Thursday 31 August 2017

شہر خموشاں کے چراغ ----- تالیف: مولانامبارک حسین مصباحی

2 comments
شہر خموشاں کے چراغ
                تالیف: مولانامبارک حسین مصباحی 
                صفحات:۴۸۰
                سن اشاعت : ۲۰۰۹ء 
                ناشر: تنظیم ابنائے اشرفیہ ،مبارک پور،اعظم گڑھ، 
                ملنے کا پتہ: المجمع المصباحی،مبارک پور،اعظم گڑھ
                تبصرہ نگار: ضیاء الرحمٰن علیمی
’’کہتے ہیں کہ یوگیوں نے علم وفن اور تہذیب وتمدن کی سانس سادھنے کا عمل نہیں بتایا ہے شاید اسی لیے ایک خطیب قوم وملت کی زبان ہوتا ہے تو ادیب وصحافی اس کا دماغ، معلم اس کی روح اور شاعر اس کا دل، ان چاروں کے ہی وجود سے قومیں بنتی بھی ہیں بگڑتی بھی اور جیتی بھی ہیں اور مرتی بھی- قوم وملت کی زبان ، دماغ یا روح میں سے کوئی ایک عضو بننے کے لیے اہل کمال کو برسوں سینے کے بل رینگنا پڑتا ہے - حیرت ہے کہ مولانا مبارک حسین مصباحی میں بیک وقت یہ تینوں صفتیں کیسے مجتمع ہوگئیں؟‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جن میں ماہنامہ اشرفیہ کے مدیر مولانا مبارک حسین مصباحی کا تعارف ہندوستان کے ممتاز ناقد و صحافی مولانا خوشتر نورانی نے کرایا ہے اور اس وقت جو کتاب میرے تبصرے کی میز پر ہے اس کے مصنف بھی کوئی اورنہیں مولانا مبارک حسین مصباحی ہی ہیں- اور تصنیف کا نام ہے’’ شہر خموشاں کے چراغ‘‘- ۴۸۰؍ صفحات پر مشتمل یہ کتاب در اصل ان شخصیات کا نثری مرثیہ ہے جو مصنف کو ماہنامہ اشرفیہ کے عہد ادارت میں مفارقت کا داغ دے گئیں- ان شخصیات کی مجموعی تعداد ۴۵ ہے- ان شخصیات سے متعلق تمام تحریریں خود مصنف کی ہیں البتہ گوشہ شارح بخاری اور علامہ ارشد القادری کے تذکرے کے ضمن میں دوسرے تعزیتی مکاتیب کو بھی شامل کردیا گیا ہے-
کتاب کے مشمولات کی فہرست سازی جدید اورادیبانہ طرز پر کی گئی ہے ، ہر شخصیت کے تذکرے سے متعلق تحریر کا عنوان ذکر کرکے اس کا مختصر اقتباس بھی نقل کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے متعلقہ شخصیت کے خد وخال نمایاں ہوجاتے ہیں البتہ گوشہ شارح بخاری کے باب میں گوشہ شارح بخاری کا عنوان قائم کرکے جو تحریر ذکر کی گئی ہے اور پھر گوشہ شارح بخاری قائم کرنے سے پہلے جس طرح مستقل نمبرنگ کی گئی ہے اس سے فہرست کامطالعہ کرنے والے کو گمان ہوتا ہے کہ یہ ایک مستقل باب ہے اور اس میں مستقل تحریریں ذکر کی گئی ہوں گی لیکن جیسے ہی قاری اگلی نمبرنگ دیکھتا ہے، اگلی سرخی پر نظر ڈالتا ہے اور پھر اس کے بعد ذکر کردہ اقتباس پڑھتا ہے تب اس پر یہ واضح ہوتا ہے کہ پچھلی شہ  سرخی کے تحت کوئی تحریر نہیں لکھی گئی ہے بلکہ آنے والی تحریروں کاتعارف کرایا گیا ہے- جس طرح کی فہرست سازی اس میں کی گئی ہے اس کے مطابق گوشہ شارح بخاری کا مستقل عنوان قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اورنہ مستقل نمبرنگ کی بلکہ ماقبل ومابعد میں جو منہج اختیار کیا گیاہے وہی درست تھا کہ اس سے قاری کے ذہن میں شخصیت کا ایک خاکہ بھی بیٹھ جاتا اور کسی طرح کاکوئی کنفیوژن بھی نہیں ہوتا لیکن پتا نہیں کن مقاصد کے تحت مصنف نے خلجان میں ڈالنے والا منہج اختیار کیا ہے- حیرت کی بات یہ ہے کہ علامہ ارشد القادری کے تذکرے میں بھی مصنف کی اپنی تحریر کے علاوہ دوسرے تعزیتی مکاتیب  شامل ہیں لیکن وہاں پر منہج فطری اختیار کیا گیا ہے کہ علامہ ارشد القادری سے متعلق اپنی ادارتی تحریر کے بعد دوسرے تعزیتی خطوط کو شامل کردیا گیا ہے اور یہاں گوشہ علامہ ارشد القادری جیسا نہ کوئی عنوان ہے اور نہ کوئی مستقل نمبرنگ اور پھر نہ کوئی ایسی تحریر جس سے کسی طرح کا کوئی کنفیوژن پیدا ہو-
