Saturday 20 January 2018

تفہیم دین کی تلاش میں --- مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے خیالات پرعلامہ سید محمد مدنی میاں کے معارضات اور پھر چند معروضات

0 comments
تفہیم دین کی تلاش میں
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے خیالات پرعلامہ سید محمد مدنی میاں کے معارضات اور پھر راقم کی معروضات
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------------------
تقریباً ۱۵؍سالوں تک (۱۹۴۷ء -۱۹۶۳ء ) جماعت اسلامی کے رکن اور بانی جماعت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے افکار وخیالات کے پرجوش مبلغ، جواب اسی جوش کے ساتھ اس کی تردید میںمصروف ہیں، مولانا وحیدالدین خاں’’ جماعت اسلامی‘‘ کی تاسیس کے پس منظر میں کام کرنے والے حالات وخیالات کا بڑا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے:
’’پچھلی نصف صدی کے دوران میں جن سماجی نظریات کو قبولیت اور برتری کا مقام حاصل ہوا ہے ، وہ وہی نظریات ہیں جو زندگی کے مادی نظام کو درست کرنے اور سیاسی انقلاب برپاکرنے کے لیے اٹھے ہیں ، حتی کہ اب وہی تحریک زندہ تحریک سمجھی جاتی ہے جو اس نہج پر کام کررہی ہو- اس سے متاثر ہو کر قدیم مکاتب خیال کے لوگ بھی اپنے نظریات کی تشریح اسی مخصوص انداز میں کرنے لگے ہیں- ہندوازم اور عیسائیت کاجدید لٹریچر اس کی نمایاں مثال ہے- یہ لے اتنی بڑھی ہے کہ اب مذہب تعمیر آخرت کے بجائے تعمیر دنیا کا عنوان بن گیا ہے-
اگر آپ اس چھائی ہوئی فضا سے متاثر ہوں اور اس کے بعد اسلام کامطالعہ کریں تو یہ عین ممکن ہے کہ اسلامی تحریک کا نقشہ آپ کے ذہن میں ٹھیک اسی طرز پر بننا شروع ہوجائے جو باہر کی دنیا میں آپ دیکھ رہے ہیں- آپ کا ذہن جو نسلی تعلق کی بنا پر پہلے ہی اسلام کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت رکھتا تھا، قدرتی طور پر وہ اسلام کو فکر کی اس سطح پر دیکھنا چاہے گا جو لوگوں کے نزدیک بلند اور مستند سطح ہے اور جس کی ا س حیثیت کو آپ بھی غیر شعوری طور پر تسلیم کررہے ہیں - اس کے بعد جب آپ دیکھیں گے کہ اسلام میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق احکام ہیں- اسلام کی تاریخ میں بر سر اقتدار طبقہ سے لڑائیاں بھی ہوئی ہیں- اسلام نے سیاسی قوت بھی حاصل کی ہے تو ان سب کا مجموعہ آپ کے ذہنی سانچہ میں اسلام کی اس تعبیرکی صورت میں ڈھل جائے گاکہ:
’’اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور انبیا علیہم السلام اس لیے آئے تھے کہ حکومت الٰہیہ قائم کرکے اس صحیح ترین نظام کو عملاً زمین پر نافذ کریں-‘‘
اس تعبیر میں بظاہر کوئی ایک لفظ بھی غلط نہیںہے- یہ بالکل صحیح ہے کہ اسلام کااپنا ایک نظام زندگی ہے -نبی نے حکومت بھی قائم کی ہے- اس نے خدا کے دیے ہوئے قوانین کوزمین پر نافذ بھی کیا ہے -مگر ان اجزا کو جوڑ کر جو مجموعہ تیار کیاگیا ہے، وہ حقیت کے اعتبار سے ویسا ہی ہے جیسے مختلف جانوروں کی ہڈیاں ملا کر ایک نیا ڈھانچہ بنانا اور دعویٰ کرنا کہ یہ ایک تاریخی جانور ہے جواب سے پانچ کروڑ سال پہلے زمین پر چلتا پھرتا تھا-‘‘ (تعبیر کی غلطی ،ص:۲۰۹)
۳۴۴؍صفحات پر مشتمل مولانا وحیدالدین خا ن نے اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں باربار یہی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مولانا مودودی نے دین کے سیاسی پہلو کو اس کا بنیادی پہلو بنادیا ہے اور اس کے تعبدی پہلوکو اس کا جزوی اور ثانوی پہلو-’’اس تشریح کا بالکل قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب اصل بدل گیا- اس تعبیر کے خانے میں آکر دین بحیثیت ’’نظام‘‘ تو بہت ابھر آیا مگر اس کا تعبدی پہلو کمزور پڑگیا- دین کی داخلی حیثیت دب گئی اور دین کی خارجی حیثیت اس کے اوپر چھا گئی-‘‘ (ص :۱۴۲)
فی الواقع مولانا مودودی کا خاص فکری تفرد اجتہاد یہی ہے - سرزمین ہند پرطویل مسلم حکومت کے خاتمے کے بعد انگریزی محکومی میں یہ ذہن بننا کہ اسلام کا اصل کام حکومت الٰہیہ کی تشکیل ہے، کوئی زیادہ قابل حیرت بھی نہیں ہے- مولانا پوری زندگی اپنے قول و عمل اور تحریر وتقریر سے یہی نعرہ لگاتے رہے- جماعت اسلامی اسی نعرے کے زورپر قائم ہوئی- چنانچہ اس کے دستور العمل میں جماعت کا ’’نصب العین ‘‘ درج ذیل فقروں میں لکھا گیا:
’’جماعت اسلامی کا نصب العین او راس کی تمام سعی وجہد کا مقصود دنیا میں حکومت الٰہیہ کا قیام اور آخرت میں رضاے الٰہی کاحصول ہے-‘‘
لیکن بات یہیں تک ختم نہیں ہوجاتی اورنہ صرف اتنا کہہ دینے سے کینوس پر جماعت اسلامی کی پوری تصویر سامنے آتی ہے -جماعت اسلامی کے خمیر میں ایک دوسرا بنیادی عنصربھی ہے جس کو علامہ سید محمد مدنی میاں صاحب نے ان لفظوں میںبیان کیاہے:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اصنام شکن آیتوں کو انبیا شکن، اولیاشکن ،شہدا شکن، اورصالحین شکن بنانے میں مودودی صاحب ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن عبد الوہاب اور ابن عبد الغنی کے سچے جانشین ہیں، جبھی تو اس عبارت میں ’’ابناے مذکورہ بالا‘‘ کی روحیں بولتی نظر آرہی  ہیں-‘‘ (اسلام کا تصورالٰہ اور مودودی صاحب ، ص:۸۳)
مولانا مودودی کی جس عبارت پریہ ریمارک کیاگیا ہے ،وہ تفہیم القرآن ، ۲/ ۵۳۳کی درج ذیل عبارت ہے:
’’اب لامحالہ اس آیت میں الذین یدعون من دون اللّہ سے مراد وہ انبیا،اولیا ،شہدا ، صالحین اور دوسرے غیر معمولی انسان ہیں جن کو غالی معتقدین، داتا، مشکل کشا، فریادرس، غریب نواز، گنج بخش اور نہ معلوم کیا کیا قرار دے کر اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کریتے ہیں-‘‘
مولانا مودودی کے خیالات کے رد میں علامہ سید محمد مدنی میاں صاحب کی تینوں ضخیم علمی کتابیں خصوصیت کے ساتھ جماعت اسلامی کے اسی دوسرے عنصر سے متعلق ہیں-ان میں سے پہلی کتاب ’’اسلام کا تصور الہ اور مودودی صاحب‘‘ دوسو صفحات پرمشتمل ہے- دوسری کتاب ’’اسلام کا نظریہ عبادت اورمودودی صاحب‘‘ ۲۲۴؍صفحات پر مشتمل ہے اورتیسری کتاب ’’دین اور اقامت دین‘‘ ۳۰۴؍ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے، جس کی پہلی اشاعت ۱۹۹۷ء میں ہوئی- اس کے افتتاحیہ نگار مولانا سیف خالد اشرفی نے لکھا ہے :
 ’’مذکورۃ الصدور دونوں کتابیں بالترتیب ۱۹۶۷ء اور ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئیں- مودودی صاحب ان کتب کی اشاعت کے بعد دس برس تک زندہ رہے- کتابیں رجسٹرڈ ڈاک سے ان کی خدمت میں ارسال کی گئیں اور جواب کا مطالبہ کیاگیا مگر ان کی طرف سے سکوت مسلسل کے سوا کسی سرگرمی کا مظاہر ہ نہیں ہوا اور نہ کسی مودودی نواز نے ان کی حمایت میں قلم اٹھانے کی جرأت کی-‘‘
علامہ سید محمد مدنی میاں صاحب کی یہ تینوں کتابیں مولانا مودودی کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ کے جواب میں معرض تحریر میں آئی ہیں، جو محض ۱۱۲؍صفحات پر مشتمل ہے-اس کے علاوہ مودودی صاحب کی دوسری کتابوںمثلاً تفہیم القرآن ، تجدید واحیاے دین، تفہیمات، رسائل ومسائل اور ترجمان القرآن کے بھی ضمنی حوالے آگئے ہیں- مودودی صاحب نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں بالترتیب الٰہ، رب ، عبادت اور دین کا قرآنی مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی ہے - یہ کتاب خود مودودی صاحب کی نگاہ میں بھی بہت اہم ہے، جس کا اظہار انہوں نے خود بھی فرمایاہے، رقم طراز ہیں:
