Monday 22 January 2018

الی الاسلام من جدید

0 comments
الی الاسلام من جدید
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-------------------------------------------------------------------
دو راستے:-
اگر آپ دنیا کی سب سے اونچی پہاڑی اویریسٹ(Everest)پر چڑھنا شروع کریں تو آپ کو کیسا لگے گا؟ بہت اچھا، بڑا پر سکون اور پر کیف ، وہ لمحات آپ کو بڑے حیات آفریں محسوس ہوں گے، مگر سوال ہے کہ آپ کا سفر کب تک جاری رہے گا اور یہ لمحات کتنی دیر تک بھلے معلوم ہوں گے ؟ کیا آپ وہاں اپنے معمول کی زندگی بسر کر لیں گے؟ یا پھر لوٹ کر اس سے دور، بہت دور، انسانوں کی بستی میں واپس آجائیں گے؟
آپ کا جواب جو بھی ہو، مگر ہمارا مقصد آپ کی توجہ کو اس جانب پھیرنا ہے کہ زندگی کے دو راستے ہیں، ایک راستہ انسانی بستی میں پہنچانے والا ہے ، جہاں خدائی اصولوں کی کارفرمائی ہے، خود کو فریب دینے والے اسے ’’ فطرت کی راہ‘‘ (Way of Nature)سے بھی تعبیر کرتے ہیں- دوسرا راستہ انسان کو صحرا میں لے جانے والا ہے، انسان اور انسانیت سے دور کرنے والا ہے، اویریسٹ کی چوٹی پر پہنچانے والا ہے- بظاہر یہ بڑی دلکش اور جنت نگاہ راہ ہے-
پہلی راہ میں ہر قدم پر کیا اور کیوں ہے؟ جب کہ دوسری راہ ہر چون و چرا سے مامون ہے، پہلی ذمہ داریوں کی راہ ہے، اس میں اخلاقی اصولوں کی پابندی ہے، یہ تنگ راہ ہے، اس میں دوسرے راہ گیروں سے بہت بچ بچا کر نکلنا ہے، اس کے برعکس دوسری وسیع شاہراہ ہے، آزادی یہاں اپنے لفظی معنی میں موجود ہے، کیوں کہ یہاں ذمہ داری اور اصول کا کہیں سے کہیں تک گزر نہیں ہے- اس میں جوں جوں انسان آگے بڑھتا ہے اس کی راہ وسیع ہوتی جاتی ہے، وہ انسانوں سے دور ہوتا جاتا ہے، اخلاق(Moral)اقدار (Values)اورذمہ داری (Responsiblity) جیسے گراں معنی الفاظ کے تصور سے اسے آزادی مل جاتی ہے، مگر پتہ ہے اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ انسان ایوریسٹ کی چوٹی پر پڑا پوری دنیا کا نظارہ کرتا ہے اور انسانوں سے کٹ کر گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتا ہے یا پھر اس کے قدم اس بلندی تک پہنچ جاتے ہیں جو مادی بلندی کی انتہا ہے اور جس کے بعد کھائی ہوتی ہے- اس منزل پر پہنچ کر اسے دو میں سے ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اس تنہائی کی زندگی سے نجات پانے کے لیے یا تو کھائی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لے یا پھر وہ شہر کی طرف لوٹ آئے جہاں اس پر شہری، تمدنی، اخلاقی ،سماجی، معاشرتی اور نہ جانے ایسے کتنے اصولوں کی پابندی لازمی ہو جاتی ہے-
امریکی ماڈل ناکام:-
معروف لبنانی مفکر و دانشور مصطفی محمد طحان اپنی مشہور کتاب تعید العولمۃ صیاغۃ العالم (گلوبلائزیشن دنیا کی تشکیل نو) میں لکھتے ہیں:
’’ امریکی مصنف رابرٹ کا گان نے امریکہ کی خارجہ سیاست سے متعلق اپنے ایک مقالے میں امریکی تسلط پر تنقید کرنے والے مفکرین کے افکار کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے لیے متعدد الاقطاب عالمی نظام کے بجائے واحد قطبی نظام یعنی امریکی تسلط ہی مفید ہے- کاگان نے امریکی ماہر تعلیم صموئیل ہنٹنگن کے افکار پر بھی تنقید کی جس نے اپنی سابقہ رائے سے رجوع کرتے ہوئے پوری دنیا پر واحد امریکی نظام کے تسلط کی مخالفت کی او رامریکہ کی اجارہ داری پر تنقید کرنے والوں کی صف میں شامل ہو گیا- کاگان کا کہنا ہے کہ آج دنیا کے سامنے امریکی تسلط کو قبول کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے-‘‘(ص: ۴۲، اردو ترجمہ: ہلال پبلی کیشنز، دہلی)
