Monday 15 January 2018

ذکر فضل حق --- علامہ فضل حق خیرآبادی

0 comments
ذکر فضل حق
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------
امام الحکمۃ والکلام علامہ فضل حق ابن علامہ فضل امام (۱۲۱۲ھ/۱۷۹۷ء-۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء) انیسویں صدی کے ممتاز ترین عالم دین، ادیب وشاعر ، حکیم وفلسفی، سیاست داں ودانشور اور دینی وملی قائدتھے- علامہ کی شخصیت کی تین جہتیں سب سے زیادہ نمایاںہیں: 
(۱)مذہبی حیثیت:-
کہاجاتاہے کہشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے بعد انہوںنے خانوادۂ ولی اللہی کے افکار اور برصغیر ہندمیں سنی اسلام کی نمائندگی اور ترجمانی کی-
(۲) علمی حیثیت:-
یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہحکمت وفلسفہ کے آخری دبستان مکتب خیرآباد کو علامہ نے پروان چڑھایا- شرح قاضی مبارک وغیرہ میںعلامہ نے جو فلسفیانہ موشگافیاں اور نکتہ آفرینیاں فرمائی ہیں ان کے پیش ِنظر اہل نظر ان کاذکر ارسطو ، سقراط ،ابن سینا اور فارابی کے ساتھ کرتے ہیں-
(۳) سیاسی حیثیت:-
اہل تحقیق کے مطابقجنگ آزادی ہند ۱۸۵۷ء کے مرکزی مقام دار السلطنت دہلی میںجنگ کا نقشہ تیار کرنے میںعلامہ نے کلیدی رول اداکیا- انقلاب سے قبل علامہ جھجھرمیںتھے- جب فضا میں خنکی محسوس ہونے لگی تو علامہ شہنشاہ ہند بہادر شاہ ظفر کی دعوت پر دلی آئے اور بادشاہ اور جنرل بخت خاںسے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ کی مکمل اسٹریٹجی تیارکی- 
۲۰۱۱ء جو علامہ کی وفات کا ۱۵۰؍واںسال ہے اس مناسبت سے اس محسن ملک وملت کا ذکر مختلف سطح پر جوشروع ہوا ہے، یہ ایک نیک فال ہے اور منت شناس قوم کی پہچان ہے- یہ منت شناسی سب سے پہلے مولانایٰسین اختر مصباحی کے دل میں پیداہوئی پھر اہل نظر کی محفل میں آئی پھر دیکھتے دیکھتے ہندوستان سے پاکستان تک مختلف سطحوں پر علامہ فضل حق خیرآبادی کا ذکر حق بخیر وخوبی کیاجانے لگا- چھوٹے جلسوں، سیمیناروں ، کانفرنسوں کے ساتھ ساتھ اخبارات میں بیانات ومضامین شائع ہونے لگے- اس حوالے سے کچھ کتابچے اور کتابیں بھی شائع ہوئیںاور بعض ویب سائٹ بھی ڈیزائن ہوئیں جس کے خاطر خواہ اثرات  سامنے آئے-
علامہ فضل حق خیرآبادی کنونشن:-
دارالسلطنت دہلی جو جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کا آخری اور مرکزی میدان کارزارہے، جہاں سے انقلاب ۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد چھپ چھپاکر علامہ کو نکلناپڑااور بقیہ زندگی کے چاروں سال روپوشی، قید وبنداور ظلم وسزامیں بسر کرنی پڑی، میں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ ایک بڑے پیمانے پر علامہ کی یاد میں کوئی تاریخ ساز پروگرام کیاجائے جس کی مثال کم از کم ذکر فضل حق کے حوالے سے ماضی میں نہ ہو اور جس کی آواز تعلیم یافتہ اور دانشور طبقے تک بھی پہنچے اورایوان حکومت تک بھی جس کی دھمک محسوس کی جاسکے تاکہ محسن ملک وملت کا ذکر زبانی سے بڑھ کرعملی سطح پر ہو اورحکومتی یاغیر حکومتی ذرائع سے علامہ خیرآبادی کی یاد کو دوام بخشنے کے لیے بڑے پیمانے پر کسی عملی پیش رفت کی کوئی سبیل نکل سکے لیکن اس طرح کے پروگرام کے لیے جن ذرائع اورا سباب ووسائل کی ضرورت تھی ان کا فقدان تھا نیز ایسے پروگرام کے نظم وترتیب کے لیے جس شعور ودوراندیشی اور تدبر کی ضرورت تھی وہ بھی ہمارے یہاں تقریبا نایاب ہے-اس کے لیے حکومتی تعاو ن حاصل کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیںآیا-
