Tuesday 23 January 2018

دہشت پسند تنظیموں کی فکری بنیادیں: نقائص و نتائج (ڈاکٹر اسامہ ازہری کی کتاب’’ الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین ‘‘ کے حوالے سے)

0 comments
دہشت پسند تنظیموں کی فکری بنیادیں: نقائص و نتائج
ڈاکٹر اسامہ ازہری کی کتاب’’الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین‘‘
کے حوالے سے
از قلم: ضیاء الرحمن علیمی
-------------------------------------------------------------------
جتنے بھی مسلم فرقے ہیں سب اپنا رشتہ قرآن و سنت سے جوڑتے ہیں اور سب کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کا عقیدہ و منہج قرآن وسنت سے ثابت ہے لیکن احقاق حق او ر ابطال باطل کی غرض سے اسلاف کے فراہم کردہ اصول و معیارپرایسے تمام فرقوں کےافکار و مفاہیم کا تجزیہ کرنا ایک دینی ذمے داری ہے اور علمی امانت داری بھی-
جامعہ ازہر عالم اسلام کی وہ عظیم دانش گاہ ہے جس نے دین و ملت کی خدمت میں اپنی زندگی کےپورے ایک ہزار سال گزارے ہیں،اس نےہر زمانے میں باطل افکار وخیالات کو اسلاف کے عطا کردہ اصولوں پر پرکھ کر گمراہ فرقوں کو آئینہ دکھایاہے اور قرآن وسنت سے ان کے گہرے رشتوں کے دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔اسی دانش کدے کے پروردہ ڈاکٹر اسامہ السید محمود ازہری (ولادت:۱۹۷۶ء) بھی ہیں جن کا لائف ٹائم مشن ہی یہ ہے کہ ازہرکے علمی منہج کا احیا کیاجائے-اسلام کی صحیح، معتدل، متوازن اور پُرامن متوارث تفہیم کو عام کیاجائے اور ہر اس تفہیم کو مسترد کر دیاجائے جس میں دین اسلام کو ایک پُر تشدد، غیر معتدل اورناموس عقل و فطرت سے بر سر پیکار دین کے طور پر پیش کیاگیاہو۔
ڈاکٹر موصوف کی کتاب’’ الحق المبین فی الرد علی من تلاعب بالدین ‘‘ایسی ہی ایک علمی وتجزیاتی کاوش ہے، جس میں اخوان المسلمین سے لے کر داعش تک دین کے نام پرجذبات کا استحصال کرنے والی دہشت و خوں ریزی کی سودا گر تنظیموں کو اسلاف کے ان رہنما اصول اور علمی معیار کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا گیا ہے اور دین اسلام جو اپنے نصوص و مفاہیم کے ساتھ متوارث و متواتر ہے ،اس کی عدالت میں ان کے افکار کامقدمہ رکھ کر انصاف کی فریاد کی گئی ہے-
اس کتاب میں اسلاف کے جن اصول ومعیار پران منحرف تنظیموں کے افکار کوپرکھاگیا ہے اس کے نمائندے کے طور پر ازہر کے اس علمی منہج کو پیش کیاگیاہےجس میں ہزار سالہ تجربہ اور ہزار ہا علمائے ربانیین کا توارث شامل ہے-
مؤلف نے تشدد کی علم برداراُن جماعتوں کی فکری اساس کی تلاش و جستجو میں جن افکار کو محوری قراردیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
(۱) غیراللہ کی حاکمیت قبول کرنےکا مسئلہ (۲) جاہلیت کامفہوم(۳) دارالاسلام اوردارالکفر کامفہوم(۴)فتح ونصرت کے وعدے صرف جہادیوں کے لیے (۵) جہاد کا مفہوم (۶) تمکین کا مفہوم (۷) وطن کا مفہوم(۸)اسلامی غلبے کےپروجیکٹ کا مفہوم-
ان افکار کے صحیح و غلط پہلو اور پھر ان کے سنگین نتائج پر شریعت اسلامی اور منہج اسلاف یعنی منہج ازہری کی روشنی میں تفصیلی بحث کے بعد ان قواعدکا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے مذکورہ بالا عناوین کے صحیح و متوارث مفاہیم تک ان تحریکوں کی رسائی نہیں ہو سکی-
 آنے والی سطور میں درج بالاعناوین کے مفاہیم پر مؤلف کی گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جاتاہے:
(۱) حاکمیت:-
متشددجماعتوں کا نظریہ ہے کہ مسلمانوں نے ربانی نظام کی حاکمیت کو چھوڑ کردوسرے قوانین کی حاکمیت قبول کرلی ہے اور یہ شرک ہے، مؤلف کے مطابق یہ سب سے اساسی فکر ہے اور اسی پر دوسرےتمام غلط افکار کا دارومدار ہے،اس فکر سے سید قطب اور ان کے بھائی کے یہاں شرک حاکمیت اور توحید حاکمیت کی فکر پیدا ہوئی اور پھر یہیں سےمومنانہ جہادی گروہ کی ضرورت اورپھر ان کے لیے نصرت و تمکین کے وعدۂ الٰہی کی فکرکاظہور ہوا اور اسی فکر کی بناپر عام مسلمانوں کی حالت کو جاہلیت کی حالت قرار دیا گیااور ان مسلمانوں کی تکفیرکی گئی ،یہیںسے یہ فکر سامنے آئی کہ ان کےمزعومہ ،مومنانہ جہادی گروہ کو جاہلیت میں مبتلا مسلمانوں پر غلبہ ہوناچاہیےاور یہ خیال بھی عام ہوا کہ ایسے مسلمانوں سے ٹکراؤ ضروری ہے تاکہ خلافت الٰہیہ قائم کی جاسکے-
حاکمیت کی فکر کہاں سے پیدا ہوئی اور پھر اس فکر سے دوسری فکری کج رویاں کیسے سامنے آئیں اس حوالے سے مؤلف کا یہ کہنا ہے کہ اس طرح کے تمام افکار و خیالات کا سرچشمہ سید قطب کی کتاب فی ظلال القرآن ہےاور اُن کی جودوسری کتابیں ہیں دراصل وہ فی ظلال القرآنمیں مندرج افکار و خیالات کا ہی چربہ ہیں-
ڈاکٹریوسف قرضاوی اپنے مذکرات میں لکھتے ہیں :
 موجودہ مسلمانوںکی تکفیر کی فکر صرف معالم فی الطریق میں نہیں ہے بلکہ اس کی اصل فی ظلال القرآن اور العدا لۃ  الاجتماعیۃ فی الاسلام ہے-
    (ابن القریۃ والکتاب،ملامح وسیرۃ،جلد:۳،ص:۶۹،دارالشروق،قاہرہ،۲۰۰۸ء)
سید قطب نے یہ فکر اصلاًابوالاعلیٰ مودود ی سے لے کر اس کو مزید ترقی دی اور اپنی زوربیانی سے اسے ایک مکمل نظریہ بنادیا اور پھر یہ نظریہ ایسا ناسور بن گیا جس سے تکفیر کا مواد رسنے لگا- ابوالاعلیٰ اور سید قطب نے اس فکر کی بنا قرآن کریم کی اس آیت کریمہ پر رکھی جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :  
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰهُ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ. (مائدہ: ۴۴) 
[جو اللہ کی نازل کردہ شریعت کو اپنا حاکم نہ بنائیں وہ کافر ہیں-]
اس آیت کریمہ سے سید قطب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی شخص شرعی احکام کا نفاذ نہیں کرتا تو وہ ان احکام کی حقانیت کا عقیدہ رکھنے والا ہی کیوں نہ ہو اور ان احکام کے عدم نفاذ کی وجہ کوئی عذر ہی کیوں نہ ہو پھربھی وہ کافر ہے-
اس فکر اور نظریے میں بڑی شدت اور بڑی تنگی ہے ،اس میں تکفیر کےلیے عجلت پسندی اور توسیع ہے ، اس فکر کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مسئلہ حاکمیت کو اصول ایمان سے سمجھ لیا گیا، اس طرح عقیدے کے باب میں ایک امر کا اضافہ ہوا اور پھر اس کے فقدان کی صورت میں مسلمانوں کی تکفیر کر دی گئی اور یہی بعینہ خوارج کا مذہب ہے،جب کہ صحابہ کے زمانے سے لے کر بعد کےادوار تک مسلم علما کا مذہب اس کے خلاف ہے اورمذکورہ بالاآیت کریمہ کی توجیہ و تفہیم میں متعدد اقوال ذکر کیے گئے ہیں ۔ان میں راجح ترین قول یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کی حاکمیت کو اس طور پر قبول نہیں کیاکہ وہ وحی الٰہی ہے اور برحق ہے تو بلا شبہ یہ کفر ہے ،لیکن اگراس کا نفاذ کسی وجہ سے مشکل ہو تو وہ شخص کافر نہیں  ہے،چنانچہ امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں : 
قال عکرمۃ : وقولہ تعالیٰ: ومن لم یحکم بما أنزل اللہ إنما یتناول من أنکر بقلبہ و جحد بلسانہ، أما من عرف بقلبہ کونہ حکم اللہ وأقر بلسانہ کونہ حکم اللہ إلا انہ أتی بما یضادہ فھو حاکم بما أنزل اللہ ولکنہ تارک لہ، فلا یلزم دخولہ تحت ھذہ الآیۃ وھذا ھوالجواب الصحیح. (تفسیر کبیر/۶/۳۵،دارالغدالعربی، قاہرہ،۱۴۱۲ھ)
حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ کافر ہونے کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کی حاکمیت کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار نہ کریں، چنانچہ جو شخص حکم الٰہی کی دل سےتصدیق اور زبان سے اقرار کرتاہو لیکن اس کا عمل اس کے بر خلاف ہو تو وہ احکام الٰہی کی حاکمیت قبول کرنے والا ہے اگرچہ ترک عمل میں گرفتار ہے ،ترک عمل کی بنا پر وہ اس کے حکم کے تحت یقیناًداخل نہیں ہوگا، یہی صحیح جواب ہے-
آیت کریمہ کی یہی توضیح امام غزالی نے المستصفی میں اور امام ابن عطیہ اندلسی نے المحرر الوجیزمیںکی ہے،اور کلام ائمہ کی چھان بین سے معلوم ہوتاہے کہ ابن مسعود ،ابن عباس ،براء بن عازب ،حذیفہ بن الیمان، ابراہیم نخعی،سدی، ضحاک، ابو صالح، عکرمۃ ،قتادہ،عامر ،شعبی، عطاء،طاؤوس ،طبری،قرطبی،ابن جوزی،ابو حیان،ابن کثیر ،آلوسی،طاہر بن عاشور اور شیخ شعراوی جیسے تمام ائمہ اعلام نے آیت کریمہ کا یہی مفہوم بیان کیاہے-
