Saturday 13 January 2018

جدید خارجیت ---- جو امت مسلمہ کو جنگ اور تباہی میں جھونکنے کے درپے ہے

0 comments
جدید خارجیت
 جو امت مسلمہ کو جنگ اور تباہی میں جھونکنے کے درپے ہے
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
---------------------------------------------------------------------

خوارج کون تھے؟
 معروف اسلامی مورخ ابو الفتح محمد بن عبد الکریم شہر ستانی (۵۴۸ھ) لکھتے ہیں: ’’ خوارج وہ لوگ ہیں جنہوں نے امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خلاف معاملۂ تحکیم کے وقت علم بغاوت بلند کیا- کوفہ کے ایک علاقہ حروراء میں وہ جمع ہوگئے، امیر عبد اللہ ابن الکواء ، عتاب بن الاعور، عبد اللہ بن وہب الراسبی، عروہ بن حدیر، یزید بن عاصم المحاربی اور حرقوص بن زہیر عرف ذو الثد یہ ان کے لیڈر تھے- نہروان کے دن ان کی تعداد بارہ ہزار تھی، وہ پابند صوم وصلوٰۃ تھے، یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ان کی نمازوں اور روزوں کو دیکھ کر تم اپنی نماز اور روزے کو بہت حقیر سمجھوگے لیکن ایمان ان کے حلق سے نہیں اترے گا-یہی وہ جماعت ہے جس کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک گستاخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کہاتھا کہ ’’ اس شخص کی پشت سے ایسی قوم پیدا ہوگی جودین سے ایسے ہی نکل جائے گی جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے-‘‘اسی جماعت کا پہلا شخص ذو الخویصرہ تھا اور آخری شخص ذو الثدیہ تھا-‘‘ ( الملل والنحل: ۱؍۱۰۷، ۱۰۸،دار الکتب العلمیہ،بیروت) 
خارجی لیڈر عبد اللہ بن وہب الراسبی کی عبادت و ریاضت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے دونوں گھٹنے کثرت سجدہ کی وجہ ایسے گھس گئے تھے کہ اونٹ کے گھٹنوں کی طرح معلوم ہوتے تھے- اسی وجہ سے اس کا نام ’’ذی ثفتات‘‘ (گٹھوںوالا) پڑگیا تھا-
( العقاید والادیان ،ص: ۲۲۵)
جامع اردو انسا  ئیکلوپیڈیا کا مقالہ نگار لکھتا ہے:
’’ یہ اسلام کا ایک سیاسی فرقہ ہے -اس کا آغاز جنگ صفین (حضرت معایہ اور حضرت علی کے درمیان کی جنگ) میں ہوا- اس جنگ میں جب امیر معاویہ نے اپنی شکست کو محسوس کرلیا تو انہو ںنے ثالثی یا تحکیم کی تجویز رکھی اور حضرت علی نے باوجود فتح کے آثار نظر آنے کے اس تجویز کو منظور کرلیا- مصالحت کے لیے امیر معاویہ کی طرف سے عمر وبن العاص اور حضرت علی کی طرف سے ابو موسیٰ اشعری ثالث مقرر کردیے گئے-تحکیم کا آخری فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت علی کو خلافت سے علاحدہ کردیا گیا اور معاویہ بحال رہے- اس کے بعد جن لوگوں نے حضرت علی کو تحکیم قبول کرنے پر مجبور کیا تھا وہ جلد ہی اپنے خیالات سے منحرف ہوگئے اور تحکیم کو ایک جرم قرار دینے لگے-انہوں نے’’ لا حکم الا للہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور حضرت علی سے مطالبہ کیا کہ آپ نے تحکیم کو قبول کرکے ارتکاب کفر کیا، اس لیے آپ اپنے کفر کا اقرار کرکے توبہ و استغفار اور تجدید ایمان کیجیے- حضرت علی نے ان کے سامنے ایک خطبہ دے کر ان کے استدلال کی غلطی کو واضح کیا اور نہروان میںجنگ کرکے انہیں شکست فاش دی-‘‘(جامع اردو انسا ئیکلوپیڈیا: ۸؍۲۲۴، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی ۲۰۰۳ء)
جدید خوارج: جدید خوارج کون ہیں ؟ کہاں، کب اور کیسے پیداہوئے؟ ان سوالات کاجواب تعین کے ساتھ دینا مشکل و دشوار بھی ہے اوراس سے بہت سے آبگینوں کے ٹوٹ جانے کا خوف بھی ہے- ویسے یہ طے ہے کہ قدیم خوارج جمہور کے موقف و طریق کے مخالف ایک متشدد جماعت تھی، حضرت علی نے جس کا خاتمہ کرکے امت کو ایک فتنۂ عظیم سے محفوظ کیا- اس تناظر میں جدید خوارج کاجائزہ لیجیے تو ان کے بارے میں بھی یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جدید خوارج بھی جمہور کے موقف و طریق کے خلاف ایک متشدد جماعت ہیں - البتہ جدید خارجیت کو ہم قدیم ابتدائی خارجیت کی طرح کسی ایک لڑی میں نہیں پروسکتے، بلکہ جس طرح قدیم خوارج بعد میں مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے تھے، جو جزوی اورفروعی مسائل میںمختلف ہوتے ہوئے بھی کچھ خاص مسائل مثلاً تکفیر علی ومعاویہ وغیرہ میں مشترک تھے ، اسی طرح جدید خوارج بھی مختلف شکل اور رنگ میں پائے جاتے ہیں، مختلف ناموںسے جانے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بعض امورمثلاً جارحیت و عسکریت پسندی وغیرہ قدر مشترک کے طور پر ان میں پائے جاتے ہیں-
جدید خوارج میں ایک قدر مشترک دینداری ہے- خاکم بدہن! ہم دینداری یا اتباع شریعت کے خلاف لب کشائی کا تصور نہیں کرسکتے، یہاں صرف یہ بتانا مقصودہے کہ جدید خارجیت کی کوئی شکل شاید ایسی نہیں مل سکتی جو دین داری اور اتباع احکام شرع میں تساہل برتنے والی ہو- بلکہ وہ اس معاملے میں تصلب بلکہ تشدد و تطرف پر آمادہ نظر آتے ہیں- قدیم خارجیت کے اندر بھی یہ وصف بطور قدر مشترک تھا،اسی لیے عبد الکریم شہرستانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ان کی نمازوں اور روزوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے‘‘
