Tuesday 23 January 2018

عالم اسلام میں بیداری مخالف سرگرمیاں

0 comments
عالم اسلام میں بیداری مخالف سرگرمیاں
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------------
بیداری یعنی خواب یا غفلت سے باہر آنا، خواہ فردکا ہو یا قوم کا،یہ تو سب ہی تسلیم کرتے ہیںکہ مسلم امت ایک زمانے سے غفلت میں ہے،لیکن اب بہت سے اہل نظر نے یہ لکھنا اور بولنا شروع کردیاہے کہ آج یہ امت بیدار ہورہی ہے، ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں ایک جگہ اس بیداری کی حقیقت و نوعیت کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’اب ہمیںاس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ ہمارے صہیونی دشمن کی کامیابی صرف اس کی بین الاقوامی خفیہ سازشوں کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ بعض سادہ لوح سمجھ رہے ہیں، اس خیال میں ایک حد تک سچائی ضرور ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن کے پیچھے عمل پیہم کی ایک مسلسل  تاریخ ہے،اسرائیل میں اس کا سنٹرل پوائنٹ ہے،جسے دوسرے ملکوں کے یہودیوں کا حیرت ا نگیز اتحادسہارا دیے ہوئے ہے۔اور اس کے برعکس عرب دنیا میں ایک طرف فرقہ وارانہ معرکے اور خانگی لڑائیاں ہیں تو دوسری طرف سیاسی سوداگروں اور خارجی کلچر پر شیخی بگھارنے والوں کا گروہ ہے، آج اس صورت حال سے آگہی اور اس خطرات کا ادراک بعض عرب قائدین و مفکرین کے لیے ایک اہم موضوغ بحث بنا ہوا ہے اور وہ اس پر مکمل جرأت و صاف گوئی سے اظہار خیال کررہے ہیں،او ر بس اتنی سی بات ہمیںیہ ماننے پرمجبور کرتی ہے کہ ایک عرصہ تک خسارے اٹھانے اور حیرت میں ڈوبے رہنے کے بعد عرب دنیا میں اب نئے دور کا آغاز ہورہا ہے، اس لیے مشرق کو دوبارہ بیدار کرنے اور امت کو خواب غفلت سے باہر لانے کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ سارے دماغ،سارے بازو اور سارے قلم اپنی مخلصانہ کو ششیں کرگزریں،تاکہ ہماری قوم نقشہ عالم پر پھر سے اپنا صحیح مقام حاصل کرسکے جو تاریخ میں کبھی اسے حاصل تھا‘‘ (التلمود:تاریخہ و تعالیمہ ص: ۱۰)
بیداری در اصل احساس مظلومیت کے جاگ اٹھنے کا نام ہے،تاریخ میں جب بھی کسی قوم میں یہ احساس بیدار ہوا ہے اس کے نئے دور کاآغاز ہوگیا ہے،لیکن یہ دور بڑی افرا تفری کا ہوتا ہے، نازک ہوتا ہے، اس میں آدمی پیر بڑھاتا ہے تو آگے کھائی آتی ہے، سنبھلنے کی کوشش کرتا ہے تو پھسلن سے اس کے پیر ڈگمگانے لگتے ہیں،غصہ ہوتا ہے توگرپڑتا ہے، زخمی ہوجاتا ہے،یہ آہ اور ہائے وائے کرنے کا وقت ہوتا ہے،دشمن سے لڑو تو نقصان ،نہ لڑو تو نقصان، جب کوئی قوم اس صورت حال سے دوچار ہوتی ہے تو اس کا ہر فرد پریشان ہو اٹھتا ہے۔ کبھی دشمن کو گالیاں دیتا ہے تو کبھی اپنے نا اہل قائدین کو کوستا ہے، ہرکوئی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ احساس بے بسی اس کے اعضاء شل کردیتا ہے، تنہا کچھ بھی نہیں کرسکتا ،ادھر اجتماعی سطح پر ، نظم و نسق کا فقدان،آلات حرب و ضرب کا فقدان، صالح قیادت کا فقدان، اتحاد و اتفاق کا فقدان ، اور اس طرح کے بہت سے مسائل ہوتے ہیں،لیکن ہوتا یہ ہے کہ اچانک انہی مسائل سے کوئی حل نکل آتا ہے، ایسا حل جو کسی منظم پلاننگ اور باضابطہ منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں ہوتا،یہ اتفاق ہوتا ہے، یہ قدرت الٰہی کا کرشمہ ہوتا ہے یا تاریخی انقلاب ہوتا ہے ،اس پس منظر میں اگر مسلمانوں کا جائزہ لیں تو ان میں بیداری کی نئی لہر ہمیں ضرور محسوس ہوگی۔
