Saturday 20 January 2018

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

0 comments
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
----------------------------------------------------------------------
اسلام ملت آدم کا داعی ہے -وحدت انسانی کے بعد وہ اللہ کے تابع فرمان بندوں کے مابین خصوصی اخوت ومروت کاماحول بنانے پر زور دیتا ہے -نکاح اور شادی جو انسانی ضرورت ہے ،فطری اصولوں پر مبنی اسلام نے نہ صرف اس ضرورت کا اعتبار کیا بلکہ اس نے اسے خاندانی و معاشرتی  نظام کے استحکام کے لیے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کیا- چونکہ خاندان اور معاشرے میں استحکام اور پائیداری کے لیے ضروری ہے کہ شادی ہم رتبہ افراد کے درمیان ہو، جن کا معیار زندگی بہت مختلف نہ ہو، اس لیے اسلام نے کفووہم رتبہ افراد کے درمیان نکاح کیے جانے کی تاکید کی-لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اسلام کے اس فطری اصول کو آڑ بناکر ذات پات کاوہ نظام برپا کیا جس سے وحدت ملی اور اخوت اسلامی کا جنازہ نکل گیا اور ہندوؤں کی طرح مسلمانوں میں بھی ذات پات کی بنیاد پر شرافت ورذالت کا تعین ہونے لگا-اس لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ حالات حاضرہ کا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے اس میں روح اسلامی کے غلبہ و حکمرانی کی کوشش کی جائے اور مسلم سماج میں اسلامی اخوت کو از سر نو فروغ دیا جائے-
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وللہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنٰفقین لا یعلمون ( المنافقون، ۶۳/۸)’’ عزت اللہ کے لیے ہے ، اس کے رسول کے لیے ہے اور ایمان والوں کے لیے ہے- لیکن منافقین کو اس کا علم نہیں ہے‘‘
قرآن مقدس وحدت انسانی اور شرافت تقویٰ کواپنے معجزانہ اندازمیں اس طرح بیان کرتا ہے: یٰا ایہاالناس انا خلقنٰکم من ذکر و انثیٰ وجعلنٰکم شعوباً وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ط ان اللہ علیم خبیر(الحجرات:۵۹/۱۳)’’اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا، پھر تمہارے مختلف کنبے اور قبائل بنادیے تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو- بیشک تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے- یقینا اللہ زیادہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے-‘‘
خلاق عالم ایک دوسرے مقام پر اپنے مومن بندوں کو دعوت اتحاد دیتے ہوئے فرماتا ہے: واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا (آل عمران:۳/۱۰۳)’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور اپنے اندر کسی طرح کی تفریق مت پیدا کرو-‘‘
اللہ کریم مسلمانوں کو اخوت اسلامی کا درس دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے : انما المؤمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم واتقوااللہ لعلکم ترحمون(الحجرات : ۴۹/۱۰)’’بے شک مسلمان بھائی بھائی ہیں -تو اپنے دو بھائیوں میں مصالحت کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے -‘‘
