Monday 22 January 2018

کنزالایمان کا ادبی و لسانی جائزہ

0 comments
کنزالایمان کا ادبی و لسانی جائزہ
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
-----------------------------------------------------------------------
مجدد اسلام امام احمد رضا خاں بریلوی (م ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) کا مشہور زمانہ ترجمۂ قرآن’’کنزالایمان اردو تراجم قرآن میں اپنا ایک الگ اور منفرد مقام رکھتا ہے اسے کئی جہتوں سے امتیاز حاصل ہے عظمت توحید و رسالت کی پاسداری میں خاص طور سے اس ترجمے کو بڑی شہرت حاصل ہوئی فاضل بریلوی کے مخالفین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ماہنامہ ’’الحسنات‘‘ رام پور کے مطابق ’’یہ ترجمہ اس حیثیت سے ممتاز نظر آتا ہے کہ جن چند آیا ت قرآنی کے ترجمے میں ذرا سی بے احتیاطی حق جل مجدہ اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں بے ادبی کا شائبہ نظر آتا ہے احمد رضا نے ان کے بارے میں خاص احتیاط برتی ہے‘‘ (ماہنامہ ’’الحسنات‘‘ رام پور کا سالنامہ شخصیات نمبر، ص: ۵۵-۵۴) مگر یہ تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ تو مجدد اسلام تھے اصول شریعت سے واقف اور رموز طریقت پر آگاہ تھے شریعت کے خلاف کچھ کہنا یا لکھنا ان سے بہت بعید تھا حیرت اس پر ہے کہ انہوں نے نہایت عجلت میں ’’کنزالایمان‘‘ کا املا کرایا تھا مگر اس کے باوجود اس کا حسین اسلوب، فصاحت و بلاغت، تعبیر کی دلکشی زبان کی سادگی اور شائستگی اور الفاظ و معانی، محاورہ اور روز مرہ کا حسین امتزاج دور تک کہیں اپنا جواب نہیں رکھتا۔
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:-
اس ترجمہ میں اردو عربی کے اسلوب میں رنگی ہوئی معلوم ہوتی ہے… اگر قرآن مجید اردو میں اترا ہوتا تو یہ عبارت اس کے قریب تر ہوتی اور جو فصاحت زبان سے آشنا ہو اسے کہنا پڑے گا کہ اس ترجمہ میں زبان و بیان کی بلاغت اعجاز کی سرحدوں کو چھوتی معلوم ہوتی ہے۔ (پیش لفظ محاسن کنزالایمان صفحہ ۱۰)
ملک شیر محمد خاں اعوان رقم طراز ہیں:-
اس دور میں اردو اتنی ترقی یافتہ زبان نہیں تھی جتنی آج ہے مگر انہوں نے جو کچھ برسوں پیشتر لکھا ہے اسے پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی آج کا ادیب ترجمہ کررہا ہو۔ ( محاسن کنز الایمان، صفحہ: ۲۷)
’’کنزالایمان‘‘ پر ماہر رضویات ڈاکٹر مسعود احمد خاں کراچی کا یہ تبصرہ نہایت جامع ہے:-
’’یہ نہ تو کسی ترجمے کا ترجمہ ہے اور نہ ترجموں کی ترجمانی ،یہ تو براہ راست قرآن سے قرآن کا ترجمہ ہے‘‘ (مقالات رضویہ صفحہ ۳۹)
’’کنزالایمان‘‘ اردو زبان و ادب میں بے مثال اور لا جواب ترجمہ ہے بقول حضرت مولانا سید محمد اشرف محد ث اعظم جنہو ں نے خود قرآن کا اردو ترجمہ کیا ہے اور پورے کنزالایمان کا مطالعہ فرمایا ہے کنزالایمان کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس مقام پر لکھا ہی نہیں جاسکتا۔ (المیزان کا امام احمد رضا نمبر، صفحہ: ۲۴۵ بحوالہ امام احمد رضا حقائق کے اجالے میں، صفحہ:۱۱)
