Monday 22 January 2018

مسلمان اور موجودہ جمہوری حکومت

0 comments
مسلمان اور موجودہ جمہوری حکومت
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-------------------------------------------------------------------------
اسلامی اور جمہوری حکومت:-
اسلامی حکومت وہ ہے جو منہاج نبوت پر قائم ہو اور اس کے قیام کا اسلامی طریقہ وہی ہے جسے پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا- اس کا آغاز ایمان کامل، معرفت حق اور تواصی بالحق و تواصی بالصبر سے ہوتا ہے- ایسا ایمان جو دوسروں کے خلاف نفرت کی بجائے ہمدردی پیدا کرتا ہے اور ان کی نجات و بخشش کے لیے فکر مند کر دیتا ہے ،اس سے مخلصانہ دعوت کا آغاز ہوتا ہے جو مکمل حالات فہمی، تدبر و بصیرت اور امن و امان کے طریقے پر جاری رہتی ہے، حتی کہ اس کے اعلان میں مصیبتوں کا اندیشہ ہو تو اس کا اعلان بھی نہیں کیا جاتا- اگر اہل وطن مجبور کریں تو ان کے خلاف خفیہ سازش اور خود کش حملے کرنے کی بجائے خفیہ اور پر امن طریقے سے ترک وطن کر دیا جاتا ہے- پھر اگر ایسے غیر مسلم ملیں جو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ کے اصول پر عامل رہنا چاہیں تو ان سے معاہدے کیے جاتے ہیں اور بالآخر جب اہل ایمان کا کارواں تیار ہو جائے اور مسلمان طاقت و قوت، اسباب و وسائل اور حالات و ماحول کے اعتبار سے حالت غلبہ میں آ جائیں تو پھر اسلامی حکومت کا قیام ہوتا ہے- وہ عادلانہ حکومت جو مکمل عفو و در گزر (لا تثریب علیکم الیوم ) مذہبی آزادی (لاا کراہ فی الدین اوراعتدال و توازن( لا تعتدوا) کے اصول پر قائم ہوتی ہے-
جمہوری حکومت کی سب سے بہتر تعریف سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے الفاظ میں یہ ہے: عوام پر، عوام کی، عوام کے لیے حکومت-
Democracy is the government of the people, by the people, for the people.
اب عوام اگر سب کے سب بندہ مومن ہیںاور اخلاص اور قوۃ نافذہ موجود ہے تو یہ خالص اسلامی جمہوری حکومت ہوگی، جیسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت فرما جانے کے بعد مسلمانوں نے اسلامی جمہوری حکومت قائم کی اوراگر عوام سب مسلمان نہیں ہیں یا کامل مسلمان نہیں ہیں، یا مسلمان غالب نہیں ہیں، ضعف اور اقلیت میں ہیں، تو ایسی صورت میں یہ عوامی حکومت اسلامی حکومت نہیں ہوگی- بلکہ غیر اسلامی سیکولر حکومت ہوگی- لیکن واضح رہے کہ غیر اسلامی حکومت کا مطلب مخالف اسلام حکومت نہیں ہے، کیوں کہ موجودہ سیکولر جمہوری حکومتیں تقریباً سب ایسی ہی ہیں جو خود تو اسلامی قانون کی پابند نہیں ہیں، لیکن مسلمانوں پر جبر نہیں کرتیں کہ وہ بھی اسلامی قانون کاپٹہ اپنے گلے سے اتارپھینکیں- یہ بات بڑی توجہ طلب ہے- اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض مسلمانوں میں بڑی غلط فہمی ہے اور وہ جمہوری حکومت کو اسلام مخالف یا مسلم مخالف حکومت تصور کرتے ہیں- ان کے ذہن میں ہمیشہ حکومت سے بدگمانی اور توہماتی Clash رہتا ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ مثبت طور پر کچھ سوچ پاتے ہیں اور نہ کچھ کر پاتے ہیں- اسی طرح 'Secular