اسی مقام پر اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے : یا ایہا الذین آمنولا یسخرقوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرا منہم ولا نساء من نساء عسیٰ ان یکن خیرا منہن ولا تلمز وا انفسکم ولا تنابزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ومن لم یتب فاولٰئک ہم الظالمون (الحجرات : ۴۹/۱۱)’’اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے،ممکن ہے کہ وہ ان مذاق اڑانے والوں سے بہتر ہوں، اور عورتیں بھی دوسری عورتوں کا استہزا نہ کریں، ممکن ہے کہ وہ ان استہزا کرنے والیوں سے بہتر ہوں-ایک دوسرے پر جملے مت کسو اور نہ ایک دوسرے کو برے نام سے پکارو- ایمان کے بعد فاسق کہلانا کتنا برا نام ہے - اور جو اس سے توبہ نہ کریں وہ بہت بڑے گنہگار ہیں-‘‘
خطبۂ حجۃ الوداع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم ترین خطبہ ہے- یہ تعلیمات اسلامی کا خلاصہ اور نچوڑ ہے- یہ فصاحت و بلاغت کا چشمۂ رواں ہے- رسول اللہ نے اس میں جوبات کہی ہے بڑی تاکید اور زور کے ساتھ کہی ہے- اس خطبہ جلیل کا ایک حصہ یہ بھی ہے-
 ایہا الناس ! اسمعوا قولی واعقلوہ، تعلمن ان کل مسلم اخ لمسلم وان المسلمین اخوۃ  ( سبل الہدیٰ والرشاد:۸؍۴۶۹، دار الکتب العلمیہ، بیروت ، ۱۹۹۳ء)’’ اے لوگو! میری بات غور سے سنو اور اسے سمجھو-یہ بات سمجھ لو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں-‘‘
اسی خطبۂ عظیم کا ایک حصہ یہ بھی ہے:ایہا الناس! فان اللہ عز وجل قد اذہب عنکم عیبۃ الجاہلیۃ وتعاظمہا بآبائہافالناس رجلان مومن تقی کریم وفاجر شقی مہین- والناس کلہم بنو آدم وخلق اللہ آدم من تراب (شعیب الایمان: ۴؍۲۸۶، دار الکتب العلمیہ، بیروت۲۰۰۰ء)’’ اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے تمہاری جاہلیت کی برائی ختم کردیا اور اپنے آباو اجداد پر تفاخر کو مٹادیا- اب لوگوں کی دوہی قسمیں ہیں- ایک وہ انسان جو شریف، متقی و مومن ہے اور دوسرا وہ انسان جو ذلیل ، بدبخت و فاجر ہے- ویسے سارے انسان اولاد آدم ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا-‘‘
اسی تاریخی خطبہ کا ایک حصہ یہ بھی ہے:ایہا الناس ! ان ربکم واحد وان اباکم واحد، الا لا فضل لعربی علی عجمی ولالعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقویٰ ، ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم- الاہل بلغت؟ قالوا بلی یا رسول اللہ قال فلیبلغ الشاہد الغائب۔( حوالۂ مذکور ص: ۲۸۹)’’ اے لوگو!بیشک تمہارا رب ایک ہے- اور تم ایک باپ کی اولاد ہو، سن لو! کسی عربی کوعجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں، ہاں! فضیلت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے- بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہو-کیا میں نے اپنی بات نہیں پہنچادی؟ حاضرین نے کہا کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! آپ نے اپنا پیغام پہنچادیا- اس پر رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بات حاضرین ان تک پہنچادیں جو حاضر نہیں ہیں‘‘
