Tuesday 23 January 2018

کیا عورت امامت کرسکتی ہے؟

0 comments
کیا عورت امامت کرسکتی ہے؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-----------------------------------------------------------------------
۲۰؍ مـارچ کی صبح جب ہم نے اخبار اٹھایا تو اس عنوان پر نظر رک گئی:
Woman leads Islamic prayer service in New York. (The Times of India) 
اخبار کے مطابق ورجینیا یونیورسٹی، نیویارک میں اسلامیات کی پروفیسر آمنہ ودود نے ۱۸؍ مارچ ۲۰۰۵ء کو نیویارک کے کسی چرچ میں تقریباً سو مردوں اور عورتوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی تھی، پروفیسر صاحبہ کا کہنا ہے کہ اسلام میں مردوعورت برابر ہیں۔ اس لیے نماز پڑھانے کا حق جس طرح مردوں کوہے اسی طرحی عورتوں کو بھی ہونا چاہیے۔ یعنی جس طرح مردوں اور عورتوں کی نماز مرد پڑھا سکتا ہے عورت بھی پڑھا سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ مسلم علماء اور اسکالرز نے عورتوں پر زیادتی کی ہے اور انہیں بیشتر حقوق سے محروم کررکھا ہے۔
اس وقت ہمارے سامنے دو مسئلے ہیں، ایک یہ کہ کیا اسلام میں عورت کو امامت کا حق حاصل ہے؟ وہ بھی ایسی جماعت کی امامت جس میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی شریک ہوں۔ اور پھر یہیں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام نے عورتوں اور مردوں کے مابین بعض امور میں جو تفریق روارکھی ہے وہ ظلم ہے یا انصاف؟
پروفیسر صاحبہ چوں کہ نام سے مسلمان ہیں، نیویارک میں اسلامیات کا درس دیتی ہیں اور خود ان کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ اسلام میں عورتوں اور مردوں کے بیچ کسی معاملے میں کوئی تفریق نہیں، حتیٰ کہ نماز کی امامت کا بھی اسے اسلامی حق حاصل ہے۔ اس لیے اولاً ہمارے لیے یہ جاننا زیادہ اہم ہے کہ کیا پروفیسر صاحبہ کا دعویٰ اور ان کا یہ اقدام حق بجانب ہے؟ حق امامت کے تعلق سے اسلام کا وہ موقف درست ہے جو چودہ سو سالہ قدیم ہے اور جس پر صحابہ، صحابیات، تابعین، فقہا، محدثین اور اسلامیات کامطالعہ کرنے والے مسلم علما اور دانشوران کا اتفاق ہے یا محترمہ آمنہ ودود صاحبہ کی یہ نئی تحقیق بر حق ہے جس کے لیے خدا جانے موصوفہ نے کن کن علمی دبستانوں کی خاک چھانی ہے؟ جس کے اعزاز میں نیویارک کے ایک چرچ میں انہیں نماز جمعہ پڑھانے کی اجازت ملی۔ عیسائی مشینریوں کی اس عنایت خسروانہ کے پیچھے آخر کون سے راز ہاے سربستہ کار فرما ہیں ، یہ تو بہتر طور سے وہی بتا سکتی ہیں۔
لیکن جب ہم ہر طرح کے داخلی و خارجی اثرات سے آزاد ہوکر اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن و حدیث کامطالعہ کرتے ہیں تو محترمہ کا یہ عمل سراسر غیر اسلامی نظر آتا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ کھنگال ڈالیے کہیں بھی ان کے اس عمل کی کوئی نظیر نہیں مل سکتی، اسلامی تاریخ صرف اس قدر بتاتی ہے کہ عہد رسالت میں عورتوں کو مسجدوں میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت تھی جس میں ایک بڑی حکمت یہ تھی کہ ادائیگی نماز کے ساتھ پیغمبر کے ساتھ نماز پڑھنے کی عملی تربیت بھی ہورہی تھی۔لیکن اس کے باوجود شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت وضاحت اور تاکید سے فرمادیا تھا کہ عورتیں پچھلی صفوں میں کھڑی ہوں، اگلی صفوں میں کھڑا ہونا مردوں کے لیے اورپچھلی صفوں میں عورتوں کے لیے افضل ہے اور اس کے برعکس دونوں کے حق میں نہایت غیر مناسب۔’’خیر صفوف الرجال اولھا و شرھا آخرھا و خیر صفوف النساء آخرھا و شرھا اولھا۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب تسویۃ الصفوف و اقامتھا)
