Tuesday 23 January 2018

عالم اسلام میں بیک وقت خوف کے سائے اور امید کی کرنیں

0 comments
عالم اسلام میں بیک وقت
خوف کے سائے اور امید کی کرنیں
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-------------------------------------------------------------------
وقتی اور دائمی سوچ:-
قرآن پاک کا ایک ارشاد ہے : وکان الانسان عجولا، انسان جلد باز واقع ہوا ہے، خالق کائنات نے اس آیت کریمہ میں انسان کی اس نفسیات کو بیان کیا ہے جس کی وجہ سے وہ خوشی پاکر غم کو بھول جاتا ہے اور غم میں مبتلاہوتے ہی خوشی کے سارے احساسات اس سے رخصت ہو جاتے ہیں ، اگر اسے فتح نصیب ہوئی تو سارے جہاں کا فاتح تصور کربیٹھا اور اگر شکست سے پالا پڑا تو اس کی ہمتیں ٹوٹ گئیں ، دولت ملی تو فرعون بن بیٹھا اور قلاشی سے جوجھنا پڑا تو خودکشی کر ڈالی۔ خالق کا تصور ہر وقت ہر انسان کا پیچھا کرتا ہے، آخرت کا خوف اس پرسوار رہتا ہے لیکن اپنی عجلت پسندی کے باعث وہ دنیاکے بعد کی زندگی سے آنکھیں موند لیتا ہے اور اس کے خیالات کو سر سے جھٹکنے کی کوشش کرتا ہے، یہ صرف اس لیے کہ اس کی طبع عجلت پسند کو دائمی اور حقیقی مسائل پر سوچنا سخت ناگوار ہے۔
سید احتشام حسین سر سید کے فکری رحجان پر اظہارخیالات کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’لیکن بجنور میں تاریخ بجنور اور تاریخ سرکشی بجنور ان کے ذہنی موڈ کا پتہ دیتی ہے ، بجنور میں انہوں نے انگریزوں کی جانیں بچائیں ، آفت زدہ لوگوں کی مدد کی اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر رفاہ عام میں لگے رہے ، دلی پہنچے تو گھر لٹ چکا تھا لیکن وہ ہمت نہ ہارے اور انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان مفاہمت کرانے کی کوشش کرتے رہے……سر سید مسلمانوں کے کانگریس میں شریک ہونے کے خلاف تھے، ان کا خیال تھا کہ غدر میں تباہی کے بعد مسلمانوں کو اپنی حالت درست کرنے کے لیے انگریزی حکومت سے مراعات حاصل کرنا چاہیے۔‘‘ (اردو ادب کی تنقید کا تاریخ ص: ۱۸۶)
سر سید ۱۸۵۷ھ کی جنگ آزادی کے بھی خلاف تھے، ان کی نظر میں یہ جنگ حکومت سے بغاوت تھی جو کسی طرح کامیاب ہونے والی نہیں تھی، انہوں نے جنگ سے پہلے بھی مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ انگریز سے مفاہمت کر لیں، جنگ نہ کر یں اور جنگ  کے بعد اپنی فکری پختگی پر خوش بھی ہوئے کہ بالآخر وہی ہوا جو میں نے کہا تھا۔
یکم مئی۲۰۰۳ء کو جب جنگ عراق صدام حسین کی شکست اور امریکہ کی فتح پر اختتام پذیر ہوئی تو بہت سے مسلم دانشوروں نے فاتحانہ شان سے اس کا اعلان کیا کہ صدام کو جنگ کرنا ہی نہیں تھی، صدام نے اپنی طاقت کا اندازہ کیے بغیر دنیا کی سپر طاقت سے نبرد آزمائی کی اور اس کا نتیجہ وہی ہونا تھا جو ہوا۔ کچھ صحافیوں نے دوران جنگ اس خیال کااظہار کیا تھا کہ صدام کو چاہیے کہ وہ عراق چھوڑ دیں ، کیوں کہ امریکہ انہی کی وجہ سے جنگ کر رہا ہے اور جب صدام شکست کھا گئے تو یہ بغلیں بجانے لگے اور یہ اس لیے خوش ہوئے کہ صدام نے ان کی نصیحت نہیں مانی اس لیے  انہیںشکست کھانی پڑی۔