بیہقی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللہ عز وجل یقول یوم القیامۃ امرتکم فضیعتم ما عہدت الیکم فیہ ورفعتم انسابکم فالیوم ارفع نسبی واضیع انسابکم - این المتقون این المتقون- ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ( ایضا)’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فر مائے گا کہ میں نے تمہیں ایفائے عہد کا حکم دیا تھا لیکن تم نے میرے عہد کو حقیر جانا اور اپنے خاندان و نسب کے مسئلہ کواٹھادیا- اب آج میں اپنے نسب کو بلند کرتا ہوں اور تمہارے انساب کو مٹی میں ملاتا ہوں - مجھ سے ڈرنے والے کہاں ہیں؟ میرے متقی بندے کہاں ہیں؟ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ سے تم میںزیادہ ڈرنے والا ہے-‘‘
 ایک بار صحابی رسول حضرت سعد ابن وقاص اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہما میں کسی بات پر شکر رنجی ہوگئی- ایک محفل میں مختلف لوگ بیٹھے ہوئے تھے- ان میں حضرت سعد اور حضرت سلمان بھی تھے- حضرت سعد نے محفل میں موجود افراد سے باری باری اپنا نسب بیان کرنے کو کہا اور سب نے اپنا نسب بیان کیا- جب حضرت سلمان فارسی کی باری آئی تو حضرت سعد نے ان سے بھی اپنا نسب بیان کرنے کو کہا- اس پر حضرت سلمان فارسی نے جواب دیا’’ عہد اسلام میں میرا کوئی باپ نہیں، میں سلمان ابن اسلام ہوں-‘‘ یہ بات خلیفۃ المسلمین حضرت عمر ابن الخطاب تک پہنچ گئی- حضرت عمر نے سعد ابن وقاص سے ملاقات کی اور کہا سعد تم اپنا نسب بیان کرو- حضرت سعد فاروقی تیور سمجھ گئے اور وہ خدا کی دہائی دینے لگے لیکن حضرت عمر نے ان سے ان کا نسب بیان کراکے ہی چھوڑا- پھر انہوںنے دوسرے شخص سے اپنا نسب بیان کرنے کو کہا اس طرح جب پھر حضرت سلمان کی باری آئی، حضرت عمر نے ان سے بھی اپنا نسب بیان کرنے کو کہا- حضرت سلمان فارسی نے کہا:’’ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے مجھ پر احسان وانعام فرمایا تو میں سلمان ابن اسلام ہوں‘‘ اس پر حضرت عمر نے فرمایا: ’’ قریش کو معلوم ہے کہ خطاب عہد جاہلیت میں سب سے معزز تھے- لیکن عمر ابن اسلام سلمان ابن اسلام کا بھائی ہے- قسم خدا کی (اگریہ رشتہ اسلامی نہ ہوتا تو) تو اے سعد! میں تجھے ایسی سزا دیتا جسے دنیا جہان والے سنتے- کیا تجھے نہیں معلوم ، کیاتونے نہیں سنا کہ ایک شخص نے جاہلیت کے نو آبا کی طرف فخریہ اپنے کو منسوب کیا تو وہ دسواں بن کر جہنم میں ان کے ساتھ چلا گیا اور ایک شخص نے خودکو ایک مسلمان کی طرف منسوب کیا اور اس کے اوپردوسرے اجداد کو چھوڑ دیا تو وہ دونوں جنت میں داخل ہوگئے-(ایضاً ص:۲۸۶، ۲۸۷)
اللہ و رسول اور اصحاب رسول کے درج بالا ارشادات وروایات کو سامنے رکھنے کے بعد یہ حقیقت آفتاب نیم روزکی طرح روشن ہوجاتی ہے کہ اسلام کامقصود ملت آدم ہے - وہ ذات پات، کنبہ، قبیلہ، علاقہ و خطہ اور رنگ و نسل کی بنا پر عظمتوں اور شرافتوں کا تعین نہیں کرتا- اسلام انسانیت اور آدمیت کی بات کرتا ہے- ذہنوں میں دبے خرافات اور بھید بھاؤ کو مٹانے کے لیے وہ بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ سب کا خالق ایک ہے اور سب ایک باپ کی اولاد ہیں- اسلام کے اس تصور کو اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مغربی تصور انسانیت کے ساتھ ملا کر اگر دیکھا جائے تو اسلامی تصور انسانیت کی عظمت و رفعت سمجھنے میں آسانی ہوگی- شاید یہ معلوم کرکے بہت سے افراد حیرتوں کے سمندر میں ڈوب جائیں کہ چارلس ڈارون (۱۸۰۹ء–۱۸۸۲ء) کے نظریہ ار تقا پیش کرنے سے قبل مغرب