Tuesday 23 January 2018

میلاد النبی کی خوشیاں غم کاباعث کیوں؟

0 comments
میلاد النبی کی خوشیاں غم کاباعث کیوں؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-------------------------------------------------------------------------
ربیع الاول شریف کے آتے ہی عالم اسلام میں خوشیوں اور شادمانیوں کی لہر دوڑپڑتی ہے،مگر ایک خاص طبقے میں غم کے آثار بھی نمودار ہونے لگتے ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جس کے نزدیک میلاد رسول کی خوشیاں،ماہ ربیع النور میں ذکر رسول،جلوس میلاد اوراس قسم کی دوسری تقریبات ناجائزوحرام ہیں۔ ان کی دلیل حدیث رسول’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘کی وہ تفسیر ہے جس کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو کسی بھی مسلمان کے لیے اس دور میں زندہ رہنا نا ممکن ہو جائے گا،اسے بے موت مرنے کی تیاری کرنی ہو گی،پچھلے سو سالوں سے صوفیہ اور وہابیہ کے بیچ یہ موضوع زیر بحث ہے،ربیع الاول کے موقع سے پوری دنیا کے سامنے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام امن پیش کرنے والے مسلمانوں کو ہر سال وہابی مکتب فکر کے علمی موشگافیاں کرنے والوں کی جانب سے دلی صدمہ پہنچتا ہے اور وہ میلاد رسول کی خوشیوں کے ساتھ اس غم کو بھی بخوشی برداشت کرتے ہیں، مگر اس سال خلاف روایت انہیں غم کا ایک دوسراجام بھی نوش کرنا پڑا، ٹھیک اس وقت جب کہ کراچی پاکستان کے نشتر پارک میں ہزاروں مسلمان ذکر رسول کے عظیم الشان اجتماع میں شریک تھے، مغرب کے وقت ایک زور کا دھماکہ ہوا اور نظر جھپکتے ہی سیکڑوں افراد خاک و خون میں ڈوب گئے۔۵۰؍ سے زائد جاں بحق ہوگئے اور تقریباً ۱۰۰؍ افراد شدید طور پر زخمی ہوگئے، جنہیں اسپتال پہنچادیا گیا۔
اس واقعہ کے بعد پاکستان میں سخت افرا تفری کا ماحول گرم ہوگیا، مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، گاڑیوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا، فائر بریگیڈ کی گاڑی کو بھی آگ لگا دی، اور تو اور یہ طوفان کراچی کے جناح اسپتال جس میں زخمیوں کو پہنچایا گیا تھا، تک پہنچ گیا، شعبۂ حادثات کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کے بقول’’ لوگوں نے اسپتال میں ہنگامہ کیا مگر سیکورٹی ایجنسیوں اور فورسیز کا کوئی اہل کار اسپتال کے عملے کو تحفظ دینے کے لیے موجود نہیں تھا، اسپتال میں ایمر جنسی نافذ کردی گئی تھی، تمام ڈاکٹر اور نرس اسٹاف موجود تھا مگر سیکورٹی کے نام پر ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، خوف اتنا تھا کہ وہ بات بھی نہیں کرسکتے تھے۔‘‘
 ( اخبار مشرق، دہلی ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۶ء)
اس کے بعد مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی بیان بازیوں کا دور شروع ہوا، بہت سے لوگوں نے اس کو مسلکی جنگ قرار دیا جب کہ دوسرے حضرات نے اس کے پیچھے حکومت کی سازش کو ذمہ دار ٹھہرایا، اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں کہی گئیں، مہاجر قومی مومینٹ کے لیڈر الطاف حسین نے جو ابھی لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، صاف لفظوں میں کہا کہ:
’’ یہ واقعہ ان عناصر کی کرتوت ہے جو ذکر مصطفی سے کوئی سروکار نہیں رکھتے اور جو ایسی محفلوں کے انعقاد کو شرک و بدعت قرار دیتے ہیں اور جنہوں نے اہل سنت کے خلاف اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ جاری کررکھا ہے۔‘‘ ( قومی آواز،نئی دہلی، ۲۰؍ اپریل ۲۰۰۶ء)
