Monday 15 January 2018

فروعی اختلافات سے کفر و شرک کے بازار تک

0 comments
فروعی اختلافات سے کفر و شرک کے بازار تک
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------
ہندوستان کے علما، دانشوران، مسلم قائدین، اسلامک فقہ اکیڈمی نئی دہلی، مسلم پرسنل لا بورڈ، دارالعلوم دیوبند ، جماعت اسلامی ہند اور ملک بھر کے تقریباً ۳۰۰؍ سے زائد مدارس کے علما و ماہرین اللہ اور رسول کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں— قارئین پریشان نہ ہوں، یہ جوکھم بھرا سروے ہم نے نہیں کیا ہے بلکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبۂ عربی کے پروفیسر جناب خالد حامدی فلاحی صاحب نے کیا ہے، موصوف نئی دہلی سے شائع ہونے والے رسالہ ماہنامہ ’’اللہ کی پکار‘‘ (یہ نام الہامی معلوم ہوتا ہے اس لیے اس میں فلمی اداکاراؤں کے بیانات بھی ہم بڑے احترام سے پڑھتے ہیں اور اب ڈر ہے کہ کہیں ہماری معروضات کے رد عمل میں الہام ثانی  کے زیر حکم اس کا نام ’’اللہ کی لاٹھی‘‘ نہ ہوجائے، ویسے آج بھی مدیر کا زعم یہی ہے) کے واحد مدیر ہیں (اور خود ہی اس کے ساتھ ’’اعزازی‘‘ کا فخریہ لاحقہ بھی لگاتے ہیں-) موصوف نے اپنے مذکورہ رسالہ میں ’’اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے علماء‘‘ کے زیر عنوان تین قسطوں میں اداریہ سپرد قلم کیا ہے، جو مئی، جون، جولائی ۲۰۰۸ء کے شماروں میں شائع ہوا ہے-موصوف کا غضب ناک قلم لکھتا ہے:
’’سیکولر قیادت کے زیر اثر علماء نے قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمان عوام کو اس صورت حال سے نجات دلانے اور انہیں اللہ کے غیظ و غضب سے محفوظ رکھنے کے طریقے بتانے اور اللہ کی نافرمانی ترک کر کے اس کی طرف رجوع ہونے کی تلقین کرنے کے بجائے انہیں باضابطہ اللہ کی نافرمانی و سرکشی کی دعوت دے کر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کھلم کھلا جنگ کا اعلان کردیا-‘‘(جون۲۰۰۸)
برہم مزاج یار کیوں ہے؟ 
پروفیسر حامدی صاحب کا اشہب قلم سر پٹ دوڑتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ جن نام نہاد علماء نے ایسا کیا ہے، انھوںنے اپنے آپ کو اللہ کے بالمقابل ’’رب‘‘ کا درجہ دے کر صریحاً کفر کا ارتکاب کیا ہے اور جن مسلمانوں نے ان کے اس دعوے کو صحیح تسلیم کیا اور اس پر عمل کیا ہے، وہ بھی کفر کے مرتکب ہوئے ہیں‘‘ (جولائی ۲۰۰۸ء ص۷)
آپ پوچھیں گے کہ حامدی صاحب اتنا برہم کیوں ہیں؟ تو لیجیے انہی کے الفاظ پڑھیے:
’’جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ (یوپی) میں ۳۰ ؍ اکتوبر تا ۲؍ نومبر ۱۹۹۲ میں مغربی مقاصد کو بروے کار لانے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے رجسٹرڈ ادارے ’انسٹی ٹیوٹ آف آب جیکٹیو اسٹڈیز‘(ISO) سے متعلق ادارے اسلامک فقہ اکیڈمی، نئی دہلی کے زیر اہتمام زکوٰۃ جیسی فرض عبادت اور بنیادی رکن اسلام سے متعلق معاملے پر بلائے گئے پانچویں فقہی سمینار میں قرآن وحدیث کے نصوص قطعیہ کے ذریعے واضح طور سے حرام کیے گئے سود و جوئے اور سٹے بازی و دھوکے بازی کو ہندوستان کے موجودہ حالات کا بہانہ بنا کر شریعت کو کھلم کھلا نظری و عملی طور سے مسترد کرتے ، بلکہ اسے پامال کرتے ہوئے مذکورہ حرام چیزوں پر مبنی بیمہ و انشورنس کو یہ کہتے ہوئے حلال قرار دیا گیا اورشریعت کا اجتماعی طور سے کھلے طور سے مذاق اڑایا گیا:
’’مروجہ انشورنس اگر چہ شریعت میں ناجائز ہے، کیوں کہ وہ ربا(سود) قمار(جوئے)، غرر(سٹے ؍دھوکے) جیسے شرعی طور سے ممنوعی معاملات پر مشتمل ہے، لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں، جب کہ مسلمانوں کی جان و مال، صنعت و تجارت وغیرہ کو فسادات کی وجہ سے ہر آن شدید خطرہ لاحق رہتا ہے، اس کے پیش نظر الضرورات تبیح المحذورات، رفع ضرر، دفع حرج اور تحفظ جان و مال کی شرعا اہمیت کی بنا پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان و مال کا بیمہ کرانے کی شرعاً اجازت ہے-‘‘ (اہم فقہی فیصلے، ص۴۳، نئی دہلی، ۱۹۹۷) 
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ، سرکشی، بغاوت، دین و شریعت سے کامل انحراف اور شرعی احکام و تعلیمات کی غلط ترجمانی کر کے مغالطے میں مبتلا کرنے والا اور اسلام کی ابدیت پر سوالیہ نشان لگا دینے والا یہ ایک ایسا فیصلہ تھا، جو شاید تاریخ اسلام میں نام نہاد علما کی جانب سے پہلی بار اس صراحت کے ساتھ آیا تھا-(جون ۲۰۰۸ء ص:۸)
اس فیصلے کے تقریباً ایک مہینے بعد بابری مسجد انہدام اور اس کے بعد مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا بھیانک سانحہ پیش آیا، حامدی صاحب اس سانحے کو مذکورہ فیصلے کا ہی انجام بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اس طرح اللہ نے اس تاریخ کو دہرایا جو کہ بنی اسرائیل کے ساتھ مسجد اقصیٰ کو زمین کے برابر کر کے انجام دی گئی تھی-‘‘(جون۲۰۰۸ ص:۹)
واقعات کی کڑی جوڑتے ہوئے ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات سے انحراف کے عمل کو تیز تر کرنے اور ان میں حرام و حلال کی تمیز ختم کرنے کے لیے مغرب نواز ایجنسی نے اپنا مخصوص کردار ایک بار پھر ادا کیا- ۲۳؍ مارچ کو مختلف نیوز ایجنسیوں کے حوالے سے اسلامک فقہ اکیڈمی نے اپنے ۱۴؍ویں اجلاس میں بیمہ و انشورنس کے سلسلے میں اپنے سابقہ ۱۹۹۳ کے فیصلے کا اعادہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’حرام ہونے کے باوجود ہندوستان میں مسلمانوں کو بیمہ کرانے کی خاص چھوٹ دی جاتی ہے-‘ خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس اہم فیصلے میں مسلم پرسنل لا بورڈ ، دارالعلوم دیوبند، جماعت اسلامی ہند اور ملک بھر کے تقریباً ۳۰۰ سے زائد مدارس کے علما اور ماہرین شامل ہیں- اس طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک بار پھر ہندوستانی علما اور دانش وروں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے-‘‘(جون ۲۰۰۸، ص۱۱)
بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی:-
جناب خالد حامدی صاحب کی نظر میں زندگی بیمہ؍ لائف انشورنس کے جواز کا قول اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے اور ان کی تحریر سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اس جنگ میں دارالعلوم دیوبند، جماعت اسلامی ہند، مسلم پرسنل لاء بورڈ اور سیکڑوں مدارس شامل ہیں، اب قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ بھی عرض کر دوں کہ ہندوستان میں علمائے اہل سنت خصوصاً حضرت علامہ اختر رضا خان ازہری، حضرت مولانا سید ظہیر احمد زیدی، بحر العلوم مفتی عبد المنان اعظمی، مفتی جلال الدین امجدی، خواجہ مظفر حسین رضوی، مفتی محمد شریف الحق امجدی، علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، علامہ محمد احمد مصباحی و دیگر علما بھی بیمہ زندگی کے مشروط طور پر جواز کے قائل ہیں، چنانچہ ۱۱تا۱۴جون ۱۹۹۳ میں ’’مجلس شرعی‘‘ مبارک پور میں مذکورہ اکابر علما کی موجودگی میں جو فیصلہ ہوا وہ یہ ہے:
’’بیمہ زندگی عقد قرض بشرط ربا عقد قمار ہے، عقد قرض ربا کی وجہ سے عقد فاسد اور عقد قمار بھی عقد فاسد ہے، موجودہ صورت حال میں حکومت ہند کی لائف انشورنس کمپنی کے ساتھ عقود فاسدہ بشرط نفع مسلم مباح ہیں— بیمہ سے حاصل شدہ زائدہ رقم مال مباح ہے، اسے اپنے امور میں صرف کرنا جائز ہے، البتہ اسے صدقہ کردینا بہتر ہے-‘‘
(صحیفۂ فقہ اسلامی، ص۳۳، فرید بک اسٹال، لاہور، ۲۰۰۰ء)
خالد حامدی صاحب کے فرمان کے پیش نظر ، قارئین کی سطح ذہن پر یہ سوال ابھر رہا ہوگا کہ کیا آج واقعی ہندوستان کے تمام علما و محققین اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہیں؟ اس سوال پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حامدی صاحب کے رسالہ ’’اللہ کی پکار‘‘ کے اندرونی ٹائیٹل پیج کے اس جملے پر ایک نظر ڈالیں: ’’ڈرافٹ صرف  ALLAH KI PUKAR(A/C11002) 
کے نام سے بنوائیں-‘‘ اور خالد حامدی صاحب سے سوال کریں کہ ہندوستان کا بینکنگ نظام سودی کا ر و بار پر مشتمل ہے، ایسے میں بینک اکاؤنٹ کھولوانا ان کے دائرے کی توسیع کے ذریعے ایک طرح سے ان کا تعاون کرنا اور انہیں فروغ دینا ہے اور شرکا تعاون نص قرآنی (ولاتعاونوا علی الاثم و العدوان ؍ ظلم اور گناہ پر تعاون مت کرو) کے مطابق خود شر اور گناہ ہے، حامدی صاحب بتائیں کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ کے اس عمل کی تائید قرآن کی کس آیت اور حدیث صحیح کے کس ٹکڑے سے ہوتی ہے؟ بیمہ کو ضرورت کی بنیاد پر علما نے جائز قرار دیا تو آپ نے اسے اللہ و رسول کے خلاف کھلا اعلان جنگ قرار دیا لیکن خود آپ عملی طور پر ایک سودی نظام کی توسیع و تائید کر کے اللہ و رسول کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کے مجرم ہوئے یا نہیں؟ 
کیا علماے ہند اللہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ کے مجرم ہیں؟
خالد حامدی صاحب اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی کے جس متن سے ایک دم سے پھٹ پڑے ہیں ، وہ یہ ہے:
’’مروجہ انشورنس اگر چہ شریعت میں ناجائز ہے، کیوںکہ وہ ربا (سود) قمار(جوے) غرر(سٹے؍ دھوکے) جیسے شرعی طور سے ممنوعی معاملات پر مشتمل ہے، لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں، جب کہ مسلمانوں کی جان و مال ،صنعت و تجارت وغیرہ کو فسادات کی وجہ سے ہر آن شدید خطرہ لاحق رہتا ہے، اس کے پیش نظر الضرورات تبیح المحذ ورات، رفع ضرر، دفع حرج اور تحفظ جان و مال کی شرعاً اہمیت کی بنا پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان و مال کا بیمہ کرانے کی شرعاً اجازت ہے-‘‘ (اہم فقہی فیصلے، ص ۴۳ ، نئی دہلی ۱۹۹۷) 
اس متن میں غور کیجیے تو دو باتیں واضح طور پر نمایاں نظر آئیںگی-
(۱) انشورنس ؍ بیمہ اصولی اعتبار سے سود ، جوا اور سٹے بازی کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے-
(۲) ہندوستان میں جگہ جگہ آئے دن ہندو مسلم فسادات رونما ہوتے ہیںجن کی وجہ سے مسلمانوں کی جان و مال ،صنعت و تجارت شدید خطرے میں رہتی ہے، اس لیے ضرورت ، رفع ضرر اور دفع حرج کے پیش نظر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے انشورنس کرانے کی شرعاً اجازت ہے-
اس کے خلاف حامدی صاحب کا استدلال سورۂ بقرہ کی اس آیت سے ہے-
یٰایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و ذروا ما بقی من الربوا ان کنتم مؤمنین0 فان لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ و رسولہ : (البقرہ: ۲۷۷، ۲۷۸)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو، پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا-
اس آیت کے ذیل میں مفسر قرآن علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی اپنے تفسیری حاشیہ میں رقم طراز ہیں:
’’یہ آیت ان اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حرمت نازل ہونے سے قبل سودی لین دین کرتے تھے، اور ان کی گراں قدر سودی رقمیں دوسروں کے ذمہ باقی تھیں، اس میں حکم دیا گیا کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سابق کے مطالبہ بھی واجب الترک ہیں اور پہلا مقرر کیا ہوا سود بھی اب لینا جائز نہیں-(خزائن العرفان)
اس وضاحت کے بعد ایک عام قاری پر روشن ہوجائے گا کہ خالد حامدی صاحب کا استدلال نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ تشدد، اشتعال انگیزی اور فرعی مسائل میں جنگی طبیعت کی بدترین مثال بھی ہے- کیوں کہ ان کا استدلال اسی وقت درست ہوتا جب علماے ہند نے سود کے لین دین کو جائز قرار دیا ہوتا- جب کہ انشورنس کے جواز کے قائلین کے یہاں یہ بات وضاحت سے موجود ہے کہ انشورنس اصلاً ناجائز و حرام ہے، اس کی اجازت صرف ضرورتاً دی گئی ہے- ایسے میں ان علماسے اختلاف کی فقط ایک صورت تھی، وہ یہ کہ حامدی صاحب دلائل سے ثابت کردیتے کہ ہندوستان میں یہ ’’ضرورت‘‘ متحقق ہی نہیں، اور جب ضرورت متحقق نہیں تو اس کو بنیاد بنا کر انشورنس کے جواز کا قول کرنا غلط ہے- علمی اختلاف کی بس یہ صورت تھی، لیکن حامدی صاحب نے ایسا نہیں کیا اور مغلوب الغضب ہو کر ’’قرآنی ضابطۂ ضرورت ‘‘ کو ’’ابلیسی‘‘ قرار دیتے ہوئے علماے ہند پر اللہ و رسول کے خلاف اعلان جنگ کرنے کا الزام رکھ دیا-