کے کئی فلاسفر اس بات کے قائل تھے کہ سارے انسان یکساں نہیں ہیں- وہ انسان کی مختلف انواع مانتے  تھے- جب برطا نوی سامراج نے قبائلی علاقوں پر اپنی حکومت قائم کی اور قبائلیوں کو عیسائی بنانے کی کوشش کی تو اس کے بعد قبائلیوں کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے- بعض نے یہاں تک کہا کہ انہیں عام انسانوں کے مرتبے تک لایا ہی نہیں جاسکتا، کیوں کہ ان کی انسانیت عام انسانیت سے مختلف ہے -ذرا سوچیے! کیا قیامت ہے کہ دنیا کو تہذیب کا درس دینے والے انیسویں صدی تک ملت آدم کے قائل نہیں ہوسکے تھے جس کا سبق اسلام تیرہ سو سال پیش تر پڑھا چکا تھا-
 ملت آدم میں تفریق اور فرق مراتب کا جومعیار اسلام نے مقرر کیا ہے وہ صرف تقویٰ ہے- تقویٰ کی بنیاد پر ہی اسلامی زاویۂ نظر سے عظمتوںاور رتبوں کا تعین ہوتا ہے -اور چوں کہ علم حق، تقویٰ کا سبب ہے اور قرآن کے لفظوں میں علم والے ہی خدا سے ڈرتے ہیں، کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ علم سے یا علم و تقویٰ سے انسان کا رتبہ بڑھتا ہے - یہی قرآن کا فرمان ہے، یہی سنت رسول کا سبق ہے، اسی پر صحابہ نے عمل کیا اور یہی مساویانہ انداز فکر و عمل اسلام کے سمتوں میں پھیلنے کا سب سے بڑا سبب ٹھہرا- لیکن اس ستم ظریفی کو کیا کہیے کہ عہد زوال میں عربوں میں اسلامیت کی جگہ عربی قومیت پرستی نے لے لی، ’’مسلمان‘‘ جن کے پیغمبر نے حجۃ الوداع کے موقع پر کہا تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، وہ عرب، پشتون اور ترک قومیت کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور اس سے بڑھ کر دیار ہند میں ذات پات کا وہ نظام برپا کیا جس نے اسلامی وحدت کا شیرازہ بکھیر دیا، چشتی نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایاتھا،قدیم ہندوستانی ذات پات کے نظام نے پھر اس چمن میں خود مسلمانوں کے اندر نفرت و تفریق کی دیواریں کھڑی کردیںاور رفتہ رفتہ یہ دیواریں اتنی اونچی ہوگئیں کہ ’’ مسلم وجود‘‘ ان میں چھپ کر رہ گیا اور شاعر مشرق علامہ اقبال جیسے بلند پرواز شاعرکو بھی ان ذات برادریوں میں ’’مسلم وجود‘‘کی تلاش کرنی پڑی اور یہ کہنا پڑا کہ:
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
اس پس منظر میں اگر یہ کہیں کہ اسلام میں ذات پات کی بنیاد پر شرافت و رذالت اور عزت و ذلت کے پیمانوں کا تعین ہو یا نہ ہو مسلمانوں (وہ مسلمان نہیں جن کی تلاش اقبال کو ہے یا جو اسلام سے مسلمان ہیں)کے اندر آج ذات برادریاں ہی شرافت و رذالت کا معیار ٹھہری ہیں- اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم اپنا رویہ سید، مرزا اور افغان کا بنائیں یا ایک ’’ مسلمان‘‘ کا بنائیں جسے اس پر ایمان و یقین لازم ہے کہ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم——لافضل لعربی علیٰ عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمر الا بالتقویٰ-
عرف وتعامل کا شبہ اور اس کا ازالہ:-