State' کا ترجمہ ’لادینی حکومت ‘ کیا جاتا ہے اور بعض لوگ اس کے یہ معنی سمجھتے ہیں کہ سیکولر حکومت دین و مذہب کی دشمن حکومت ہے، حالاں کہ یہ سراسر غلط فہمی ہے- سیکولر یا لادینی حکومت کے صرف یہ معنی ہیں کہ اسٹیٹ کا کوئی ایک مذہب نہیں ہے جس کو عوام پر تھوپا جائے بلکہ مذہب کے معاملے میں عوام کو آزادی ہے، ان میں جو چاہے اپنی پسند کا مذہب اختیار کرے- مذہب کے معاملے میں کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا- اسی طرح جو عائلی قوانین ہیں، ان پر ہر شخص اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے گا، کسی ایک مذہب کے عائلی قانون کو سارے عوام پر نہیں تھوپا جائے گا- ہاں جو عام نزاعات اور عوامی مشترکہ مسائل ہوںگے ان میں وہ طریقہ اپنا یاجائے گا، جو حکومت کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے قابل قبول ہو اورساتھ ہی اس بات کی کوشش ہو کہ وہ کسی گروپ کے جذبات کے خلاف نہ ہو- موجودہ دنیا کا وہ مخصوص طبقہ جو جمہوری حکومتوں کے خلاف ہمیشہ آستین چڑھائے رہتا ہے، جس کی وجہ سے تشدد، خود کش حملے اور عوامی قتل و غارت کا ماحول برپا ہے، وہ دراصل اب تک نہ صحیح طور پر اسلامی حکومت کا مطلب سمجھ سکا ہے اور نہ جمہوری حکومت کا مطلب- اس کے خیال میں جمہوری حکومت ایک طاغوتی حکومت ہے جس کے خلاف بہرکیف بغاوت کردینا چاہیے اور کسی بھی صورت میں اس پر مفروضہ اسلامی قوانین اور اسلامی شریعت کو نافذ کر دینا چاہیے- اس کے نزدیک جمہوری حکومت میں پرامن جینا اور ممکنہ سہولتوں کا استعمال کرنا، حق رائے دہی سے فائدہ اٹھانا، شرک کی ہم نوائی اور حاکمیت الہ کا انکار ہے-
حاکمیت الٰہ اور پارلیمنٹ:-
اگر کوئی شخص خدا سے منھ موڑ کر پارلیمنٹ کو تسلیم کرتا ہے، یا اس کے فیصلے کو کتاب و سنت کے احکام کا درجہ دیتا ہے،یا اس خیال سے پارلیمنٹ کو تسلیم کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کا فیصلہ ہمارے لیے بہرطور واجب الاتباع ہے، ہم اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائیںگے، خواہ پارلیمنٹ مسلمانوں کی شریعت کو بدل ڈالے اور مسلمانوں سے پوجا اور پرارتھنا کرنے کو کہے، بہر صورت پارلیمنٹ کی بات ہی حرف آخر ہے، تو ایسی صورت میں یقینا پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا خدا کی حاکمیت کا انکار ہوگا- لیکن سوال ہے کہ پوری دنیا میں کیاکوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جو پارلیمنٹ کو اسی طرح مانتا ہو جس طرح وہ خدا و رسول کے فیصلے کو مانتا ہے؟ اور اگر کسی کو ضد ہے کہ پارلیمنٹ کو کسی طور پر بھی تسلیم کرنا خدا کی حاکمیت کا انکار ہے تو یہ بات پارلیمنٹ ہی تک کیوں محدود ہوگی، سعودی عرب میں سعودی خاندان کی حاکمیت تسلیم کرنا بھی خدا کی حاکمیت کا انکار ہوگا، لیبیا میں معمر القذافی کے اقتدار کو تسلیم کرنا بھی شرک کی ہم نوائی ہوگی ، پاکستان اور فلسطین میں جمہوریت کا پرچم بھی اسلام سے بغاوت کا اعلان ٹھہرے گا اور یہی نہیں خلفائے راشدین کے بعد پوری تاریخ اسلام میں، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استثنا کے ساتھ، کبھی بھی منہاج نبوت پر حکومت قائم نہیں ہوسکی، یہ تمام حکومتیں پورے معنوں میں اسلامی نہیں تھیں، ان تمام حکومتوں کو پوری امت نے قبول کیا، اب ہونا تو یہ چاہیے کہ کوئی بدزبان یہ کہہ بیٹھے کہ پوری امت اسلامیہ حاکمیت الہ کی منکر رہی ہے کیوں کہ پوری اسلامی تاریخ میں غیراسلامی حکومتیں قائم رہیں اور علما، فقہا، محدثین، متکلمین، صوفیہ، محققین اور عوام مسلمین نے ان حکومتوں کو تسلیم کیا-