’’شہر خموشاں کی تقریب‘‘ کے عنوان سے چار صفحات پر مشتمل مصنف کا ایک مقدمہ ہے جس میں انہوں نے ماہنامہ اشرفیہ کی ادارت اور نیشنل انٹرنیشنل میڈیا پر گفتگو کی ہے اور پھرمیڈیا سے جڑے چند فقہی مسائل مثلاً ٹی وی کے جو از وعدم جواز پر چٹکی لی ہے، مثال کے طور پروہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ایک معروف مفتی صاحب جو ’ٹی وی‘کی حرمت پر متعدد فتاوے اور کتابیں لکھ چکے تھے،اب چیخ چیخ کر اس کے جوازو استحسان کا اعلان کررہے ہیں مگر اس کا خریدنا آج بھی ان کے نزدیک حرام ہے - ہوسکتا ہے وہ اس انتظار میںہوں کہ دیگر امور خانہ داری کی طرح ’ ٹی وی‘ بھی کوئی انہیں ہبہ کردے- اگر واقعی ایساہے تو ہم اہل سنت کے عالمی تحریک’’دعوت اسلامی‘‘کے ذمہ داروں سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کار خیر میںایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کریںلیکن اسی کے ساتھ ایک عدد ادھر بھی…‘‘
میرے لیے یہ فیصلہ کرنامشکل ہے کہ ’’ معروف مفتی صاحب‘‘ کا اس پر کیا رد عمل ہوگااور یہ کہ اس طرح کی ’’مجہول تنقیدوں‘‘کا باعث اور حاصل کیا ہے ؟ حضرت مولانا نے پورے مقدمے میں اسی طرح کی باتیں کی ہیں جن کا اصل کتاب سے کوئی جوڑ نہیں ہے- اس پورے پانچ صفحاتی مقدمے کو میں حرفاً حرفا پڑھ گیا لیکن ماسوا ڈیڑھ صفحہ کے ، کتاب کے مشمولات سے کوئی تعلق مجھے سمجھ میں نہیں آیا - اس کے علاوہ تنظیم ابنائے اشرفیہ کے زیر اہتمام منعقد بین الاقوامی میڈیا سمینار کی خصوصیات وافادیت شمار کراتے ہوئے موصوف رقم طراز ہیں:
’’ اسی سیمینار کے بطن سے میڈیا سنٹر کا تصور ابھرا اور معروف نقاد و صحافی برادرم خوشتر نورانی نے اس خواب کو پیکرجاناں کی طرح تراش کر دہلی کی سرزمین پر اتاردیا-‘‘
اب قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مولانا خوشترنورانی کا میڈیا سینٹرجس سیمینار کے بطن سے پیدا ہوا ، خود وہ سیمینار میڈیا سینٹر کی مکمل پلاننگ کے دو ماہ بعد عالم وجود میں آیا،کیوںکہ مولانا کا نیشنل میڈیا سیمینار ۱۸؍۱۹؍مئی ۲۰۰۶ء کو منعقد ہوا جب کہ مولانا خوشتر نورانی نے’’ میڈیا اینڈ ریسرچ سینٹر‘‘کے قیام کے لیے پہلی میٹنگ ۱۷؍ مارچ ۲۰۰۶ء کودہلی میں کال کی تھی اور اسی کے ساتھ ہی اپنے خواب کو پیکرجاناں کی طرح تراش کر ذہن سے کاغذ پر اور بعد میں زمین پر اتار دیا-(دیکھیے ماہنامہ جام نور ، دہلی ،مئی ۲۰۰۸ء کا اداریہ )اگر ہم مولانا مبارک حسین مصباحی صاحب کی بات کو درست مان لیں تو مولانا خوشتر نورانی کا ’’ میڈیا اینڈ ریسرچ سینٹر‘‘ معلوم تاریخ کا پہلا بچہ ہوگا جو اپنی ما ں کے عالم وجود میں آنے سے پہلے ہی پیدا ہوچکا تھا-اگر اس لطیفے پر قارئین اپنی ہنسی نہ روک سکیں تو مجھے معاف رکھیںگے-