لیکن مسجدوں میں آنے کی یہ اجازت بھی خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں ختم کر ڈالی، صحابہ نے بھی اس فیصلے سے اتفاق کیا، اسلامیات کی سب سے بڑی واقف کارخاتون ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جنہیں سفر و حضر میں شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل رہی اور جن کی فقاہت، تدبر و بصیرت اور علمی فضل و کمال کے اکابر صحابہ معترف تھے،نے بھی اس فیصلے کی مکمل تائید فرمائی۔ آپ نے فرمایا:اگر آج پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوتے تو وہی کرتے جو عمر نے کیا ہے۔ ’’ لو أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رأی ما أحدث النساء  لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل ۔ ( صحیح مسلم، باب خروج النساء الیٰ المسجد)
(آج کل عورتوں نے جو زینت و آرائش کے نئے نئے انداز اپنا لیے ہیں شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اگر آج موجود ہوتے تواسے دیکھ کر وہ بھی انہیں مسجدوں میں آنے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں۔)
کتب حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورت کو اس شرط کے ساتھ امامت کا حق حاصل تھا کہ مقتدی صرف عورتیں ہوں ،کوئی مرد نہ ہو۔ خطۂ بہار کے عظیم محدث، فاضل بریلوی امام احمد رضا خاں کے خلیفہ مولانا ظفر الدین بہاری نے اپنی جامع ’’ صحیح البہاری‘‘ میں ’’ امامۃ النساء و قیام الامام وسطھن‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل باب رکھا ہے جس میں مصَنَّف عبدالرزاق، دار قطنی،بیہقی، ابن ابی شیبہ اور مستدرک کے حوالے سے دس حدیثیں نقل کی ہیں جن میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت ام سلمہ کے بارے میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ انہوں نے عورتوں کو نماز پڑھایا۔ امام عبد الرحمن الجزیری نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’ الفقہ علی المذاھب الأربعۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ مالکیہ کے علاوہ تینوں فقہی مذاہب میں بہ اتفاق عورت کی امامت درست ہے بشرطیکہ مقتدی صرف عورت ہوں۔ (۳؍۴۰۹)
بیسوی صدی کے عظیم ہندوستانی فقیہ مولانا امجد علی اعظمی نے بھی اپنی کتاب ’’ بہار شریعت‘‘ جلد اول میں یہ لکھا ہے کہ اگر نمازی سب عورتیں ہوں تو ان کی امامت عورت کر سکتی ہے اگرچہ یہ مکروہ ہے۔ ( ص:۹۶، مطبع قادری کتاب گھر بریلی)
حدیث وفقہ کے مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر کوئی تعلیم یافتہ اور شریعت آشنا خاتون نو مسلم عورتوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر مغربی ممالک میں عورتوں کو نماز پڑھاتی ہے تو یہ جائز عمل ہوگا۔ مگر محترمہ آمنہ ودود صاحبہ کا عمل اس سے مختلف ہے، وہ مردوں اور عورتوں سب کی امامت کے لیے بضد ہیں، وہ بھی نماز جمعہ میں جو عورتوں پر فرض ہی نہیں،اسی لیے امریکہ کی مساجد کے اماموں نے اس کے لیے انہیں اجازت نہیں دی اور بالآخر آمنہ صاحبہ کی نماز کے لیے نیویارک کے عیسائیوں نے چرچ کا دروازہ کھول دیا۔ جس میں بے خوف آمنہ صاحبہ کو اپنے دل کا بھڑاس نکالنے کا موقع ملا، نتیجہ کے طور پر پوری دنیا میں اخبارات کی سرخیوں میں آئیں اور غیر مسلم صحافیوں کو اسلام پر کیچڑ اچھالنے کا موقع فراہم کردیا۔
