Monday 22 January 2018

مسلم پرسنل لا کا تحفظ

0 comments
مسلم پرسنل لا کا تحفظ
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
------------------------------------------------------------------------
کیا خارجہ پالیسی کے بغیر ممالک بین الاقوامی سطح پر اپنا وجود ثابت کر سکتے ہیں؟ Understandingکے بغیر کسی ملک میں مختلف قوموں کا زندہ رہنا ممکن ہے؟ ربط باہم کے بغیر ملت کی بقا کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ کیا کوئی ادارہ ایسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے جب اس کا ہر ممبر خود کو صرف اپنی مرضی کا پابند بنا لے؟ کیا کسی گھر میں سکون متصور ہو سکتاہے اگر اس کے افراد خانہ مشترکہ امور میں ایک ساتھ نہ سوچیں ؟ بلکہ کیا کوئی انسان دوسروں کی مداخلت سے یکسر آزاد ہو کر زندہ رہ سکتا ہے؟ اگر نہیں ، اور یقینانہیں ،تو اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان جو مختلف مکاتب و مسالک میں بٹے ہوئے ہیں، اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک پلیٹ فارم کی تلاش یا مشترکہ جدوجہد کا آغاز کر دیں، یہ تجویز ، مشورہ، رائے، گزارش ،آرزو، فکر یا لفاظی جو کہہ لیجے ٹائمز آف انڈیا اشاعت ۲۱؍ جنوری ۲۰۰۷ء کی پہلی خبر کے اس عنوان Tripple talaq not good enough for divorceکا اولین رد عمل ہے، جو پہلی نظر پڑتے ہی آوازباز گشت کی طرح دماغ کے خانوں میں گونجنے لگا-اخبار لکھتا ہے:
’’ممبئی عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ مسلم شوہر کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لیے یہ تین الفاظ طلاق، طلاق، طلاق، کہہ دینا کافی نہیں ہے، جسٹس بی ایچ مارلا پلےB.H. Marlapalleنے اپنے حتمی فیصلے میں (جو ممکن ہے کہ پھر سے تین طلاق کا نزاع کھڑ ا کر دے)کہا ہے کہ’’ دلشاد بیگم اور احمد خان حنیف خان پٹھان کی طلاق غیر قانونی اور غیر معتبر تھی ، کیوں کہ مسلم قانون میں جو صلح و مفاہمت کی پیشگی شرط ہے، شوہر نے اسے پورا نہیں کیا تھا-‘‘
اصل واقعہ کیا ہے؟:-
 شادی کے آٹھ سال بعد ۱۹۸۹ء میں دلشاد بیگم اور احمد خان حنیف خان میں ان بن ہوئی جو طلاق کی نوبت تک پہنچ گئی اور دلشاد بیگم اپنے میکے آ گئیں، کسی طرح سے یہ قضیہ عدالت میں پہنچا، بارامتی کی علاقائی عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ حنیف خان اپنی بیگم اور بیٹی کے خرچ کے لیے انہیں دو دو سو روپے دیا کریں گے-اس پر احمد خان نے اس فیصلے کو چیلنج کر دیا اور بالآخر ۱۹۹۷ء میں ایک سیشن عدالت نے سابق فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے حنیف خان کے موقف کی تائید کر دی-
۱۹۹۴ء میں دو گواہوں کی موجودگی میں ایک مسجد کے اندر حنیف خان نے طلاق دی،تاکہ عدالت کے سامنے صحیح پروف پیش کر سکے اور ایک وکیل کی تصدیق کے ساتھ طلاق نامہ ،۱۲۵؍ روپے بطور مہر اور ۶۰۰ روپے تین ماہ کا نفقہ دلشاد بیگم کو بھیجوا دیا- مقدمہ چلتا رہا، عدالت کی سرد مہری اور جج اور وکلاء کی مہربانی سے وقت گزرتا رہا اور اب ۱۶؍ سال بعد ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا ہے جس میں سرے سے طلاق کو ہی کا لعدم قرار دے دیا گیاہے اور حنیف خان کو تا حیات دلشاد بیگم کا نفقہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے— زبانی طلاق کے بعد، طلاق نامہ تیار کرانے، وکیل سے تصدیق کرانے اور دو افراد کو گواہ بنانے کے بعد بھی ہندوستانی عدالت کی نظر میں طلاق نہیں پڑی اور یہ فیصلہ بھی آیا تو ۱۶؍ سال بعد— یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟
مسلم پرسنل لاکےتحفظ کی کاوشیں اور نا کامی کی وجوہات:-
مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام دسمبر ۱۹۷۲ء میں عمل میں آیا- اس کی پہلی کانفرنس ممبئی میں ہوئی تھی جس میں جماعت اہل سنت کی طرف سے حضرت مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ کے حکم پر مفتی برہان الحق جبل پوری، مولانا نصرت اللہ عباسی اور علامہ ارشد القادری شریک ہو ئے تھے- دیوبند اور بریلی کے اختلاف  کے بعد میری دانست کی حد تک یہ پہلا موقع تھا جب دیو بند اور بریلی کے جید علماء ایک اسٹیج پر شریعت کے تحفظ کی خاطر جمع ہوئے تھے- اس کا نفرنس میں علامہ نے خطاب کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک نیا زاویہ نظر دیا ، علامہ نے کہا:
’’اسٹیج پر جو چہرے نظر آ رہے ہیں ، ان حضرات کے ساتھ ہمارے سنگین اختلاف کل بھی تھے اور آج بھی ہیں، اس کے باوجود ہم صرف اس جذبے میں یہاں دوش بدوش بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ حکومت ہند کو یہ باور کرا دیں کہ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے جہاں دیو بند اور لکھنؤسینہ سپر ہیں وہیں بریلی نے بھی سر سے کفن باندھ لیا ہے-‘‘(ماہنامہ قاری ،دہلی جون ۱۹۸۵ء)
علامہ نے خطاب کے اس حصے میں ہندوستانی مسلمانو ںکو اختلاف کے ساتھ جینے کا مشورہ دیا- یہ اقتباس جہاں یہ بتاتا ہے کہ مشترکہ ضرورتوں کے تحت باہمی اختلافات کو مٹایا نہیں جا سکتا وہیں باہمی اختلافات کے باوجود مشترکہ ضرورتوں کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی بھی پر زور دعوت دیتا ہے- افسوس کہ آج مسلمان عمومی طور پر دو ہی راستوں پر چلنے کے لیے بضد ہیں- ایک وہ طبقہ ہے جو اختلافات کو یکسر ختم کر دینے کا مطالبہ کر رہا ہے ، جبکہ دوسرا طبقہ اختلافات ہونے کے باعث مشترکہ مسائل کے لیے ایک ساتھ غور و خوض کرنے اور عملی پیش قدمی کرنے سے نہایت سختی کے ساتھ گریزاں ہے-
اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کے لیے پیش قدمی علماے دیو بند نے کی تھی اور اس حقیقت سے بھی انکار ناممکن ہے کہ کسی ادارے یا انجمن کی تشکیل کے لیے جو لوگ پیش قدمی کرتے ہیں ، اس ادارے یا انجمن پر ان کا زیادہ اثر ہوتا ہے- لیکن علماے بریلی نے جس جوش و جذبہ کے ساتھ اس میں شرکت کی اور اس وقت ہندوستان میں جو ان کی واقعی حیثیت تھی، عہد وں کی تقسیم میں اس کا ذرہ برابر خیال نہیں رکھا گیا - ایسی تنظیموں میں اہم منصب صدر اور  جنرل سکریٹری کا ہوتا ہے اور یہ دونوں عہدے علماے دیو بند ( قاری طیب اور مولانا منت اللہ رحمانی) کو دے دیے گئے - بورڈ کی یہ پہلی اساسی غلطی تھی ، جس کی طرف شاید آج بھی بورڈ کے ذمہ داروں کی نظر نہیں ہے-
علمائے بریلی میں مفتی برہان الحق صاحب جبل پوری کو نائب صدر اور مولانا نصرت اللہ عباسی کو جوائنٹ سکریٹری کے عہدوں سے نوازا گیا— واضح رہے کہ بورڈ میں نائب صدر اور جوائنٹ سکریٹری کئی ایک ہوتے ہیں— یہ دونوں حضرات تا حیات کاغذی طور پر اپنے عہدے پر فائز رہے -بورڈ کے کسی اجلاس یا کسی فیصلے میں انہوں نے کبھی شرکت نہیں کی-