مفتی منیب الرحمن کی سربراہی میں سنی تحریک نگراں کمیٹی کے انچارج شاہد غوری، وفاقی و زیر مملکت برائے مذہبی امورڈاکٹر لیاقت حسین اورمعروف عالم دین مولانا کوکب نورانی پر مشتمل ایک وفد نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی، یہ وفد اس سانحے کی تفتیش و تحقیق کے مطالبہ کے لیے گیا تھا، جنرل مشرف نے ان کے سامنے سخت افسوس کا اظہار کیا اور اس کا یقین دلایا کہ واقعہ میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی اور انہیں کسی طور سے معاف نہیں کیا جائے گا۔ ( امریکی آن لائن اخبار ’’ اردو ٹائمز‘‘ ۱۷-۲۷؍۴،۲۰۰۶ء)
 وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شیخ رشید احمد نے بعض افراد کا واقعہ کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کو افسوس ناک بتاتے ہوئے کہا کہ کراچی بم دھماکے کی تحقیقات بہت آگے بڑھ چکی ہیں اور بہت جلد واقعہ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرلیا جائے گا ۔( ایضاً)
 دوسری طرف متحدہ مجلس عمل کے سربراہ اور جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد نے کراچی بم دھماکے کی تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام حکومت کے حلیفوں نے کیا ہے، پھر ان سے صاف اور شفاف تحقیقات کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔‘‘ ( ایضاً)
 حقیقت جو بھی ہو، اب تک سامنے نہیں آسکی، اب تک صرف قیاس آرائیاں ہورہی ہیں، ویسے عالمی سطح پر جو حقیقت بے نقاب ہوئی ہے، اس سے مسلمانوں کی شبیہ اور بھی بگڑ گئی ہے، ذرا سوچیے تو سہی کہ اس سانحہ کا اثر غیر مسلم اقوام کے ذہن و دماغ پر کیا مرتب ہوا ہوگا؟ دنیا کی کو ن سی قوم ہے جو اس بیداری کے دور میں بھی اپنے بھائیوں کا خون پینے کے لئے بیقرار ہے، وہ کون سے لوگ ہیں جو اپنے بانی مذہب کی تاریخ ولادت پر صرف لفظی اور تحریری مناظرے ہی نہیں کرتے، ایک دوسرے کے خلاف بم اور بارود کا بھی بے محابہ استعمال کرتے ہیں، جو مذہب آج بھی امن کا پیغامبر ہے آخر اس کے ماننے والے اس وحشت کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ سرزمین پاکستان کو مملکت خدا داد کہنے والے خواہ جس فرقے سے ہوں، وہ اس پہلو پر کیوں نہیں سوچتے؟ وہ اپنی اصلاح اس انداز میں کیوں کررہے ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا کردار و عمل غیر صالح دکھائی دے رہا ہے، ہندوستانی صحافی ایک مدت سے لکھتے آرہے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا خون سڑکوں پر اور ان کے گھروں میں بہایا جاتا ہے مگر پاکستان میں مسجدوں، مدرسوں اور خانقاہوں میں مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام ہوتا ہے، کیا پاکستانی دانشوروں، بزعم خویش اصلاح پسندوں اور مجاہدوں کو اس بات سے شرم نہیں آتی ؟ آج یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے اندر بیداری، سوچ، اور اصلاح حال کی لہر دوڑ پڑی ہے مگر اس کے ساتھ محاسبۂ حال کی رفتار اس قدر سست کیوں ہے؟ یہ بھی کہا جا تارہا ہے کہ انگریز نے مسلمانوں کو فرقوں میں بانٹا اور انہیں باہم لڑا دیا اور آج بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ عالم اسلام کے پس پردہ کوئی طاقت موجود ہے جومسلمانوں کو آپس میں اس قدر الجھا دینا چاہتی ہے کہ ان کی نظر باہر کے دشمن پر نہ پڑسکے، اگر یہ سچ ہے تو مسلمان اپنے رویوں میں تبدیلی کیوں نہیں لارہے ہیں؟ کوئی بد عقیدہ ہے تو کوئی بدعتی، کوئی بد دین ہے تو کوئی قبر پرست، کوئی جدت پسند ہے تو کوئی قدامت پسند، ہر کوئی دوسرے کی اصلاح میں سرگرم ہے، اگر یہ خلوص پر مبنی ہے اور تلاش حق کے لیے ہے تو اس سے بہتر اور کون سا کام ہوگا، مگر یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ مسائل کو بحث کی میز پر سلجھانے کی بجائے بارود کے ڈھیر پر بیٹھ کر زندگی اور موت سے کھیلا جائے، کشمیر کے تعلق سے باوثوق خبریں ہیں کہ وہاں کے کتنے صوفیوں اور سنی عالموں کو دن کے اجالے میں گولیوں سے بھون دیا گیا، میں سمجھنے سے قاصر رہا کہ یا اللہ یہ کون سا جہاد ہے؟ علاوہ ازیں اسلام میں جہاد مسئلے کا آخری حل ہے، اگر یہ کور چشم اس کو جہاد سمجھ رہے ہیں تو ان کی نظروں سے یہ پوشیدہ کیوں ہے کہ اس سے مسائل حل ہونے کی بجائے اور پیدا ہورہے ہیں؟ کیا آج اہل سنت، اہل حدیث، دیوبندی، جماعت اسلامی، شیعہ یا کسی بھی فرقے کا آدمی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے کہ وہ دوسرے فرقوں کے دس بیس یا دو چارہزار افراد کو قتل کر کے اس کو نیست و نابود کردے گا؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر خواہ وہ کوئی بھی ہو، قتل و خون ریزی کو مسئلہ کا حل کیوں کر سمجھ رہا ہے؟…ع… ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
کراچی سانحہ کی خبر ملتے ہی میرے ایک دوست نے کہا کہ یہ بات حلق سے نہیں اترتی کہ نبی کا کلمہ پڑھنے والا خواہ جس فرقے سے ہو، وہ پیغمبر دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے موقع پر اس طرح کا گھناؤنا عمل کرے گا، اس بات سے میں نے بھی اتفاق کیا اور عالمی سطح پر جو حالات ہیں، ان کے پیش نظر اس سے انکار میرے لیے اب بھی مشکل ہے، آئے دن جس طرح چھوٹے بڑے بم دھماکوں کے واقعات دنیا کے ہر خطے میں رونما ہورہے ہیں، اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے جس آسانی سے ان کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرا دیا جارہا ہے اس کے پیش نظر یہ سمجھنا اب ہماری مجبوری بنتی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے جرم سے بہت زیادہ سزا دی جارہی ہے، مسلمان اگر معصوم نہیں تو اتنے بڑے مجرم بھی نہیں جتنا بڑا انہیں پیش کیا جارہا ہے، کراچی سانحہ کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ خود کش حملہ تھا، اس سے اس خیال کو اور بھی تقویت ملتی ہے کہ بہر حال اس میں کسی مسلم جماعت کا ہاتھ نہیں ہے، کیوں کہ مسلمانوں میں مسلکی منافرت کی آگ ابھی اتنی شدت اختیار نہیں کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف خود کش حملہ کرنے لگیں۔ لیکن دوسری طرف یہ دیکھ کر کہ پاکستان کے لیے یہ کوئی نیا واقعہ نہیں، اس طرح کے مختلف واقعات اس سے پہلے ہوچکے ہیں، اس پہلو سے بھی مکمل چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔
میلاد رسول کا مسئلہ:- 
