Thursday 31 August 2017

دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر

0 comments
دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر
                                                         از قلم: ضیاء الرحمٰن علیمی
------------------------------
دہشت گردی عصر حاضر کا فینومنا ہے، پوری دنیا پر تشدد واقعات کی لپیٹ ہے، گزرتے شب و روز کے ساتھ دہشت کے سائے دراز ہوتے چلے جا رہے ہیں، عالمی برادری خوف و دہشت کے ماحول میں جی رہی ہے، ہر طرف عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے، اس کے خاتمے کے لیے پوری دنیا نے دہشت گردی کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے لیکن اس کے باوجود دہشت گردوں کے دست و بازو کمزور ہوتے نظر آرہے ہیں- اسباب و عوامل کیا ہیں؟ دہشت گردی کے پنجے مروڑنے کے لیے میدان میں اتری طاقتیں کس حد تک خود دہشت گردی کی مجرم نہیں ہیں؟ ان کے عزائم میں کس قد سچائی ہے؟ یہ دہشت گردی کی مہم سے جڑے چند سوالات ہیں جن کا جواب ہم آئندہ صفحات میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے، سردست ہم دہشت گردی کے مفہوم کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’’ٹیررزم‘‘ (Terrorism) کو ڈیفائن کرنے کی کوشش کرتے ہیں،
ایڈوانس لرنر ڈکشنری آف کرنٹ انگلش میں ٹیررزم کی توضیح میں لکھا ہے ’’the use of voilent action in order to achieve political aims‘‘ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پر تشدد عمل کو بروئے کار لانے کا نام دہشت گردی ہے-
نیت میں کھوٹ:-  
میرے خیال میں دہشت گردی کی یہ تعریف مبہم اور غیر واضح ہے، اس تعریف کی رو سے ہر پر تشدد عمل جس میں سیاسی مقاصد و عوامل کارفرما ہوں دہشت گردی  قرار پائے گااور پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت دہشت گردی کے الزام سے اپنے آپ کو بچا نہیں پائے گی، کیوں کہ عموما متشددانہ عمل میں خواہ وہ حق و صداقت کی بالا دستی ہی کے لیے کیوں نہ ہو سیاسی عوامل در انداز ہوتے ہیں، اور دنیا کا کوئی بھی ہوشمند انسان تسلیم نہیں کر سکتا کہ حق و صداقت پر مبنی سیاسی اہداف کے حصول کے لیے کی جانے والی مسلح جد وجہد دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے- مجھے ایسا لگتا ہے کہ انگریزی دنیا نے شاید کسی سیاسی مجبوری کی وجہ سے دانستہ طورپر دہشت گردی کے حقیقی خد وخال واضح کرنے سے گریز کیا ہے، انہیں معلوم ہے کہ دہشت گردی کی صحیح توضیح کر دی گئی تو برطانیہ کی پوری تاریخ ہی دہشت گردی کی داستان ہوگی، اسرائیل کا وجود ہی سراپا دہشت گردی قرار پائے گا اور دہشت گردی  کے خلاف امریکہ کی ’’مقدس مہم‘‘ کی قلعی کھل جائے گی- اس لیے جان بوجھ کر دہشت گردی کی ایسی تشریح کی گئی ہے کہ اگر اس کی رو سے برطانیہ امریکہ اور اسرائیل اور دوسری جارح مغربی طاقتیںدہشت گردی  کے الزام سے نہ بچ سکیں تو کم از کم ان کے مظالم کے نتیجے میں پھوٹ پڑنے والے پر تشدد واقعات اور ظلم و جبر کے خلاف مسلح کوششوں کی اہمیت کم ہو جائے اور عام انسان یہ باور کرلے کہ پر تشدد عمل بہر حال دہشت گردی  ہی ہے-
غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ دہشت گردی کے مختلف پیمانے ہیں- ایک ہی عمل ایک قوم کی نظر میں دہشت گردی ہے تو دوسری قوم کی نگاہ میں حق و صداقت کی جنگ، فلسطینیوں کی مسلح جد و جہد صیہونی نقطۂ نظر سے دہشت گردی ہے اور فلسطینیوں اور انصاف پسندوں کے زاویہ نظر سے جان و مال ، عزت و آبرو کا دفاع جو ایک مقد س عمل ہے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم اس حقیقت پر عالمی اتفاق کے باوجود کہ دہشت گردی انسانیت کا ناسور ہے، افتراق و انتشار کا شکار ہے-
دہشت گردی کا محرک: - 
موجودہ دور میں دہشت گردی کے لفظ کو پوری دنیا میں عموما اور مغربی دنیا میں خصوصا جن لوگوں سے جوڑا جا رہا ہے یا جن علاقوں کو دہشت گردی کا محور و مرکز کہا گیا ہے ان کے پیچھے مظالم کی ایک مکمل تاریخ ہے- پروفیسر رابرٹ، اے، پیپ، نے لکھا ہے کہ خود کش دہشت گردی کی بنیاد وطن پرستی ہے، یہ غیر ملکی طاقتوں کے چنگل سے ملک کو آزاد کرانے کی ایک اسٹریٹیجی ہے- (دیکھیے اے، جی، نورانی کا مقالہ’’ ٹیررزم اینڈ راج‘‘ فرنٹ لائن ، شمارہ۱۴؍مارچ، ۲۰۰۸ء)
آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال قبل ہندوستان میں ہوئی پہلی جنگ آزادی جسے عموماً ’’غدر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے پر تشدد پس منظر کے نتیجے میں ہوئی تھی، مغربی ایشیا میں جاری مسلح کشمکش سنگین بین الاقوامی جرم کا ہی نتیجہ ہے-
حاصل یہ کہ عموما پر تشددواقعات مظالم کی کوکھ سے جنم سے لیتے ہیں، اگر حق و انصاف کی بالادستی قائم ہو جائے، طاقتور قومیں کمزور قوموں کو اپنے زیر اثر کرنے کی کوشش چھوڑدیں تو دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے لیکن ایسی کوئی امید نظرنہیں آتی کیوں کہ ہوا مخالف سمت میں بہہ رہی ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر انسانی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے، انسانیت کے دامن عزت کو تار تار کیا جا رہا ہے، یہ سارے ’’کارنامے‘‘ وہ ممالک انجام دے رہے ہیں جو اپنے آپ کو حقوق انسانی کا علمبردار سمجھتے ہیں اور اس کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا بھی پیٹتے ہیں، ان طاقتوں اور ان ممالک کی سربراہی عصر حاضر میں امریکہ کر رہا ہے، آئیے ذیل میں امریکہ کے کچھ ’’کارناموں‘‘ کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں-
بربریت کی تاریخ:- 
 امریکہ نے ظلم و بربریت کی تاریخ میں مظلوموں کے خون رنگین سے نئے ابواب لکھ دیے ہیں، غیر انسانی سلوک روا رکھے جانے کے سارے پیمانے توڑدیے ہیں، پہلے اس نے ناگا ساکی پر بمباری کی، ویتنام کو برباد کیا اور بعد میں عراق اور افغانستان میں دہشت گردی کے نام پروہ ننگا ناچ کھیلا کہ پوری انسانیت شرمسار ہے لیکن امریکہ اس کے اتحادی پشیمان نہیں ہیں- امریکہ دہشت گردوں پر لگام کسے جانے کی بات کہتا رہا لیکن جب جنگ ختم ہوئی تو مغرب کے سیاسی مبصرین نے بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اس جنگ کو ’’ناکامی سے بھی آگے منزل‘‘ قرار دیا، اور پروفیسر پال راجرس (Paul Rogers)ڈپارٹمنٹ آف پیس اسٹڈیز، یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ نے تو اپنی ایک رپورٹ میں جس کا عنوان تھا’’Towards Sustainable Security: Alternative approches to the war on terror‘‘اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کے خلاف جاری مسلح جدوجہد ایسی ہے جیسی کہ سویت یونین کے قبضے کے خلاف افغانستان کے مجاہدین کی تھی، (دیکھئے حوالۂ سابق)