لیکن آج کا المیہ یہ ہے کہ اس بیداری کو دبانے کی سخت کوششیں ہورہی ہیں، امت کے شیر کو پھر سے سلانے کی تدبیریں کی جارہی ہیں، مختلف بھول بھلیوں میں اسے الجھا یاجا رہا ہے،خوش فہمیوں کی جنت میں اس کوخوش وخرم اور بے فکر رکھنے کی تیاری ہورہی ہے ،مختلف نظریات اور فلسفوں کو پڑھا کر، دور جدید کے تقاضوں اور ضرورتوں کے ناقابلِ فہم فلسفے کو سمجھاکر ’’امت واحدہ‘‘ کے تصور کو مسلمانوں کے ذہن وفکر سے نکالنے کی سازش ہورہی ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ’’ ایک جسم اور ایک ہاتھ‘‘ سے تشبیہ دے کر ان میں اتحاد کی جوروح ڈالی تھی، آج مسلم دلوں میں قومیت کے مختلف بتوں کو سجا کر اس روح کو دل مومن سے نکالنے کی بھرپور جدوجہد ہورہی ہے۔ دوسری طرف مسلمان باہم دیگر ایسے ا لجھے ہوئے ہیں کہ ان کے بیچ کی خلیج وسیع تر ہوتی جارہی ہے، ہمیں ان کا گلہ نہیں جواتحاد اور اتفاق کی بات نہیں کرتے لیکن جو اتحاد کے نعرے لگا کر آج اپنا گلا خراب کررہے ہیں، ان کے منافقانہ رویوں اور متعصبانہ حرکتوں پر ان سے ہمیں انصاف کا سوال ضرور کرنا ہے۔
آج مسلمانوں کے اندر جو یہ احساس پیدا ہوا ہے، اسے پروان چڑھاتے رہنے کی ضرورت ہے، اگر یہ شرارہ دل مسلم سے بجھ گیا تو پھر دنیا کی کوئی دوسری طاقت اسے سنبھالانہیں دے سکتی، اس واقعہ کا ادارک ان دانشوروں کو بھی ہونا چاہیے جن کے پاس مرتے مسلمانوں کو تلقین صبر کرنے کے علاوہ کوئی او رعلمی وفکری منصوبہ نہیں رہ گیا ہے’’درس امن و مساوات‘‘ اور ’’جیو اورجینے دو‘‘ کا اصول بھی اسی وقت کار آمد ہوتاہے جب کسی فرد یا قوم کے لیے پر امن اور باوقار زندگی گزارنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں، آج مسلمان اس پوزیشن میں ہیںہی نہیں کہ اپنی فکر ، اپنی تہذیب وثقافت اور اپنی روایات واقدار کے ساتھ آزادانہ جی سکیں انہیں تو ابھی جینے کی آزادی چاہیے اور انہیں یہ آزادی ان کا وہی احساس دلائے گا جو ان کے سینے میں پروان چڑھ رہا ہے لیکن اس احساس کا تعلق ’’حبل اللہ‘‘سے ہونا چاہیے، مسلمان جب بھی ’’ حبل الناس‘‘ کا سہارا لیںگے، سنبھلنے کی بجائے مزید گرتے چلے جائیںگے، لیکن آج دانستہ یاغیر دانستہ طور پر اس احساس کو دبایا جارہا ہے، اس لیے امت کے باشعور طبقہ کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے کہ وہ اس چنگاری کو بجھنے نہ دے، میںیہ نہیں کہتا کہ اس احساس کو لے کر امت کے نوجوان ’’اِرہابیّت‘‘ پر اتر آئیں،لیکن میں اس کی ضرور وکالت کرتاہوں کہ احساس بیداری کے ساتھ ’’حل وسط‘‘ Middle Solutionکی تلاش جاری رکھیں او رجان نچھاور کرکے نہ سہی جان کی سلامتی کے ساتھ ہی ایسا کر گزرنے کی راہ ہموار کریں جس سے امت اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کرسکے ، یاکم از کم بساط عالم پر اپنے باوقار و جود کو ثابت کرسکے۔ 
ذیل میں ہم ان چند اہم عوامل کا ذکر کرتے ہیں جومسلمانوں میں پیدا ہونے والی اس بیداری کودبارہے ہیں یا ختم کررہے ہیں یاجن سے اس بیداری کے اثرات موثر نہیں ہو پارہے ہیں۔
(۱) بیداری کا انکار:-