دراصل اہل مغرب کے اشارۂ ابرو پہ رقصاں نام نہاد اسلامی زعماء و قائدین نے گزشتہ صدی سے اسلام کی نئی نئی تعبیر و تشریح کا جو سلسلہ شروع کیا ہے آمنہ صاحبہ کی یہ جدید تحقیق اور ان کا یہ بے مثال اقدام بھی اسی کا ایک حصہ ہے، اگر آمنہ صاحبہ یا ان کے ہم خیال اسلام میں اس طرح کی ’’ بدعات حسنہ‘‘ شامل کر کے اسے مغرب کی عریاں اورمخلوط تہذیب سے زیادہ بارونق اور تابندہ دیکھنا چاہتے ہیں تو مغرب کی سیہ بخت گھٹا کی تاریکیوں میں گھٹ گھٹ کر جینے والے اسے روشنی کی کرن اور روشن خیالی کی علامت تو ضرور سمجھ سکتے ہیں مگر یہ اسلام اس سے یکسر مختلف ہوگا جس کا ستارہ آج سے ۱۴۰۰ سو سال پہلے حجاز کی وادیوں سے نمودار ہوا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا اس کی مدد سے نشان راہ منزل کی تلاش میں کامیاب ہوتی چلی گئی۔ بہ الفاظ دیگر آمنہ صاحبہ کی یہ نئی علمی باز یافت اس اسلام کا حصہ تو کہی جاسکتی ہے، محترمہ جس کی تشکیل کے درپے ہیں مگر وہ اسلام جس کے دستور خالق ارض و سما نے مقرر کیے ہیں اور جس کی تعبیر و تشریح اور نفاذ شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عمل میں آیا ہے، اس میں ایسی جدید کاریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔  اب یہ فیصلہ تو امریکہ میں رہنے والے مسلمان ہی کریں گے کہ انہیں چودہ سو سالہ قدیم اسلام چاہیے یا اکیسویں صدی کا یہ دوسرا اسلام جس کی تائید اور غایت درجہ ہم دردی نیویارک کے پادریوں، مسیحی مشینریوں اور یہودی لابیوں میں بھی پائی جا رہی ہے۔
رہا یہ سوال کہ اسلام نے عورتوں کو مخلوط جماعت جس میں مرد و عورت سبھی شامل ہوں، کی امامت کا حق کیوں نہیں دیا؟ تو اس کا جواب جاننے سے پہلے ہمیں اسلام کے مزاج کو سمجھنا ہوگا اور یہ جاننا ہوگا کہ اسلام جس معاشرتی نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ کیا ہے؟ اس کے لیے جب ہم اسلام کا معروضی مطالعہ کرتے ہیں تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
(۱) اسلام دوسری زندگی کا قائل ہے۔ یعنی اس زندگی کے بعد جس میں لوگ یکے بعد دیگرے پیدا ہوتے اور مرتے ہیں ایک اور زندگی ہے جو سب کی اجتماعی زندگی ہے جس میں سب اپنے کیے کا جزا پائیں گے۔
(۲) یہ زندگی اگلی زندگی کی تیاری کے لیے ہے۔ یہ کھیتی ہے اس میں ہم جس کی کاشت کریں گے کل اسی کی فصل ہمیں کاٹنے کو ملے گی۔ یہ زندگی انسان کا مقصود نہیں، یہ آنے والی زندگی کے لیے واسطہ ہے۔ انسان یہاں امتحان کی تیاری میں ہے، یہاںوہ جیسی تیاری کرے گا اگلی زندگی میں اسی کے موافق اس کا نتیجہ سامنے آئے گا۔
(۳) آنے والی زندگی میں کامیابی اس زندگی میں تزکیۂ باطن اور تصفیہ قلب پر موقوف ہے۔ قرآن کے مطابق جس نے نفس کا تزکیہ کرلیا اس کی کامیابی یقینی ہوگئی۔ ’’قد افلح من زکّا ھا‘‘ (الشمس:۹)
(۴) اسلام کا سارا نظام اسی تزکیہ کے محور پر گردش کرتاہے۔ وہ انسان کو ایمان و یقین کے ساتھ اچھی اور پاکیزہ زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے، رزق حلال کمانے اور کھانے پر آمادہ کرتا ہے، عزت و عصمت کی حفاظت پر بطور خاص زور دیتا ہے،وہ انسان کو برائیوں اور بد اخلاقیوں سے پرے رہ کر حسن کردار کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے۔
(۵) اسلام اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ عورت میں مرد کے لیے کشش ہے اور مرد میں عورت کی طرف جھکاؤ۔ عورت اور مرد کے مابین وہی رشتہ ہے جو مقناطیس اور فولاد کے بیچ ہے۔ اگر مردوں کی انجمن میں عورت کو بے حجاب لا کھڑا کیا جائے تو یکا یک سب کی نظریں اسے اپنے حصار میں لے لیں گی، ان کے اندر چھپی قوت کو انگیز ملے گی اور ان کا حیوان جاگ اٹھے گا۔ نتیجہ کیا برآمد ہوگا سب کو معلوم ہے۔
(۶) اسلام اس میلان و کشش کی قوت کو نہ انگیز کرتا ہے کہ برائیوں کا دروازہ کھلے، ایڈس جیسی لعنت سے معاشرہ دوچار ہو اور سماج میں بغیر باپ کے بچے پیدا ہو کر ملک و قوم کے سرکا بوجھ بنیں۔ اور نہ ہی اس قوت کو کچلنے اور ختم کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ رہبانیت کے لیے راہ ہموار ہو اور نکمے اور ناکارے افراد ملک کی تعمیر و ترقی کی راہ میں حائل ہوں۔ اس کی بجائے اسلام اس قوت کو خدا کی عظیم نعمت قرار دیتا ہے، اس کی تعمیر کرتا ہے اور اسے صحیح جہت دیتا ہے۔ اسلام مہذب ازدواجی زندگی کا قائل ہے جس کی بہتری کے لیے یہ قوت بڑی معاون ہے۔