بات اگر درست اسلامی فکر و بصیرت کی کی جائے تو ایسے ملکوں میں جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں اقلیت میںہیں اور وہاں اسلامی حکومت  قائم کرنا ممکن نہیں ہے، پارلیمنٹ سے بغاوت کرنا، کفران نعمت، انعام خداوندی سے انکار، سیاسی خود کشی اور مصائب و آلام کی دعوت ہے-جدید دور میں بالخصوص جمہوریت کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنے مواقع ملے ہیں، دعوت کی اتنی راہیں کھلی ہیں اور اظہار حق کے اتنے امکانات سامنے آئے ہیں جن کا جمہوریت کے بغیر ہم تصور ہی نہیں کرسکتے- اس کھلے ماحول میں منفی ذہنیت رکھنے والوں کو یہ دکھ رہا ہے کہ لوگ کفر پر آزاد ہیں، انھیں یہ نہیں دکھتا کہ وہ ایمان پر بھی اتنے ہی آزاد ہیں، انھیں ہم اسلام کی طرف اتنی ہی آزادی سے بلاسکتے ہیں- اس لیے یہاں اصل مسئلہ اس نظام کا نہیں، قصور منفی انداز نظر کا ہے- یہ بالکل ویسے ہی ہے کہ جب جدید سائنس کی بدولت جدید ذرائع ابلاغ سامنے آئے تو بہت سے لوگوں نے ان ذرائع سے پیدا ہونے والے نقصانات سے نفرت کرنے کی بجائے وہ ان ذرائع سے ہی نفرت کرنے لگے- اور نتیجتاً وہ ان بیش بہا ذرائع کو حق کے لیے استعمال کرنے سے محروم رہے- بعینہ جدید جمہوری حکومتوں سے آنکھ بند کرکے جنگ کی باتیں کرنا خود کو ڈھیر سارے مواقع خیر سے محروم رکھنے کے مترادف ہے اور جہاں تک ’’حاکمیت الہ‘‘ کی بات ہے تو اس کی صداقت و حقانیت سے کسے انکار ہوسکتا ہے؟ ہاں! گزشتہ صدی میں بعض مسلم دانش وروں نے اس کی اقامت پر جو گرم تقریریں کیں وہ اپنے آپ میں بے بصیرت تھیں، وہ جذبات پر مبنی تھیں، افسوس کہ آج بھی بہت سے تعلیم یافتہ حضرات ’’حاکمیت الہ‘‘ کی انہی پُرجوش تقریروں کے فسوں میں الجھے پڑے ہیں جو موجودہ دور میں ازکار رفتہ بلکہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے- یہ تو خیر کہیے کہ جماعت اسلامی ہند بھی، جس کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے حاکمیت الہ کی اقامت کے نام پر جمہوریت کے خلاف بیسویں صدی کے اوائل میں پرجوش تقریریںکی تھیں، اب ہوش میں آگئی ہے اور جماعت کے ذمہ داروں کو جمہوریت کی حقیقت سمجھ میں آنے لگی ہے- وہ یہ بات سمجھنے لگے ہیں کہ موجودہ حالات میں جمہوریت کا انکار طاغوت کا انکار نہیں، خود کشی کی دعوت ہے- بلکہ حیرت اس پر ہے کہ خود مولانا مودودی نے ۱۹۵۱ء میں پاکستانی جمہوریت میں شمولیت اختیار کر لی تھی- کیا اسلام کا لیبل لگا دینے سے پاکستان کی حکومت مسلمان ہوگئی تھی؟ کیا کسی شخص میں یہ کہنے کی جرأت ہے کہ پاکستان کی حکومت خالص اسلامی حکومت ہے جو منہاج نبوت پر قائم ہے؟
الیکشن کا بائیکاٹ:-