’’اگرچہ میں اس سے پہلے اپنے متعدد مضامین میںان کے مفہوم پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرچکا ہوں لیکن جو کچھ اب تک میںنے بیان کیا ہے ، وہ نہ تو بجائے خود تمام غلط فہمیوں کو صاف کرنے کے لیے کافی ہے اور نہ اس سے لوگوں کو پوری طرح اطمینان حاصل ہوسکتا ہے، کیوں کہ لغت اور آیات قرآنی سے استشہاد کے بغیر لوگ میری ہر تشریح کو میری ذاتی رائے سمجھتے ہیں-‘‘ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، مقدمہ ،ص:۱۰)
مدنی میاں صاحب نے اس کتاب میں مذکورہ چاروں اصطلا حا ت میں سے تین سے متعلق مودودی صاحب کے خیالات او رتحقیقات کا تفصیلی اور تحقیقی وتنقیدی تجزیہ کیاہے-ان کی پہلی کتاب الٰہ سے متعلق ہے ، دوسری میں عبادت کا تجزیہ کیا گیا ہے، جب کہ تیسری کتاب دین سے متعلق ہے -یہ انداز اور اسلوب اس بات کا متقاضی تھا کہ مولانا مودودی نے رب سے متعلق جو اپنے خیالات پیش کیے ہیں ، ایک مستقل تصنیف میں ان کا بھی جائزہ لیا جاتا- نہیں معلوم قرآن کی اس اصطلاح سے متعلق مدنی میاں صاحب کی تصنیف اب تک کیوں سامنے نہ آسکی - اگر وہ بھی آجاتی تو مودودی صاحب کے مطابق قرآن کی چاروں بنیادی اصطلاحوں سے متعلق یہ سلسلہ مکمل ہوجاتا-
’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘میں نیا کیا ہے؟
مولانا مودود ی اپنی اس کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’عرب میں جب قرآن پیش کیاگیا تھا، اس وقت ہر شخص جانتا تھا کہ الٰہ کے کیا معنیٰ ہیں اور رب کسے کہتے ہیں کیوں کہ یہ دونوں لفظ ان کی بول چال میں پہلے سے مستعمل تھے- انہیں معلوم تھا کہ ان الفاظ کا اطلاق کس مفہوم پر ہوتاہے- اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ  اللہ ہی اکیلا الٰہ اور رب ہے اور الوہیت وربوبیت میں کسی کا قطعاً کوئی حصہ نہیں تو وہ پوری بات کو پاگئے- انہیں بلا کسی التباس و اشتباہ کے معلوم ہوگیا کہ دوسروں کے لیے کس چیز کی نفی کی جارہی ہے اور اللہ کے لیے کس چیز کو خاص کیا جارہا ہے- جنہوں نے مخالفت کی یہ جان کر کی کہ غیر الٰہ کو الوہیت و ربوبیت کے انکار سے کہاں کہاں ضرب پڑتی ہے اور جو ایمان لائے وہ یہ سمجھ کر ایمان لائے کہ اس عقید ے کو قبول کرکے ہمیں کیاچھوڑنا اور کیا اختیار کرنا ہوگا- اسی طرح عبادت اور دین کے الفاظ بھی ان کی بولی میں پہلے سے رائج تھے- ان کو معلوم تھا کہ عبد کسے کہتے ہیں، عبودیت کس حالت کا نام ہے، عبادت سے کون سا رویہ مراد ہے اور دین کا کیا مفہوم ہے ، اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ سب کی عبادت کو چھوڑ کر صرف  اللہ کی عبادت کرو اور ہر دین سے الگ ہو کر  اللہ کے دین میں داخل ہوجاؤتو انہیں قرآن کی دعوت کو سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش نہ آئی- وہ سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ تعلیم ہماری زندگی کے نظام میں کس نوعیت کے تغیر کی طالب ہے-
لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصلی معنی جو نزول قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے، بدلتے چلے گئے، یہاں تک کہ ہرایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہوگیا- اس کی ایک وجہ تو خالص عربیت کے ذوق کی کمی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام کی سوسائٹی میں جو لوگ پیدا ہوئے تھے ان کے لیے الٰہ او ررب اور دین اور عبادت کے وہ معانی باقی نہ رہے تھے جو نزول قرآن کے وقت غیر مسلم سوسائٹی میں رائج تھے - ان ہی دونوں وجوہ سے دور آخر کی کتب لغت وتفسیر واکثر قرآنی الفاظ کی تشریح اصل معانی لغوی کے بجائے ان معانی سے کی جانی لگی جو بعد کے مسلمان سمجھتے تھے- مثلاً لفظ الٰہ کو قریب قریب بتوں اور دیوتاؤں کاہم معنی بنادیا گیا، رب کو پالنے اورپوسنے والے یا پروردگار کا مترادف ٹھہرا دیا گیا- عبادت کے معنی پوجا اور پرستش کے کیے گئے -دین کودھر م اور مذہب اور (Religion) کے مقابلے کا لفظ قراردیا گیا-طاغوت کا ترجمہ بت یاشیطان کیا جانے لگا-نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کا اصل مدعا ہی سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہوگیا-‘‘(ص:۸-۹)
مودودی صاحب کی پوری کتاب اسی طرح کی زور بیانی اور عبارت آرائی کا حسین مرقع ہے - جس طرح ایک زبان آور خطیب مجمع پر چھا جاتا ہے اورلوگوں کی نگاہیں حیرت میں کھلی اسے تکتی رہتی ہیں ،باتیںسمجھ میں آئیں توواہ اور نہ آئیں تو بھی واہ واہ کی صدائے تحسین بلند ہوتی رہتی ہے- کبھی خطیب کی زبان لڑکھڑا تی ہے، کبھی جملے غیر مربوط ہوجاتے ہیں اور کبھی سبقت لسانی میں الفاظ کچھ کے کچھ نکل جاتے ہیں، لیکن جوش خطابت اور سرعت بیان سامعین کے ذہن کو ان لغزشوں کی طرف متوجہ ہونے نہیں دیتی- وہ کچھ بھی نہ سمجھیں جب بھی انہیں بہت مزہ آتاہے - بسا اوقات صرف ایک بات واضح رہتی ہے کہ خطیب کامقصد اپنی تقریرسے فلاں پارٹی کا سپورٹ کرنا ہے او راس کی باقی باتیں گو کہ سمجھ میں نہ آئیں لیکن اس کے کمال فن اورزور بیان کی شہادت ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے داد پاتی ہیں- مودودی صاحب کی اس کتاب کے مطالعے کے دوران مجھے بارہا ایسا ہی محسوس ہوا کہ ہم کچھ اسی طرح کے کسی مجمع خطابت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مودودی صاحب اسٹیج پر کھڑے پورے جاہ وجلال کے ساتھ خطابت کے گہر لٹارہے ہیں- بات ہمیں صرف اتنی سمجھ میں آئی کہ مودودی صاحب اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیںبلکہ اسی کو اسلام کا اصل مقصود قرار دینے کے درپے ہیں اور جومسلمان اس سے غافل ہیں، انہیں جھنجھوڑرہے ہیں وہ انہیں غیر اللہ کے اقتدار اعلیٰ سے بغاوت کرنے اور اللہ کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرنے کی دعوت دے رہے ہیں- اور اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتارہے ہیں کہ انبیا واولیا سے توسل واستغاثہ ایمان کے منافی ہے- ان کی پوری کتاب میں مدعایہی ہے گوکہ لفظیات وتعبیرات نئے اور انوکھے ہیں- میری اس بات کی تائید آنے والی سطور سے بخوبی ہوجائے گی-
مودودی صاحب کی مذکورہ عبارت پر ایک جگہ علامہ سید محمد مدنی میاں صاحب نے در ج ذیل چار معارضات قائم کیے ہیں جو دراصل مودودی صاحب کی اس عبارت کے نتائج ہیں:
(۱)امام لغت علامہ زمخشری ، امام لغت علامہ سید شریف جرجانی ، صاحب بیضاوی، صاحب مدارک، صاحب جلالین اور دوسرے مفسرین کا عربیت کا ذوق نہایت ناقص تھا-
(۲) اس پوری جماعت کے خیالات قرآن فہمی کے سلسلے میں ہمیشہ غلط سوسائٹی کے زیر اثر رہے-
(۳) مودودی صاحب نزول قرآن کے تقریباً تیرہ سوبرس بعد پیدا ہونے کے باوجود عربیت کا پورا ذوق لے کر پیداہوئے-
(۴) مودودی صاحب کو زمانہ نزول قرآن کے وقت کی وہ لغت کی کتابیں بھی ہاتھ آئیں جن سے سارے مفسرین بے خبر ہی رہے یا ان کو سمجھ نہ سکے-(اسلام کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب ، ص: ۲۷)
مدنی میاں صاحب ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’ایک طرف تو مودودی صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ ’’بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصلی معنی جو نزول قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے بدلتے چلے گئے -‘‘ دوسری طرف ان کی خاموشی کا حال یہ ہے کہ یہ بھی ظاہر نہیں کیا کہ وہ پہلی کون سی صدی ہے جس صدی سے الفاظ کے معانی میں تغیرات آنے لگے، نیز ان لوگوں کے اسما کیا ہیں جنہوں نے ان تغیرات کی بنیادڈال کر دین کو اس کے اس رخ سے پھیر دیا، جس رخ پہ رسول کریم لگاگئے تھے- اسی طرح ایک طرف ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’دور آخر کی کتب لغت و تفسیر میں اکثر قرآنی الفاظ کی تشریح اصل معانی لغوی کے بجائے ان معانی سے کی جانے لگی جو بعد کے مسلمان سمجھتے تھے-‘‘ مگر دوسری طرف ان کے اخفاے حال کا عالم یہ ہے کہ یہ بھی واضح نہیں کیا کہ بعد کے مسلمان سے کس قرن کے مسلمان مراد ہیں- قرن اول کے یا قرن ثانی کے، قرن ثالت کے یا کسی اور قرن کے، نیز ان سمجھنے والوں کا زبان وادب میں مقام کیاتھا؟ کیا بات تھی کہ ان کے سمجھے ہوئے پر ان کے بعد والوں نے ایسا بھروسہ کرلیا کہ اسی کو معیار تحقیق بنالیا؟ ‘‘ ( ایضا:۲۸)