امریکہ کی جارحیت کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے، گوانتانامو کے قیدیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کی خبریں انتہائی پابندی کے باوجود اخباروں میں آتی رہی ہیں، ابھی ۲۹؍مئی ۲۰۰۸ کو اخباروں میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوتی ہے جس میں ایمنسٹی انٹرنیشل نے مغرب کو اور خصوصیت کے ساتھ امریکہ کو حقوق انسانی کی پامالی پر لتاڑا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ کو گوانتانامو اور حراست کے دوسرے خفیہ مراکز بند کر دینے چاہیے اور زیر حراست افراد کو منصفانہ جانچ کے بعد رہا کر دینا چاہیے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سکریٹری جنرل Irena Khanنے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ دنیا کے قائدین حقوق انسانی کے پامال کیے جانے کا انکار کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق اور افغانستان میں حقوق انسانی کی پامالی نے حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے اور یہ واقعات درحقیقت وائرس کی مانند ہیں جو نہایت تیزی کے ساتھ پھیلتے جا رہے ہیں-
اب گوانتانامو کے ایک قیدی سامی الحاج کی داستان سنیئے-یہ الجزیرہ کے کیمرہ مین اور صحافی ہیں جن کو ۱۵؍دسمبر ۲۰۰۱ء کو صرف اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا کہ انہوں نے اسامہ بن لادن سے انٹرویو لیا ہے اور بعد میں مختلف لرزہ بر اندام کر دینے والی اذیتوں کے ذریعہ ان سے زبردستی یہ اقرار کروایا گیا کہ القاعدہ سے ان کے روابط ہیں، یہ وہی صحافی ہیں جنہوں نے ان ساری اذیتوں کے باوجود باہری دنیا کو گوانتا نامو میں قیدیوں پر ہوئے مظالم سے آگاہ کرایا اور انہیں کی بدولت قرآن کریم کی بے حرمتی کی خبر دنیا کو لگی، گوانتا نامو میں وہ پانچ سال سے زائد عرصہ گزار چکے ہیں لیکن اب تک ٹرائل نہیں ہو پایا ہے- جنوری ۲۰۰۷ء سے یہ بھوک ہڑتال پر ہیں، ان کی صحت روز بروز گرتی چلی جا رہی ہے ، یادداشت کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے لیکن پھر بھی امریکی ظلم و بربریت کے خلاف انہوں نے جنگ کا بگل بجا رکھا ہے-
سامی کہتے ہیں کہ جبری غذا خورانی کے وقت ان کی ناک میں نہایت سختی کے ساتھ ٹیوب لگا دیا جاتا ہے، زبردستی ’’ریسٹرینٹ چیر‘‘ میں ان کو بٹھا کر منہ پر اس طرح ماسک لگا دیا جاتا ہے کہ بولنا مشکل ہو جاتا ہے اور ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں، اس حالت کو دیکھ کر مسلط شحص بولتا ہے میں تمہارے ساتھ ایسا ہی سلوک کروں گا ،ان کے پیشاب میں خون آرہا ہے انہیں کینسر کا خطرہ ہے، شکایت درج کرائے جانے پر ایسے ڈاکٹر کو بھیجا گیا جس کے پاس چیک اپ کے ضروری آلات ہی نہیں تھے، وہ چیک اپ کے بعد کہتا ہے مجھے تمہاری تکلیف کی کوئی پروا نہیں، کینسر کی ہی وجہ سے فیلو پرزنر عبد الرزاق حکمتی کی دردناک موت ہو چکی ہے، سخت سردی کے موسم میں ۱۰ بجے رات میں ایک پلاسٹک کا کمبل دیا جاتا ہے،عبادت و ریاضت ، تسبیح و تہلیل کی مہلت نہیں دی جاتی ہے ، قرآن کریم کے سوا کسی دوسری دینی کتاب کے رکھنے کی اجازت نہیں ہے، اورینج کلاتھ، قرآن کریم، ایک جوڑا سلیپر، ایک بوتل پانی ہی کل متاع کائنات ہے، کچھ قیدی ایسے بھی ہیں جنہیں پانی رکھنے کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے-(دیکھیے اینڈی وارتھنگٹن کا مقالہ: سامی الحاج اے جرنلست آن دی فرنٹ لائن ان گوانتانامو، دی ہندو،۳۰؍اپریل۲۰۰۸ء)
