Tuesday 23 January 2018

توہمات کی دنیا

0 comments
توہمات کی دنیا
از قلم: ذیشان احمد مصباحی
------------------------------------------------------------------------
آج۲۸؍۸؍۲۰۰۵ء کو ٹائمس آف انڈیا کے پہلے صفحے پر فکر و خیال میں گدگداہٹ پیدا کردینے والی ایک عجیب و غریب خبر شائع ہوئی ہے، نامہ نگار نے لکھا ہے کہ یہ دنیا کا منفرد اور پہلا واقعہ ہے، خبر کا عنوان ہے:
’’پشکرکا برہما مندر ساوتری مندر کے خلاف عدالت میں‘‘۔
 نزاع اس بات کا ہے کہ پشکر کے برہما مندر کو ساوتری مندر کا شوہر ہونے کا شرف حاصل ہے اور ساوتری مندر اس کی بیوی ہے، پشکر میں سالانہ پنج روزہ میلا لگتا ہے جس میں ساوتری مندر پر ڈھیر سارے چڑھاوے چڑھتے ہیں، اس طرح برہما کی بیوی ساوتری سالانہ لاکھوں کی مالیات حاصل کرتی ہے اور اس میں سے برہما مندر کو ایک کوڑی نہیںملتی، برہما مندر کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوئی اور اس نے شوہر ہونے کا اعزاز جتاتے ہوئے، عدالت میں یہ عرضی داخل کردی کہ ساوتری اس کی بیوی ہے اس لیے اسے ان پانچ دنوں میں بیوی کی زیارت کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ بیوی کے تحائف میں اسے بھی شرکت کا موقع مل سکے اور وہ بھی بیوی کی مالیات سے استفادہ کرسکے، ادھر محترمہ ساوتری اپنے شوہر کو اپنی جائیداد میں کسی طرح کا حصہ دار بنانے سے مسلسل انکار کررہی ہیں، مزید برآں وہ خود اپنے شوہر سے نان و نفقہ کی طالب ہیں، تاریخ میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا مقدمہ فی الوقت اجمیر کے سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیا گیا ہے جہاں اگلے ماہ ستمبر کی ۱۷؍ تاریخ کو اس کی سماعت ہوگی۔
میرا خیال ہے کہ دو مندروں کے درمیان ازدواجی رشتہ اور حقوق ازدواج کی اس بلند معاشرتی گفتگو کا تعلق ہندو مذہب کی معتبر کتابوں سے محض صفر کی حد تک ہے، لیکن اس کی اساسی توہم پرستی آج مندروں کے مہنتھوں اور پنڈتوں کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس گناہ با لذت کے خلاف اپنی زبان کھولیں اور اس قابل نفریں عجوبۂ روزگار کو ختم کریں جس نے ہندو مت کو ہر باشعور شہری کی نظر میں ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، وہ توہم پرستی کے اس ارتقائی عمل کے خلاف اس لیے بھی بولنے سے رہے کہ وہ مندروں پر چڑھائی جانے والی لاکھوں کی بھینٹ کو صداقت کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے، انہیں اس سے کوئی دل چسپی نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر جو رقص ابلیس کی بزم مستی سجارہے ہیں ا س کا خود مذہب سے کتنا تعلق ہے؟ یاہے بھی نہیں؟ ان کا موجودہ فلسفہ ترقی پسندوں کے جدید فلسفے سے بالکل قریب ہے، اس لیے وہ کسی عمل کی نوعیت اور اس کے حسن و قبح سے بحث نہیں کرتے ،انہیں فقط مفاد سے سروکار ہوتا ہے، اس لیے انہیں ہر وہ عمل عزیز ہے جسے مادیت یا جنسیت میں افادی حیثیت حاصل ہو۔