کیا الضرورات تبیح المحذورات ابلیسی جملہ ہے؟
مہذب و مثقف گالیاں لکھنے میں حامدی صاحب کے قلم کا جواب نہیں، گوہر فشاں ہیں:
’’قرآن و احادیث میں سود و جوے وغیرہ کے سلسلے میں انتہائی تفصیلی احکام آئے ہیں، لیکن کہیں اضطرار وغیرہ کی کوئی صورت بتا کر سودی معاملے کو اختیار و استعمال کرنے کی ذرا بھی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے، پھر الضرورات تبیح المحذورات (ضرورتیں ممنوع و حرام چیزوں کو مباح کردیتی ہیں-)والی عبارت نہ تو قرآن میں ہے اور نہ احادیث میں، بلکہ یہ ایک ابلیسی جملہ ہے جو کہ قرآنی آیت کی معنوی تحریف کر کے وجود میں آیا ہے-‘‘
ہواؤں کے دوش پر لکھے گئے ان جملوں پر کسی نقد و تبصرہ سے پہلے الضرورات تبیح المحذورات کے تعلق سے عالمی شہرت کے حامل غیر مقلد عالم شیخ یوسف القرضاوی کے یہ ارشادات پڑھیے:
’’اسلام نے حرام کے معاملے میں سخت احکام دیے ہیں ، لیکن اس نے انسانی زندگی کی ضرورتوں کی طرف سے بے اعتنائی نہیں برتی ہے اور انسانی کمزوری کا بھی اس نے پورا لحاظ کیا ہے- یہی وجہ ہے کہ اس نے اس بات کو جائز کردیا ہے کہ ایک مسلمان شدید ضرورت کے پیش آجانے پر اپنی جان بچانے کے لیے بقدر ضرورت حرام چیزکھالے- اللہ تعالیٰ نے مردار ، خون اور سور کے گوشت کی حرمت کا حکم دینے کے بعد فرمایا ہے:
’’فمن اضطر غیر باغ و لاعاد فلا اثم علیہ ، ان اللہ غفور رحیم0 (البقرہ-۱۷۳)(تو جونا چار ہو ، نہ یوں کہ خواہش سے کھائے اور نہ یوں کہ ضرورت سے آگے بڑھے تو اس پر گناہ نہیں، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے-)
یہ حکم دیگر چار سورتوں میں بھی آیا ہے جس کا مفہوم ایک ہی ہے- یہ اور اس طرح کی دوسری آیتوں کے پیش نظر فقہائے اسلام نے یہ اہم اصول اخذ کیا ہے کہ الضرورات تبیح المحذورات لیکن خیال رہے کہ ان آیات نے مضطر کے لیے غیر باغ و لا عادٍ کی قید لگائی ہے، جس کی تفسیر یہ کی گئی ہے کہ حالت مجبوری میں حرام سے فائدہ اٹھانے والا حرام شے کی لذت کا طالب نہ ہو اور نہ ہی فائدہ اٹھانے کے معاملہ میں حد ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو- اس شرط سے فقہا نے ایک اور اصول اخذ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’ضرورت اپنا دائرہ خود متعین کرتی ہے-‘‘
انسان کو اگرچہ کہ مجبوری کے آگے جھکنا پڑتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے کو پوری طرح مجبوری کے حوالے کردے اور اپنے نفس کی زمام اس کے ہاتھ میں دے بیٹھے- اسے لازماً اصل حلال سے وابستہ رہنا چاہیے اور اسی کی تلاش میں رہنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جو چیز دفع ضرورت کے لیے وقتی طور پر حلال ہوگئی تھی اسے سہل خیال کیا جانے لگے اور اس سے لذت حاصل کی جانے لگے-
اسلام نے ضرورت کے موقعوں پر محذورات کو مباح کر کے اپنی عام اسپرٹ اور قواعد کلیہ کے مطابق بڑی آسانی پیدا کردی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تصدیق ہوجاتی ہے یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر(البقرہ ۱۸۵) اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا- (اسلام میں حلال و حرام ، ص: ۵۴، ۵۵، الدار السلفیہ ، ممبئی ۲۰۰۶)
حامدی صاحب اور قرضاوی صاحب کی باتیں نگاہ میں رکھ کر اب ہماری معروضات پڑھیے:
(۱) جو اصول آیات قرآنیہ سے ماخوذ ہے، اسے ابلیسی جملہ لکھتے وقت نہ حامدی صاحب کے قلم میں لرزش پیدا ہوئی اور نہ انہیں اپنے ضمیر کی ملامت سنائی دی- یہ جسارت Over confidence (انا اعتمادی) آنے کے بعد ہی پیدا ہوسکتی ہے-
(۲) حامدی صاحب کے مطابق قرآن و حدیث میں سود و جوئے وغیرہ کے سلسلے میں چوں کہ کہیں اضطرار کی صورت بتا کر جواز کی گنجائش نہیں بتائی گئی ہے، اضطرار کی صورت صرف حرام چیزوں کے کھانے کے معاملے میں ہے، اس لیے سود کے مسئلے میں ضرورت اور اضطرار کا قانون نہیں چل سکتا— اس پر عرض ہے کہ:
(الف) کیا شرعی مسائل میں قیاس اور استنباط کا کوئی دخل نہیں ہے؟ اگر نہیںتو موجودہ دور کے سیکڑوں ہزاروں نوزائیدہ اور غیر منصوص مسائل کا حل اسلام میں کیا ہوگا؟
(ب) قرآن کی صریح آیات سے جب یہ ثابت ہے کہ مجبوری کی حالت میں حرام چیزوں کو کھایا جاسکتا ہے، اس میں کوئی گناہ نہیں ہے- فمن اضطر غیر باغ و لا عاد فلا اثم علیہ- اب سوال یہ ہے کہ وہ حرام چیز جو فی نفسہٖ حرام ہے، مجبوری کی وقت بھی حرام ہی رہتی ہے یا حلال و مباح ہوجاتی ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ وہ حرام ہی رہتی ہے تو لازم یہ آئے گا کہ قرآن حرام کھانے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے- اس لیے لازمی طور سے یہ ماننا پڑے گا کہ وہ حرام چیز مجبوری میں مباح اور حلال ہوجاتی ہے- اب یہ کہنا عین مفہوم قرآن ہے کہ مجبوری میں حرام کا کھانا مباح ہوجاتا ہے— اور چوں کہ حرام کھانا خود ایک حرام عمل ہے، لہٰذا اب یہ کہنا بھی قرآنی حکم کی کلی موافقت ہوگی کہ ’’مجبوری میں حرام عمل مباح ہوجاتا ہے-‘‘ اور یہی معنیٰ ہیں الضرورات تبیح المحذورات(ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں) کے - لہٰذا تدبر اور غور و خوض کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کے الفاظ سے صراحت کے ساتھ مجبوری میں حرام چیزوں کے کھانے کاجواز کا ثابت ہوتا ہے اور انہی الفاظ کے معانی پر غور کرنے سے وضاحت کے ساتھ ضرورت کے وقت حرام چیزوں کے کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے— لہٰذا یہ کہنا کہ ضرورت کا حکم قرآن کے اندر حرام کھانے کے تعلق سے تو ہے ، سود کے تعلق سے نہیں ہے، اس لیے سود کے معاملے میں ضرورت اور اضطرار کا قانون نہیں چلے گا، فہم قرآن اور تدبر قرآن سے بے بہرہ ہونے کی دلیل ہے-
