Tuesday 23 January 2018

کیا اسلامی وضع قطع ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

0 comments
کیا اسلامی وضع قطع ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
------------------------------------------------------------------------
اسلامی وضع قطع ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے یا نہیں، یہ جاننے سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ اسلامی وضع قطع ہے کیا؟ اور ترقی کا صحیح مفہوم کیا ہے؟کتب احادیث میں ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مذکور ہے: داڑھیاں بڑھاؤ، مونچھیں ہلکی کرلو اور اپنی صورت بت پرستوں، مجوسیوں اور کتابیوں سے مختلف رکھو۔ اپنی صورت ہر گز ان کی طرح مت بناؤ ( مفہوم احادیث)
اس کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ داڑھی اسلام کا شعار اور مسلمانوں کی پہچان ہے۔ مسلمانوں پر اپنے اس شعار کی حفاظت لازمی ہے۔ خاص طور سے جو حضرات علم دین کی دولت سے سر فراز ہیں ان پر یہ ذمہ داری دو گنی ہوجاتی ہے کیوں کہ شعار اسلامی کی حفاظت کے علاوہ اس کی تبلیغ بھی ان کا منصبی فریضہ ہے۔ نیز وہ جس معاشرے میں رہتے ہیں اس کا یہ جبری مطالبہ ہے کہ اپنے چہرے کو داڑھی سے سجا کر رکھیں، بصورت دیگر قوم کی نظر میں ان کی وہ حیثیت نہیں رہ جاتی جو ہونی چاہیے۔ 
داڑھی کے علاوہ اسلامی نقطۂ نظر سے جسم کی صفائی، بالوں کی صفائی، ناخن کی صفائی اور نظافت و پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اور جہاں تک لباس کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر نہایت واضح ہے، وہ یہ کہ لباس ایسا ہونا چاہیے جس سے مکمل طور پر ستر پوشی ہو، ایسے ہی عبادات و معاملات میں اس سے تکلف یا دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نیز وہ لباس کسی دوسری قوم کا شعار نہ ہو، جیسے ہندوستان میں دھوتی اور قمیص۔ شرٹ پینٹ شروع میں انگریزوں کا شعار تھا ،لیکن اب نہیں ہے، اب اسے بلا تفریق ہر مذہب وملت کے لوگ پہنتے ہیں۔ اسلامی لباس کے بارے میں اس سے زیادہ تعیین میرے لیے مشکل ہے۔ ہاں! ایک چیز ضرور تحقیق طلب رہ جاتی ہے کہ مسلمانوں کا مسنون لباس کیا ہے؟ یعنی پیغمبر دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کیا پہنتے تھے؟ اس کے لیے فقہ کی مبسوط کتابیں دیکھنی چاہیے۔ لباس کے بارے میں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ تقریباً ہر مذہب میں عوام اور مذہبی قائدین کے لباس میں فرق رہتا ہے۔ یہ فرق مسلم علماء اور عوام کے بیچ بھی ہے، مسلمانوں کا مزاج یہ ہے کہ عوام خواہ کچھ بھی پہنیں لیکن علماء کو وہ ان کے مخصوص لباس میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ’’ مخصوص لباس‘‘ ملک اور علاقے کے اعتبار سے مختلف ہے۔ مثلاً کیرالا کے علماء تہبند اور قمیص پہنتے ہیں اور سر پہ رومال لگاتے ہیں، دوسرے صوبوں میں کرتا پاجامہ یا کرتا شلوار اور کہیں تہبند بھی پہنتے ہیں اور سر پہ عمامہ یا ٹوپی لگاتے ہیں۔ ان چیزوں کو بعینہٖ اسی شکل وہیئت میں احادیث سے ثابت کیا جائے، کم از کم میرے خیال میں ناممکن عمل ہے۔ لیکن باوجود اس کے جب یہ مسلمانوں میں بطور شعار رائج ہیں ، تو انہیں اسی حال میں رکھنا ضروری ہے۔بلا وجہ عوام کے رجحانات کی مخالفت کر کے انہیں بدظن کرنا صحیح نہیں۔
کچھ لوگ اس سلسلے میں عراق، مصر، لبنان، ملیشیا، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک کے علماء کا حوالہ دیتے ہیں جو پینٹ شرٹ کے ساتھ ٹائی بھی شوق سے لگاتے ہیں، اور یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہندوستانی علماء کا اپنے مخصوص لباس کی پابندی کرنا ضروری نہیں، لیکن یہ تقابل اس لیے صحیح نہیں ہے کہ ہر ملک اور ہر علاقے کے مسلمان اپنی علاحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ اگر اس شناخت میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے تو اس کو اس کی حالت پر برقرار رکھنا ضروری ہے۔