بورڈ کے ذمہ دارن مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ  ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا نمائندہ بورڈ ہے ،حالاں کہ بورڈ کی تاسیس کے بعد جب شاہ بانو کیس پہلی بار سامنے آ یا تو اس وقت بھی نہ تو سارے مکاتب و مسالک کے افر اد بورڈ کے جھنڈے تلے نظر آئے اور نہ ہی اس سلسلے میں بورڈ کے بیانات اور قرار دادوں کی سبھوں نے موافقت کی- مولانا ابو الحسن علی ندوی کے اس بیان پر کہ’’ پیغمبر کو جب دین میں یہ حق نہیں تھا کہ وہ حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دیتے تو پھر کسی دوسرے کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے‘‘ علامہ ارشد القادری نے سخت نوٹس لیا تھا -اور اسی طرح مسلمانوں کے ملک گیر احتجاج کے بعد مطلقہ کو تاحین حیات یا دوسرے نکاح تک نان و نفقہ دینے کے اجباری حکم کو ترمیم کے بعد اختیار ی کر دینے پر ، بورڈ تو راضی ہو گیا لیکن مسلمانو ںکا ایک بڑا طبقہ اسے یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی راہ کھولنے کی سازش قرار دیا-
شاہ بانو معاملے کے بعد بھی شریعت میں مداخلت کی بارہا کوششیں ہو ئیں، اسلامی عائلی قوانین کے خلاف درجنوں عدالتی فیصلے سامنے آئے اور جواب میں مسلمان تماشائی بنے رہ گئے- بورڈ بھی اس تعلق سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکا، جس کے نتیجہ میں ۲۰۰۴ء میں ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بورڈ چار خانوں میں تقسیم ہو گیا -مسلم پرسنل لاء بورڈ جدید کے بانی و صدر مولانا توقیر رضا خان نے اپنے ایک انٹرویو میں واضح لفظوں میں اس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ مسلم پرسنل لاء جدیدبنانے کی ضرورت صرف اس لیے پیش آئی ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ قدیم اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طرح سے انجام نہیں دے رہا تھا-‘‘( جام نور ستمبر ۲۰۰۵ء)
۲۰۰۵ء میںدہلی کے ایک سنگھی وکیل و شنولوچن مدان نے جب عدالت عالیہ میں دارالافتاء اور دارالقضاء کو سپریم کورٹ کے متوازی بتاتے ہوئے ،ان کے خلاف عرضی داخل کی تو اس واقعہ کو بھی مولانا توقیر رضا خاں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی غلط روی سے جوڑ دیا اور جذباتی انداز میں اس کا وعدہ کیا کہ ’’ ہم عدالت میں ایفی ڈیوٹ‘‘ داخل کر کے اس مسئلے میں فریق بنیں گے اور پھر حقائق کو سامنے لائیں گے اور یہ لڑائی ہم صرف کورٹ سے ہی نہیں لڑیں گے ،بلکہ اس مسئلہ کو عوام کی عدالت میں بھی لے جائیں گے، احتجاج درج کریں گے اور پارلیمنٹ کا گھر ائو بھی‘‘ (جام نور اکتوبر۲۰۰۵ء)
مولانا نے اب تک کیا کیا اور آئندہ کیا کریں گے ،رب ہی جانے-ہمیں تو یہی کہنا ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے بورڈ ایک تھا تو مسلم قیادت میں سردمہری بھی ایک گونہ تھی ،چار بورڈ بننے کے بعد اس سرد مہری میں چہار گنا اضافہ ہی ہوا ہے، کمی نہیں آئی ہے، اور حکومت اور عدالت کے سامنے، اخبارات کے اندر مسلمانوں نے اپنے انتشار و خلفشار درج کر ا کے جو نمایاں کارنامہ انجام دیا ،یہ اس پر مستزاد ہے-
حیرت تو اس پر ہے کہ’’ خانگی تشدد انسداد ایکٹ برائے خواتین‘‘ The Protection of Women from Domestic Violence Act 2005)۲۴؍ اگست ۲۰۰۵ء کو لوک سبھاسے، ۲۹؍ اگست۲۰۰۵ء کو راجیہ سبھا سے پاس ہو کر اور ۱۳؍ ستمبر ۲۰۰۵ء کو صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل کرنے کے بعد ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۰۶ء کو نافذ العمل قانون کا درجہ حاصل کر لیا اور سارے بورڈ ،ساری تنظیمیں، اور تمام قائدین مہر بہ لب رہے- کچھ اپنی مصلحت کے سبب، کچھ اپنی لا چارگی کے سبب اور شاید زیادہ تر اپنی لا علمی کے سبب- 
 مذکورہ قانون کس قدر اسلام مخالف ، معاشرہ سوز اور سماج کش ہے، اس کا اندازہ محترمہ صفیہ اقبال کے مکتوب بنام مولانا رابع حسنی ندوی کے اس اقتباس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے- محترمہ لکھتی ہیں:
’’بلا شبہ خواتین کے خلاف خانگی تشدد ملک میں اور مغربی ممالک میں بھی ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے، لیکن یہ نیا قانون جو کہ دراصل ۱۹۹۵ء کے بیجنگ ڈکلریشن کا شاخسانہ ہے، مسلم پرسنل لاء میں مکمل مداخلت ہے- حسب ذیل امور اس کا ثبوت ہیں:-
(۱) یہ قانون مرد پر ان تمام خواتین کی ذمہ داری ڈالتا ہے جو کہ سابقہ یعنی طلاق شدہ یا خلع شدہ بیوی جو اس کے Pre-devorceگھر میں رہ رہی ہو، یا اس کے منہ بولے، رشتے کی عورت یا کوئی بھی عورت یارکھیل اس کے گھر میں رہ رہی ہو-
(۲) مرد اس گھر کو نہ خالی کروا سکتا ہے نہ بیچ سکتا ہے، نہ خود اس میں جا سکتا ہے ، جس میں متاثرہ عورت چاہے وہ بیوی، بیٹی، ماں، داشتہ کوئی بھی ہو-
(۳) Protection Officersمقرر کیے جائیں گے، جو متاثرہ گھر کے معاملات کی نگرانی کریں گے، اس طرح بیرونی مداخلت خاندان کے نجی معاملات میں ہوگی-
(۴) Counsellorsمقرر کیے جائیں گے جو متاثر ہ خاتون سے رابطہ رکھیں گے اور مرد صرف ان کی موجودگی میں ہی متاثرہ خاتون سے ملاقات کر سکتا ہے، اس کے علاوہ وہ خاتون سے کسی بھی ذریعے فون، فیکس ، ای میل وغیرہ سے بھی رابطہ نہیں کر سکتا-
(۵) مرد اگر عورت کو یا اس کے بچے کو گھر کے باہر جانے سے روکے یا کسی فرد سے ملاقات یا تعلق رکھنے سے روکے یا عورت کو باہر کام، ملازمت یا کاروبار کرنے سے روکے تو یہ سب اس قانون کے تحت عورت کی طرف سے شکایت کی بنیادیں بن سکتی ہیں-(ماہنامہ اللہ کی پکار، فروری ۲۰۰۷ء)
اس قانون کے تعلق سے قائدین ملت کی حیرت انگیز خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر خالد حامدی نے لکھا ہے کہ’’ ایسا لگتا ہے کہ ایک مخصوص لا بی جو کہ پرسنل لا بورڈ پر عملی و فکر ی طور سے قابض ہو چکی ہے،اس کی پوری کوشش یہی رہی کہ اس قسم کا ایکٹ جسے اقوام متحدہ کی بھر پور حمایت حاصل تھی، بغیر کسی رکاوٹ کے پاس ہو جائے اور اس میں کسی قسم کی رخنہ اندازی نہ ہونے پائے- نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دہلی میں بورڈ سے متعلق ڈاکٹر منظور عالم، سید شہاب الدین، ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، ڈاکٹر محمد عبد الحق انصاری کو اس بارے میں کوئی علم ہی نہ ہو اور اس سلسلے میں متحرک ہونے کا نام بھی نہ لیں-‘‘(اللہ کی پکار، فروری ۲۰۰۷ء)
پروفیسر حامدی کا یہ تبصرہ تو مسلم پرسنل لا بورڈ کے وابستہ گان سے متعلق ہے، لیکن ان حضرات کی غفلت و سر دمہری پر تازیانے برسانے والے مسلم پرسنل لا بورڈ جدید ، شیعہ بورڈ اور خواتین بورڈ کے ذمہ داران اپنے اپنے بورڈ کی تشکیل کے بعد کہاں محو خوا ب ہیں اور بیدار کب ہوں گے؟ شاید ہم میں سے کسی کو بھی نہیں معلوم- ایسا لگتا ہے کہ اشتہار کے لیے جزوی مسائل پر احتجاج کر نے کے لیے مسلم قیادت پورے طور پر قسم کھا چکی ہے- اسے اصول سے کوئی بحث نہیں، اسلامی عائلی قوانین کے خلاف قانون سازی پر اسے کوئی اعتراض نہیں،اسے احتجاج تو صرف عدالتی فیصلے پر کرنا ہے-
ایک دل خراش سانحے پر تحریری احتجاج کے لیے قلم اٹھایا تھا، لیکن غور کرنے کے بعد پتا چلا کہ آج پوری ملت کے پاس سوائے احتجاج کے اور کچھ بھی نہیں-
ہندوستان میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے تحفظ کے امکانات:-
مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی کوششیں ناکام سے ناکام تر کیوں ہوتی جا رہی ہیں؟ یہ سوال کسی کے بھی سامنے رکھ دیجیے تو وہ درجنوں اسباب شمار کر ڈالے گا- اس لیے یہ کوششیں ناکام کیوں ہو گئیں ، یہ سوال زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، ہمیں اب اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ اس وقت مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے امکانات کس حد تک ہیں اور کس طریقے سے ان سے فائدہ اٹھایا جائے؟
(۱)ہندوستانی مسلمانوں کو (خواہ ان کا تعلق جس مکتب فکر سے ہو) کو نظریاتی سطح پر سب سے پہلے اپنامزاج بنانا ہوگا کہ وہ جزوی واقعات پراپنا اپنا احتجاج اور بے جان و بے اثر لفظوں کا بیان درج کرانے کی بجائے ، بنیادی طور پر آئین اور دستور کی ترمیم اور نئی دفعات کی وضع پر نظر رکھیں- یہ احتجاجی مزاج کو ترک کر کے اپنے اندر علمی مزاج لانے کی بات ہے جو احتجاج کے عادی ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بہت ہی گراں ہے-
(۲) پرسنل لا میں بعض مسائل خود مسلمانوں کے مابین مختلف فیہ ہیں ، ان کے تعلق سے بھی حکومت کے سامنے اپنا متفقہ موقف رکھنا ہوگا- اس اتفاق کے لیے فریقین کو اخبارات کے صفحات اور ٹیلی ویژن کا اسکرین استعمال کرنے کی بجائے ایک میز پر بیٹھ کر افہام و تفہیم کا  راستہ تلاش کرنا چاہیے اور اس افہام و تفہیم سے قبل اپنے دماغ سے اپنے موقف کو برحق اور دوسرے کو باطل سمجھنے اور اس پر اڑے رہنے کا جنون اتار دینا چاہیے- چوں کہ یہ مختلف فیہ مسائل ایسے ہیں ، جن پر قرآن و حدیث کے بحر علم حکمت کے ماہر شناوروںنے اختلاف کیا ہے اور اختلاف کے بعد اپنے موقف کو اپنے لیے صحیح اور دوسرے موقف کو اس کے لیے درست تسلیم کیا ہے-
(۳) ائمہ اربعہ برحق ہیں، ہر ایک نے اپنی وسعت بھر غور و فکر ، محنت و جاں فشانی اور تدبر کے بعد جو حکم صادر کیا ہے -اگر وہ سب کے سب کسی مسئلے میں متفق ہیں تو بلا وجہ ان سے الگ راہ نکال کر امت کے لیے انتشار اور مسلم عائلی قوانین کے لیے خطرات کے اسباب نہ پیدا کیے جائیں- اگر گہرائی میں اتر کر سوچیے تو ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کو سب سے زیادہ خطرہ بے علمی کے باوجود ہمہ دانی کے اسی غرہ سے ہے- اور اگر زیر بحث مسئلہ میں ائمہ اربعہ مختلف ہوں تو اکثریت کی رائے ، حالات و تقاضے اور ضرورت و حاجت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کے سامنے اپنا متحدہ موقف پیش کیا جائے- صرف اپنی بات منوانے کی ضد ہرگز نہ کی جائے-
(۴) مسلم پرسنل لا بورڈ نے جس جذبہ و شوق سے اپنا سفر شروع کیا تھا آج وہ نہ تو جذبہ بر قرار رہ سکا اور نہ وہ ارادے سالم رہ سکے- اس بات کو بورڈ کے ذمہ داران کو تسلیم کرنا چاہیے- یقینی طور پر آج وہ ایک خاص مسلک کا اشتہاری ادارہ ہو کر رہ گیا ہے- اب بورڈ والوں کے سامنے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ وہ یا تو اس بات کا اعلان کر دیں کہ وہ صرف ایک مکتب فکر کا نمائندہ ادارہ ہے یا پھر ملک گیر سطح پر اس کو ہر طبقے کا نمائندہ بنانے کے لیے تحریک کا آغاز کریں- اس کی درمیانہ روش منافقت کی علامت معلوم ہوتی ہے اور منافقت کے ذریعہ کم از کم دین کا کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا-
(۵) اگر بورڈ آج پھر ملک بھر کے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے اعلان کرتا ہے، اس کی تحریک چلاتا ہے تو دیگر تمام مسالک و مکاتب کے افراد اس تحریک کو بورڈ کے استحکام کی کوشش نہ سمجھ کر آزاد ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی بنیادی کوشش سمجھیں اور ماضی میں بورڈ کی فرو گزاشتوں پر کیڑے نکالنے کی بجائے آج اس کی صحیح تشکیل کیسے کی جائے ؟ اس پر غور کریں -