مولانا مودودی کی مذکورہ عبارت پر علامہ مدنی میاں کے بڑے بھائی سید مثنیٰ انور نے بھی ’’اسلام کا تصور الہ او رمودودی صاحب ‘‘ کے ’’آغاز سخن‘‘ میں بڑا دل چسپ تبصرہ کیا ہے، لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالاتحریر سے کم از کم اتنا تو معلوم ہوگیا کہ مودودی صاحب الٰہ ، رب ، دین اور عبادت کے جن مفاہیم کی اشاعت چاہتے ہیں ان کی تائیدوتصدیق کتب لغت و تفسیر سے نہیں ہوتی اور ان کتابو ں کی موجودگی میں موصوف کے افکار کا ’’ انوکھا پن‘‘ سلامت نہیںرہتا- لہٰذا ضرورت محسوس ہوئی کہ پہلے ان کتب لغت و تفسیر کو’’ دور آخر ‘‘ کی پیدا وار بتا کر مشکوک وغیر معتبر کردیا جائے-اس کے بعد ان کتابوں کے مرتب کرنے والوں کو ’’خالص عربیت کے ذوق کی کمی‘‘ کی وجہ سے ’’اصل معنی لغوی‘‘ سے بے خبروناآشنا کہہ کر مسلمانوں سے بے تعلق بنادیا جائے- اس طرز عمل سے اگر ایک طرف مفسرین، محدثین، فقہا اور علما کا صدیوں کا گراں قدر سرمایہ ’’حباب بر آب‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسری جانب ایک ایسی فضا ہموار ہوتی ہے جہاں مودودی صاحب کے تخمین وظن، نصوص کا درجہ حاصل کریں، جہاں ان کے’’ خالص عربیت کے ذوق‘‘ کا سکہ چلے اور جہاں ان تمام اسلامی افکارسے ان کے براہ راست واقف وبا خبر ہونے کا اعلان جاری رہے ’’ جونزول قرآن کے وقت غیر مسلم سوسائٹی میں رائج تھے-‘‘ یہ بات کچھ کم اہم نہیں کہ مودودی صاحب دور آخر کی قید لگا کر ہمارے اذہان کو ’’دو ر اول ‘‘ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں ، جس کی امتیازی شان ان ہی کے لفظوں میں یہ ہے،’’عرب میں جب قرآن پیش کیاگیا تھا اس وقت ہر شخص جانتا تھا کہ الٰہ کے کیا معنی ہیں اوررب کسے کہتے ہیں ،کیوں کہ یہ دونوں لفظ ان کی بول چال میں پہلے سے مستعمل تھے- انہیں معلوم تھا کہ ان الفاظ کا اطلاق کس مفہوم پر ہوتا ہے-‘‘لیکن یہ دیکھ کر ہماری حیرانی او ربڑھ جاتی ہے کہ اتنا عظیم الشان اور انقلاب آفریں دعویٰ اور دلیل میں نہ کسی کتاب لغت کا حوالہ اور نہ کسی تفسیر کا ذکر، آخر کس کتاب لغت کو معتبر سمجھا جائے اور کس تفسیر کو سر آنکھوں پر رکھا جائے ، اس لیے کہ لغت اور تفسیر کی جس قدر کتابیں آج موجود ہیں وہ سب بقول مودودی صاحب دور آخر کی پیداوار ہیں اور دور اول سے ان کا کوئی ربط وتعلق نہیں-یہاں جس دور اول کی فضیلت بیان کی جارہی ہے ، اس عہد میں تدوین کتب کا تصور ہی نہیں تھا، لہذا کوئی بتائے کہ مودودی صاحب کی معلومات کااصل ماخد کیا ہے؟ (ص:۱۱-۱۲-۱۳)
یہاں پر مولانا مودودی کی درج بالا عبارت پردیا گیا مولانا وحیدالدین خان کا ریمارک پیش کرنا بھی بے محل اور دل چسپی سے خالی نہ ہوگا- خاں صاحب مودودی صاحب کے’’ مقدمہ‘‘ کی اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ اس تمہید کے بعد کتاب میں ان ’’چاروں اصطلاحوں کا مکمل مفہوم ‘‘بیان کیاگیا ہے- مگر یہ تمہید ہی بقیہ کتاب کی صحت کو مشکوک کردیتی ہے ، کیوں کہ قرآنی آیات کے جس مفہوم کے بارے میں یہ اعتراف کیاگیاہو کہ دور اول کے بعد وہ موجودہ صدی میں پہلی بار اخذ کیا گیاہے اور درمیان میں امت کا تحریری سرمایہ اس سے اکثر خالی ہے ، وہ یقینی طور پر اس کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے-‘‘ ( تعبیر کی غلطی ، ص:۱۴۹)
علامہ سیدمحمدمدنی میاں کی تحقیقات وتنقیدات:-
اوپر کی گفتگو سے یہ واضح ہوگیا کہ مودودی صاحب نے کن مقاصد کے تحت او رکس اسلوب میں ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ لکھی ہیں- جیسا کہ میں نے لکھا ہے کہ مودودی صاحب کی پوری تقریر صرف دونکتوں پر گردش کررہی ہے- پہلا نکتہ مسلم سلطنت کے زوال کے بعد اسلامی حکومت کی تشکیل کا خواب ہے، جب کہ دوسرا نکتہ انبیا واولیا سے توسل اور استغاثہ کو خلاف دین وایمان ثابت کرنے کی کوشش دوسری جتنی باتیں ہیںوہ سب برائے وزن شعر- مودودی صاحب کا پہلانکتہ ان حالات وکوائف کی اپج ہے جن میں مودودی صاحب کی فکری تشکیل ہوئی تھی جب کہ دوسرا نکتہ اسی خیال کی تعبیر نو تھا جسے ماضی میں بھی ایک خاص طبقہ پیش کرتا رہا ہے-
مودودی صاحب کے ۱۱۲؍صفحات کے جواب میں علامہ مدنی میاں صاحب نے ۷۲۸؍ صفحات پر علم وتحقیق کے جوہر بکھیرے ہیں- اس سے انداز ہوتا ہے کہ مدنی میاں صاحب نے مودودی صاحب کی کتاب کو بہت زیادہ اہمیت دے دی ہے -ویسے اس سے یہ فائدہ ضرور ہوگیاکہ اس بہانے بالواسطہ طور پر جماعت اسلامی کے پورے لٹریری سرماے کااجمالی احتساب ہوگیا ہے جواپنے آپ میں ایک مستقل کام ہے - اس کے ساتھ بالواسطہ طور پر تفہیم دین کا ایک توانا مواد جمع ہوگیاہے جس کی وجہ سے ان کتابوںنے بجائے خود مستقل تصنیفات اور اسلامی علمی ذخیرے میں گراں مایہ اضافے کی حیثیت حاصل کرلی ہے- ان کتابوں کا اگر مودودی صاحب کی کتاب کے ساتھ موازنہ کیاجائے تو مودودی صاحب کی کتاب کو ادبی اور خطابی کہنا پڑے گا جس میں علمی رنگ بھی ہے جب کہ مدنی صاحب کی یہ کتابیں علمی اور تحقیقی نوعیت کی ہیں جن میں ادبی رنگ بھی پایا جاتا ہے - اسی طرح مودودی صاحب کی کتاب ان کی فکر زرخیز کی فصل تازہ ہے جب کہ مدنی میاں صاحب کی کتابیں اسلاف امت کے متوارث فہم دین اور قدیم فکر اسلامی کی تشریح وتعبیر ہیں- مدنی میاں صاحب کی ان تینوں کتابوں کی ایک مشترک خصوصیت یہ ہے کہ ان کی ترتیب تقریباً اسی نہج پر ہے جس پر مودودی صاحب کی کتاب ہے یعنی پہلے ہر اصطلاح کی لغوی تحقیق اور اس کے بعد چند ذیلی عناوین کے تحت متعلقہ مباحث کا جائزہ -مدنی میاں صاحب نے اکثر مزید عنوانات کو باندھا ہے جو مودودی صاحب کے ہیں او رپھر کچھ اپنی طرف سے بھی عنوانات قائم کرکے متعلقہ مسائل پر گفتگو کردی ہے- اب ذیل میں ان میں سے ہرایک کتاب کی تحقیقات وتنقیدات کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
اسلام کا تصور الٰہ اور مودودی صاحب:-
(۱) یہ کتاب ’’لغوی تحقیق‘‘ سے شروع ہوتی ہے جیسا کہ مودودی صاحب نے الٰہ پر اسی طرح گفتگو کی ہے- لیکن دونوں کی ’’لغوی تحقیق ‘‘ میں جو جلی فرق ہے وہ یہ ہے کہ مودودی صاحب نے کسی کتاب لغت کا حوالہ دیے بغیر ہی تمام لغوی گتھیاں سلجھا دی ہیں جب کہ مدنی میاں صاحب کو اس کام کے لیے مصباح اللغات ، صراح ، منتخب اللغات، تبیان، منتہیٰ الارب ، قاموس ، بیضاوی ، مدارک او راکلیل جیسی کتب لغت وتفسیر کا سہارا لینا پڑا- یہی حال بالعموم دوسری اصطلاحوں کا بھی ہے -اسی سے دونوں کی کتابوں کے علمی وادبی رنگ کا بھی انداز ہ کیا جاسکتاہے-
(۲)مدنی میاں صاحب نے کتب لغت وتفسیر کے تفصیلی حوالوں سے یہ ثابت کیاہے کہ الٰہ کا مادہ ا-ل-ہ یا و-ل-ہ ہے ، جب کہ مودودی صاحب نے الٰہ کے مادے کے سلسلے میں اپنی لغوی تحقیق صرف اسی فقرے میں مکمل فرمادی ہے : ’’اس لفظ کا مادہ ال ہ ہے-‘‘
(۳) مدنی میاں صاحب مودودی صاحب کی لغوی تحقیق پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’آپ کی حیرت کی انتہا نہ ہوگی جب آپ یہ ملاحظہ فرمائیں گے کہ مودودی صاحب نے تمام ماخذوںمیں’’ لاہ یلیہ لیھا ولاھا‘‘ کو بھی شمار کیا ہے ، حالاں کہ نہ لاہ کا مادہ ا، ل، ہ  ہے او رنہ الٰہ اس سے مشتق ہے- کسی پنج گنج او رعلم الصیغہ پڑھنے والے معمولی طالب علم سے دریافت کرلیجیے وہ بھی کہہ دے گا کہ لاہ  در اصل لیہ تھا جو تعلیل کے بعد لاہ ہوگیا-‘‘ (ص:۳۵)