ٹائمس آف انڈیا کی درج بالا خبر پڑھتے ہوئے مجھے یہ فوراً احساس ہوا کہ اولیا ء اللہ کی عظمت اور تحفظ عظمت کے نام پر آج ملک کے طول و عرض میں جو ہزاروں کی تعداد میں مزارات آباد ہیں اور جن کے طفیل لاکھوں انسان اپنے پیٹ کی آگ سرد کررہے ہیں، ان مزارات پر ہونے والے بیشتر رسوم بھی پشکر کے مندر برہما اور ساوتری کے رشتہ ازدواج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں، قرآن و سنت میں ان عجوبہ کاریوں کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے اور نہ مسلمانوں کا کوئی مکتب فکر ان کا حامی ہے، علمی سطح پر ان کا کوئی وجود نہیں ہے، کچھ نا ہنجار قسم کے لوگ ان ساری بد اعمالیوں کو چودھویں صدی کے بلند قامت عالم دین مجدد اسلام امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، پچھلے دنوں تحقیق و مطالعہ سے الگ رہ کر علم و فن کے گوہر لٹانے والے صاحبان و فضل و کمال کی کچھ ایسی تحریریں بھی نظر نواز ہوئیں جن میں فاضل بریلوی کو مجدد بدعات کہہ کر یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ان تمام مزاری خرافات کے ذمہ دار مولانا احمد رضا خاں بریلوی کے افکار اور ان کی تحریریں ہیں۔ لیکن جہاں تک حقیقت واقعہ کا سوال ہے تو سچائی یہی ہے کہ بیشتر مزاری خرافات کا رشتہ عالم اسلام میں موجود کسی علمی مسلک سے نہیں ہے، ہاں! اسے ’’مسلک جہالت‘‘ سے تعبیر کر کے مسلم فرقوں میں ایک نئے فرقے کا اضافہ کیا جاسکتا ہے جس کا نہ کوئی منشور ہے نہ دستور، نہ کوئی شرعی نقطہ نظر ہے نہ علمی پیمانہ، بس جہالت کا غلبہ ہے اور تحصیل مفاد کا اصول، اور جہاں تک مزاری خرافات سے متعلق فاضل بریلوی کے موقف و مسلک کا سوال ہے تو اس تعلق سے ہر مشتبہ ذہن کو جماعت اہل حدیث کے ترجمان ’’ اللہ کی پکار‘‘ کے مدیر پروفیسر خالد حامدی کی یہ حقیقت پسندانہ تحریر دعوت انصاف دیتی ہے، پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:
’’پتا نہیں بدعات و خرافات کو مراسلہ نگار نے بریلویت سے کیوں منسوب کیا ہے؟ جب کہ بدعات و خرافات توہندوستان کیا بر صغیر کے ہر علاقے میں کم و بیش پھیلی ہوئی ہیں، اگر بدعات وخرافات کو بریلویت سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ اس کے کرنے والے زیادہ تر احمد رضا خان بریلوی کے نام لیوا ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ جہلا کا ہر عمل ان کے محبوب شخصیتوں کی طرف کرنا مناسب نہیں ہے، اگر احمد رضا خاں کی اصل تعلیمات و فتاوے پر ان کے چاہنے والے عمل کریں تو ۸۰ فیصد بدعات و خرافات ختم ہوسکتی ہیں۔‘‘ ( اللہ کی پکار، اگست۲۰۰۵ء)
اور اگر کسی مدعی علم و حکمت کو اس تحریر سے اطمینان نہ ہو تو اسے براہ راست فاضل بریلوی کی تحریریں پڑھنی چاہیے، ہمیں امید نہیں یقین ہے کہ مطالعہ کے بعد حضرت فاضل بریلوی کے تعلق سے اس کے نظریات یکسر بدل جائیں گے۔
اب ذکر کچھ مزاری عجائب کا:-
۲۳؍ اگست کی شام میں اپنے دوست عارف اقبال کے ساتھ سلطان دہلی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ ناز میں حاضر ہوا، چادر فروشوں اور گل فروشوں کی ہنگامہ آرائیوں اور صنف نازک کے ازدہام سے گزرتے ہوئے حضرت خواجہ کی بارگاہ میں پہنچا اور فاتحہ خوانی میں مصروف ہوگیا، میرے سامنے اسلام کے نام پر اسلامی قوانین کے خلاف کتنی کارروائیاں ہورہی تھیں، تنگی صفحات کے علاوہ اس وجہ سے بھی میں ان کا ذکر نہیں کررہاکہ مجھے توقع ہے کہ میرے جملہ قارئین ان سے نہ صرف واقف ہوں گے بلکہ سب کا بنظر خودنظارہ بھی کرچکے ہوں گے۔ ہاں! ایک منظر جسے میں نے پہلی بار دیکھا اور شاید اکثر قارئین اس کی زیارت سے محروم ہوں، یہاں اختصار سے میں اسے پیش کیے دیتا ہوں۔