 جمہوری حکومتوں میں الیکشن کا بائیکاٹ کرنا انتہائی درجے کی حماقت ہے- یہ خیر کثیر سے محرومی اور بلائے عظیم کی دعوت ہے، جس کی توقع مومنانہ بصیرت اور داعیانہ حکمت سے نہیں کی جاسکتی- اس سے درج ذیل نقصانات یقینی ہیں:
(الف) اس سے مسلمانوں کا کردار حکومت کی نظر میں مشکوک ہو جائے گا-
(ب) مسلمانوں کے خلاف شدت پسند غیر مسلموں کو اپنی بھڑاس نکالنے کا سنہری موقع ہاتھ لگ جائے گا-
(ج) مسلمان سیاسی سطح پر بے اثر بلکہ بے دست و پا ہو کر رہ جائیںگے- ان کی حمایت میں آواز بلند کرنے والا نہ کوئی ان کا اپنا مسلمان ہوگا اور نہ کوئی غیر مسلم لیڈر ہوگا-
(د) مسلمان تمام تر حکومتی مراعات سے محروم ہو جائیںگے-
(ہ) مسلمانوں کے لیے مصیبتوں، آفتوں اور قانونی پیچیدگیوں سے نجات کے سارے دروازے مقفل ہو جائیںگے-
(و) مسلما نوں کو سرکاری و نیم سرکاری ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا-
(ز) اسلام کا دعوتی عمل رک جائے گا- کیوں کہ جس کا کردار حکومت کی نظر میں مشکوک ہو، جس کی وفاداری شک کے دائرے میں ہو، اسے کبھی دعوتی و تبلیغی آزادی نہیں مل سکتی- 
پھر سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کا بائیکاٹ کر دینے سے جمہوری حکومت کا بائیکاٹ ہو جائے گا؟بائیکاٹ تو جبھی ہوگا کہ پوری حکومت کا بائیکاٹ کر دیا جائے- حکومت تین بڑے شعبوں کا نام ہے (۱) مقننہ (Legislative)، (۲) عدلیہ (Judiciary) اور (۳) انتظامیہ (Administration) کسی حکومت کا بائیکاٹ جبھی ممکن ہے جب ان تینوں بڑے شعبوں کا بائیکاٹ کر دیا جائے- جو لوگ الیکشن کے بائیکاٹ کرنے کی باتیںکرتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ کیا مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ جمہوری حکومتوں میں حکومت کے ان تینوں بڑے شعبوں کا بائیکاٹ کر دیں اور جب یہ کام مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں ہے تو پھر صرف الیکشن کا بائیکاٹ کرکے مختلف قسم کی سیاسی و غیر سیاسی مصیبتوں کو دعوت دینا کہاں کی دانش مندی ہے؟
قرآن کریم کی ایک آیت ہے لا یکلف اللّٰہ نفسا الا وسعہا (البقرہ: ۲۸۶ ) اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بار نہیں ڈالتا- اس آیت کو وسیع معنوں میں لیں تو خدا کی یہ مصلحت اجتماعی طور پر بھی لاگو ہوگی اور یقینا اللہ تعالیٰ کسی جمعیت کو بھی اس کی طاقت سے زیادہ گراں بار نہیں کرتا- کتاب و سنت میں اس مفہوم کے اور بھی احکام و نصوص موجود ہیں جن کو سامنے رکھ کر اسلامی فقہا نے الضرورات تبیح المحظورات (ضرورتیں ممنوعات کو بھی جائز بنا دیتی ہیں) اور اہون البلیتین (دو مصیبتوں میں ہلکی مصیبت اختیار کرنے کی حکمت) جیسے اصول بنائے- موجودہ جمہوری حکومتیں مسلمانوں کے لیے انہی اصولوں کے تحت قابل قبول ہیں- جمہوری حکومتوں کو قبول کرنا آج کی ضرورت ہے یا یہ حکومتیں مسلمانوں کے لیے اہون البلیتین کا درجہ رکھتی ہیں- کیوں کہ ان سے بغاوت کرنا مسلمانوں کو تباہی کی آگ میں جھونکنے کے ہم معنی ہے لیکن یہ بات ان لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی جنھیں فقہ و تدبر اور فکر و بصیرت سے پیدائشی عداوت ہے اور ذہنی آوارگی اور لسانی پھکڑپن کا یہ عالم ہے کہ وہ ’’ضرورت‘‘ جیسے قرآنی اصولوں کو ’’شیطانی اصول‘‘ کہہ کر جمہوریت سے بغاوت کی باتیں کر رہے ہیں اور انھیں سمجھانے کی کوشش کیجیے تو وہ عدالت کا رخ کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ عدالت بھی اسلامی نہیں، اسی جمہوری حکومت کا ایک حصہ ہے-