جدید خوارج میں دوسرا وصف مشترک یہ ہے کہ ان کی سوچ پر بھی سیاست و حکومت کا غلبہ ہے اور قدیم خوارج کی طرح یہ بھی ایک طرح سے متطرفانہ سیاسی نظریے پر قائم ہیں- ہم یہ نہیں کہتے کہ دین کا سیاست سے کوئی رشتہ نہیں، یا سیاست مذہب سے باہر کی کوئی شئی ہے، مسئلہ سیاست میں جدید خوارج سے جمہورامت مسلمہ کا اختلاف صرف دو بنیادوں پر ہے - پہلی شئی یہ ہے کہ جمہورسیاست کو مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں جب کہ جدید خوارج قولاً نہ سہی، عملی طور پر مذہب کو سیاست کا حصہ سمجھتے ہیں-دوسری بات یہ ہے کہ جمہور سیاست و حکومت کے لیے دین اور اہل دین کی قربانی کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ دین اور اہل دین کی مصلحت کے لیے وہ سیاست و حکومت سے دست برداری کو ضروری سمجھتے ہیں جب کہ جدید خوارج سیاست و حکومت کے لیے مذہب اور اہل مذہب کی قربانی کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ آج پوری دنیا میں سیاست وحکومت کے لیے اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کی قربانی کا فریضہ بڑی خوشی سے جہاد اور احقاق سمجھ کر ، انجام دے رہے ہیں-
جدید خوارج:-
 جدید خوارج کون ہیں ؟ کہاں، کب اور کیسے پیداہوئے؟ ان سوالات کاجواب تعین کے ساتھ دینا مشکل و دشوار بھی ہے اوراس سے بہت سے آبگینوں کے ٹوٹ جانے کا خوف بھی ہے- ویسے یہ طے ہے کہ قدیم خوارج جمہور کے موقف و طریق کے مخالف ایک متشدد جماعت تھی، حضرت علی نے جس کا خاتمہ کرکے امت کو ایک فتنۂ عظیم سے محفوظ کیا- اس تناظر میں جدید خوارج کاجائزہ لیجیے تو ان کے بارے میں بھی یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جدید خوارج بھی جمہور کے موقف و طریق کے خلاف ایک متشدد جماعت ہیں - البتہ جدید خارجیت کو ہم قدیم ابتدائی خارجیت کی طرح کسی ایک لڑی میں نہیں پروسکتے، بلکہ جس طرح قدیم خوارج بعد میں مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے تھے، جو جزوی اورفروعی مسائل میںمختلف ہوتے ہوئے بھی کچھ خاص مسائل مثلاً تکفیر علی ومعاویہ وغیرہ میں مشترک تھے ، اسی طرح جدید خوارج بھی مختلف شکل اور رنگ میں پائے جاتے ہیں، مختلف ناموںسے جانے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بعض امورمثلاً جارحیت و عسکریت پسندی وغیرہ قدر مشترک کے طور پر ان میں پائے جاتے ہیں-
جدید خوارج میں ایک قدر مشترک دینداری ہے- خاکم بدہن! ہم دینداری یا اتباع شریعت کے خلاف لب کشائی کا تصور نہیں کرسکتے، یہاں صرف یہ بتانا مقصودہے کہ جدید خارجیت کی کوئی شکل شاید ایسی نہیں مل سکتی جو دین داری اور اتباع احکام شرع میں تساہل برتنے والی ہو- بلکہ وہ اس معاملے میں تصلب بلکہ تشدد و تطرف پر آمادہ نظر آتے ہیں- قدیم خارجیت کے اندر بھی یہ وصف بطور قدر مشترک تھا،اسی لیے عبد الکریم شہرستانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ان کی نمازوں اور روزوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے‘‘
جدید خوارج میں دوسرا وصف مشترک یہ ہے کہ ان کی سوچ پر بھی سیاست و حکومت کا غلبہ ہے اور قدیم خوارج کی طرح یہ بھی ایک طرح سے متطرفانہ سیاسی نظریے پر قائم ہیں- ہم یہ نہیں کہتے کہ دین کا سیاست سے کوئی رشتہ نہیں، یا سیاست مذہب سے باہر کی کوئی شئی ہے، مسئلہ سیاست میں جدید خوارج سے جمہورامت مسلمہ کا اختلاف صرف دو بنیادوں پر ہے - پہلی شئی یہ ہے کہ جمہورسیاست کو مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں جب کہ جدید خوارج قولاً نہ سہی، عملی طور پر مذہب کو سیاست کا حصہ سمجھتے ہیں-دوسری بات یہ ہے کہ جمہور سیاست و حکومت کے لیے دین اور اہل دین کی قربانی کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ دین اور اہل دین کی مصلحت کے لیے وہ سیاست و حکومت سے دست برداری کو ضروری سمجھتے ہیں جب کہ جدید خوارج سیاست و حکومت کے لیے مذہب اور اہل مذہب کی قربانی کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ آج پوری دنیا میں سیاست وحکومت کے لیے اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کی قربانی کا فریضہ بڑی خوشی سے جہاد اور احقاق سمجھ کر ، انجام دے رہے ہیں-
جدید خوارج: جدید خوارج کون ہیں ؟ کہاں، کب اور کیسے پیداہوئے؟ ان سوالات کاجواب تعین کے ساتھ دینا مشکل و دشوار بھی ہے اوراس سے بہت سے آبگینوں کے ٹوٹ جانے کا خوف بھی ہے- ویسے یہ طے ہے کہ قدیم خوارج جمہور کے موقف و طریق کے مخالف ایک متشدد جماعت تھی، حضرت علی نے جس کا خاتمہ کرکے امت کو ایک فتنۂ عظیم سے محفوظ کیا- اس تناظر میں جدید خوارج کاجائزہ لیجیے تو ان کے بارے میں بھی یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جدید خوارج بھی جمہور کے موقف و طریق کے خلاف ایک متشدد جماعت ہیں - البتہ جدید خارجیت کو ہم قدیم ابتدائی خارجیت کی طرح کسی ایک لڑی میں نہیں پروسکتے، بلکہ جس طرح قدیم خوارج بعد میں مختلف فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے تھے، جو جزوی اورفروعی مسائل میںمختلف ہوتے ہوئے بھی کچھ خاص مسائل مثلاً تکفیر علی ومعاویہ وغیرہ میں مشترک تھے ، اسی طرح جدید خوارج بھی مختلف شکل اور رنگ میں پائے جاتے ہیں، مختلف ناموںسے جانے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بعض امورمثلاً جارحیت و عسکریت پسندی وغیرہ قدر مشترک کے طور پر ان میں پائے جاتے ہیں-