مولانا اسید الحق عاصم قادری بدایونی ، اللہ ان کا اقبال بلندکرے ، اس بیچ اس عظیم کام کے لیے تیارہوگئے اور دہلی میں ایک تاریخ ساز پروگرام کی تیاری شروع ہوگئی- مولانا اسید الحق قادری کو کچھ نیاکرنا ہواور اس میں مولانا خوشتر نورا نی کی مشاورت اور معاونت شامل نہ ہو ایسا نہیں ہوسکتا- چنانچہ دونوںصاحبان نے باہم مشورہ کرکے دہلی میں تاریخی علامہ فضل حق خیرآبادی کنونشن کے انعقاد کے لیے پروگرام کا ابتدائی خاکہ مرتب کیا پھر اس کے مختلف پہلووںپر غوروخوض کرنے کے لیے دارالقلم دہلی میں مولانایٰسین اختر مصباحی کی صدارت میں ایک مشاورتی میٹنگ ۲۱؍رمضان۲۲؍ اگست کو بعد نماز عصر منعقد ہوئی اور افطار کے ساتھ یہ میٹنگ اختتام پذیر ہوئی- اس میٹنگ میں جامعہ ملیہ ، جامعہ ہمدرد، دہلی یونیورسٹی اورجے این یوکے طلبہ اور چند خاص صحافی اوراصحاب رائے شریک ہوئے - اس میٹنگ میں بطور خاص اس پہلو پر تبادلہ خیال ہوا کہ کس طرح پروگرام کو کامیاب بنایاجائے، کس طرح بڑی تعداد میں طلبہ، اساتذہ ، صحافی اور ارباب فکروبصیرت اور باشعور عوام کی شرکت یقینی بنائی جائے اور کس طرح اس پروگرام کو زیادہ سے زیادہ میڈیا کوریج ملے- اسی میٹنگ میں مختلف طلبہ اور دوسرے لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی گئیں- اس سلسلے میں جو نام سامنے آئے جنہیں بعد میں مجلس استقبالیہ میں شامل کیا گیا وہ اس طرح ہیں: (۱) جناب احمد جاوید (۲) مولانااشرف الکوثرمصباحی (۳) مولانا صدرالاسلام (۴) مولانا رفعت رضانوری (۵) سید تالیف حیدر (۶) یامین انصاری (۷) مولانا غلام رسول دہلوی (۸) علی رضاقادری (۹) مولانا معراج احمد مصباحی (۱۰) مولاناشوکت علی (۱۱) حافظ محمد علی (۱۲) ڈاکٹر صادق الاسلام (۱۳) مولانا ارشادعالم نعمانی (۱۴) کاشف صدیقی (۱۵) انجنیئر ہلال احمد (۱۶) عبدالعزیز خان اور راقم ذیشان احمد مصباحی -بعد میں اس فہرست میں ڈاکٹر نوشاد عالم چشتی وغیرہ کے نام بھی شامل کرلیے گئے-
اب سب سے بڑا مرحلہ دہلی میں کسی اچھے ہال کی بکنگ تھی جس میں مجوزہ پروگرام بخیر وخوبی منعقدہوسکے- اس سلسلے میں کئی ایک نام سامنے آئے جیسے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، اردو گھر، ایوان اردو، ایوان غالب ، غالب اکیڈمی، انصاری آڈیٹوریم- کئی مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر انصاری آڈیٹوریم کے نام پر اتفاق ہوا جو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا سب سے بڑاپروگرام ہال ہے، جواس اعتبار سے خاصااہم ہے کہ وہاں شرکا کی آمد ورفت آسان ہے نیز اس میں تعلیم یافتہ افراد کی زیادہ آمد متوقع ہے اور مزید یہ کہ تعلیم یافتہ طبقہ میںاثرات کے لحاظ سے بھی یہ جگہ زیادہ موزوں ہے- چنانچہ اس کی منظور ی حاصل کرنے کی کوشش شروع ہوگئی- بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ حصول یابی کتنی مشکل تھی - خدا بھلاکر ے محترم پروفیسر اختر الواسع صاحب کا کہ جن کے تعاون سے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا اور طے یہ پایاکہ کنونشن خانقاہ قادریہ بدایوں کے زیر اہتمام اورماہ نامہ جام نور دہلی اور ڈاکٹر ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ،جس کے ڈائرکٹر پروفیسر اخترالواسع ہیں، کے اشتراک وتعاون سے منعقد ہوگا جس کے بغیر وہ ممکن نہیںتھا-