اس کے علاوہ مسلم صحافیوں کے عمومی رحجان کا تجزیہ کیجیے تو صدام اپنی شکست سے پہلے صلاح الدین ایوبی ثانی تھے اور شکست کے بعد ان کی حیثیت ایک ظالم حکمراں کی ہے جس نے اپنے مخالف مسلک اہل تشیع حضرات کو تہہ تیغ کرایا، حالانکہ صدام اسلام دوست ایوبی نہیں قومیت پرست عرب تھے اور رہی ظلم و جبر کی بات تو موجودہ دور میں یہ کسی بھی شخصی حکومت میں ایک عام سی بات ہے۔ اسامہ کے بارے میں بھی تقریباً مسلم صحافیوں اور دانشوروں کا یہی رحجان ہے ، شکست طالبان سے پہلے انہیں ایسی مافوق الفطرت قوتوں کا مالک بنا کر پیش کیا جاتا رہا گویا وہی مسیح مو عود ہوں اور شکست کے بعد اسامہ کی حیثیت ایک ایسے خونخوار مسلمان کی ہو گئی جس کی وجہ سے دنیا کے سارے مسلمان ذلیل ہو رہے ہیں۔
یہ سب کچھ ایسا صرف اس لیے ہے کہ انسان عجلت پسند ہے، وہ حالات کو صر ف موجودہ تناظر میں دیکھتا ہے، اس کی نظر نہ ماضی پر ہوتی ہے اور نہ مستقبل پر ، وہ یہ سمجھتا ہے کہ آج کے حالات جیسے ہیں یہی حالات آئندہ بھی قائم رہیں گے، حالانکہ تاریخ پر جس کی ہلکی بھی نظر ہو وہ خوب سمجھتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں، تاریخ کا طالب علم خواہ یہ کہے کہ خدائے تعالیٰ قوموں کی آزمائش کے لیے انہیں مختلف مراحل سے گزارتا ہے، یا یہ کہے کہ گردش ایام سلطنتوں اور حکومتوں کو ایک حالت پر قائم نہیں رہنے دیتی، بہر کیف اس اعتراف سے انکار نہیں کر سکتا کہ حالات یکساں نہیں رہتے۔
تاریخ کے چند اوراق:-
(۱) پیغمبر انقلاب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۵۷۰ھ میں پیدا ہوئے ، اس وقت عرب کا پورا معاشرہ شرک میں ڈوبا ہوا تھا، آپ نے اپنی ۴۰؍ سالہ زندگی اس طور پر گزاری کہ مکہ میں آپ کی شخصیت سب سے زیادہ معتمد ، پاک باز اور صادق و امین تسلیم کی جانے لگی، ۴۰؍ سال کے بعد آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور توحید کی دعوت دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ، حالانکہ آپ نے اپنی شخصیت کو مکمل تسلیم کرا دیا تھا لیکن باوجود اس کے آپ کی دعوت کو سنتے ہی مشرکین مکہ بپھر گئے، آپ کو اور آپ کے اہل خاندان کو برا بھلا کہا، لیکن آپ نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل دعوت حق میں مصروف رہے۔
اہل مکہ نے پہلے سمجھانے کی کوشش کی، پھر دھمکیاں دیں، جب اس پر بھی پیغمبر علم و حکمت کے ارادوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو یہ شرط رکھی کہ آپ ’’دعوت توحید‘‘ کو ’’ موقوف کرنے‘‘ کے عوض میں دولت، حکومت ، عورت جس کی خواہش کریں ہم اسے آپ کی پسند کے مطابق آپ کے قدموں میں ڈال دیتے ہیں ، پیغمبر حق نے اسے بھی قبول نہیں کیا ، ادھر آ پ کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا، مشرکین مکہ غصے میں انہیں طرح طرح سے ستاتے رہے، پیغمبر ان کی اذیت ناکیاں دیکھتے اور اپنے دیوانوں کو صبر کی تلقین کرتے، پھر وہ وقت بھی آیا جب اہل مکہ نے آپ کا بائیکاٹ کیا، پھر آپ کی جان کے در پے ہوئے، یہاں تک کہ انہیں اپنا شہر عزیز چھوڑ نا پڑا، اور اس کے بعد بھی کسی پل سکون میسر نہیں آ یا، لیکن ان ساری آزمائشوں کے باوجود انہوں نے اپنا ارادہ نہیں بدلا اور دعوت حق سے دست بردار نہ ہوئے، نیتجہ ہمارے سامنے ہے۔ پیغمبر انقلاب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ اگر کوئی آج کا روشن خیال دانشور ہوتا تو وہ حالات سے سمجھوتا کرنے کی بات کرتا ،نا موافق حالات کو موافق بنانے کی بات نہیں سوچتا۔
(۲) کارل مارکس(۸۳/۱۸۱۸ء) جس نے اس خیال کا اظہار کیا تھاکہ: ’’ انسان کے خیالات اور جذبات ، اس کے تمام مساعی ایک مخصوص دور کے ماحول کی پیداور ہوتے ہیں‘‘ سیاسیات و اقتصادیات کا ایک جرمن ماہر تھا، اس نے یہ محسوس کیا کہ سرمایہ دار مزدوروں کے خون سے اپنے جسم کی فربہی کے سامان کر رہے ہیں ، محنت مزدوروں کی ہوتی ہے اور دولت سرمایہ داروں کی مٹھی میں آتی ہے، اس لیے اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ ہر ایک ملک کے اندر عوام مزدوروں پر لازم ہے کہ وہ سرمایہ داریت پسند حکومتوں کے خلاف بغاوت کر دیں، اس کے بعد ہی سماج میں پیدا شدہ نا برابری کو ختم کیا جا سکتا ہے، اس نے ۱۸۴۸ء میں کمیونسٹ کا منشور تیار کیا، اور اقتصاد کے حوالے سے اپنا واضح موقف پیش کیا، ۲۰؍ویں صدی اس کے نظریات سے بری طرح متاثر رہی، خصوصاً روس ، چین اور مشرقی یورپ میں اس کا برابر اثر رہا، اس کے نظریات نے مزدوروں کو بغاوت پر آمادہ کر دیا، مرنے مارنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، ابھی صرف ایک ڈیڑھ صدی کا عرصہ گزرا ہے اس میں اس کے ایک نظریے کا اثر کیا ہوا آج ہر کوئی محسوس کر رہا ہے، اس نے مزدور وں میں ایک احساس جگایا تھا، وہ دورسرمایہ دواروں کا تھا، اس ایک احساس نے آج کتنے ملکوں سے سرمایہ دارانہ نظام ختم کر دیا ، اہل نظر سے پوشیدہ نہیں، کچھ نہیں تو نیپال کی حالیہ صورت حال سے ہم اس کے مضمرات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
(۳)سولہویں صدی کے اواخر میں انگیز تاجر ہندوستان میں داخل ہوئے، ایسٹ انڈیا کمپنی (تاسیس ۱۶۰۰ ء)شاہی مراعات سے شروع ہو کر شاہی اختیارات حاصل کر گئی اور بالآخر ۱۸۵۷ء میں شہنشاہیت کا خاتمہ بھی کر ڈالا، اس پورے دور کا جائزہ لیجیے تو محسوس ہوگا کہ عوام میں احساس غلامی پیدا ہو چکا تھا، جو ہر وقت آزادی کا طالب تھا، اور خواص کو دیکھیے تو ایک بڑا طبقہ وطن کی آزادی کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار تھا، اسے غلام ملک میں جینا مر جانے سے زیادہ عزیز تھا، یہ دیوانوں کی جماعت تھی، کہیں ہڑتال کر رہی ہے، کہیں انگریزی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہی ہے، کہیں انگریزی دفاتر کو نذر آتش کر رہی ہے ، تو کہیں ریلوے پٹریا ںاکھیڑ کر ایک طرح سے اپنا ہی نقصان کر رہی ہے ، پھر انگریزوں کی بندوقوں سے گولیاں نکلتی ہیں اور ان کے سینے سے ہو کر گزر جاتی ہیں،ایک جماعت مرتی ہے تو دوسری جماعت اٹھ کھڑی ہوتی ہے، اس جماعت کی آخری قیادت گاندھی جی نے کی جن کے ہاتھوں میں بندوق