جدید خوارج میں ایک قدر مشترک دینداری ہے- خاکم بدہن! ہم دینداری یا اتباع شریعت کے خلاف لب کشائی کا تصور نہیں کرسکتے، یہاں صرف یہ بتانا مقصودہے کہ جدید خارجیت کی کوئی شکل شاید ایسی نہیں مل سکتی جو دین داری اور اتباع احکام شرع میں تساہل برتنے والی ہو- بلکہ وہ اس معاملے میں تصلب بلکہ تشدد و تطرف پر آمادہ نظر آتے ہیں- قدیم خارجیت کے اندر بھی یہ وصف بطور قدر مشترک تھا،اسی لیے عبد الکریم شہرستانی نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ یہ وہی لوگ تھے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ان کی نمازوں اور روزوں کو دیکھ کر تم اپنی نمازوں کو حقیر سمجھو گے‘‘
جدید خوارج میں دوسرا وصف مشترک یہ ہے کہ ان کی سوچ پر بھی سیاست و حکومت کا غلبہ ہے اور قدیم خوارج کی طرح یہ بھی ایک طرح سے متطرفانہ سیاسی نظریے پر قائم ہیں- ہم یہ نہیں کہتے کہ دین کا سیاست سے کوئی رشتہ نہیں، یا سیاست مذہب سے باہر کی کوئی شئی ہے، مسئلہ سیاست میں جدید خوارج سے جمہورامت مسلمہ کا اختلاف صرف دو بنیادوں پر ہے - پہلی شئی یہ ہے کہ جمہورسیاست کو مذہب کا حصہ سمجھتے ہیں جب کہ جدید خوارج قولاً نہ سہی، عملی طور پر مذہب کو سیاست کا حصہ سمجھتے ہیں-دوسری بات یہ ہے کہ جمہور سیاست و حکومت کے لیے دین اور اہل دین کی قربانی کو درست نہیں سمجھتے، بلکہ دین اور اہل دین کی مصلحت کے لیے وہ سیاست و حکومت سے دست برداری کو ضروری سمجھتے ہیں جب کہ جدید خوارج سیاست و حکومت کے لیے مذہب اور اہل مذہب کی قربانی کو نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ آج پوری دنیا میں سیاست وحکومت کے لیے اسلام کی بدنامی اور مسلمانوں کی قربانی کا فریضہ بڑی خوشی سے جہاد اور احقاق سمجھ کر ، انجام دے رہے ہیں-
خوارج کے افکار:- 
شاہ معین الدین احمد ندوی لکھتے ہیں:
’’ اس جماعت کا عقیدہ تھا کہ معاملات دین میں انسان کو حکم بنانا کفر ہے اور حکم اور اس کا فیصلہ ماننے والے سب کافر ہیں اور ان سے جہاد فرض ہے-‘‘ ( تاریخ اسلام: ۱؍۲۶۴، دار المصنفین ،اعظم گڑھ ۲۰۰۶ء)
جامع اردو انسا  ئیکلو پیڈیا اردولکھتا ہے:
’’خوارج کے چند مخصوص افکار و معتقدات حسب ذیل ہیں:
(۱) خلیفہ کا تقرر آزادانہ اورمنصفانہ انتخاب سے ہونا چاہیے - اگر خلیفہ عدل وانصاف اور اتباع شریعت کے راستہ سے کجی اختیار کرے تو اسے معزول بلکہ قتل تک کردینا جائز ہے- 
(۲) خلافت کسی عرب خاندان کے ساتھ مختص نہیں- دنیا کے ہر خطہ کے مسلمان خلیفہ ہونے کا یکساں حق رکھتے ہیں-
(۳) ہر گنہ گار کو کافر سمجھتے تھے- خواہ یہ گناہ بالقصد ہو یا غلط فہمی اور خطا اجتہادی سے - خوارج کے ایک انتہا پسند فرقہ ازارقہ کے نزدیک اس طرح کافر ہوجانے والا اسلام کے دائرے میں دوبارہ داخل نہیں ہوسکتا اور اسے ارتداد کے جرم میں بیوی بچوں سمیت قتل کردینا چاہیے-‘‘ (جلد:۸،ص:۲۲۴، قومی کونسل برائے فروغ اردو بان، دہلی)
مورخ شہر ستانی کے بقول:
’’ابتدائی دورمیں خوارج کی بغاوت دو بنیادوں پر تھی:
(۱) بدعت فی الامامت، کیوں کہ انہوں نے اس کا جواز پیش کیا کہ غیر قرشی امام ہوسکتا ہے- جس شخص کو بھی یہ منصب دے دیا جائے اور وہ عدل و انصاف قائم کرے وہ امام ہے- ایسے امام کے خلاف جو بغاوت کرے گا اس سے جنگ کی جائے گی اوراگر امام طریق نبوی سے انحراف کرے، یا حق کے خلاف فیصلہ دے تو واجبی طورپر اسے معزول کردیا جائے گایا قتل کردیا جائے گا- خوارج نے قیاس کا سب سے زیادہ استعمال کیا- انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ساری دنیامیں کوئی امام نہ رہے اور اگر اس کی ضرورت ہو تو اس منصب پر غلام، آزاد ، نبطی، قرشی ہر کوئی فائز ہوسکتا ہے-
( ۲) خوارج کی دوسری بدعت یہ تھی کہ انہوں نے مسئلہ تحکیم میں حضرت علی کو خاطی قرار دیا، کیوں کہ انہوں نے انسانوں کو حکم بنایا تھا جب کہ حکم صرف اللہ تعالیٰ کاہے- حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حضرت علی پر دو طرح سے جھوٹ باندھا- اول یہ کہ انہوں نے کہا کہ علی نے انسانوں کو حکم بنایاجب کہ سچائی یہ ہے کہ انہی لوگوں نے حضرت علی کو تحکیم کے لیے مجبور کیا تھا- اور دوسری بات یہ کہ انسانوں کو حکم بنانا بجائے خود درست ہے ، کیوں کہ تنازعات کا فیصلہ انسان ہی کرتے ہیں-اسی لیے حضرت علی نے خوارج کے استدلال ان الحکم الا للہ کے بارے میں کہا تھا’’ کلمۃ حق ارید بہاالباطل‘‘
ایک اچھی بات بول کر ایک غلط معنیٰ مراد لے لیا گیا ہے-
(الملل والنحل : ۱/۱۰۸،۱۰۹، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
العقاید والادیان کامصنف عبد القادر صالح نے خوارج کے افکار وعقاید شمار کراتے ہوئے ۸؍نمبر کے تحت لکھاہے : 
فی الامر بالمعروف ، والنہی عن المنکر رأوا ان السبیل الناجحۃ لرفع الظلم والجور ہی القوۃ ’’ السیف‘‘-
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں ظلم وناانصافی کے خلاف کامیاب طریقہ وہ صرف طاقت یعنی تلوار کو ہی سمجھتے تھے-(ص: ۱۲۷،دار المعرفۃ ، بیروت۲۰۰۶ء)
جدید خوارج کے افکار:-