حضرت خواجہ کے مزار پر انوار کے شمالی مغربی گوشے میں چند اشخاص کھڑے تھے، ایک آدمی مسلسل ویڈیو گرافی میں مصروف تھا، دوسرا ڈیجیٹل کیمرہ سنبھالے ہوئے تھا، یہ لوگ غالباً کیرالا کے رہے ہوں گے، ایک کلین شیو نوجوان جو یقینا سجادگان کے خانوادے سے تھا، مزار پاک کی چادر باری باری ایک ایک شخص کے سر پر باندھتا، پھر سرخ دھاگے کا مالا ان کے گلے میں ڈال دیتا، وہ ادب سے اس کا ہاتھ چومتے اور پیچھے ہوجاتے۔
اس وقت میری نظر اس سرخ دھاگے پر تھی جس کے تقدس کی خوشبو اجمیر سے پھیلتی ہوئی دہلی تک ہی نہیں، اب ہر جگہ ہر چھوٹے بڑے مزار تک پہنچ چکی ہے، ہندؤں کے اس رسمی دھاگے کو مزاری جہلا جو عزت بخش رہے ہیں اس سے نہ صرف مسلمانوں کے ہاتھ ہندؤں کے رنگ میں رنگتے جارہے ہیں بلکہ توہم پرستی کا وہ سیلاب امنڈ پڑا ہے کہ اب وہ دھاگہ مزارات کی دیواروں اور وہاں کے درختوں کی شاخوں کی زینت بننے کے بعد بعض مسلمانوں کے ملاقاتی کمروں کی آرائش میں بھی بے پناہ اضافہ کرنا شروع کردیا ہے، تاویلات کے راستے کشادہ ہیں، سخن سازی کے گربڑے پر فریب اور دل ربا ہیں، لیکن حقیقت شناسی اور اعتراف حق کی قیمت ادا کرنا سب کے بس میں کہاں؟ تشبہ، توہم اور اسلام کے مابین خط فاصل کھینچنا، خصوصاً ایسے وقت میں کہ وہ لکیرذاتی مفادات کے ہزاروں نشانات مٹا رہی ہو بڑے دل گردے کی بات ہے، لیکن سچے اسلام کی علم برداری کا دعویٰ اگر ہمارے دل کی گہرائیوں سے نکلتا ہے تو ہمیں مفادات سے بے پروا اسلام کی صحیح تصویر کشی کرنی ہی ہوگی۔
 عورتوں کا ازدہام:-
فاضل بریلوی سے مزارات پر عورتوں کی حاضری کے تعلق سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواباً ارشاد فرمایا : ’’ عورتوں کو زیارت قبور منع ہے، حدیث میں ہے: ’’لعن اللہ زائرات القبور ‘‘ لعنت ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کو جائیں۔
 (فتاویٰ رضویہ:۹؍۵۳۷، جدید ایڈیشن)
عورتوں کو مزارات پر حاضری کی جہاں کہیں بحث چلتی ہے سنی علماء اعلیٰ حضرت کی اس جیسی عبارتیں پڑھ کر سنادیتے ہیں اور دیوبندی جماعت کے افراد تو نہایت فراخ دلی سے فرماتے ہیں کہ یہ سب بدعت ہے، شرک ہے، ان ساری بدعتوں کے ذمہ دار بریلوی ہیں، ہندوستان میں موجود دیگر جماعتیں بھی دامن جھاڑ لیتی ہیں، لیکن باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح اجمیر، کلیر اور کچھوچھہ میں عورتوں کا ہجوم ہوتا ہے، دہلی، گنگوہ اور دیوبند کی خانقاہوں میں بھی خواتین اسی کرو فر سے چلی آتی ہیں اور اگر بریلی اور گنگوہ کے مزارات پر آنے والی خواتین کا شمار کیا جائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ گنگوہ کئی قدم آگے نظر آئے گا، اس منظر پر نظر ڈالنے کے بعد صرف بریلی کے محبان غوث و خواجہ ہی مجرم نظر نہیں آتے بلکہ دیوبند کے طلسم خانہ ساز کی توحید بھی اپنی محدود حدود سے متجاوز نظر آتی ہے۔ یہاں دیوبندی بارود سے صرف بریلی کے گنبد و مینار ہی شکستہ نہیں ہیں بلکہ دیوبند کے منبر ومحراب بھی اس کی آتش شرک فشاں میں جلتے نظر آرہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جرم ہر فرد کا ہے، دیوبندی جماعت چوں کہ اپنی خوش نماپالیسی اور ہر دل عزیزی کے باعث مزارات کے خلاف عملی اقدام کرنے سے معذور ہے، اس کے ساتھ اس کی دوسری مجبوری یہ بھی ہے کہ وہ بتوں سے بغل گیر رہ کر اپنے اندر بت شکنی کی ہمت نہیں پاتی، ادھر سنی علماء اور سنی افراد صرف کتاب دکھانے اور حوالے دینے کے عادی ہوگئے ہیں، جہاں علمی بحث چھڑی دوڑے فتاوی رضویہ اٹھالائے مگر اپنی عملی زندگی اور مراسم طریقت جدیدہ کی ادائیگی میں فتاویٰ رضویہ  کیادیکھتے، یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتے کہ ’’ مسلک اعلیٰ حضرت‘‘ کے پر زور نعرے کے جلو میں افکار رضا کے مخالف جن رسوم کی وہ حوصلہ افزائی کررہے ہیں اس سے اعلیٰ حضرت کی روح کو کتنی اذیت پہنچتی ہوگی،مدارس کے فاضل صرف ایک مفت ٹکٹ کے حصول کی فکر میں عورتوں اور مردوں کے قافلۂ اجمیر کی قیادت کے لیے دن کا کام اور رات کا آرام تج دیتے ہیں، جاہلوں کی رضا جوئی کے لیے ان کی ہر جاہلانہ فرمائش پر لبیک کہتے ، بلا ضرورت قیمتی چادریں خریدواتے اور چڑھواتے ہیں، بو سہ کے نام پر جاہلوں کے سجدۂ تعظیم کے خلاف اف تک نہیں کرتے بلکہ الٹے ہی اس کی فضیلتیں سنا سنا کر ان کی ڈھارس بندھاتے ہیں، مزارات پر ان کے تقریری پروگرام بھی ہوتے ہیں جن میں ان کی تقریر کا رخ اولیاء کرام کی فضیلتوں کے اثبات کی طرف ہوتا ہے، مگر ولایت کے نام پر اس دور کی ڈھکوسلے بازیوں کے خلاف زبان تک نہیں کھولتے، وہ اولیاء کرام کے اخلاق کریمانہ کے تقدس کی قسمیں تو کھاتے ہیں مگر ان کی آنکھوں کے سامنے بد اخلاقیوں اور بد تمیزیوں کا جو طوفان برپا ہوتا ہے اس سے ٹکرانے کی سوچ سے بھی گھبراتے ہیں۔ مختصر لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے نزدیک خلوص قلب سے زیادہ قبول عوام کی اہمیت ہوتی ہے۔
چند غیر ضروری لوازمات:-
 لزوم عرس:- عرس کے تعلق سے مباحث کے مطالعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ جائز امر ہے، اگر کسی بزرگ کی تاریخ وفات کے موقع پر اس کے ایصال ثواب کی محفلیں سجائی جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بہت سے امور جو جواز کی حد میں ہوتے ہوئے وجوب کا لبادہ اوڑھ چکے ہیں ان میں یہ امر مہتم بالشان بھی بلند مقام حاصل کرچکا ہے، جہاں کسی عالم کی وفات ہوئی تو چہ جائے کہ اس کی مفقودیت کے بعد اس کے متبادل کو ڈھونڈنے یا تیار کرنے کی فکر کی جاتی، دیگر کام چھوڑ کر اس کے عرس و چہلم کی محفلیں سجانے میں مصروف ہوجاتے ہیں، گویا ہم نے یہ فرض کرلیا ہے کہ کسی عالم یا صوفی کی وفات کے بعد امت کی سب سے بڑی ذمہ داری اس کے عرس کی محفل سجانا ہے۔
 اور اب تو اعراس کی ایسی کثرت ہوتی جارہی ہے کہ زائرین کے سامنے وقت، رقم اور تعین جیسے بڑے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں۔
لزوم چادر:- بزرگوں کی قبروں پر چادر ڈالنا جماعت اہل سنت کے نزدیک ایک جائز امر ہے، اس جواز کے تعلق سے یہی کہا جاتا ہے کہ چوں کہ قبرستان میں جہاں پچاسوں قبریں ہوں وہاں ایک پر اگر چادر ڈال دی جائے تو اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی بزرگ کی قبر ہے اور عوام اس کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، یعنی چادر اس لیے ڈالی جاتی ہے کہ زائرین کی نظر میں صاحب قبر کی عظمت ومرتب ظاہر ہوسکے، یہ کام ایک دوچادر سے