نہیں ایک لکڑی کا ڈنڈا ہوا کرتا تھا، اس وقت ملک میں دانشوروں کی ایک جماعت بھی تھی جو انگریزی سرکار کے ظل عاطفت میں بڑے بڑے القابات و خطابات حاصل کر رہی تھی اور اپنی دو پیسے کی نوکری کے عوض ملک کی غلامی کو گلے لگا ئے ہوئے تھی، سر سید بھی اسی جماعت کے تھے جنہوں نے ہمیشہ انگریزوں کو تسلیم کرنے اوران سے مفاہمت کرنے کی بات کی، چوںکہ صورت حال ایسی تھی کہ وقتی دانشوری وہی کچھ کہہ سکتی تھی جو کہہ رہی تھی، لیکن عوام کے دلو ںمیں جو بے چینی تھی، جو اضطراب تھا، جو غلامی سے نفرت تھی، وہ کچھ اور ہی کہہ رہی تھی، جلیاں والا باغ تو ہمیں یاد ہے لیکن اس طرح کے اور بھی سینکڑوں باغات ہیں جن کی آبیاری ہندوستانیوں نے اپنے خون سے کی، لیکن مرکر وہ جیت گئے ہارے نہیں، آج پورا ہندوستان انہیں خراج عقیدت پیش کررہا ہے۔
ما بعد جنگ افغان و عراق:-
 خلیجی جنگ کے بعد عالم اسلام کے افق امید پر تین ستارے نمودار ہوئے اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی ختم ہونے سے پہلے ہی تینوں روپوش ہو گئے، یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اپنے بعد عالم اسلام میں تجسس اور تفکر کی روح پھونک دی، یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام میں بیک وقت خوف کے سائے اور امید کی کرنیں موجود ہیں۔ آج کا عالم اسلام فکری کشمکش کا عالم اسلام ہے، متضاد صورت حال سے دو چا ر عالم اسلام میں آج جہاں بیدار یوں کی آہٹ محسوس ہو رہی ہے، وہیں غفلتوں کے بادل اسلامی روح کو یاسیت میں دھکیلتے جا رہے ہیں۔
یہ تینوں ستارے تھے لیبیاکے معمرقذافی جنہوں نے بڑی بڑی چھوڑنے کے بعد بالآخر خاموشی اختیار کر لی اور امریکی بالا دستی کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا ، دوسرے تھے اسامہ بن لادن ، جو ۲۰۰۱ء میں جنگ افغان میںطالبانیوں کی شکست کے بعد روپوش ہو گئے ، پتہ نہیں کہ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، تیسرے تھے مرد آہن جناب صدام حسین، جو اس وقت امریکی حراست میں ہیں، جہاں سے انہیں دارو رسن تک پہچانے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔
عالم اسلام کے ان تین در خشندہ ستاروں کی اس حالت زار کو دیکھنے کے بعد جو طبعی نتیجہ سامنے آتا ہے اس کی تعبیر صرف ایک لفظ سے ہی کی جا سکتی ہے اور وہ ہے ’’ مایوسی‘‘ مگر عالم اسلام کے عوام کو دیکھیے تو یہ نتیجہ غلط ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ عوام کے دلوں میں جو امریکی جارحیت سے نفرت کی چنگاری پھوٹی ہے وہ اب سرد پڑنے کا نام نہیں لیتی بلکہ وہ دن بدن تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف قذا فی، صدام اور اسامہ کے سینوں میں جو آہنی جذبہ تھا بھلے ہی وقت کی تپش نے اسے پگھلا دیا ہو لیکن ان ستاروں کی کامیابی صرف اس راز میں مضمر ہے کہ انہوں نے اپنے جذبہ کو عوام میں منتقل کر دیا ہے ۔ اس طرح اسامہ اور صدام کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ و ہ اپنے اہداف حاصل نہ کر سکے لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شکست کھا گئے۔ وہ ہار کر بھی جیتے ہوئے ہیں اور امریکہ جیت کر بھی آج اپنے کو ہارا ہوا محسوس کر رہا ہے۔