مختلف شخصیات کے تحت لکھی گئی مختلف تحریروں کے مطالعے کے بعد ان کی عظمتوں کے چراغ میرے دل کے نہاں خانے میں یکے بعد دیگرے روشن ہوتے چلے گئے، ان کی خدمات سے آشنائی ہوئی، ان کی شخصیتوں کی تہہ داری کااندازہ ہوا لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ اپنی کسی شخصیت کی تعریف و توصیف کامطلب یہ نہیں ہے کہ کسی دوسری شخصیت سے اس کی واقعی حیثیت بھی چھین لی جائے ، ان کے کارناموں کو کالعدم قرار دے دیا جائے- خصوصیت کے ساتھ موضوعیت ، اثباتیت اور انفجار علم کے اس دور میں اس طرح کی کوئی تحریر اہل علم کی بارگاہ سے مقبولیت کی شہادت نہیں حاصل کرسکتی- اس لیے مصنف کا یہ ریمارک کہ ’’ شبلی و سلیمان کی سیرت النبی اور ابو الکلام آزاد اور سلیمان منصور پوری وغیرہ کی سیرت کے موضوع پر کتابیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح سے خالی ہیں-‘‘(ص:۱۱) مجھے پسند نہیں آیا- کسی بھی چیز سے اس کی روح کی نفی کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ بے جان لاشہ ہے، اس میں کوئی زندگی اور آثار زندگی نہیں پائے جاتے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے - شبلی و سلیمان کی سیرت النبی کے مطالعے کے بعد کوئی شّخص اس نتیجے پر نہیں پہنچے گا کہ شبلی و سلیمان کی سیرت میں روح کی جدائی ہے- شبلی کی سیرت کے مطالعے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دل میں پیدا ہوتی ہے ، ان سے لگاؤ کا جذبہ پروان چڑھتا ہے اور اللہ کی راہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کا اندازہ ہوتا ہے جس سے آتش حب نبی بھڑک اٹھتی ہے -البتہ یہ کہنا درست ہے کہ ان حضرات کی سیرتوں میں آپ کے انسانی پہلوؤں پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے اور آپ کے روحانی پہلوؤں کا کما حقہ بیان نہیں کیا گیا ہے اور اس کے علاوہ دوسری کمیاں در آئیں ہیں لیکن ان کی سیرتوں پر روح سیرت سے خالی ہونے کا الزام بہت سنگین اور سراسر زیادتی ہے -
مجموعی طور پر کتاب قابل مطالعہ ہے- یقینی طور پر مطالعے کے دوران قاری کی نگاہوں میں ان شخصیات کا سراپا پھرجائے گا جن کی زیارت اس کی نگاہوں نے نہیں کی- زبان کی چاشنی بھی ملے گی اور ادبی ذوق کی تسکین بھی ہوگی- کتاب کا سرورق اور عقبی ٹائٹل بہت ہی خوب صورت اور ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے خصوصاً اور ہر ایک قاری کے لیے عموماً جاذب نظر ہے، البتہ کتاب کا سرورق جتنا جاذب نظر ہے اور ذوق رفیع کا جتنااعلیٰ نمونہ ہے اندرونی ٹائٹل پیج اتنا ہی بد نما اور بدذوقی کی اعلیٰ مثال ہے - ایسا لگتا ہے کہ سرورق کی فوٹوکاپی کرکے اندرونی ٹاٹئل پیج کے طور پر استعمال کرلیاگیا ہے- کاغذ بھی ہلکا اور طباعت اتنی غیر معیاری ہے کہ پوری کتاب پر فوٹو کاپی کا گمان ہوتا ہے ، میں پوری کوشش کے باوجود اس بات پر اپنے آپ کو مطمئن نہیں پاسکا کہ یہ فوٹو کاپی نہیں، طباعت ہی ہے- کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا پروف بہت اچھی طرح پڑھا گیا ہے لیکن اس کتاب کا امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ پوری کتاب میں مرثیہ کے طبعی اسلوب، سادگی کا فقدان ہے اور عموماً پر تکلف مرثیہ نگاری کارنگ غالب ہے-البتہ جہاں کہیں سادگی اختیار کی گئی ہے دل کے رونے کی آواز صاف سنائی دیتی ہے - اس سے قطع نظر کتاب بہت سی خوبیوں پر مشتمل ہے جن کااس تحریر میں احاطہ نہیں کیا جاسکتا، اس کاصحیح اندازہ کتاب کے مطالعے کے بعدہی لگایا جاسکتا ہے - یہ کتاب بلا شبہ مرثیہ کے رنگ میں اساطین امت کے تذکروں کا ایک شاندار مرقع ہے- امید کی جاتی ہے کہ علمی اور عوامی حلقوں میں یکساں مقبول ہوگی اور اکابر کے تذکروں کو محفوظ کرنے کا اور ان کی زندگیوں سے روح عمل لینے کا رجحان عام ہوگا-

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