 خوارج کی پیدائش واقعۂ تحکیم (۳۷ھ) کے بطن سے ہوئی تھی- اتفاق سے آج پوری دنیا میں تحکیم کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے- تحکیم کی یہ شکل پارلیمنٹ ہے- مسلم اور غیرمسلم ، تمام ہی ملکوں میں، جہاں جمہوریت نافذ ہے، عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے پارلیمنٹ بھیجتے ہیں ، جہاں پہنچ کر وہ نظام حکومت کے لیے قانون سازی کاعمل کرتے ہیں- ایسا کرنا موجودہ دنیا کی مجبوری ہے- کیوں کہ مسلم ممالک میں یاتو شخصی اور خاندانی حکومت ہے جو اسلام کی ترجیح نہیں ہے، یا پھر جمہوری، ایسے ہی اکثر غیر مسلم ملکوں میں بھی جمہوری حکومت ہے- جمہوری حکومت شخصی اور خاندانی حکومت سے بہر کیف بہتر ہے کہ وہاں شخصی رائے کو دین ، قانون اور شریعت نہیں سمجھا جاتا- البتہ یہ ضرور ہے کہ اسلامی شورائی نظام ، جو اسلام کامطلوب ہے، جدید جمہوریت اس سے مختلف ہے- لیکن سوال ہے کہ اسلامی شورائی نظام کے فقدان کے وقت مسلمان کیا کریں؟ جدید جمہوریت کو قبول کرلیں یا شورائی نظام کی تشکیل کریں؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلمان مسلم ملکوں میں شورائی نظام کے لیے کوشاں ہوں اور شریعت کے ماہرین ہی قانون بنائیں-لیکن یہ بات کہنے اور سننے میں جتنی بھلی معلوم ہوتی ہے عملی طور پر اتنی ہی مشکل ہے - کیوں کہ اگر اسلامی ملکوں میں شورائی نظام کا قیام ہو تو سوال ہے کہ موجودہ فرقہ بندی کے دور میں ارباب شوریٰ کون ہوںگے؟ یہاں تو حال یہ ہے کہ ہر گروپ دوسرے گروپ کے خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ دے چکا ہے - پہلے تو موجودہ کثیر آبادی اور کثیر مسلکی دور میں ارباب شوریٰ کا انتخاب ہی قریباً محال ہے اور اگر کسی طرح کسی دن یہ انتخاب عمل میں آبھی جائے تو دوسرے دن ہی ارباب شوری قتل کردیے جائیں گے- اور بصورت دیگر وہ تیسرے دن اپنے مسلک مخالف افراد کو پھانسی پر لٹکادیں گے-افغانستان وپاکستان کی مسلکی جنگیں اس کی واضح مثالیں ہیں، کہ معمولی قوت ملتے ہی مسجدوں اور مزاروں پر بم باری شروع ہوجاتی ہے- ایسے میں نمائندوں کے انتخاب میں موجودہ جمہوری طریقہ ہی آئیڈیل نہ سہی ، قابل عمل ہے-
غیر مسلم ملکو ںمیںجہاں مسلمان اقلیت کی زندگی گزاررہے ہیں، امور حکومت میں ان کے لیے چند آپشن ہے:
(الف) جمہوری حکومت کو قبول کرلیں اور اپنے ووٹ کا استعمال کرکے کوشش کریں کہ ایسے نمائندے منتخب ہوں جو ان کے حق میں نسبتاًبہتر ہوں-
(ب) جمہوری حکومت میں رہیں مگر ووٹ کا استعمال نہ کریں- اس سے دو نتیجے سامنے آئیں گے -اول یہ کہ نسبتاً بہتر لیڈروں سے محروم ہوجائیں گے- ثانیاً جب حکومت کو یہ معلوم ہوگا تو ان کی وطن دوستی مشکوک ہوگی، وہ بہت سی مراعات سے محروم ہوجائیں گے اور بالآخر قید و بندیا ہجرت وغیرہ پر مجبور ہوں گے-
(ج) غیر مسلم ممالک ، مثلاً یورپی و امریکی ممالک ، یا ہندوستان اور نیپال جیسے ممالک میں مسلمان بغاوت کردیں اور اسلامی حکومت قائم کریں، ظاہر ہے ، ایسی جد وجہد کا بس ایک ہی نام دیا جاسکتا ہے اوروہ ہے ’’خود کشی‘‘ -
موجودہ دور میں سیاست وحکومت کے تعلق سے ممکنہ صورتوں اور رویوں کو سامنے رکھنے کے بعد جدید خارجیت کے حامل افکار پڑھیے- دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنو کے ایک استاذ شیخ محمد علاء الدین ندوی، ماہنامہ اللہ کی پکار دہلی شمارہ مئی ۲۰۰۹ء کے مہمان اداریہ میں لکھتے ہیں:
’’ کیا اسلام کی تقدیر کو سیکولر جمہوریت سے وابستہ کردیا جائے گا اور ایسا کرنے سے ایک مسلمان کا عقیدئہ توحید ذرہ برابر داغ دار نہیں ہوگا؟ کیا یہ نظام جمہوریت انسانوں کے لیے طوق غلامی نہیں؟ جس کو اتارنے کے لے  ہر زمانے میں انبیا تشریف لائے -‘‘(ص: ۷)
’’ حیرت کی بات یہ ہے کہ سکۂ رئج الوقت جمہوری سیاست کی آب وہوا میں کتاب و سنت کے حوالوں سے اسلامی رجحان کا اظہار کیجیے یا باطل سیاست سے کنارہ کشی کا تذکرہ کیجیے، لوگوں کی نوک زبان پر یہ جملہ آجاتا ہے کہ ’’ الیکشن سے کنارہ کشی یابائی کاٹ امت مسلمہ کے لیے خود کشی کے مترادف ہے-‘‘ ہم سمجھتے ہیں کہ خود کشی تو دین سے انحراف میں ہے-‘‘
’’ ایک اور بات جو بڑی شد ومد کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات اورمصلحت دین کاتقاضا یہ ہے کہ جمہوری نظام کی پشت پناہی کی جائے، پھر ان خاص حالات اور مخصوص مصلحت دینی کی وضاحت نہیں کی جاتی-‘‘ 
’’ پھر اھون البلیتین کے فلسفے کاسہارا لیا جاتا ہے اور اہون الشرکین پر عمل کیا جاتا ہے -اس حوالے سے آیات قرآنیہ کی ایسی تعبیر و تشریح کی جاتی ہے کہ تحریف قرآن کا شبہ ہونے لگتا ہے-‘‘(ص: ۸)
’’ الیکشن کی حیثیت کو جو لوگ ایک دینی اور شرعی فریضہ سمجھتے ہیں ، وہ اللہ کے روبرو روز حشر میںکھڑے ہوں گے تو گھاٹے کا سودا کرنے والوں اور شرک کی ہم نوائی کرنے والوں کی قطار میںنظر آئیں گے- دینی نقطۂ نظر سے سیاست و الیکشن میں حصہ لینے کاسوال خالص عقیدئہ توحید کامسئلہ ہے - یہ کوئی بازیچۂ اطفال اور شب و روز کا تماشا نہیں ہے-‘‘ (ص: ۹)
اختصار کی کوشش کے باوجود یہ اقتباسات تفصیل سے اس لیے نقل کردیے گئے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ میرادعویٰ ہوا میں نہیں ہے بلکہ جدید خارجیت ایک زمینی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا-ان اقتباسات میں جو استدلال پیش کیے گئے ہیں وہ اپنے آپ میں اتنے پھسپھسے ہیں کہ ان کے رد کی ضرورت نہیں ہے - معمولی فہم کا مسلمان بھی ان دلائل پر صرف ایک اہانت آمیز تبسم کے ساتھ گزر جائے گا- البتہ قدیم خارجیت کی اس سے مماثلت کیا ہے، چند جملوں میں پیش کی جارہی ہے-
(۱) قدیم خوارج نے تحکیم کو توحید کے خلاف ایک شرکیہ عمل قرار دیا تھا،جدید خوارج بھی پارلیمنٹ کو توحید کے خلاف شرکیہ عمل سمجھتے ہیں-