ان حقائق کو سامنے رکھ کر ہر شخص کو پہلے اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے کہ اسلام جس نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ انسانیت کے لیے جبر ہے یا رحمت؟ کیا انسانیت کے لیے بلند تہذیب و تمدن اسلام کے دامن میں ہے جس کا بنیادی مقصد معاشرے میں پھیلے ہر طرح کے فحش، حیوانیت ،ظلم و جبر اور حرص وہوس کا خاتمہ ہے یا وہ تہذیب بھلی ہے جس میں انسان اسانیت کی جملہ حدود کو پار کر کے بالکل جانوروں کی طرح نہایت بے خوفی اور بے شرمی سے اپنی حیوانیت کے مطالبات پورے کررہا ہے ، آج ترقی یافتہ اور مہذب و متمدن سمجھے جانے والے مغربی ملکوں کا حال یہ ہے کہ وہاں سرارہ اور بھری دکانوں میں بوس و کنار کرنا بلکہ کھلی آنکھوں کے سامنے اس کے بعد کے مراحل طے کرے ایک عام سی با ہے، جس کا مشاہدہ کرتے کرتے نظریں اس قدر بے حیا ہوگئی ہیں کہ آپ وہاں کے باشندوں کے لیے یہ کوئی عیب یا گناہ کی بات نہیں رہ گئی ہے۔کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا دنیا کو اسی تمدن کی ضرورت ہے؟ اگر یہ انسانیت ہے تو حیوانیت کس بلا کا نام ہے؟
ثنا خوانان مغرب کا یہ ارشاد سر آنکھوں پرکہ مغرب مطالعہ کائنات اور ایجاد و اختراع کی دنیا میں حیرت انگیز تیز گامیوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ علم و سائنس کے سفر میں صبح سے شام تک وہ اتنے فاصلے طے کر لے رہا ہے جس کے لیے پچھلی صدیوں میں سالہا سال درکار تھے۔ مگر کوئی ہمیں یہ بھی بتائے کہ اخلاقیات کی راہ میں اس نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ اس نے آج انسان کو فیشن کے نام پر بالکل ویسے ہی برہنہ کردیا ہے جیسے وہ آج سے ہزاروں سال پیشتر کپڑے کی صنعت وجود میں آنے سے پہلے تھا۔ مغرب کا خاندانی نظام بھی اسی عہد کی عکاسی کرتا ہے جس میں ابھی تہذیب کی شمع نہیں جلی تھی۔ اب آخر میں اپنے ضمیر سے یہ سوال بھی کرلیا جائے کہ کیا اسلام جس انسانی نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے اس میں عورت کے حق میں مخلوط جماعت کی امامت کی بات کسی طرح مناسب ہوسکتی ہے؟ نماز خدا اور بندے کے درمیان ایک راز ہے، تزکیہ قلب کا ایک اہم ذریعہ ہے۔اس کے لیے دل جمعی اور انہماک چاہیے، اسی لیے شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے اگلی صفوں میں ہونے کو بھی ناپسند فرمایا، کیوں کہ اس صورت میں فطرۃً مردوں کے خیالات بٹیں گے اور نماز کا مقصود فوت ہوگا۔ اب اگر آمنہ صاحبہ کی تجویز پر عورتوں کو اگلی صف سے بھی آگے مقام امامت پر لاکھڑا کیا جائے تو کیا قیامت آئے گی؟ وہ نماز عبادت ہوگی یا خباثت؟ دل یاد خدا سے سر شار ہوگا یا پنے امام کے رخ و بازو، حسن و ادا اور آواز و انداز میں ڈوب کر سکون و قرار کی تلاش میں سرگرداں؟ ویسے اگر آج عورتوں کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا جائے تو یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ نمازیوں کی تعداد اچانک بڑھ جائے گی اور حدیث میں پہلی صف میں پہنچنے کی جو ترغیب دی گئی ہے اس پر مکمل طور سے عمل شروع ہوجائے گا بلکہ موجودہ روحانیت سوز ماحول نے نئی نسل کو جس عملی وفکری بے راہ روی میں اور الحاد و بے دینی کے دلدل میں لا چھوڑا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ مندروں میں تو بے جان مورتیوں کی پوجا ہوتی ہے اب مسجدوں میں زندہ دیویوں کی عبادت شروع ہوجائے گی اور دیرو حرم کے سارے فاصلے سمٹتے ہوئے نظر آئیں گے۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