 اس بیداری کے خلاف سب سے اہم مہم، اس بیداری کے وجود کا ہی کلیتہً انکار ہے، یا سیت میں ڈوبا ہوا ایک بڑا طبقہ اس نظریے کو پیش کرکے پوری امت کو یاسیت میں مبتلا کردینا چاہتا ہے۔ اس طبقے کی ہمنوائی وہ گروہ بھی کررہا ہے جو دانستہ طور پر مسلمانوں کے اندرون سے ’’امت واحدہ‘‘ کے تصور کومٹادیناچاہتا ہے، تاکہ دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے کے درد میں شریک نہ ہوسکیں،اس قسم کے لوگ دو طرح سے مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں، اول یہ کہ عہد استعمار کے بعد ملکوںکی سرحدیں متعین ہوگئیں اور وطن کو قومیت کا معیار قرار دے دیا گیا۔ ا ب وطن کے علاوہ مذہب یا کسی دوسری چیز کو قومیت کا معیار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔اس لیے ہر انسان اپنے علاوہ صرف اپنے وطن سے محبت کرسکتا ہے۔مذہب، زبان اور رنگ ونسل کی بنیاد پر غیر ملکیوں کے ساتھ راہ ورسم نہیںرکھ سکتا۔ لیکن یہ خیال اس لیے غلط ہے کہ آج قومیت کی حد ملکی سرحدوں تک ہی محدود نہ رہی بلکہ عالمی برادری (International Community) تک پہنچ گئی۔ آج زبان ،مذہب کلچر ہر چیز کو عالمیایاجارہا ہے، یہ فکر زیادہ سے زیادہ اس حد تک قابل قبول ہوسکتی ہے کہ سرحدوں کی تعیین کے بعد کسی کو اپنے ملک کے ساتھ غداری نہیں کرنی چاہیے۔رہا غیر ملکی ہم مذہبوں یا ہم زبانوں سے محبت ودوستی تو یہ کسی طرح بھی جرم نہیں، امریکہ اور لندن میں اردو بستیوں کا قیام اور امریکی و برطانوی یہودیوں کااعلانیہ طور پر اسرائیلی یہودیوں کی اعانت کرنا عالمی سطح پر ہم مذہبوں اور ہم زبانوں سے تعلق خاطر کو جواز فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسرے اس طور پر مسلمانوں کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ پچھلے دو سو سالوں میں مسلمانوں میں بیداری کی درجنوں تحریکیں اٹھیں اور سب ہی ناکام ہوگئیں ، اس لیے مسلمانوں میں بیداری لانے کی بات یا اس بیداری کے مفیدہونے کا گمان سراسر غلط ہے۔ اس کی حقیقت خواب و خیال سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔
در اصل اس فکر کے حامل افراد بیداری کو محسوس کرنے کی بجائے اسے سر کی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ گو آنکھ سے دیکھے بغیر کسی بھی شیٔ کا وجود ان کے نزدیک فقط موہوم ہے حالاں کہ اگر وہ تدبر کے ساتھ حالات کو  سمجھنے کی کوشش کریں تو انہیں سرکی آنکھوں سے بھی بہت کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے ،مثال کے طور پر مغربی ممالک میں اسلام کی اشاعت، غیرمسلموں میں اسلام فہمی کے جذبہ کا فروغ ،مسلمانوں میں اس بات کا احساس کہ اسلام کے حوالے سے غیر مسلموں میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں اور ان کے ازالے کے لیے مختلف سطح پر کوششیں ، ان جگہوں پرداڑھی اور نماز جہاں کبھی ان کا ذکر بھی عجیب عجیب سا لگتا تھا، فرانس جیسے لا دینی ملک میں مسلم خواتین کا اسکارف پہننے کی آزادی کا مطالبہ ،پچھلے دنوں ایران ، فلسطین اور دوسرے کئی مقامات پر اسلام پسندوں کی جمہوری فتح و کامرانی ، معیاری مذہبی لٹریچرس کا پوری دنیا میں غیر معمولی فروخت اورمسلم دعاۃ و مبلغین کا تیزی کے ساتھ دنیا کے چپے چپے میں پہنچنا وغیرہ، اگر ہم انہیں خاموش بیداری نہ کہیں تو کیا کہیں؟ یہ تسلیم کہ مسلمانوں پر بے حسی وغفلت کی چادرتنی ہوئی ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اب وہ چادر آہستہ آہستہ کھسک رہی ہے۔