یکم مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی فوج بغدا پر قابض ہوگئی اور صدر امریکہ جناب ڈبلیو بش نے فتح کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اب زمین دہشت گردی سے محفوظ ہو گئی ۔‘‘ مسٹر بش کی یہ بات کتنی فی صددرست ہے اس کو سمجھنے کے لیے بس اتنا جان لینا کافی ہے کہ صرف اسی مہینے یعنی مئی ۲۰۰۳ء میں ۵۰۴ ؍ عراقی شہری مارے گئے، ظاہر ہے امریکی فوجیوں نے انہیں دہشت گرد سمجھ کر ہی مارا ہوگا، یہ تعداد ہر ماہ بڑھتی گئی، ۲۰۰۳ء میں ۲۰؍ عراقی یومیہ شہید کیے گئے جب کہ یہ تعداد۲۰۰۴ء میں ۳۱؍اور۲۰۰۵ میں ۳۶افراد یومیہ تک پہنچ گئی، مئی ۲۰۰۳ء سے فروری۲۰۰۶ء تک مرنے والے عراقی شہریوں کی تعداد ایک سرکاری شمار کے مطابق۳۰۲۵۹ہے ، اگر یہ صحیح ہو جب بھی خون کی اس طرح ار زانی کیوں ہے؟ صدام تو اسیر زنداں ہیں، ان کے احباب قتل کر دیے گئے یا جیل کی سلاخوں میں ڈال دیے گئے، لیکن اس کے باوجود عراقی شہری اس بے دردی سے اپنی جانوں کا نذرانہ کیوں پیش کر رہے ہیں؟ جناب جتیند کمار سنگھ اس صورت حال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’خیال تو یہ کیا گیا تھا کہ صدام کے زوال کے بعد عراقی عوام خوشی کے گیت گائیں گے، امریکی اور برطانوی فوجیوں پر پھولوں کی بارش ہوگی، لیکن ہوا بالکل اس کے بر عکس۔ پھول بموں میں تبدیل ہو گئے اور عراقی عوام جنگ جو بن گئے۔ مرنے مارنے کا جو سلسلہ مئی 2003ء کے بعد شروع ہوا تھا، اس کا انجام نظر نہیں آتا۔عراق میں حکومت سازی کو لے کر بہت سے تجربات کیے گئے اور ایاد علاوی سے لے کر نوری المالکی تک کو آزمایا گیا لیکن حاصل کیا ہوا؟ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔‘‘ (راشٹریہ سہارا، ۱۸؍ جون ۲۰۰۶ء اتوار کا خصوصی ضمیمہ)
یہ مرض اس لیے بڑھ رہا ہے کہ امریکہ اپنی میڈیائی زبان سے اپنی جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کہہ کر خواہ جنتا خوش ہو لے، لیکن عالمی سطح پر اس جنگ کو دہشت گرد ی کے خلاف ثابت کرنے میں وہ اب تک ناکام ہے، امریکہ کے خوف سے اگرچہ انٹر نیشنل صحافیوں اور دانشواروں کی زبان و قلم سے سچائی کا صحیح اظہار نہیں ہو پا رہا ہے اور وہ امریکی جارحیت کو مسلسل دہشت گردی مخالف مہم سے تعبیر کرتے جارہے ہیں، لیکن ان کی یہ بات عوام کے سینوں میں اب تک اپنی جگہ نہیں بنا سکی ہے ، اور خصوصاً آج کا مسلم نوجوان بہر کیف یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ امریکہ چاہتا کیا ہے؟ اس تعلق سے دفاعی و خارجی امور کے ماہر جناب ٹی سری دھررائو کا یہ خیال صد فی صد درست ہے کہ: 
’’عراق کا مارچ اپریل ۲۰۰۳ء میں امریکی فوج کے ذریعہ تختہ پلٹ نہیں ہوا ہے بلکہ آہستہ ہی سہی مگر مستحکم انداز میں القاعدہ کا پھیلائو ضرور ہوا ہے۔ دیگر تجزیہ نگار وں کا خیال یہ بھی ہے کہ عراق پر امریکی حملہ اسامہ بن لادن جیسے لوگوں کے جمع ہونے کا ایک بہانہ ثابت ہوا ہے جو اسلامی دنیا کے لوگوں کو یکجا کر کے امریکی رہنمائی میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے قابل بنا کر اسے کامیاب بنا رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً)