ان تمام ائمہ کے بالمقابل سید قطب ہیں جنھوں نے بیک جنبش قلم ان تمام ائمہ کی تفہیم کوتحریف قرار دے دیا،اس فکر میں خوارج کے سواان کاکوئی پیش رو نہیں ہے،چنانچہ حضرت سعید بن جبیرسے آیت کریمہ وأخرمتشبھت کے تحت مروی ہے کہ خوارج کے لیے آیت کریمہ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰهُ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ متشابہ ہوگئی ہے کیوں کہ وہ لوگ جب کسی امام کو غیر حق کے مطابق فیصلہ کرتے دیکھتے ہیں تو وہ اسے کافر قراردے دیتےہیں اور کفر کرنے والے کو رب کا مقابل وحریف قرر دے کرپوری اُمت کو مشرک قرار دے دیتے ہیں- 
سید قطب اس طرح کی فاش غلطی کا شکار اسی بنا پر ہوئے کہ انھوں نے فہم وحی کے سلسلے میں علمائے اسلام کے تجربے سے روگردانی کی اور ان کے مناہج فہم کی پیروی نہیں کی بلکہ ملت اسلامیہ کے پورے فکری سرمایے کو جاہلی ثقافت قرار دے دیا،اور فہم وحی کے سلسلے میں خود اپنے حس و حدس اوراپنے تصورات پر بھروسہ کیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے اسلام کے استنباطات کی صحت کی گواہی دی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلٰى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُوْنَهُ مِنْهُمْ.(نسا:۸۳)
ہرزمانے کے خوارج کا یہ طریقہ رہاہے کہ انھوں نے مذکورہ بالا آیت کریمہ کی فاسد تاویل پر اصرار کیا اور علمائے اسلا م کی تاویل کو تحریف قرار دیا، چنانچہ اس سلسلے میں خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک خارجی کومامون کے پاس لایاگیا ،اس سے مامون نے کہا کہ تم نے ہماری مخالفت کیوں کی؟ اس نے جواب دیا کہ قرآن کریم کی آیت کی وجہ سے، مامون نے اس سے پوچھا: کیا تم کواس بات کا یقین ہے کہ یہ وحی ہے؟اس نے جواب دیا ہاں! یقین ہے ، مامون نے پوچھا: اس پر کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا: اجماع امت ہے، مامون نے کہا کہ جب قرآن کےمُنزل ہونے کے سلسلے میں اجماع کومانتے ہو تو پھر آیت کریمہ کی تاویل کے سلسلے میں جوان کا اجماع ہے اس کو بھی مانو-
 (جلد:۱۰،ص:۱۸۶،دارالفکر ،بیروت،۱۹۹۵ء)
ان خوارج نے مسلمانوں پر کفر و شرک کی تہمت لگائی جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو شرک کے خوف سے مامون قرار دیا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشٰى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوْا، وَلٰكِنْ أَخْشٰى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا.(بخاری،باب غزوۃ احد،حدیث:۴۰۴۲)
ابن عبدالبرنے تمہید میں فرمایا کہ جو امت محمدیہ پر ایسے اندیشے کا اظہار کرے جس کا ان کے نبی نے اظہار نہیں کیا تو یہ سراسر تشددہے-(جلد:۲،ص:۱۲۱)
اس گفتگو سے واضح ہو گیا کہ فہم قرآن میں ان لوگوں کی عقلیں انحراف و ضلالت کا شکار ہوگئیں اور اس کی وجہ یہ رہی کہ انہوں نے فہم وحی کے سلسلے میں اسلاف کرام کے منہج کی پیروی نہیں کی-
تکفیری گروہ کی پہچان اور حدیث رسول اللہ:-
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس تکفیری منہج سے اپنی امت کو ڈرایاہے، چنانچہ حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إن ماأتخوف علیکم رجل قرا القرآن حتی رئیت بھجتہ علیہ وکان رد ئا للاسلام، غیّرہ إلی ما شاء اللہ، فانسلخ منہ و نبذہ وراء ظھرہ، و سعی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک، قال: قلت یانبی اللہ! أیھما أولی بالشرک المرمی او الرامی قال بل الرامی .(صحیح ابن حبان، ابن کثیر نے فرمایا کہ اس کی سند جید ہے-)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:مجھے سب سے زیادہ اس شخص سے خوف ہے جو قرآن پڑھنے والا ہو گا، قرآن کا نور بھی اس کوحاصل ہوگا، اسلام کا حامی اور اس کا دفاع کرنے والا ہو گا ،مگر وہ قرآن کو بدل دے گا۔ایسا کر کے وہ قرآن سے جدا ہوجائے گا اور اسے پس پشت ڈال دے گا، اپنے پڑوسی پر تلوار اٹھائے گا ،اوراس پر شرک کی تہمت لگائے گا-حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ان دونوں میں شرک سے کون زیادہ قریب ہوگا،شرک کی تہمت جس پر لگائی گئی ہے وہ یا جس نے تہمت لگائی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہیں بلکہ تہمت لگانے والا-
اس حدیث کی روشنی میں تکفیری متشدد گروہ کی درج ذیل علامتیں سامنے آتی ہیں:
(۱) یہ گروہ قرآن سےگہراتعلق رکھنے والااور اس کی خدمت کرنے والا ہوگا اور اس کی وجہ سے لوگوں کو ان سے حسن ظن ہوگا-
(۲) اس کو قرآن کی نورانیت سے کچھ حصہ حاصل ہوگا، اس کی وجہ سے لوگوں کو اور زیادہ ان سے خوش گمانی ہوگی-
(۳) دین کے لیے بڑا جوش و جذبہ رکھنے والا ،اس کی حمایت اوردفاع کرنے والا ہوگا-
(۴)ان سب کے باوجود اس کے اندر ایک عجیب وغریب تبدیلی رونما ہوگی جس کی وجہ سے لوگوں میں ایک اضطراب پیدا ہو جائے گا،وہ تبدیلی یہ ہوگی وہ قرآن کے متوارث معانی سے منحرف ہو کر جداگانہ باطل تاویل کرے گا کیوںکہ وہ طرق استنباط سے ناواقف ہوگا-
(۵) چنانچہ وہ اپنے پڑوسی کو کافرو مشرک قرار دے گا-
(۶)صرف اسی پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ وہ اس کے خلاف قتال کے لیے ہتھیار اٹھائے گا اورخوں ریزی کرے گا-
شدت مردود ہے: 
مذکورہ بالا حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دارنظر آنے والے شخص کی دین کے نام پر جس شدت اور اس کی جن تباہ کا ریوں پر خوف کا اظہار کیا ہے وہ بالکل بجا ہے، کیوںکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عام صورت حال میں شدت بالکل ہی پسند نہیں فرماتےتھے-حضرت معاذ بن جبل نے جوش عبادت میں اپنی امامت کےوقت فجر کی نماز میں طویل قراءت شروع کر دی، یہ صحابہ پر شاق گزرا جس کی وجہ سے لوگ جماعت سے دور رہنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی سخت الفاظ میں تادیب فرمائی اور تین مرتبہ فرمایا:فتّان، فتّان، فتّان .
(بخاری،باب اذا طول الامام،حدیث:۷۰۱)
یعنی کیاتم لوگوں کو آزمائش میںڈال دینا چاہتے ہو-
اس واقعے سے پتا چلتاہے کہ عبادت میں تھوڑی شدت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس قدر فکرمند ہوگئے تو آپ کو اس تکفیری شخص کے فتنے سے کتنازیادہ اپنی امت پر خوف محسوس ہوا ہوگا-
بد عملی کی بنا پرتکفیر نہیں:- 
ایسا دینی جوش جس میں بد عملی کی بناپر تکفیر کی جائے ،خصوصا امراوحکام کے خلاف ہتھیار اٹھالیاجائے ،یہ درست نہیں  ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : 
کچھ ایسے امراو حکام ہوں گے تم ان کو پہچان جاؤگے اور ان پر انکار کروگے، جو ان کو پہچان لے وہ بری ہے اور جوان پر انکار کرے وہ سلامتی میں ہے سوائے اس شخص کے جو ان سے راضی ہو اور ان کی پیروی کرے، صحابہ نے عرض کیا: یارسو ل اللہ ! ہم ان سے قتال نہیں کریں گے ،آپ نےفرمایاکہ جب تک وہ نماز پڑھ رہے ہیں ان سے قتال نہیں کریں گے -
 (مسلم،کتاب الامارۃ،باب وجوب الانکار علی الامراء)
اس کے علاوہ امام باقلانی ، ابن حزم ،ابوالفتح قشیری، غزالی،ابن وزیر یمنی اور جمہور علمائے اسلام کا مذہب یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے تکفیرسے گریز کیا جائے اور جب تک اجماع نہ ہو جائےاس وقت تک تکفیر نہ کی جائے کیوں کہ توحید کااقرار کرنے والوں کے خون کومباح قراردینا خطا ہے،اور ایک ہزار کافر کو چھوڑنے کی خطا ایک مسلم کی خون ریزی کی غلطی سے چھوٹی ہے-
حضرت ابن عباس کا خوارج سے مناظرہ اور اس کی عصری معنویت:-
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ تقریباً چھ ہزار خوارج اپنے ٹھکانے پرجمع تھے ،میں نےحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے عرض کی کہ اے امیرالمومنین!جلدی سے ظہرکی نماز اداکرلیں تاکہ میں ان خوارج سے جاکر ملاقات کروں،حضرت علی نےفرمایاکہ مجھے تمہاری جان کا خوف ہے،میں نے کہاکہ بالکل خوف نہ کریں ۔چنانچہ میں خوب صورت ترین یمنی لباس پہن کر نکلا ،ان کے پاس پہنچا،جب ان لوگوں نے مجھے دیکھاتو مجھے مرحباکہا،پھر کہا: اے ابن عباس!یہ کیسا لباس ہے؟ میں نے کہاکہ تمھیں اس لباس پر کیا اعتراض ہے؟میں نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر پر عمدہ ترین لباس دیکھے ہیں، پھر میں نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کی:قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ۔(اعراف:۳۲) یعنی آپ فرمادیں کہ جو زینت اللہ نے اپنے بندوں کے لیے رکھی اسے کس نے حرام کردیاہے!