(ج) حامدی صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’باجماعت نماز ادا کرنے کے دوران موبائل فون کی گھنٹی بجنے کی صورت میں اگر موبائل فون نہ بند کیا جائے تو سب کی نمازوں میں خلل پڑے گا سب کی توجہ بٹے گی اور بدمزگی ہونے کا اندیشہ علاحدہ ہے- بند کرنے کی صورت میں موبائل والے نمازی کا یہ عمل اس کی نماز کو تو متاثر نہیں کرے گا؟ ان دو امور کا اگر تجزیہ اور موازنہ کیا جائے تو موبائل فون بند نہ کرکے مفاسد زیادہ ہیں اور موبائل فون کو بند کرنے کے کم، اس لیے کم تر اثر کے ذریعے بڑے فساد کو ختم کیا جانا ہی قرین قیاس ہے-‘‘(اللہ کی پکار، ص: ۹۰، جون ۲۰۰۸)
یہاں خالد صاحب سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انھوں نے شرعی مسئلہ بتانے کے لیے ’’اپنے قیاس‘‘ کا استعمال کیوں کیا ہے؟ پھر ان کے اس ارشاد کہ ’’کم تر اثر کے ذریعے بڑے فساد کو ختم کیا جانا ہی قرین قیاس ہے-‘‘ کے بارے میں ان کے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’یہ عبارت نہ تو قرآن میں ہے اور نہ احادیث میں،بلکہ یہ ایک ابلیسی جملہ ہے- سچ کہا ہے کسی نے ’’جو لوگ شیشے کے گھر میں ہوں انہیں باہر والوں پر پتھر نہیں پھینکنا چاہیے-‘‘
(د) حامدی صاحب سے ایک صاحب نے سوال کیا ’’کیا مسجدوں یا درس گاہوں یا گھروں میں قرآن مجید اجرت (ماہانہ فیس) پر پڑھنا جائز ہے؟‘‘ اس تعلق سے واضح احادیث موجود ہیںجن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ناجائز ہے- لیکن اب حالات ایسے پیدا ہوگئے ہیں کہ اگر اس کے جواز کا فتویٰ نہ دیا جائے تو قرآن کی تعلیم ہی بند ہوجائے گی- اس لیے اجرت پر قرآن پڑھانے کا عمل اصلاً ناجائز و حرام ہوتے ہوئے بھی ضرورتاً ا الضرورات تبیح المحذورات کے تحت علما نے اسے جائز قرار دیا ہے- لیکن چوںکہ حامدی صاحب کے نزدیک تو یہ ایک ’’ابلیسی جملہ‘‘ ہے، اس لیے مذکورہ سوال کے جواب میں حامدی صاحب کی قلا بازیاں دیکھیے، پورا جواب پڑھ جائیے لیکن اجرت پر قرآن پڑھنا یا پڑھانا جائز ہے یا ناجائز ؟ یہ سوال سوال ہی رہے گا- رقم طراز ہیں:
’’مختلف احادیث میں یہ بات آئی ہے کہ جو قرآن کی قرأت اور تعلیم و تدریس کے ذریعے اجرت حاصل کرے یا دنیوی منفعت کا طالب ہو، وہ پسندیدہ شخص نہیں اور بعض احادیث میں تو یہ بات تک آئی ہے کہ آخرت میں نہ صرف یہ کہ اسے کوئی اجر نہ ملے گا بلکہ اس کا چہرہ گوشت سے عاری ہوگا- (جامع الترمذی، سنن ابی داؤد، سنن البیہقی، مسند احمد ، کنز العمال) اس لیے قرآن مجید پڑھانے پر کسی قسم کی اجرت کے بارے میں بر صغیر میں کوئی سوچتا بھی نہ تھا- گھروں میں کواتین اور بڑے بوڑھے بچوں کو قرآن پڑھانا باعث سعادت و ثواب سمجھتے تھے- ادھر کچھ عرصے سے جب دنیا پرستی نے زندگی کے تمام امور کو اپنے دائرے میں لینا شروع کیا تو قاری و حافظ حضرات نے بھی اس ’’نیکی‘‘ کو آخرت کے بجائے اجر دنیا کے حصول کا ذریعہ بنالیا-‘‘ (اللہ کی پکار، ص: ۹۴، جون ۲۰۰۸)
مذکورہ سوال پوچھنے والے سری نگر کشمیر کے رہنے والے جناب جاوید احمد ڈار ہیں، میں ان سے گزارش کروںگا کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر خالد حامدی فلاحی عالم، فاضل، ایم اے، پی ایچ ڈی، (یہ سارے اوصاف ’’اللہ کی پکار‘‘ کے اندرونی ٹائیٹل پر نقش ہوتے ہیںاور یہ بتانے کے لیے ہوتے کہ فلاحی صاحب پروفیسر کے ساتھ ڈاکٹر فاضل کے ساتھ عالم اور پی ایچ ڈی ہونے کے ساتھ ایم اے بھی ہیں) سے ’’اللہ کی پکار‘‘ کے کالم ’’فقہ القرآن والسنہ‘‘ میں یہ بھی استفسار کریں کہ (۱) کسی عالم کا کسی یونیورسٹی کے اندر بامعاوضہ اسلامیات ، عربی ادب ، تاریخ یا دوسرے مضامین کو پڑھانا جائز ہے یا ناجائز؟ (۲) مذہبی باتوں پر مشتمل دینی رسالہ ماہانہ چھاپنا ، دینی باتیں روپیوں کے عوض فروخت کرنا اور نفع کمانا سنت ہے یا بدعت، جائز ہے یا ناجائز و حرام؟؟ (۳) کسی پروفیسر کا اپنے ذاتی امور میں مصروف رہ کر کلاس سے غائب یا تاخیر سے حاضر ہونے کے باوجود پوری تنخواہ اپنی جیب شریف میں ڈالنا جائز ہے یا ناجائز ؟؟؟ آخر میں یہ نوٹ بھی لگادیں کہ جواب قرآن اور احادیث کی روشنی میں ہو، کسی فقہی قیاس و تاویل،پروفیسرانہ ہفوات اور کسی ’’ابلیسی اصول‘‘ کی روشنی میں نہ ہو-
(۳) خالد حامدی صاحب کا خیال ہے کہ الضرورات تبیح المحذورات قرآن کی معنوی تحریف پر مبنی ہے- اس سلسلے میں انھوںنے جو طومار بیانی کی ہے اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف اپنی اڑیل شخصی رائے پر دو دلیلیں رکھتے ہیں، ایک یہ کہ قرآن میں حالت اضطرار کے وقت حرام چیزوں کا کھانا مباح نہیں ہوتا، صرف اس حرام کے کھانے پر جو گناہ یا مواخذہ تھا وہ ختم ہوجاتا ہے اور دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن کا یہ حکم انفرادی ہے اسے اجتماعی شکل میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا - موصوف نکتہ آفرینی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ’’ظاہر ہے کہا ن حالات کو اصلاً جاننے والا اور اس کی حقیقت سمجھنے والا اللہ ہے- اس لیے وہی اضطراری طور سے حرام ماکولات کے کھانے کے بارے میں یہ متعین کرسکتا ہے کہ اس کے اضطراری حالات تھے یا اس نے حدود سے تجاوز کیا ہے- اس کو بنیاد بنا کر اجتماعی طور سے یہ اصول مرتب کرنا کہ جب بھی ضرورت ہو تو ہر حرام چیز اجتماعی طور سے تمام مسلمانوں کے لیے حلال ہوجاتی ہے، قرآنی احکام میں کھلی تحریف ہے-‘‘(اللہ کی پکار، جولائی ۲۰۰۸ ء ص: ۹)
حامدی صاحب معلوم نہیں کس دھن میں مگن رہ کر اس طرح کی مافوق البشری نکتہ آفرینی فرمائی ہے، کہ وہ اصول جسے دنیا کے تمام علما قرآنی سمجھتے ہیں ان کی نظر میں قرآنی تحریف پر مبنی شیطانی نظر آنے لگا، بہر کیف اس تعلق سے حامدی صاحب کے شبہات کے ازالے کے لیے ان کی عقل شریف کے حضور یہ چند معروضات حاضر ہیں، گر قبول افتد زہے عزو شرف!
