Wednesday 30 August 2017

معاصر اسلامی تحریکات اور فکر اقبال ------ مصنف و ناشر: ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی

0 comments
 معاصر اسلامی تحریکات اور فکر اقبال
مصنف و ناشر: ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی
صفحات: ۲۸۸
سن اشاعت: ۱۹۹۹ء
 زیر اہتمام : تخلیق کار پبلشرز104/Bپاور منزل، آئی بلاک، لکشمی نگر، دہلی 
-۱۱۰۰۹۲
تبصرہ نگار: ذیشان احمد مصباحی  
اقبال(۱۸۷۷-۱۹۳۸ء) بیسویں صدی کی وہ واحد شخصیت ہیں جو پچھلی پوری صدی پر چھائے رہے، ہر بڑے سے بڑا ادیب، شاعر، مفکر، اسکالر، ان سے متاثر ہوا، ان کے خرمن فضل و کمال سے خوشہ چینی کی اور ہر شخص کی یہ کوشش رہی کہ اقبال کو اپنی فکر و نظر سے جوڑے، ہر مسلم جماعت نے اقبال کو اپنایا اور فخر یہ طور سے ان کو اپنے رنگ میں پیش کیا- عجیب معمہ ہے کہ مقلد بھی انہیں اپنا کہیں، غیر مقلد بھی انہیں اپنا کہیں،سنی بھی انہیں اپنا کہیں اور دیو بندی بھی انہیں اپنا کہیں، حد تو یہ کہ قادیانی بھی انہیں اپنا کہیں؟ زیر نظر کتاب ’’معاصر اسلامی تحریکات اور فکر اقبال‘‘ کے مطالعہ سے بڑی حد تک یہ معمہ حل ہو جاتا ہے، چوں کہ یہ سوال کتاب کا موضوع نہیں ہے اس لیے مصنف محترم ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی نے اس پر کوئی بحث تو نہیں کی ہے، تاہم ضمنی طور سے کچھ باتیں ایسی آ گئی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ اس سوال کا جواب مل جاتا ہے- مثلاً صفحہ ۱۲۸ پر لکھتے ہیں:
’’دراصل اقبال کا تعلق کسی ایک مذہبی فرقہ سے جوڑنا بہت مشکل ہے، وہ اپنے عقائد و نظریات میں مختلف خیالات و نظریات کا معجون مرکب تھے، وہ جب اہل بیت اطہار کا تذکرہ انتہائی عقیدت و محبت سے کرتے ہیں تو مائل بہ تشیع نظر آتے ہیں، خود بھی کہا ہے’’ہے اس کی طبیعت میں تشیع بھی ذرا سا‘‘- جب قادیانیت کی کار کردگی کو سراہتے اور قادیانیوں سے تعلقات استوار رکھتے ہیں تو قادیانیت کے حامی نظر آتے ہیں- جب تقلید سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تو غیر مقلد معلوم ہوتے ہیں لیکن جب احادیث کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کرتے اور اسلام کو تمام و کمال صرف قرآن میں ہی محصور سمجھتے ہیں تو اہل حدیث یا غیر مقلدوں کے بجائے اہل قرآن کے ساتھی معلوم ہوتے ہیں- جب ابن عبد الوہاب نجدی اور ان کی تحریک کی انتہائی تعریف و توصیف کرتے ہیں تو وہابی معلوم ہوتے ہیں لیکن وہابیوں کے برعکس جب وہ مزارات اولیاء پر عقیدت و احترام کے ساتھ حاضری دیتے ہیں اور عشق رسول کا اظہار کرتے ہیں تو سنی حنفی یا بر صغیر کے ’’بریلوی‘‘ معلوم ہوتے ہیں- غرض یہ کہ ان کی وابستگی کسی ایک گروہ یا مکتب فکر سے نہیں تھی، وہ جن عقائد کو اچھا سمجھتے تھے انہیں اختیار کر لیتے تھے، اسی لیے ان کے یہاں تمام مکاتب فکر کی آمیزش نظر آتی ہے-‘‘
فاروقی صاحب کا یہ حقیقت پسندانہ تبصرہ مجھ جیسے بہتوں کو چونکا دینے والا ہے، یہ تیکھا بھی ہے اور کاٹ دار بھی، اس اقتباس کو اس کتاب کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ پڑھ کر اقبال کے تعلق سے بہتوں کی عقیدت متزلزل ہونے لگے گی، میں یہاں پر اپنی طرف سے صرف اتنا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اقبال بنیادی طور پر عظمت اسلام اور شوکت مسلمین کے دل سے آرزو مند شخص تھے، اس کے لیے انہیں جہاں کہیں کسی طرح کی امید کی کوئی کرن نظر آئی ادھر وہ تیزی سے لپکے، ان کے خیالات میں برابر انقلابات ہوتے رہے ، حتی کہ آخر میں وہ اس مقام پر پہنچے:
’’ دینی معاملے میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے عقائد میں بعض جزوی مسائل کے سوا جو ارکان دین میں سے نہیں ہیں، سلف صالحین کا پیرو ہوں اور یہی راہ بعد کامل تحقیق کے محفوظ معلوم ہوتی ہے- جاوید کو بھی میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اسی راہ پر گامزن رہے اور اس بدقسمت ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی غلامی نے جو دینی عقائد کے نئے فرقے مختص کر لیے ہیں ان سے احتراز کرے- بعض فرقوں کی طرف لوگ محض اس واسطے سے مائل ہو جاتے ہیں کہ ان فرقوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے دنیوی فائدہ ہے- میرے خیال میں بڑا بد بخت ہے وہ انسان جو صحیح دینی عقائد کو مادی منافع کی خاطر قربان کر دے‘‘-(جاوید کے نام وصیت، اقبال کے مذہبی عقائد ص:۱۰، از: ڈاکٹر محمود احمد ساقی)
فکر اقبال کو ہم ایک اور جہت سے دیکھتے ہیں ، وہ یہ کہ وہ خذ ما صفا و دع ماکدر کے اصول پر عامل تھے، انہیں اچھائی جہاں کہیں نظر آئی اسے لے لیا اور جہاں برائی نظر آئی اس سے دامن بچا کر نکل گئے، اب یہ الگ سوال ہے کہ انہوں نے کن کن اچھائیوں کو لیا اور کن کن برائیوں سے احتراز کیا اور یہ کہ اپنے معیار پر جن خوبیوں کو انہوں نے اپنایا کیا وہ حقیقی معنوں میں خوبیاں ہی ہیں اور پھر یہ کہ کیا ان خوبیوں کو معیار بناکر’’ اتحاد ملت‘‘ کا نعرہ بلند کیا جا سکتا ہے جو اقبال کا محبوب نعرہ ہے-؟؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر اس کتاب کی ’’تقدیم ‘‘ میں تفصیلی اظہار خیالات کیا جا سکتا تھا جو نہیں کیا گیا ہے- محترم فاروقی صاحب اگلی اشاعت میںیہ کام کر دیں تو ایک بڑی دینی ،علمی اور ملی خدمت ہوگی-
زیر نظر کتاب اپنے موضوع پر جامع اور مکمل ہے، فاروقی صاحب نے آسان زبان، علمی اسلوب اور غیر جانب دارانہ طریق اظہار میں اپنی بات مکمل کی ہے، مطالعہ سے انداز ہوا کہ وہ بات کہنے کے ہنر سے واقف ہیں، کتاب میں کہیں بھی کسی طرح کی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا، ہر بات حوالوں سے مدلل کی ہے، یہ کتاب جہاں اقبالیات کے باب میں ایک گراں قدر اضافہ ہے وہیں انیسویں اور بیسویں صدی کے عالم اسلام کے سیاسی، سماجی، تحریکی اور فکری انقلابات کی تصویر اور دستاویز بھی ہے- نئی نسل جو مستقبل میں کچھ کرنا چاہی ہے، دینی و علمی ، دعوتی و اصلاحی اور سیاسی و سماجی سطح پر انقلاب لانے کا خواب دیکھ رہی ہے اسے لازم ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرے، اس مختصر کتاب میں انیسویں اور بیسویں صدی میں برپا ہونے والی ۱۰؍ مذہبی تحریکوں اور ۱۳؍ سیاسی اور تنظیمی تحریکوں کا مختصر مگر جامع، مدلل اور غیر جانب دارانہ تذکرہ ہے- انیسویں صدی کے بارے میں فاروقی صاحب کی اس بات سے بڑی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ ’’ چشم فلک نے گذشتہ اٹھارہ صدیوں میں اس قدر انقلابات اور نت نئی تحریکات نہ دیکھی تھیں، جتنی اس ایک صدی کے حصے میں آئیں‘‘( حرف آغاز،ص:۹) پوری بیسویں صدی انہیں تحریکوں اور تنظیموں کی آگ میں جھلستی رہی ہے اور اب ہم جب کہ اکیسویں صدی میں داخل ہو رہے ہیں اس میں کسی قابل قدر کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہمیں ان تحریکوں کا علم ہو- محترم ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی اس تصنیف میں ان تمام تحریکوں کو جمع کر دیا ہے، ساتھ ہی ان کے تعلق سے علامہ اقبال کی فکر بھی پیش کر دی ہے جس سے ہمیں بہتررہنمائی ملتی ہے-