خدا خدا کرکے وقت موعود آیا- ۱۸ ؍ستمبر ۲۰۱۱ کو ذمہ داران اور رضاکاران صبح دس بجے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم پہنچ گئے اور متعلقہ ذمہ داری میںلگ گئے- شرکا سے مسلسل رابطہ کیاجاتارہا اور ان کی آمد کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی رہی- کنونشن کو خطاب کر نے والے خصوصی مہمانان، صاحبا ن علم ودانش میںسے اکثر تشریف لاچکے تھے جو اپنی قیام گاہوں میںتھے اوربعض دیگر راستے میں تھے یارابطے میں تھے- ۳۰:۱؍ بجے پروگرام شروع ہوناتھا- وقت سے پہلے ہی سامعین کی گاڑیاں (کاریں اوربسیں) آنے لگی تھیں- وقت مقررہ پر مولانا ضیاء الرحمن علیمی کی اردو انگریزی ترجمے کے ساتھ تلاوت کلام پاک سے محفل کا آغاز ہوا اور پھر ناظم اجلاس ڈاکٹر حفیظ الرحمن (جے این یو ) حسب ترتیب خطباکو یکے بعد دیگر مدعو کرتے گئے- دیکھتے ہی دیکھتے انصاری آڈی ٹوریم کا وسیع وعریض ہال کھچاکھچ بھر گیا بلکہ نوبت اس کی پہنچ گئی کہ سامعین کی ایک بڑی تعداد کوکنارے کھڑے ہوکر لیکچرز سننے پڑے-اہل علم قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی کے حوالے سے جوش خطاب میںتھے اور سامعین گوش برآواز- اسٹیج پر جو شخصیات جلوہ افروز تھیں ان کے نام اس طرح ہیں: (۱) حضرت سید محمداشرف قادری برکاتی (۲) حضرت شیخ عبدالحمید محمد سالم قادری (۳) جناب نوح الحق خیرآبادی (نبیرۂ علامہ فضل حق خیرآبادی) (۴) مولانایٰسین اختر مصباحی (۵) پروفیسر اخترالواسع (۶) مفتی مکرم احمد نقش بندی (۷) مولانا مبارک حسین مصباحی (۸) جناب شکیل حسن شمسی (۹) ڈاکٹر غلام زرقانی (۱۰) مولانا سید محمد علی ممشاد پاشا (۱۱) ڈاکٹر خواجہ اکرام (۱۲) خواجہ شجاع الدین افتخاری (۱۳) ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی وغیرہ- دوران پروگرام جامعہ ملیہ کے پرووائس چانسلر پروفیسرایس ایم راشد بھی تشریف لائے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا-
مولانا خوشتر نورانی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا- مندوبین اور سامعین کا خیر مقدم کیا اور کنونشن کی اہمیت وضرورت پر روشنی ڈالی- پروفیسر اختر الواسع صدر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنے خصوصی خطاب میں حکومت ہند سے مطالبہ کیاکہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی یاد کو قائم رکھنے کے لیے جزیرہ انڈمان میں ان کے نام سے منسوب کوئی عمارت تعمیر کی جائے اور ان کے نام سے کم از کم ایک عدد ڈاک ٹکٹ جاری کیاجائے- ڈاکٹر خواجہ اکرام نے اپنے خطاب میں پروفیسر اختر الواسع سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ہر موقع پر ہماری امیدوں کا خون کیا اورہمیں شرمسار کیا ہے، ایساکیوںنہ ہوکہ ہندوستان کی اتنی بڑی مسلم آبادی سے کچھ لوگ خود تیارہوں، جزیرہ انڈمان میں علامہ کی یادگاری عمارت تعمیر کریں اور اس کا افتتاح صدر جمہوریہ یا وزیر اعظم سے کرائیں اورحکومت کو ہم شرمسار کریں - ہم صرف حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں آخر ہم خود اپنے طورپر کچھ کرنے کی کیوں نہیں سوچتے؟
 پروفیسر ایس ایم راشد پرووائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے علامہ فضل حق خیرآبادی کو اپناتاریخی وثقافتی سرمایہ قراردیا اور ان کے نام سے مختلف یونیور سٹیز میںعلامہ فضل حق خیرآبادی چیئرز قائم کرنے کی تجویز رکھی-
کنونشن کو مفتی مکرم احمدنقشبندی ، مولانا مبارک حسین مصباحی، جناب شکیل حسن شمسی ، مولاناسید علی ممشاد پاشا اور خواجہ شجاع الدین افتخاری وغیرہ نے بھی خطاب کیا اور علامہ خیرآبادی کی کتاب حیات کے زریں ابواب سے سامعین کو واقف کرایا- اثنائے پروگرام ماہ نامہ جام نور کے خصوصی شمارے ’’علامہ فضل حق خیرآبادی ‘‘ مولانا اسیدالحق قادری کی تصنیف ’’خیرآبادیات‘‘اور مولانا خوشتر نورانی کی کتاب ’’علامہ فضل حق خیرآبادی :چند عنوانات‘‘ کا اجرابھی عمل میں آیا-حضرت سید محمد اشرف برکاتی مارہ روی نے مذکورہ دونوں کتابوں کے مصنفین کی تکریم اور حوصلہ افزائی کے لیے دونوں کتابوں پر ۲۰، ۲۰ ہزار روپئے دینے کا اعلان کیا جو مذہبی علمی دنیا میں ایک خوش آئند طرح ہے-