یہ حقیقت اوّل نظر میں مبالغہ بلکہ غلو معلوم ہوتی ہے اس لئے اختصار کے ساتھ کنزالایمان کے چند ادبی اور لسانی محاسن پیش کئے جاتے ہیں تاکہ ارباب ذوق سلیم پر’’ کنز الایمان کی‘‘ انفرادیت اور عظمت و شان آشکارا ہوجائے سب سے پہلے بسم اللہ کا ترجمہ ملاخطہ کیجئے:- اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا‘‘
امام النحو علاّمہ غلام جیلانی میرٹھی نے نحومیر کی شرح ’’ البشیر‘‘ کے مقدمہ میں اس ترجمے کے محاسن پر شرح وبسط سے گفتگو کی ہے جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں البتہ اس ترجمہ پر دوبارہ سر سری نظر ڈالی جائے تو فوراً چند باتیں سامنے آئیں گی۔
* ترجمہ کے شروع میں لفظ’’ اللہ‘‘ لاکر حقیقی معنی میں اسم جلالت سے ابتداء کرنے کے ساتھ ساتھ اردوزبان کے استعمال اور قاعدوں کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور جملے کی صحیح ترتیب کے ساتھ اس کی سلاست و روانی کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔
چ اللہ تعالیٰ کے لئے واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اس پر طول طویل بحث کے بجائے اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ ادیبوں کا رائج اسلوب یہی ہے۔
* رحمن اور رحیم دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں ان کے اندر معنی کی زیادتی ملحوظ ہے لیکن ترجمہ میں ایک ہی بار’’بہت‘‘(اور کسی جگہ ’’نہایت‘‘) مرقوم ہے جس کا تعلق مہربان سے بھی ہے اور رحم والا سے بھی اس طرح یہ ترجمہ بیجا تکرار سے محفوظ اور ایجاز و اختصار کا نمونہ بن گیا ہے۔
ایجاز واختصار:-
 ایجاز و اختصار کلام کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہا گیا ہے ’’خیر الکلام ما قل ودلّ‘‘  ’ ’کنزالایمان‘‘ میں یہ وصف بدرجہ اتم پایاجاتا ہے اور اس کمال اور خوبی میں یہ دیگر تراجم کے درمیان ایک ممتاز حیثیت اور نمایاں مقام کا حامل ہے اس مقام پر ایجاز و اختصار کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:-
ترجمہ کے حسن کو سمجھنے کے لئے مولانا تھانوی صاحب کا ترجمہ بھی لکھا جاتا ہے۔ آیات اور تراجم کے سامنے ان کے کلمات کی تعداد لکھ دی جاتی ہے۔ اس سے ترجمۂ رضوی کے اندر ایجاز و اختصار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
* واللّٰہ یرزق من یشاء بغیر حساب۔ اور خدا جسے چاہے بے گنتی دے ’’کنزالایمان‘‘ اور رزق اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں بے اندازہ دیتے ہیں۔(تھانوی)
* واللّٰہ یھدی من یشاء إلیٰ صراط مستقیم۔ اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے۔ (کنزالایمان) اور اللہ جس کو چاہتے ہیں راہ راست بتاتے ہیں۔ (تھانوی)
* واللّٰہ لا یھدی القوم الظلمین (توبہ:۱۹) اور اللہ ظالموںکو راہ نہیں دیتا ہے۔ (کنزالایمان)اور جو لوگ بے انصاف ہیں اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ نہیں دیتے۔ (تھانوی)
* ولا تعثوا فی الارض مفسدین ( ھود:۸۶) اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرو۔ (کنز الایمان) اور زمین میں فساد کرتے ہوئے حد سے مت نکلو۔ (تھانوی)
