Tuesday 23 January 2018

آزادانہ غلامی یا غلامانہ آزادی --- آزادی کے نام پر پروانہ وار نظریاتی غلامی میں الجھتی دنیا پر ایک نظر

1 comments
آزادانہ غلامی یا غلامانہ آزادی 
آزادی کے نام پر پروانہ وار نظریاتی غلامی میں الجھتی دنیا پر ایک نظر
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
------------------------------------------------------------------------
مختلف حیوانوں کی متنوع اجناس کی متشابہ و مخالف شکلیں دیکھ کر ڈارون نے یہ گل افشانی کی کہ انسان بند رکی اولاد ہے، انسان ترقی کرکے انسان بناہے، اس نظریے کا نسل انسانی پر سب سے زیادہ مضر و منفی اثر یہ پڑا کہ انسان اپنے ہر پچھلے لمحے پر طعن و تشنیع کرنے لگا اور ہر نئی چیز کی طرف بڑھنے لگا، نتیجہ یہ ہوا کہ ڈارون کے واہمہ میں کتنی سچائی ہے، اس سے قطع نظر انسان تیزی کے ساتھ بندر بننے کی کوشش کرنے لگا۔ فیشن جو Something differentکانام ہے، انسانی ذہنیت کے ارتقائی سفر کا نقطۂ ارتکاز بن گیا، انسانی ذہنیت پر Something better کی بجائے Something different کا بھوت ایسا سوار ہوا کہ ترقی یافتہ دور کا انسان انسان سے محبت کرنا چھوڑ دیا، کتوں بلّوں کے پیر دھل کر اپنے قلبی اضطراب کو سکون بخشنے لگا، مرد و عورت کا حجاب اٹھ گیا، برابری اتنی بڑھی کہ مرد کو نہ عورت کی ضرورت رہی اور نہ عورت کو مرد کی، اپنی ضروت کسی سے اور کسی بھی طرح سے پوری کی جانے لگی، کبھی انسان نے ترقی کرکے کپڑے پہنے تھے اب اس کا ارتقائی سفر کپڑے اتارنے کی طرف ہے، نہ مرد مرد ہو کر مطمئن ہے نہ عورت عورت رہ کر مطمئن، جسم کو پینٹ کیا جانے لگا شکل و صورت میں تبدیلی کی جانے لگی، رنگ و روغن بدلے جانے لگے، سچ اور جھوٹ کی تعریف مٹائی جانی لگی، اخلاق و کردار کے فلسفے پرانے خیالات بن گئے، حقیقت وریلیٹی بے معنی الفاظ ہوگئے، صحیح اور غلط جیسے الفاظ سماعت پر بار بن گئے اور یہ سب کچھ ارتقا اور آزادی کے نام پر ہوا۔
’’اخلاق‘‘ جس کی بنیاد اس فلسفے پر ہے کہ کچھ چیزیں اچھی اور بھلی ہیں اور کچھ غلط و ناروا، اور جس کے نتیجے میں ’’قانون‘‘ بنتاہے تاکہ اس کا نفاذ ہو اور اس بات کی کوشش ہو کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اچھے انسان بن سکیں، اس کو مسترد کردینے کے کا مطلب ہے ’’اباحیت‘‘ کو قبول کرنا۔ آج کے انسان کے سامنے بس یہ دو ہی راستے ہیں کہ اگر اسے صحیح اور غلط کے چکر میں پڑے رہناہے تو ’’اخلاق‘‘ کو گلے لگالے اور پھر قانون کی بات کرے اور اگر وہ ’’اباحیت پسندی‘‘ کا دلدادہ ہے تو پھر کسی مسئلہ میں اسے Right یا Wrong کہنے کا حق نہیںہے۔ اور نہ اسے قانون بنانے، یا اس کو اَپلائی کرنے کا حق ہے، اس صورت میں اگر کوئی ساھوکار کسی غریب کو دس دے کر اس سے بیس وصول کرسکتاہے تو کوئی غریب بھی اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کسی ساہوکار کی تجوری پراپنا ہاتھ صاف کرسکتاہے اور ان میں کسی کے عمل کو نہ غلط قرار دیا جاسکتاہے اور نہ کسی کو مجرم۔