(۴) آگے لکھتے ہیں:
’’مودودی صاحب نے الٰہ کے معنی اور اس کے ماخذوں کے معانی کے مابین مناسبت معنوی کی تشریح کے لیے چار مقدموں کی تشکیل کی ہے، جس میں نمبر ۲ ونمبر ۳ کا اکثر حصہ الٰہ او ر لاہَ کے معنوں کے مابین مناسبت کی توضیح میں ہے او رظاہر ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا کہ لاہَ، الٰہ کا ماخذ نہیں تو مقدمہ نمبر ۲ونمبر ۳ کی پوری عمارت زمین پر آرہی- اب اگر اس مقدمہ پر مزید بحث ونظر نہ کی جائے جب بھی کافی ہے،  اس لیے کہ جس بنیاد پر اس عمارت کی تعمیر کی گئی تھی جب وہ بنیاد ہی نہ رہی تو پھر عمارت کہاں سے رہے گی- کاش کہ میں اس کو مودودی صاحب کا سہو قرار دے سکتا- لیکن میرے سامنے اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن ہے- یہ کیسا سہو کہ کتاب کے چار ایڈیشن بازار میں آگئے او رآنکھ نہ کھلی- ویسے بھی ہم اس بنیاد کو سہوکیسے تسلیم کرسکتے ہیں جس پر ایک عمارت تعمیر کی گئی ہو-‘‘ (ص:۴۰)
(۵) مدنی میاں صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’مودودی صاحب اور مودودیت نواز تمام حضرات کی خاص توجہ در کار ہے - لاہَ ، الٰہ کی نہیں بلکہ لفظ  اللّٰہ کی اصل ہے -‘‘(ص:۴۱) پھر یہ لکھا ہے کہ اللہ کی اصل کے حوالے سے بیضاوی نے جن چا راقوال کو پسند کیا ہے ان میں ایک لاہَ  بھی ہے-
(۶) مودودی صاحب الہٰ کی لغوی تحقیق فرماتے ہوئے آگے لکھتے ہیں :
’’ ان تمام معانی مصدریہ پر غور کرنے سے معلوم کیاجاسکتا ہے کہ الہ یا لہ الھٰۃ کے معنی عبادت (پرستش) اور الٰہ کے معنی معبود کس مناسب سے پیدا ہوئے-‘‘(ص:۱۱)
اس پر سیدمدنی میاں صاحب کا ریمارک پڑھیے اور ان کی ژرف نگاہی کو داد دیجیے-
’’مودودی صاحب نے اس فقرے کو تحریر فرماتے وقت غالباً اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ وہ اَلہَ یا لہ الھۃ کے ماخذوں کو شمار نہیں کرارہے ہیں بلکہ الہٰ کے ماخذوں کا احصا فرمارہے ہیں اور الٰہ کے جملہ ماخذوں میں اَلہ یالہ الھۃکو بھی ایک ماخذ کی حیثیت سے تحریر کیاہے…… مودودی صاحب کی اس عبارت کا انداز بالکل اس سے ملتا جلتا ہے کہ کہا جائے ’’ان تمام معانی مصدریہ پر غور کرنے سے معلوم کیاجاسکتا ہے کہ اَلَہَ اذا تحیر کے معنی حیرانی وسرگشتگی اورالٰہ کے معنیٰ معبود کس مناسبت سے پیدا ہوئے-‘‘ اگر اس عبارت کو اپنے سیاق و سباق کے لحاظ سے مہمل قرار دیا جاسکتا ہے تو اس عبارت کی بھی اہمال سرائی میں کسی شک کی کیا گنجائش ہے جو مودودی صاحب نے تحریر کی ہے؟‘‘(اسلام کا تصور الٰہ ، ص:۴۴)
(۷)مودودی صاحب الٰہ کی معنوی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’پرستش کا تصور میرے ذہن میں صرف اسی حالت میں پیدا ہوسکتاہے جب کہ کسی کی شخصیت یا اس کی طاقت یا اس کی حاجت روائی واثر اندازی کی کیفیت پر راز کا پردہ پڑا ہوا ہو-‘‘( قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ص: ۱۲)
سیدمدنی میاں صاحب اس عبارت کو سیاق وسباق کے ساتھ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ اس وقت تک کسی کو الٰہ بنایا نہیں جاسکتا جب تک کہ بنانے والا اس کو اپنے گمان میں فوق الا دراک معنی میں حاجت روا، پناہ دہندہ، سکون بخش ، بالا تر ، الحاصل فوق الادراک اقتدار واختیار کا مالک نہ سمجھ لے- اب مودودی صاحب کی اسی کتاب کے اسی مضموان کی عبارت ذیل کو بھی ملاحظہ کرلیجیے-
’’ا ن آیات میں الٰہ کاایک مفہوم اور ملتا ہے جو پہلے مفہومات سے بالکل مختلف ہے -یہاں فوق الطبیعی اقتدار کا کوئی تصور نہیں ہے-‘‘ 
(اسلام کا تصور الٰہ او رمودودی صاحب، ص:۱ ۵-۵۲)
(۸)مودودی صاحب نے حاجت روائی کو دوخانوں میں بانٹا ہے -پہلی جوفوق اسباب ہو اور دوسری جو تحت اسباب ہو - 
اس پرعلامہ مدنی میاں فرماتے ہیں :
’’مخلوق سے پہلی قسم کی حاجت روائی کے عقیدے کو وہ اسے الٰہ بنانا قراردیتے ہیں جب کہ دوسری قسم کو ان آیات سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں جن میں غیر اللہ سے استمداد کی نفی کی گئی ہے-
اس سلسلے میں میرے خیال میں اتنی گزارش کافی ہے کہ مخلوقات سے پہلی قسم کی حاجت ر وائی کی نفی کے لیے مودودی صاحب نے جن آیات کو پیش کیاہے، ان کے با ہمی عموم و اطلاق میں کوئی ایسی تخصیص وتقئید نہیں جس سے یہ اشارہ ہی ہوسکے کہ دوسرے قسم کے حاجت روا اس حکم سے مستثنیٰ ہیں……اور اگر مودودی صاحب کے سامنے کوئی ایسی نص قطعی ہو جس میں حاجت روائی کی کسی قسم کو مخلوقات کے لیے ثابت کیاگیاہو اور دوسری قسم کی اس سے نفی کی گئی ہو تو اس کو پیش کرنا چاہیے تھا- اس سوال کا مودودی صاحب کی طرف سے یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ وہ آیات گو اپنے اندر عموم اور اطلاق رکھتی ہیں لیکن ان کو دوسری آیتوں سے ’’جن میں مخلوق کی حاجت روائی کا صراحتہً ثبوت ہے‘‘ مخصوص کردیا گیا ہے- لہٰذا ماتحت الادراک توانائی والوں کو حاجت روا کہہ سکتے ہیں -گویا وہ آیات‘‘ مخصوص منہ البعض ‘‘ ہیں - میں عرض کروںگا کہ اس تخصیص میں اگر کوئی مضائقہ نہیں تو پھر اس تخصیص کے بعد اس تخصیص میں کیا مضائقہ ہوسکتا ہے جواہل حق بتاتے رہے ہیں کہ قرآن کریم نے بعض ایسی شخصیتوں کے حاجت روا ہونے کی تصریح کی ہے جو اپنے محتاج کے نزدیک مافوق الادراک توانائیوں کے مالک تھے- لہذا الٰہی توانائیوں اور غیر الٰہی طاقتوں کے درمیان فوق الادراک یا تحت الادراک کی تفریق غیر صحیح ہے -بلکہ دونوں قسم کی توانائیوں میں فرق کرنے کی سب سے آسان ، واضح اورمناسب ترین صورت یہ ہے کہ  اللہ حقیقی حاجت رواہے، اس کی توانائیاں ذاتی ہیں، کسی کی مرہون منت نہیں،سب کی حاجت روائی در حقیقت اسی کی حاجت روائی ہے- اس لیے کہ سب اسی کی عطا کردہ توا نائیوں سے حاجت روائی کرتے ہیں -‘‘ (اسلام کا تصور الٰہ اور مودودی صاحب ، ص: ۵۶-۵۷-۵۸)
(۹)مودودی صاحب نے کتب تفسیر پر چوٹ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصلی معنی جو نزول قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے، بدلتے چلے گئے یہاں تک کہ ہرایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہوگیا…دور آخر کی کتب لغت و تفسیر و اکثرقرآنی الفاظ کی تشریح اصل معنی لغوی کے بجائے ان معانی سے کی جانے لگی جو بعد کے مسلمان سمجھتے تھے- مثلاً لفظ الٰہ کو قریب قریب بتوں اور دیوتاؤں کا ہم معنی بنادیا گیا-‘‘(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، ص:۸-۹)
علامہ مدنی میاں مولانا مودودی کی برہمی کی اصولی تفہیم فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’قرآن کریم کے بعض الفاظ ایسے بھی ہیں جن کے معنیٰ ومراد کے تعین سے پہلے یہ دیکھ لینا ضروری ہے کہ جس آیت کریمہ میں یہ مذکور ہیں، ان کا تخاطب کس سے ہورہا ہے ، وہ کس کے بارے میں نازل کی گئی ہے- موقع ومحل کے بدلنے سے ایک ہی لفظ کے مختلف معنی مراد ہوسکتے ہیں…… اب رہ گیا سوال کہ کس آیت میں الٰہ کا کیامعنیٰ ہے؟ اور پھر اس سے کیا مراد ہے؟ اس کا شان نزول اور استعمال کے موقع ومحل کو سمجھ کر مفسرین نے کردیا ہے- مثلاً قرآن کریم میں ہے واتخذوا من دون  اللّٰہ اٰلھۃ یہ آیت چوں کہ ان کفار کے متعلق نازل ہوئی ہے جو بت پرست تھے- (وہ بت خواہ ملائکہ کے نام سے موسوم کردیے گئے ہوں یا کسی اور کے نام سے ) اس لیے متعین ہوگیا کہ اس آیت مذکورہ میں اٰلھۃ اصنام ہی ہیں- لہذا اب اس کی تشریح وتفسیر اصنام ہی سے کی جائے گی اور اصنام کے سوا کچھ اور مراد لینا کلام کی تحریف کہی جائے گی-‘‘
