Tuesday 23 January 2018

حجاب:عصری تناظر میں

0 comments
حجاب:عصری تناظر میں
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
------------------------------------------------------------------------
ملا مزاج شاعر جناب اکبر الہ آبادی کیا خوب فرما گئے :
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
اشتراکیت پر ایمان رکھنے والے تجدد پسند مسلم ناقدین کے نزدیک اس قسم کے اشعار کل تلک ’’ روایت ‘‘ کے زمرے میں آرہے تھے مگر بقول شخصے’’ اب زمانہ کافی ترقی کر چکا ہے، اب اس طرح کے اشعار پڑھنے اور سننے سے شدید اندیشہ ہے کہ انسان موجودہ ترقی کے سفر میں نہ صرف پچھڑ جائے اور اس کا وجود گرد کارواں میں گم ہو کر رہ جائے بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کی فکر کی پرواز رک جائے اور اس کے حواس خلل کا شکار ہو کر رہ جائیں-‘‘
پچھلے دنوں مجھے ایک دانشورانہ (اس کا معنی احمقانہ نہیں ہے) قسم کے ایک مباحثے میں شرکت کا اتفاق ہوا، اتفاق( اس میں حسن اور سوء کی قید نہیں ہے) سے تقریباً مباحثے کے تمام شرکاشاعر مزاج ملا تھے، شاعر مزاج میں انہیں اس لیے نہیں کہتا کہ انہیں شعر و ادب کا ذوق تھا بلکہ اس لیے کہ ان کی دانشوری کچھ شاعرانہ یعنی خیالی قسم کی تھی، اور ’’ ملا‘‘ کہنے کی وجہ تو صاف ہے، کیوں کہ ان میں اکثر بے ریش ہوتے ہوئے بھی اپنے ساتھ کسی نہ کسی مدرسے کی سند رکھے ہوئے تھے- مباحثے کا موضوع تھا’’ حجاب مفید یا مضر؟‘‘ زیر بحث موضوع کے دونوں پہلوئوں پر پر زور دلائل دیے جا رہے تھے اور میں حیرت و استعجاب کا مجسمہ بنے دیکھے جا رہا تھا، اچانک ایک ڈاڑھی لہرائی، پیشانی پر نوع بہ نوع سلوٹیں پڑیں، میں نے سو چا اب حجاب کے منکرین کی خیر نہیں-اور جناب گویا ہوئے:
’’ حجاب کے مسئلہ پر اب ہمیں روایت سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے، اس میں شبہ نہیں کہ حجاب Hesitationکا سبب ہوتا ہے، اس کے ہوتے ہوئے مرد اور عورت بے تکلف تبادلۂ خیالات نہیں کر سکتے، جو کہ موجودہ مخلوط دنیا میں ضروری ہے، دوسری بات یہ ہے کہ آج جہاں کہیں بھی عورتیں حجاب لگاتی ہیں وہ ایسا مردوں کے دبائو میں کرتی ہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایران میں ایک فیشن شو منعقد ہو ا جس کے بعد وہاں کی عورتوں نے ایک سروے کو انٹریو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ذاتی طور پرحجاب پسند نہیں کرتیں-‘‘
اس سے قطع نظر کہ موصوف نے میرے اعتبار کا خون کر دیا جی چاہا کہ ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کر دوں کہ’’ جیسا کہ جناب نے خود بھی شاید سماجی دبائو میں ڈاڑھی رکھ لی ہے-‘‘ انہیں میں یہ کیسے سمجھاتا کہ موجودہ دنیا میں رائج ہر چیز کو ’’ضرورت‘‘ کے ذیل میں شامل کرنا ہمارے لیے ایک مسائل انگیز حل ہے- دنیا کا موجودہ نظام غیر مساوی بنیادوں پر قائم ہے، کسی کے پاس دوروٹی کی قیمت نہیں اور کسی کے پاس اتنی دولت