’’مابعد جدیدیت‘‘(Post Modernism) کے اس دور میں جب کہ چند بیمار ذہنوں نے ’’اباحیت پسندی‘‘ کا علم اٹھا رکھا ہے آج کا کوئی بھی انسان یہ صاف صاف کہنا نہیں چاہتا کہ وہ کس خیمے کا فرد ہے، وہ اباحیت پسندی کی حمایت میں ہے یا مخالفت میں، جب بات قانون و اصول کی روشنی میں اس کی مرضی اور طبیعت کے خلاف کہی جاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو ’’اباحیت پسند‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے اور صحیح و غلط کے پیمانے کو ایک دل آزار تبسم سے توڑ دیتاہے اور جب اسے خود اپنی مرضی کی بات کہنی ہوتی ہے تو وہ اصول اور قانون کی بات کرتاہے، صحیح و غلط کے پیمانے بناتا ہے، اقدار کی دہائی دیتا ہے، ترقی کے فلسفے سمجھاتاہے، حالاں کہ جب وہ ٹیگور کے اس فلسفے کو مان لیا کہ ہر بچہ اپنی زندگی کا خود فیصلہ کرے، والدین اسے اپنے اصول و روایات نہ سمجھائیں تو پھر اسے اصول، قانون اور ترقی پر تقریریں کرنے کا کس نے حق دیا-
انسانیت کے حالیہ بحران اور اضطراب و کشمکش کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کا یہی دو رخا رویہ ہے، جب ان کی فکر، ان کے مزاج، ان کے ملک، ان کی جماعت یا ان کے مذہب کے لوگ کوئی پالیسی بناتے ہیں، کوئی بات کہتے ہیں، کوئی طریقہ اپناتے ہیں تو اسے آزادی فکر ونظر کے نام پر خوش ہوکر گلے لگالیتے ہیں، لیکن اگر دوسری فکر کے حامل، دوسرے مزاج کے لوگ، دوسرے ملک و مذہب کے افراد ان کی مرضی کے خلاف کچھ کہنا یا کرنا چاہتے ہیں تو اس پر بینڈ لگ جاتاہے، پابندی عائد کردی جاتی ہے، ایسے مواقع پر نہ آزادی فکر کا نام لیاجاتاہے اور نہ آزادی مذہب کا، بلکہ اس سے ہٹ کر خود ساختہ اصول بنائے جاتے ہیں اور دوسروں کو انھیں اپنانے پر مجبور کیاجاتاہے۔
آزاد لوگوں کا یہ دو رخاپن سب سے زیادہ اسلامی ثقافت و روایت اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے سامنے آتاہے، یہی وجہ ہے کہ آج اگر کوئی مرد جھمکے اور بالیاں پہن لے، کوئی شلوار کرتی زیب تن کرلے، سر میں چوٹیاں گوندھ لے ، کوئی عورت سر کے بال منڈادے، جسم دکھانے والے کپڑے پہن لے، یا کپڑے کے نام پر کچھ بھی پہن لے، یا پھر مردوں والی شان، رنگ و آہنگ، طرز و ادا اپنا لے، یا جو کچھ بھی کرلے تو ایسے مرد وعورت بلاجھجھک کہیں بھی آجاسکتے ہیں، اچھے سے اچھے آفیسیز میں نوکری کرسکتے ہیں، بذریعہ ایئرویز سفر کرسکتے ہیں، لیکن اگر کوئی مسلمان اپنی مرضی سے اپنی اعلیٰ تہذیب و ثقافت اور تمدن کو اپنالے، مرد داڑھی رکھ لے، عورت حجاب ڈال لے تو ایسے لوگوں پر آج کی آزاد دنیا زندگی کے حصار تنگ کردے رہی ہے۔ انہیں سفر میں صعوبتیں جھیلنی پڑ رہی ہیں، ویزا اور پاسپورٹ کے حصول میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہے، انہیں نوکری دینے سے نہ صرف کمپنی مالکان گریز کررہے ہیں بلکہ حکومتیں بھی ایسے لوگوں کو اپنی پالیسی کے ذریعے نوکری سے قانوناًمحروم کررہی ہیں اور ان کی یہ حالت زار اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک اپنی مرضی، اپنے ضمیر اور طبیعت و ارادے کے خلاف وہ رنگ و روپ اختیار نہ کرلیں جو آج کے اکثریتی خدا بیزار ، مادیت پرست آزادوں کاہے۔ اس موڑ پر پہنچ کر آزادی کافلسفہ شک کے دائرے میں آجاتا ہے اور ایک انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ آیا آزادی ضمیر کی آزادی کا نام ہے یا خدا کی بالرضا طاعت سے بالاکراہ مادیت پرستوں کی روش کو قبول کرلینے کانام ہے، دنیا کے ’’روشن دماغ‘‘ آج کیا انسانوں کو خدا سے، مذہب سے، روایت و ثقافت سے، ماضی سے، تاریخ سے  آزاد کرانے کی فکر میں ہیں یا اپنے خود تراشیدہ خدائوں کے گرد جھکانے اور خود ساختہ روایت و ثقافت کو انسانیت کے دل و دماغ پر مسلط کرنے کی فکر میں ہیں، اس سطح پر پہنچ کر بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ آج انسان آزاد ہوا ہے یا اس نے ایک غلامی سے نجات پاکر دوسری غلامی کو گلے لگایاہے۔
خشونت سنگھ کے مشہور ناول Train to Pakistan کا ایک مسلم کردار ایک تعلیم یافتہ شخص کے سامنے آزادی ہند کے فلسفے کو رد کرتے ہوے کہتاہے: ’’آزادی در اصل ان تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے ہے جو اس کے لیے لڑ رہے ہیں، ہم پہلے انگریز کے غلام تھے اور اب ہندوستان یا پاکستان کے چند پڑھے لکھے لوگوں کے غلام بننے والے ہیں۔‘‘ آج کی دنیا میں جہاں کہیں بھی آزادی کے نعرے بلند کیے جارہے ہیں سب کے خلاف یکساں طور پر یہی بات کہی جاسکتی ہے، دنیا کے مٹھی بھر دماغ پوری دنیا کو اپنی فکر کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش میں ہیں، جو بے خدا ہیں وہ مذہبی لوگوں پر ہزاروں الزام رکھ کر ’’مذہب کی غلامی سے آزادی‘‘ کے نام پر اپنی ’’ذہنی غلامی‘‘ کے حصار میں بند کرنے کی فکر میں ہیں، مذہب روایت ہے، تہذیب روایت ہے، ثقافت روایت ہے، تاریخ روایت ہے، ایک انسان کو روایت پسند نہیں روایت شکن ہونا چاہیے، اس فلسفے کو مختلف انداز میں عام کرنے کوشش ہورہی ہے مگر یہ خلا میں پائوں رکھنے والے لوگ یہ فراموش کیے بیٹھے ہیں کہ انسان روایت سے آزاد نہیں ہورہاہے بلکہ ایک روایت سے نکل کر دوسری روایت کا اسیر بنتا جارہاہے، مذہب سے آزاد نہیں ہورہاہے بلکہ ایک خدا کی بندگی سے نجات کی فکر میں انسانی دیوتائوں کو خدا کا درجہ دیتا جارہاہے۔ اس مقام پر یہ فیصلہ کرنا شاید ہمارے لیے آسان ہونا چاہیے کہ آیا ماضی کی غلامی بہتر تھی جس میں انسان آزادانہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتاتھا یا حال کی آزادی اچھی ہے جس میں انسان اپنے ضمیر کے خلاف بے تابانہ غیروں کی تقلید، حیوانوں کی نقل اور وحشیوں کی حکایت کرنے لگا ہے؟؟ آج ایک نوجوان داڑھی رکھنا چاہتاہے مگر اسے خوف ہے کہ لوگ اسے روایت پسند نہ کہہ دیں، ایک دوشیزہ نقاب اوڑھنا چاہتی ہے لیکن خوفزدہ ہے کہ کہیں اسے فرسودہ خیالات کے طعنے نہ سہنے پڑیں، ایک باپ بغیر رقص و سرود اور اسراف و فضول کے اپنی اولاد کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتاہے مگر خائف ہے کہ کہیں اسے بخیل، کنزروییٹو اور عصر جدید کے تقاضوں سے بے خبر نہ سمجھ لیا جائے، ایک ہند وبچے کے برتھ ڈے کی بجائے کرشن کا جنم دن زیادہ اتساہ سے منانا چاہتاہے مگر اسے خطرہ ہے کہ کہیں لوگ اسے ماڈرن ایج  کے خط مستقیم سے بہکا ہوا نہ خیال کرلیں، ایک ماں چاہتی ہے کہ بیٹے کے روبرو جنسی مسائل پر بحث نہ کرے لیکن وہ بھی ڈر رہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سماج اس پر باحیا یا مشرقیت زدہ ہونے کا بہتان باندھ دے، اگر یہ ساری صورتیں ہمارے سماج میں، سوسائٹی میں، گھر آنگن میں موجود ہیں تو پھر بتایا جائے کہ آزادی ضمیر کہاں ہے؟ آزادی فکر و خیال کہاں ہے؟ آخر آج یہ کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ کپڑا اتارنا ہی آزادی ہے ، کپڑا پہننا غلامی ہے؟ اگر یہ فلسفۂ آزادی ہے تو غلامی کا مفہوم کیا ہے؟؟
ہم کس آزادی کی تلاش میں ہیں؟
آزادی ایک شیریں لفظ ہے جو انسان کے اندر خوش گوار تاثر دے جاتاہے، یہ تاثر عموماً گمراہ کن ہوتاہے، ہر آدمی اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے اس لفظ کا سہارا لیتاہے، اس لفظ کو عوامی، سیاسی ، حکومتی اور قانونی تائید حاصل ہوگئی ہے، اس کے چلن کی واحدو جہ اس کا فردوس بداماں وہ مفہوم ہے جو خیال شریف میں اترتے ہی آدمی کو احمقوں کی جنت میں ڈال دیتاہے (آزادی= ہر شخص کی اپنی مرضی کی زندگی) حالاں کہ اس دنیا میں ایسی زندگی ممکن ہی نہیں ہے، یہاں افہام و تفہیم (Understanding) کی زندگی انسان کی مجبوری ہے۔ وہ جب بھی آزادی کے نام پر لاقانونیت کو ہوا دے گا نزاع اٹھ کھڑا ہوگا، جنگیں شروع ہوجائیں گے، احتجاجات ہوں گے اور ایک ایسا Clash ہوگا جس کے تصفیہ کے لیے ایک ہی راستہ ہوگا افہام و تفہیم کا۔ ہمارے سامنے اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں کہ جب آزادی کے نام پر کچھ سرپھرو ںنے بدتمیزیاں کیں جن سے دنیا میں بدامنی اور ناگفتہ بہ صورت حال پیدا ہوگئی اس کو بالآخر افہام و تفہیم سے ہی ختم کیا گیا۔