حضرت سید محمداشرف قادری برکاتی کے تکریمی کلمات اور حضرت شیخ محمد سالم قادری کے صدارتی خطبے کے بعد مولانا عبدالغنی عطیف میاں قادری کے اختتامی خطاب پرکنونشن اختتام پذیر ہوا جس کے بعد شرکاے اجلاس نے چائے ناشتہ کیا اور اپنی راہ لی-
کنونشن کے بعد:-
علامہ فضل حق خیرآبادی کنونشن کے بعد جوتاثرات موصول ہوئے وہ صد فیصد مثبت اور حوصلہ افزاتھے- البتہ کنوینرز( مولانا اسیدالحق قادری اورمولاناخوشتر نورانی) نے یہ بات محسوس کی کہ اتنے بڑے پروگرام کو جیسامیڈیا کوریج ملنا چاہیے تھا ویسا نہیں ملا- اسی طرح میر اپنا ذاتی تاثر یہ ہے کہ یہ ہمارے علما کی بڑی کامیابی ہے کہ اب وہ بھی اس جگہ سے اپنی آواز بلند کرنے لگے ہیں جہاں تک پہلے ان کی رسائی نہیں تھی- اسے مذہبی دنیا کی انقلابی تبدیلی کہاجاسکتاہے- لیکن ابھی کئی مسافتیں باقی ہیں- ایسے موضوعات پر پروگرام میں جس تاریخیت اور رائج علمی طریقہ ٔ بحث کی ضرورت ہے اس میں ابھی بھی کمی ہے- دانشوری سطح پر جذباتیت کی رو بہت کم یا بالکل معدوم ہوجاتی ہے لیکن مذہبی دنیا کے اسلوب کلا م میں اب بھی جذباتیت کی سطح عصری دانشوری اور علمیت پر غالب ہے- بقول محب گرامی ڈاکٹرارشد عالم گیاوی (لیکچرر جواہر لال نہرو اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی ) مذہبی پروگراموںمیں باتوں کو کھینچنے اور دراز کرنے کی زیادہ کوشش ہوتی ہے- بات سادگی سے کہنے کی بجائے لفظوں کے زیادہ استعمال پر توجہ دی جاتی ہے-‘‘ اسی طرح ایسے پروگراموںمیں اجلاس کے بعد اوپن ڈسکشن بھی جدید طریق بحث کا جز ہے جس میں سامعین حصہ لیتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں - جدید علمی دنیا میں سامعین کو ’’ بزاخفش‘‘ سمجھنا کہ وہ صرف سنیں اور سرہلاکر چل دیں ، اچھا نہیں مانا جاتا -  
یہ کنونشن کئی جہتوںسے منفردو نمایاں اور اثر انگیز رہا- علامہ فضل حق خیرآبادی کے ڈیڑھ سوسالہ جشن پر اس نوعیت کاا ب تک کایہ سب سے بڑا پروگرام تھا- دہلی میں اہل سنت کی سرگرمیوں کی تاریخ میںبھی اس کا منفرد مقام ہے- یہ پہلا موقع تھا جب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس طرح کاکامیاب پروگرام منعقد ہوا جس میں ہرطبقے سے بڑی تعداد میں باشعور اور اہل علم سامعین شریک ہوئے اور پروگرام بغیر کسی بدنظمی کے وقت پر شروع ہوا اور وقت پر ختم ہوا- اس پروگرام کی رپورٹنگ بھی اچھی ہوئی- اخبارات نے نمایاں طورپر اس کی خبر شائع کی - روزنامہ راشٹریہ سہارا نئی دہلی ۱۹ ستمبر کی اشاعت میں زیر عنوان’’علامہ فضل حق خیر آبادی کے بغیر 1857کی جنگ آزادی کی تاریخ نا مکمل‘‘لکھتا ہے:
’’نئی دہلی،(یامین انصاری) 1857کی جنگ آزادعی کے عظیم مرد مجاہد علامہ فضل حق خیرآبادی نے ملک و ملت کے لئے جو قربانی پیش کی، اسے کسی بھی قیمت پر فراموش نہیں کیا جا سکتا-ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے مورخین ،محققین اور دانشوران قوم ان مجاہدین کی خدمات کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کریں- ان خیالات کا اظہار علامہ فضل حق خیرا آبادی کے ڈیڑھ سو سالہ یوم وفات کے موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد علامہ فضل حق خیرآبادی