 فقہاے کرام نے شریعت میں عرف کو معتبر مانا ہے- علامہ سرخسی کی مبسوط میں ہے: الثابت بالعرف کالثابت بالنص جوچیز عرف سے ثابت ہو وہ ایسی ہی ہے گویا وہ نص سے ثابت ہو-فتاویٰ ظہیریہ میں ہے المعروف عرفاً کالمشروط شرعاً جوچیز عرف میں معروف و مروج ہو وہ شرعی طور پر مشروط کے درجے میں ہوگی- فقہا کے ان ارشادات سے بعض ذہنوں میں یہ الجھن پیدا ہوتی ہے کہ جب شریعت میں عرف معتبرہے اور ہندوستانی عرف میں یہ ایک سچائی ہے کہ بعض برادریاں شریف اوربعض رذیل سمجھی جاتی ہیںتوایسی صورت میں یہ شرافت اور رذالت شرعی طور پر بھی معتبر ہونی چاہیے یا نہیں؟
اس الجھن کا ازالہ بھی انہی فقہاے اسلام کے ارشادات کے تفصیلی مطالعے سے ہوجاتا ہے - مفتی آل مصطفی مصباحی استاذ جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی (مئو) رقم طراز ہیں:’’اگر عرف عام نص خاص سے متعارض ہے کہ ایک کی رعایت دوسرے کو چھوڑے بغیر ممکن نہ ہو، تو ایسی صورت میں عرف معتبر نہ ہوگا- علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں’’ اذا خالف العرف الدلیل الشرعی فان خالفہ من کل وجہ بان لزم منہ ترک النص فلا شک فی ردہ کتعارف الناس کثیراً من المحرمات من الربا وشرب الخمر ولبس الحریر والذہب وغیر ذالک مما ورد تحریمہ نصاً‘‘(نشر العرف ص: ۱۱۶)اگر عرف دلیل شرعی کا من کل الوجوہ مخالف ومعارض ہے کہ اس سے نص کا ترک لازم آتا ہے تو اس کے مردودوغیر معتبر ہونے میں کوئی شبہ نہیں-جیسے سود کی لین دین، شراب نوشی، ریشم پوشی اور سونا وغیرہ بہت سے منصوص محرمات پر لوگوں کا تعارف ہوجانا -
اسی میں دوسری جگہ ہے:’’ولا اعتبار  للعرف المخالف للنص لان العرف قد یکون علی باطل بخلاف النص کما قالہ ابن ہمام وقد قال فی الاشباہ ، العرف غیر معتبر فی المنصوص علیہ قال فی الظہیریۃ من الصلوٰۃ وکان محمد بن الفضل یقول السرۃ الی موضع نبات الشعر من العانۃ لیست بعورۃ لتعامل العمال فی الابداء عن ذالک الموضع عند الاتزاروفی النزع عن العادۃ الظاہرۃ نوع حرج، وہذا ضعیف وبعید لان التعامل بخلاف النص لا یعتبر انتہی بلفظہ‘‘’’جو عرف نص کا مخالف ہو وہ معتبر نہیں، اس لیے کہ کبھی باطل کا عرف ہوجاتا ہے، جب کہ نص میں ایسا نہیں ہوسکتا- علامہ ابن ہمام نے ایسا ہی کہا ہے-اشباہ میں کہا گیا ہے کہ امور منصوصہ میں عرف کا کوئی اعتبار نہیں- فتاویٰ ظہیریہ میں کتاب الصلوٰۃ کے ذیل میں کہا ہے کہ محمد ابن فضل کا قول ہے کہ ناف بال اگنے کی جگہ سے مانی جائے گی اور ناف کے نیچے کا حصہ عورت میں شمار نہ ہوگا کیوں کہ لنگی باندھتے وقت اس جگہ کو خالی چھوڑدینے میں مزدوروں کا تعامل ہے او رلوگوں کو ان کی عادت ظاہرہ سے الگ کرنے میں ایک قسم کا حرج ہے- مگر یہ قول ضعیف ہے اور حق سے بعید ہے - اس لیے کہ وہ تعامل جو نص کے خلاف ہو معتبر نہیں- رد محتار میں ہے: العرف اذا خالف النص یرد بالاتفاق( اسباب ستہ: ۷۷،۷۸،ماہ نور پبلی کیشنز دہلی ۲۰۰۶ء)
حکم منصوص کے خلاف عوامی عرف و رجحان کی تردید میں اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے کتنی پیاری بات کہی ہے : ’’ بعض عوام میں دستور ہے کہ خاص اپنے ہم قوم کو اپنا کفو سمجھتے ہیں - دوسری قوم والے کو اگر چہ ان سے کسی بات میں کم نہ ہو غیر کفو کہتے ہیں -اس کا شرعا لحاظ نہیں-‘‘(فتاویٰ رضویہ : ۵/۴۶۳، رضا اکیڈمی ،ممبئی ۱۹۹۴ء) 