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ دنیا میںمکمل آزادی ممکن نہیںورنہ آپ کی گاڑی منزل کی طرف بڑھ ہی نہیں سکتی، آزادی کا تقاضا ہے کہ اگر آپ سڑک کے داہنی طرف کھڑے ہیں تو آپ وہیںسے داہنی طرف اپنی گاڑی دوڑانا شروع کردیں، حالاں کہ اگر آپ Leftway ملکوں میں ایسا کرتے ہیں تو فوراً راستے بند ہوجائیں گے اور آپ کی گاڑی منزل پر پہنچنے کی بجائے تھانے پہنچ جائے گی، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ جس جگہ کھڑے ہیں اس جگہ کے اصول و ضوابط کیا ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ آزادانہ طور پر اپنا عمل جاری رکھ سکتے ہیں، مثلاً اگر آپ روڈ کراس کرکے بائیں طرف آگئے تو اب تیزی کے ساتھ اپنی گاڑی دوڑا دیجیے، نہ کوئی آپ کو روکنے والا ہوگا اور نہ آپ دوسروں کے لئے الجھن یا پریشانی کا سبب بنیں گے۔
ہمارے سامنے آزادی کے یہ دو مفہوم ہیں، اب ہم فیصلہ کرلیں کہ ہمیں کون سی آزادی چاہیے، ایسی آزادی جس کے بعد ہم آزاد نہ جی سکیں یا ایسی آزادی جس کے بعد گاڑی رک جائے اور کاروبار ہی بند ہوجائے۔
آئیڈیالوجی یا ڈِس آئیڈیالوجی:-
دنیا چند نظریوں پر چلی ہے اور چل رہی ہے، حکومتوں نے نہ کبھی حکمرانی کی تھی نہ وہ کریں گی، حکومتیں ہر دور میں نظریوں کے تحت رہی ہیں اور آج بھی ہیں، ایک عرصہ سے مابعد جدیدیت کا شور برپا ہے، جس کے دلّال بڑے زور و شور کے ساتھ اس کا نعرہ بلند کررہے ہیں کہ کسی ایک نظریے کی پیروی کرنا غلط ہے، آج کا دور ڈِس آئیڈیالوجی کا دور ہے، اس میں کسی ایک نظریے کی پیروی کرنا، یا نقد و نظر کا کوئی ایک پیمانہ بنانا سراسر غلط ہے، جو جیسے ہے اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، آزادی (Freedom)کا تقاضا یہی ہے۔
ذرا سوچیے یہ لوگ اپنے دعوے میں کتنے جھوٹے ہیں، بھلا بتایا جائے کہ کیا ڈِس آئیڈیالوجی ایک آئیڈیالوجی نہیں ہے، اور اس کے علم بردار کیا کسی ایک زوایۂ فکر کے اسیر نہیں ہیں؟ اگر نہیں تو انھیں ہنگامہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ، خاموش رہیں جو جیسا سوچ یا کررہاہے اسے کرنے دیں-دوسروں پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کی کوشش اور نظریوں سے انسانیت کو نجات دینے کی جد و جہد کیا متضاد عمل نہیں ہے؟
سچائی یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر ڈِس آئیڈیالوجی کا سرے سے امکان ہی نہیں ہے، اس حقیقت کے عرفان کے بعد ’’مکمل آزادی کا مطالبہ‘‘ اندھے سے دیکھنے ، بہرے سے سننے اور اپاہج سے دوڑنے کا مطالبہ ہے-ایسے میں آزادی کے تعلق سے یہ سوال اہم ہوجاتاہے کہ دنیا میں آخر کس نوعیت کی آزادی ممکن ہے؟
میرا مانناہے کہ آزادی کو تدریج سے جوڑ دیاجائے اور اسے مرحلوں کے پابند بنادیا جائے۔ مثال کے طور پر پہلے مرحلہ میں ایک انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خدا کو مانے یا نہ مانے، لیکن اگر خدا کو وہ مان رہاہے پھر دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش نہ کرے، بلکہ کوشش اس بات کی کرے کہ دنیا کے امور و معاملات اس کے خالق کی مرضی کے مطابق طے ہوں۔ اسی طرح کسی کو اسلام قبول کرنے یا نہ کرنے کا حق ہے مگر قبول کرنے کے بعد قرآن کو رد کرنے، نماز کا انکار کرنے یا زکوٰۃ روک لینے کا حق نہیں، اسی طرح کسی کو یہ حق ہے کہ وہ امت مسلمہ کی بڑی جماعت سے وابستہ رہے یا انفرادیت اور تنہائی کا مسلک اختیار کرے……