کنونشن میں مقررین نے کیا-خانقاہ قادری بدایوں، کے زیر اہتمام منعقد اس کنونشن کی سرپرستی کرتے ہوئے سید محمد اشرف نے کہا کہ جو قومیں اپنے ماضی کے ورثے کو بھول جاتی ہیں ، تو زمانہ بھی انھیں فراموش کر دیتا ہے- لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اسلاف اور بزرگوں کی خدمات اور پیغام کو عام کریں اور اپنے مستقبل کو تابناک بنائیں-کنونشن کی صدارت خانقاہ قادریہ، بدایوں کے سجادہ نشین شیخ عبد الحمید محمد سالم قادری نے کی-انھوں نے کہا کہ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ہمارے بزرگوں نے ملک و قوم کی خدمت کی روشن مثال قائم کی ، لہذا ہمیں آج زندہ اور آزاد قوموں کی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے-خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کنونشن کے کنوینر مولانا خوشتر نورانی نے کہا کہ تاریخ نے علامہ فضل حق کی جانب توجہ ہی نہیں دی-جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی علمی و فکری خدمات عوام تک نہیں پہنچ سکیں-اپنی افتتاحی تقریر میں مولانا مبارک حسین نے کہا کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے سیاسی ، تدریسی اور مسلکی اعتبار سے بڑی خدمات انجام دیں-اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ حکومت ہند کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جانی چاہئے-علامہ فضل حق کی خدمات کے اعتراف میںحکومت کو چاہئے کہ علامہ کی یاد میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کے-مولانا یاسین اختر مصباحی نے کہا کہ یہ کنونشن دعوت غو ر و فکر دیتا ہے- ان کے علاوہ مولانا اسید الحق بدایوں، علامہ غلام زرقانی امریکہ، مولانا ممتاز پاشا حیدر آباد،شکیل حسن شمسی، ڈاکٹر خواجہ اکرام جے این یو اور دیگر علما اور دانشوران نے اجلاس کو خطاب کیا-اختتامی تقریر کرتے ہوئے مولانا عطیف میاں قادری نے کہا کہ جہاد کے اصل معنی وہ ہیںجو علامہ فضل حق خیر آبادی نے دہلی کی جامع مسجد کے ممبر سے بلند کیے تھے، نہ کہ آج جس طرح معصوم لوگوں کا خون بہا کر اسے جہاد کا نام دیا جا رہا ہے-‘‘
علاوہ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے یہ خبر روزنامہ انقلاب، دینک جاگرن،روز نامہ اعتماد حیدرآباد، عالمی سہارا(یکم اکتوبر) اور ملک کے دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوئی-اس پروگرام کے دوررس اثرات مرتب ہوئے- ملکی سطح پر اس کا چرچہ اب تک ہورہاہے - ساتھ ہی بعض مخصوص حلقوں میں شدید تشویش بھی پائی جارہی ہے - اور اب تو چراغ سے چراغ جلنے لگے ہیں- اس پروگرام کے فورا بعد ہی دیوبند میں بھی ایک پروگرام منعقد ہوا -روزنامہ خبردار جدید دہلی مورخہ ۲۱ ستمبر ۲۰۱۱ء زیر عنوان ’’علامہ فضل حق خیرآبادی کے تذکرہ کے بغیر تاریخ ہند ادھوری ‘‘لکھتا ہے: 
’’ دیوبند ۲۰؍ستمبر (پریس رلیز) علامہ فضل حق خیرآبادی نے جنگ آزادی میںاہم کردار اداکیاجس کے تاریخی کارنامے تایخ کے صفحات میں ہمیشہ محفوظ رہیںگے- لیکن علامہ فضل حق خیرآبادی کے تعلق سے ہندوستانی مؤرخین نے یک طرفہ رویہ اپنا کر ان کے روشن کارناموں کو اکثر فراموش کرنے کی ناکام کوشش کی ہے- لیکن علامہ فضل حق خیرآبادی کے تذکرہ کے بغیر ہندوستا ن کی تاریخ نامکمل رہے گی- مولانا عبداللطیف قاسمی نے ’’زاویۂ لطیف ‘‘ قاسمی کالونی محلہ خانقاہ میں علامہ مرحوم کے حوالے سے منعقدہ ایک خاص پروگرام کے دوران کیا- لہٰذا ان کے ذریعہ ملک کی آزادی کی خاطر پیش کی جانے والی عظیم قربانی اور ان کی شجاعت اور حب