’’ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے جاپان اور جرمنی میں رائج سرمایہ داری کے ماڈل کی حمایت کی اور سر د جنگ کے ختم ہوتے ہی امریکہ نے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو اپنے حلیف ممالک سمیت پوری دنیا پر تھوپنے کی جدوجہد شروع کردی، ان کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ تمام انسان اس کے سرمایہ دارانہ نظام کو اختیار کر لیں، ان کا خیال ہے کہ حقائق کو سمجھنے اور مستقبل میں دور تک دیکھنے کا ملکہ اللہ تعالیٰ نے صرف انہی کو عطا کیا ہے-‘‘ (ایضاً: ص:۲۹)
اسی بات کو امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے ۱۷۸۹ء میں اپنے خطبۂ صدارت میں اس طرح کہا تھا:’’ اللہ تعالیٰ نے اس کے کندھوں پر امریکی عوام کے تئیں ایک ذمہ داری ڈالی ہے‘‘ اس کی مزید وضاحت امریکی صدر تھامس جیفرسن نے ان الفاظ میں کی’’ امریکی عوام اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں، ان کو پوری دنیا پر لوگوں کی رضا مندی سے یا جبر و قوت کے استعمال سے حکومت اور سر براہی کا فریضہ انجام دینا ہے-‘‘ اس نظریے کی تفصیل امریکی ناول نگارہارمون ملیفیل (۱۸۱۹ء-۱۸۹۱ء) نے اس طرح کی’’ ہم دنیا کے سربراہ او رحکمراں ہیں، ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے منتخب کیا ہے، پوری انسانیت ہماری قوم کی منتظر ہے، دنیا کی بیشتر اقوام کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ہماری اتباع کریں-‘‘ (ایضاً:۳۱)
ہمیں یہاں اس سے بحث نہیں کہ امریکیوں کے اندر یہ احساس برتری کیسے پیداہوا؟ یہ ایک علاحدہ تفصیل طلب بحث ہے، ہمیں یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ۱۹۹۱ء میں روس کی شکست پر سرد جنگ کے خاتمہ کے ساتھ امریکی اپنا یہ ہدف (Goal) حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح مغرب کے صنعتی انقلاب (۱۷۵۰-۱۸۵۰) نے جس خود غرض ، مفاد پرست اور وحشی نظام کو جنم دیا تھا وہ امریکہ سرمایہ داریت میں تبدیل ہو کر اپنی انتہا کو پہنچ گیا، اس کے بعد پوری دنیا کے دانش وروں کے بیچ امریکی تسلط زیر بحث آ گئی کہ آیا امریکی نائزیشن بنام گلوبلائزیشن کو تسلیم کر لیا جائے یا کثیر الاقطاب بین الاقوامی نظام کی آزادی دی جائے-یہ بحث تو اہل علم کی انجمنوں کی ہے، اگر ہم عوام کی بات کریں تو دنیا کے تمام انسانوں کے سامنے صنعت، تجارت ،تہذیب و ثقافت اور آدرش کا فقط ایک ہی ماڈل رہا ، امریکی ماڈل جس کی تقلید و اتباع نہ صرف واجب بلکہ قابل فخر سمجھا جانے لگا- امریکی طرز پوشاک، امریکی انداز گفتگو، امریکی سماج، امریکی اصول تجارت غرض کہ زندگی کی تمام قدروں کا امریکہ نائزیشن کیا جانے لگا-دوسرے لفظوں میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ عہد جدید کا مائونٹ اویریسٹ ثابت ہوا اور تمام تفریح مزاج دیوانہ وار اس کا رخ کرنے لگے-
لیکن اگر ہم امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے باشندوں کا حال معلوم کریں اور دیکھیں کہ ان کا ہدف کیا ہے؟ ان کے لیے زندگی کا رول ماڈل کیا ہے؟ اور ان کے قدم کس طرف بڑھ رہے ہیں؟ بلا تمثیل وہ یا تو اس طویل ترین چوٹی سے خودکشی کرنے کو آمادہ نظر آئیں گے یا پھر آبادی کا رخ کرتے ہوئے مجبور نظر آئیں گے- کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس تمثیل میں اگر امریکیت مائونٹ اویریسٹ ہے تو انسانوں کی بستی کیا ہے؟