لیکن بڑی جماعت سے جڑنے کے بعد امت کے جو متوارث عقاید و نظریات ہیں ان پر اسے شبخون مارنے کا حق نہیں، ایسے ہی کوئی شخص اگر اپنے آپ کو اس قابل پاتاہے کہ خود سے قرآن و حدیث سے مسائل کا استخراج و استنباط کرلے تو اسے اجتہاد کرنے کا حق ہے لیکن جہالت کے باوجود صرف طبیعت پر گرانی کی وجہ سے اسے تقلید کو رد کرنے کا حق نہیں۔ بااصول آزادی کی یہ چند مثالیںہیں جن کی روشنی میں صحیح معنوں میں آزادانہ زندگی گذاری جاسکتی ہے۔ شہری زندگی میں اس کی مثال یہ ہے کہ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ سفر کرے یا نہ کرے، لیکن سفر کرنے کی صورت میں سفر کے جو اصول ہیں ان کی پیروی لازم ہے، غورکیجیے تو پتہ چلتاہے کہ اصولوں کی پیروی ہی صحیح آزادی دلاتی ہے، اصولوں کی پامالی سے یا تو نزاع کھڑا ہوتاہے، لاقانونیت بڑھتی ہے یا پھر کوئی سسٹم اپنے ٹریک سے ہٹ کر چند لوگوں کی مرضی پر منحصر ہوجاتاہے-
اس گفتگو کی روشنی میں سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین، ظفرآغا، جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور دوسرے سیکولر لوگوں کی آزادی کے نام پر دل آزار تحریر و تقریر کا جائزہ لیجیے تو یہ واضح ہوجاتاہے کہ ان کے اسلامی درد اور اجتہادی فکر کی حقیقت کیا ہے، ان کی گفتگو متنازع اس لیے ہوجاتی ہے کہ اولاً یہ تو اپنے منصب و مقام سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہے یا پھر اپنی طبیعت کو اسلامی شریعت پر تھوپنے کی کوش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے انہیں اسلامی شریعت کو قبول کرنے یا نہ کرے، اس پر عمل پیرا ہونے یا نہ ہونے کا تو حق ہے لیکن اپنی طبیعت کو اسلام بنانے کا حق تو انہیں کسی طور پر نہیں دی جاسکتی۔ ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ اسلام کو مانے یا نہ مانے لیکن یہ حق بھلا کیسے کسی کو دیاجاسکتاہے کہ قرآن و حدیث کی بجائے اپنی آزادنہ سوچ کی بنیاد پر اسلام کی تشکیل جدید کرے، کیا ہندوستان کی مقننہ، انتظامیہ یا عدلیہ کے اندر پاکستانی ماہرین قانون کا تبدیلی کا مطالبہ کرنا درست ہے؟ کیا کوئی عقل و ہوش میں رہتے ہوئے پاکستانیوں کو یہ آزادی دے گا کہ وہ ہندوستانی حکومت کی تشکیل میں اپنی رائے کا استعمال کریں؟دراصل مسلم دانشوروں کا یہ اختلاف ان کے آئیڈیالوجی کے اختلاف کا نتیجہ ہے، اختلاف آزادی اور قید کا نہیں، اسلام ازم اور سیکولرازم کا ہے۔ جسے جو عزیز ہے وہ اس کا سپورٹ کرتاہے، ان میں سے نہ کسی کو آزاد خیال کہنا درست ہے نہ کسی کو تنگ نظر کہنا روا۔  
*****

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