دریافت کیا: کیسے آناہوا؟میں نے کہاکہ میں امیرالمومنین ،اصحاب رسول،مہاجرین وانصار کے پاس سے آرہا ہوں ، لیکن ایسے لوگ تمہاری جماعت میں نظر نہیں آرہے ہیں،جب کہ انہی کی موجودگی میں قرآن کریم نازل ہوااور وہ قرآن کریم کے مفہوم کو تم سے زیادہ جاننے والے ہیں، ایسے لوگ تمہاری صف میں نہیں ہیں۔ تم لوگوں کورسول اللہ کے ابن عم اوران کے دامادسے کیا شکوہ ہے؟
یہ سن کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ان سے بحث نہ کرو ،ان لوگوں کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ (زخرف:۵۸) بعض لوگوں نے کہاکہ ہمیں گفتگو کرنے میں کیا پریشانی ہے ؟ابن عباس رسول اللہ کے چچازاد ہیں اور ہمیں کتاب اللہ کی دعوت بھی دے رہےہیں،پھر خوارج نے کہا- حضرت علی سے ہمیں تین شکایتیں ہیں:
(۱)انھوںنے اللہ کے معاملے میںانسان کو حکم بنالیا-
 (۲) انھوںنے قتال کیاتو مخالفین کی عورتوں کو باندیاں نہیں بنایا اورغنیمت نہیں لوٹا،اگر ان سے قتال حلال تھاتو ان کی عورتوں کو باندی بنانابھی حلال تھااور اگر باندی بناناحلال نہیں تھاتو گویا ان سے قتال بھی درست نہیں تھا-
(۳)انھوںنے اپنے نام سے امیرالمومنین کیوں ہٹادیا،اگر وہ امیرالمومنین نہیں ہیں تو امیرالمشرکین ہیں-
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: میں نے ان سے کہاکہ کوئی اور شکایت؟کہا: نہیں،میں نے ان سے کہا:اگر میں تمہارے یہ شکوے کتاب وسنت سے دورکردوں تورجوع کرلوگے؟انہوں نے کہا کیوںنہیں؟تب میں نے کہاکہ جہاں تک حکم بنانے کا معاملہ ہے تو اللہ نے خود فرمایاہے:يَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ ۔(مائدہ:۹۵)(دوعادل لوگ حکم بن جائیں)اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهٖ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا.(نسا:۳۵)(تمھیں آپس میں اختلاف کا خوف ہوتو ایک حکم مردکی طرف سے اورایک حکم عورت کی طرف سے بھیجو،اگر تم دونوں اصلاح چاہتے ہو،اللہ تعالیٰ تم دونوں کے مابین اتفاق واتحاد قائم فرمادے گا)پھر میں نے کہا: بتاؤ میں کتاب اللہ سےباہر نکلا؟جواب آیا: نہیں-
میں نے کہاکہ جہاں تک جنگ کے بعد عورتوں کو باندی بنانے کی بات ہے تو حضرت علی نے ام المومنین حضرت عائشہ سے جنگ کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ.(احزاب:۶) (نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ) اگر تم ان کو اپنی ماں نہیں مانتے توکافر ہوجاؤگے اور اگر ماں مانتے ہوتو ان کو باندی بنانا کیسے درست ہوگا؟ تم دو گمراہیوں میں گرفتار ہو،بتاؤ کیا میں قرآن کریم سے باہر ہوگیا؟جواب آیا: نہیں-
میں نے کہا کہ جہاں تک اپنے نام سے امیرالمومنین ہٹانے کی بات ہے تو تم کو معلوم نہیں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنے نام سے لفظ رسول اللہ ہٹادیا تھا،اس کی وجہ سے آپ کی رسالت ختم نہیں ہوئی تو علی کی امارت کیسے ختم ہوجائےگی؟ بتاؤکیامیں سنت سے باہر نکلا؟جواب آیا: نہیں-
(مستدرک حاکم،جلد:۴،ص:۲۰۲،دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۴۱۱ھ)
اس مناظرے کے کچھ اہم نکتوں پر غورکرنے کی ضرورت ہے:
(۱)حضرت ابن عباس خود ان کے پاس گئے اور بطورسائل ان کے آنے کا انتظار نہیںکیا۔اس سے اشارہ ملتاہے کہ اہل حق میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں جو باطل افکارکے تجزیے میں پیش قدمی کرنے والے ہو ں اور پھر یہ تجزیے ان تک پہنچائے بھی جائیں-
(۲)آپ شاندار لباس پہن کر گئے-یہ ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور جذبۂ سوال کو مہمیز کرنے کے لیے تھا-
(۳)آپ نے گفتگو کی شروعات میں ہی اپنے منہج کی خوبی اور ان کے منہج کا نقص واضح کردیا کہ میرے پاس تو اصحاب رسول کی مختلف جماعتیں ہیں، لیکن ان کے ساتھ ایسی کوئی جماعت نہیں،جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ہی دین کو بہتر سمجھ سکتے ہیں-
(۴)سب سے پہلے آپ نے ان کے تمام اعتراـضات کو سناتاکہ گفتگو میں آسانی ہو-
(۵) وہاں بھی سب سے پہلا مسئلہ حاکمیت کا تھااورآج بھی دہشت پسندجماعتوں کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے-
(۶)وہ جس طرح کے دلائل سے قائل ہوسکتے تھے انہی کو ان کے سامنے پیش کیا-
اللہ تعالیٰ ترجمان قرآن حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماپر اپنی رحمتیں نازل فرمائے کہ انھوں نے آئندہ نسلوں کے لیے باطل گمراہ فرقوں سے گفتگو کے رہنماخطوط پیش فرمادیے ہیں اور آج اسی منہج کے مطابق مناقشے کی حاجت ہے-
۲- جاہلیت کا مفہوم:- 
متشدد جماعتوں کا نظریہ ہے کہ موجودہ مسلم معاشرہ بھی عہد نبوی سے قبل والاجاہلی معاشرہ ہے اور اس معاشرے کے خاتمے اور نئے اسلامی (مزعومہ) معاشرے کی تشکیل کے لیے موجودہ جاہلی معاشرےاورایسی حکومتوںسے ٹکر لینا،ان کے خلاف بغاوت کرنا اور ہتھیار اٹھانا ناگزیر ہے-
موجودہ دور کی تکفیر ی جماعتوں تک یہ نظریہ بھی سید قطب کے ذریعے پہنچاہے-انھوںنےاس نظریے پر بڑا زور دیا ہے اور اس کو اتنا دہرایا ہے کہ ان کی کتاب’’ فی ظلال القرآن‘‘ میں یہ لفظ۱۷۴۰؍ مرتبہ آیا ہے -در اصل جاہلیت کے مفہوم کوسمجھنے میں سید قطب نے سخت ٹھوکرکھائی ہے اور اس کی بنیاد ی وجہ یہ ہےکہ انھوںنے یہ اعتقاد کہ اللہ تعالیٰ ہی بندوں کا حاکم ہےاور اسی کاحکم نافذ ہونا چاہیے اور پھر عملی طور پر اس کے نفاذ اوراس میںہونے والی عملی کوتاہی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی اور نفاذ احکام کی کوتاہی کو عقیدے کا مسئلہ بنا کر ایسے لوگوں کی تکفیر کر دی جب کہ اجرائے احکام کے لیے کچھ اسباب، شروط اور موانع ہیں جن کی بنا پر احکام کا نفاذ متاثر ہوسکتاہے-
اس طرح وہ اصول ایمان میں فروع کو داخل کر کے خوارج کی ڈگر پر چل پڑے ،جنہوں نے عمل کو ایمان کا جز قرار دے دیا، اسے عقیدے کا مرتبہ عطا کر دیا اور پھر گناہوں کی بنا پر لوگوں کی تکفیر کی-
سیدقطب کے اس خارجی منہج کی بنا پر بہت سے غلط مفاہیم سامنے آئے:
اعتقاد و فروع میں اختلاط:-
فی ظلال القرآن میںانھوںنے ایک مقام پر لکھا کہ عقیدے کا دائرہ زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے ، حاکمیت کا مسئلہ اپنے تمام فروع کے ساتھ عقیدے کا مسئلہ ہے ،یوں ہی اخلاق کا تعلق بھی عقیدے سے ہے-
(جلد:۴،ص:۲۱۱۴،دارالشروق،قاہرہ،۱۴۳۴ھ)
اصول دین میں اضافہ:- 
فی ظلال القرآن میںانھوںنے اس بات کو بار بار دہرایا ہے کہ فقہ و عمل کا تعلق بھی عقیدے سے ہے-عمل کے ہر شعبے کا تعلق عقیدے سے ایسے ہی ہےجیسے خود اصول کا عقائد سے ہے،اور ان میں کسی سے بھی انحراف درحقیقت دین سے انحراف ہے بلکہ ایسے لوگ بت پرستوں کے برابر ہیں-(دیکھئے :جلد:۳ ؍کے مختلف مقامات)
جاہلیت کا نظریہ:- 
سید قطب کے نزدیک زمانہ جاہلیت کوئی گزراہوا زمانہ نہیں ہے،بلکہ یہ ایک منہج حیات ہے جو قبل اسلام سے تاہنوز جاری ہے ،اس کا ماحصل یہ ہے کہ آج مسلمانان عالم اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی جاہلیت اولیٰ جس میں کفرو شرک سب شامل ہے، کی طرف پلٹ چکے ہیں،جب کہ عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اہل اسلام کبھی بھی کفر کی طر ف نہیں پلٹیں گے اور ان کے طرز وعمل میں جو شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے اس کا تعلق معصیت و گناہ سے ہے کفروارتداد سے نہیں ہے،خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےماسبق کی ایک حدیث میں اس کی صراحت کر دی ہے-
سید قطب کا یہ موقف ہے کہ ملت اسلامیہ کفر وشرک اورزمانۂ جاہلیت کی طرف پلٹ چکی ہے،فی ظلال القرآن میں انہوںنے اس نظریے کاباربار اعادہ کیا ہے۔ ان کے اس نظریے کا حاصل یہ ہے کہ دنیا سے دین اسلام ختم ہو چکاہے اور اللہ کی روئے زمین پرصرف شرک وکفر پھیلاہوا ہے،اس بات کا ذکر بھی انھوں نے فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر کیاہے-(جلد:۲،ص:۹۰۴-۹۹۰،اورمتعدد مقامات)