الوطنی اور جذبوں سے درس لینا چاہیے - انہوںنے ان کے آبا واجداد کے تاریخی حوالے سے کہا کہ مولانا فضل امام کے بیٹے علامہ فضل حق خیرآبادی ’’ خیرالبلاد ‘‘ کے نام سے موسوم قصبے میں پیداہوئے جو ضلع سیتاپور کا ایک تاریخی قصبہ ہے- اردو کا سب سے پہلا اخبار اسی خیرآباد سے شائع ہوا جس کو صحافت کا مطلع اول قراردیاجانا بے جانہ ہوگا- مولانا نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار اداکرنے والے اور ملک کو انگریزوں کے جبر وتشدد سے نجات دلانے والے علامہ فضل حق خیرآبادی کے علمی کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ہندوستان میں جب علوم عالیہ پہنچے تو معقولات میں سب سے پہلے خیرآبادمیں اپنا بار عیش کھولا تو علم حدیث نے دہلی کا انتخاب کیااور علم فقہ میں سب سے پہلاپڑاؤ لکھنؤ میں کیا- پھر ان تینوں مقامات سے حجۃ الاسلام بانی دارالعلوم مولانا محمدقاسم نانوتوی نے ان علوم کو یکجا کرکے دیوبند میں جامع الخیرات دارالعلوم قائم کیا- بعدازاںان کے جانشین علامہ فضل حق خیرآبادی انگریزوںکے خلاف سب سے پہلے جہاد کا فتوی صادر کیا- جس کے پاداش میں ان کی گرفتاری کی گئی اور جزیرہ انڈمان کی جیل میں انہیں پس زنداں کیاگیاجہاں ا نہوںنے انگریزوںکے ظلم وستم سہے لیکن اس کے باوجو د بھی انہوںنے صادرکردہ فتوی واپس نہیںلیا-اور یہ کہہ کر ان کے ظلم وستم سہتے رہے کہ یہ فتوی واپس نہیں ہوگا- اوروہ آخری دم تک اپنی بات پر اٹل رہے اورانگریزوں کے ذریعہ انہیں اذیت ناک سزائیں دی گئیں لیکن ہندوستان کی آزادی کے جذبہ سے سرشار علامہ فضل حق خیرآبادی نے تما م عمر قیدوبند کی صعوبتیں جھیل کر مرض میں مبتلاہوگئے اور جیل ہی کے اندر انہوںنے داعی اجل کو لبیک کہہ کر ہندوستان سے حب الوطنی کا عملی نمونہ پیش کیا-آخر میں انہوںنے زوردے کر کہا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے اگر علامہ کا نام ہٹادیاجائے تو تاریخ ادھوری رہ جائے گی- انہوںنے کہاکہ دورِ حاضرکا تقاضاہے کہ ان کے نام سے اوران کی یاد میں کوئی یونیورسٹی حکومت کی جانب سے قائم کی جائے جس سے ہماری قوم کے بچے علامہ کے عملی کارناموںسے سبق حاصل کرسکیں- پروگرام کی صدارت مولانا عبداللطیف قاسمی نے کی اور نظامت مولانا شہاب الدین قاسمی نے کی - اس موقع پر مولانا ابراہیم قاسمی ، مولانا طیب ، مولانامسیح اللہ میرٹھی، مولاناسعید قاسمی، لبیب احمد خان، منیف احمد ، عبداللہ انصاری کے علاوہ دارالعلوم وقف کے طلبہ نے شرکت کی-‘‘ یہ خبر جس کے بعض مندرجات نہ یہ کہ قابل اتفاق نہیں ہیں بلکہ تاریخی طورپر بھی غلط ہیں ، اسی تاریخ میں روزنامہ انقلاب دہلی میں بھی شائع ہوئی - 
علامہ فضل حق خیرآبادی کے حوالے سے ایک دوسرا کل جماعتی پروگرام لکھنؤ میں ہونے جارہاہے جس کے محرک ڈاکٹر حفیظ الرحمن ہیںاور جس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شریک ہورہے ہیں - روزنامہ انقلاب دہلی مؤرخہ ۲۹؍ستمبر لکھتاہے :
’’ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۱ کو علامہ فضل خیرآبادی کی یاد میں ایک قومی کانفرنس کا انعقادکیاجائے گا- دارالقلم میں منعقد ایک میٹنگ میں اعلان کیاگیاکہ اس قومی کانفرنس میں خصوصی مقررکے طورپر دگ وجے سنگھ شرکت کریںگے جبکہ مرکزی وزیر سلمان خورشید بھی بطورمہمان خصوصی موجود ہوںگے- علامہ فضل حق خیرآبادی جن کی یاد میں قومی کانفرنس کا انعقاد کیاگیاہے انہیں ۱۸۵۷کے انقلاب میں پہلے مسلم مجاہد آزادی کے طورپر بھی جاناجاتاہے- وہ ایسے پہلے عالم دین تھے جنہوںنے انگریزوںکے خلاف جہاد