امریکہ کی انسانیت سوز داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، اسلام اور مسلم دشمنی امریکہ کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہے، بے گناہ اور بے قصور افراد کو صرف شبہے کی بنا پر گرفتار کر کے قید خانے میں بھیج دیا جاتا ہے، ابھی حال میں ایسے چھ نوجوانوں کی داستان پر مبنی ایک کتاب نیویارک سے شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے- The Jihad next door: the lackawanna six and rough justice in the age of  ’’ terror وجے پرشاد کا فرنٹ لائن شمارہ ۹؍ مئی ۲۰۰۸ء میں اس کتاب پر شاندار تبصرہ شائع ہوا ہے، ان چھ نوجوانوں کی کہانی اسی تبصرے کے حوالے سے مختصراً سنئے:
۱۹۴۰ء کی دہائی میں لیکاوانا میں دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل فیکٹری تھی جس میں تقریباً ۲۰؍ہزار ملازمین کام کرتے تھے ان میں اکثر آئرلینڈ، پولینڈ اور یمن کے باشندے تھے،۱۹۸۰ کی دہائی میں یہ کمپنی تباہی کا شکار ہو گئی اور نوجوان نسلیں بے روزگار ہو گئیں-  کچھ یمنی نژاد امریکی نوجوان کامل درویش کی جانب مائل ہو گئے جو ۱۹۹۰ میں جاری جہاد سے لوٹا تھا، یہ نوجوان اس کے پاس جا کر بوسینیا کی کہانی بڑی دل چسپی کے ساتھ سنا کرتے، آخر ایک دن کامل نے ان سے بھی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی درخواست کی، وہ نوجوان لاشعوری طور پر تیار ہو گئے اور القاعدہ کے کیمپ الفاروق جو قندھار میں تھا پہنچ گئے، تھوڑی مدت کے بعد ان کی طبیعت اکتا گئی، انہیں وہاں کی دنیا عجیب لگی اور کیمپ چھوڑ کر واپس امریکہ اپنے وطن لوٹ آئے، ایف، بی ، آئی ان نوجوانوں کی تاک میں تھی،۹؍ستمبر ۲۰۰۲ء کو ان چھ نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، انٹلی جنس نے اس حقیقت کی کوئی پروا نہیں کی کہ یہ نوجوان غلطی سے وہاں پہنچے تھے اور امریکہ کے خلاف ان کے کوئی خطرناک عزائم نہیں تھے-
تشنوبہ حیدر ایک سولہ سالہ بنگلہ دیشی دوشیزہ کو صرف اس شبہے کی بنا پر جلا وطن کیا گیا کہ وہ امریکہ کی پہلی خود کش حملہ آور لڑکی ہو سکتی تھی، اور اس شبہے کی تائید میں لفظ ’’Suicide‘‘ کے گرد ایک صفحہ پر بنائے گئے ایک خاکے کو پیش کیا گیا جس کے متعلق ان کے والد حیدر کا کہنا ہے کہ وہ خاکہ ’’مذہب خود کشی کا مخالف‘‘کے موضوع سے متعلق اس کے کلاس نوٹ کا حصہ تھا-
احساس برتری:- 
درحقیقت اس سلسلے میں راز پنہاں یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پا لیسی میں ہی جارجیت ہے اور کسی بھی ملک کی خارجہ پا لیسی در اصل اس ملک کے سیاسی کلچر کی پیداوار ہوتی ہے ، اس کی خارجہ پا لیسی میںجارحیت اس احساس بر تری اور شعور با لا دستی کی بنا پر ہے کہ امریکہ کو ثقا فتی نسلی اور مختلف قسم کا تفوق حا صل ہے -  اور اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ دنیا میں جہاں چا ہے جیسے چاہے اپنی طا قت کا استعمال کرے- اب ذرا مریکہ کی دہشت گردانہ سر گرمیوں سے ہٹ کر دہشت گردی سے ہی جڑے ایک دوسرے اہم پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں، دہشت گردی کے روزبر وز اضافہ سے علم کی ایک نئی شاخ نکل آئی ہے جسے ’’Terrorology ‘‘یعنی علم دہشت گردی کا نام دیا گیا ہے- بر طا نیہ اور امریکہ میں اس سے متعلق خصوصی مطالعہ کرانے والے شعبے قائم ہوگئے ہیں-