دین ختم ہو چکا:-
جاہلیت کا غلط مفہوم و معنی سمجھنے کی وجہ سے وہ اس نتیجے تک پہنچے کہ روئے زمین پر دین اسلام نام کی کوئی شئی باقی نہیں ہے ،پوری امت مرتد ہوچکی ہے -انھوںنے اپنی کتاب فی ظلال القرآن، العدالۃ الاجتماعیہ فی الاسلام اور معالم فی الطریق میں اس کی صراحت کی ہے -(جلد:۲،ص:۱۰۱۷،اوردوسرے مقامات)
 دنیا سے ٹکراؤ ناگزیر:-
چوں کہ سید قطب یہ نظریہ قائم کر چکے تھے کہ امت اسلامیہ مرتد ہوچکی ہے تو اس سے انھوں نے ایک دوسرا نظریہ بنالیا کہ پوری دنیا کے لوگوں سے ٹکراؤ ناگزیرہے کیوں کہ ہر طرف جاہلی لیڈر شپ کا دور دورہ ہے اس کو کسی بھی طور پر قبول کرنا شرک ہے، لہٰذا الٰہ واحدکی ربوبیت و حاکمیت کے اعلان اور اس کے قیام کی جدو جہد کے لیے دنیا والوں سے ٹکراؤ حتمی ہے- (جلد:۲،ص:۱۰۶۱)
کافروں سے رواداری اور مسلمانوں سے قتال:-
 بڑے تعجب کی بات ہے کہ سید قطب اختلاف ادیان رکھنے والوں سے تو عفو و در گذر کی بات کرتے ہیں،لیکن مسلمانو ں سے رواداری کو درست نہیں سمجھتے کیوں کہ یہ مرتد ہیں اور مرتد کافر سے بھی بُرا ہے-(جلد:۲،ص:۷۳۲)
یہی نظریہ داعش تک پہنچتے پہنچتے یہاں تک پہنچ گیا کہ کافر ہو یامومن سب کی گردن مارنا ضروری ہے-
یہ سارے مفاہیم دین کے متوارث مفاہیم کے مطابق سراسر غلط ہیں،بلکہ اس خیر امت پر تہمت اورخود اسلام اور پیغمبر اسلام کی دینی وتبلیغی کاوشوں کی تحقیر وتذلیل ہے-یہ دین آخری دین ہے اور یہ امت آخری امت ہے ،شرک وکفر پر کبھی جمع نہیں ہوسکتی-
۳- دارالکفر اور دارالاسلام کا مفہوم:- 
قدیم مسلم فقہانے احکام شرعیہ کے اجرا اور اس کے استثنائی احکام کے لحاظ سے دنیا کودو حصوں میں تقسیم کیا:
(۱ ) دارالاسلام (۲) دارالکفر-
اس تقسیم کا مقصدیہ تھا کہ ایک مسلمان مختلف علاقوں کا سفر کرے گاتوکن احوال میں اس پر عمومی احکام جاری ہوں گے اور کن احوال میں استثنائی احکام نافذ ہوں گے اس کا فیصلہ کیا جا سکے، غیرمسلم علاقوں میں خرید و فروخت،نکاح و میراث کے احکام کیا ہوں گے،اس کو متعین کیا جا سکے، اس تقسیم کا مطلوب یہ تھا کہ مختلف احوال میں زندگی کیسے گزاری جائے اس کے طرق و احکام کو تلاش کیاجاسکے ،اس کا مقصدیہ نہیں تھا کہ دنیا کے ایک خطے کو دارالکفر کہہ کر ان سے جنگ وقتال اور خون ریزی کا بازار گرم کیا جائے، لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مسئلے کو مثبت پہلو سے جدا کر کے ایک منفی پہلو دے دیا گیا اور اس کی بناپر یہ مسئلہ دنیامیں مسلمانوں اور انسانوں کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن گیا اور لوگ مسلم فقہا اور خود مسلمانو ں سے بد گمان ہو گئے-سید قطب اور ان سے متاثر افراد مثلا صالح سریہ ،شکری مصطفی، محمد عبد السلام فرج اور پھر داعش کے نزدیک یہ ایک جداگانہ اور خون ریز فکربن کر رہ گئی ہے-
سید قطب اپنی کتاب فی ظلال القرآن میں لکھتے ہیں کہ اسلام کی نظر میں دنیا کی دو قسمیں ہیں -پہلا دارالاسلام اور دوسرا دارالحرب ،تیسری کوئی قسم نہیں -دارالاسلام سے مراد وہ ملک اور وہ علاقہ ہے جہاں اسلامی احکام نافذ ہوں خواہ وہاں کے باشندے سارے مسلمان ہو ںیا کچھ مسلمان اور کچھ ذمی، یا سب ذمی ہوں لیکن حکام مسلمان ہوں جنھوںنے وہاں شرعی احکام نافذ کر رکھا ہو، گویا دارالاسلام ہونے کا دارومدار احکام شریعت کے نفاذ پر ہے-
دارالحرب سے مراد وہ تمام ممالک اور علاقے ہیں جہاں اسلامی احکام نافذ نہ ہوں خواہ وہاں کے باشندے مسلمان ہوں یا کتابی یا کافر،گویا ہر وہ علاقہ دارالحرب ہے جہاں اسلامی احکام نافذ نہیں اگرچہ وہاں کے حکام وعوام مسلمان ہوں،چنانچہ جہاں اسلامی احکام نافذ ہوںگے وہاں کے لوگوں کا جان و مال محفوظ ہو گالیکن جہاں ایسا نہیںہوگااُن کے جان و مال مباح ہوںگے ،ان کے جان ومال کی اسلام کی نظر میں کوئی قیمت نہیںہوگی،وہ احکام شریعت کو نافذکرنے والے حاکم سے صلح و معاہدہ کریں ورنہ ان سے قتال کیا جائےگا- (فی ظلال القرآن /۲/۸۷۳)
گویا سید قطب کے نزدیک دنیا کی تیسری کوئی حالت نہیں ہے ،جس میں احکام شرعیہ کے عدم نفاذ کے باوجود ان سے جنگ و قتال کی صورت حال نہ پیدا ہو ،بلکہ انسانی بنیادوں پر ایک معاہدے کےتحت امن و شانتی کی زندگی گزاری جائے ، یوں ہی ان کی اس گفتگو سے اور ماسبق میںمذکور نظریات سے یہ بھی واضح ہو جاتاہے کہ موجودہ عہد کے عام مسلم ممالک ان کے نزدیک دارالکفرمیں شامل ہیں، کیوں کہ جمہوری نظام قائم کر کے اور اسلامی احکام کو پس پشت ڈال کر وہ سب مرتد ہو گئے اور ان سب کا حکم زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کا ہے-
دارالاسلام اور دارالکفرکا یہ مفہوم جس میں مسلم ممالک اور خود مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کی نوبت آجائے احادیث رسول کے خلاف ہے ،فرمان نبوی ہے:
 ومن خرج علی أمتی یضرب برھا وفاجرھا ولایتحاشی من مومنھا ولا یفی لذی عہد عہدہ فلیس منی ولست منہ.(مسلم،کتاب الامارۃ،باب الامر بلزوم الجماعۃ...)
جو شخص میری امت کے خلاف کھڑا ہو کر ہرنیک و بد کی گردن زنی میں لگ جائے، مومنوں کوقتل کرنے سے گریز نہ کرے اور کسی عہدوالے کا عہد نہ پورا کرےتو نہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی میرا اس سے کوئی تعلق ہے-
جب مومنوں کو قتل کرنے پر اتنی وعید ہے تو جو مومنوں کی تکفیر و تشریک میں لگ جائے، اس کے لیے کتنی وعیدیں ہوں گی؟
سید قطب اوراُن کے ہمنواؤں نے فی ظلال القرآن اور الفریضۃ الغائبۃ  جیسی دوسری مختلف کتابوں میں دارالاسلا م، دارالکفر اوران کے احکام کے حوالے سے انہی باتوں کا اعادہ کیا ہے جن کا ذکر گزر چکاہے -
سید قطب کی اس فکر میں اور ہمارے اسلاف کے بتائے ہوئے اس مفہوم میںجس سے اسلام کے رأفت و رحمت کاپہلو سامنے آتاہے ، جو فکر مقاصد شریعت پر مبنی ہے، دونوں میںذرا سی بھی ہم آہنگی نہیں -
فقہائے اسلام کی جانب سے پیش کی گئی دارالاسلام اور دارالکفر کی تعبیر کی حیثیت اُس زمانے کے لحاظ سے وہی ہے جو آج بین الاقوامی تعلقات کے قوانین کی ہے اور جس کے نتیجے میں آج انٹر نیشنل لا سامنے آیا ہے-امام محمد شیبانی کی کتاب السیر الکبیر کے مطالعے سے یہ تأثر ملتاہے کہ یہ کتاب بین الاقوامی تعلقات کے اصول و ضوابط کو بیان کرنے والی قانون کی پہلی کتاب ہے-قدیم فقہا سے استفادہ کرتے ہوئے اور دارالکفراور دارالاسلام کی اصطلاح سے ان فقہاکی مراد کی گہرائی تک پہنچنے کے بعد المعہد العالمی للفکرالاسلامی نے ایک انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے، جسے موسو عۃ العلاقات الدولیۃ فی الاسلام کا نام دیاگیا ہے اور اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ آج دارالاسلام اور دارالکفر کی اصطلا ح میں ایک تکملےکی حاجت ہے اور ان دونوں اصطلاحوں کے علاوہ ایک اوراصطلاح دارالعہد کے اضافے کی ضرورت ہے تاکہ دین اسلام کی آفاقیت و وسعت واضح ہو، لوگوں کو محاسن اسلام کا ادراک ہو اور ہدایت و اخلاق عام ہو-
ابن تیمیہ کا ایک فتویٰ اوراس کا غلط استعمال:-
شیخ ابن تیمیہ نے اپنے عہد میںاس امکان پر غور وفکر کیا کہ دارالکفر اور دارالاسلام کی اصطلاح سے ہٹ کر ایک ایسے دا رکا بھی امکان موجودہے جسے دارمختلطہ یا دار مشتبہ کا نام دیا جائے اورجس پرنہ دارالاسلام کی تعریف صاد ق آتی ہو اور نہ دارالحرب کی مثلا کوئی ایسا علاقہ ہو جہاں لوگ مسلمان ہوں لیکن حاکم غیر مسلم ہو مثلا تاتاری حکومت جو ملک شام پر مسلط ہو گئی تھی-
اس فتوے میں ایسے ممالک یا علاقے کے بارے میںیہ کہا گیا کہ: 
یعامل فیھا المسلم بما یستحقّہ ویقاتل فیھا الخارج عن الشریعۃ بمایستحقہ .