اسلام اور صرف اسلام، جو لوگ مادی ترقی کی انتہاکو چھو گئے ہیں ان کے لیے بس دو ہی راستے ہیں، یا تو انسانیت کے جامہ سے باہر آ جائیں، یا پھر اسلام کو گلے لگا لیں جو آج دنیا میں، با لخصوص یورپ و امریکہ میںتیزی سے پھیلنے والا سب سے بڑا مذہب ہے- صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا امریکہ کی طرف بھاگ رہی ہے اورامریکہ اسلام کی طرف بھاگ رہا ہے، بس ضرورت ہے مناسب رہنمائی کی-
غریب خوش اور پر امید:-
Poor happy & hope fulیہ روز نامہ ٹائمز آف انڈیا اشاعت ۲۶؍ جولائی ۲۰۰۷ء کی ایک جلی سرخی ہے:Pew Global Attitudes Projectکے تحت ۴۷ ملکو ںکا سروے ہوا جس میں ۴۵؍ ہزار لوگوں کے انٹرویوز لیے گئے،  اس سروے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ:’’ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کے لیے دنیا زیادہ خوشی کی جگہ ہے- ان کی آمدنی کم اور ان کی زندگی مشکل ہو سکتی ہے لیکن ان کا ذہن زیادہ پر امید ہے- وہ اپنی شخصی زندگی، آمدنی اور ملکی صورت حال سے ترقی یافتہ ملکوں کے باشندوں کی بہ نسبت زیادہ مطمئن ہیں- اسی طرح وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے زیادہ پر امیدہیں-‘‘
’’یہ واضح فرق بیشتر ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکہ، انگلینڈ، جرمنی، فرانس کے باشندوں کے فکر و مزاج کا ہے ، جہاں لوگ نہ صرف اپنے موجودہ حالات کے تئیں غیر مطمئن ہیں، بلکہ مستقبل کے لیے بھی ان کے اندر کوئی ولولہ نہیں رہ گیا ہے- اکثر و بیشتر لوگ اگلی نسل کی زندگی کے حوالے سے منفی احساسات رکھتے ہیں-‘‘
پیش نظر سروے رپورٹ کے ساتھ چند اہم ممالک میں آنے والی نسل کی زندگی کے تعلق سے ان کے باشندوں کے خیالات کا ایک ڈاٹا بھی دیا گیا ہے، جو درج ذیل ہے-
انڈیا: بہتر 64% خراب 28% یکساں 4%
امریکہ: بہتر 31% خراب 60% یکساں 4%
کناڈا: بہتر 28% خراب 58% یکساں 12%
برطانیہ: بہتر 29% خراب 60% یکساں 4%
جرمنی: بہتر 17% خراب 73% یکساں 6%
فرانس: بہتر 17% خراب 80% یکساں 2%
چین: بہتر 86% خراب 6% یکساں 4%
بنگلادیش: بہتر 84% خراب 13% یکساں 2%
اس ڈاٹا پر ایک نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ترقی پذیر ممالک اپنی آئندہ نسل کے تئیں جتنے فی صد پر امید ہیں ترقی یافتہ ممالک تقریباً اسی قدر مایوس ہیں، غور کرنے پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ جو ممالک مادی عروج کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں ان کے لیے اس مادی دنیا میں اب مزید ترقی کی کوئی منزل نہیں بچی ہے، اب ناچار یا تو انہیں منجمد ہو کر بغیر کسی جوش و ولولہ کے اپنی جگہ پر پڑے رہنا ہے، یا حیوانیت کے نت نئے تجربات کرنے ہیں-اگلی نسل کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کا خوف دراصل مادی زوال کا خوف نہیں ہے بلکہ فی الواقع اگلی نسل سے انسانیت کی پھٹی میلی چادر کے بھی سرک جانے کا خوف ہے، اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی اب الٹی گنتی شروع ہے، ان کے لیے امید کی فقط ایک راہ ہے اور وہ ہے روحانیت کی راہ، ترقی یافتہ ممالک میں روحانیت کے بے انتہا فروغ کا بس یہی راز ہے-
