Thursday 31 August 2017

مکاتیب مفتی اعظم بنام ملک العلما مولانا ظفر الدین قادری ----- مرتب: پروفیسر مختارالدین احمد

0 comments
 مکاتیب مفتی اعظم بنام ملک العلما مولانا ظفر الدین قادری
         مرتب: پروفیسر مختارالدین احمد 
        (سابق صدر شعبۂ عربی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)
        صفحات : ۶۴
        ناشر: مدرسہ فیضان مصطفی زہرہ باغ علی گڑھ
        تبصرہ نگار:ضیاء الرحمٰن علیمی
 بہت پہلے حضرت مفتی اعظم ہند کی زندگی او رکارناموں پر مشتمل بارہ سو صفحات کا ایک مجموعہ مضامین ’’جہان مفتی اعظم‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور اب سننے میں آرہا ہے کہ حضرت ملک العلما کی حیات اور خدمات پر بھی’’ جہان ملک العلما‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ مضامین شائع ہونے جارہا ہے، اچھی بات ہے- جہان مفتی اعظم میں پروفیسر مختار الدین احمدکا ’’ مکتوبات مفتی اعظم‘‘کے نام سے ایک مقالہ شائع ہواتھا جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور پروفیسر موصوف کے پاس نقلیں ارسال کرنے کی فرمائشیں آتی رہیں اور آخر کار مولانا سید جمال صاحب ناظم مدرسہ فیضان مصطفی زہرہ باغ علی گڑھ، جو مکتوب نگار اورمکتوب الیہ دونوں سے گہری عقیدت رکھتے ہیں،نے ان خطوط کو علیحدہ کتابی شکل میں شائع کردیا- یہی مجموعہ خطوط اس وقت زیر تبصرہ ہے-
اس یڈیشن میں مکاتیب مفتیٔ اعظم بنام ملک العلما کے علاوہ پروفیسر محترم نے اپنے چند روز نامچے، مولانا عرفان علی کا ایک مکتوب اور حجۃ الاسلام علامہ حامد رضاخاں کے تین مکتوب ضمیمے کے طور پر شامل کردیے ہیں، مکاتیب مفتی اعظم کی تعداد ۲۰ہے ، سارے مکاتیب پروفیسر موصوف کے حواشی سے مزین ہیں، خطوط کے اندر ذکر آمدہ شخصیات کا تعارف ممکنہ صورت میں کرادیا گیا ہے، مبہم مقامات کی وضاحت کردی گئی ہے، اگر کہیں کوئی سطر ضائع ہوگئی تھی یا خط واضح نہیں تھا تو اس کی طرف علمی نہج کے مطابق اشارہ کردیا گیا ہے، ہجری ماہ و سال کی عیسوی تاریخ خط کے آخر میں ذکر کی گئی ہے، ان خطوط کے مطالعے سے دونوں بزرگوں کے ذاتی مراسم، مختلف دینی علمی اور جماعتی سرگرمیوں ، اس زمانے کے حالات، مفتی اعظم کے خلوص و انکساری اور کتب خانہ امام احمد رضا کی بعد انتقال تباہی پر ان کے غم واندوہ اور خصوصیت کے ساتھ امام احمد رضا قدس سرہ کی تصانیف کی تبییض نو اور ان کی اشاعت کے انتظام و انصرام میں ملک العلما کے رول سے آگاہی ہوتی ہے اور قاری یہ یقین کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر ملک العلما کی جد و جہد نہ ہوتی تو شاید امام احمد رضا کی تصانیف خانقاہ بریلی شریف کی الماریوں میں دیمک کی خوراک بن گئی ہوتیں، مگر افسوس ہے کہ ان کی مساعی و خدمات کا صلہ گمنامی کی شکل میں دیا گیاہے- ان مکاتیب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ امام احمد رضا کے انتقال کے بعد بڑی افراتفری مچی ہوئی تھی، وہ اتنا کچھ علمی سرمایہ چھوڑ گئے تھے کہ ان کے وارثین سنبھال نہیں پارہے تھے، صورت حال کیا تھی اس کا اندازہ مفتی اعظم ہند کے مکتوب نمبر ۹ کے اس ایک اقتباس سے ہوتا ہے -’’میرا ارادہ امسال حج و زیارت کا ہے…اس سفر کے متعلق جو باتیں آپ کے خیال میں ہوں ان سے مطلع فرمائیں…جہاز میں سمت قبلہ کا مسئلہ پیچیدہ ہوجانا عجب نہیں‘‘ پھر نئی سطر سے لکھتے ہیں -’’ یہاں کتب خانۂ اعلی حضرت کی جیسی بربادی ہوئی ہے وہ آپ پر ظاہر ہے جو کچھ تباہ شدہ باقی رہے اس سے کوئی کام کی چیز نکال لینا آسان نہیں خصوصا وقت عجلت ‘‘  (ص: ۳۸)