فی الواقع ترقی ہے کیا؟ یہ سوال پہلے زمانہ میں زیادہ مشکل تھا، اسلام کے بعد یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں رہا۔ کیوں کہ اسلام سے پہلے بالعموم یا تو صرف جسم کی تعمیر ہوتی تھی، یا صرف روح کی، لوگ دنیا دار ہوتے یا دیندار، دنیا داری کا مفہوم تھا حیوانیت و درندگی، جو پاؤ کھاؤ اور جس طرح ہو خواہشات کی تکمیل کرو۔ اور دینداری کا مطلب تھا ترک دنیا، رہبانیت، نفس کشی، یہ دونوں راہیں غیر معتدل اور افراط و تفریط کی حامل تھیں۔ اسلام آیا تو جسم و روح دونوں کی تعمیر کا معتدل راستہ بتایا۔ جہاں ایک طرف لمبی آرزووں، دولت و ثروت کی خواہشوں اور دنیا کی رنگین بازاریوں سے پھیر کر آخرت کو مرکز نگاہ اور اصل مراد قرار دیا، وہیں لا تنس نصیبک من الدنیا فرما کر پاکیزہ رزق کمانے، اچھی زندگی گزارنے، صالح معاشرہ کی تشکیل دینے، ترک دنیا کو ترک کرکے دنیا والوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، اپنے حقوق حاصل کرنے اور فرائض کو نبھانے کا بھی حکم دیا۔ اسلام میں جہاں حرص دولت کی شدید مذمت آئی ہے۔ وہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے محتاجگی سے خدا کی پناہ مانگی ہے۔ اور اپنے اہل و عیال کو خوش حال و فارغ البال رکھنے کی تاکید فرمائی ہے۔اسلام کی ان معتدل تعلیمات کو سامنے رکھنے کے بعد ترقی کا صحیح مفہوم سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہ جاتی ہے۔ اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جسم و روح کی مکمل تعمیر کا نام ترقی ہے۔ ایک ترقی پسند آدمی کے لیے جتنا ضروری یہ امر ہے کہ وہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی زندگی کے لیے آرام و راحت کے اسباب مہیا کرے، کہیں اس سے زیادہ ضروری یہ امر ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کا نیک بندہ بنادے اور اپنی خواہش کو اس کے حکم کے تابع کردے۔ دوسرے لفظوں میں جس طرح دنیا کی عارضی زندگی کو خوش گوار بنانا ضروری ہے اسی طرح آخرت کی دائمی زندگی کے لیے سامان راحت کی تیاری بھی ضروری ہے۔ یہی اسلام کی صحیح راہ ہے اور اسی میں ترقی کا راز مضمر ہے۔ اور اس راستے تک پہنچنے کے لیے ہمیں زیادہ سر کھپانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے قرآن و احادیث کے واضح ارشادات ہمارے پیش نظر ہیں۔ علمائے اسلام نے ان کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد ان کے تقاضے و مطالبات تفصیل سے بیان فرما دیے ہیں، جن کی روشنی میں ہم اپنے آپ کو صالح عبدیت کے سانچے میں ڈھال سکتے ہیں، اور جہاں تک جسم کی تعمیر کے لیے خوش گوار زندگی گزارنے کا مسئلہ ہے، تو قرآن و احادیث سے اس سلسلے میں بھی ہمیں مکمل رہنمائی ملتی ہے۔ شریعت نے چند چیزوں کو حرام و ناجائز قرار دے کر (جنہیں تقریباً سب جانتے ہیں اور غلط سمجھتے ہیں )باقی تمام چیزوں کو جائز و مباح کردیا ہے، جن کو اپناکر ہم اپنی دنیاوی زندگی کو بھی پر سکون و پربہار بناسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں خدا کا یہ ارشاد ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ ’’ ان اللہ لا یضیع اجر من احسن عملا‘‘ ( اللہ تعالیٰ انسان کے حسن عمل کو ضائع نہیں کرتا ہے) یہ ارشاد ترقی کے لیے ایک مکمل ضابطہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس آیت میں ’’ حسن عمل‘‘ سے مراد صرف آخرت کے لیے کیا جانے والا’’ عمل خیر ‘‘ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عام دستور ہے۔ انسان جس چیز کے لیے بھی جدو جہد کرے خدا اس کی اس کوشش کو ضرور بار آور بناتا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ترقی و کامیابی خدا کے ہاتھ میں ہے اور خدا کا قانون یہ ہے کہ اس کے لیے جو بھی کوشش کرے گا اس کو وہ عطا کردی جائے گی۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کامیابی یاترقی، ظاہری حسن و جمال، جسمانی آرائش و زیبائش اور لباس کی رنگینی سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسلسل جدو جہد سے حاصل ہوتی ہے۔