کیا حاکمیت الہ کا نعرہ اخلاص پر مبنی ہے؟:-
الیکشن کے بائیکاٹ اور پارلیمنٹ کی مخالفت کی باتیں کرنے والے مسلمانوں کے دشمن ہیں، انھیں مسلمانوںکی پر امن زندگی پسند نہیں ہے- پاکستان سے لے کر افغانستان و عراق تک انہی دہشت پسندوں کی کارستانیوں کے سبب عام مسلمان تباہی و بربادی سے دوچار ہیں-یہ پورا علاقہ باردو کے ڈھیر پر کھڑا ہے اور بالواسطہ طور پر ہندوستان سے افریقہ و امریکہ تک کے مسلمان اس سے متاثر ہیں، ان کا دین مشکوک اور ان کا کردار متہم ہے لیکن ان دہشت پسند عناصر کی خواہش ہے کہ مسلمان ہندوستان اور یورپ و امریکا میں بھی پر امن زندگی نہ گزار سکیں، حکومت سے لڑیں، شاہراہوں پر بم پھوڑیں، سرکاری دفاتر کو تباہ کریں اور اپنے ان تمام احمقانہ اعمال کو جہاد فی سبیل اللہ اور طاغوتی نظام کی مخالفت سمجھیں- ویسے ہمیں اس طبقے سے اس حد تک ہمدردی ہے کہ ہم ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ ان کو دین کے تعلق سے درست فہم عطا فرمائے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان تک اپنی بات پہنچائیں اور انھیں سمجھائیں کہ بارود کے ڈھیر سے بسلامت گزرا تو جا سکتا ہے لیکن اس ڈھیر کو تباہ کرنے کے لیے اسی کے اوپر کھڑے ہو کر اس میں آگ نہیں لگائی جاسکتی- اس خود کشی کا ارتکاب کوئی عقل مند آدمی نہیں کرسکتا- 
راہ عمل:-
جمہوری حکومتوں میں مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی زندگی کی بہتری صرف جمہوری طریقے پر ممکن ہے- جمہوری طریقہ ہر شخص کو اس کے مذہب پر قائم رہنے کی آزادی دیتا ہے اور اسے اپنی رائے کے استعمال کی آزادی اور سیاسی جماعت کی تشکیل یاتائید کا سیاسی حق دیتا ہے- اس حق کا استعمال کرکے اگر مسلمان اپنی مذہبی اور سیاسی زندگی کو بہتر بنانا چاہیں تو کوئی چیز ان کے لیے اس سے مانع نہیں ہوگی اور نہ اس چیز کو کسی بھی طرح غیر اسلامی یا اسلام مخالف کہا جاسکتا ہے- اس کے لیے مسلمانوں کو سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ وہ جمہوری حکومتوں میں اپنے ملک کے وفادار بن کر رہیں- بصورت دیگر وہ اپنی مذہبی و سیاسی زندگی کو بہتر بنانے کی بجائے پوری قوم مسلم کے لیے آزار بن جائیںگے- آج مسلمانوں کا عسکریت پسند طبقہ یہی کر رہا ہے- علاوہ ازیں درج ذیل نکات پر عمل کرکے مسلمان اپنی مذہبی و سیاسی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں:
(الف) حق رائے دہی بہت قیمتی حق ہے- مسلمان اس کا صحیح، دانش مندانہ اور مدبرانہ استعمال کریں- یہ ان کی بہت بڑی طاقت ہے- بدقسمتی سے مسلمانوں کو اپنی اس طاقت کا اب تک صحیح ادراک نہیں ہوسکا ہے-
(ب) جمہوری حکومتوں میں اقلیتوں کے لیے جو حقوق مختص ہیں، مسلمان ان سے خوب استفادہ کرنے کی کوشش کریں-