اب پھر دوبارہ نظر اٹھا ئیے اور فاضل بریلوی اورمولانا تھانوی صاحب کی اردو پر غور کیجئے اور غیر جانبدارانہ دونوں ترجموں کا موازنہ کیجئے یقینا سلاست و روانی، حسن و دلکشی، سادگی اور شیرینی اور اختصار و جامعیت میں فاضل بریلوی کا ترجمہ منفرد ولاجواب نظر آئے گا۔قلت الفاظ اور کثرت معانی کے جلوے آپ کو ’’کنزالایمان‘‘ میں صاف دکھائی دیں گے۔
اعجاز اختصار:- 
جس مفہوم و معنی کی تعبیر دوسرے مترجمین نے دویا اس سے زیادہ الفاظ میں کی ہے فاضل بریلوی نے ایسے ایک ہی لفظ میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح’’ اعجاز اختصار‘‘ ’’کنزالایمان‘‘ کی ایک انفرادی خصوصیت بن گئی ہے۔ مزید وضاحت کے لئے دوسرے ترجمے بھی لکھے جاتے ہیں اور فیصلہ ناظرین پر چھوڑتے ہیں۔
* قل یٰا أھل الکتاب لستم علیٰ شیٔ۔ ( مائدہ:۶۸)تم فرما دو! اے کتابیو! تم کچھ بھی نہیں ہو۔ ( کنزالایمان) کہہ دے! اے کتاب والو! تم کسی راہ پر نہیں ( محمود الحسن) آپ کہئے! کہ اے اہل کتاب! تم کسی بھی ( راست) چیز پر نہیں۔ (تھانوی)
* وأرسلنا السماء علیھم مدرارا (انعام:۶) اور ان پرموسلادھار پانی بھیجا (کنزالایمان) اور چھوڑ دیا ہم نے ان پر آسمان کو لگاتار برستا ( محمود الحسن) اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں (تھانوی)
* ولما  یعلم اللّٰہ الذین جاھدوا منکم ( آل عمران: ۱۴۲) اور بھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا۔ (کنزالایمان)
اور ابھی تک نہ جانا اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کو جو جہاد کرتے ہیں ( سرسید احمد خاں) حالانکہ ابھی تو وہ موقع پیش ہی نہیں آیا کہ اللہ تمہیں آزمائش میں ڈال کر نمایاں کردیتا، کون لوگ راہ حق میں پوری پوری کوشش کرنے والے ہیں۔ (ابولکلام آزاد)
اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں  (محمودالحسن)
حالانکہ ہنوز اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تو دیکھا ہی نہیں جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا ہو (تھانوی)
 قابل غور عبارتوں پر خط کھینچ دئے گئے ہیں اور مزید تشریح کی ضرورت محسوس بھی نہیں ہوتی البتہ ایک چیز یہاں توجہ کی طالب ہے اور وہ ہے ’’لم یعلم اللّٰہ‘‘ کا ترجمہ مختصر تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کے ذیل میں ہے ’’ أی حسبتم أن تدخلو الجنۃ ولم تبتلوا بالقتال والشدائد‘‘ ( بحوالہ شاہ حقانی کا ترجمہ اور تفسیر قرآن پر تنقیدی اور تحقیقی جائزہ صفحہ ۵۷۵) یعنی’’ علم‘‘ کی تفسیر’’ ابتلاء‘‘ سے کی گئی ہے اب اس کے بعد ترجموں پر نظر ڈالئے اسی لئے اعلیٰ حضرت نے اس کا ترجمہ ’’امتحان‘‘ کیا ہے اور ابو الکلام نے آزمائش کی ہے جو سب میں بہتر ہیں۔ تھانوی صاحب کا ترجمہ بھی چلنے کے لائق ہے۔ مگر سر سید اور محمود الحسن کو اس جگہ زبان و بیان اور فکرو عقیدے میں ٹھوکر کھانی پڑی ہے۔
اطناب:- 
کسی فائدہ یا مقصد کے لئے اگر الفاظ معانی سے بڑھ جائیں تو اصطلاح بلاغت میں اسے’’اطناب‘‘ کہتے ہیں لیکن اگر وہی زیادتی بغیر کسی مقصد یا فائدہ کے ہو تو اسے حشو وزوائد سے تعبیر کرتے ہیں’’ کنزالایمان‘‘ میں جگہ جگہ مفید و بامقصد زیادتی دیکھنے میں آتی ہے مگر حشو و زوائد کا کہیں کوئی پتہ نہیں چند مثالیں دیکھئے۔