ہے کہ اس کو رکھنے کے لیے بینک اور خزانے بھی تنگ پڑ رہے ہیں، اقوام متحدہ جس کی تشکیل امن عالم کی بحالی کے لیے ہوئی ہے اس نے طاقتور ملکوں کو Veto Powerدے کر انصاف کے معاملے میں انسانوں کو تقسیم کر دیا ہے اور ان باتوں کو بھی چھوڑیے تو آج Sex CultureاورPorno Cultureکی باتیں چل رہی ہیں اور یہ چیزیں ترقی یافتہ ممالک کے نظام کا حصہ بنتی جارہی ہیں ، کیا موصوف جیسے دانشور ان چیزوں کی تائید کے لیے بھی نظر ثانی کر سکتے ہیں کیوں کہ یہ بھی جدید نظام کا حصہ ہیں-
میں جناب کو یہ بھی نہیں سمجھا سکتا کہ فیشن شو کے بعد جو سروے ہوا ہے اس پر آنکھ بند کر کے یقین کر لینا جدید دانشوری تو ہو سکتی ہے دانش مندی نہیں- کسی بھی سماج کو سمجھنے کے لیے دو پیمانے ہو سکتے ہیں، ایک اس کی عمومی صورت حال اور دوسرے اس کے بعض افراد کی ذاتی آراء اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ایران کا وہ سروے دوسرے معیار کا ہے وہ بھی فیشن شوکے بعد جس میں شریک ہونے والی خواتین سے صرف اسی جواب کی توقع کی جا سکتی تھی اور نہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دوسرا معیار عقل اور منطق کے خلاف ہے-
حجاب اور ستر کا اسلامی مفہوم:-
حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ المرأۃ عورۃ‘‘ عورت واجب الستر ہے(ترمذی) سورۂ نور ۴؍ ہجری میں نازل ہوئی، اس میں ستر سے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں:
ولا یبدین زینتھن إلا ماظہر منہا ولیضر بن بخمر ہن علی جیو بہن ولا یبدین زینتھن الا لبعولتھن او اٰبائہن او اٰباء بعولتھن اوابنا ئہن اوابناء بعولتہن اوا خوانہم او بنی اخوانہن او بنی اخواتہن او نسائہن او ما مالکت ایمانہن اوالتا بعین غیر اولی الاربۃ من الرجال اوالطفل الذین لم یظہر واعلی عورات النساء(النور :۳)
ترجمہ: اور مسلمان عورتیں اپنے بنائو سنگھار (میک اپ) کو نہ دکھائیں بجز اس چیز کے جو خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں کو دوپٹے سے ڈھانک کر رکھیں، وہ اپنے بنائو سنگھار کو صرف ان لوگوں پر ظاہر کر سکتی ہیں- عورتوں کے شوہر ، ان کے باپ ، ان کے شوہروں کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے شوہروں کے بیٹے، ان کے بھائی، ان کے بھائیوں کے بیٹے، ان کی بہنوں کے بیٹے، دیگر مسلمان عورتیں، ان کی لونڈیاں اور ایسے غلام یعنی مرد خدمت گار، جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوئے ہوں-
صاحب ہدایہ علامہ ابو الحسن المرغینانی فرماتے ہیں:
’’آزاد عورت کا چہرہ اور ہاتھوں کے سوا پورا جسم ستر ہے، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: المرأۃ عورۃ مستورۃ‘‘ عورت چھپائے جانے کی چیز ہے- اور ہاتھوں اور چہرے کا استثناء اس لیے ہے کہ کام کاج اور اداے شہادت کے وقت اس کو انہیں ظاہر کرنا پڑتا ہے، اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ عورت کے قدم بھی ستر ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ عورت کے قدم ستر نہیں ہیں اور یہی قول زیادہ صحیح ہے-