پورا ہوجاتا ہے اسی لیے علماء نے ہزاروں ہزار چادریں چڑھانے کو فضول، تبذیر اور ناجائز لکھا ہے، لیکن اب ہر عرس کے پوسٹر میں پروگرام کے ذیل میں ’’ چادر پوشی و گل پوشی‘‘ کے عنوان کو سمجھنا مجھ جیسے کم علم افراد کے لیے مشکل ہوگیا ہے، آخر جب چادر کے جواز کی دلیل صاحب مزار کی بلند عظمتی کا اظہار ہے جو ایک دوسے پورا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد کا عمل فضول و تبذیر کے دائرے میں چلا جاتا ہے تو یہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے عوام کو چادر پوشی کی دعوت دینا اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں چادریں چڑھا کر ان کے غیر ضروری وزن سے صاحب مزار کے مقام و مرتبہ کو ناپنے کی کوشش کرنا جواز کے کس خانے میں، کیسے اور کیوں آتا ہے؟ احباب مجھ سے پوچھتے ہیں اور میں گنگ ہوجاتا ہوں، اگر یہ میری لا علمی کے سبب ہے تو کوئی بتلائے کہ میں بتلاؤں کیا؟
لزوم بوسہ در جاناں:- آج کل مزارات پر ایک غیر ضروری عمل صاحب مزار کے پائنتی حصے کا بوسہ لینا بھی لازمی ہوگیا ہے، وہاں بیٹھے مجاور حضرات زائرین کے سر کو مزار کی چادر کے اندر ڈال کر پیشانی مزار سے لگواتے ہیں اور زور زور سے ’’بابا! اس کی تمام مرادیں پوری کردے‘‘ جیسے خوش کن جملے نہایت فکاہیہ انداز میں کہنے کے بعد فوراً یہ فرمائش کرتے ہیں کہ’’ لا پچاس روپے، بابا تیری تمام مرادیں پوری کردیں گے‘‘ مرغا جس قدر فربہ ہوتا ہے فرمائش بھی اسی کے حساب سے بڑھ جاتی ہے، ذرا سوچئے کہ ہم جیب سے پیسے نکالتے وقت یہ سوچتے تک نہیں کہ بابا کو اگر ہماری مرادیں پوری کرنی منظور بھی ہو تو انہیں ہمارے اس جبری نذرانے کی کیا ضرورت ہے؟
بہر حال یہاں ہماری اصل گفتگو چادر، چوکھٹ یا مزار کے پائنتی حصے کو چومنے سے ہے۔اظہار محبت میں چومنا کوئی غلط نہیں، اس لیے کہ چومنے کی حرمت یا عدم جواز پر قرآن و سنت میں میرے علم کی حدتک کوئی دلیل نہیں ہے اور ہم اپنی طبیعت سے جسے چاہیں ناجائز یا حرام نہیں کہہ سکتے ، لیکن اس کے ساتھ جواز یا عدم جواز کے تعلق سے اسلامی مزاج کے افہام میں ترمذی کی حدیث ہماری بہترین رہنمائی کرتی ہے، سرکار رسالت علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے پہلے لوگوں کو زیارت قبور سے منع کردیا تھا مگر بعد میں یہ کہہ کر اجازت دیدی کہ ’’ قبروں کی زیارت کرو کہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
اس واقعہ کو حکم سابق کے ناسخ ہونے کے طور پر دیکھنا حدیث کے صرف ایک رخ کو دیکھنا ہے، حدیث کا ایک دوسرا زیادہ روشن اور حکیمانہ پہلو وہ ہے جس میں خاموش لفظوں میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ جائز و مستحب امر اگر ناجائز و حرام کا باعث بن جائے تو وہ خود حرام ہوجاتا ہے، ظاہر ہے کہ ایک ہی امر واقعہ ( زیارت قبور) سے متعلق یہ دو مختلف احکام خود بخود نہیں بدل گئے بلکہ ان کے ساتھ امر زائد کے لاحقے اور حالات و وقت کے تقاضے کے اختلاف نے ایک ہی حکم کو بدل کر رکھ دیا، اس پہلو سے مزارات کے چومنے کے مسئلے پر ہم غور کرتے ہیں تو تصور میں ہمارے قدم لڑکھڑاتے ہوئے مزار سے لوٹنے لگتے ہیں اور ہمارے لب خوف سے لرزاں چادر سے دور ہونے لگتے ہیں، ہمارے سروں پر وحشت اور خوف کا ایک سایہ چھاجاتا ہے اور ہماری