وہ عرف جو قرآن حدیث کے خلاف ہو اسے مسترد کردیا جائے گا- عرف کے تعلق سے فقہاے اسلام کے اس اجماعی موقف سے واضح ہوگیا کہ آج بعض علاقوں میں ذات برادریوں کے معیار شرافت ہونے کا جو عرف بن گیا ہے،اسے کسی طور پر بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا- یہ قرآن و سنت کے منصوص احکام کے خلاف ہے، اس سے ملت آدم بکھر جاتی ہے ، وحدت اسلامی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے، اسلام جس مقصد کے لیے دنیا میں آیا تھا خود وہ مقصد زد میں آرہاہے اور اسلام کا وہ حسن جس سے وہ انفس و آفاق میں پھیل گیا وہ گہن آلود ہورہا ہے بلکہ آج جب کہ پوری دنیا میں مساوات اور انسانیت کی بات کی جارہی ہے ایسے میں اسلام کے ماننے والے ہی اگرذات پات کے نام پر بھید بھاؤ کو روا رکھیں تو خود یہ اسلام پر کتنی بڑی زیادتی ہوگی؟
اعتبار عرف سے الجھن میں پڑنے والوں سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج بعض علاقوں میں ذات پات کو معیار شرافت مانا جاتا ہے، اس کا عرف ہے، لیکن ایک عرف ہمارے سامنے آفاقی اور عالمی ہے- آج پوری دنیاملت آدم کی داعی ہے- عالمی سطح پر انسانوں میں انسانیت کے نام پر مساوات کا تصور ابھرا ہے - یہ ایک عام اور ہمہ گیر عرف ہے- اسلام ایک آفاقی مذہب ہے- اگر اس میں عرف کا ا عتبار بھی کیا جائے تو عالمی اور آفاقی عرف کا اعتبار کیا جائے نہ کہ جزئی اور علاقائی عرف کا- اس بات کی تائید فقہا کی عبارتوں سے بھی ہوتی ہے - مشہور حنفی عالم و فقیہ علامہ ابن نجیم مصری فرماتے ہیں:
’والحاصل ان المذہب عدم اعتبار العرف الخاص ولکن افتی کثیر من المشائخ باعتبارہ ‘‘خلاصہ یہ ہے کہ اصل مذہب کے مطابق عرف خاص غیر معتبر ہے لیکن بہت سے مشائخ نے اس کے معتبر ہونے کا فتویٰ دیا ہے-( الاشباہ والنظائر بحوالہ اسباب ستہ ص: ۷۴)
واضح رہے کہ زمانہ گزشتہ عالم گیر یت کے لیے سازگار نہیں تھا- موجودہ زمانہ عالم گیریت کا ہے، یہ اسلام کی آفاقی صداقتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے- اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم آج اسلام کے عالم گیر پیغام کی بات کریں اور اس کے غلبے کی کوشش کریں یا مقامی عرف و عادت کی- خصوصاً ایسے عرف کی جس سے اسلام کی آفاقی سچائیاں اور منصوص تعلیمات زد میں آتی ہوں-
مولوی یا برہمن:-
 مفتی شفیع عثمانی دیوبندی کی کتاب ’’ نہایات الارب فی غایات النسب‘‘ کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ ایک برہمن مزاج مولوی احمد عثمانی کا زہرآلود ضمیمہ شائع ہوا، اس کے کچھ حصے نذر قارئین ہیں:
’’ہم جملہ اقوام سے اس کی استدعا نہیں کرسکتے کہ وہ کیا کریں مگر اپنی قوم ، حضرات شیوخ سے ضرور درخواست کریں گے کہ تاوقتیکہ آپ حضرات امور شرعیہ پر عامل نہ ہوں گے، ان مصائب سے نجات نہ ہوگی، امور شرعیہ ( من جملہ ) دیگر امور کے یہ بھی ہیںکہ رذیل اقوام سے خلط ملط بالکل نہ رکھیں، کیوں کہ ان کی رذالت کا اثر ضرور واقع ہوگا، ’’ تخم تاثیر، صحبت کا اثر‘‘ مشہور مقولہ ہے - ونیز ان دیگر اقوام رذیلہ سے معاملات خرید و فروخت و امور دینیہ ، تحقیق مسائل وغیرہ مطلقاً تعلق نہ رکھیں—— آج دیکھا جاتا ہے جو لاہوں، تیلیوں ، قصائیوں، نائیوں، دھوبیوں، بھٹیاروں، لوہاروں ، درزیوں، سناروں، بساطیوں، کلالوں ،راجپوتوں وغیرہ وغیرہ کو ترقی ہو رہی ہے - بلحاظ دنیا( وہ) بڑے بڑے عہدوں پر قائم ہیں—— صاحبو! جب تک علم دین حضرات شیوخ میں رہا، اور اقوام دیگر