(ج) کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے اہل ثروت مسلمان اپنی زکوٰۃ پوری طرح ادا کریں اور اس کا صحیح و جائز استعمال کریں- اسے عام مسلمانوں کی عائلی، معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی اور طبی زندگی کو بہتر بنانے میں صرف کریں- زکوٰۃ کا درست استعمال اسلام کے ابتدائی دور میں ہوا جس کے بعد مستحقین زکوٰۃ کو تلاش کرنا پڑتا تھا- آج اگر پھر مسلمان اس کا درست استعمال شروع کر دیں تو وہ جتنے شکوے حکومت سے کرتے ہیں وہ ختم ہو جائیںگے اور وہ اپنے طور پر خود کفیل ہو جائیںگے- 
(د) جن مسلمانوں میں سیاسی سوجھ بوجھ ہو وہ عملی سیاست میں حصہ لیں اور جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اور اپنی قوم کی فلاح و بہبود کا فریضہ انجام دیں-
(ہ) علما و مشائخ کو اپنے بنیادی کام، اذہان میں علوم کی آبیاری اور قلوب میں دین کے استحکام کی طرف توجہ دینی چاہیے- چوں کہ علما و مشائخ کا بنیادی کام تبلیغ دین اور اشاعت علم دین ہے، مسلم دور حکومت میں علما و مشائخ نے یہی فریضہ انجام دیا- وہ حکومتوں سے کنارہ کشی کی طرف مائل رہے اور اپنے اصل فریضے کی ادائیگی سے جڑ ے رہے- موجودہ دور میں بعض علما اصل فریضے سے ہٹ کر دوسری غیر ضروری مصروفیات میں الجھ گئے اور جو لوگ اپنے اصل فریضے سے جڑے رہے ان کا انداز محض روایتی رہا- انہوں نے جدید سائنسی ذرائع اور جمہوری طریقوں کا استعمال نہیں کیا اور اپنی ناکامیوں کا سارا وبال حکومت وقت پر ڈالتے رہے- علما و مشائخ کو اس روش سے گریز کرتے ہوئے، تمام جمہوری طریقوں، جدید اسالیب اور سائنسی سہولیات کا استعمال کرتے ہوئے، اپنے اصل فریضے، دعوت حق و ابطال باطل، کی طرف متوجہ رہنا چاہیے-
(و) موجودہ جمہوری دور خالص مسابقتی دور ہے جہاں ترقی و تنزل کا مدار محض لیاقت ہے اور لیاقت تعلیم سے حاصل ہوتی ہے- اس لیے جمہوری حکومتوں میں مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیں-
(ز) جمہوری حکومتوں میں مسلمان کثیر مذہبی و کثیر ثقافتی ماحول میں زندگی گزارتے ہیں- یہ ماحول ان کی نئی نسل کے ایمان و عمل کے لیے سراسر خطرے کی گھنٹی ہے- اس خطرے سے نجات کا صرف ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے ’’دینی تعلیم‘‘- اس لیے اگر مسلمانوں کو جمہوری حکومتوں میں اپنی مذہبی زندگی کی سرخروئی عزیز ہے تو ہر بچے تک دین کی بنیادی تعلیم کو پہنچانا ان پر فرض ہے- اس کے لیے جو بھی ممکنہ صورتیں نکل سکتی ہیں، مسلمان انھیں اپنائیں اور اپنی اولاد کی دینی فکر کی تطہیر کا سامان مہیا کریں-خلاصہ یہ کہ جمہوری حکومتوں سے جنگ مذہبی طور پر مسلمانوں پر فرض نہیں ہے ، نہ اس کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ قرین مصلحت ہے- یہ ایک ناممکن عمل ہے اسلام جس کا کسی کو مکلف نہیں کرتا- ایسی صورت میں مسلمانوں کے سامنے صرف ایک راستہ ہے، وہ یہ کہ وہ حکومتوں کے دیے ہوئے اختیارات و حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مذہبی و سیاسی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے وسعت بھر کوشش کرتے رہیں-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