ایسے ممالک میں مسلمانوں سے ان کے استحقاق کے مطابق معاملہ کیا جائے گا اور شریعت سے خارج لوگوں کے ساتھ قتال کیاجائےگاجس کے وہ مستحق ہیں-
اس عبارت میںلفظ’’ یقاتل‘‘ سے جہادی تکفیری گروہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جو بھی خارج شریعت ہوخواہ دین کا انکار کرکے اور خواہ دین پر عمل سے دور رہ کر، دونوں سے قتال کیا جائے گا ،محمد عبد السلام فرج نے اپنی کتاب الفریضۃ الغائبۃ  میں اپنے اسی تکفیری دہشت گردانہ موقف کا اظہار کیا ،اور پھر شیخ عطیہ صقر مصری نے اس کا عالمانہ رد لکھا، بعد میں علما ئے زمانہ خود اس فتوی کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے اس فتوےکی اصل تلاش کرنے میں لگ گئے ،تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ابن مفلح جو مذہب حنبلی کےمعتبر و ثقہ ناقل ہیں انھوں نے بھی اس فتویٰ کو نقل کیا ہے لیکن اس میںکلمہ ’’یقاتل‘‘ کے بجائے ’’یعامل‘‘ ہے اور ظاہر ہے کہ دونوں کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق ہے -یہ فتوی مجلہ المنار میں بھی کلمہ ’’یعامل‘‘ کے ساتھ شائع ہو ا تھا- در اصل یہ تحریف پہلی بار۱۳۲۷ھ میں فتاوی ابن تیمیہ کی پہلی طباعت میں ہوئی جس کے محقق فرج اللہ کر دی تھے، پھر عبد الرحمن القاسم نے بھی اسی طباعت کی تقلید کی اور پھر یہی فتوی مشہور و متداول ہو ا اور اسی نسخےکےانگریزی اور فرانسیسی زبان میں ترجمے بھی ہوئے ،ایک بارپھر شیخ عبد اللہ بن بیہ نے مکتبہ ظاہریہ دمشق میں موجود اس فتوے کے مخطوطے تک رسائی حاصل کی اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی ’’یقاتل‘‘ کے بجائے اصل لفظ’’ یعامل‘‘ ہی ہے اور اس طرح تحریف کاروں کی تحریف کا پردہ فاش ہوا-
خلاصہ کلام یہ ہے کہ دارالکفر اور دارالاسلام کا وہ مفہوم نہیں، جو سید قطب اور ان کے ہم نواؤں نے سمجھا ہے بلکہ اس مفہوم کا تعلق دنیا کے مختلف خطوں سے رشتوں کی نوعیتوںکی وضاحت، ثقافتی تبادلے، علم و معرفت کے لین دین اور حیاتیاتی اختلاط وامتزاج سے ہے جس میں کبھی کبھی جنگیں بھی ہوتی ہیں لیکن عمومی طور پر اس میں صرف جنگ کا معنی نہیںبلکہ اس کے ذریعے،تعارف وشناسائی اور استفادے کی راہ کھولی گئی ہے تاکہ لوگ اسلام کے پیغام کو سمجھ کر اسے اختیار کر سکیں-
۴- ربانی فتح و نصرت صرف جہادیوں کے لیے:- 
مسئلۂ حاکمیت کی بنا پر پوری سوسائٹی کی تکفیر و تشریک اور ان کو جاہلی قراردینے سے ایک اورعجیب و غریب نظریہ سامنےا ٓیا کہ سب لوگ کافر ہیں، صرف یہ جہادی گروہ ہی مومن ہے اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی فتح و نصرت اور روئے زمین پر غلبہ و قدرت عطا کرنے کی بات کی ہے ان کا تعلق صرف جہادیوںسےہے اور اس کے مخاطب وہی لوگ ہیں-اس نظریے کی بناپر ان کے اندر اور سرکشی پیدا ہوگئی اور پھر اس کے نتیجے میں انھوں نے پورے زور و شور کے ساتھ پوری انسانیت خواہ مسلمان ہو یاکافر، کے خلاف ظلم و ستم میں مصروف ہو گئے، شریعت اور اس کے مقاصد سے پوری طر ح دور ہو گئے اور اس کوجہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیا گیا ۔سید قطب نے اس نظریے کا اعادہ باربار فی ظلال القرآن میں کیاہے-
(جلد:۱،ص:۲۵۲،اور متعدد مقامات)
۵- جہاد کا مفہوم:-
 دہشت پسند جماعتوں کے نزدیک جہاد کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے لوگ چوں کہ غیر اللہ کی حاکمیت قبول کر چکے ہیں، مسلمان پھر سے زمانہ جاہلیت کی جانب پلٹ چکے ہیں اس طرح لوگ کفر و شرک کے مرتکب ہو گئےہیں اور ایک طویل زمانے سے دنیا میں دین مٹ چکا ہے، ہر طرف کفری قوانین اورمشرکانہ د ساتیر رائج ہیں،اس لیے ان تحریکوں نے مسلم حکام کی معزولی پھران کے اور مسلمانوں کے بےرحمانہ کشت و خون کا سلسلہ شروع کیا اور اپنا ٹارگیٹ صرف یہ بنالیا کہ کسی بھی طرح جہاں بھی ممکن ہو حکومت کی کمان چھینی جائے ،متبادل سیاسی ڈھانچہ تیار کیا جائے کیوں کہ دنیا کے لوگوں سے ٹکراؤ ضروری ہو گیا ہے اسی کو انھوں نے جہاد کا نام دے دیا-
صحیح بات یہ ہے کہ جہاد مشروع صرف قتال میں محدود نہیں بلکہ در حقیقت اسلام میں جہاد ایک وسیع ترقی یافتہ عمل ہے، جس کے مختلف مراحل ہیں اور اس کے عمدہ انسانی مقاصد ہیں،اور قتال تو جہاد کی صرف ایک صورت ہے اور اس قتال کا بھی مقصد یہ ہے کہ جرائم پسند اور فسادی عناصر کو ختم کر کے امن و شانتی کو لوگوں کے مابین عام کیاجائے،ہدایت ربانی سے لوگوں کو آشنا کیا جائے اور لوگوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب زندگی سے ہم کنار کیاجائے، یہ مقصد نہیں کہ زندگی کا گلا دبادیاجائے، پھریہ جہاد بھی کسی حاکم کے زیر نگرانی اور گورننگ پاور کی ماتحتی میں انجام پائےگا، جس میں جہاد کرنے والوں پر یہ واجب ہو گاکہ وہ کسی درخت کو نہ کاٹیں ،کسی بکری کو نہ ماریں ،کسی راہب کوخوف زدہ نہ کریں وغیرہ،پھر اس جہاد کے بھی کچھ حدود و قوانین ہوں گے، اگر ان حدودو شروط کی رعایت نہیں ہوگی تو پھر یہ جہاد نہیں رہ جائے گابلکہ ناانصافی ،ظلم اور سرکشی میں تبدیل ہو جائےگا-
دہشت گردوں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے یہاں متعدد قسم کے مظالم پائے جاتے ہیں- قرآن و حدیث اور شریعت پر ظلم کہ انہوں نے پوری سوسائٹی کی تکفیر کر دی،شریعت کی مختلف اصطلاحات، معانی و مفاہیم میں تحریف کی اور دین اسلام کو ظلم و بربریت اور شقاوت و قساوت کا دین بنا کر رکھ دیا-
جہاد کی اس تعبیر کا بھی ذکر سید قطب اور ان کے ہم نواؤں کے یہاں کھلے لفظوں میں ملتاہے ،صالح سریہ نے اپنی کتاب ’’ الایمان‘‘ میں اپنے مزعومہ جہاد کو فرض عین قرار دیا ہے -گویا جہاد کے مفہوم کےحوالے سے دنیاایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف تو جہاد کا متوارث اوروسیع شرعی مفہوم ہے اور دوسری طرف دہشت پسند تحریکوں کااختراعی پُرتشددمفہوم ہے اور دونوں مفاہیم کے کچھ بنیادی امتیاز ی نقطے یہ ہیں:
(۱) علمائے امت کے مطابق جہادمشروع کا مفہوم وسیع ہے یہ ایک عمدہ اورپُر نور عمل ہے جس کی متعدد صورتیں ہیں، چنانچہ جہاد قلب سے بھی ہوتاہے ،دعوت دین ،اقامت حجت، بیان و تبیین،رائے و تدبیر کے ذریعےبھی جہادہوتاہے ، البتہ! کبھی ایسی ایمرجنسی کی صورت حال ہوتی ہے کہ جب شروفسادکے خاتمے کے لیے قتال اور جنگ ناگزیر ہوتی ہے،ان کی تفصیلات کے لیے کتب فقہا کی جانب رجوع کیا جاسکتاہے۔لیکن دہشت پسندوں کے نزدیک جہاد کا مفہوم قتال میں محدود ہے-
(۲)اہل حق کے نزدیک جہاد ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے مقصود لذاتہ نہیںاور شریعت میںوسائل ان اعمال کو کہا جاتا ہے جن کا مقصود دوسرے کسی غرض کی تحصیل ہو ،گویا جہاد کو ہمیشہ قتال سے جوڑکر دیکھنا ضروری نہیں بلکہ مقصود ان اغراض کی تکمیل ہے جو قتال کے پس پشت ہیں،اسی وجہ سے کبھی کبھی مقاصد کی تحصیل کے لیے قتال نہ کرنا ضروری ہوتاہے، اسی لیے امام رملی فرماتے ہیں کہ جہاد کبھی تو صرف قلعے اور خندقیں بنوانے سے بھی ہو جا تا ہے اور کبھی قتال کی ضرورت پڑتی ہے -
 (نہایۃ المحتاج،جلد:۸،ص:۴۶)
دہشت پسندوں کے نزدیک قتال مقصود لذاتہ ہے، چنانچہ قر ضاوی نے ذکر کیا ہے کہ سید قطب نے جہاد کے حوالے سے سب سے تنگ اور پر تشدد رائے قائم کر رکھی ہے اور وہ رائے بڑے بڑے فقہا ودعاۃ کے موقف کے خلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں(ان کے ماننے والوں) کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری دنیا سے جنگ کرنے کے لیے تیار کریں-(ابن القریۃ والکتاب،جلد:۳،ص:۵۹)