 (اسلام کا تصورالٰہ اور مودودی صاحب ، ص:۶۶-۷۰)
اس بحث کو بہت ہی تحقیق تفصیل سے اور متعدد مثالوں کی روشنی میں پیش کرنے کے بعد علامہ مدنی میاں صاحب لکھتے ہیں:
’’لیکن مودودی صاحب بھلا اس دیانت تحقیق پر کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں ، جن کے مشن کا پورا زور اسی پر ہے کہ وہ ان آیات کو جو خاص کر بتوں کے لیے نازل کی گئی ہیں ، ان کو انبیا واولیا پر چسپا ں کردیں-‘‘ (ایضا،ص:۷۱)
(۱۰) مودودی صاحب کا خیال ہے کہ کسی مخلوق کو سمیع و بصیر سمجھنا اور عالم اسباب پر اس کی فرماں روائی تسلیم کرنا اس کو الٰہ بنانا ہے-
 (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں صفحہ نمبر ۱۴-۱۵)
اس پر علامہ مدنی میاں صاحب نے عقلی ونقلی گفتگو فرماتے ہوئے ایسی دس احادیث وآثار پیش کیے ہیں جن میں بندوں کی غیر حسی سماعت و بصارت کاثبوت اور عالم اسباب پر فرماں روائی کے واقعات کا ذکر ہے- اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’ان سارے واقعات کے علاوہ بیماروں کو شفا دینا،طعام قلیل کو کثیر بنادینا، مستجاب الدعوات ہونا، حیوانات کی طاعت وکلام اور ان کا سجدہ مثلاً اونٹ کی شکایت اور سجدہ، بھیڑ یے کی شکایت اور طاعت ، شیر کی طاعت ، نباتات کا کلام وطاعت اورسلام وشہادت ، جمادات کی طاعت اور تسبیح وسلام وغیرہ وغیرہ جن سے کتب احادیث وسیر بھری پڑی ہیں-‘‘ (ایضا: ص:۱۰۴)
یہاں قرآنی شواہد مثلاً انسان کے ذریعے مردے زندہ کرنا، بیمار کو شفا دینا، پلک جھپکتے ہزاروں میل کی مسافت طے کرنا اور اس طرح کے درجنوں واقعات بھی پیش کیے جاسکتے ہیں جن میں ایمان کے دعوے کے ساتھ شک کی گنجائش ممکن ہی نہیںہے-
تصورالٰہ سے متعلق مباحت پر مدنی صاحب کی تنقیدات کی یہ چند جھلک ہیں -تفصیل کے لیے پوری کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے-
اسلام کا نظریۂ عبادت اورمودودی صاحب:-
(۱)مودودی صاحب نے عبادت کا لغوی معنی ’’طاعت مع الخضوع‘‘ قرار دیا ہے اور لسان العرب کے حوالے سے اس کے مشتقات کے اور معنی بھی لکھے ہیں اور پھر اس کے بعد لکھتے ہیں-
’’اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مادہ عبد کا اساسی مفہوم کسی کی بالادستی وبرتری تسلیم کرکے اس کے مقابلے میں اپنی آزادی وخود مختاری سے دست بردار ہوجانا، سرتابی ومزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہوجاناہے- یہی حقیقت بندگی اور غلامی کی ہے -‘‘ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، ص: ۸۲-۸۳)
علامہ مدنی میاں صاحب نے یہاں پر ’’لغوی تحقیق‘‘ کے بجائے ’’لفظی تحقیق‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے اور حاشیے میں اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ’’لفظی تحقیق کے عنوان کے تحت لغوی تحقیق کے ساتھ ساتھ عبادت کے اس اصطلاحی معنی کی تحقیق بھی شامل کی جاسکتی ہے جو اصطلاح شرع کے پیش نظر اہل اصطلاح لفظ عبادت سے مراد لیتے ہیں-‘‘ مدنی میاں صاحب نے بھی عبادت کے معنی ’’از روئے لغت ’’طاعۃ مع الخضوع ‘‘ ہی قرار دیا ہے - پھر بیضاوی ، حاشیۂ بیضاوی ، جلالین ، حاشیۂ جلالین ، کشاف، مدارک وغیرہ کے حوالوں سے اس کا اصطلاحی معنی اقصی غایۃ الخضوع والتذلل آخری درجے کی فروتنی قرار دیا ہے - اس ضمن میں انہوں نے قرآن کے دوسرے الفاظ مثلاً الصلوٰۃ وغیرہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی کی بھی تحقیق فرمائی ہے اور ان میں فرق کو بتاتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ قرآن نے کس طرح عرب میں پہلے سے موجود الفاظ کو اپنی خاص اصطلاح میں استعمال کیا ہے او ریہ بھی واضح کیا ہے کہ مثلاً صوم وصلوٰۃ کے صرف لغوی معنی مراد لیے جانے لگیں اور ان کے اصطلاحی معنی سے صرف نظر کر لیاجائے تو کس طرح شریعت بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گی- مدنی میاں صاحب نے بتایاہے کہ قرآن میں لفظ عبادت اطاعت کے معنی میں بھی مستعمل ہواہے لیکن وہ استعمال، شرعی اصطلاح کے اعتبار سے معنی مجازی میں استعمال ہے- مدنی میاں صاحب نے یہ تحقیق بھی فرمائی ہے کہ الفاظ کب اپنے اصل معنی میں استعمال ہوں گے اور کب ان سے ان کے مجازی معنی مراد لیے جائیں گے-اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’لفظ عبادت کا ایک لغوی معنی ہے اور ایک اصطلاحی معنی - لغت میں جہاں عبادت کا معنی کھلے لفظوں میں پرستش بتایا گیا ہے وہیں اس کی تشریح طاعۃ مع الخضوع سے بھی کی گئی ہے- ا س کے علاوہ صلہ اور متعلق کے پیش نظر دوسرے معانی بھی بتائے گئے ہیں- لیکن اصطلاح شرع میں اس کا صرف ایک معنی ہے جس کوفارسی میں پرستش اورہندی میں پوجا کہاجاتاہے- لہٰذاا ب کتب شریعت میں جہاں جہاں اس لفظ کا استعمال کیا جائے یا اہل شریعت جب بھی اس لفظ کو بولیں تو وہاں پر ستش کے سوا کچھ اور مراد لینا تحقیق نہیں تحریف ہے-‘‘(اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب، ص: ۲۳-۲۴)
مدنی میاں صاحب اپنی لفظی تحقیق کو مکمل کرتے ہوئے افسوس کے ساتھ لکھتے ہیں :
’’ان تمام تفصیلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ میں عبادت کی مودودی تشریحات دیکھی جائیں تو اس میں ایک کمی کا شدید احساس ہوتاہے کہ اس میں عبادت کے اصطلاحی معنی کی وضاحت تو بڑی چیز اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا گیا ہے -‘‘ (ایضا، ص: ۲۶)
(۲) مولانا مودودی لکھتے ہیں:
’’عربی زبان میں عبودۃ ، عبودیۃ اور عبدیۃ کے اصل معنی خضوع اور تذلل کے ہیں- یعنی تابع ہو جانا رام ہوجانا، کسی کے سامنے اس طرح سپرڈال دینا کہ اس کے مقابلے میں کوئی مزاحمت یا انحراف وسرتابی نہ ہواور وہ منشا کے مطابق جس طرح چاہے خدمت لے-‘‘
 (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، ص: ۸۱)
مودودی صاحب کی اس عروس فکر کی نقاب کشائی مدنی میاں صاحب کے خامۂ گرہ کشا نے جس خوب صورتی سے کیا ہے وہ صرف اسی کا حصہ ہوسکتا ہے -یہاں مدنی میاں صاحب کی ژرف نگاہی اور دقت نظر کو بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے -لکھتے ہیں:
’’کیا مودودی صاحب یا مودودی نواز حضرات اس عبارت مذکورہ کو سامنے رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دینے کی زحمت گوارہ کریں گے:
(۱) خضوع وتذلل کے معنی تابع ہوجانا ، رام ہوجانا، کہاں سے ہاتھ آیا ؟ 
(۲) کیاعاجزی ، خاک ساری اور فروتنی فرماں برداری کے مرادف ہے؟
حقیقت حال یہ ہے کہ خضوع وتذلل کے معنی تابع ہوجانا اور رام ہوجانا نہیں،بلکہ اس کا اصل معنی عاجزی ، انکساری ، فروتنی اور خاک ساری کرنا اور سر فگندہ ہوجاناہے- اگر طاعت اور خضوع کا ایک ہی معنی ہوتاتو پھر عبادت کی تشریح الطاعۃ مع الخضوع سے نہ کی جاتی- لسان العرب کی اس تشریح نے بتادیا کہ طاعت و فرماں برداری اور ہے اور خضوع اورتذلل اور-بنیادی اصطلاحیںمیں، ص:۱۹پر لکھتے ہیں:
’’العبادۃ الطاعۃ مع الخضوع عبادت اس طاعت کو کہتے ہیں جو پوری فرماں برداری کے ساتھ ہو-‘‘
معلوم نہیں کہ اگر لفظ اطاعت ، طاعت کا ترجمہ ہے تو فرماں برداری کس لفظ کا ترجمہ ہے اور اگر لفظ فرماں برداری ، لفظ طاعت کا ترجمہ ہے تو پھر لفظ اطاعت کی زیادتی کی ضرورت کیاتھی؟ نیز بے چار ے خضوع نے کیا قصور کا تھا جس کوبے ترجمہ ہی چھوڑ دیا گیا؟ کہیں ایسا تونہیں کہ لفظ فرماں برداری کو ، لفظ خضوع کا ترجمہ کیا گیاہو؟ مودودی صاحب جیسے خالص عربیت کا ذوق رکھنے والوں سے یہ کوئی بعید بات بھی نہیں-‘‘ ( اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب، ص: ۳۰-۳۱)