 ۲۶؍ جون ۲۰۰۶ کی ایک خبر ہے کہ ’’ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کو سرمایہ داری اور اسلام کے درمیان ایک ٹکرائو بتاتے ہوئے ’’ را‘‘ کے سابق سربراہ (وکرم سود)نے کہاکہ عراق اور ایران (افغانستان)میں جاری دہشت گردی کے خلاف لڑائی نے جتنے دہشت گردوں کو مارا ہے اس سے کہیں زیادہ دہشت گرد پیدا کیے ہیں۔‘‘ (راشٹریہ سہارا ،دہلی )جناب وکرم سے سوال سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب جنگ اسلام اور سرمایہ داریت کے بیچ ہے تو اسلام پسند ہی دہشت گردکیوں ہیں؟ بہر کیف !اس خبر کے بین السطور سے ما بعد جنگ افغان و عراق کی حقیقی صورت حال کا بڑی حد تک اندازہ ہو جاتا ہے۔ 
عالم اسلام کی عمومی ذہنیت:-
 کہتے ہیں کہ حکومت ہمیشہ عوام کی مرضی پر منحصر رہی ہے ، شہنشاہیت دنیا میں اسی وقت تک قائم رہی جب تک عوام میں سیاسی شعور بیدار نہیں تھا ، سیاسی شعور بیدار ہوتے ہی عوام اپنی حصہ داری کا مطالبہ کر بیٹھے اور جمہوریت کی داغ بیل پڑ گئی۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر ہمیں عالم اسلام کے حکمرانوں سے زیادہ بحث نہیں کرنی چاہیے، یہ موم کی کٹھپتلیاں تو اسی شکل کی بن جائیں گی جیسی عوام کی مرضی ہوگی۔ کیوں کہ حکومتوں کا انحصار حکمرانوں پر نہیں عوام پر ہے۔ اس لیے مستقبل پر گفتگو کرنے کے لیے عوامی ذہنیت ، عوامی شعوراور عوامی مزاج کو ہی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ 
عالم اسلام میں آج مسلمانوں میں تین طرح کا شعور تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب اور اہل مذہب سے پیچھا چھڑا کر بھاگنا چاہتا ہے ، یہ وہ طبقہ ہے جس پر انفرادیت پسندی بنام بے شعوری غالب ہے، یہ عصر جدید کے تقاضوں کو صرف اس جہت سے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اپنے پیٹ میں زیادہ سے زیادہ انگارے کیسے بھر سکیں؟ ہمیں اس طبقہ سے بحث نہیں کرنی ہے، ہمیں دوسرے اور تیسرے طبقے سے بحث کرنی ہے جن کو عصر جدیدکے مسائل اور چیلنجز نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور وہ انفرادی سوچ کے ساتھ اجتماعی شعور بھی رکھتے ہیں، عصر جدید کو سمجھنے کا ان کاانداز یہ ہے کہ یہ اس بات کو جاننا چاہتے ہیں کہ آج کی دنیا تیزی سے کدھر بھاگ رہی ہے، دنیا کے لوگوں کا دوسروں کی شخصیت ، دوسروں کی قومیت اور مذہب کے ساتھ  کیسا سلوک ہے؟ اور یہ کہ موجودہ مسائل کی دنیا میں انفرادی و اجتماعی زندگی کیسے گزاری جائے؟