یہاں موقع کی مناسبت سے میلاد رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مسئلہ کو اس کے موافق و مخالف دلائل کے ساتھ پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، کیوں کہ کراچی سانحہ تو ایک عارضی تھا، یہ مسئلہ ہر سال کا ہے، ماہ ربیع الاول کے آتے ہی ہر سال اخبارات و رسائل سے لے کر کوچہ و بازار تک اس مسئلے پر اظہار خیال شروع ہوجاتا ہے، یہ اور بات ہے کہ یہ اظہار خیال افہام وتفہیم کے لیے یا حق سمجھنے کے لیے نہیں ہوتا ہے بلکہ جس گروپ نے جو مفروضہ بنا رکھا ہے، اس کوآنکھ بند کرکے ثابت کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میلادرسول کا جشن منانے سے روکنے والے عموماً یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین مکمل ہوگیا تو اب بعد میں ربیع الاول منانا اپنی طرف سے مذہب اسلام میں اضافہ اور حکم قرآن کی خلاف ورزی ہے اور جشن میلاد منانے والے یہ کہہ کر کہ میلاد رسول کا ذکر قرآن میں ہے، یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جشن میلاد رسول منانا خدا کی سنت ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہر مسئلہ کے دو پہلو اور ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں، اب آدمی جس کو پسند کرلیتا ہے اس کے حسن کو ثابت کرنے کے درپے ہوجاتا ہے، اور اپنے موقف پہ ایسی دلیلوں کا انبار لگادیتا ہے جن میں سے کسی ایک کوبھی حقیقی معنیٰ میں دلیل کہنا بہت مشکل ہوتا ہے، ایک منصف کا کام یہ ہونا چاہیے کہ مسئلے کے دونوں پہلوؤں کا بغور جائزہ لے اور بہت سوچ سمجھ کر، ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہو کر مسئلہ کی حقیقت دریافت کرنے اور اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے، جشن میلاد اور اس طرح کے دیگر موضوعات پر بحث کے دوران عموماً لوگ محدث بریلوی مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کو لے کر آتے ہیں، عید میلاد کے مخالفین بھی اور موافقین بھی، اس سے ایک بڑی غلط فہمی یہ پیدا ہوتی ہے کہ یہ امور مولانا احمد رضا خاں کی ایجاد ہیں، اس غلط فہمی کے بعد لمبی بحثیں کرنے کے بعد بھی حقائق تک رسائی حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ کو صحیح طور سے سمجھنے کے لیے جشن میلاد النبی کے باضابطہ آغاز کا علم بہت ضروری ہے، عام محققین کی رائے یہ ہے کہ موصل عراق کے شہر اربل کے بادشاہ مظفر ابو سعید کو کبری( وفات:۶۳۰ھ) نے سب سے پہلے باضابطہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منانا شروع کیا۔ مشہور مورخ ابن کثیر لکھتا ہے: ’’کان یعمل المولد الشریف فی ربیع الاول و یحتفل بہ احتفالاً ھائلاً‘‘ ( سلطان ربیع الاول میں محفل مولود منعقد کرتا تھا اور اس تقریب پر خوب اہتمام کرتا تھا )( حسن المقصد فی عمل المولد، امام جلال الدین سیوطی،ص۳۸ دار العلوم جائس، رائے بریلی، یوپی ۲۰۰۴ء)
لیکن مولانا حسن مثنیٰ ندوی اپنی تحقیق کے مطابق رقم طراز ہیں:
’’سلطان ملک شاہ سلجوقی اپنی مہمات سے فارغ ہوکر سالہا سال کے بعد جب بغداد پہنچا تو ۴۸۴ھ تھا، اس نے ۴۸۵ھ میں ایک مجلس مولود دھوم دھام سے بغداد میں منعقد کی، اس کا بڑا چرچا ہوا، یہ ایک سرکاری اہتمام کی مجلس تھی، اس لیے اس کو تاریخ کے صفحات میں جگہ ملی، عید میلاد النبی کا آغاز اس سے کہیں پہلے ہوچکا تھا۔‘‘
(اردو میں میلاد النبی : تحقیق، تنقید، تاریخ ،ص:۸۲۰، فکشن ہاؤس لاہور بحوالہ ’’ سیارہ‘‘ ڈائجسٹ لاہور، نومبر ۱۹۷۳ء رسول نمبر جلد دوم ،ص:۴۵۵)
ہندوستان میں مسلکی نزاعات کے ما قبل کے عہد میں محافل میلاد النبی کے انعقاد اور جشن میلاد منانے کی روایتوں پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے معروف محقق پروفیسر محمد مسعود احمد کراچی پاکستان رقم طراز ہیں:
’’ ابن تیمیہ بھی محافل میلاد منعقد کرنے والے مخلصین کی تائید کرتے ہوئے اجر و ثواب کی بشارت دیتے ہیں، محافل میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نئی چیز نہیں، صدیوں سے اس کا سلسلہ جاری ہے اور اس کی اصل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے، حضر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ کے والد ماجد حضرت شاہ عبد الرحیم علیہ الرحمہ پابندی کے ساتھ یوم ولادت با سعادت پر کھانا پکا کر فقراء میں تقسیم کرتے تھے، خود حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ کا معمول تھا کہ۱۲؍ ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ کا ذکر ولادت فرماتے، پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے، حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ مکہ معظمہ میں ایک محفل میلاد میں شریک ہوئے جہاں آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ انوارو تجلیات کی بارش ہورہی ہے، مولوی رشید احمد گنگوہی کے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ محفل میلاد کو ذریعۂ نجات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتے اور کھڑے ہوکر صلوٰۃ و سلام پیش کرتے۔‘‘ ( عیدوں کی عید، ص: ۳ پروفیسر مسعود احمد، رضوی کتاب گھر دہلی )
ان سطور سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ کو محدث بریلوی یا سنی دیوبندی اختلافات سے جوڑنا کس قدر حقیقت سے ناواقفی ہے، اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ غلط فہمیوں سے بے پر یہ کر حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، آج حقائق سمجھنے کی بجائے لٹھ باز طریقے سے اپنے موقف کو ثابت کرنے کا رجحان اس قدر عام ہوگیا ہے کہ اب بہت سے لوگ حقائق جاننے کی کوشش کو بھی گناہ سمجھنے لگے ہیں، مثال کے طور پر اسی کراچی سانحہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہفت روزہ ’’ ویو زٹائمز‘‘ کے ایڈیٹر جناب ایم ودود ساجد لکھتے ہیں:
’’ہمیں جلوس محمدی کے جواز اور عدم جواز پر بحث مقصود نہیں ہے کہ یہ بحث ایک صحت مند معاشرہ کے لیے زہر قاتل ہے۔‘‘ 
( قومی آواز ،۲۰؍ اپریل۲۰۰۶ء)
جناب ساجد صاحب کی بیزاری در اصل مسلکی اختلافات سے پیدا شدہ حالیہ قتل و غارت گری سے ہی ہے، مگر جذبات نے ان کی نوک قلم کو صحیح سمت پر گامزن نہیں رہنے دیا اور وہ جادۂ اعتدال سے منحرف ہوگئے، حالانکہ ہر اس انسان کو جواباحیت پسندی کا قائل نہیں ہے، کبھی بھی تلاش حق کے سفر سے تھکنا نہیں چاہیے، بلکہ اعتدال، توازن، سنجیدگی اور افہام و تفہیم کے ذریعہ حق کو دریافت کرنے کی سعی میں مصروف رہنا چاہیے۔
جشن میلاد کے مخالفین کی دلیلیں:- 
مخالفین جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مختلف دلیلیں دیتے ہیں جن میں دو دلیلیں زیادہ معروف ہیں،ایک یہ کہ یہ بدعت ہے اور حدیث رسول کے مطابق ہر بد عت گمراہی ہے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ اس میں غیر مسلم قوموں سے مشابہت ہے، مخالفین ایک مدت تک یہ کہتے رہے کہ یہ ہندؤں کے دیوتا کرشن کے جنم دن منانے کی طرح ہے اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ(Birth day) یوم ولادت منانا عیسائیوں کا طریقہ ہے ، مسلمانوں نے ان کی تعداد میں اپنے پیغمبر علیہ السلام کا یو م ولادت منانا شروع کردیا ہے۔