(۳)علمائے حق کے مطابق جہاد کا سب سے بڑا مقصد ہدایت ہے کیوں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو خیبر کی طرف بھیجا تو آپ نے ارشاد فرما یا :لأن یھدی اللہ بک رجلا واحدا خیر من حمر النعم.(صحیح بخاری، باب فضل من اسلم علی یدیہ رجل)(اللہ تمہاری ذات سے کسی ایک انسان کو بھی ہدایت عطافرمائے تو یہ سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے )
میدان جنگ میں بھیجتے وقت حضور علیہ السلام کے اس فرمان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قتال کا مقصود بھی ہدایت ہے، چنانچہ اگر یہ مقصود علم ومناظرہ اورازالۂ شبہات کی کوششوںسے حاصل ہو جائے تو یہ افضل ہے اور اسی وجہ سے علما نے یہ فرما یا ہے کہ علما کے قلم کی روشنائی شہداکے خون سے افضل ہے اور اگر یہ مقصود قتال کے علاوہ کسی اور طریقے سے حاصل نہ ہو تو اس وقت تک قتال کریں گے ،جب تک کہ ان اہداف میں سے کوئی ہدف نہ حاصل ہو جائے یا تو ان کی ہدایت ہو جائے اور یہی سب سے اعلی مرتبہ ہے یا ان کے مقابلے میں شہادت ہو جائے یہ پہلے والے سے کمتر درجہ ہے ،لیکن یہ ایک عمدہ مقصد ہے اورا س کی وجہ یہ ہے کہ اس میںاپنی سب سے عزیز چیز کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا ہے، لیکن یہ بھی مقصد حقیقی نہیں ہے بلکہ مقصود اعلائے کلمۃ الحق ہے -امام عز الدین بن عبد السلام قواعد الاحکام (جلد:،ص:۱۲۵)میں فرماتے ہیں کہ مقاصد کے سقوط کی صورت میں وسائل بھی ساقط ہو جاتے ہیں-دہشت پسند وں کے نزدیک ہدایت کی تحصیل میں جہاد وقتال کا کوئی کردار نہیں-
(۴) علمائے حق کےمطابق جہاد ایک حکم شرعی ہے، صرف جوش اور جذباتیت کا نام نہیں ہے ،لہٰذا یہ بھی احوال کے لحاظ سے کبھی واجب ہو گا کبھی مستحب اور کبھی حرام ،یوں ہی کبھی صورتا تو جہاد صحیح ہوتا ہے لیکن حقیقتاً باطل ہو تا ہے کیوں کہ وہ جہاد اپنے محل میں نہیں ہو تا اورا س میں شروط وضوابط کی پابندی نہیں ہو تی اور جب حدود وشروط کی پابندی نہیں ہو گی تو صورتا صحیح ہو نے کے باوجود یہ سراسر ظلم وسرکشی ہوگا -
دہشت پسندوں کے نزدیک جہاد کا جو مفہوم ہے اس میں صرف ظلم وتعدی ہے اور دین ودانش کے خلاف ہے- اس کے نتیجے میں لوگ دین اسلام سے بد ظن ہو تے ہیں اور خود مسلمانوں میں دین بیزاری کا ماحول عام ہو جاتا ہے -
سید قطب اور ان کے ہم نوائوں کے مطابق جہاد پوری دنیا سے جنگ کا نام ہے یوں ہی وہ لوگ جہاد کے مسئلے میں اپنے زمانے کے جمہور علما پر ایک تو یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ لوگ احمق،غافل، کم علم اور کم فہم ہیں دوسرا یہ کہ نفسیاتی اور اخلاقی طور پر یہ لوگ کمزور ہیں کیوں کہ ان کے اندر بزدلی اور موجودہ مغربی دنیا سے مرعوبیت پائی جاتی ہے -
(ابن القریۃ والکتاب،جلد:۳،ص:۶۱)
۶- تمکین فی الارض کا مفہوم:-
اخوان اور ان سے نکلی ہوئی ہرتنظیم کی یہ محوری فکر ہے- تمکین کا مفہوم ان کے نزدیک یہ ہے کہ روئے زمین کفر وارتداد کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے، اس لیے ان کے خلاف مسلح جدوجہد ضروری ہے، یوں ہی حکومت واقتدار پانے کے لیے مختلف قسم کی تدابیر، کوششوں اور اقدامات کی ضرورت ہے اور اقامت دین کا یہی واحد راستہ ہے۔ حکومت واقتدار کے حصول کی انہی کوششوں کو وہ تمکین فی الارض کی کوشش سے تعبیر کرتے ہیں-
اس سلسلے میں ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا نقل کرتے ہوئے ارشاد فرما یا :رَبِ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيْمٌ.(یوسف:۵۵) (اے مولی!مجھے زمین کے خزانوں کا مالک بنا دے، میں حفاظت کرنے والا اور علم والا ہوں )
ان کےمطابق یہ آیت کریمہ بتا تی ہے کہ حکومت وامارت کےحصول اور قیام کی کوشش ہونی چاہیے۔ سید قطب نے اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور یہ بتا یا ہے کہ در اصل حضرت یوسف علیہ السلام ایک جاہلی معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے ،اس لیے انھوں نے امارت و حکومت کی کوشش کی اور چوں کہ آج ہمارے زمانے میں بھی یہی صورت حال ہے اس لیے آج بھی’’ تمکین فی الارض‘‘ (غلبہ واقتدار)کے حصول کے لیے جد وجہد کی ضرورت ہے -
(فی ضلال القرآن،جلد:۴،ص:۲۰۱۳،العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام ،ص:۱۸۳،دارالشروق،قاہرہ،۱۴۱۵ھ)
ان کی یہ ساری گفتگو بڑی خطرناک ہے کیوں کہ اس گفتگو سے انھوں نے گویا یہ اعلان کر دیا کہ ا ب دین منقطع ہو چکا ہے ،احکام شریعت کاکہیں وجود نہیں رہ گیا اور یہ امت کفر وشرک کی علم بردار ہو گئی ہے جب کہ دین محمدی قیامت تک کے لیے ہے اور یہ دین قیامت تک بالکلیہ کبھی ختم نہیں ہو گا یوںہی یہ خیر امت ہے جو شرپز جمع نہیں ہوگی -
دوسری بات یہ کہ مسلمانوں نے مکے میں تیرہ سال تک بالکلیہ مختلف ماحول میں زندگی گزار ی، حبشہ میں الگ صورت حال سے نبرد آزماہوئے اور مدینے میں مختلف ادوارمیںالگ الگ حالات رہے تو کیا مغلوبیت واقلیت کے زمانے میں وہ دین پر قائم نہیں تھے؟حقیقت یہ ہے کہ انہی مختلف احوال سے تومسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ کیسے مختلف احوال میں مسلم رہتے ہوئےاوردین وشریعت پر قائم رہتے ہوئے زندگی گزاری جائے -
حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ جاہلی زمانے میں تھے ،یہ ان کے مقام نبوت پر دست درازی ہے ،کیوں کہ زمانہ جاہلیت تو کفر وشرک سے بھرا وہ زمانہ ہو تا ہے جس میں کوئی نبی نہ ہو ،اس زمانے میںتووہ خود بطورنبی موجودتھے-یوں ہی حضرت یو سف علیہ السلام کے بارے میں یہ کہنا کہ انھوں نے امارت وحکومت کی طلب کی تویہ سراسر غلط ہےاور قرآن کے سیاق وسباق اوراس زمانے کے حالات کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے -
در اصل بات یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر علم کی صفت سے ذکر کیا ہے اور ہوا یہ کہ جب زراعت کی باریکیوں اور اقتصادی مسائل وبحران کے حل کے سلسلے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے علم کا اظہار مصری قوم جو خود بھی علم زراعت میں بہت ماہر تھی،کے سامنے قحط سالی کے دوران ہوا تو یوسف علیہ السلام کے پاس بار بار قاصد بھیجا گیا، لیکن آپ نہیں آئے یہاں تک کہ بادشاہ نے خود درخواست کی کہ آپ وزیر یا اقتصادی مشیر بن جائیں تو آپ نے اس کے اصرار پر یہ منصب قبول کر لیا، یہاں آپ نے خود سے امارت وحکومت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ آپ کو بہ اصرار یہ ذمے داری سونپی گئی -
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں’’ تمکین‘‘ یااس کے مادے سےمشتق الفاظ مختلف مقامات پر مذکور ہیں ،اورجن کو’’ تمکین‘‘ کی صفت حاصل ہوئی ان میںمسلم اور غیر مسلم دونوں تھے ،لیکن ہر جگہ ’’تمکین‘‘ عطا کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب کی گئی ہے، کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ انھوں نے’’ تمکین‘‘ خود سے حاصل کر لی -گویا ’تمکین فی الارض‘ کا معاملہ محبت کی طرح ہے کہ کوئی بھی انسان خودسے محبت دلوں میں نہیں ڈال سکتا، محبوبیت ومقبولیت اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، انسان صرف  محبت کے اسباب ووسائل کو اختیار کرتا ہے-