* زیّن للذین کفروا الحیواۃ الدنیا (بقرہ:۲۱۲) کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی آراستہ کی گئی۔ ( کنزالایمان)
* إن المنٰفقین یخٰدعون اللہ وھو خادعھم (سورۃ نساء:۱۴۲) بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کر کے مارے گا۔ ( کنزالایمان)
* ژ قل إن کان للرحمٰن ولد فأنا أوّل العابدین (زخرف:۸۱) تم فرماؤ! بفرض محال رحمن کے کوئی بچہ ہوتا تو سب سے پہلے میں پوجتا۔ (کنزالایمان)
* إن ربی علیٰ صراط مستقیم (ھود:۵۶) بیشک میرا رب سیدھے راستے پر ملتا ہے۔ (کنزالایمان)
* وعصیٰ آدم ربہ فغویٰ (طٰہٰ:۱۲۱) اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔ (کنزالایمان)
خط کشیدہ الفاظ کو دوبارہ ملاحظہ کیجئے۔ بظاہر کہیں ایسے الفاظ نہیں ملیں گے جنہیں، آیات کا ترجمہ کہا جاسکے اعلیٰ حضرت نے اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے مگر یہ اپنے اندر ڈھیر سارے محاسن لئے ہوئے ہیں ان سے جہاں اسلوب میں نکھار اور حسن میں اضافہ ہوتا ہے وہیں عام اردو قارئین کے ذہن میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے بادل بھی چھنٹ جاتے ہیں اور عظمت توحید اور ناموس رسالت کا تحفظ بھی ہوتا ہے۔
پہلی آیت کے ترجمہ میں اک معمولی سا شبہہ پیدا ہورہا تھا وہ یہ کہ کیا دنیا کی ساری رنگینیاںکافروں کے لئے ہی ہیں؟کیا یہ ساری نعمتیں رب تعالیٰ نے کفار ہی کے لئے پیدا کی ہیں؟ فاضل بریلوی نے’’نگاہ میں‘‘ کا اضافہ کر کے اس شبہے کو دور کردیا اور یہ واضح کردیا کہ دنیاوی نعمتیں تو سب کے لئے ہیں مگر ان کی قدرو قیمت صرف کافروں کی نگاہ میں ہوتی ہے مومن آخرت پر نظر رکھنے کی وجہ سے ان سے بے نیاز ہوتا ہے۔
دوسری آیت میں اپنے گمان میں‘‘ کا اضافہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ منافقین اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ البتہ اپنے گمان میں یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں ’’خادعھم‘‘  کا ترجمہ بھی قابل دید ہے پہلے تو ’’خادع‘‘ کا ترجمہ عظمت توحید کو سامنے رکھ کر ’’مارے گا‘‘ کیا پھر ’’غافل کرکے‘‘ کا اضافہ کفار و منافقین کی واقعی کیفیت کا بیان ہے یہ آیت کا ترجمہ بھی ہے اور تفسیر بھی کیونکہ مفسرین  فرماتے ہیں کہ یہاں پر ’’ خدع‘‘ کا مطلب منافقین کے ’’خدع‘‘ کی سزا ہے۔
تیسری آیت میں ’’ بفرض محال‘‘ کا اضافہ کر کے خالق کائنات کی شان ’’لم یلد ولم یولد‘‘ کو اجاگر کردیا گیا ہے۔