(۶) اگر بورڈ اس طرح کی پیش رفت نہیں کرتا ہے ( اور امید بھی غالباً یہی ہے) تو سب کو اپنے اپنے بورڈوں کی طرف متوجہ ہونے اور اپنے اپنے مسلک کے نمائندہ بورڈ کو مستحکم بنانے کی طرف پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے- اگر مسلمان نظریاتی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہوئے اور ہر مسلک کی نمائندہ شخصیتیں اس کام کے لیے آمادہ نہیں ہوتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے خود ہی تیار نہیں ہیں- عدالتی فیصلوں پر ان کا وقتی احتجاج اپنی قوم کو تسلی دینے کی ایک شاطر کوشش ہوتی ہے ورنہ حقیقی معنی میں خود مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کا جذبہ ان کے سینوں میں قطعی طور پر نہیں ہے-
(۷)کچھ مہربانوں نے قدیم و جدید بورڈ پر مجلسی تنقید کو اپنا مشغلہ بنا لیا ہے ، لیکن جب خود انہیں قدیم یا جدید بورڈ کی ذمہ داروں کی طرف سے کوئی پیش کش ہوتی ہے تو متوقع منصب نہ ملنے کی وجہ سے وہ کنارہ کش ہو جاتے ہیں- ایسے افراد بورڈ کے ذمہ داروں سے بھی مسکرا کر ملتے ہیں اور پس پشت اس کی جڑیں کاٹنے کے لیے بھی کوشاں رہتے ہیں- ایسے افراد کو اپنے درون دل کا حال معلوم کرنا چاہیے اور ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ کے لیے رات کی تنہائی میں کچھ دیر سوچنا چاہیے-
(۸) اگر ہر مسلک کے نمائندہ افراد اپنے بورڈ کو مستحکم کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ،جب بھی یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے- بشرطیکہ اس کے لیے جذبہ کسی دوسرے بورڈ کو زیر دکھانے، کسی سیاسی ایشو کو گرم کرنے یا کسی دوسرے مسلک یا جماعت کی مخالفت نہیں مسلم پرسنل لاء کا تحفظ ہونا چاہیے- مذکورہ کام کسی دوسرے ادارے کے جھنڈے تلے کیے جائیں، مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے نام پر قائم بورڈ کے تحت نہیں- 
(۹) مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی کوشش خواہ مسلکی سطح پر ہو خواہ بین المسلکی سطح پر، اس کے لیے اختلاف کے ساتھ جینے کا فارمولہ بہر حال پیش نظر رکھنا ہوگا-بین المسلکی سطح پر کام کرتے ہوئے باہم حلول و انضمام کی کوشش ،منافقانہ رویہ اور پس وپیش کی بجائے علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تاریخی فکر انگیز بیان (جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے) پیش نظر رکھنا چاہیے -اگر اس کے لیے مسلکی سطح کی کوشش ہو جب بھی شخصی، ادارہ جاتی، مشربی اور علاقائی اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی کوشش مشترکہ طور پر جاری رکھنی چاہیے-اس خیال کے ساتھ کہ پہلے ان اختلافات کو دور کر لیا جائے پھر مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کے لیے کوشش کی جائے، کبھی بھی مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی ادنیٰ کوشش بھی نہیں ہو سکتی-
(۱۰)حکومت کے کسی قانون یا عدالت کے کسی فیصلے پر جب مسلمانوں کا احتجاج ہوتا ہے تو پہلی آواز یہی ہوتی ہے کہ ’’یہ مسلم پرسنل لا میں صریح مداخلت ہے‘‘ جسے کسی قیمت پر برداشت نہیں کیا جائے گا لیکن مسلمانوں کا رویہ اور قائدین کے طرز عمل کو دیکھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ تھوڑی بہت قیمت پر مداخلت کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں-اس لیے حکومت کے خلاف آواز اٹھانے سے پہلے مسلمانوں کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ ان کا منافقانہ رویہ مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