کافتوی دیاتھا- انہیں انگریزوںنے کالاپانی کی سزا دیتے ہوئے انڈمان جیل میں ڈال دیاتھا جہاں ۱۸۶۱میں ان کی موت واقع ہوگئی تھی- ان کی ڈیڑھ سوسالہ برسی کے موقع پر ان کی ملک اور قوم کے لیے دی گئی خدمات کو یاد کرنے کے لیے کانفرنس کا انعقاد کیاگیاہے- کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر حفیظ الرحمن کی اطلاع کے مطابق لکھنؤ کے سائنٹیفک کنونشن سینٹر میں منعقد ہونے والے اس پروگرام میں۱۰۰؍ سے زائد مندوبین شرکت کریںگے جن میں علمائے کرام ، دانشوران اور سیاسی شخصیات شامل ہیں- ای ٹی وی اردوکے میڈیا پارٹنر کے طورپر ہونے والے اس پروگرام میں علامہ فضل حق خیرآبادی کی حیات وخدمات پر سوینئر کابھی اجراکیاجائے گا- اس پروگرام میں جن لوگوں کی شرکت متوقع ہے ان میں دگ وجے سنگھ ، مرکزی وزیر سلمان خورشید ، بینی پرساد ورما ، سری پرکاش جیسوال ، سچن پائلٹ، سید شہنواز حسین ، چودھری اجیت سنگھ ، قاضی رشید مسعود ، پروفیسر رام گوپال یادو، راج ببر، پرویز ہاشمی ، مہیش بھٹ ، مولانا عبیداللہ خان اعظمی، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، مولانا یٰسین اختر مصباحی ، پرفیسر اخترالواسع ، ڈاکٹر حمیداللہ بھٹ ، جسٹس محمدسہیل اعجاز صدیقی، عزیز برنی، شکیل حسن شمسی ، جگدیش چندرا کے علاوہ کئی نامور شخصیات کی شرکت متوقع ہے- واضح رہے کہ ای ٹی وی اردو اس پروگرام کو لائیونشرکرے گا- ‘‘ 
ابھی کام باقی ہے :-
میںنے شروع میں لکھا ہے کہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی تین حیثیتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں (۱) مذہبی حیثیت (۲) علمی حیثیت اور(۳) سیاسی حیثیت- پھر تینوں حیثیتوںکی میںنے تشریح وتوضیح بھی کی ہے- علامہ خیرآبادی کی وفات کے ۱۵۰؍سال گزرگئے لیکن اس کے بعد ایسی بلند پایہ اور نابغۂ دہر شخصیت ہمارا دینی ،علمی اور سیاسی موضوع نہیں بن سکی- ایساہونے پر کوئی بہت زیادہ حیرت بھی نہیں کیوںکہ تاریخ نے نہ جانے کتنے فضل حق کو اپنے اوراق میں دبادیا جو کبھی ابھر نہ سکے اور بالخصوص عہدزوال میں مسلم حافظہ اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اپنے محسنوں کو فراموش کرنے میں اسے اتنی بھی دیر نہیں لگتی جتنی کہ صبح سے شام ہونے میں لگتی ہے- لیکن اب وقت مرثیہ خوانی کانہیں رزمیہ گوئی کا ہے- اس لیے علامہ فضل حق خیرآبادی یا دوسرے محسنین ملک وملت پر ایک دو سیمینار اورکنونشن سے بات پوری نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑھ کر ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے محسنوں کو اس طورپر یاد کیاجائے کہ ان کی بارگاہ میںگوہر عقیدت لٹانے کے تقاضے بھی پورے ہوجائیں اور موجودہ عہد کی دینی وملی اور سیاسی وسماجی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہوجائے- ذکر فضل حق کے حوالے سے اس جہت پر جب ہم غورکرتے ہیں تو ان کی مذکورہ تینوں حیثیتوں کے پیش نظر یہ تین باتیں سامنے آتی ہیں - 
(۱) حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تک خانوادۂ ولی اللہی مسلم سنی ہندوستان کی دینی واعتقادی قیادت وامامت کا فریضہ انجام دیتارہا- یہ بات اس قدر مسلم الثبوت اور مستندہے کہ اس میں نہ ارباب دین و فتوی کو اختلاف ہے نہ اصحاب تاریخ وتحقیق کو کوئی کلام - مسئلہ شروع ہوتاہے شاہ اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان کی اشاعت سے جس کے بعد خانوادہ ٔ ولی اللہی کے دوفرد شاہ اسماعیل بن شاہ عبدالغنی بن شاہ ولی اللہ اور مولوی عبد الحی بڈھانوی داماد حضرت شاہ عبدالعزیز ایک طرف تھے اور پوراخانوادۂ ولی اللہی اورسلسلۂ تلامذۂ ولی اللہی دوسری طرف- پہلے گروہ کی قیادت شاہ اسماعیل نے کی جبکہ دوسری گروہ کی زمام علامہ فضل حق خیرآبادی نے سنبھالی- فکر ولی اللہی کی نیابت کا ان میںصحیح حقدارکون ہے؟ یہ مسئلہ اگر طے ہوجائے توبرصغیر میں اتحاد بین المسلمین کی راہ ہموار ہوسکتی ہے- علامہ فضل حق خیرآبادی کی شخصیت اس طرح اتحاد بین المسلمین کا عنوان بن سکتی ہے اگر اس جہت پر موجودہ تمام مکاتب فکرکے جید علما تعصبات سے بالاترہوکر غوروخوض کرنے بیٹھیں اورمتنازعہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے مناظرے کے بجائے مکالمے کے لیے آمادہ ہوں- 
(۲) علامہ فضل حق کو خاتم الحکماء اور امام الحکمۃ والکلام کہاجاتاہے بقول سرسید’’منطق وحکمت کی تو گویاانہیں فکرعالی نے بنا ڈالی ہے-‘‘ اور بقول مولوی جعفر تھانیسری ’’علم ومنطق کے پتلے اور افلاطون وبقراط وسقراط کی غلطیوںکی تصحیح کرنے والے تھے-‘‘ اور مولانا سید سلیمان ندوی کے لفظوں میں ’’جن کے دم عیسوی نے معقولات میں روح پھونکی کہ ابن سینائے وقت مشہورہوئے-‘‘ یہ کتنے بڑے قلق کی بات ہے کہ ہم تاریخ ہند کے اتنے بڑے فلسفی اورحکیم کو فراموش کربیٹھے ہیں - علامہ جس پائے کے امام معقولات ہیں اس کے اعتراف کا صحیح انداز صرف یہ ہوسکتاہے کہ ان کے نام سے کوئی قومی دانش گاہ قائم ہو یا کم ازکم کسی یونیورسٹی کے شعبہ ٔ  فلسفہ کو انکے نام سے منسوب کیاجائے، نیز ان کے نام سے آرکائیوز بنائے جائیں جن میں ان کی مطبوعہ وغیرمطبوعہ کتابوں اوربطور خاص معقولات کی کتابوں کی حفاظت کی جائے - ان کے نام سے یونیورسٹیز میں چیئرز قائم ہوں ، ان کی تحقیقات کی جدید تحقیق ،تفہیم ، طباعت اوراشاعت کاانتظام ہو- اگرایسانہیں ہوتاہے تو صرف قوم مسلم ہی نہیں تمام ہندوستانیوں پراپنے ملک کے ایک عظیم علمی اثاثے اور گرانقدر فلسفیانہ ذخیرے کے ضیاع کا گناہ عائدہو گا جس کفارہ وہ کبھی ادانہیںکرسکیںگے- 
(۳) علامہ فضل حق خیرآبادی کا جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں کلیدی حصہ ہے - معرکہ اودھ اور معرکہ دہلی دونوں میں انہوںنے فکری حصہ لیا اور پالیسی سازی کا کام کیا- وہ بہادرشاہ اورجنرل بخت خاں کے مشیرتھے- انہوںنے مجاہدین کی اعانت اوراہل کار حکام کی تقرری کی- بہادرشاہ کی حکومت کو آئینی حیثیت دینے کے لیے ایک دستور العمل مرتب کیا- انہوںنے گاؤکشی پر پابندی لگاکر انگریزوںکے خلاف ہندومسلم اتحاد کی فضاہموار کی-
 یہ حقائق بتاتے ہیں کہ علامہ فضل حق نہ صرف مجاہد جنگ آزادی ہیں بلکہ قائد انقلاب بھی ہیں- ایسے میںحکومت ہند کافرض ہے کہ خاص مواقع پرجب عام مجاہدین کو یاد کیاجائے توصف اول کے اس قائد انقلاب کو بھی یاد رکھا جائے- علامہ صرف مسلمانوںکے ہی رہنما نہیںہیں ملک وقوم کے قائد اوروطن کے محافظ بھی ہیں- اس لیے علامہ کی یاد کوقائم وباقی رکھنا، ان کے نام سے سیاسی شعبہ جات کا انتساب ، یادگاری عمارتوں کی تعمیر اور نصابی کتابوں میں ان کی شمولیت ملک عزیز کا افتخار اور قومی و وطنی ذمہ دار ی ہے- اس کام کو انجام دینے کی ذمہ داری بطورخاص مسلمانان ہند پر بلاامیتاز مسلک و مشرب عائد ہوتی ہے کہ اس سے وطن کی تعمیروترقی اور آزادی میںمسلمانوںکا بنیادی کردار کھل کر سامنے آئے گا- 
اگریہ امور بطور مشن انجام نہیں دیے گئے تو ہم صحیح معنوںمیں فضل حق کے عتراف سے سبکدوش نہیں ہوسکیںگے اور نہ ہی اس کے بغیر فضل حق کا ذکر مکمل ہوپائے گا-
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