 چوتھی آیت میں’’ ملتا ہے‘‘ کا اضافہ آیت کی مقصدیت پر روشنی ڈالتا ہے دوسرے مترجمین جو آیت قرآنیہ کی مقصدیت سے غافل اور لغت پلٹ کر ہر لفظ کے نیچے اس کا معنیٰ لکھنے کے عادی ہیں انہیں اس مقام پر ٹھوکر کھانی پڑی ہے مثلاً مولانا محمو دالحسن اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’بیشک میرا رب ہے سیدھی راہ پر‘‘ مولانا ابولاعلیٰ مودودی جو ادیبوں کی صف میں آتے ہیں وہ مذکورہ آیت کا اس طرح ترجمہ کرتے ہیں ’’ یقینا میرا رب سیدھی راہ پر ہے مولانا محمود الحسن صاحب کی اردو غیر مرتب ہے جو ان کے ترجمہ کی خاصیت ہے البتہ مودودی صاحب کا ترجمہ مرتب اور سلیس ہے مگر ادبی ترجمہ کسی کو بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ دونوں ترجمے آیت کی مقصدیت سے خالی ہیں اور دونوں ہی خالق ارض وسماء کو راہ راست پر ثابت کرنے کے درپے ہیں جب کہ آیت کا مقصد یہ بتا نا ہے کہ جو سیدھی راہ اختیار کرے گا وہی رب تعالیٰ تک پہنچے گا اس تقریر کے بعد’’ترجمہ رضوی‘‘ کو ایک بار پھر پڑھئے…
پانچویں آیت کے ترجمے کو دیکھئے عام طور سے مترجمین نے’’عصیٰ‘‘ کا ترجمہ’’ نافرمانی‘‘ کیا ہے جو اللہ کے نبی حضرت آدم علیہ السلام کی شایان شان نہیں فاضل بریلوی نے اس نکتے کا خیال کرتے ہوئے’’ عصیٰ‘‘ کا ترجمہ’’ لغزش‘‘ کیا۔ آیت کا آخری لفظ’’غویٰ‘‘ کا ترجمہ کرتے وقت مترجمین نے حضرت آدم علیہ السلام کو گمراہ وبے راہ کہہ ڈالا اعلیٰ حضرت نے تحت اللفظ ترجمہ لکھنے کے بجائے آیت کی مقصدیت کو سامنے رکھا ظاہر ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش یہی تھی کہ گندم کھاکر انہیں ہمیشہ جنت میں رہنے کا خیال ہوچلا تھا مگر انہیں یہ مقصد حاصل نہ ہوسکا ایسا نہیں کہ وہ گمراہ و بددین ہوگئے صدبار معاذ اللہ اعلیٰ حضرت نے اس جگہ’’ جو مطلب چاہا تھا‘‘ کا اضافہ کرنے کے بعد’’ اس کی راہ نہ پائی ترجمہ کیا جس سے مذکورہ بالا مفہوم بغیر کسی تفسیر و تشریح کے واضح ہوجاتا ہے۔
روز مرہ کا استعمال:- 
فاضل بریلوی کا ترجمہ نہایت عام فہم ہے اس میں روز مرہ استعمال ہونے والے الفاظ بھی خاصی تعداد میںپائے جاتے ہیں جس کے باعث ترجمہ میں اجنبیت محسوس نہیں ہوتی، یہ ترجمہ عام بول چال سے بڑا میل کھاتا ہے۔
 سورۂ مائدہ کی آیت نمبر ۵۷؍ کا ترجمہ ملا حظہ فرمائیے۔
’’اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دئے گئے اور کافر ان میںکسی کو اپنا دوست نہ بناؤ( کنزالایمان) یو ں تو پورا ترجمہ عام بول چال کی اردو معلوم ہوتی ہے مگر خط کشیدہ الفاظ اپنا جواب نہیں رکھتے جملے بھی مرتب ہیں پہلے فاعل پھر مفعول پھر فعل ترجمہ کے حسن کو سمجھنے کے لئے بقول مولانا ابوالحسن ندوی اردو میں سب سے بہترین ترجمہ بھی ملاحظہ کرتے چلئے: -
’’اے ایمان والو! مت بناؤ ان لوگوں کو جو ٹھہراتے ہیں تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل وہ لوگ جو کتاب دئے گئے تم سے پہلے اور کافروں کو اپنا دوست‘‘ ( محمود الحسن) اس ترجمے کا مطلب سمجھنے میں سر میں درد پیدا ہوجائے گا جملے کی صحیح ترتیب کا تو محمود الحسن صاحب کے یہاں کوئی رواج ہی نہیں۔
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۶۰؍ کافی البدیہہ ترجمہ اعلیٰ حضرت نے اس طرح کا ہے:- ’’ اور جب ہم نے تم سے فرمادیا کہ سب لوگ تمہارے رب کے قابو میں ہیں‘‘ (کنزالایمان)
محمو د الحسن صاحب کا ترجمہ بھی پڑھئے:-