تمکین سے تعلق رکھنے والی آیات اور خصوصا ًسورئہ یوسف اور واقعہ ذوالقرنین سے تمکین کا جو مفہوم سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو جدید معاشرتی و ثقافتی امور، تہذیب وتعمیر اورماڈرن سائنسی علوم میں اتنا ترقی یافتہ بنائے کہ اس کی علمی تحقیقات سامنے آئیںجس کے نتیجے میںبے روزگاری ختم ہو، فقر ومفلسی کی شرح کم ہو،بے گھر اور بے سہارا مردو عورت اور بچے نظر نہ آئیں، ہر طرف خوش حالی ہو اور انسانی سماج کی ترقی ہو- تمکین کا وہ معنی نہیں جو دہشت پسند تنظیموں نے سمجھا کہ پوری دنیا کو کافر ومشرک جان کر کسی بھی طرح ان سے زمام حکومت چھین لی جائے اور اس مقصد کے لیے جتنی بھی خون ریزیاں ہوں سب کو روا سمجھا جائے بلکہ اسےجہاد کا نام دےکرتقدس کا جامہ پہنادیا جائے- یہ دین وشریعت پر ظلم اور قرآن کے معانی ومفاہیم میں تحریف ہے -
۷- وطن کا مفہوم:-
(۱)دہشت پسند تنظیموں کا وطن کے حوالے سے یہ نظریہ ہے کہ وطن صرف ایک مشت خاک ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں -
وطن سے محبت کا جذبہ ایک بے وقعت انسانی جذبہ ہے جس کو دور کرنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے گناہوں کی جانب میلانات کو ،وطن اوراس سے محبت کی فکرجاہلی اور مردود ہے،کیوں کہ یہ خلافت اور امت کے نظریے کے خلاف ہے، وطن استعماری طاقتوں کے بنائے ہوئے جغرافیائی حدود کا نام ہے، اس لیے ہمیں اس سے کوئی محبت نہیں ،وطن تو اس مقام کو کہتے ہیں جہاں انسان رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت کی ہے-(فی ضلال القرآن،جلد:۳،ص:۱۴۴۱)
(۲) حب الوطنی پر کوئی آیت یا حدیث رسول موجود نہیں ہے-
(۳) جن احادیث میں مکہ مکر مہ سے حضور نے اپنی محبت کا اظہار فرما یا ہے یہ مکہ کی خصوصیت ہے دوسرے وطن کو اس پر ہم قیاس نہیں کریں گے-
سید قطب نے فی ظلال القرآن میں متعدد مقامات پر وطن کے حوالے سے انہی مفاہیم کا اعادہ کیا ہےاور حب الوطنی کے تمام تصورات کو جاہلی قرار دیا ہے-(دیکھئے:جلد:۲،ص:۷۰۸)
یہ ساری باتیں جو سید قطب کی جانب سے کہی گئی ہیں اس سلسلے میں عرض ہے کہ وطن کا جو تصور سید قطب نے پیش کیا ہے وہ مخدوش تصور ہے ،کیوں کہ وطن صرف ایک مشت خاک کا نام نہیں بلکہ وطن ایک قوم، تہذیب وتمدن ،تاریخ ،مسائل، سیاست، فکری رجحانات، تنظیمیں، جغرافیائی حدود اورا س میں پیدا ہونے والی عبقری شخصیات سے عبارت ہے -
وطن کی جانب قلب کے میلان کو گناہوں سے تشبیہ دینا طیب وخبیث کوباہم خلط ملط کرنے کے مترادف ہے، کیوں کہ وطن کی محبت ہر قلب سلیم میں موجود ہوتی ہے، جب کہ گناہوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے -
وطنیت ایسی کوئی فکر نہیں جو خلافت وامت کےنظریے کے بالمقابل ہو ،بلکہ دین سے پورا تعلق برقرار رکھتے ہوئے کسی جغرافیائی علاقے سے نسبت کو اسلام نےمذموم نہیں قرار دیا ہے، ہاںاگر یہ محبت دین وایمان پر غالب آجائے اور حق سے روک دےاور تعصب کا سبب بن جائے تب یہ مذموم ہے،یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن مکہ مکرمہ کی جانب اپنے اشتیاق کا اظہار فرما یا کرتے تھے -
وطن کو انگریزوں کےبنائے ہوئے جغرافیائی حدود سے تعبیر کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ہزاروں سال سےچلے آنے والے جغرافیائی حدود کانام ہے، وطن کی تعبیر انسان کی پسندیدہ جائے سکونت سے کرنا اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالی نے اس کی مذمت کی ہے ،یہ درست نہیں ہے، کیوں کہ آیت کریمہ وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا.(توبہ:۲۴)میں رہائشی مکانات مراد ہیں اوران سے ذاتی عیش وعشرت کی طرف اشارہ ہے، مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور جہاد فی سبیل اللہ یعنی خیر وسعادت کی نشر واشاعت اور سماجی فلاح وبہبود کی محبت ذاتی فلاح وبہبود پر غالب نہیں آنی چاہیے-
ان دہشت پسند تنظیموں پر وطن کا مفہوم اس لیے واضح نہیں ہو سکا کہ فہم قرآن کے صحیح ذرائع و وسائل کاانھوںنے استعما ل نہیں کیا، حب الوطنی کے اشارات قرآن کریم اور مفسرین کے کلام میں موجود ہیں ،امام رازی، ملا علی قاری اور دوسرے بے شمار علما ومفسرین کے یہاں اس کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، یوں ہی احادیث نبویہ اور شارحین کے کلام میں ا س کا ذکر ملتا ہے- ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ آپ جب سفر سے لوٹتے تو مدینہ کے درودیوار کو بغور دیکھتے ،اس حدیث کی شرح میں امام عسقلانی، عینی وغیرہم نے لکھاہے کہ اس حدیث سے حب الوطنی کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے ،ان کے علاوہ دوسرے بہت سے محدثین وشارحین نے ایسی روایات اور مفاہیم ذکر کیے ہیں جن سے حب الوطنی کا درست ہو نا معلوم ہو تا ہے -
ان کے علاوہ فقہا، اولیا ،حکما ،شعرا ،ادبا،سب کے یہاں حب الوطنی کے جذبات کا اظہار ملتا ہے، یوں ہی حب الوطنی کے موضوع پر بہت سے علما نے کتابیں بھی لکھیں ہیں جاحظ نے حب الوطن نامی کتاب لکھی ،یوںہی ابو حاتم سجستانی، سمعانی ،ابوحیان توحیدی وغیرہم کی بالترتیب’’ الشوق الی الاوطان‘‘،’’ النزوع الی الاوطان‘‘ اور’’الحنین الی الاوطان‘‘ نامی کتابیں ہیں -
۸-اسلامی غلبے کےپروجیکٹ کی حقیقت:-
بعض لوگوں نے اسلامی غلبے کےپروجیکٹ کے حوالے سے بڑا واویلا مچا رکھا ہے، جو اس کی حمایت کرتا ہے اس کو اللہ اور اس کے دین کا حامی سمجھا جاتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے اسے اللہ اور اس کے رسول کا دشمن قرار دیا جاتا ہے، لیکن کوئی بھی اس اسلامی پروجیکٹ کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش نہیں کرتا تا کہ اس کے تعلق سے وہ اپنی صحیح رائے قائم کر سکیں ،خدمت دین متین میں ازہر کی ہزار سالہ تاریخ کی روشنی میں اسلامی غلبے کےپروگرام کے اہم خصائص یہ ہونے چاہیے :
(۱)اسلامی پروگرام میں موجودہ عہد کے ڈیپلومیٹک ،ادارتی ،سیاسی ،اقتصادی ،سماجی، فلسفیانہ اور سائنسی سوالات ومشکلات کا تفصیلی اورجزئی جواب موجود ہو -
(۲)اس جواب کا مبدا نصوص شرع،اس کے مقاصد ،اجماعات ،احکام وتشریعات ،اخلاق واقدار ،اصولی وفقہی قواعد ،سنن الٰہیہ اور اس کے آداب وفنون ہوں-
(۳)اس کی صورت یہ ہو کہ پہلے علوم ومناہج اور اس کی تنظیرات کو وجود میں لا یا جائے، پھر اس کے ایسے عملی پروگرام ہو ں جو تنظیمات اور ادارے کی شکل میں تبدیل ہو جائیں -
(۴)اس اسلامی پروجیکٹ کا مقصود یہ ہوکہ علوم ومعارف اور خدمات کے ایسے عملی ادارے قائم ہوں، جن میں مقاصد شریعت کی رو ح دوڑ رہی ہو ،جن کے ذریعے نفس ،عقل ،عزت ،دین، مال،احترام انسانیت کے اقدار کی حفاظت اوراخلاقی اساس کی تعظیم ہو ، عالمی افادے اور استفادے کے لیے دروازے کھلے ہوں،جس کے ذریعے بچوں ،عورتوں کی اہمیت وقیمت واضح ہو ،ماحولیات اور حقوق کائنات ،انسان وحیوان ،نباتات وجمادات کی حفاظت ہو اور ہر جگہ نوارانی وربانی تاثیرا ت موجود ہوں ،اور بہر صورت انسان کا تعلق اپنے خالق ومالک سے مضبوط ہو،تہذیب ایسی ہو جس میں مسلم ، عیسائی، یہودی ،بدھشٹ ،اشتراکیت پسند ،سیکولر ،لیبرل ،دایاں محاذ، بایاں محاذ، ملحد وبے دین اور سارے مذاہب کے لیے وسعت ہو،اس میں کسی کو اس کے معاملات میں مجبور نہ کیا جائے بلکہ سب کے ساتھ اسلامی رحمت ورافت اورعدل وانصا ف کامظاہر ہ ہو-