(۳) عبادت کی لغوی تحقیق کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے مودودی صاحب نے لکھا ہے :
’’ اس تشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مادۂ عبد کا اساسی مفہوم کسی کی بالادستی وبرتری تسلیم کرکے اس کے مقابلے میں اپنی آزادی وخود مختاری سے دست بردار ہوجانا، سرتابی ومزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہوجانا ہے، یہی حقیقت بندگی اور غلامی کی ہے-‘‘عبادت کی یہ تشریح  اس جملے پر ختم ہوتی ہے-
’’رہے باقی دوتصورات (بندگی وغلامی - اطاعت و فرماں برداری -مصباحی) تووہ دراصل عبدیت کے ضمنی تصورات ہیں، اصلی اور بنیادی نہیں-‘‘ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ص:۸۲-۸۳)
اس پر مدنی میاں صاحب فرماتے ہیں:
’’دیکھا آپ نے ! آغاز کلام میں جس تصور کو عبدیت کا اصلی وبنیادی تصور کے طور پر پیش کیاگیا تھا اور حقیقت میں جو عبدیت کا اصلی وبنیادی تصور بھی ہے وہ اب ضمنی ہوگیا اور جو تصور ان تصورات کے بعد دوسرے خیالات کی آمیزش سے پیدا ہوگیا تھا وہ اب اصلی وبنیادی نہ ہونے کے باوجود اصلی وبنیادی ہوگیا    ؎
وحشت میں ہراک نقشہ الٹا نظر آتا ہے 
مجنوں نظرآتی ہے لیلیٰ نظرآتا ہے‘‘
(اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب، ص: ۵۰)
(۴) مولانا مودودی نے تفہیمات(۱/۳۹) میں لکھاہے:’’جس قدر لوگ کسی حکومت کے حدودمیں رہتے ہیں اور اس کے قوانین کی پابندی کرتے ہیںان کے متعلق ہم کہا کرتے ہیں کہ وہ فلاں حکومت کی فرماں برداری واطاعت کررہے ہیں اگر ہم ان الفاظ کی جگہ مذہبی اصطلاح استعمال کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کی بندگی وعبادت کررہے ہیں-‘‘
 اس پر علامہ مدنی میاں حدود کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میری سابقہ تحریر وں نے اس حقیقت کو واضح کردیاہے کہ عبادت وپرستش میں اصطلاح شرع میں اختلاف زبان کے سوا کوئی فرق نہیں - دونوں کی حقیقت میں ’’انتہائی درجہ کی فروتنی‘‘ داخل ہے - صرف کسی کی اطاعت اس کی عبادت وپرستش نہیں - غور فرمایے اگر کسی کی اطاعت ہی کا نام اس کی عبادت ہوتا تو پھر اطیعوا الرسول کے الفاظ اس قرآن میں نہ ملتے جو ذات خداہی کو مستحق عبادت قراردے رہا ہو-‘‘
 (اسلام کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب ، ص:۵۲)
(۵) علامہ مدنی میاں صاحب نے ایک عنوان قائم کیا ہے ’’مودودی صاحب کی پریشان خیالیاں‘‘ اس کے تحت وہ لکھتے ہیں:
’’مودودی صاحب کی عقل پرستی نیزان کے جذبۂ فریب دہی نے انہیں کافی حد تک تضاد بیان بنادیا ہے، جس کی چند مثالیں گزرچکی ہیں- انہیں مثالوں میں ایک اس کا بھی اضافہ فرمالیجیے، بندگی کی تعریف میں وہ فرماتے ہیں:
’’بندگی کے معنی ہیں کسی بالاتر قوت کی بڑائی تسلیم کرکے اس کی فرماں برداری واطاعت کرنا-‘‘ (تفہیمات ، اول ، ص:۲۸)ظاہر ہے کہ اس تعریف کی رو سے بندگی ایک امر اختیاری ہے جس سے امرونہی دونوں متعلق ہوسکتے ہیں-لیجیے اب دوسری تعریف سنیے:
’’بندگی یعنی قانون فطرت کی ٹھیک ٹھیک پیروی اور اس سے منحرف نہ ہونا-(تفہیمات ، اول ، ص:۵۳)
دیکھا آپ نے ص: ۳۸ میں جوچیز اختیاری تھی، ص: ۵۳ تک پہنچتے پہنچتے اضطراری وغیر اختیاری ہوگئی- اسی طرح بنیادی اصطلاحیں میں ص: ۱۰۸سے لے کر ص: ۱۱۱ تک عبادت لفظ مشترک ہے جس کے پانچ معانی ہیں ان میں تین یہ ہیں (۱) بندگی و غلامی (۲) اطاعت (۳) پرستش لیکن تفہیمات ، اول ، ص:۳۸وص ۳۹ میں بندگی واطاعت دو الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک شے کی دو تعبیریں ہیں - تفہیمات اول : ص۵۳ میں بندگی اور پرستش دو مد مقابل کی چیزیں ہیں الغرض بندگی کو پرستش کا قسیم قرار دینے میں یعنی مد مقابل بتانے میں بنیادی اصطلاحیں اور تفہیمات دونوں متحد ہیں مگر جب تفہمیات اول ، ص: ۴۹ دیکھیے گا تو یہ جملہ نظرآئے گا کہ پرستش دراصل بندگی کی فرع ہے - اسی سے ملتی جلتی بات ص:۳۸ پر بھی ملتی ہے یعنی بندگی وپرستش ایک دوسرے کی قسیم ومدمقابل نہیں -
غور فرمائیے! جب اس قدر پریشان خیالیوں اور تضاد بانیوں سے سابقہ پڑجائے تو کس کو صحیح مانا جائے او رکس کو غلط؟ کس پر گفتگو کی بنیاد رکھی جائے اور کس کو نظر انداز کردیا جائے ؟ اب مودودی صاحب ہی سے کوئی پوچھے کہ ان کے جملہ بیانات میں کون بیان صحیح ہے ؟‘‘(اسلا م کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب، ص:۷۱-۷۲)
مدنی میاں صاحب کی کتاب اسلا م کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب کا ہر صفحہ تحقیقات ومعارضات کا اعلیٰ نمونہ ہے-ہر سطر دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے- جی چاہتا ہے کہ مثالوں پر مثالیں دیتے چلے جائیں مگر ہاے رے شکوہ تنگ دامانی !
دین اور اقامت دین:-
(۱) مودودی صاحب نے دور آخر کی ’’کتب لغت وتفسیر‘‘ کا نقص بیان کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’دین کو دھرم اور مذہب اور (Religion) کے مقابلے کا لفظ قراردیا گیا-‘‘
’’یہی حال دین کا ہے کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے کا مطلب صرف یہ سمجھا جاتاہے کہ آدمی ’’مذہب اسلام‘‘ قبول کرلے اور ہندو، عیسائی یا یہودی نہ رہے-‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودودی صاحب دین اور مذہب میں فرق کے قائل ہیں - اسی لیے علامہ مدنی میاں صاحب نے دین اورمذہب کی تحقیق بہت ہی تفصیل سے قاموس، اقرب الموارد ، اور منتہی الارب وغیرہ سے کی ہے او ریہ ثابت کیا ہے کہ ان دونوں لفظوں میں از روے لغت کوئی فرق نہیں ہے- فرماتے ہیں:
’’ہاں ان کے مابین اگر کوئی فرق ہے تو وہ محض اعتبار ی ہے یا از روئے استعمال ہے - از روئے لغت ہر دین مذہب ہے اور ہر مذہب دین ہے- مودودی صاحب کو اس مقام پر چاہیے تھا کہ وہ دین اسلام اور مذہب اسلام کے فرق کو محسوس کرانے کے لیے مثال کے طور پر فرماتے کہ فلاں فلاں امور دین اسلام میں تو ہیں مگر مذہب اسلام میں نہیں ہیں اور فلاں فلاں امور مذہب اسلام میں ہیں مگر دین اسلام میں نہیں ہیں-‘‘ (دین اور اقامت دین ، ص:۳۹)
(۲) قرآن میں جگہ جگہ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کا حکم دیاگیا ہے - مودودی صاحب بھی اس پر زور دیتے ہیں لیکن اخلاص فی الدین کا مفہوم ان کے نزدیک یہ ہے :
’’اللہ کے لیے دین کو خالص کرنے کامطلب یہ ہے کہ آدمی حاکمیت ، فرماں روائی ، حکم رانی اللہ کے سوا کسی کی تسلیم نہ کرے اور اپنی اطاعت وبندگی کو اللہ کے لیے اس طرح خالص کردے کہ کسی دوسرے کی مستقل بالذات بندگی واطاعت اللہ کی اطاعت کے ساتھ شریک نہ کرے-‘‘(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ص:۱۰۴)
مودودی صاحب کی اس نکتہ آفرینی سے مدنی میاں صاحب کو اتفاق نہیں ہے - اب اس پر ان کی نکتہ سنجی دیکھیے:
’’دین کے خالص کرنے کا یہ معنی بھی مودودی صاحب کے زر خیز دماغ کے پیداو ار ہے -اس تعریف کا نقص اسی سے ظاہر ہوجاتاہے کہ اگر بالفرض کوئی انسان اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت وفرماں روائی تسلیم نہ کرے اور صرف خدا ہی کی مستقل بالذات اطاعت وبندگی کرے تو اس تعریف مذکور کی رو سے اس کا شمار مخلصین میںہوگا-حالاں کہ ابھی وہ اپنے مذکورہ عقیدہ و عمل کے سبب صرف مومن ہوا ہے- کسی نظریہ اور کسی عمل میں اخلاص کی صورت یہ ہے کہ وہ نظریہ یا وہ عمل صرف رضائے الٰہی کے لیے ہو اور اس کا محرک و داعی صرف انقیاد وامتثال امرہو ، اس کو اپنانے میں ریا یا سمعہ کا دخل نہ ہو……مودودی صاحب نے جو تعریف کی ہے وہ دین میںاخلاص کی تعریف نہیں بلکہ دین پر ایمان کی تعریف ہے او رظاہر ہے کہ ایمان اور شے ہے اور اخلاص اور شے - اگر یہ دونوں دوچیزیں نہ ہوتیں تو مومنین کو اخلاص کا امر نہ دیا جاتا-‘‘( دین اور اقامت دین ، ص: ۱۴۳)