ترقی یافتہ ممالک کے بر خلاف ترقی پذیر ممالک ابھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں، ان کے سامنے چوں کہ ترقی اور عروج کا ایک ماڈل ہے جس کے حصول کے لیے یہ سرگرداں ہیں، انہیں اپنی اگلی نسل کے حوالے سے امید ہے کہ وہ ضرور ترقی کی اس منزل کو حاصل کر لے گی، لیکن اس کا احساس نہیں کہ اس منزل کے حصول کے بعد اگلی نسل کا کیا ہوگا؟ اس وقت ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی تقلید میں پاگل ہونے کی بجائے ان کی ابتر حالت سے سبق لینا چاہیے- ترقی کا سفر کوئی معیوب سفر نہیں، بشرطیکہ جسم کے ساتھ روح کا بھی سفر ہو، ورنہ ترقی وحشت و لعنت کے سوا کچھ نہیں دے سکے گی-
آئیڈینٹیٹی یا ریلیٹی؟:-
ہر حقیقت کی کوئی خاص شناخت ہوتی ہے، جیسے ایمان کی شناخت اسلام ہے، ایمان دل سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کی تصدیق کر دینے کا نام ہے، مگر اس کے ثبوت کے لیے اسلام، دین کے ظاہری احکام کا اظہار و اتباع لازمی وضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ واضح ہے کہ حقیقت اصل ہے جب کہ شناخت کا درجہ ثانوی ہے، حقیقت بغیر شناخت کے ظاہری ثبوت کے بغیر حقیقت ہے، جس کا وجود ہونے کے با وجود اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا، مگر شناخت بغیر حقیقت کے، جھوٹ، افترا اور منافقت ہے، یہ کاغذ کی کشتی ہے، غبارہ ہے یا پھر سراب ہے - عہد رسالت میں کچھ اعراب نے اسی طرح دل سے تصدیق کیے بغیر احکام اسلامی کا ظاہراً اتباع شروع کر دیا تھا جس کی قرآن نے مذمت کی اور کہا کہ اے رسول! آپ ان سے کہہ دیں کہ تم ابھی ایمان نہیں لائے، بس ظاہری احکام کا اتباع کر رہے ہو-
اسلام ایک کامل مذہب کی مکمل شناخت(Identity)ہے، لیکن بعد کے ادوار میں اسلام کے نام پر نت نئے فتنوں نے جنم لیا، جن کا اسلام سے کوئی رشتہ نہ تھا، ایسی صورت میں اہل حق پر لازم تھا کہ وہ ان فتنوں کا رد بلیغ کریں، ساتھ ہی چوںکہ مسلم معاشرہ میں اسلام کے نام پربے دینیت سرایت کر رہی تھی، اس لیے لازم تھا کہ اس سے امتیاز کے لیے حقیقی اسلام کے علم برداروں کا کوئی امتیازی نام ہوجو باطل کے مقابلے حق کے لیے ان کی شناخت بنے- مثلاً معتزلہ کی بے دینیت کے ظہور کے بعد اہل حق خود کو اشاعرہ کہنے لگے-
بعد کے ادوار میں فتنے اور بڑھتے گئے اور اسی طرح شناخت کے لیے بھی الگ الگ نام، صفت، طرز بود و باش وغیرہ میں اضافہ ہوتا گیا- یہ اضافہ آج بھی ہو رہا ہے اور ہونا ہی چاہیے، لیکن جیسا کہ معلوم ہے کہ شناخت کی ثانوی حیثیت ہے، پہلا درجہ حقیقت کا ہے، اس لیے یہ واضح سی بات ہے کہ اگر شناخت کے پیچ و خم میں حقیقت الجھ کر رہ جائے یا شناخت کی فکر میں حقیقت فراموش ہو جائے تو حقیقت کی طرف رجوع کرنا لازمی ہو جائے گا- یہ بڑی غیر دانش مندانہ بات ہوگی کہ شناخت کے ہوڑ میں حقیقت سے صرف نظر کر لیا جائے- اس کی مثال عہد جدید کی وہ اصلاحی جماعتیںہیں جنہوں نے اسلام (ظاہری احکام و آثار) کے اتباع پر اتنا زیادہ زور دیا کہ روح اسلام فنا ہو کر رہ گئی- وہ نماز و روزہ کی اسی طرح پابندی کرنے لگے جیسے جسمانی صحت کے لیے یومیہ ورزش کی پابندی کی جاتی ہے ، حالاں کہ اسلامی احکام روح کی صحت کے لیے ہیں نہ کہ جسم کی صحت کے لیے-