تابع رہیں ،کوئی آفت نہیںآئی، مگر جب سے قصائی ،نائی، تیلی، لوہار، کلال، جولاہا وغیرہ مولوی ، مدرس، قاری، صوفی، حافظ وغیرہ ہونے لگے، مصائب کا دور دورہ بھی آنے لگا - کیوں کہ یہ لوگ مطلقا عقل سے کورے ہوتے ہیں اور بوجہ نادانی عقل کے اندھے ہوتے ہیں —— ہمارے سہارنپور میں مولوی حبیب احمد قصائی ، مولوی حسین قصائی، مولوی عبدالخالق نائی، مولی سعید جولاہا پان فروش، منشی عبد الکریم سہراب جولاہا، مولوی مقبول احمد بساطی، مولوی نور محمد بھٹیارہ، مولوی عبد الحمید گاڑا وغیرہ افراد رذیل موجود ہیں کہ اپنی نادانی اور خبط عقل کی وجہ سے کوئی مہتمم ہونے پر ناز کررہا ہے، کوئی مدرس یا مناظر ہونے پر فخار ہے، کوئی قاری ہونے پر کود رہا ہے—— ہم اپنی قوم شیوخ سے درخواست کرتے ہیں کہ دیگر اقوام سے اجتناب کلی رکھیں- الحمد للہ ! شیوخ میں علما، فـضلا، قراء ، مشائخ ، محدثین ومفسرین ،مناظرین وغیرہ بکثرت موجودہیں- دنیاوی لحاظ سے تجارتی بھی موجود ہیں-کلی معاملات اپنی قوم شیوخ سے وابستہ رکھیں تاکہ ہر قسم کی ترقی قوم کی ہو- دیگر اقوام سے جدا رہیں، چوں کہ ان کی حالت ایمانیہ بہت خراب ہوتی ہے—— حاصل یہ ہے کہ دیگر اقوام سے انقطاع کلی کریں اور جو امور شرعیہ ہوں، ان کی پابندی کریں- اس میں اپنی قوم سے ہمدردی بھی ہے اور ہر قسم کی فلاح دارین بھی-‘‘
(افتراق بین المسلمین کے اسباب ،: ۶۱،۶۲، ۶۳، لاہور، ۲۰۰۴ء)
حیرت ہے کہ حلقۂ دیوبند کے معتبر عالم مولانا اشرف علی تھانوی اور مفتی شفیع دیوبندی نے بھی ان مغلظات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے- العیاذ باللہ من ذالک ، ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم- ایسی رکاکت فکری منو کی دھرم شاستر میں ہی مل سکتی ہے، دنیا کی کوئی دوسری کتاب اس شیطانی فکر کا ساتھ نہیں دے سکتی- علمائے حق ان خیالات کے کبھی حامل نہیں رہے -علمائے حق تو اسلامی اخوت کی بات کرتے ہیں -کتنی اچھی بات کہی ہے امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی نے کہ :
’’ اسلام کی عزت کی برابر اور کیا عزت ہے …اگر کوئی چمار بھی مسلمان ہو تو مسلمانوں کے دین میں اسے حقارت کی نظر سے دیکھنا حرام اور سخت حرام ہے- وہ ہمارا دینی بھائی ہوگیا- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انما المومنون اخوۃ اور فرمایا فاخوانکم فی الدین-‘‘(فتاویٰ رضویہ ۵/۴۵۶ )
حضرت مفتی اعظم ہند لکھتے ہیں:’’ بھنگی ،چمار مسلمان ہوکر تقویٰ اختیار کرے، عالم دین بنے، وہ جاہل شیخ مغل پٹھان ، فاسق مغل پٹھان سے اللہ و رسول کے نزدیک زیادہ عزت والا ہے اور جاہل فاسق مدعی شرافت اپنے فسق و فجور کے سبب ذلیل ہے-‘‘ (فتاویٰ مصطفویہ ،ص: ۶۲۸،)
لیکن افسوس کہ اس خراباتی ماحول میں ذات پات، خطہ وعلاقہ، رنگ ونسل جیسی بے معنی چیزیں شرافت و رذالت کا معیار سمجھی جارہی ہیں اور افسوس بالاے افسوس کہ ان غیر اسلامی وغیر اخلاقی اقدار کی تردید کی بجائے بہت سے اہل علم بھی خاموش اور حسب ضرورت بالاظہار اس کی تائید کرتے ہیں-اس معاملے میں انہیں نہ خوف خدا ہے نہ شرم نبی ہے- تفاخر بالنسب اور علاقائی عصبیت انہیں اس قدر عزیز ہے کہ اس کی پاسداری میں اسلامی وحدت ، ملی اتحاد ، جماعتی یگانگت اور دینی اخوت وہ سب کو داؤں پر