’’اور جب کہہ دیا ہم نے تجھ سے کہ تیرے رب نے گھیر لیا ہے لوگوں کو‘‘ (محمود الحسن) اعلیٰ حضرت کے ترجمہ میں صحت ترتیب، حسن تعبیر، سادگی اور سلاست تو الگ خط کشیدہ الفاظ کو دیکھئے جس سے ترجمۂ رضوی بالکل روز مرّہ کی اردو معلوم ہوتی ہے اس کے بر خلاف دیو بندی صاحب کا ترجمہ تو دیکھنے کے لائق ہے’’ تیرے رب نے گھیرلیا ہے لوگوں کو‘‘ اس کو بار بار پڑھئے اور بتائیے کیا ایسی اردو کی کہیں کوئی مثال بھی ہے؟
سورۂ بنی اسرائیل کی ایک دوسری آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے فاضل بریلوی لکھتے ہیں’’ کیا تم اس سے نڈر ہوتے کہ وہ خشکی ہی کا کوئی کنارہ تمہارے ساتھ دھنسا دے ( بنی اسرائیل: ۶۸) پورا ترجمہ معنی خیز اور عام فہم ہے سیاق و سباق کے ذکر کے بغیر ہی آیت کا مقصود ومرادواضح ہے۔ مقصد یہ ہے کہ خشکی و تری سب اس کے تحت قدرت ہیں جیسا وہ سمندر میں غرق کرنے اور بچانے دونوں پر قادر ہے ایسا ہی خشکی میںبھی زمین کے اندر دھنسا دینے اور محفوظ رکھنے دونوں پر قادر ہے ترجمۂ رضوی اپنے اختصار کے باوجود اس مفہوم کی مکمل وضاحت کرتا ہے اس کے ساتھ محمود الحسن صاحب کا غیر واضح اور مبہم ترجمہ بھی پڑھ لیجئے تاکہ ترجمۂ رضوی کی خوبیاں سمجھنے میں مزید آسانی ہو’’ کیا تم بے ڈر ہوگئے اس سے کہ دھنسا دے تم کو جنگل کے کنارے‘‘ جنگل کے کنارے دھنسانے میں کون سا کمال ہے؟ کون سی بڑی قدرت ہے جو خدا کے شایان شان ہے؟ آپ خود غور فرمائیں تو حقیقت منکشف نظر آئے گی اب دونوں ترجموں میں ’’ بے ڈر‘‘ اورنڈر‘‘ میں فرق بھی محسوس کیجئے:- 
دو آیتوں کا ترجمہ مزید دیکھتے چلئے:-
 سورہ ھود آیت نمبر ۵۹:- اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر بڑے سرکش اور ہٹ دھرم کے کہنے پر چلے۔ ( کنز الایمان)
’’ اور نہ مانا اس کے رسولوں کو اور مانا حکم ان کا جو سرکش تھے مخالف‘‘ ( محمود الحسن) سورۂ رعد آیت نمبر ۴۳ اور کافر کہتے ہیں تو رسول نہیں‘‘ (کنزالایمان) اور کہتے ہیں کافر تو بھیجا ہوا نہیں آیا‘‘ ( محمود الحسن)
پہلی آیت میں خط کشیدہ عبارت کو پڑھئے’’ سرکش‘‘ کی صفت’’ ہٹ دھرم، نہایت موزوں اورروز مرہ ہے موصوف کے معنی میں تقویت بخشتا ہے پھر’’ کہنے پر چلے‘‘ محاوراتی عام فہم اور خوبصورت ترجمہ ہے اس کے مقابل میں دیو بندی صاحب کی اردو’’ مانا حکم ان کا‘‘ بھی پڑھئے’’سرکش‘‘ کی غیر موزوں صفت’’ مخالفت‘‘ پھر موصوف صفت کے درمیان تھے کی تفریق بھی دیدنی ہے۔ دوسری آیت میں مرسل کا ترجمہ فاضل بریلوی نے’’ رسول‘‘ کیا ہے کیونکہ اردو میں یہی مستعمل ہے دیوبندی صاحب نے ہر لفظ کے لغوی ترجمے کے شوق میں’’ مرسل‘‘ کا ترجمہ بھیجا ہوا کیا ہے جس سے اسلوب بے مزہ ہوجاتا ہے۔
بامحاورہ ترجمہ:- 
محاورہ جوادب کا خاص جز ہے ’’کنزالایمان‘‘ میں جابجا دیکھنے کو ملتا ہے مگر محاورہ کا استعمال اس طرح نہیں کہ پڑھنے کے بعد قدیم اردو کی یاد آنے لگے بلکہ محاورہ کو روز مرہ میں شامل کر کے ترجمہ کو نہایت پرکشش اور جاذب نظر بنادیا گیا ہے ’’کنز الایمان‘‘ کا محاورہ لفظی ترجمہ سے الگ معلوم نہیں ہوتا ہے ملک شیر محمد خاں اعوان لکھتے ہیں
’’ مقام حیرت و استعجاب ہے کہ یہ ترجمہ لفظی ہے اور با محاورہ بھی اس طرح گویا لفظ اور محاورہ کا حسین ترین امتزاج آپ کے ترجمہ کی بہت بڑی خوبی ہے‘‘ (محاسن کنز الایمان صفحہ ۲۷) بلا تبصرہ چند محاوراتی ترجمے ملاحظہ کیجئے:-