اس میں شک نہیں کہ حالات بظاہر مایوس کن ہیں، ان کو بدلنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے ہمہ گیر جدو جہد اور موثر انقلاب کی ضرورت ہے، حالات کی اس سنگینی نے دوسرے طبقے کو شدید جذباتی بنا دیا ہے، وہ حالات سے لڑنے کے لیے ہر صورت تیار سے ، نہ اسے اپنی عزیز جان کی فکر ہے اور نہ دولت و ثروت ، عزت و وقار اور اہل و عیال کا خیال ہے، حالات نے اسے ارہابی بنا دیا ہے،دنیا انہیں دہشت گرد کہہ رہی ہے، لیکن ان کے سروں پر ایسا جنون سوار ہے جو کم وقتوں میں اپنے حق کی حصولیابی کے لیے انہیں آمادہ کر رہا ہے اور وہ اس کے لیے نہ صر ہر ممکن قربانی دینے کے لیے تیار ہیں بلکہ ناممکن کو بھی ممکن بنانے کی سوچ رہے ہیں ۔
تیسرا طبقہ جو مسائل کا حل جذبات سے نہیں حکمت و دانائی اور معقول طریقے سے چاہتا ہے، امت کے مستقبل کے لیے اس سے زیادہ امیدیں کی جا سکتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ طبقہ خود فکری کشمکش میں مبتلا ہے ، یہ طبقہ دو گروپوں میں بٹا ہوا ہے ، ایک گروپ کے نزدیک طریق حکمت سے مراد طریق مفاہمت ہے۔وہ Adjustmentکی بات کرتا ہے، یہ ہر وقت شریعت کے قانو ن ضرورت کو پیش کرتا ہے اور اس کی روشنی میں حالات سے لڑنے کی بجائے حالات سے مل کر حالات کے ساتھ جینے کی بات کرتا ہے، مثال کے طور پر آج امریکہ ایران سے بلا وجہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ اپنا ایٹمی پلانٹ ضائع کر دے ، جس کی وجہ سے دنیا پر پھر ایک بھیانک جنگ کے خطرات منڈلارہے ہیں، ایسی صورت میں اس گروپ کا کہنا ہے کہ بجائے اس کے کہ ایران امریکہ سے دو دو ہاتھ کرے اور تباہ ہو، اسے غیر مشروط طریقے پر امریکہ کا مطالبہ قبول کر لینا چاہیے،           اور داخلی سطح پر خود کو طاقتور بنانے میں مصروف رہنا چاہیے، تاکہ اپنے وجود کو تباہ ہونے سے بچا کر مستحکم بنا سکے۔
دوسرا گروپ اگرچہ مفاہمتAdjustmentاور قانون ضرورت کی موافقت کا منکر نہیں، لیکن اس کے ساتھ اس کی نظر نا موافق حالات کو موافق بنانے پر بھی ہے، اس کی فکر ی توانائی اسی پہلو پر صرف ہو رہی ہے ، یہ کام اتنا دشوار ہے کہ سوچنے کے بعد اکثر کی ہمتیں جواب دے دیتی ہیں۔ بمشکل ایک دو فیصد یا اس سے بھی کم مسلمان ایسے ہیں جو نظر یاتی طور پر اس عمل کے لیے خود کو تیار کر پائے ہیں، لیکن عملی طور پر کام کا آغاز کیسے ہو؟ یہ مسئلہ ان کے لیے اب بھی درد سر ہے۔
حالات کے اس اجمالی جائزہ کے بعد کم ازکم یہ حقیقت تو سامنے آہی جاتی ہے کہ امت کے ایک بڑے طبقہ کو آج امت کی فکر دامن گیر ہے، گو کہ ابھی یہ فکر نا پختہ ہے، عمل کے لیے اس سے کوئی محکم اصول سامنے نہیں آیا ہے، اس کے علاوہ امت کے بے شمار باہمی اختلافات و نزاعات ، عصبتیں ،تحفظات اور جانب داریاں ہیں،جو فکر امت کو مستحکم نہیں ہونے دے رہی ہیں اور جن کی وجہ سے عملی خطوط نہیں بن پا رہے ہیں ،تاہم امت کے بڑے طبقہ میں اس احساس کا پیدا ہو جانا ہی بڑی بات ہے۔امت کے با شعور طبقہ کی آج کی سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ داخلی سطح پر اپنے کو مضبوط کرے اور قبل اس کے کہ اس کو خارجی سطح پر مکمل مفاہمت کی پالیسی اپنانی پڑے، داخلی سطح پر جزوی مفاہمت کی ایسی پالیسی اختیار کر لے کہ مستقبل میں امت پر کیے جانے والے خارجی حملوں کا اثر کم سے کم ہو ۔ 
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