آج جب کہ اہل مغرب مادی ترقی کی آخری سرحدوں سے گزر رہے ہیںاور اہل مشرق خصوصاً مسلمان ان کے مقابل بہت پیچھے ہوگئے ہیں، ایک بڑی غلط فہمی یہ پیدا ہوتی جارہی ہے کہ اہل مغرب کا عروج ان کی عریاں تہذیب اور بے مہار شہوت رانی سے وابستہ ہے۔ ہندوستانی اقوام میں صرف سکھ ایک ایسی قوم ہے جو اس غلط فہمی سے دور رہ کر کامیابی کے حقیقی ذریعہ ’’ جد وجہد‘‘ کو اپنائے ہوئی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ سیاست، معیشت، تعلیم، ٹکنالوجی اور زندگی کے دیگر میدانہائے عمل میں نمایاں مناصب پر فائز ہیں۔ ہندو قوم کی اکثریت بھی جدو جہد پر یقین رکھتی ہے، صرف قوم مسلم ہے جو صبح و شام زبانی طور سے اہل مغرب اور ان کی تہذیب کے خلاف اپنے آتش فشاں جذبات کا اظہارتو کرتی ہے مگر عملی طور پر مغربیت کے رنگ میں رنگتی جارہی ہے۔ اور ان کی اس سادہ مزاجی پر تو سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے کہ اس حیرت انگیز تغیر پذیر دور میں جس کی ہر نئی صبح ایک نئی ایجاد اور ایک نئی جہت کی تلاش کے ساتھ نمودار ہوتی ہے، بجائے اس کے کہ زندگی کے ہر شعبے خصوصاً تعلیم اور سیاست میں جی توڑ محنت کر کے ترقی کے سفر میں آگے بڑھتے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے یاد ماضی، ماتم امروز اور شکوۂ فردا میں مصروف ہیں۔ کچھ بے چارے اپنے گور و کفن کی تیاری کر کے امام مہدی کے نزول کا انتظار کررہے ہیں تو کچھ کے ذہن میں یہ بھوت سوار ہے کہ موجودہ دور میں ہرجگہ مسلمانوں سے تعصب کا برتاؤ ہورہا ہے ،اس لیے اپنی شکل و صورت اور کردار و عمل سے مسلمانیت کو ختم کردیا جائے جب ہی زندگی میں سکون اور سفر زندگی میں ترقی نصیب ہوسکتی ہے۔ اس مزاج کے حامل خصوصاً مدارس سے یونیورسٹیزکا رخ کرنے والے وہ طلبہ ہیں جن کو یونیورسٹیز میں آنے کے بعد جدو جہد کر کے میدان تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے کی فکر کم، اور جنس اور ٹی شرٹ لگا کر اپنے کو اسمارٹ دکھانے کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ یہ نہایت غلط رجحان ہے۔ اور یہ ترقی کی تلاش نہیں ترقی سے قصداً اپنے آپ کو محروم کرنا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کچھ لوگ سگریٹ نوشی کو اپنے لیے باعث فخر تصور کرتے ہیں جب کہ سگریٹ کے ڈبے پر یہ صاف لکھا ہوتا ہے۔Cigarette Smoking is injurious to health(سگریٹ نوشی صحت کے لیے سخت مضر ہے)
زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں با عزت جگہ پانے کے لیے اپنے اندرCapacity کی ضرورت ہے جو صرف جدو جہد سے حاصل ہوسکتی ہے۔ ترقی کے لیے ذاتی کمال اور ذاتی کمال کے لیے جدو جہد ایک منطقی ترتیب ہے، جس کو اپنانے کے بعد ناکامی پاس پھٹک ہی نہیں سکتی۔ کیوں کہ عمل کے بعد جزا دینا یہ خدائی دستور ہے، جو اٹل ہے۔ اس حقیقت کے عرفان کے بعد ہمارے لیے اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی کہ ’’ کیا علمی، ادبی، سیاسی، سماجی، سائنسی اور تکنیکی میدانوں میں ترقی کے لیے اسلامی وضع قطع سے علاحدگی ضروری ہے؟؟؟ اسی طرح اس کے بعد ہماری خود فریبیوں کے اس جالے کو بھی ٹوٹ جانا چاہیے کہ’’ اسلامی وضع قطع چینج کرنے کے بعد انسان ترقی کے سفر میں منزل سے قریب ہوجاتا ہے۔