(۱) حالت اضطرار میں حرام شے مباح ہو یا اس کا استعمال مباح ہو، نتیجے کے اعتبار سے اس میں کوئی فرق نہیںاور نہ اتنی سی بات سے  الضرورات تبیح المحذورات کی صحت پر کوئی اثر پڑتا ہے- اگر کوئی حالت اضطرار میں حرام چیز کے مباح ہوجانے کا قائل ہے تو اس اصول کے معنیٰ ہوں گے کہ ’’ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں‘‘ اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ حالت اضطرار میں وہ حرام چیز تو حرام ہی رہتی ہے صرف اس کا استعمال مباح ہوجاتا ہے تو مذکورہ اصول کے معنیٰ ہوںگے ’’ضرورتیں ممنوع چیزوں کے استعمال کو مباح قرار دے دیتی ہیں-‘‘
(۲) حالت اضطرار میں حرام ماکولات کے کھانے کی قرآنی اجازت کو انفرادی اور اس سے الضرورات تبیح المحذورات قاعدے کے استنباط کو اجتماعی قرار دینا بھی ایک فریب نظر ہے- حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا حکم انفرادی نہیں عمومی ہے، کسی ایک شخص کی جان پر بن آئے یا کسی جماعت کے جان پر بن آئے، اضطرار اور ضرورت کی صورت پیدا ہونے پر سب کے لیے حر ام ماکولات کا کھانا جائز ہے- اسی سے علمانے یہ اصول اخذکیا کہ ضرورت اور اضطرار میں حرام و ممنوع چیز یں جائز و مباح ہوجاتی ہیں- یہاں انفرادی و اجتماعی جیسی تفریق وہی شخص کرسکتا ہے جس نے فہم قرآن سے عداوت مول لی ہو-
(۳) حامدی صاحب کی یہ فضائی نکتہ آفرینی بھی ہواؤں میں داد کی طالب ہے کہ:
’’ان حالات (اضطراری حالات) کو اصلاً جاننے والا اور اس کی حقیقت سمجھنے والا اللہ ہے، اس لیے وہی اضطراری طور سے حرام ماکولات کے کھانے کے بارے میں یہ متعین کرسکتا ہے کہ اس کے اضطراری حالات تھے…‘‘ سبحان اللہ! اس توحید پرستی پر نثار ہونے کو جی چاہتا ہے، گویا ضرورت کے حکم کو سمجھنے کے لیے قرآن کی واضح آیت کافی نہیں ہوئی ، کیوں کہ ضرورت کا اصلاً ادراک صرف اللہ کو ہے، اس لیے اب کسی شخص کو بھی مجبوری میں حرام کھانے کی اجازت نہیں مل سکتی، تا آں کہ حالت اضطرار کو واقعی سمجھنے والا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے پاس وحی و الہام نہ بھیجے-
حامدی صاحب! حد کردی آپ نے، اللہ نے جب اضطرار اور ضرورت کو بنیاد بنا کر ایک حکم بیان فرمادیا تو جو شخص بھی اس طرح کی حالت میں گرفتار ہوگا اگر اسے اپنی مجبوری کا گمان غالب ہو جائے تووہ حرام کھاسکتا ہے، اب یہ حالت اگر اجتماعی طور پر پیش آئے تو اجتماعی طور پر اس حرام کا کھانا مباح ہوجائے گا، کیوں مباح ہونے کی علت ضرورت و اضطرار موجود ہے- 
حامدی صاحب! خواب و خیال کی باتیں چھوڑیے، قرآن کا وسعت نظر سے مطالعہ کریے، اور یہ بات بھی پیش نظر رکھیے کہ کسی کی کوئی بات یا فہم وحی الٰہی نہیں ہے، اس میں کبھی زعم ، کبھی خرافات اور کبھی شیطانی وسوسے کا دخل بھی ہوسکتا ہے- الضرورات تبیح المحذوراتیہ صریح قرآنی آیت سے مستفاد اصول ہے، آپ علمائے ہند سے ضرور اختلاف کریے ، لیکن اختلاف کی بنیاد یہ نہ ہو کہ بلاوجہ ایک قرآنی دلیل کو شیطانی دلیل قرار دیں بلکہ اس دلیل کا انطباق آپ کے اختلاف کی بنیاد بنے- ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی عالم کے نزدیک ہندوستانی ماحول میں یہ اصول متحقق ہی نہ ہو، ایسے میں اسے اختلاف کا بھر پور حق ہوگا-
مدیر ’’اللہ کی پکار‘‘ کی نظر میں ہندوستانی مسلمان کافر:-
حامدی صاحب کا شتر بے مہار خامہ شعلہ فشاں ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ جن نام نہاد علما نے ایسا کیا ہے انھوںنے اپنے آپ کو اللہ کے بالمقابل ’’رب‘‘ کا درجہ دے کر صریحاً کفر کا ارتکاب کیا ہے- اور جن مسلمانوں نے ان کے اس دعوے کو صحیح تسلیم کیا اور اس پر عمل کیا ہے وہ بھی کفر کے مرتکب ہوئے ہیں-‘‘
(اللہ کی پکار، جولائی ۲۰۰۸)
علماے دیوبند، ارباب مسلم پرسنل لا بورڈ، ذمہ داران جماعت اسلامی اور علمائے اہل سنت سب ہی ضرورتاً ہندوستانی مسلمانوں کے لیے انشورنس کے جواز کے قائل ہیں، لہٰذا ہندوستان کے یہ تمام علما حامدی صاحب کے مطابق نہ صرف نام نہاد علما اور علمائے سو ہیں بلکہ ربوبیت و الٰہیت کے مدعی اور کفر صریح کے مرتکب بھی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے ہندوستانی عوام کے یہی نمائدہ اور معتمد علما ہیں، لہٰذا حامدی صاحب کے فرمان کی روشنی میں وہ سب بھی خارج از اسلام ٹھہرے، لیکن حامدی صاحب کو انہیں دائرۂ اسلام سے باہر کردینے پر بھی قرار نہیں آیا’’کفر و شرک ان (مسلمانوں) اسکا وطیرہ بن چکا ہے-‘‘ (مئی ۲۰۰۸) لکھ کر انہیں بت کدے تک پہنچا کر دم لیا ہے- اب یہ منطق جا کر کوئی حامدی صاحب سے سمجھے کہ ’’شرک و کفر مسلمانوں کا وتیرہ کیسے ہوسکتا ہے؟اور جس کا وتیرہ کفر و شرک ہو کیا وہ بھی مسلمان ہے؟‘‘ جب کہ شیخ ابن تیمیہ تو یہ لکھتے ہیں : ’’توحید شرک کی ضد ہے، تو جب بندہ صاحب توحید ہوگا جو حق اللہ ہے وہ موحد ہوتے ہوئے شرک کا مرتکب نہیں ہوسکتا‘‘  
 فالتوحید ضد الشرک، فاذا قام العبد بالتوحید الذی ھو حق اللہ،فعبدہ لایشرک بہٖ شیئا کان موحداً (مجموع الفتاویٰ ، جلد اول، حصہ اول، ص:۷۶، دار الکتب العلمیہ ، بیروت، ۲۰۰۵)
رابطۂ عالم اسلامی حامدی صاحب کی تکفیر کی زد میں :-
رابطۂ عالم اسلامی کی مجلس المجمع الفقھی الاسلامی (اسلامک فقہ اکیڈمی) کا پہلا سمینار ۱۰ ؍ تا ۱۷؍ شعبان المعظم ۱۳۹۸ ھ یعنی آج سے ۳۱ سال پہلے منعقد ہوا، اس پہلے سمینار میں ایک فیصلہ لائف انشورنس کے تعلق سے بھی ہوا، شرکاء میں دوسرے علماء کے ساتھ سعودی عرب کے مشہور عالم عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز اور صالح بن عثیمن بھی تھے، مجلس نے اپنے نصف ممبران کی موجودگی میں شیخ مصطفی زرقاء کے استثناء کے ساتھ تجارتی بیمہ کی حرمت اور تعاونی بیمہ کے جواز کا متفقہ فیصلہ کیا- یہ فیصلہ مجلس المجمع الفقہی الاسلامی کے دیگر فیصلوں کے ساتھ کتابی شکل میں شائع ہوا ہے، اس کا اردو ترجمہ از محمد فہیم اختر ندوی اس وقت میرے پیش نگاہ ہے ،جس میں مذکورہ فیصلہ کے ساتھ شیخ مصطفی زرقاء کا استثنائی اختلافی بیان بھی چھپا ہوا ہے، اس بیان کے بعض اقتباسات یہ ہیں:
’’میں آپ حضرات کی اس رائے سے اختلاف کرتا ہوں کہ آپ نے تامین وہ بیمہ جسے تجارتی کا نام دے کر اس کی مختلف صورتوں کو حرام قرار دیا ہے اور اس بیمہ کے درمیان جسے آپ نے تعاونی قرار دیا ہے، فرق کیا ہے- میری رائے میں بیمہ خود ایک تعاونی طریقہ ہے، جس کا سسٹم ہی یہ ہے کہ ان نقصانات کی تلافی کی جائے جو بیمہ کرانے والے اصحاب کو پیش آتے ہیں، وہ بذات اپنی تینوں صورتوں کے ساتھ جائز ہے- یعنی اشیاء کا بیمہ، تھرڈ پارٹی کا بیمہ اور وہ بیمہ جسے غلط نام دیتے ہوئے جان کا بیمہ کہا جاتا ہے، شرعاً جائز ہیں-‘‘
’’میں نے اس اجلاس میں بھی یہ واضح کیا کہ تعاونی اور تجارتی بیمہ کی تقسیم کی کوئی دلیل نہیں ہے-‘‘
’’اگر ایسے سنگین موضوع پر جس کی حرمت یا حلت کے سلسلے میں موجودہ دور کے علما کے درمیان زبردست اختلا ف ہے،فیصلہ کیا ہی جاتا ہے تو میری رائے ہے کہ ایسے اجلاس میں فیصلہ کیا جائے جس میں اکیڈمی کے تمام ارکان یا اکثریت موجود ہوں، نیز اکیڈمی کیے ارکان کے علاوہ عالم اسلام کے ان علماء کی بھی رائے لی جائے جو علمی وزن رکھتے ہیں، پھر ان کے جوابات کی روشنی میں ، اور اختلاف آراء کے موقع پر لوگوں کے لیے دشواری کے بجائے آسانی کا رجحان رکھتے ہوئے ایسے حساس موضوع پر فیصلہ کیا جائے-‘‘
 (فقہی فیصلے، ص ۴۱ ، ۴۳ ، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی ، ۲۰۰۱ ) 
ان قتباسات سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ اکابر علماے عرب تجارتی بیمہ کو حرام اور تعاونی بیمہ کو اس میں سود نہ ہونے کی وجہ سے جائز قرار دیتے ہیں، لیکن ایک عظیم عرب عالم شیخ مصطفی الزرقاء نے اس رائے سے اختلاف کرتے ہوئے بیمہ کو آج سے ۳۱؍ سال پہلے رابطۂ عالم اسلامی کے اکابر علما کے اجلاس میں سرے سے ہی جائز قرار دے دیا، لیکن اس کے باوجود علماے رابطۂ اسلامی بشمول علمائے اہل حدیث کے مجدد عصر عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، محمد محمود الصواف اور صالح بن عثیمین نے شیخ مصطفی الزرقاء کی تکفیر کی نہ اسے گمراہ کہا نہ رابطۂ عالم اسلامی کی رکنیت سے ہی خارج کیا، بلکہ طرفہ یہ کہ انشورنس کے جواز کے تعلق سے ان کی رائے کو اپنے فیصلے کے ساتھ اب تک شائع کر رہے ہیں- اب پروفیسر حامدی صاحب کی تکفیری رائے کو سامنے رکھیے تو واضح طور پر یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ جب انشورنس کو ضروتاً جائز سمجھنے والا حامدی صاحب کے نزدیک کافر ہے تو اصولی طور سے اسے جائز تسلیم کرنے والا اس سے بڑا کافر اور مرتد ٹھہرے گا اور علمائے رابطۂ عالم اسلامی ایسے شخص کو اپنی فقہی مجلس میں شامل رکھ کر اور اس کی رائے کی اشاعت کر کے اس کے کفر میں برابر کے شریک ہونگے - پھر بات یہ بھی آئے گی کہ رابطۂ عالم اسلامی کے علما جو ایک کفر صریح کو اسلام اور ایک مرتد کو مسلمان (نظریہ ٔ حامدی کے لحاظ سے)سمجھتے ہیں وہ سب خارج از اسلام ہوئے اور ایسے علما کو دنیا کے جو افراد اپنا معتمد سمجھتے ہیں حامدی صاحب کی عمومی تکفیر کے آئینے میں سب کافر ہوئے- ایسے میں حامدی صاحب یقینا پوری دنیا میںیکاو تنہا مسلمان ٹھہرے- یہاں میں حدیث کی معروف کتاب صحیح مسلم کی حدیث صحیح جو صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عہنما سے روایت ہے، نقل کرنے پرخود کو مجبور پاتا ہوں اور اس کی شرح و تفہیم حامدی صاحب کے حوالے چھوڑتا ہوں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’جب کوئی آدمی اپنے بھائی کی تکفیر کرتا ہے تو وہ کفر ان دونوں میں سے کسی ایک شخص کی طرف ضرور لوٹتا ہے-‘‘(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان حال ایمان من قال لا خیہ المسلم یا کافر)
 بک رہا ہوں جنوں میںکیا کیاکچھ:-
ماہنامہ ’’اللہ کی پکار‘‘ کے مئی ، جون، جولائی ۲۰۰۸ء کے شماروں میں فاضل خالد حامدی صاحب نے ایک فرعی مسئلہ میں اختلاف رائے کرتے ہوئے مسلمانان عالم کی جو عمومی تکفیر کی ہے اس کی ایک جھلک ہم نے قارئین کی عدالت میں پیش کر دی ، موصوف نے اس عمومی تکفیر کے علاوہ ان تین شماروں میں اپنی فطرت ثانیہ اور مزاج خاص سے مجبور ہو کر حسب روایت اور بھی طرح طرح کی گل افشانیاں کی ہیں، جن کے چند نمونے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
(الف) مئی ۲۰۰۸ء کے شمارے (ص۱۱) میں لکھتے ہیں:
’’دوسرے مقام پر اللہ نے سودی حرمت آجانے کے بعد سود خوری کے مرتکب مسلمان کو کافر قرار دیتے ہوئے اسے پھر جہنم کی وعید سنائی ہے:
’’اے ایمان والو! بڑھتا چڑھتا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم فلاح یاب ہوگے اور اس آگ سے بچوں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور اللہ و رسو ل کی اطاعت کرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا-‘‘ (ترجمہ القرآن- آل عمران۳:۱۳۰-۱۳۲)
ترجمہ آیت کوباربار پڑھیے، اس میں کہیں بھی سود خوری کے مرتکب شخص کو کافر قرار نہیں دیا گیابلکہ صرف جہنم کی وعید سنائی گئی ، لیکن حامدی صاحب کی جسارت دیکھیے کہ اپنے دل کے پھپھولے  پھوڑنے کے لیے قرآن کی ’’معنوی تحریف‘‘ کرتے ہوئے انہیں ذرہ برابر خوف الٰہی دامن گیر نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ اور قرآن مقدس پر جھوٹ باندھتے ہوئے صاف لکھ دیا کہ ’’اللہ نے سودی حرمت آجانے کے بعد سود خوری کے مرتکب مسلمان کو کافر قرار دیتے ہوئے اسے پھر جہنم کی وعید سنائی ہے-‘‘
(ب) مئی ۲۰۰۸ء کے شمارے (ص:۹۰) میں ہی ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’کسی کو عبد اللہ، عبد الرحمن کے بجائے اللہ کے اسمائے علم- اللہ یا رحمن کہنا تو شرک و کفر کے دائرے میں آجائے گا اور منع کرنے کے باوجود جانتے بوجھتے دیدہ و دانستہ کہنے والا ایمان باللہ کے منافی عمل کرنے والا اور شرک و کفر کا مرتکب قرار پائے گا-‘‘