مشابہت والی دلیل میں کتنی قوت ہے،یہ ہر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے، جشن میلاد کی تاریخی روایت سے جو شخص بھی واقف ہوگا وہ ایسی بات کبھی بھی نہیں کرسکتا، ظاہر ہے(Birth day) منانے کا رواج پچھلے چند سالوں سے متعارف ہوا ہے، بھلا ہزاروں سال سے عرب و عجم کے مسلمان اس کی تقلید کیوں کرکرنے لگے؟ایسے ہی کرشن کے جنم دن سے متاثر ہوکر میلاد النبی کا جشن منانے کی بات اگر ہندوستانیوں کے لیے کہی جائے تو کسی حد تک اس پر غور کیا بھی جاسکتا ہے مگر عربوں کے تعلق سے یہ کہنا کہ پچھلے ہزار سالوں سے وہ اس سے متاثر ہوکر جشن میلاد منارہے ہیں، بھلا کیسے معقول ہوسکتا ہے؟ پہلی دلیل کہ یہ ایک امر بدعت ہے، بڑی حد تک قابل غور ہے، اسے یکسر انداز نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس میں تو کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ جشن میلاد منانا چوتھی پانچویں یا چھٹی صدی کی ایجاد ہے، اصل کے طور پر اس کی کچھ جزوی اور مبہم مثالیں عہد نبوی میں تلاش کر کے یہ کہنا کہ عہد رسالت سے جشن میلاد منایا جارہا ہے، بہر کیف اس میں زیادتی ہے، ہاں! اسے بدعت تسلیم کرلینے کے بعد حدیث رسول ’’ کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ کے تحت اسے گمرہی قرار دینا، حدیث فہمی سے پر ے بات ہے، ایسی باتیں کرنے والے لوگ حق دریافت کرنے کے لیے حدیث نہیں پڑھتے، بلکہ اپنے مزعومہ اور مفروضہ کو ثابت کرنے کے لیے حدیث پڑھتے ہیں اور اپنے مقصد کی جہاں ایک حدیث مل جاتی ہے اس کو اس مضبوطی سے تھام لیتے ہیں گویا پوری دنیا میں وہی تنہا عامل بالحدیث ہوں، حالانکہ وہ جس وقت ایسی اتباع حدیث کرتے ہیں بعینہ اس وقت بہت سی حدیثوں کو مسترد کر دیتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ حدیثیں ان کے مقصد کے خلاف ہوتی ہیں، مثال کے طور پر بدعت کے سلسلے میں ہی ایک حدیث مشکوٰۃ المصابیح میں صحیح مسلم کے حوالے سے ان الفاظ میں موجود ہے:
’’ من سن فی الاسلام سنۃ‘‘ حسنۃ فلہ اجرھا و اجرمن عمل بھا من بعدہ من غیرأن ینقص من شئی ۔۔۔۔۔ ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ کان علیہ و زرہا و وزر من عمل بہا من بعد من غیر ان ینقص من اوزارھم شئی‘‘
 ( مشکوٰۃ ،کتاب العلم ،ص:۳۳)
( جس نے اسلام میں اچھی روایت کی بنیاد ڈالی اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کا اجر بھی اسے ملے گا جو اس کے بعد اس روایت کو قائم رکھے گا، اور اس کے حصے کا کچھ کم بھی نہ ہوگا، اور جس نے اسلام میں بری روایت قائم کی اس کا وبال اس کے سر ہوگا اور اس کا وبال بھی اس کے سر ہوگا جو اس کے بعد اس روایت کو قائم رکھے گا، بغیر کسی کمی کے )
یہ حدیث پہلی حدیث کی تفسیر ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ میں بدعت سے مراد ہر نئی چیز یا ہر نئی روایت نہیں ہے، اس سے مراد صرف ’’ سنۃ سیئۃ‘‘ ( غلط طریقے ) ہیں، اسلام میں اچھی روایت قائم کرنا بجائے خود ایک پسندیدہ عمل ہے، اس حدیث پاک کو سامنے رکھنے کے بعد ہی پہلی حدیث کو سمجھا جا سکتا ہے اور اسلام پر روایت پرستی اور قدامت پرستی جیسے الزامات کو دور کیا جاسکتا ہے، مگر جن لوگوں کی عادت اپنی مرضی کو حدیث سے ثابت کرنا ہوتی ہے، وہ اس کی طرف نظر نہیں کرتے۔
عالمی شہرت کے حامل غیر مقلد عالم دین شیخ یوسف قرضاوی غالباً ایسے افراد کے تعلق سے ہی لکھتے ہیں:
’’ دوسرا گروہ وہ ہے جو حلال و حرام کے مسائل میں ایک متعین رائے پر جامد ہو کر رہ گیا ہے، یہ لوگ نصوص کے صرف الفاظ اور اس کی عبارتوں کے متبع ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اصل اسلام یہی ہے، وہ اپنی رائے سے بال برابر ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہ اپنی رائے اور مسلک کو دلائل کے ذریعے پرکھنے اور دوسروں کے دلائل سے موازنہ کرنے کے لئے تیار ہیں کہ اس کے بعد جو حق نکھر کر سامنے آئے اسے قبول کرلیں، وہ آسانی سے بہت سی چیزوں پر حرام کا حکم لگادیتے ہیں اور سلف صالحین کا یہ طریقہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کسی چیز پر حرام کا اطلاق نہیں کرتے تھے، بجز ان چیزوں کے جس کی حرمت قطعی ہو، ان کے علاوہ دوسری چیزوں کے بارے میں وہ مکروہ، نا پسندیدہ وغیرہ الفاظ استعمال کرتے تھے۔‘‘ ( الحلال و الحرام فی الاسلام ، اردو ترجمہ، ص:۱۰ الدار السلفیہ، ممبئی ۱۹۹۳ء)
شیخ یوسف قرضاوی کی اس تحقیق کے بعد یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ کسی امر کا صرف بدعت ہونا اس کے ناجائز و حرام ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔
میلاد النبی کی خوشیاں کیوں؟:-
 جسٹس کوثر نیازی (پاکستان) میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشیوں کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ تاریخ عالم کے دھاروں کا رخ پلٹ دینے والے کا یوم ولادت منانے کی سعادت ہمیں حاصل ہورہی ہے، ہم اس پر جتنا بھی فخر کریں کم ہوگا۔‘‘ (میلاد النبی :تحقیق، تنقید ،تاریخ ص:۷۶۷، بحوالہ :ذکر رسول،ص:۴)
مسلمانوں میں رائج دس سو سالہ بدعت جشن میلاد کے اثبات میں اب تک سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں اور ہزاروں دلیلیں دی گئیں، ایک عام ذہن کے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ جو امر ہزار سالوں سے مسلمانوں میں رائج ہے اور مسلم علماء نے اس کی حمایت و تائید کی ہے وہ ناجائز و حرام نہیں ہوسکتا، بلکہ بعض حضرات جو اس کی مخالفت کرتے ہیں وہ بھی صرف اسی لیے کہ تقریب میں بعض غلط اور نا روا امور بھی انجام پاتے ہیں، اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے امام جلا ل الدین سیوطی (م۹۱۱ھ،۱۵۰۶ء) رقم طراز ہیں: ’’یہ بلا شبہ صحیح بات ہے، لیکن اس کا حرام ہونا ان اشیاء محرمہ کی وجہ سے ہے جو اس میں شامل ہوگئیں نہ کہ میلاد کی تقریبات اور خوشی و مسرت کے اظہار، اجتماع یا جلسہ جلوس کرنے کی وجہ سے، بلکہ یہی برے امور اگر جمعہ کے اجتماع بھی پائے جائیں تب بھی یہ برے اور قبیح ہی ہوں گے۔‘‘
( حسن المقصد فی عمل المولد، اردو ترجمہ،ص:۲۲)
موجودہ دنیا بدعتوں کی دنیا ہے، ہر لمحہ ایک نئی بدعت ظہور پذیر ہورہی ہے، ہر قدم پر نئی ایجاد کی جلوہ فرمائی ہے، ایسے میں ہر مسئلہ کو ہم ’’ بدعت‘‘ کہہ کر مسترد کرنے لگے تو امت مسلمہ شدید کشمکش اور بحران سے دوچار ہوجائے گی، ہاں نئی چیزوں کو قبول کرتے ہوئے صرف ایک نکتہ سامنے رہنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی چیز روح اسلام کے خلاف ہے؟ کوئی بھی نئی چیز اگر اسلامی روح سے متصادم ہو وہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی، خواہ ظاہراً وہ کتنی خوبصورت کیوں نہ ہو۔