۱۱؍۹ سے پہلے تک حالات ایسے نہیں تھے ، امریکہ میں دہشت گردی سے متعلق ۲۰۰۱ء میں صرف ایک سو مقالے شائع ہوئے تھے لیکن ۲۰۰۷ء میںیہ تعداد ۲۳۰۰ ریکارڈ کی گئی -  اب اس موضوع پر مختلف پروجیکٹ کرائے جارہے ہیں اور آہستہ آہستہ مارکیٹ میں ایسے افراد کی بہتات ہورہی ہے جو اپنے آپ کو ٹیر رزم ایکسپرٹ کا نام دے رہے ہیں ، مختلف ممالک نے دہشت گردی کے امور میں تعاون اور ایکسپرٹ ایویڈنس کے لئے ان کی خدمات حاصل کرنی شروع کردی ہے یہ اپنے ماہرانہ مطالعے کی روشنی میں دہشت گردوں کی تشخیص کرتے ہیں اور شہادتیں دیتے ہیں-
اس کا باضا بطہ آغاز امریکہ میں اس وقت ہوا جب ڈاکٹر ریووین پا ز (Reuven Paz)ڈائریکٹر آف پروجیکٹ فار ریسرچ آف اسلامسٹ موومنٹ اینڈ دی انٹر ڈسپلنری سینٹر ،ہر زلیا ،اسرائیل ، اور ڈاکٹر میتھو لیوٹ (Matthew Levit)ممبر آف انٹر نیشنل سینٹر فار پالٹیکل وائے لینس اینڈ ٹیر رزم ریسرچ نے بطور ما ہر امور دہشت گردی اپنی گواہی پیشے کے طور پیش کرنا شروع کیا ، سال گزشتہ ایک بر طانوی مسلمان محمد عاطف صدیق کو انٹرنیٹ سے جڑی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں ماہرین کی شہادت کے ذریعہ ہی مجرم قرار دیا گیا تھا-
اسلوب میں خامی:- 
لیکن جنہیں ایکسپرٹ کہا جارہا ہے ان کے ایکسپرٹا ئز پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ، مختلف قسم کے سوالات کے گھیرے میں ہے ان کی مہارت ، صرف ایک انڈر گریجویٹ قانون کی ڈگری اور انٹرن شپ لے چکا شخص امریکہ کے شعبہ دفاع اور شعبہ انصاف کا مشیر ہے،یہی نہیں بلکہ نا قدین تو ان ما ہرین کے غیر جانب دارانہ کردار کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ماہرین عموماً رائٹ ونگ سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر صہیونی حامی تنظیموں سے اور ایسے میں یہ توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے کہ یہ عام طریقے سے ہٹ کر غیر متعصبانہ انداز میں اپنی ذمہ داری نبھائیں گے ، دہشت گردوں کی شناخت کے سلسلے میں ماہرین کی شہادت ، اس کے معیار اور طریقہ کار پر اپنے شبہے کا اظہار کرتے ہوئے انتھونی گلیز (Anthony Glees)پروفیسر آف انٹلی جنس اینڈ سیکوریٹی سروسز برونیل یونیور سٹی لکھتے ہیں:
''by its very nature terrorism is shrouded in secrecy .... the only way academics can get inside information is if they have extremely close links either to intelligence services or to terror groups , and even then there have to be doubts about its accuracy as intelligence reports are often contradictoty, any work academic does must inevitably be then regarded as researched opinion which I am not all sure meets the standard of evidence and cross-examination required in a court of law "
دہشت گردی اپنی طبیعت کے اعتبار سے ہی راز سر بستہ ہے، امور دہشت گردی کے ماہرین کو اندرونی اطلاع ملنے کی صرف ایک صورت یہ ہے کہ ان کے انٹلی جنس سروسز سے یا دہشت گرد گروپ سے انتہائی قریبی روابط ہوں، اس کے باوجود اس کی صحت سے متعلق شبہ ضرور باقی رہتا ہے کیونکہ بسا اوقات انٹلی جنس کی خبریں با ہم بگریباں ہوتی ہیں-  ماہرین کا کوئی بھی علمی کام یقینا تحقیق سے حاصل شدہ رائے ہی کے زمرے میں آئے گا اور میں اس با بت یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ کورٹ آف لا میں مطلوب ’’شہادت‘‘ اور ’’تفتیش‘‘ کے معیار کے مطا بق ہے-