اولاً- رحمن اللہ کا اسم علم نہیںاسمِ صفت ہے، حافظ ابن کثیر (۷۷۴ھ) لکھتے ہیں:
’’اللہ ،رب تبارک و تعالی کا علَم ہے…اور باقی تمام اسماء اس کے اسمائے صفات ہیں-‘‘(تفسیر القرآن العظیم، ۱؍۲۱، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۲۰۰۶ء)
رہا یہ کہ اللہ کی طرح رحمن بھی کسی کا نام نہیں رکھا جا سکتا تو یہ صرف اسم رحمن کی خصوصیت نہیں ہے، بلکہ ’’اللہ کے بہت سے اسماء ایسے ہیں جن سے اس کے غیرکا نام رکھا جا سکتا ہے اور بعض وہ ہیں جن کا استعمال خدا کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا، جیسے اللہ، رحمن، خالق، رازق وغیرہ-‘‘ (ایضا ص۲۳)
ثانیاً -شرک نام ہے کسی غیر کو خدا کی ذات و صفات میں شریک کرنے کا، اگر کوئی شخص کسی کو رحمن کہتا ہے تو نہ وہ اسے ذات الہی کا شریک سمجھتا ہے نہ صفات کا، فقط و ہ لفظی اطلاق کرتا ہے، لیکن اس میں معلوم نہیں حامدی صاحب کو شرک کہاں نظر آگیا، اور اگر صرف اتنا ہی شرک ہو جائے تو جس طرح رحمن خدا کی صفت ہے ستار اور رحیم بھی خدا کی صفت ہے، اب اگر کوئی شخص کسی عبد الستار کو ستار یا عبدالرحیم کو رحیم کہتا ہے تو ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ بھی مشرک ہو جائے، لیکن حامدی صاحب معلوم نہیں کس آیت یا حدیث صحیح سے استدلال کر کے فرماتے ہیں’’عبد الغفار، عبد الستار کے بجائے غفار و ستار کے نام سے پکارنے پر کفر و شرک کے درجے کا گناہ تو نہیں‘‘۔۔۔۔۔۔۔’’اگر صرف کریم و رحیم کہا جا رہا ہے تو ایساناجائز تو نہیں البتہ مکروہ ہے‘‘ (اللہ کی پکار، مئی،۲۰۰۸ء ص:۹۰)
ایسا لگتا ہے کہ حامدی صاحب نے کفر و شرک کا کہیں سے ٹھیکا لے رکھا ہے کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں انہیں چسپا کر دیں-’’بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہی چھیچھڑے‘‘ مشہور مثل ہے، جس کے صحیح معنی و مفہوم اور مصداق کیا ہیں، حامدی صاحب بہتر سمجھتے ہوں گے، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس میں لفظی ترمیم کے ساتھ ’’حامدی کے خواب میں شرک ہی شرک‘‘ کر دیا جائے تو یقین ہے کہ مفتیان ارد وادب کی جانب سے کم از کم کفر اور دائرۂ ادب سے اخراج کا فتوی تو نہیں لگے گا- جامعہ ملیہ میں حامدی صاحب کے خیریت دریافت کرنے پر ان کے ایک طالب علم نے ایک بار یہ کہہ دیا کہ ’’آپ کی دعائیں ہیں‘‘ جناب فوراً بگڑ گئے، کہنے لگے ’’ایسا مت کہا کرو یہ شرک ہے-‘‘ .....ع
حیراں ہوں سر کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں
اس وقت شیخ ابن تیمیہ کا ایک فتویٰ میرے پیش نظر ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو نفع بخش اور اس کے انکار کو کفر و ارتداد لکھا ہے،رقم کرتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا، ان کی شفاعت اور ان سے مسلمانوں کے استفادے کا جو شخص منکر ہو وہ کافر ہے، لیکن یہ پہلے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور ان کی اطاعت سے توسل کے انکار)سے کمتر درجے کا گناہ ہے، اگر کوئی شخص دعائے رسول اور شفاعت رسول کا انکار ناواقفیت کی بنیاد پر کر رہا ہے تو اسے سمجھایا بتایا جائے گا، لیکن اگر وہ اپنے انکار پر اب بھی مصر رہے تو وہ مرتد ہے-‘‘
و أما دعاؤہ وشفاعتہ و انتفاع المسلمین بذالک فمن أنکرہ فہو أیضا کافر، لکن ہٰذا أخفیٰ من الأول، فمن أنکرہ علی جہل عرف ذالک، فان أصر علی انکارہ فہو مرتد (مجموع الفتاوی، حصہ اول، ص:۱۴۵)
سوال یہ ہے کہ اگر دعاے رسول نافع ہے تو کم از کم دعاے مومن کسی کے حق میں شرک تو نہیں ہوگی- کیوں کہ جو عمل مومن کے ساتھ شرک ہوگا وہ پیغمبر کے ساتھ بھی شرک ہوگا- ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی عمل ایک جگہ شرک ہوا ور دوسری جگہ ایمان-حامدی صاحب! اپنا یا شیخ ابن تیمیہ کا دفاع کیجیے!
(ج) ہفوات کی ایک اور مثال بلا تبصر حاضر ہے:’’ بالکل ایسا لگ رہا ہے کہ مسلمانوں اور ان کے دین اسلام کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے یا انہیں اپنے دین سے مکمل طورسے بے گانہ کر دینے کی ہر ممکن تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں- اس کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس سلسلے میں دشمنوں کی تدابیر اور اللہ کی مرضی دونوں ہم آہنگ ہو چکی ہیں-‘‘(اللہ کی پکار، مئی۲۰۰۸ء ص:۷)
حامدی صاحب کا احتیاط اور ان کی بے احتیاطیاں:-
’’فاضل‘‘ حامدی صاحب کا رسالہ کئی ممتاز خصوصیتوں کا حامل ہوتاہے، انہیں خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں جو شخص بھی لکھتا ہے وہ ’’مولانا‘‘ نہیں ہوتا، یا ’’مولوی‘‘ ہوتا ہے یا ’’شیخ‘‘ اگر کوئی ’’مولانا‘‘ رہا بھی تو اسے حامدی صاحب ’’مولوی‘‘ یا ’’شیخ‘‘ بنا دیتے ہیں- اس طرف میری توجہ مبذول کراتے ہوئے میرے ایک بزرگ دوست نے کہا کہ ’’آپ غور کرتے ہیں ’’اللہ کی پکار‘‘ میں کسی عالم کے نام کے ساتھ’’مولانا‘‘ نہیں ہوتا یا ’’شیخ‘‘ ہوتا ہے یا ’’مولوی‘‘ یاپھر کچھ اور-‘‘ میں نے ان کی بات کی تصدیق کی اور کہا کہ چوں کہ حامدی صاحب کی قوت شامہ شرک کے معاملے میں بڑی حساس واقع ہوئی ہے- انہیں چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ہر طرف شرک کی بو آتی ہے، کیا عجب کہ جس لفظ کو پوری اردو دنیا بلا شک و ریب اور بغیر کسی مذہبی ، مسلکی اورعلاقائی تفریق کے ’’عالم دین‘‘ کے لیے استعمال کرتی ہے اس سے حامدی صاحب کو شرک کی بو محسوس ہوتی ہو- کیوں کہ ’’مولانا‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’ہمارے آقا‘‘ ممکن ہے حامدی صاحب سمجھتے ہوں کہ آقا تو صرف اللہ کی ذات ہے اس لیے کسی اور کو آقا اور مولانا کیسے کہا جا سکتا ہے-میاں دھڑکن کہتے ہیں کہ ’’ہمارے شہر بنارس کے سیٹھ توحید علی مدنی جب اپنے کسی نوکر کو ’’مالک‘‘ کہتے ہوئے سنتے ہیں تو جلا ل سے کانپنے لگتے ہیں ، چیختے ہیں : دوبارہ یہ لفظ نکالا تو زبان کاٹ لوں گا، تمہیں معلوم نہیں کہ جب میں یہ لفظ سنتا ہوں تو ہزار بار توبہ ، غیر اختیاری طور پرمجھے اپنے خدا ہونے کا احساس جھنجھوڑنے لگتا ہے‘‘ (نعوذ باللہ من ذالک)