(۲) قدیم خوارج تحکیم کو یہ سمجھتے تھے کہ یہ خدا کی جگہ بندوں کو حاکم بنانا ہے جدید خوارج بھی پارلیمنٹ کواسی نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہاں خدا کی جگہ بندوں کو حاکم بنایا گیا ہے-جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تحکیم کامعاملہ اس لیے ہوا تھا کہ حضرت علی او رحضرت معاویہ کے درمیان مصالحت ہو، یہ مصالحت قرآن وسنت کی روشنی میں کرنی تھی-لیکن کتاب و سنت حکم خود نہیں بتاتے، ان سے حکم نکال کر بتانے والا کوئی انسان ہی ہوگااور چوں کہ وہاں اختلاف اور جنگ کی صورت تھی، ایسے میں یہ انسان وہی ہوسکتے تھے جن پر فریقین راضی ہوں- لہذا فریقین نے اپنا ایک ایک نمائندہ پیش کیا جن پر فرض تھا کہ کتا ب وسنت کی روشنی میں فیصلہ کریں- ا س طرح تحکیم توحید کے خلاف غیر خدا کی حاکمیت کا اقرار نہیں تھا- لیکن خارجیوں نے اپنی کج فہمی کی وجہ سے اسے شرک قرار دیا-
اسی طرح موجودہ عہد میں جمہوریت سب سے پہلے مسلمانوں سمیت تمام انسانوں کو مذہبی آزادی عطا کرتی ہے- البتہ حکومت کے جو دوسرے معاملات ہیں، ان کو طے کرنے کے لیے ملک کے ہر گوشے اور ہر طبقے سے نمائندے منتخب ہوکر آتے ہیں-ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی ایک مذہب کی کتاب کو اور اس کے نمائندوں کو اس کا حق نہیں دیا جاسکتا، اگر ایسا کیا گیا تو کو ئی مسلمان اقلیت میں رہتے ہوئے کسی اکثریت کی مذہبی کتاب اور مذہبی افراد کو اپنے لیے تسلیم نہیں کرسکتا اور جب مسلمان اقلیت میںرہتے ہوئے اکثریتی مذہب کے قانون کو تسلیم نہیں کرسکتا تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقہ کے مذہبی قانون کو اپنی زندگی کا دستور بنائے- اس نزاع کو ختم کرنے کا ممکنہ راستہ وہی ہے جو جمہوریت کا راستہ ہے - اب اگر اس ممکنہ راستہ کو کوئی مسلمان قبول کرتا ہے تو اس کے اس عمل کو شرک اور اس کومشرک قرار دینا صرف خارجیت کا ہی نقطۂ نظر ہوسکتا ہے، جس کا انجام تباہی اور ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہوگا-
(۳) خوارج کانظریہ تھا کہ خلیفہ اگر شریعت سے ذرہ برابر روگردانی کرے تواسے معزول بلکہ قتل کردینا چاہیے- جدید خوارج بھی آج پوری دنیا میں حکمرانوں کو قتل کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں -  موجودہ حالات میں جبکہ عوام کیا خواص بلکہ علماتک سے سو فیصد استقامت علی الشریعت کی امید نہیں رکھی جاسکتی- ایسے میں جو حاکم بھی شریعت سے یا جدید خوارج کی مفروضہ شریعت سے معمولی انحراف کرتا ہے یہ اس کے قتل کے در پے ہوجاتے ہیں، اس پر خود کش حملے کرتے ہیں ،اسے گولیوں اور بموں کا نشانہ بناتے ہیں-
(۴) خوارج کے یہاں ہر گناہ گار کافر تھا- حتی کہ اگر کوئی اپنے اجتہاد سے ان کے خلاف کوئی رائے قائم کرلیتا اورایسا عمل کرتا جو اس کی نظر میں گناہ نہیں ہوتا صرف خوارج کی نظر میں گناہ ہوتا، خوارج کے نزدیک ایسا شخص بھی کافر تھا- موجودہ خوارج کا رویہ بھی تقریباً یہی ہے- وہ اپنی ہر بات کو نص قطعی سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کسی طرح کی علمی و اجتہادی خطا کو گوارا نہیں کرتے-اس وقت میرے سامنے ’’جماعت المسلمین‘‘ نامی تنظیم کے کسی مسعود احمد کی کتاب ہے جس کا عنوان ہی ہے ’’ ترک سنت گناہ ہے‘‘ اس میں شد و مد کے ساتھ مطلقاً یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ترک سنت گناہ اور گمراہی ہے-
(۵) حضرت علی نے خوارج کے استدلال ان الحکم الا للہ، حکم صرف اللہ کا ہے، پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’ کلمۃ حق ارید بہا الباطل‘‘ ایک اچھی بات بول کر غلط معنی مراد لیا گیا ہے- جدید خوارج کے بارے میں بھی ہم یہی کہہ سکتے ہیں ، کیوں کہ وہ خلافت کی بات کرتے ہیں، خدا کی حاکمیت کی بات کرتے ہیں، توحید کی بات کرتے ہیں، اور نتیجہ کے طور پر تمام امت کی تکفیر کرتے ہیں اور تمام حکومتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی احمقانہ بات کرتے ہیں- ان پر بھی صرف یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے:
’’ کلمۃ حق ارید بہا الباطل‘‘
(۶) خوارج امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کامیاب راستہ صرف تلوار کو سمجھتے تھے- اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا تھا کہ’’ برائی کو ہاتھ سے مٹاؤ، استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکو اور اس کی بھی نہ ہو تو دل سے برا مانو‘‘عملاً وہ اس کی مخالفت کرتے تھے- جدید خوارج بھی اصلاح کے صرف ایک راستے کو درست سمجھتے ہیں، جنگ اور قتل و خون ریزی کا راستہ، وہ اس کی پروا نہیں کرتے کہ حالات اس کے موافق ہیں یا نہیں اور ایسا کرنے سے نتیجہ کیا سامنے آئے گا-
فساد اور خاتمہ فساد:- 
واقعہ تحکیم کے بعدخوارج کا فتنہ شدیدسے شدید تر ہوتا گیا -کوفہ، بصرہ ، مدائن اور عراق میں وہ اپنے ہم خیالوں کی ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اپنے تمام ہم خیالوں کو نہروان میں جمع ہونے کو کہا- راستے میں جو مسلمان ملتا اس سے حکمین کے بارے میں سوال کرتے، اگر وہ براء ت کا اظہار کرتا تو اسے چھوڑ دیتے ورنہ قتل کردیتے - حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کی کشمکش جاری تھی اور حضرت علی اسی میں مصروف تھے، اس لیے انہوںنے ان خارجیوں کی تفہیم کی کوشش کی مگر ناکام رہے- اس وقت کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے شاہ معین الدین ندوی لکھتے ہیں:
’’ اس درمیان میں خارجیوں کی فتنہ انگیزی حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی -کسی مسلمان کی جان ان کے ہاتھ سے محفوظ نہ تھی- جو شخص ان کے خیالات کی تائید نہ کرتا، اسے بے دریغ قتل کردیتے، چنانچہ ایک صحابی عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ کو اسی جرم میں شہید کردیا اور ان کی حاملہ بیوی کا پیٹ چاک کرکے بے دردی سے قتل کردیا- قبیلہ طے کی کئی عورتوں کو مار ڈالا - ان کی یہ فتنہ انگیزی دیکھ کر لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے امیر المومنین! آپ اس فتنہ انگیزی کے لیے خارجیوں کو آزاد چھوڑ کر کہاں کا قصد فرمارہے ہیں؟ آپ کی عدم موجودگی میں یہ اور دلیر ہوجائیں گے- پہلے ان کی سرکوبی کیجیے اور انہیں مطیع بنا کر مسلمانو ںکو ان کے مظالم سے بچائیے- اس کے بعد شام کا قصد فرمائیے گا-‘‘(تاریخ اسلام : ۱/۲۶۵، دار المصنفین، اعظم گڑھ)
حضرت علی ادھر متوجہ ہوئے، آپ نے خارجیوں کو کہلا بھیجا کہ تم اپنے قاتلوں کو ہمارے مقتولین کے قصاص کے لیے ہمارے حوالے کردو، وہ اس پر راضی نہیں ہوئے، اس کے بعد حضرت علی نے حضرت ابو ایوب انصاری اور قیس بن سعد انصاری کو تفہیم کے لیے بھیجا مگر ان بزرگوں کی کوشش بھی بے نتیجہ رہی- آخر اتمام حجت کے لیے حضرت علی تشریف لے گئے او رانہیں اعتدال کی دعوت دی، مگر بے سود ، انہوں نے جواب میں کہا: ’’ جب ہم نے حکم کی تجویز قبول کی تھی ، اس وقت کافر ہوگئے تھے ، اب ہم نے توبہ کرلی ہے، تم بھی توبہ کرلو، ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ-‘‘ حضرت علی اس کے بعد بھی مصالحت کے لیے کوشاں رہے-انہوں نے کہا کہ تم گفتگو کے لیے اپنے کسی معتبر آدمی کو بھیجو، عبد اللہ بن الکوار گفتگو کے لیے آیا، لیکن اس کی گفتگو کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اب آخری آپشن صرف جنگ کا تھا- لیکن اس وقت بھی حضرت ابوایوب انصاری کو امن کا علم لے کر بھیجا کہ جو شخص اس علم کے نیچے آجائے ، یا لوٹ جائے وہ مامون ہے- اس کے بعد ایک گروہ لوٹ گیا، ایک جماعت حضرت علی کے ساتھ ہوگئی- عبد اللہ بن وہب راسبی کے ساتھ تھوڑی تعداد رہ گئی- اسی نے جنگ میں پیش قدمی کی اور ماری گئی- شہرستانی کے بقول شدید معرکہ کا رزار کے بعد سارے خارجی مارے گئے، بمشکل تمام دس سے بھی کم بچ کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے جب کہ مسلمانوں کی فقط اتنی ہی تعداد شہید ہوئی- دوخارجی عمان کی طرف بھاگے، دو کرمان پہنچے، دوسجستان چلے گئے، دو جزیرہ کی طرف روانہ ہوگئے جب کہ ایک تل موزن اور دو یمن بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے- پھر انہیں چند کی وجہ سے خارجی فتنہ بعد کے ادوار میں پروان چڑھا-‘‘(الملل و النحل: ۱/۱۰۹، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
عبد القادر صالح کی تحقیق کے مطابق آج خوارج کے صرف ایک گروہ اباضیہ کے چند افراد عمان ، مسقط اور دوسرے عرب ممالک اور مشرقی افریقہ میں پائے جاتے ہیں- (العقاید والادیان ،مطبوعہ دار المعرفہ ، بیروت)
 اس گروہ کے افکار وعقاید کے بارے میں علامہ محمد احمد مصباحی لکھتے ہیں:’’اباضیہ عبد اللہ بن اباض (۸۶ھ) کے متبعین ہیں- وہ کہتے تھے کہ اہل قبلہ میںجو ہماری مخالفت کرے وہ کافر ہے البتہ مشرک نہیں ہے- ان سے شادی بیاہ جائز ہے اور جنگ کے وقت ان کے ہتھیاروں اور سامانوں پر بطور غنیمت قبضہ کرنا جائز ہے -ان کا ملک دار الاسلام ہے سوائے اس جگہ کہ جو ان کا عسکری سینٹر ہو- وہ اپنے مخالفین کی شہادت اپنے خلاف قبول کرتے تھے-ان کے نزدیک گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا موحد ہے البتہ مومن نہیں ہے- ان کے نزدیک استطاعت قبل فعل ہوتی ہے، بندے کا فعل مخلوق خداوندی ہے-جب مکلفین فناہوں گے سارا عالم فنا ہوجائے گا- گناہ کبیرہ کامرتکب کافر ہے اور اس کا کفر کفران نعمت ہے، نہ کہ انکار شریعت - کفار کے بچوں کے کفر و عذاب کے سلسلے میں ان کا توقف ہے- اسی طرح نفاق شرک ہے یا نہیں ، اس سلسلے میں بھی ان کا توقف ہے - اسی طرح بغیر دلیل و معجزہ کسی رسول کی بعثت جائز ہے یا نہیں اور ایسے رسول کا اتبا ع لازم ہے یا نہیں، ان مسائل میں بھی ان کا توقف ہے - حضرت علی اور بے شمار صحابہ کی یہ تکفیر کرتے ہیں-‘‘ (حدوث الفتن وجہاد اعیان السنن ، ص: ۳۲۳، مطبوعہ مع المعتقد المنتقد، رضا اکیڈمی ، ممبئی، ۱۹۹۹ء)
جدید خوارج کا فساد اور اس کا خاتمہ:-
 جدید خوارج آج پوری دنیا میں اپنا نیٹ ورک قائم کرچکے ہیں، ان کی ہمنوائی کرنے والے تعلیم یافتہ بھی ہیں اور جاہل عوام بھی، مولوی بھی ہیں اور کالج کے تعلیم یافتہ نوجوان بھی- آج جب کہ ایک عام مسلمان کی سوچ یہ ہے کہ کس طرح جمہوری ملکوں کی مراعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوںکو دینی، تعلیمی اور معاشی طور پر مستحکم کیا جائے ، کس طرح دعوت و تبلیغ کے دائرے کو بڑھایا جائے، کس طرح حکومت کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی پر امن شبیہ پیش کی جائے ، ان خارجیت پسندوں کا وتیرہ یہ بن گیا ہے کہ وہ حکومتوں کے خلاف احمقانہ بغاوت کی سوچ میں جی رہے ہیں، انتخابات کا بائیکاٹ اور عدلیہ و انتظامیہ کی مخالفت کررہے ہیں، وہ حکمرانوں پر حملے کرنے کی باتیں کررہے ہیں، وہ غیر مسلموں کو قتل کرنے کی سازشیں رچ رہے ہیں ، عام مسلمانوں کی پر امن زندگی کے لیے خطرات پیدا کررہے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کی دہشت گردانہ شبیہ تشکیل دے رہے رہیں اور ان سارے احمقانہ خیالات و حرکات کو عین اسلام بلکہ فریضۂ اولین سمجھ رہے ہیں-