(۳)مودودی صاحب لکھتے ہیں:’’چوتھی آیت میں دین اسلام کے پیرؤ ں کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لو جب تک فتنہ یعنی ان نظامات کا وجود دنیا سے مٹ نہ جائے ، جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے اور پورا نظام اطاعت وبندگی اللہ کے لیے خالص نہ ہوجائے-‘‘(بنیادی اصطلاحیں، ص: ۱۱۱)
آیت کریمہ وقاتلو ھم حتیٰ لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للّٰہ (الانفال، :۳۹) کی تفسیر وتحقیق کرتے ہوئے مدنی میاں صاحب نے یہ واضح کیا ہے کہ مودودی صاحب کے مذکورہ بالا خیالات کئی وجوہ سے غلط ہیں:
(۱لف) معتبرتفسیروں سے یہ ثابت ہے کہ یہاں مشرکین عرب سے جنگ کرنے کی بات کی گئی ہے جن پر نبی کریم ﷺ کی دعوت کے بعد اتمام حجت ہوچکاتھا - اس حکم کو عام کردینا تو بالواسطہ طور پر یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام پوری دنیا میں جنگ چاہتا ہے ، جو مستشرقین کا الزام ہے-
(ب) حوالوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس آیت میں ’’فتنۃ‘‘ سے مراد مشرکین عرب کا کفرو شرک ہے نہ کہ ساری دنیا کا باطل نظام-
(ج) اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس آیت پر رسول اور اصحاب رسول نے پورے طور پر عمل نہیں کیا کیوں کہ انہوں نے پوری دنیا سے جنگ نہیں کی اور یہ ایک جسارت ہے-سوالات سے بچتے ہوئے صرف انہی مثالوں پر اکتفا کررہاہوں-
راقم کی معروضات:- 
مولاناابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘میں اپنی افتاد طبع کے مطابق مذہب کے سیاسی پہلو کو بہت نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے اور باطل حکومتوں اور نظاموں کی ماتحتی کو توحید فی الالوھیت والربوبیت کے منافی، غیر اللہ کی عبادت اور دین کی خلاف ورزی بتایا ہے - انبیا واولیاسے استمداد واستغاثے کوبھی مولانا اسی خانے میں رکھتے ہیں- انہوں نے اپنے اس دعوے پر متعدد قرآنی آیات سے استشہاد کیا ہے لیکن یہ استشہاد ایسا ہے جس کی تائید کتب تفسیر ولغت سے نہیں ہوتی- اسی لیے انہوں نے کتاب کے ’’مقدمہ‘‘ میں سب سے پہلے کتب تفسیرو لغت کو عہد نزول قرآن میں الفاظ قرآن کے جو مفاہیم تھے ان سے بے واسطہ لکھ کر غیر معتبر ٹھہرا دیا ہے- اس طرح انہوں نے اصطلاحات اربعہ الہ ، رب، عبادت، اور دین کے جو معنی متعین کیے ہیں وہ صرف ان کی طبع زاد ہیں جن کی تائید انہوں نے تفاسیر و لغات سے چشم پوشی کرتے ہوئے اپنی فہم کے سہارے قرآنی آیات سے لی ہے-پھر اس پر ادیبانہ تقریریں کی ہیں اور جذبات کی رو میں کہیں سے کہیں چلے گئے ہیں -
قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں میں مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصلی معنی جو نزول قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے، بدلتے چلے گئے، یہاں تک کہ ہرایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہوگیا-‘‘ (ص:۸) اور ’’نتیجہ یہ ہوا ہے کہ قرآن کا اصل مدعا ہی سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہوگیا-‘‘ (ص:۹)
 مودودی صاحب نے اس کتاب کے ذریعے اصطلاحات اربعہ کے مفاہیم کی توسیع کرنے اور ان کے صحیح معنی متعین کرنے کی کوشش کی ہے - ان کو شکوہ ہے کہ ’’الہ کو قریب قریب بتوں اور دیوتاؤں کا ہم معنی بنادیا گیا-‘‘ (ص:۹) اس معنی کی تصحیح وتوسیع کرتے ہوئے مودودی صاحب نے بتایا ہے کہ ’’اگر میں پیاس کی حالت میں یا بیماری میں خادم یا ڈاکٹر کو پکارنے کے بجائے کسی ولی یا کسی دیوتا کو پکارتا ہوں توضرور اس کو الٰہ بنانا اور اس سے دعا مانگنا ہے-‘‘ (ص: ۱۵)
علامہ سید محمد مدنی صاحب نے اس بحث کو اپنی کتاب ’’اسلام کا تصورالٰہ اور مودودی صاحب‘‘ (۸۹-۱۰۷) میں بڑی تفصیل سے پیش کیاہے اور اولیاء الشیطٰن کی بجائے اولیاء الرحمن سے استغاثہ واستمداد کو تاریخ وسیرت کے معتبر حوالوں سے ثابت کیا ہے- یہاں میں صرف اتنا کہوں گا کہ مودودی صاحب نے لفظ الٰہ کی کوئی نئی توسیع نہیں فرمائی ہے بلکہ ان سے پیشتر دوسرے ’’بزرگ‘‘ مثلاً شیخ ابن عبدالوھاب اور شیخ اسماعیل دہلوی وغیرہ فرماچکے ہیں اور یہ بھی بتا چکے ہیں کہ اولیا اور انبیا سے توسل و استغاثہ کے قائل اطراف عالم کے مسلمان صدیوں سے مشرک ہوچکے ہیں- اللّٰہم ھدایۃ الحق-
مودودی صاحب نے خدا کے حضور کسی کو اپنا شفیع ٹھہرانے کوبھی اسے الٰہ بنانے کے ہم معنی قرار دیا ہے لیکن اس بات پر جب ان کو اطمینان قلب حاصل نہ ہواتو فوراًہی یہ حاشیہ لگادیا :
’’یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سفارشیں دو قسم کی ہیں- ایک وہ جو کسی نہ کسی نوع کے زوراثر پر مبنی ہو، اور بہر حال منوا کر ہی چھوڑی جائے- دوسرے وہ جو محض ایک التجا اور درخواست کی حیثیت میں ہو اور جس کے پیچھے کوئی منوالینے کا زور نہ ہو-پہلے مفہوم کے لحاظ سے کسی کو شفیع یا سفارشی سمجھنا اسے الٰہ بنانا اور خدا میں اللہ کا شریک ٹھہرانا ہے اور قرآن اسی شفاعت کی تردید کرتاہے- رہا دوسرا مفہوم ، تو اس کے لحاظ سے انبیا، ملائکہ، صلحا، اہل ایمان اور سب بندے دوسرے بندوں کے حق میں شفاعت کرسکتے ہیں اور خدا کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ کسی کی شفاعت قبول کرے یا نہ کرے-‘‘
(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، ص:۱۷)
کاش مودودی صاحب استغاثہ واستمداد کی بھی اسی طرح کی کوئی تقسیم فرمادیتے توکم از وہ اہل ایمان دائرہ اسلام سے باہر نہ نکلتے،جو حضرت عیسی علیہ السلام سے اپنے مردے کو زندہ اور بیماروں کو شفایاب کرارہے تھے جس کی شہادت قرآن میں ہے اور اسی طرح اصحاب رسول کا ایمان بھی مشکوک ہونے سے بچ جاتا جو قحط سالی یا اور کسی مصیبت میں تنگ آکر مسجد کا رخ کرنے کی بجائے بارگاہ رسالت کا رخ  کرتے تھے اورنبی اپنی دعا سے بارشیں برسادیتے تھے-ایسی شہادتیں بخاری اور دوسری کتب حدیث میں موجود ہیں-
اگر مودودی صاحب ایسا کردیتے تو ان کی بات پوری طرح بامعنی ہوجاتی اور اگروہ اس نوع کی قرآنی اور حدیثی شہادتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے تو پھر انہیں یہ لکھتے ہوئے سوبار سوچنا پڑتا کہ ’’جو شخص خداو ند اعلیٰ کے ماننے کے باوجود اس کے سوا دوسروں کی طرف اپنی حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے ، اس کے اس فعل کی علت بھی صرف یہی ہے کہ خداوندی کے اقتدار میں وہ ان کو کسی نہ کسی طرح کا حصہ دار سمجھ رہا ہے -‘‘ (ص:۱۹)
’’الوہیت کے باب میں املاک‘‘ کا خلاصہ مودودی صاحب نے ان لفظوں میں کیاہے :’’ پس الوہیت کی اصل روح اقتدار ہے ، خواہ وہ اقتدار اس معنی میں سمجھا جائے کہ نظام کائنات پر اس کی فرماں روائی فوق الطبیعی نوعیت کی ہے یا وہ اس معنی میں تسلیم کیاجائے کہ دنیوی زندگی میں انسان اس کے تحت امر ہے اور اس کا حکم بذات خود واجب الاطاعت ہے-‘‘ (ص:۱۹، ۲۰)
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو نظام کائنات پر ایک نوع کی فرماں روائی تھی، اس کی شہادت قرآن دے رہا ہے - ایسے میں اس عقیدے کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں بھی ’’بالذات ‘‘کی قید لگادی جائے جیسا کہ مودودی صاحب نے غیر اللہ کے احکام کے واجب الاطاعت ہونے میں ’’بذات خود ‘‘ کی قید لگائی ہے، جس کی وجہ سے باطل حکومتوں کی اطاعت کو غیرا للہ کی الوہیت ثابت کرنے کی جو انہوں نے کوشش کی ہے اس کی پوری عمارت از خود زمیں بوس ہوگئی ہے- کیوں کہ کوئی مومن باطل اقتدار کو بالذات واجب الاتباع نہیں سمجھتا بلکہ مجبوری میںاسے گوارا کرتا ہے اور اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ گراں بار نہیں فرماتا-(بقرہ:۲۸۶)