جشن میلاد کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو یہ چند امور سامنے آتے ہیں (۱) ذکر رسول (۲) جلسۂ سیرت (۳) روشنی (۴) جلوس (۵) غریبوں اور فقیروں کو کھانا کھلانا (۶) تلاوت قرآن و نعت خوانی وغیرہ۔ ان امور کے تعلق سے اگر یہ بات کہی جائے کہ یہ اسلامی روح کے خلاف ہیں تو یہ بڑی عجیب بات ہوگی، جس کو شاید دنیا کا کوئی بھی انصاف پسند تسلیم نہیں کرسکتا۔ البتہ مذکورہ امور کے ساتھ بعض مقامات پر عورتوں کا میلہ، سیر و تفریح اور اس جیسے دوسرے امور بھی رائج ہوگئے ہیں، جو غلط ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہیے، ان کی جانب سے بھی جو جشن میلاد منعقد کرتے ہیں اور ان کی جانب سے بھی جو ان برائیوں کو ختم کرنے کی بجائے جشن میلاد کے خلاف ہی بر سر پیکار ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عصر جدید کے تقاضوں کے پیش نظر جشن میلاد کی تقریبات میں مزید اچھی باتوں کا اضافہ ہونا چاہیے، آج میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو پیغمبر امن و رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کی خبر ہوجاتی ہے، اس کا لازمی اثر یہ ہوتا ہے کہ دنیا کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کا تجسس پیدا ہوجاتا ہے، یہ موقع اس کے لیے بہت موزوں ہوتا ہے کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عالمی سطح پر عام کیا جائے، اور اسلام کے پیغام امن، دعوت انصاف اور نظام مساوات کو زیادہ سے زیادہ مشتہر کیا جائے۔ نیز عملی اسلام کو پیش کیا جائے، غریبوں کی خبر گیری، مریضوں کی عیادت اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی اس پیمانے پر ہو کہ اس کی خبر یںپوری دنیا میں پھیل سکیں اور دنیا کو معلوم ہوسکے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے پوری دنیا میں رسول کی عملی زندگی کو پیش کررہے ہیں۔
اقبال کا پیغام اتحاد:-
 ۱۹۳۵ء میں جالندھر کے جلسہ میلاد اور جلوس میں علامہ اقبال موجود تھے، انہوں نے اس میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’ چند سال ہوئے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ خدا تعالیٰ مولود شریف کے ذریعے سے اس امت کو متحد کرے گا، مجھے عرصہ تک حیرت رہی کہ یہ واقعہ کس طرح رونما ہوگا، اب تحریک یوم النبی نے اس خواب کی تعبیر کو حقیقی طور پر نمایاں کردیا ہے۔‘‘ ( اردو میں میلاد النبی ،ص:۸۲۹، بحوالہ اخبار ’’ ایمان‘‘ پٹی ضلع لاہور ۴ تا ۱۱ مئی ۱۹۳۵ء)اقبال نے مولود شریف کے ذریعے امت کے اتحاد کا خواب دیکھا اور تحریک یوم النبی کو اس خواب کی تعبیر بتایا، غالباً اس تحریک میں ہر فرقے کے لوگ شریک ہوئے ہوں گے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ میلاد کے مسئلہ پر اب تک بر صغیر کے مسلمانوں کا اتحاد نہیں ہوسکا، بر عکس اس کے وہ اس مبارک موقع پر باہم نفرت و عداوت کی فضا ہموار کردیتے ہیں، آج ہر مسلم جماعت کو علامہ اقبال کے اس خواب کے بارے میں سوچنا چاہیے، اگر ہر کوئی جائز طریقے سے جشن میلاد منانے لگے تو یہ خواب پورا ہوجائے گا اور نبی کے نام پر پوری دنیا کے مسلمان متحد و متفق نظر آئیں گے، اس سے غیر مسلم اقوام میں بڑا خوش گوار پیغام جائے گا جو مسلمانوں کے حق میں بھی بہتر ہوگا اور اسلام کے لیے بھی بھلا ہوگا۔ دیکھنا ہے مسلمان نفرت کی راہ چھوڑ کر محبت کی راہ کب اختیار کرتے ہیں؟
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