خوارج کے بارے میں کتب تاریخ میں مذکور ہے کہ جو شخص بھی ان کے خیالات سے اتفاق نہیں کرتا ،وہ بے دریغ اسے قتل کردیتے، اس ضمن میںنہ وہ صحابی اور غیر صحابی کالحاظ رکھتے اور نہ مرد وعورت کا لحاظ ، جدید خوارج کا حال بھی یہی ہے، کرا چی سے پیشاور تک اور کابل سے مزار شریف اور قندھار تک اس کی درجنوں نہیں سیکڑوں مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جدید خوارج نے اپنے فکر مخالف مساجد و مزارات اور علما و مشائخ کے ساتھ جو کچھ کیا، عورتوں ، بچوں اور بچیوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ جگ ظاہر ہے- یہاں ٹائمس آف انڈیا کی صرف ایک تازہ رپورٹ پیش کی جاتی ہے، جس سے جدید خارجیت پسند ذہنیت کو سمجھنے میں آسانی ہوگی:
’’ کابل:طالبان جنگجوؤں نے دو افغانی ووٹروں کی انگلیاں کاٹ دیں جن پر ووٹ ڈالنے کے بعد روشنائی لگی ہوئی تھی- یہ واقعہ صدارتی انتخاب کے دوران جنگجوؤں کے علاقہ میں ہوا- یہ بات الیکشن مانیٹرنگ گروپ کے سربراہ نے بتائی-‘‘(ٹائمز آف انڈیادہلی، ۲۳؍اگست ۲۰۰۹ء)
آج افسوس ہے کہ مسلم دنیامیں شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم جیسا کوئی مضبوط قائد نہیں جو اس نوپیدا شدہ خارجیت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا- ویسے بھی چوں کہ آج مسلمان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اورمواصلات کی فراوانی نے قریب و بعید ہر شخص سے رابطہ کو آسان بنادیاہے- ایسے میں جدید خارجیت بھی قدیم خارجیت کی بہ نسبت زیادہ وسعت اورتنوع اختیار کیے ہوئے ہے- اس کی جڑیں زیادہ گہرائی تک اتری ہوئی ہیں- ایسے میں اس جدید خارجیت کا خاتمہ اور بھی مشکل معلوم ہوتا ہے- اس میں شک نہیں کہ پوری دنیا کے جمہور مسلمان امن پسند ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے دانش ور اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے ان جدید خوارج کی تفہیم کی کوشش کررہے ہیں مگرجس طرح قدیم خوارج، گفتگو اور افہام و تفہیم کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے، جدید خوارج بھی مکمل ڈھٹائی کے ساتھ ہٹ دھرمی پر آمادہ ہیں اور افہام و تفہیم کی ہر کوشش کو وہ ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے-
افسوس بالائے افسوس کہ جس طرح مٹھی بھر خوارج کی شر پسندی کے سبب حضرت علی کے عہد میں بے شمار مسلمانوں کی جانیں تلف ہوئیں، آج مٹھی بھر شر پسند جنگجو عناصر پوری دنیا میں مسلمانوں کے قتل و بربادی ، قید وبند اور جور وستم کا باعث بن رہے ہیں اور کئی مقامات پر مسلمان آپس میں دست وگریباں ہیں ، حتی کہ فروعی اختلاف کو گفتگو اور تحریر و تقریر سے حل کرنے کی بجائے بم اور بارود سے حل کرنے کا مزاج پروان چڑھنے لگا ہے-
اس زاویے سے غور کیجیے تو بڑی مایوسی ہوگی کہ جنگ نہروان میں صرف چند خوارج بچ گئے تو اموی اور عباسی دور تک ان کی فتنہ انگیزیاں جاری رہیں تو جدید خوارج جن کے خاتمے کے آثار کم نظر آرہے ہیں، ان سے امت مسلمہ کتنے سالوں یا صدیوں تک زخم کھاتی رہے گی ،کچھ نہیں کہا جاسکتا-ویسے جدید خارجیت کے خاتمے کے تعلق سے ہمیں بہت زیادہ ناامیدی نہیں ہے، کیوں کہ عصر جدید میں امن پسندی کا جو ظاہرہ سامنے آیا ہے، کہ لوگ تیزی سے اسلام کی طرف بھی بڑھ رہے ہیں اور اسی تیزی سے شدت پسندی اور جارحیت کے خلاف امن کا علم بھی بلند کر رہے ہیں-مسلمانوں نے پوری شدت کے ساتھ یہ محسوس کرلیا ہے کہ اگر پوری دنیا میں ہمیں اسلام کی دعوتی و تبلیغی بالادستی منظور ہے تو اس کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے، پر امن راستہ- پر امن طریقے سے ہم ان ملکوں میں بھی اسلام کی تبلیغ کرسکتے ہیں جنہیں بالعموم اسلام دشمن سمجھا جاتا ہے ، جب کہ شدت پسندی کی وجہ سے ہم خود بھی پریشان ہوں گے، امت مسلمہ بھی پریشان ہوگی اور اسلام کے پھلنے پھولنے کے راستوں میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوں گی- دنیا بھر میں پیدا شدہ اس جدید ظاہرہ سے امید کی جاتی ہے کہ یہ براہ راست نہ سہی، بالواسطہ طور پر جدید خارجیت کا خاتمہ کردے گا- لیکن اس میں کتناوقت لگے گا ، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا-
فساد نظر:-
 عبد القادر صالح لکھتے ہیں:
’’ خوارج کی ابتدائی نشو ونما قرا (حفاظ قرآن، عباد وزہاد) کی ایک جماعت کی شکل میں ہوئی-اسلامی ثقافت میں علم فقہ، علم حدیث اور علم اصول وغیرہ کے رواج پانے سے قبل قرا کو ہی علماے امت سمجھا جاتا تھا- ان خارجی قرا کا علمی و فقہی معیار ناقص تھا، اسی لیے یہ لوگ حضرت علی و معاویہ کے درمیان اختلاف سے پیدا شدہ نئی سیاسی صورت حال کو نہیں سمجھ سکے اور نہ وہ اس جنگ کے انداز کو سمجھ سکے-‘‘ (العقاید و الادیان، ص: ۱۲۴)