(۲) بیداری کے مفہوم سے بے خبری:-
مسلم امّہ میں پیدا ہو رہی اس بیداری کو سب سے زیادہ خطرہ ان مسلم نمائندوں سے ہے جو بیداری کے صحیح مفہوم سے بے خبر ہیں۔ کچھ افراد بیداری سے مراد ’’اِرہابیّت‘‘ اور دہشت گردی لے رہے ہیں اور مسلم نو جوانوں کو دہشت گردی اور خود کشی کادرس دے رہے ہیں ، یہ بدترین طرز فکر و عمل ہے، اس سے مسلمان بہادر نہیں بنتے، بزدل ہو جاتے ہیں، امید کی بجائے مایوسی کے شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی قیمتی جان سے بھی انہیں ہاتھ دھونا پڑتا ہے ۔ اس بیداری سے مسلمان زندگی سے مایوس تو ہو سکتے ہیں ان کے اندربا وقار اور باعزت زندگی کی بحالی کے لیے عملی جد وجہد کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
بیداری کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں میں سب سے پہلے یہ احساس پیداہو کہ وہ انسان ہیں جانور نہیں تا کہ وہ اپنی علمی و فنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر آج انسانیت پر حیوانیت کے پھیلتے ہوئے اثرات کو روک سکیں،اس کے ساتھ انہیں یہ احساس ہو کہ وہ مسلمان ہیں اور انہیں علمی طور پر یہ یقین ہو کہ صرف اسلامی طرز فکر ہی انسان کو انسان بنا سکتاہے۔ اس کے بعد اگر مسلم نوجوانوں کی کوشش اسلامی ریاست کے قیام کی بجائے حقوق انسانی کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے جب بھی بالآخر وہ اسی منزل پر پہنچیں گے جو اسلامی فکر کا مرکز و محور اور مقصود ہے۔
اسلامی بیداری کا یہ مفہوم بھی نہیں کہ مسلم نوجوانوں کو مسلم ریاستوں کے خلاف اس طور پر بھڑ کا دیا جائے کہ وہ مسلم ملکوں میں بزور بازو حکومت شکن سرگرمیوں میں مصروف ہو جائیں، جیسا کہ گزشتہ چند مسلم متفکر ین نے کیا، ان کی اس فکر کو لے کر مسلم نوجوان جب اصلاح کا نعرہ لگا تے ہوئے میدان میں آئے تو دنیا میں ان کی شناخت مصلح کی بجائے دہشت گرد سے ہو گئی اور ظاہر ہے کہ عصر حاضر میں دہشت گردی کی کسی طور پر بھی حوصلہ افزائی نہیں ہو سکتی۔ کسی تنظیم یا جماعت پر اس کا الزام آجانا ہے اس کی کشتی ڈبونے کے لیے کافی ہے۔
مَرے دل سے ہی سہی ، اب ہمیں بے چون و چرا یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ مغرب نے شخصی آزادی کا جو نعرہ دیا تھا یہ ہر جگہ مقبولیت حاصل کر چکا ہے ، اس کے بعد حکومت ، جمہوریت پسندی کے تابع ہو گئی ہے ، قیام حکومت اب ہر جگہ سروں کی گنتی پر ہی ہوگااور ہو رہا ہے، اس لیے جو لوگ اپنی انرجی مسلم حکومتوں کو اسلامائز کرنے پر صرف کر رہے ہیں انہیں فوراً عوام کو اسلامائز کرنے کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے اور یہ عمل اسلام کے امن پسند طریق دعوت ، میڈیا کی قوت اور اخلاص و للہیت کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے، طاقت و قوت سے نہیں اور نہ ہی مسلم لڑکیوں کے منہ پر تیزاب ڈالنے سے، حجاب کے تعلق سے ہم اگر مسلم لڑکیوں کے ذہن میں اسلامی فکر کی صد اقت کو نہیں اتار سکے تو ان کے چہرے پر تیزاب ڈال کر ان کو با حجاب کرنے کا خواب ہمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ یہ صورت حال ان لوگ کے لیے بھی لمحہ فکر یہ ہے جو دعوت و تبلیغ کے ہمہ گیر ذرائع کی طر ف ڈر ڈر کر قدم بڑھارہے ہیں۔
