈینس(فقہ) پر تنقیدی نگاہ ڈال کر یہ ثابت کرے گا کہ قرآنی احکام ابدی شان رکھتے ہیں، وہ بنی نوع انسان کا سب سے بڑا محسن اور دور جدید کا سب سے بڑا مجدد ہوگا-‘‘
’’فقہ اسلامی کا نیا دور‘‘ کے زیر عنوان کہا گیا ہے کہ ’’بیسویں صدی کی آخری تین چوتھائیاں اور بالخصوص اس کا نصف ثانی فقہ اسلامی میں ایک نئے دور کا آغاز ہے- عرب دنیا میں خاص طور پر اور غیر عرب مسلم دنیا میں عام طور پر فقہ اسلامی پر ایک نئے انداز سے کام کا وسیع پیمانہ پر آغاز ہوا-یہ کام عرب دنیا میں زیادہ کامیابی کے ساتھ ہوا… استاذ مصطفی احمد زرقا نے تجویز پیش کی کہ فقہ اسلامی کے ذخائر اور اصولوں کو ایک انسائیکلوپیڈیا کی شکل میں تیار کیا جائے…چنانچہ اس موضوع پر دو انسائیکلوپیڈیا تیار ہوا جن میں سے ایک کی ترتیب میں خود استاذ مصطفی زرقا بھی شامل رہے… یہ ایک بہترین انسائیکلو پیڈیا ہے اور غالباً پینتالیس یا پچاس جلدوں میں مکمل ہوگئی ہے- کویت کی وزارت اوقاف نے موسوعۃ الفقہ الاسلامی کے نام سے یہ کام کردیا ہے-‘‘
فقہ اسلامی کے نئے دور میں جواہم کام ہوئے ان میں موسوعۃ الفقہ الاسلامیکویت کے علاوہ، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، مصر، اسلام کے قانون فوجداری اور دیگر قوانین کے تقابلی مطالعہ پر استاذ عبدالقادر عودہ کی التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالتشریع الوضعی، کارپوریٹ فنانسنگ اور جدید مشترکہ طریق تجارت پر جامع ازہر کے استاذ شیخ علی الخفیف کی کتاب الشرکات فی الفقہ الاسلامی اور وزیر اوقاف اردن ڈاکٹر عبدالعزیز خیاط کی کتاب الشرکات فی الفقہ الاسلامی کو ڈاکٹر غازی نے خصوصی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے- اسی طرح جدید مسائل پر اجتماعی غور و فکر کے لیے سب سے پہلے وجود پذیر ہونے والی فقہ اکیڈمی جو رابطہ عالم اسلامی مکہ کے ذیلی ادارے کے طور پر سامنے آئی، کو اہم بتایا ہے، جس کے بعد اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے ایک فقہ اکیڈمی قائم کی جس میں ہر مسلم ملک سے دو دو نمائندے شریک ہوئے-
فقہ اسلامی پر اجتماعی غور و خوض سے مرتب ہونے والے اثرات پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود احمد غازی کہتے ہیں:’’اس اجتماعی اجتہاد کے نتیجے میں فقہی مسالک کی حدود مٹ رہی ہیں- ایک نئی فقہ وجود میں آرہی ہے جس کو نہ فقہ حنفی کہہ سکتے ہیں، نہ مالکی، نہ حنبلی، نہ جعفری، بلکہ اس کو اسلامی فقہ ہی کہا جائے گا- میں اس کے لیے Cosmopolitan Fiqhیعنی عالمی یا ہر دیسی فقہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں-‘‘
اپنی بات کو موکد کرنے کے لیے ڈاکٹر محمود احمد غازی نے پاکستان کے نظام بینک کاری کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے سلسلے میں ۱۹۸۰ء میں پیش کی جانے والی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کی تیاری میں ماہرین بینک کاری ، پاکستان کے بڑے بینکوں کے سربراہ اور نمائندے،پاکستان کی یونیورسٹیوں کے شعبۂ اکنامکس کے سربراہان اور علمامیں  شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور کوئی مسلک نہ رکھنے و الے سب شامل تھے- تقلید کے سلسلے میں ڈاکٹر غازی کی رائے یہ ہے کہ جو جس مسلک سے وابستہ ہے، وہ اس سے وابستہ رہے’’اور اگر مسلک کو چھوڑنا ہو تو پہلے اتنا علم حاصل کرلیں کہ آپ کو یہ پتہ چل جائے کہ اب تک آپ جس مسلک کی پیروی کررہی تھیں اس کے دلائل کیاہیں اور جس مسلک کو اختیار کرنا چاہتی ہیں، اس کے دلائل کیا ہیں-‘‘ لیکن جدید مسائل جن سے سب کو واسطہ ہے اور جو نہایت ہی پیچیدہ اور نئی قسم کے ہیں ان کے حل کے سلسلے میں ڈاکٹر غازی کی رائے یہ ہے کہ چاروں فقہی ذخائر سے استفادہ کیاجائے، ضرورت پڑے تو ان کے دائرے سے بھی نکلا جائے اور براہ راست کتاب و سنت کے نصوص سے استفادہ کیا جائے-
ڈاکٹر غازی کے یہ افکاران کی زندگی میں بھی زیر بحث رہے اور ان پرکئی جہت سے مزید گفتگو کرنے کی ضرورت اور گنجائش باقی ہے-
 ڈاکٹر محمود احمد غازی نے عصر حاضر میں فقہ اسلامی کے لیے دو بڑے چیلنجز کا ذکر کیا ہے، ان میں پہلا جدید ملٹی نیشنل کارپوریشنز پر مبنی جدید نظام مالیات کا چیلنج ہے اور دوسرا چیلنج میڈیا کی یلغار کا ہے، جس کے بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’میڈیا کی یلغار اتنی تیزی، شدت اور سرعت سے ہورہی ہے کہ بیت اللہ میں بیٹھ کر آپ دنیا کے دو ڈھائی سو چینل دیکھ سکتے ہیں، اس لیے یہ توقع کرنا یا مطالبہ کرنا کہ یہ چینل بند کیے جائیں اور ان کو ختم کیا جائے، ایک غیرحقیقت پسندانہ مطالبہ ہے-‘‘
ڈاکٹر غازی کے مطابق پہلے چیلنج کے سلسلے میں مسلم فقہا نے بڑی حد تک اپنا کام کردیا ہے ، لیکن دوسرے چیلنج کا جواب ہنوز باقی ہے-’’یہ تو کوئی جواب نہیں کہ آپ اپنے گھر پر تالا لگادیں اور پردہ ڈال کر بیٹھ جائیں- سیلاب پردے ڈالنے سے نہیں رکتا- سیلاب جب آتا ہے تو وہ تالوں سے نہیں رکتا،ا س پر مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے- مسلمانوں میں میڈیا کے جو ماہرین ہیں وہ بتائیں کہ اس سلسلہ میں کیا کچھ کیا جاسکتا ہے-‘‘
ڈاکٹر محمود احمد غازی سے مسائل و احکام میں اختلاف کرنے کی گنجائش ہے، یہ اپنی جگہ، لیکن اس اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ موصوف کی اس کتاب کو ہر اس طالب علم کو ضرور پڑھنا چاہیے جس کا تعلق فقہ و افتا سے ہے ا ور وہ جدید دنیا کے جدید فقہی رجحانات کو سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے کا جذبہ رکھتا ہے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