لگانے کو تیار ہوتے ہیں - وہ شاگرد جو صبح و شام جس استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا ہے، موقع ملتے ہی اس کے حسب و نسب پر تیر ونشتر کی بارش کرنا اپنا خاندانی حق سمجھتا ہے- علاقائی عفریت اس قدر بے قابو ہے کہ دار العلوم کا معمولی ملازم اپنے شیخ الحدیث کو علاقائی تفریق کے سبب، طنز وتعریض کا نشانہ بنانے میں ذرا نہیں چوکتا- لسانی عصبیت اس شباب پر ہے کہ گجرات ، بنگال، بہار کا خواہ کتنا بڑا عالم اور اسکالر کیوں نہ ہو ، تذکیر وتانیث کی ایک غلطی اس کا استہزا کرنے اور اس کے علمی وقار کو مجروح کرنے کے لیے کا فی وشافی دلیل سمجھی جاتی ہے-روح اقبال سے معذرت کے ساتھ   ؎
رنگ وخطہ ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
میں اپنی بات اپنے وقت کے معروف عالم و خطیب مولانا عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فکر انگیز اقتباس پر ختم کرتا ہوں :
’’ ہندوستان میں مسلمان جہاں بہت سی ہندوانہ رسوم کے وبال میں گرفتار ہوگئے اور ہنود کی تہذیب و تمدن کے مشرکانہ رنگ میں رنگین ہوگئے، ان ہی ہندوانہ اور مشرکانہ رسوم بد میں سے یہ خیال بھی ہے کہ مسلمانوں میں ’’ اونچ نیچ‘‘ کے طبقات قائم کرکے مسلمانوں نے اسلامی مساوات کے خوب صورت محل کو ڈائنا میٹ سے اڑادیا اور بعض جائز پیشوں کو فرضی طور پر ذلیل پیشہ قرار دے کر اس پیشہ والوں کو ذلیل وحقیر سمجھنے لگے اورہر موقع پر حقارت کے ساتھ ان کا تمسخر اور مذاق اڑانے لگے- مثلاً کپڑا بننے والوں کو عرفی شرفا حقیر قرار دے کر ہمیشہ ان کا مذاق اڑاتے رہے اور ان کو حقیر و ذلیل سمجھتے رہے اور طرح طرح کے فرضی قصوں اور ذلت آمیزالقاب گڑھ گڑھ کر اس قوم کے ساتھ تمسخر اور ٹھٹھا کرتے رہے- حالاں کہ تواریخی شواہد اور احادیث و آیات قرآنیہ انہیں ہمیشہ جھنجھوڑ کر متنبہ کرتی رہیں کہ خبردار!تم کسی قوم کا مذاق نہ اڑاؤ اور ان کو برے القاب سے یاد نہ کرو- قرآن مجید، سورئہ حجرات میں حق تعالیٰ کا واضح اور عبرت خیز ونصیحت آمیز ارشاد موجود ہے کہ: اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کی ہنسی نہ اڑائے- عجب نہیں کہ وہ ان ہنسی اڑانے والوں سے بہتر ہوں اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھو- کیا ہی برا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی لوگ ظالم ہیں-
لہذا دور حاضر کے علماے کرام کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے ان ہندوانہ خیالات کا شدید رد کرکے مسلمانوں کی اصلاح کریں کہ وہ ہرگز ہرگز کسی مسلمان کی قومی حیثیت سے ہرگز ہرگز ہنسی نہ اڑائیں- نہ انہیں ذلیل وحقیر سمجھیں- ورنہ بلاشبہ وہ فاسق و ظالم ٹھہریں گے- اور ہر مومن کا اکرام واحترام کرکے ساری دنیا کو اس نورانی تصور سے آشنا کریں کہ اسلام میں عزت و احترام اور بزرگی و اکرام کا دارومدار تقویٰ اور پرہیز گاری پر ہے اور ہرگز ہرگز اسلام میں بزرگی و احترام کسی خاص نسل یا قوم یا رنگ و وطن کے ساتھ مخصوص نہیں- اور یہ ہر وقت پیش نظر رکھیں کہ اسلامی مساوات اور ایمانی اخوت کا ہی پرچم حقانیت سربلند ہوتا ہے-‘‘ (روحانی حکایات بحوالہ امام احمد رضا کا سیاسی کردار، ص:۴۲، ۴۳، )
*****


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