اس  کتاب کے مطالعے کے دوران اقبال کے تعلق سے بہت سے حیرت انگیز انکشافات ہوئے، ان میں سب سے بڑا انکشاف یہ کہ اقبال جیسے مدبر، مفکر ، قرآن فہم، حقیقت رسا اور روح اسلامی سے آشنا داناے زار کو ۱۹۳۵ء تک قادیانیت کے تعلق سے تذبذب رہا، یعنی مرزا غلام احمد قادیانی کے مرنے کے ۲۷ سال بعد تک اقبال قادیانیت کی سحر میں ڈوبے رہے اور اپنی وفات سے صرف ۳؍ سال پہلے وہ اس سے باہر آئے اور اس کی تردید کو اپنا مشن بنایا- جبکہ قادیانی کی زندگی میں ہی پورا ملک اس کی یا وہ گوئیوں سے نالاں تھا اور ہرطرف رد وابطال کا دور دورہ تھا، اقبال نے قادیانی طلسم اور پنجابی مسلمانو ںکی سادگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’’ پنجابی مسلمان‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے اس میں ایک شعر یہ بھی ہے:
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
ہمیں بے حد افسوس ہے کہ اقبال جیسا مرد دانا بھی اس’’ پنجابی سادگی‘‘ سے خود کو نہیں بچا سکا، وہ ۱۹۳۵ء تک سید سلیمان ندوی سے یہ دریافت کرتا رہا کہ کیا اہانت رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم قابل تعزیر جرم ہے اور کیا مرزا غلام احمد قادیانی کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جزوی فضیلت دینا اہانت رسول کے دائرے میں آتا ہے؟ ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی صاحب نے اس پر بڑا اچھوتا ریمارک کیا ہے، لکھتے ہیں:’’ اس کا فیصلہ تو ایک عامی اور معمولی استعداد کا شخص بھی کرسکتا ہے - حیرت ہے کہ اقبال کو، جن کی علمیت اور عشق رسول کو مسلمہ قرار دیا جاتا ہے، ایسے سوالات کے لیے ایک عالم سے رجوع کرنا پڑا-‘‘(ص:۸۰)
ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی صاحب کی یہ کاوش دراصل۱۹۸۸ء   میں علی گڑھ میں لکھا گیا ایم فل کا مقالہ ہے، شروع میں یہ صرف تیرہ تحریکوں پر مشتمل تھا بعد میں انہو ں نے اور اضافے کیے اور انیسویں اور بیسویں صدی کی تقریباً تمام بڑی تحریکوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ، لیکن اس کوشش میں انہوں نے کچھ ایسی تحریکوں کو بھی شامل کر لیا ہے جن سے اقبال کا تعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ یا تو اقبال کے عہد میں اٹھیں یا پھر یہ کہ مصنف کے مطابق فکر اقبال کو ان سے کسی طرح کا رشتہ ضرور ہے- تحریک ندوۃ العلماء ، تحریک نظم جماعت و امامت اور تحریک ہجرت وغیرہ کچھ اسی قسم کی تحریکیں ہیں- ان تحریکات کی فہرست میںمیر ی نگاہیں تحریک پاکستان کو بھی تلاش کرتی رہیںلیکن آخر مایوسی ہاتھ آئی-
محترم فاروقی صاحب کی یہ کتاب فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنو، حکومت اتر پردیش کے جزوی تعاون سے معیاری کمپوزنگ ،تزئین، کاغذاور سرورق کے ساتھ ۱۹۹۹ء میںصرف ۴؍سو کی تعداد میں شائع ہوئی ہے- معلوم نہیں اس کتاب کی مزید اشاعتیں سامنے آئیں یا نہیں، ویسے یہ کتاب اس بات کی مستحق ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ عام ہو اور اصحاب علم و ادب اور طالبان مدارس و جامعات کی میز کی زینت بنے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