* أولٰئک ما یَأ کلون فی بطونھم إلا النار۔(بقرہ:۱۷۴) وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں ( کنزالایمان)
* ثم جعلنا لہ جہنم یصلٰھا مذموما مدحورا۔ ( بنی اسرائیل:۱۸) پھر اس کے لئے جہنم کردیں کہ اس میں جانے مذمت کیا ہوا دھکے کھاتا (کنزالایمان)
* فلعلک باخع نفسک علیٰ آثارھم إن لم یؤمنوا بھٰذا الحدیث أسفا ( کہف:۶) تو کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاؤ گے ان کے پیچھے اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں غم سے ۔( کنز الایمان)
خوبصورت اور دلکش تعبیرات:- 
معانی و مفاہیم کی خوبصورت تعبیر’’ کنزالایمان‘‘ کی ایک امتیازی خصوصیت ہے اعلیٰ حضرت نے فطری طور پر ایسا خوبصورت ترجمہ املا کرادیا ہے جسے پڑھ کر قاری عش عش کر اٹھتا ہے مگر کمال یہ ہے کہ دلکش تعبیر کی فکر میں کبھی بھی ترجمانی کرتے ہوئے قرآن کی مقصدیت سے دور نہیں جاتے قرآن حکیم کے اعجازی اسلوب اور انمول تعبیرات کو اردو کے ایسے رنگ میں رنگ دیا ہے جس کی مثال اردو کے دوسرے تراجم میں نظر نہیں آتی چونکہ اختصار ملحوظ ہے اس لئے یہاں بھی خوبصورت اور دلکش تعبیرات کے چند نمونے بغیر تقابل اور تبصرے کے پیش کئے جاتے ہیں ارباب ذوق اس کے محاسن اور خوبیوں کا خود احساس کرسکتے ہیں۔
* بقرہ ۹۳-’’ وأشربوا فی قلوبھم العجل‘‘ان کے دلوں میں  بچھڑا رچ رہا تھا۔
* بقرہ:۱۱۱   تلک أمانیھم یہ ان کی خیال بندیاں ہیں۔
*  بقرہ۱۳۹  ولنا أعمالنا ولکم أعمالکم۔ ہماری کرنی ہمارے ساتھ اور تمہاری کرنی تمہارے ساتھ ۔
سلاست و روانی:-
 ’’ کنز الایمان‘‘ کے اندر سلاست و روانی کا بھی خاصہ اہتمام پایا جاتا ہے اس عہد کے ترجموں میں ایسی سلاست کم ملتی ہے بعض ترجموں میں تو سلاست کا مکمل فقدان نظر آتا ہے۔ اس کے بر عکس’’ کنز الایمان‘‘ کا حال یہ ہے کہ یہ ایسا سلیس اور رواں ترجمہ ہے جو بالکل آج کے مذاق کے مطابق معلوم ہوتا ہے نیچے ’’کنزالایمان‘‘ سے مختلف مقامات کے ترجمے لکھے جاتے ہیں مزید تبصرہ اور توضیح کی بجائے صرف مولانا محمود الحسن دیو بند ی کے ترجمے لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے قارئین خود فیصلہ کرلیں۔
* مائدہ:۴۴- میری آیتوں کے بدلے ذلیل قیمت نہ لو (کنزالایمان) مت خریدو میری آیتوں پر مول تھوڑا۔ ( محمو دالحسن)
* تکویر:۵- اور جب وحشی جانور جمع کئے جائیں۔ (کنزالایمان)
اور جب جب جنگل کے جانوروں میں روں پڑجائے۔ ( محمو دالحسن)
*  کہف- ۱۰۳- تم فرماؤ! کیا ہم نہیں بتا دیں کہ سب سے بڑھ کر ناقص عمل کس کے ہیں (کنز الایمان) تو کہہ! ہم بتائیں تم کو کس کا کیا ہوگیا بہت اکارت۔ ( محمود الحسن)
زبان کی شائستگی:- 
’’کنزالایمان‘‘ کی زبان نہایت پاکیزہ اور شائستہ ہے۔ اس میں ارباب علم و ادب کے مذاق کا بھر پور خیال رکھا گیا ہے۔ اس لئے قاری کو کہیں بد مزگی کا احساس نہیں ہوتا سورہ ’’تحریم‘‘کی ایک آیت کا ترجمہ پڑھئے۔
۱۔ ومریم  بنت عمران التی أحسنت فرجھا (تحریم:۱۲)