بالذات اور بالواسطہ کی قید اگر مودودی صاحب ہر جگہ ملحوظ خاطر رکھ لیتے تو شاید ان سے اختلاف کرنے کی کسی کو نہ ضرورت ہوتی اور نہ جرأت او راہل نظر ان سے اختلاف کرنے کی بجائے ان کے اس قول کو آب زر سے لکھ کر آویزاں کردیتے -
’’جب حقیقت میں کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے تو تمہارا ہر فعل جو تم دوسروں کو الٰہ سمجھتے ہوئے کرتے ہو اصلاغلط ہے ،خواہ دعامانگنے یا پناہ ڈھونڈنے کا فعل ہو یاخوف ورجا کافعل ہو یا سفارشی بنانے کا فعل ہو یا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کا فعل ہو-‘‘
لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب الٰہ کی توضیح میں مودودی صاحب کی وہ باتیں جو اس بات سے متضاد ہیں ، محوکر دی جاتیں -
مودودی صاحب کی ترتیب کے مطابق قرآن کی دوسری بنیادی اصطلاح’’رب کو پالنے او رپوسنے والے یاپروردگار کا مترادف ٹھہرادیاگیا- ‘‘ اس لیے مودودی صاحب اس لفظ کے مفہوم کی توسیع اور قرآنی معنی کی تعیین کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
’’قرآن ربوبیت کو بالکل حاکمیت اور سلطانی (Sovereignty) کاہم معنی قرار دیتا ہے اور رب کا یہ تصو ر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے کہ وہ کائنات کا سلطان مطلق اور لاشریک مالک وحاکم ہے-‘‘
مودودی صاحب نے اس تحقیق کے لیے جو جاں فشانی کی ہے اس کاکوئی واضح مقصد اور حاصل میر ی سمجھ میں نہیںآیا- کیوں کہ اگر رب واقعی حاکم اور سلطان کاہم معنی ہے تو مودودی صاحب کو اس کا ترجمہ قرآن میںہر جگہ حاکم یا سلطان سے کرنا چاہیے تھا جب کہ وہ اکثر مقام پر رب ہی کا استعمال کرتے ہیں اس کی جگہ کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کرتے- وہ قل اعوذ برب الناس ملک الناس الٰہ الناسکا ترجمہ ’’کہومیں پناہ ڈھونڈتا ہوں اس کی جو انسانوں کارب،  انسانوںکا بادشاہ اور انسانوں کا معبود ہے‘‘(بنیادی اصطلاحیں، ص:۷۹) سے کرتے ہیں - یہاں ان کی مجبوری یہ ہے کہ ملک الناس کا فقرہ جب موجود ہے ، تو نہ رب کا معنی بھی سلطان یا بادشاہ کردیتے تو ترجمہ عجیب ہوجاتااور اس کا اثر آیت پر بھی پڑتا ہے کہ جب ملک الناس اوررب الناس ایک ہی ہیں تو دونوں کو ایک جگہ ایک ساتھ کیوں لایا گیا ؟ مودودی صاحب انے اپنی گلو خلاصی کے لیے یہاں رب کا ترجمہ رب ہی کردیا لیکن لگے ہاتھوں ان مترجمین ومفسرین پر مفاہیم قرآن کو محدود کرنے کا الزام لگادیا جو ’’پروردگار ‘‘کو رب سے قریب سمجھ کر رب کا ترجمہ پر وردگار کرتے ہیں- سوال ہے کہ ان مفسرین یا مترجمین نے یہ کب انکار کیا ہے کہ جورب الناس اور رب العالمین ہے وہ’’ کائنات کا سلطان مطلق او رلاشریک مالک وحاکم نہیں ہے-‘‘اورجب انکار نہیں کیا تو پھرمودودی صاحب کی ان جدید تحقیقات ومعارضات کاحاصل کیاہے؟
کتب لغت وتفسیر کے ذریعے قرآنی الفاظ کے محدود ومبہم کیے جانے کی داستان بیان کرتے ہوئے مودودی صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’عبادت کے معنی پوجا اور پرستش  کے کیے جانے لگے-‘‘ لیکن افسوس کے مودودی صاحب تلاش بسیار اور تحقیق طویل کے باوجود پوجا اور پرستش کی جگہ کوئی دوسرا لفظ نہیںلاسکے جس کو عبادت کا معنی قراردیا جاتا- انہوں نے جو کچھ کہا ہے وہ صرف عبادت کے مفہوم وتصور کی تحقیق کی ہے- اگر وہ تمام مفاہیم و تصورات جوعبادت میں ہیں اگر پوجا اور پرستش میں بھی موجود ہوں جیسا کہ مدنی میاں صاحب نے اپنی کتاب ’’اسلام کا نظریہ عبادت اور مودودی صاحب‘‘ میں ثابت کیا ہے  تو پھر مودودی صاحب کا احتجاج بے معنی ہے -ان کا احتجاج صرف اسی صورت میں درست ہوتا جب وہ خود ’’عبادت کے معنی پوجا اور پرستش ‘‘ نہ بتا کر کچھ اور بتادیتے -لیکن افسوس کہ وہ ایسا نہ کرسکے-
مودودی صاحب کو اس بات کا بھی بڑا دکھ ہے اور اس کے لیے وہ ارباب لغت اور مفسرین کے شاکی ہیں کہ ’’دین کو دھرم اور مذہب اور (Religion) کے مقابلے کا لفظ قراردیا گیا۔‘‘ لیکن یہاں بھی وہ کوئی دوسرا لفظ نہیں دے سکے جسے صحیح معنوں میں ’’دین کا مقابل‘‘ کہا جاتا- نہ انہوں نے یہ بتانے کی زحمت کی کہ اگر دین،مذہب دھرم اور Religion کے مقابلے کا لفظ نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ انہوں نے یہاں پر جو کچھ کیاہے وہ صرف یہ دین کی معنویت کا بیان ہے لیکن صرف دین کی معنویت بیان کردینے سے دین مذہب ،دھرم اور Religion میںفرق نہیںہوجاتا اور نہ اس سے دین کا صحیح مقابل لفظ ملتا ہے - اسی لیے بجا طور پر مدنی میاں صاحب نے یہ سوال اٹھایاہے کہ ’’مودودی صاحب کو اس مقام پر چاہیے تھا کہ وہ دین اسلام اور مذہب اسلام کے فرق کو محسو س کرانے کے لیے مثال کے طور پر فرماتے کہ فلاں فلاں امور دین اسلام میں تو ہیں مگر مذہب اسلام میںنہیں ہیں اور فلاں فلاں امور مذہب اسلام میںہیں مگر دین اسلام میں نہیں ہیں- ‘‘(دین او راقامت دین ، ص: ۳۹)
یہاں برسبیل تذکرہ یہ لکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ علامہ سید محمد مدنی میاں صاحب نے دین اور مذہب میں تو فرق نہیں کیا ہے لیکن انہوں نے دھرم کو غالبا اس کی’’ ہندیت‘‘ کی وجہ سے محدود معنی کاحامل بتا یا کہ ’’بسا اوقات مذہب کو اس معنی میں بھی مجازاً استعمال کیا جاتا ہے-‘‘ (ایضا،ص:۴۰)مجھے ڈر ہے کہ کوئی ہندی بھکت حضرت مدنی میاں صاحب کے ہی لفظوں میں یہ احتجاج نہ کردے کہ
’’مدنی میاں صاحب کو اس مقام پر چاہیے تھا کہ وہ مذہب اسلام اور اسلام دھرم کے فرق کو محسوس کرانے کے لیے مثال کے طور پر فرماتے کہ فلاں فلاں امور مذہب اسلام میں تو ہیں مگر اسلام دھرم میں نہیں ہیں اور فلاں فلاں امور اسلام دھرم میں ہیں مگر مذہب اسلام میں نہیں ہیں-‘‘
سچائی یہ ہے کہ دین، مذہب ، دھرم اورReligionمیں زبان اور مادے (Root Word)کا تو فرق ہے لیکن بطور اصطلاح پوری دنیا میں یہ الفاظ اختلاف زبان کے ساتھ ایک ہی مفہوم میںاستعمال ہوتے ہیں- ایسا ہوسکتا ہے کہ مادے کے اعتبار سے جو وسعت دین میں ہے وہ مذہب میں نہ ہو، جو مذہب میں ہے وہ دھرم میں نہ ہو اور جو دھرم میں ہے وہ Religionمیں نہ ہو، لیکن یہ تمام الفاظ ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہوتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو تفریق کرنے والے حضرات کو محسوس مثالوں سے اپنی بات واضح کرنی چاہیے، نیز دین کا ترجمہ ہندی اور انگریزی میں کن الفاظ سے کرنا مناسب ہے اس کی بھی نشاندہی کرنی چاہیے-باتیں اور بھی ہیں ،مگر میں نے صرف بنیادی اوراصولی بحث کو سامنے رکھ کر اپنی معروضات پیش کردیں- قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات اور اسلام کا تصور الٰہ او رمودودی صاحب ، اسلام کا نظریۂ عبادت او رمودودی صاحب اور دین اور اقامت دین کے مطالعے کے بعد کئی ایک ضمنی مسائل و مباحث ذہن میں پیدا ہوئے ہیں جن کا ذکر مستقبل میں کبھی کیا جائے گا-
*****
---------------------------------------------------------
مصادر ومراجع:
(۱)قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، طبع ششم، مئی ۱۹۹۴ ء مرکزی مکتبہ اسلامی،دہلی(۲) اسلام کا تصورالٰہ اور مودودی صاحب، طبع دوم، ۱۹۹۶ء ،شیخ الاسلام اکیڈمی ، بھاگل پور،(بہار)(۳) اسلام کا نظریۂ عبادت اور مودودی صاحب ، طبع دوم ۱۹۹۶ء شیخ الاسلام اکیڈمی ، بھاگل پور (بہار)(۴) دین اور اقامت دین ، طبع اول اکتوبر ۱۹۹۷ء شیخ الاسلام اکیڈمی ، بھاگل پور(بہار)(۵) تعبیر کی غلطی، طبع ثالث مکرر، ۲۰۰۲ء مکتبہ الرسالہ، نئی دہلی-

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