عبد القادر صالح نے قدیم خوارج کے فساد نظر پر جو تبصرہ کیا ہے، وہی تبصرہ حرف بہ حرف جدید خوارج پر بھی صادق آتا ہے- خوارج کے پیدا ہونے کے سلسلے میں یہ تبصرہ نہایت جامع ہے- اس کی روشنی میں جدید خارجیت کے خدو خال بخوبی سمجھے جاسکتے ہیں- جدید خارجیت بھی بڑی سادہ اور قابل رحم ہے- جو لوگ شروع میں اس کا علم لے کر اٹھے وہ خوارج کی طرح ہی، بہت ہی عابد و زاہد اور سادہ لوح تھے- وہ اسلام کے لیے اور قرآن کے لیے صرف مرنا جانتے تھے، اسلام و قرآن کا مطلوب ان کی فہم و فراست سے کوسوں دور تھا- اور جس طرح قدیم خوارج جب نئے حالات سے دوچار ہوئے اور ان کے سامنے پہلی بار یہ صورت سامنے آئی کہ دو فریق نے اپنے معتمد کو فیصلہ کرنے کے لیے آگے بڑھایا تو انہیں اچانک یہ لگا کہ یہاں قرآن کو فیصل ماننے کی بجائے انسان کو فیصل مانا جارہا ہے اور خدا کی حاکمیت کی جگہ انسانوں کی حاکمیت تسلیم کی جارہی ہے -انہیں اچانک ایسا لگا کہ اسلام کی بنیاد توحید اس سے متزلزل ہوگئی جس کے بعد وہ حواس باختہ مرنے مارنے پر تل گئے- جدید خوارج کی جماعت بھی سادہ لوحوں کا ایک ٹولہ ہے جو اسلام کے تئیں شدید جذباتی ہے- وہ سخت ترین نفسیاتی رد عمل کا شکار ہے- عصر حاضر میں اسے اچانک یہ لگنے لگا ہے کہ مسلمان خدا کی حاکمیت تسلیم کرنے سے مکر گئے ہیں، اس لیے وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے خلاف ننگی تلوار بنے پھر رہے ہیں-انہو ںنے دیکھا کہ خلافت کا خاتمہ ہوگیا، مسلم سلطنت کا خاتمہ ہوگیا، اب جمہوری ریاست قائم ہے- اس جمہوریت کو اس زاویۂ نظر سے دیکھنے کی بجائے کہ مسلمان اقلیت میںہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں مذہبی آزادی اور تبلیغ اسلام کے امکانات سے بہرہ ور ہوگئے ہیں، وہ اس انداز سے سوچنے لگے کہ جمہوریت میںمسلمان پارلیمنٹ کو تسلیم کرکے خدا کا انکار کربیٹھے ہیں- ان کی سادہ مزاجی اس پر انہیں للکار تی ہے اس لیے وہ ہمیشہ جنگ کے مسئلہ پر غور کرتے ہیں اوراس پر غور نہیں کرتے کہ جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ اس نازک صورت حال میں اسلام کے درد مند ، مخلص ، باشعور اور روشن دماغ دوستوں کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ اپنے سادہ لوح بھائیوں کی تفہیم کریں- انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کریں کہ جمہوریت کو قبول کرکے مسلمانوں نے ہرگز اللہ کی حاکمیت کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ جمہوریت تو یہ موقع دیتی ہے کہ اقلیت میں ہوتے ہوئے ، غیر مسلم ممالک میں ، ہم آزادانہ حاکم مطلق کے احکام کی پیروی کریں اور دوسروں کو بھی اس حاکم مطلق کی طرف دعوت دیں- پارلیمنٹ کو تسلیم کرنا قرآن کا انکار نہیں ہے ، بلکہ پارلیمنٹ کو قبول کرنا تو ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ اگر قرآن کے خلاف زبان کھولی گئی تو ہم اپنے نمائندوں کے ذریعے غیر مسلم ملکوں میں بھی اپنے موافق آواز بلند کرائیں گے - کوئی مسلمان پارلیمنٹ کو ایمانیات و عبادات کے معاملے میں فیصل نہیں مانتا، بلکہ جو زندگی کے عام معاملات ہیں، ان میں حتی الامکان اپنی تمام تر مذہبی آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے، اپنے لیے بہتر اور ممکنہ مواقع کے حصول کے لیے پارلیمنٹ کو تسلیم کرتا ہے-
ہمیں حیرت ہے کہ ندوۃ العلما کے استاذ شیخ علاؤ الدین ندوی کو یہ بات کیوں کر سمجھ میں نہیں آتی کہ ’’ الیکشن کا بائیکاٹ خود کشی کے مترادف ہے‘‘ اگر آج دار العلوم ندوۃ العلما الیکشن کا بائیکاٹ کردے، پارلیمنٹ کے خلاف علم بغاوت بلند کردے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکار کردے تو کیا ہوگا؟ کیا شیخ علاؤالدین اس کے تصورکے لیے تیار ہیں؟
غیروں کی کرم فرمائیوں کے سبب آج تک مسلمان اپنی وطن دوستی کی قسمیں کھا رہے ہیں ، بہتر ہوگا کہ ایسے وقت میں دیدہ ودانستہ مسلمانو ںکو غدار وطن بنانے کا سبق پڑھا نا چھوڑ دیا جائے- ہمیں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ مجلہ’’اللہ کی پکار‘‘ کے ایڈیٹر جناب خالد حامدی (پروفیسر جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی) مسلسل اس قسم کے واہیات اور مسلم کش مضامین اپنے مجلہ میں شائع کرتے ہیں- شاید وہ بھی الیکشن میں حصہ لینے اور نمائندوں کو ووٹ دینے کو شرک فی الحکم سمجھتے ہیں -عالی جاہ سے سوال ہے کہ جس حکومت کے ایوان کو تسلیم کرنا شرک فی الحکم ہے، اسی حکومت کے فیصلے کو ماننا، اسی حکومت کے ادارے میں پڑھانا اور تنخواہ اور بھتہ کے نام پرہر ماہ لاکھوں روپے حاصل کرکے شکم پروری کرنا ایمان کا کون سا حصہ ہے؟ سال میں تعلیم کے ایام ، اوقات تعلیم وتعلم،بلکہ سارا نظام اسی ایوان سے منظور شدہ ہے، اسے قبول کرنا، زندگی کے عام مسائل میں، حتی کہ راہ چلنے میں بائیں جانب ڈرائیونگ کرنا، یہ سب باتیں ، اسی ایوان کی منظور کردہ ہیں، ان سب کو آپ تسلیم کریں تو یہ ایمان ہے، اور ایک عام مسلمان ، اپنی بھلائی کے لیے ، نسبتاً بہتر لیڈر کو منتخب کرنے کے لیے، کسی لیڈر کو ووٹ دے تو وہ شرک کا مجرم ؟
اس ذہنیت کے لوگ فکری و عملی دہشت گردی سے توبہ کرلیں تو بہتر ہوگاورنہ امت مسلمہ اب بیدار ہوچکی ہے اور دین کے نام پر بربادی کے اسباق بہت زیادہ دنوں تک پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہے-
*****


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