اس آیت کا ترجمہ مولانا محمود الحسن دیو بندی اس طرح کرتے ہیں۔’’ اور مریم بیٹی عمران کی جس نے روکے رکھا اپنی شہوت کی جگہ کو‘‘ سب سے پہلے تو اس جملے کی الٹی پلٹی ترتیب سے ہی قاری جھنجھلا اٹھتا ہے۔ مگر اس وقت ’’احسنت فرجھا‘‘ کا ترجمہ توجہ کا طالب ہے’’ اس نے روکے رکھا اپنی شہوت کی جگہ کو‘‘ کس قدر بھونڈی اور سوقیانہ تعبیر ہے اب فاضل بریلوی کا عمدہ لب و لہجہ اور شائستہ زبان والا ترجمہ پڑھئے یقینا ’’ادبی روح‘‘ تڑپ اٹھے گی’’ اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی‘‘ (کنزالایمان)
الفاظ کا حسن انتخاب:-
 جس مفہوم یا معنی کے لئے متعدد الفاظ ہوں ان میں کسی ایک لفظ کا انتخاب جو سیاق و سباق اور موقع و محل کے اعتبار سے موزوں ترین اور سب سے زیادہ مناسب غایت درجہ دشوار ہے۔ فاضل بریلوی کا ترجمہ اس خوبی اور حسن میں بھی ممتاز اور نمایاں نظر آتا ہے۔ صرف دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
۱:- فازلھما الشیطن عنہا۔ (بقرہ:۳۴)
’’آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا ( مودودی)’’ پھر ہلا دیا ان کو شیطان نے اس جگہ سے‘‘ ( محمو دالحسن)’’ پھر لغزش دیدی آدم و حوا کو شیطان نے اس درخت کی وجہ سے‘‘  (تھانوی)’’ تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی۔ ( کنزالایمان)
جناب مودودی کا ترجمہ بے جا اطناب کے ساتھ غیر مناسب ہے اس میں کچھ سوئے ادب کا پہلو بھی ہے۔ محمود الحسن نے ’’فازلھما‘‘ کا ترجمہ ’’ہلا دیا‘‘ کیا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں ہلانے کے یہ معانی درج ہیں۔ حرکت دینا، جنبش دینا، چلانا، ڈلانا، جھنجھوڑنا، مانوس کرنا، پرچانا، ڈھب پر لانا، سدھانا، یار بنانا، خوگر کرنا، اور ان میں سے کوئی بھی ’’ازلھا‘‘ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے اور نہ ہی اس جگہ جو مفہوم ادا کرنا ہے۔ اس کو واضح کرپاتا ہے۔ مولانا تھانوی صاحب نے اس کا ترجمہ’’لغزش دے دی‘‘ کیا ہے جوان دونوں ترجموں سے بہتر ہے۔ امام احمد رضا کا ترجمہ بھی یہی ہے مگر اختصار اور جملے کی حسن ترتیب نے ترجمہ رضوی کو مزید نکھار دیا ہے۔
۲- ولکل أمۃ رسول (یونس ۴۷) ’’اور ہر فرقے کا ایک رسول ہے‘‘ ( محمود الحسن)’’اور ہر ہر امت کے لئے ایک حکم پہنچانے والا ہوا‘‘ (تھانوی)’’ اور ہر امت میں ایک رسول ہوا‘‘ (کنزالایمان)
’’امت ‘‘کا ترجمہ فاضل بریلوی اور مولانا تھانوی نے’’ امت‘‘ ہی کیا ہے جو یہاں موزوں ہے۔ مولانا محمود الحسن نے اس کا ترجمہ’’ فرقے‘‘ کیا ہے جو صحیح ہونے کے ساتھ غیر موزوں ہے۔ صحیح اس لئے کہ وہ امت کا لغوی معنی ہے اور غیر موزوں اس لئے کہ اردو بول چال میں’’ فرقہ‘‘ اپنا خاص مفہوم رکھتا ہے’’ فرقے‘‘ میں رسول نہیں ہوا کرتا ورنہ لازم آئے گا کہ دیو بندی او قادیانی فرقوں میں بھی رسول ہوں۔ لفظ رسول کا ترجمہ فاضل بریلوی اور محمود الحسن نے رسول ہی کیا ہے۔ کیونکہ اردو زبان و ادب میں یہی مستعمل ہے۔ مولانا تھانوی نے اس کا ترجمہ’’ حکم پہنچانے والا‘‘ کیا ہے جو اردو میں’’ رسول‘‘ کے لئے بولا اور لکھا نہیں جاتا ہے۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