مادی عروج کی انتہا کے موجودہ زمانہ میں جب کہ ترقی یافتہ مادی انسان مادیت سے غیر مطمئن ہو کر روحانیت کی تلاش میں ہے اور مختلف غیر مناسب اسباب کے باعث اسلام عالمی سطح پر متنازع و زیر بحث ہونے کی وجہ سے بالعموم وہ ایسے انسانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آج اسلامی روحانیت کا جام کس نام سے پلایا جائے؟ ایک بڑے طبقہ کا خیال ہے کہ تصوف جو ماضی میں اسلامی روحانیت کی تبلیغ کا سب سے موثر ذریعہ رہا، آج بھی اسی نام سے اسلام کا ساغر چھلکایا جانا چاہیے؟ میں ایک بڑے اسکالر کو جانتا ہوں جو ’’ إلی التصوف من جدید‘‘ کو شعار بنانے کے حق میں ہیں، کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو اپنی تمام شناختوں کے ساتھ اسلام کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تاکہ عصر حاضر میں حقیقی اسلام ہر طرح سے نمایاں و ممتاز ہو-
ہمیں ان حضرات کے خلوص میں کوئی شبہ نہیں، مگر ہماری عرضی فقط یہ ہے کہ اسلامی روحانیت کی طالب روحیں صرف اسلام کے نام پر پینا چاہتی ہیں، اس زمانی تقاضے کا صحیح شعور یہ ہے کہ جتنی جلدی اور آسانی سے ان بے تاب روحوں کی تسکین ہم سے ممکن ہو کر گزرنے کا سامان کریں، اور یہ جب ہی ممکن ہوگا کہ ہم براہ راست اسلام کے نام پر اسلام کی تبلیغ و ترسیل میں لگیں- اس کے بر عکس باطل سے امتیاز کے لیے اگر ہم تمام امتیازی شناختوں کو پیش کرنے لگے تو اسلام کی غلط تعبیر و تشریح کو تو شاید ہم نہ روک سکیں، اس کے علاوہ یہ ثابت کرنے میں بھی ایک زمانہ گزر جائے گا کہ یہ تمام امتیازات دراصل حقیقی اسلام کے ہی اوصاف ہیں- ہر چند کہ یہ خلوص کی راہ ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس راہ میں عصری شعور کا فقدان اور عصری مطالبوں سے گریز ہے-
یہاں اس حقیقت کا برملا اعتراف کرنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ آج ہم جن اوصاف کو حقیقی اسلام کی شناخت اور امتیاز باور کرتے ہیں، ان کے لیے ہم ہر لمحہ مرنے مارنے کے لیے تو تیار ہیں، مگر جو اسلام کے بنیادی اور حقیقی مطالبے ہیں ان سے ایسے غافل ہیں جیسے ان کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو-
یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بعض کلمہ خواں ایسے بھی ہیں جنہیں مسجد الجمعۃ کی حاضری کا اتنا خیال نہیں ہوتا ، جتنا شیخ کے عرس کی حاضری کاہوتا ہے - یہ ایک مثال ہے جس پر ہمیں برافروختہ ہونے کی بجائے اپنے رویوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے- وہابیت مانا کہ روحانیت سے غافل ہے مگر یہ روحانیت کون سی بلا ہے جو اسلام سے غافل کر رہی ہے؟ یہاں بے ساختہ شیخ احسان للہ چشتی الہ آبادی دام ظلہ کی بات نقل کرنے کو جی چاہتا ہے کہ’’ تفقہ فی الدین  والی آیت میں ’’فہم دین‘‘ کے لیے سفر کرنے کی بات کی گئی ہے نہ کہ’’ فہم مسائل دین‘‘ کے لیے، افسوس ہے کہ علماے ربانیین اور علماے وارثین سے لوگوں نے علماے حیض و نفاس سمجھ لیا ہے- جب کہ اصل’’ دین کا شعور‘‘ ہے، اسی لیے آیت کے اگلے حصے میںہے کہ اپنی قوم کے پاس واپس آکر انہیں غضب الٰہی سے ڈرائیں، یہ نہیں کہ وہ دین کے مسائل بتائیں- ہاں’’ شعور دین‘‘ کے بعد اگر مسائل دین سے آگاہی بھی ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ‘‘-
مطلب یہ کہ اس عہد زوال میں ہم مسائل دین، شعائر دین اور امتیازات دین میں اس قدر الجھ گئے کہ ہمارے ذہن وفکر سے شعور دین اوجھل ہو گیا اور نتیجے کے طور پر اس کے مطالبوں کی تکمیل میں ہم سست اور کاہل ہو گئے-ایسے میں ہم پر واجب ہو گیا ہے کہ اب از سر نو اپنے کردار و عمل کا جائزہ لیں اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم گامزن کرنے کا سامان کریں-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