کتاب کا انتساب خلیفہ مفتی اعظم ہند سید سرا ج اظہر قادری رضوی ناظم انجمن برکات رضا ممبئی کی جانب کیا گیاہے، اس کی مناسب وجہ مجھے سمجھ میں نہیں آئی- مکاتیب کے آغاز سے قبل ’’عرض حال‘‘ کے عنوان سے کتاب کی اشاعت کا پس منظر بیان کیا گیا ہے، معاونین کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش کیا گیا ہے، اور جدید ایڈیشن کے بارے میں ضروری باتیںتحریر کی گئی ہیں، انہی ضروری باتوں کے ضمن میں مفتی اعظم کے وہ خطوط کے عکس شائع کیے جانے کی بات بھی کہی گئی ہے لیکن میں تلاش بسیار کے باوجود عکس کی زیارت سے محروم ہی رہا- مولانا مقبول احمد مصباحی نے کتاب کے پیش لفظ میں جماعت اہل سنت کی غفلتوں کے شکوے کے بعد کتاب کی علمی خصوصیات کے تعلق سے ضروری باتیں لکھی ہیں ، اور پھر اخیر میں وہی شکوہ کیا ہے جو پوری جماعت اہل سنت کیا کرتی ہے کہ آخر پروفیسر مختار الدین احمد نے خانوادہ رضویہ سے اپنی وابستگی کو کن اسرار کی بنا پر راز میں رکھا؟ ویسے پروفیسر موصوف اس معاملے میں انفرادی شان نہیں رکھتے ہیں کیوں کہ اسی طرح مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی (م ۱۳۷۲ھ ؍۱۹۵۴ء) کے متعلقین نے بھی برسوں تک امام احمد رضا سے ان کی وابستگی کو پردئہ راز میں رکھا ، یہاں یہ تاویل کی گئی ہے کہ ایسا دعوتی و تبلیغی مقاصد کے پیش نظر کیا گیا، یوں ہی ممکن ہے کہ وہاں بھی یہ تاویل کرلی جائے کہ پروفیسرمحترم’’ تو قیر عرب تنویر عجم‘‘ کے لقب سے سرفراز ہیں اس لیے علمی مقاصد کے پیش نظر علمی دنیامیں اپنی غیر جانبدارانہ امیج کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے ایسا کیا- پیش لفظ کے بعد ’’حرفے چند‘‘ کے عنوان سے ۱۹ صفحات پر مشتمل کتاب کا شاندار مقدمہ ہے، پروفیسر محترم نے عمدہ سلیس زبان میں تفصیل کے ساتھ مفتی اعظم ہند اور دیگر اکابرین اہل سنت سے اپنے رابطے کا ذکر کیا ہے، بیتی باتوں کو بڑے موثر اسلوب میں قلم بند کیاہے، دوران مطالعہ قاری مسلسل گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں پروفیسر موصوف کے ہمرکاب رہتا ہے اور اس زمانے کے احوال و کوائف کا مشاہدہ گویا وہ اپنی کھلی آنکھوں سے کرتا ہے- اس مقدمے میں خطوط ، ان کی ترتیب کا منہج اور اس کے علاوہ اور بہت سی وضاحتیں اور قیمتی باتیں جو متنی تہذیب و تنقید سے تعلق رکھتی ہیں ذکر کی ہیں ، در حقیقت اس مقدمے نے مکتوبات کے اس مختصر سے مجموعے کو مہتم بالشان بنادیا ہے-
ٹائٹل کے بیک پیج اور بیک ٹائٹل پیج پر ملک العلما کی تمام تصانیف کی ایک فہرست فنون اور زبان کی وضاحت کے ساتھ شائع کی گئی ہے، ساتھ ہی مطبوعہ ، غیر مطبوعہ، دستیاب نہیں ،کی صراحت بھی کردی گئی ہے- ملک العلما کے تعارف کا یہ انداز مجھے بہت پر کشش لگا، دوسری کتابوں میں بھی یہ انداز اختیار کیا جائے تو بڑا چھا ہوا - یہ کتاب ملک العلما کے ۴۶ویں عرس کے موقع پر شائع کی گئی ہے- کاغذ بہت عمدہ استعمال کیا گیا ہے حواشی اور متن کی طباعت میں تھوڑی بے تربیتی واقع ہوئی ہے جس سے قاری خلجان کا شکار ہوجاتاہے- کمپوزنگ کی غلطیاں تقریبا معدوم ہیں البتہ کتاب کے حجم کے لحاظ سے قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے- ویسے تو عامی کے لیے اس میں دل چسپی کا سامان نہیں ہے لیکن علمی طور پر بڑی قدرو قیمت کا حامل ہے اور جماعت تاریخ اہل سنت کی بکھری ہوئی کڑیوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، امید کہ علمی حلقے میں پسند کی جائے گی اورکی جانی بھی چاہیے-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