‘‘ ہاں! یہ ضرور ہے کہ بعض اوقات صرف داڑھی اور ٹوپی کی وجہ سے انسان بعض دفتروں سے لوٹا دیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں تو ایسا واقعہ بہت کم پیش آتا ہے۔ کیوں کہ شہروں میں آج آزادی اور سیکولر مزاجی ہے۔ کسی بھی شعبے میںSelection کے لیےCompetition (مقابلہ جاتی امتحان) نکالنا پڑتا ہے۔ جس میں (شاذ استثنائی صورتوں کے علاوہ) مذہب و مسلک سے قطع نظر آدمی اپنی ذاتی قابلیت(Evility) کی بنیاد پر کامیاب ہوتا ہے۔ اور اسی پرSelect کرلیا جاتا ہے۔ اس کی وضع قطع سے تعرض نہیں کیا جاتا۔ کیوں کہ کسی کو بھی آپ کے کام سے غرض ہوتی ہے نہ کہ آپ کی صورت سے۔ ہاں! کبھی کبھارایسے تنگ نظروں سے بھی پالا پڑ جاتا ہے جو آپ کی ہر چیز سے تو صرف نظر کرسکتے ہیں مگر آپ کی اسلامی تشخص ان کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے لگتی ہے جسے وہ کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی بعض مخصوص شعبے ایسے بھی ہیں جن میں داڑھی اور ٹوپی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک مذہبی انسان کے لیے کیا ضروری ہے کہ انہی گلیاروں کا طواف کرے؟ ترقی کی اور بھی تو راہیں ہیں ،اگر آپ میں عذر لنگ نہیں تو خدا کی زمین تو بڑی وسیع ہے۔
یہ سوال کہ ’’ ایک مسلمان کو ماڈرن ترقی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی حفاظت میں سے کس کو اختیار کرنا چاہیے؟‘‘ مغرب کے اس غلط پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ’’ اسلام تعلیم و ترقی کا مخالف ہے‘‘ جب کہ حقیقت میں اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے جو تعلیم کو انسانیت کے لیے ضروری قرار دیتا ہے اور مطالعۂ کائنات و تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اسلام میں عصمت و عفت کی حفاظت کو بھی اولین مقام حاصل ہے۔ ایسی ترقی جس سے دامن عصمت پر حرف آئے، حقیقت میں ترقی ہے ہی نہیںاور اگر کوئی مغربیت زدہ اسی کو ترقی کہنے پر مصر ہے تو پھر ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ اسلام ایسی ترقی کا سخت ترین مخالف ہے اور ایسی ترقی سے مسلمانوں کو پیچھے رہنا ہی ضروری ہے اور اگر ماڈرن ترقی سے مراد تعلیم، سائنس اور ٹکنالوجی کے جدید میدانوں میں پیش قدمی ہے (اور سچائی بھی یہی ہے) تو من حیث المذہب صرف اسلام ہی اس کا حامی ہے۔ مسلمانوں کو تیزی کے ساتھ اس کی طرف لپکنا چاہیے۔ کیوں کہ اس ترقی میں اور اسلامی تہذیب و ثقافت میں کوئی تضاد ہی نہیں ہے کہ کسی ایک کو اختیار کرنے کا سوال پیدا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ وضع قطع کا تعلق ترقی یا تنزلی سے نہیں، نفسیات سے ہے ،جس پر آج جدید ذرائع ابلاغ کا مکمل کنٹرول ہے۔ بالخصوص ایسے حضرات جن کے اندر قوت فیصلہ اور عقل و خرد کا جوہر کم اور انفعالیت و اثر پذیری کا مادہ زیادہ ہے، ان کی بے نور نگاہوں میں صرف اسی لباس اور ہیئت و صورت میں حسن و جمال کی ساری جلوہ سامانیاں منحصر نظر آتی ہیں جسے آج جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پیش کیا جارہا ہے۔ جب کہ اہل نظر خوب واقف ہیں کہ تصنع سے حسن بڑھتا ہے نہ عیب چھپتا ہے۔ اس لیے ایک باشعور اور ہوش مند آدمی کے لیے معتدل راستہ یہی ہے کہ دوسروں کے رنگ میں رنگنے کی بجائے خدا کے رنگ کو اختیار کرے، اسلامی وضع قطع کی پا س داری کا خیال رکھتے ہوئے حسب استطاعت عمدہ سے عمدہ لباس زیب تن کرے اور خدا کی عنایتوں اور اپنی کوششوں سے ترقی کے بلند ترین مقام حاصل کرے ،تاکہ ہماری بد حالی پر خندہ زن اقوام بھی ہمارے زندہ وجود کی معترف ہوسکیں۔ اسی میں جسم و روح کی تعمیر ہے اور یہی حقیقی ترقی ہے۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