(ہدایہ اولین ص: ۷۶)
ستر سے مراد عورت کے جسم کا وہ حصہ ہے جس کا شوہر کے علاوہ کسی اور کا دیکھنا ہر گز جائز نہیں ہے- چہرہ اور ہاتھ ستر کے حکم سے خارج ہیں اور قدم کا مسئلہ مختلف فیہ ہے- ان اعضاء کا ستر کے حکم سے مستثنیٰ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ انہیں محرم دیکھ سکتے ہیں، رہے غیر محرم مرد تو ان کے سامنے ان اعضاء کو کھولنا بھی جائز نہیں بلکہ ان کو غیر محرم مردوں سے چھپانے کے لیے عورتوں پر حجاب کا استعمال کرنا ضروری ہے جس کا حکم ۵؍ہجری میں ناز ل ہوا- ہوا یوں کہ ازواج مطہرات کا چہرہ چھپائے بغیر گھروں سے باہر نکلنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نا گوار گزرتا تھا، وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار اصرار کرتے کہ ازواج مطہرات حجاب لگا کر نکلا کریں مگر پیغمبر علیہ السلام وحی کے انتظار میں خاموش رہتے، بالآخر سورۂ احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی:
یا ایہا النبی قل لا زواجک وبناتک ونساء المومنین ید نین علیہن من جلابیبہن(الاحزاب: ۵۹)
اے نبی!اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہیے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں-
اس آیت کا تعلق گھروں سے باہر نکلنے سے ہے جہاں اجنبی مردوں سے سامنا ہوتا ہے- ایسی صورت میں عورتوں کو اپنے اوپر’’ جلباب‘‘(وسیع و عریض چادر) ڈالنے کا حکم ہوا ہے، آیت کریمہ کے الفاظ ہیں:یدنین علیہن من جلابیبہن، مفسرین نے فرمایا ہے کہ علیہن میں مضاف محذوف ہے، عبارت یوں ہوگی وعلی وجوہہن یعنی اپنے چہرے پر جلباب ڈا ل لیں- اور من جلا بیبہن میں من بعضیت کو بتانے کے لیے ہے،یعنی جلباب کا کچھ حصہ ،مفسرین اس کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ ایک آنکھ ڈھنک جائے اور دوسری کھلی رہے- چوں کہ سامنے دیکھنے کے لیے ایک آنکھ کا کھلا رہنا ضروری تھا اس لیے دونوں آنکھیں ڈھنکنے کا حکم نہیں ہوا لیکن نقاب کی نئی شکلیں سامنے آنے کے بعد پورا چہرہ چھپا بھی رہتا ہے تو دیکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی- اور آیت کا مطلوب چہرے کو چھپانا ہے نہ کہ دکھانا اس لیے نقاب کی وہ شکل جس میں پورا چہرا چھپا رہتا ہے نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے-
جدید دانشوری کی جناب میں:-
حجاب پر انگشت نمائی کرنے والی جدید دانشوری کو ہم تین خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں (۱) بے دین دانشوری (۲) مسیحی و یہودی دانشوری (۳) مسلم دانشوری - اول الذکر حجاب مخالف دانشوری کا نقطۂ کمال ہے جب کہ آخر الذکر نقطۂ آغاز جو دراصل اوسط الذکر کے توسط سے لا دینی افکار حاصل کرتی اور فکر ی لا اساسیت کی طرف ڈگمگاتی بڑھتی چلی جاتی ہے- 