میرے بزرگ دوست کہنے لگے کہ ’’جناب! اگر حامدی صاحب لفظوں کے استعمال میں اتنے ہی محتاط واقع ہوئے ہیں تو پھر اپنے رسالے کا نام ’’اللہ کی پکار‘‘ کیوں رکھا ہے، کیا وہ وحی الٰہی پر مشتمل ہوتا ہے، پھر ’’پکار‘‘ کا لفظ دیکھیے، اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اس کا استعمال کتنا بھونڈا معلوم ہوتاہے-مولوی سید احمد دہلوی نے فرہنگ آصفیہ میں اس کے یہ معنی درج کیے ہیں : (۱) بانک، آواز، للکار، (۲) غل، شور، ہلٹر (۳) فریاد، دہائی(۴) بلاؤ، طلب(۵) خواہش حاجت، تلاش، جستجو، چاؤ،مانگ جیسے پانی کی پکار (۶) نالش، استغاثہ، فریاد- تبائیے اس میں کون سے معنی ذات الہی سبحانہ وتقدس کو زیب دیتے ہیں؟‘‘
میں نے جواباً عرض کیا کہ ’’۴ نمبر تو صحیح فٹ ہو رہا ہے‘‘ کہنے لگے کہ’’ ایسا لفظ جس کے ۶؍ معنی میں سے پانچ شان الہی کے شایان نہ ہوں اس کا اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیا آپ کو اچھا لگے گا؟ پھر اس ایک معنی کو بنیاد بنا کر آپ اس کے استعمال پر اگر مصر ہیں تو پھر عربی میں ترجمہ کیجیے، عربی میں ’’پکار‘‘ کے معنی ہیں نداء، دعا، استغاثہ (القاموس الجدید) ترجمہ کے لیے آپ پہلے اور تیسرے لفظ کا تو استعمال نہیں کر سکتے ، اگر ’’دعا‘‘ مناسب سمجھ کر ’’اللہ کی پکار‘‘ کا ترجمہ ’’دعاء اللہ‘‘ یا ’’دعوۃ اللہ‘‘ کریں تو پھر میں آپ سے وہی سوال کروں گا کہ کیا ’’اللہ کی پکار‘‘ کے مضامین کا درجہ ’’وحی ربانی‘‘ یا الہامات کا ہے؟کیوںکہ یہاں پر دعوۃ اللہ کا ترجمہ الدعوۃ للہ( اللہ کے لیے پکار) ، یاالدعوۃ الی اللہ (اللہ کی طرف پکار )نہیں  بلکہالدعوۃ من اللہ (اللہ کی طرف سے پکار )ہی فٹ بیٹھتا ہے-
میں نے کہا کہ ’’خالد حامدی صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ عربی کے پروفیسر ہیں، وہ ’’اللہ کی پکار‘‘ کے معنی زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک کوئی ایسا پہلو ضرور ہوگا جس میں جواز و استحباب کی صورت نکلتی ہوگی-‘‘ اس پر میرے بزرگ کہنے لگے کہ’’ اگر یہی بات ہے کہ ایسا لفظ جس کے معنی بانگ، ہلٹر، فریاد ، حاجت اور استغاثہ کے ہیں، اس میں حامدی صاحب کوئی لطیف پہلو نکال کر اللہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں تو پھر احتیاط اور تشدد کا بھوت اپنے سر سوار کیے کیوں پھرتے ہیں کہ سارے اہل زبان غلط اور وہ صحیح، سارے مسلمان کافر اور وہ اکیلے مسلمان‘‘ سلسلہ ٔ  کلام دراز ہوتا دیکھ کر میں خاموش ہو گیا-
فروعی اختلافات کی نوعیت اور حقیقت:-
فروعی مسائل میں اختلاف ناگزیر ہے، ایسے اختلافات کو بنیاد بنا کر تکفیر کا رویہ اپنانا سخت مذموم رویہ ہے، ہندوستان میں انشورنس کے جواز کا مسئلہ قرآنی حکم کی خلاف ورزی یا اس سے بغاوت پر مبنی نہیں ہے، بلکہ قرآنی اصول ضرورت کی بنیاد پر ہے- حامدی صاحب کو اگر اختلاف کرنا ہی تھا تو وہ اس اصول کے انطباق اور عدم انطباق پر گفتگو کرتے مگر انہوں نے ایسا نہ کر کے تمام علمائے ہند کو اور ان کے متبعین کو اسلام سے ہی خارج کر دیا- یہ ایک بڑی جسارت تھی جس کی وضاحت میں ہماری گفتگو طویل ہوگئی، جس کے لیے ہم اپنے قاری سے معذرت خواہ ہیں اور آخر میں فروعی مسائل میں اختلاف کے تعلق سے رابطۂ عالم اسلامی کے فیصلے کے بعض اقتباسات نقل کر رہا ہوں، چوں کہ اس فیصلے میں عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، صالح بن فوزان، مصطفی احمد الزرقاء، راشد راغب قبانی، محمد محمود الصواف اور ابوالحسن علی ندوی بھی شریک ہیں ،جن کی باتیں حامدی صاحب کے لیے ضرور اعتبار و وثوق کا درجہ رکھتی ہیں، اس لیے امید کرتا ہوں کہ اس فیصلے پر حامدی صاحب غور کریں گے اور اپنے رویے کا مخلصانہ و حقیقت پسندانہ جائزہ لیں گے-
’’دوسری نوعیت جو بعض مسائل میں فقہی اختلاف کی ہے اس کے پس پشت کچھ علمی اسباب ہیں جن میں اللہ کی عظیم حکمت اور بندوں پر اس کی رحمت کارفرما ہے، ساتھ ہی اس کی وجہ سے نصوص سے استنباط احکام کے دائرے میں وسعت پیدا ہوتی ہے، یہ اختلاف ایک نعمت اور عظیم قانونی فقہی سرمایہ ہے…یہ فقہی اختلاف ہمارے دین میں کوئی نقص یا تناقض نہیں رہا ہے اور نہ ہرگز اسے تنا قض و نقص قرار دیا جا سکتا ہے…۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے اختلافات کا نہ ہونا ناممکن ہے…نصوص محدود ہیںاور واقعات لامحدود، لہذا قیاس کی طرف رجوع کرنا اور علل احکام، شارع کی غرض، شریعت کے عام مقاصد پر نظر رکھنا اور شریعت کو واقعات اور نئے نئے حادثات میں حکم بنانا ضروری ہے اور اس تطبیق و اجتہاد میں علماء کے فہم و فقہ اور احتمالات کے درمیان ترجیحات کی تعیین میں اختلاف ایک فطری بات ہے…جہاں تک دوسرے طبقے کا تعلق ہے جو ان تمام مسالک ہی کو پس پشت ڈال دینا چاہتا ہے اور لوگوں کو ایک نئے اجتہاد کی دعوت دیتے ہوئے موجودہ فقہی مسالک اور ان کے ائمۂ عظام کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنا تا ہے، اوپر پیش کردہ ان فقہی مسالک کی اہمیت و امتیاز اور ان کے ائمہ کی عظیم خدمات کے پیش نظر اس طبقہ کو چاہیے کہ اس ناپسندیدہ اور گھٹیا طرز عمل سے گریز کرے جس کے ذریعے وہ لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرتا ہے ، انہیں ایسے نازک وقت میں منتشر کرتا ہے جس میں دشمنان اسلام کی خطرناک سازشوں کے مقابلہ میںپوری امت کو ایک جھنڈے تلے جمع ہو جانے کی سخت ترین ضرورت در پیش ہے-‘‘ (فقہی فیصلے، ص،۲۰۵،۲۰۶،۲۰۷، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، ۲۰۰۱ء)
*****



0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