(۳) اتحاد امت کا خوش کن تصور:-
مسلمانوں کے مابین موجود جملہ اختلافات کو مٹا کر مکمل اتحاد موجودہ مسلم دانشوری کا ایک بڑا مضحکہ خیز تصور ہے ، حکمت شریعت اور اختلاف مسائل کی بنیادوں سے نا آشنادانشورحضرات نے اتحاد امت کے جنون میں مسلم علماء اوراسلاف و اکابر کو سب و شتم کرنا اپنا متحدہ شیوہ بنا لیا ہے اور انہیں خود اس بات کا احساس نہیں کہ اتحاد کے لیے ان کی سینہ کوبی اور ماتم سے امت میں اتحاد کی بجائے مزید نفرتیں اور دوریاں پیدا ہوتی جا رہی ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان لوگوں نے مسلم فرقوں کو کم کرنے کی بجائے ایک اور نئے فرقے کو وجود بخش دیا جو ہندئوں کی طرح ’’ سرودھرم سمبھاوا‘‘ اور Love and peace for allکا گیت گاتا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر Support good and fight the evilکے اسلامی نظریے سے عمداً بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اندر مسلم قومیت کا جذبہ تو ہے مگر اسلامی حسیت ان سے رخصت ہو گئی ہے۔
یہ طبقہ ان مسلم علماء کے خلاف اپنی زبان و قلم کو وقف کر چکا ہے جو مختلف خیموں میں بٹے ہوئے ہیں ، فقہی ائمہ کو اپنی زبان درازیوں سے  مسلسل مطعون کر رہے ہیں، ان شریفوں کو نہیں معلوم کہ شریعت اسلامیہ کے اندرخدائے تعالی نے یسرو توسع رکھی ہے ، جو اس کی عظیم نعمت ہے، اس نعمت کو فقہائے کرام نے اپنی مخلصانہ کوششوں سے عام و تام کیا، انہیں یہ بھی تسلیم نہیں کہ ایک ہی آیت یا حدیث سے ایک ہی وقت میں مختلف احکام مستفاد ہو سکتے ہیں اور اگر حکم نکالنے والے مخلص ہوں تو انہیں اس پر اجر بھی ملے گا ،انہیں تو بس ایک ہی رٹ ہے کہ خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک، حدیث ایک تو احکام مختلف کیوں ہیں؟ حالانکہ اگر زمام اجتہاد خودان کوتھما دیا جائے تو ان میں سے ہر ایک ایک نیا اسلام لے کرآ جائے گا۔ 
میرا خیال ہے کہ اتحاد کی اس طرح کی رٹ مسلم امت کے حق میں کسی طرح بھی مفید نہیں ہو سکتی ، اس سے اتحاد امت کا موہوم خیال حقیقت کی زمین پر تو نہیں اتر سکتا۔ البتہ کچھ کم پڑھے تعلیم یافتہ قسم کے لوگ اس کی وجہ سے علماء ، اسلاف اور اکابر سے بیزارہوں جائیں گے اور یہ بیزاری دراصل اسلام سے بیزاری کا پہلا زینہ ہے۔
(۴) بے جا فرقہ وارانہ تشدد:-
 اس وقت میرے سامنے ایک کتاب ’’ چار مصلے مٹا دیے گئے اور اب جلد ہی چار اماموں کی تقلید بھی ختم کر دی جائے گی‘‘ رکھی ہوئی ہے ، کتاب کے نام سے ہی مصنف کے احوال دل اور مملکت سعودی عربیہ سے ان کے روحانی تعلقات کا ادراک کیا جا سکتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں (اپنے زعم میں )توحید خالص کے علم بردار ہیں اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو کتاب و سنت کی دعوت دے رہے ہیں اور وہ بھی اس خیال خیر کے ساتھ کہ پوری دنیا کے مسلمان شرک و کفر میں ملوث ہیں ، حتیٰ کہ ائمہ کی تقلید بھی قرآن و سنت کی خلاف ورزی اوراللہ و رسول کے احکام کی کھلی نافرمانی ہے ، کہا جاتا ہے کہ موجودہ دور میں پائے جانے والی مسلم جماعتوں میں سب سے زیادہ کٹر پنتھ یہی لوگ ہیں ، فقہی فروعی مسائل میں بھی حرف حق صرف وہی جو شیخ ابن تیمیہ او ران کے دوسرے مقتدایان نے فرما دیا ہے ،باقی سب قرآن و سنت کے خلاف سراسر حرف غلط ہے، مذکورہ بالا کتاب کا نام ہی ملاحظہ کر لیا جائے اس کے اندر جو ادعائیت ہے کیا اس کے ہوتے ہوئے کسی طور پر بھی یہ سوچا جا سکتا ہے کہ مسلمان اپنے مشترکہ مسائل میں بھی کبھی متحد و متفق ہو سکتے ہیں؟ مسلم فرقوں کا یہ وہ بے جا تشدد ہے جو انہیں مشترکہ مسائل میں بھی سنجیدہ نہیں ہونے دے رہا ہے اور یہ تشدد کسی ایک جماعت یا فرقے کے ساتھ خاص نہیں، ہر جماعت میں اس قسم کے بے جا تشدد کی مثالیں موجود ہیں- ایک خطیب کے بارے میں باوثوق خبریں ہیں کہ وہ اپنی مجلس سے ان عوام کو بھی نکال باہر کر دیتے ہیں جن کا تعلق کسی طرح بھی دوسری جماعت کے افراد سے رہا ہو ، ان کے اس تشدد بے جا سے ملی مسائل کا جو نقصان ہو رہا ہے یہ تو الگ ہے اس سے خود ان کا جو جماعتی نقصان ہو رہا ہے، اس کا بھی خیال کریں تو وہ اس قسم کی باتیں کرنا چھوڑ دیں۔امت میں عام بیداری کی بھی بات کرتے ہوئے ان حالات کا جائزہ لیجیے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ ابھی آپ خواب میں ہیں-
(۵) امر مجہول کی مخالفت:-
حضرت علی کرّم اللہ تعالیٰ وجہہٗ کا فرمان ہے ’’ الناس اعداء لما جھلوا‘‘ (لوگ نا معلوم چیزوں کے مخالف ہیں ) عصر حاضر کے تناظر میں اس ارشاد کی معنویت مزید بڑھ جاتی ہے، عوام کا ذکر ہی کیا، اصحاب فضل و کمال اور ا رباب ریاست وقیادت بھی اس عہد عالم گیریت میں دوسرے ملکوں، شہروں ،قوموں اور زبانوں کے بارے میں عدا وت مجہول کے اس مرض کے شکار ہیں، انگریزی زبان کی مخالفت کا آغاز انیسویں صدی میں ہوا، اس وقت اس کی کچھ معقول و جہیں بھی تھیں، لیکن یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، حتیٰ کہ کچھ مشرقی پسند رہنما ایسے بھی ہیں جو ٹیلی فون پر Helloکہہ دینے سے چراغ پا ہو جاتے ہیں، لیکن امریکہ و لندن کا ایک دورہ کرتے ہی انہیں آٹے نمک کا بھائو معلوم ہو جاتا ہے اور پھر ہر محفل میں وہ انگریزی کی اہمیت و افادیت پر ہی تقریر کرتے نظر آتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس حیرت انگیز دور میں ایسی باتوں کی تعبیر بوالعجبی سے ہی کی جاسکتی ہے۔
انگریزی زبان کا تذکرہ یہاں بطور مثال ہے ورنہ اس تعلق سے صفحات سیاہ کیے جا سکتے ہیں، بہت سے رہنمایان دین و ملت ایسے ہیں کہ وہ جس مقام پر ہوتے ہیں اور ان کی صبح و شام جس آسانی سے گزر تی ہے پوری دنیا کے مسلمانوں کی زندگی کو ویسی ہی آسان سمجھتے ہیں، حالانکہ خود ہندوستان میں گائوں اور شہر کے مسائل بلکہ چھوٹے اور بڑے شہر کے مسائل میں زمین و آسمان کا فرق ہے، پھر دوسرے ملکوں کے حالات اور بھی مختلف ہیں، ایسے میں قوم کی رہنمائی کرنے والے افراد پر واجب ہے کہ وہ جدید ذرائع ابلاغ کے توسط سے دنیا کے ہر خطے کے حالات سے آگاہ رہیں اور رسائل ومسائل میں ان کے تقاضوں کا خیال رکھیں، ورنہ نتیجہ یہی ہوگا کہ امریکہ جانے سے پہلے امریکہ کی من کل الوجوہ مخالفت کریں گے اور ایک بار وہاں سے واپس آکر بقیہ زندگی اس کی تعریف میں گزار دیں گے، ایسے میں ان رہنمائوں سے عالم گیر بیداری لانے کی بات کرنادل بہلاوے کا خیال ہی ہو سکتا ہے-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