حجاب کے تعلق سے ہم بے دین دانشوری کی جناب میں کچھ عرض نہیں کر سکتے ، کیوں کہ لا دینیت کا مطلب صرف دین کا انکار ہرگز نہیں بلکہ بالواسطہ اصول اور قوانین کا انکار بھی ہے- جب ان کے پاس کوئی ٹھوس بنیاد ہی نہیں ہے اور نہ کوئی مسلمہ اصول ہے پھر ان سے کسی چیز کے اثبات و نفی میں نتیجہ خیز بحث نہیں ہو سکتی- ہاں! اتنا ضرور ہے کہ ان کے انکار کی بھی کوئی حیثیت نہیں دی جا سکتی- کیوں کہ انکار کے لیے بھی کسی مسلمہ اصول کا ثابت ہونا ضروری ہے-
مسیحی و یہودی دانشوروں سے کچھ عرض کرنا بھی بے سود ہے، کیوں کہ ان میں اکثر نے اپنے ساتھ مسیحیت یا یہودیت کا صرف لیبل لگا رکھا ہے، حقیقی مسیحیت و یہودیت سے انہیں دور دور تک کوئی نسبت نہیں- انہوں نے بھی فی الواقع خود کو پہلے خانے میں شامل کر لیا ہے ورنہ اگر وہ حقیقی معنی میں یہودی یا مسیحی ہوں تو وہ حجاب کا کسی طور پر بھی انکار نہیں کر سکتے- کیوں کہ یہ تو طے ہے کہ ہر مذہب ’’ اخلاق‘‘ پر بے انتہا زور دیتا ہے اور حجاب کا اٹھا دینا در حقیقت باب اخلاق کے توڑ ڈالنے کے مترادف ہے -
حجاب مخالف مسلم دانشوری کی صورت حال ’’ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ والی ہے- اس کے سامنے مغرب کا ترقی یافتہ نظام بھی ہے اور تعفن زدہ معاشرہ بھی، وہ بیک وقت اقدام بھی چاہتا ہے اور گریز بھی، اس کشمکش میں اس نے اتنی بات طے کر لی ہے کہ اب نئے ڈھنگ سے اور جدید انداز میں اسلامی احکام و فرامین پر غور کرنا ہوگا، اس اضطرابی کیفیت نے اسے حجاب کی مخالفت پر کمر بستہ کر دیا ہے- اس کے پاس دلائل بھی ہیں جن کا مرکزی نقطہ’’ عصری روش کو قبول کرنا‘‘ ہے- اس نے عصری روش کو فقہی قاعدہ’’ ضرورت‘‘ کے ضمن میں شامل مان لیا ہے اور پھر اس کی ساری گفتگو اسی کے گرد گردش کرتی ہے-
حجاب مخالف مسلم دانشوری کو بھی ہم دو خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں، ایک پختہ اور دوسری خام، پختہ دانشوری سے مراد وہ سوچ ہے جو جدید سوسائٹی میں اعلیٰ معیار زندگی ساتھ رہنے سے پیدا ہوتی ہے- چوں کہ اس کی نشو و نما اسی بے حجاب سوسائٹی میں ہوئی ہے اس لیے وہ فطری طور پر حجاب کی موافقت کے لیے خود کو تیار نہیں کر پاتی لیکن بے حجابی کی تباہیاں بھی اس کے سامنے ہیں اس لیے وہ گریز کی راہ بھی ڈھونڈنا چاہتی ہے، یہ اور بات ہے کہ اسے یہ راہ مل نہیں پاتی- اس کے بر خلاف خام دانشوری سے مراد وہ سوچ ہے جو باحجاب اور اور مہذب معاشرہ میں رہنے کے بعد اچانک بے حجاب سوسائٹی میں چھلانگ لگا دینے سے پیدا ہوتی ہے- ایسی سوچ کے حاملین کے سامنے ترقی اور روشنی کی ایک شاہراہ نظر آتی ہے جس سے وہ خود کو دور پاتے ہیں اور اس دوری کی وجہ وہ حجاب کو سمجھتے ہیں جو ان کے خیال میں روشنی اور ان کے بیچ حائل ہوتا ہے- ایسے لوگ یک طرفہ طور پر حجاب کے خلاف بھرے رہتے ہیں اور وقت ملتے ہی پھٹ پڑتے ہیں-