(۵)اسلامی پروگرام کا محور ومقصد اخلاق،مکارم انسانیت،بلند اخلاقی اقدار،احترام انسانیت اور دنیا اور آخرت میں لوگوں کو سعادت مندی سے بہرہ مند کرناہو -
ان مقاصد سے ہٹ کر جو بھی اسلامی پروگرام ترتیب دیا جائے گا وہ باطل وبے معنی ہو گا ،اس طرح کے پروگرام تیار کرنا عام آدمی کا کام نہیں ہے بلکہ یہ مجتہدین فقہائے شریعت اور ماہرین دین کی ایک ٹیم کا کام ہے -
ان باتوں کو سامنے رکھے بغیردہشت پسندتنظیموں کی جانب سے آج جس اسلامی پروگرام کا پرو پیگنڈہ کیا جا رہا ہے، جس میں تکفیر وتشریک،تہمت،قتل وغارت گری،انسانی اقدار کی پامالی اورمقاصدوآداب شریعت کی بے حرمتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں،اس کی کوئی حیثیت نہیں اور اس کے ذریعےتو لوگ اسلام سے بد گمان ہو کر اسلام سے دور ہی ہو رہے ہیں -
دہشت پسندوں کے فکری نقائص کی بنیادیں:-
کسی بھی مسئلے پر تفکر وتدبر اور قرآن وسنت سے استفادے کے لیے درج ذیل مراحل سے گزرنا ضروری ہے اور ان ہی مراحل سے نہ گزرنے کی بنا پریہ تحریکات غلط افکار کے دلدل میں پھنس گئیں -
فکری استنباط کا جن علمی مراحل سے گزرنا ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں :
(۱)استنباط کے وقت مسئلے سے تعلق رکھنے والی تمام آیات واحادیث پیش نظر ہوں ،صرف فقہی آیات پر نظر نہ ہو بلکہ قصص ،اخبار سب پر نگاہ ہو -طوفی شرح مختصرالروضۃ (جلد:۳،ص:۵۷۷)میں کہتے ہیں کہ احکام شرع جس طرح اوامر ونواہی سے مستنبط ہوتے ہیں اسی طرح قصص ومواعظ سے بھی ان کا استخراج ہوتا ہے ،قرآن کی شاید ہی کوئی آیت ہو جس سے کوئی حکم مستنبط نہ ہو تا ہو ،اور استنباط بھی علما کے قرائح واذہان اور روحانی فتوحات کے اختلاف سے مختلف ہوا کرتے ہیں۔ یوںہی درجات استنباط بھی الگ الگ ہوتے ہیں-
(۲) شرعی نصوص کو صحیح طورپر سمجھ کرایک دوسرے سےربط جوڑا جائے تاکہ تقدیم وتاخیر ،عام وخاص اور مطلق ومقید کےخصائص تک رسائی ہوسکے -
(۳)دلالتوں کی مختلف جہات پر اچھی نظر، مدلولات کی صحیح معرفت ،عربی زبان کی وسعتوں سے مکمل آگہی اور علوم عربیہ کا کامل ادراک ہو ،تمام علمائے اصولیین نے ان مباحث کا ذکر اصول استنباط کے ذیل میں کیا ہے -
(۵)استنباط کے وقت پہلے سے کوئی نظر یہ نہ بنا ہوا ہو اور قرآن کو اپنے اس سابقہ نظریے کے اثبات کے لیے آلہ نہ بنایا جائے ،بلکہ قرآن جس نتیجے تک اصول استنباط کی روشنی میں لے جائے اس کو اختیار کیا جائے -
(۵)قرآن اورنصوص شریعت سے ایسے مفاہیم نہ مستنبط کیے جائیں ،جو مقاصد شرع سےمزاحم اور مسلمات دین سے متصادم ہو ں-
(۶)سابقہ اسلامی میراث کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائےاور ان سے استفادہ کیا جائے -
(۷)ان اصول ومناہج سے ہوشیار رہا جائے، جن کے بھنور میں سابقہ گمراہ جماعتیں پھنس چکی ہوں-
ان کے علاوہ فکری استنباط کے وقت یہ باتیں بھی قابل توجہ ہیں :
(۱)معرفت وحی ،اس کے مناہج فہم کا علم اورصورت حال کا صحیح ادراک،ان تینوں ارکان کے بغیرکبھی بھی صحیح فہم کی تکوین نہیں ہو سکتی-
(۲)وہ فکریں اوروہ استنباطات جو نفسیاتی اور جذباتی دبائو کے تحت وجود میں آتے ہیں ان میں عمیق تفکر اور صحیح مناہج کا فقدان ہو تا ہے، اس لیے حالت غضب میں فیصلے صادر کرنے کی احادیث کریمہ میںممانعت آئی ہے -
(۳)مصالح ومفاسد کے باب میں اجتہاد کا حق صرف اس شخص کو ہے جس کو تفصیلی طور پر مقاصد شرع کی معرفت ہو -
(۴)مقاصد شریعت کی عدم معرفت اور سنن الٰہیہ سے بے خبری سے فہم میں خلل واقع ہو تا ہے -
فکری نقائص کے اثرات:-
بہت سی اسلامی اصطلاحوںکا صحیح مفہوم نہ سمجھ پانے کی وجہ سے پوری دنیاخصوصاً عالم اسلام ،امت مسلمہ اورمذہب اسلام پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے،چنانچہ حاکمیت کا غلط مفہوم سمجھنے اور سمجھانے کا اثر یہ ہوا کہ دوسرے وہ تمام افکار سامنے آئے جن کا تذکرہ مسئلہ حاکمیت کے بعدکیا گیا ہے ،یوں ہی سید قطب کی اس فکر سے تمام دہشت پسند تنظیمیں نکلیں، اخوان، القاعدہ ،التکفیر والہجرۃ اور اس جیسی دوسری تنظیمیں سامنے آئیں جس کی انتہا موجودہ عہد میں داعش پر ہوئی- صالح سریہ ،شکری مصطفی ،محمد عبد السلام فرج جیسے بے شمار افراد نکلے اور ان کے قلم سے اسی فکر کا نمائندہ لٹریچر بھی ظاہر ہوا-
نظریہ جاہلیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا سے دین کو منعدم قرار دے کر شریعت اسلامیہ کے قیام کے نام پرکشت وخون کا بازار گرم کر دیا گیا، ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا ،مسلم حکام کے خلاف بغاوت کی گئی اورپوری دنیاکا عموما اور مسلم دنیا کاخصوصاً امن وامان غارت کردیا گیا -
یہ نظریہ قائم کرکےکہ اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر مومنین کے غلبے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مستحق صرف یہی لوگ ہیں سارے مسلمانوں کی تکفیر کر دی گئی اور ان سے زمام مملکت چھیننے کی کوشش شروع ہوگئی ،جہاد کے مفہوم کو قتال میں منحصر کر کے احادیث وقرآن کی تکذیب کی گئی، سارے علمائے شریعت کی مخالفت کی گئی اور پوری امت سے ہٹ کر ایسا نظریہ قائم کیا گیا جس سے انسانی جانوں کی پامالی اور ناقدری کی راہ ہموار ہو گئی اور نوجوانوں کااستحصال کرکے ان کے ذہن میںہدایت ربانی ،اخلاق نبوی،اسلامی عدل و انصاف اور رأفت ورحمت کی عظمت کو راسخ کرنے کے بجائے قتل وخون کا زہر گھول دیا گیا-
نظریہ تمکین کی آڑ میں جاہ وریاست کی طلب اور حصول اقتدارکی راہ ہموار کی گئی -قرآنی آیات کا غلط معنی پیش کر کے تحریف کے جرم کاا رتکاب کیا گیا، وطن کی غلط تعبیر وتشریح کر کے ایک پاکیزہ انسانی جذبے کی ناقدری کی گئی بلکہ اس کو سراپا معصیت بنا دیا گیا، اس طرح انبیا، صحابہ اور ہزاروں ان علماکی بے عزتی کی گئی جن کے یہاں وطن کے حوالے سے محبت کے پاکیزہ احساسات پائے جاتے ہیں -
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سید قطب کے عہد سے لے کر اب تک جتنی بھی دہشت پسند جماعتیں وجود میں آئی ہیں،سب کی فکری بنیا دیں انہی بیان کردہ افکاروآراپرہیں ،حیرت ہوتی ہے کہ ان میں آپس میں کس قدر فکری مماثلتیں پائی جاتی ہیں -
مقالہ نگار کے خیال میں مؤلف کتاب نے بڑی گہرائی سے سید قطب اور ان کے کوکھ سے پیدا ہونے والی تمام تنظیمو ں اوران کے افکار کا مطالعہ کیا ہے اور بہت سلیقے سے علمی انداز میں ان پر تنقید کی ہے-
مؤلف نے یوں تواپنی کتاب میں عرب دنیا سے تعلق رکھنے والےدہشت پسند افراد، ان کے لٹریچر اور ان کی تنظیمو ں کا تجزیہ کیا ہے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا تجزیہ بر صغیر ہند وپاک اور دنیا بھر کی دہشت پسند تنظیموں پر پوری طرح منطبق ہو تا ہے اور یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اس کتاب کو بنیادبنا کر پوری دنیا کی عموما ًاور بر صغیر ہندو پاک کی تمام بنام اسلام دہشت گرد تنظیموں کی خصوصا ًفکری تاریخ لکھی جا سکتی ہے اور ان کے دہشت گردانہ اقدامات کی روشنی میں ان کے افکار وخیالات کی عملی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں - اللہ کریم امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر قائم فرمائے اور افراط و تفریط اور تشدد و ارہاب کی لعنت سے نکال کر ارشاد و ہدایت اور دعوت و تبلیغ کے فریضے پر مامورفرمائے- آمین!
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