روح اظہار محبت کے اضطرابانہ شوق کے باوجود اس خیال سے لرز اٹھتی ہے کہ یہ بوسہ محبت کہیں دوسرے کے لیے سجدۂ تعظیمی جیسے عمل حرام کا موجب نہ بن جائے، محدث بریلوی نے اسی لیے فرمایا:’’ پھر بھی عالم مقتدا اور اسی طرح پیر اور اس شخص کو جس کے کچھ اتباع ہوں، کہ اس کے افعال کا اتباع کریں، اسے مناسب ہے کہ اپنے عوام متبعین کے سامنے نہ کرے ( بوسہ نہ لے) مبادا وہ فرق نیت پر آگاہ نہ ہوں اور اس کے فعل کو سند جان کر بجالائیں، ایسی حالت میں صرف اس قدر کافی ہے کہ آستانہ کو ہاتھ لگاکر اپنی آنکھوں اورمنہ پر پھیرلے جس طرح عبد اللہ بن عمروغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم منبر انوار سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے۔‘‘ ( فتاویٰ رضویہ، جدید ایڈیشن)
 اور یہ ساری گفتگو بوسے کی صورت میں ہے، سجدۂ تعظیمی کی حرمت میں تو کسی کو کلام ہی نہیں، اس لیے بعض بدعت پسندوں کوہوش کے ناخن لے لینا چاہیے جو سجدے کی صحت کے لیے ۷؍ اجزاء بدن کے زمین سے اتصال کی شرط بتاکر ان مزاری سجدوں کے جواز کی سبیل نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ سجدہ کسی کے سامنے جبیں رکھنے کا نام ہے، اب پیرکے انگوٹھے، یا دونوں گھٹنے زمیں سے لگیں یا نہ لگیں، بہر صورت یہ عمل نگاہ شریعت میں حرام ٹھہرے گا۔
محدث بریلوی نے یہاں ایک بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کے سامنے جھکنا اگر اس کے تعظیم و احترام کے لیے ہو تو یہ حرام ہے اور اگر کسی کے سامنے جھکنے کا مقصد تعظیم نہ ہو کچھ اور ہو تو یہ عمل حرام نہیں قرار پائے گا، مثلاً کوئی اپنے شیخ، پیر، امیر یا بادشاہ کے سامنے یا کسی قبر کے سامنے اس کے احترام میں جھکتا ہے تو یہ عمل حرام ہے اور اگر کچھ اٹھانے یا بوسہ لینے کے لیے جھکتا ہے تو یہ فعل حرام نہیں، محدث بریلوی نے اسی لیے عوام کے سامنے مزار کا بوسہ لینے سے بھی منع فرمایا، کہ عوام اس فرق نیت کو نہیں سمجھ سکیں گے اور وہ قبر کے احترام میں جھک کر ایک عمل حرام کے مرتکب ہوجائیں گے۔
انصاف کے تقاضے پورے کیجیے:-
یہاں میں نے بطور مثال چند غیر شرعی یا غیر ضروری امور کا ذکر کیا ہے، ورنہ اس کے علاوہ طواف قبر، جلوس گاگر، شیخ کی شادی، اس ترقی پذیر دور میں لطیف عطریات اور خوشبوؤں کے بجائے دھوپ و اگر سے دھنواں کر کے ماحول کو مکدر کرنے اور دن کے اجالے میںقبر پر شمع دان رکھ کر کالک پھیلانے کے بے جا اور نفرت انگیز رسوم شمار سے باہر ہیں، ان سب توہمات ،خرافات اور غیر ضروری بدعات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، مگرآج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ مزاری خرافات کے خلاف اگر کوئی زبان کھولتا ہے تو جماعت میں اس کی سنیت مشکوک ہونے لگتی ہے، یہ غیر متوازن، غیر علمی اور غیر سنجیدہ طرز نظر ہے جس سے گریز از بس لازم ہے، غلط کو غلط کہنے میں کسی کو کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے، خواہ اس کا تعلق اپنے گھر سے ہویا کسی دوست یا دشمن کے گھر سے، غلط کو غلط نہ کہنے کی غلطی انصاف کا خون ہے، جس سے اجتناب کرتے ہوئے  ہمیںانصاف کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔
*****

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