حجاب کے ناقدین کو غور کرنا چاہیے کہ اگر بعض مسلم ملکوں میں عورتوں کو حجاب پہنا کر انہیں کپڑے میں کس دیا گیا ہے تو مغربی ممالک میں حجاب اترنے کے بعد عورتوں کے جسم سے کیاکیا اتروا لیا گیا ہے- اگر یہ صنف نازک پر ظلم ہے تو وہ بھی تو عنایات نہیں- یہ نکتہ سمجھنے کا ہے کہ حجاب اور عریانیت کے بیچ کوئی تیسرا اسٹیج نہیں ہے جس کو اعتدال یا بیچ کی راہ قرار دے کر کوئی اس کی حمایت کا مدعی ہو اٹھے- اس کی دو وجہیں ہیں ایک تو مشاہداتی اور دوسری عقلی- مشاہداتی یہ کہ عورتوں کے لباس کے تعلق سے اب تک جو احتجاجی نظریات سامنے آئے ہیں وہ صرف دو ہی نوعیت کے ہیں، ایک نظریہ حجاب کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور دوسرا عریانیت کے خلاف-دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب تک صرف دو قسم کے اہل الرائے سامنے آئے ہیں(کسی استثنائی مثال کی بات نہیں کی جا سکتی-) ایک وہ ہیں جو حجاب کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو اس کی مخالفت-اور جو حجاب کی مخالفت کرتے ہیں ان کے پاس کوئی متعین معیارہی نہیں جس سے یہ واضح ہو سکے کہ وہ حجاب اتار کر عورت کو کتنا لباس پہنانا چاہتے ہیں-
حجاب اور عریانیت کے بیچ کسی تیسرے اسٹیج کے نہ ہونے کی عقلی وجہ یہ ہے کہ عقلی طور پر نگاہوں کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں، ایک وہ جو جھکنا چاہتی ہیں اور اجنبی عورت کے دیکھنے سے گریزاں ہیں ایسی نگاہیں اسلام میں مطلوب ہیں جو حجاب کا تقاضا کرتی ہیں اور دوسری وہ نگاہیں جنہیں اجنبی عورتوں کو دیکھنے کا شوق ہے اور یہ شیطان کی مطلوب ہیں اور ان شائق نگاہوں کی طلب کی کوئی حد نہیں بلکہ وہ شوق دید میں ہر لمحہ ہل من مزید کا نعرہ بلند کرتی رہتی ہیں اور جب یہ طے ہو گیاکہ عقلی طور پر دو ہی منزل ہیں ایک حجاب کی اور دوسری عریانیت کی ، تو ایسے میں موجودہ دانشوروں کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ عورت کے حق میں کون سی منزل مطلوب اور اس کی عفت و آبرو کی محافظ ہے اور کون سی ظلم و جبر ہے-
 اگر حجاب کے بالمقابل کوئی شخص عریانیت کو پسند کرتا ہے تو لامحالہ وہ Porno CulureاورSex Cultureکا حمایتی ہوگا اور اگر وہ اس کی حمایت کا بھی دم بھر دیتا ہے تو پھر اسے جرائم کے بڑھتے ہوئے تناسب اور اخلاق باختگی سے پیدا شدہ تباہیوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہونا پڑے گا— اس سے یہ بات بھی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ حجاب کی مخالفت صرف نقاب یا برقعہ کی مخالفت نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ ایک بھیانک ابلیسی نظام کی بنیادوں سے جا ملتا ہے- اس سے یہ نتیجہ بھی بہ آسانی بر آمد ہو گیا کہ حجاب کی مخالفت بالواسطہ عریانیت کی تائید ہے-
 چوں کہ حجاب کی موافقت یا مخالفت کی بحث کی تان مخلوط نظام کی موافقت یا مخالفت پر ٹوٹتی ہے ،اس لیے اس بحث کو وسعت بھر سمجھنے کے لیے مخلوط نظام کے مثبت و منفی پہلوؤں کا منصفانہ تجزیہ ضروری ہے۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