(جان کریس کا مقالہ:- Just how expert the terror expert witnessesدی ہندو،مئی۲۰۰۸ء)
خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو مہم چھیڑ رکھی ہے اس میں کہیں بھی انصاف ، غیر جانب داری اور شفافیت کا دور دور تک کوئی پتا نہیں ہے بلکہ اس کی یہ مہم عالمی دہشت گردی کی مہم بن چکی ہے ، وہ دہشت گردی کو اور فروغ پانے کا موقع فراہم کررہا ہے، وہ خود مسلسل جرائم پر جرائم کا ارتکاب کرتا جارہا ہے ، پہلے اس نے دہشت گردی کو مذہب اسلام سے جوڑا پھر عراق اور افغانستان کو تاراج کیا ، قیدیوں کو فئر ٹرائل کا حق نہیں مل پا رہا ہے ان کو غیر انسانی طریقے پر زد وکوب کیا جارہا ہے، اور ستم بالا ئے ستم یہ ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کی شناخت میں ان افراد کی مدد لی جارہی ہے جو نہ تو ماہرہیں اور نہ غیر جانب دار ، دہشت گردی کی مہم کے ان سارے کمزور پہلوئو ں نے امریکہ کو شاہرہ عام پر ننگا کردیا ہے، دوسری طرف امریکہ ان ریا ستوں کی غیر مشروط حمایت میں ہمہ وقت لگا رہتا ہے جو دہشت گردی کے کا ر خانے چلا رہی ہیں، وہ اب تک سنگین بین الا قوامی جرم کے بطن سے پیدا ہونے والی خون آشام ریاست اسرائیل جس کے پاس وسیع پیمانے پر تبا ہی کے ہتھیا ر موجود ہیں کے تحفظ کے لئے یو این سیکور ٹی کو نسل میں ۳۹ بار اپنے ویٹو پا ور کا استعمال کرچکا ہے اوراب ایتھوپا کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے کہ وہ صومالی مسلمانوں کو کچل دے-  ایسے میں اگر امریکہ کی خون ریزیوں کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ ہی دنیا کا سب سے بڑا مجرم اور بین الا قوامی دہشت گرد ملک قرار پائے گا لیکن ہے کوئی جو امریکہ کی دہشت گرد ی کو لگام دینے کی جرات کرسکے؟
عرض آخر:-
امریکہ اگر واقعی اپنی اس مہم میں مخلص ہے اور وہ اس مہم میں حقیقی کامیابی دیکھنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے خود اسے معصوموں کی خون ریزی ، بے گناہ افراد کی گرفتاری اور دوسرے صہیونی حامی عزائم سے باز آنا ہوگا، صہیونی طاقتوں کا آلۂ کار بننے سے گریز کرنا ہوگا، اسلامی دہشت گردی کی رٹ لگانا چھوڑنا ہوگا، کیوں کہ اسلام میں ناحق خون ریزی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسے القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے پس منظر کا مطالعہ کرنا ہوگا، اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا، وہ اسباب و علل تلاش کرنے ہوںگے جنہوں نے انہیں مسلح جد و جہد پر مجبور کردیا ہے، کہیں وہ خود اس کے اور دوسرے مغربی استعمار پسند ممالک کے مظالم کا رد عمل تو نہیں-
اگر ان حقائق پر غور و فکر کیا گیا تو پھر پوری دنیا اس کی اس مہم میں شانہ بشانہ شریک ہوگی اور مہم کامیاب ہو کر رہے گی اور اگر ان حقائق کو نظر انداز کردیا گیا تو دہشت گردی کے طوفان کے تھمنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی بلکہ حالات تو اس بات کے غماز ہیں کہ صورت حال بد سے بدتر ہوگی اور پوری دنیا قتل و غارت گری کے جہنم میں جھلس کر خاکستر ہوجائے گی-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